Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 14

سورة المجادلة

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ ۙ وَ یَحۡلِفُوۡنَ عَلَی الۡکَذِبِ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴﴾

Have you not considered those who make allies of a people with whom Allah has become angry? They are neither of you nor of them, and they swear to untruth while they know [they are lying].

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہو چکا ہے نہ یہ ( منافق ) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں باوجود علم کے پھر بھی جھوٹ پر قسمیں کھا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Chastising the Hypocrites Allah chastises the hypocrites for secretly aiding and supporting the disbelievers even though, in reality, they were neither with the disbelievers nor with the Muslims. Allah the Exalted said in another Ayah, مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ لاَ إِلَى هَـوُلاءِ وَلاَ إِلَى هَـوُلاءِ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلً (They are) swaying betw... een this and that, belonging neither to these nor to those; and he whom Allah sends astray, you will not find for him a way. (4:143) Allah said here, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِم ... Have you not seen those who take as friends a people upon whom is the wrath of Allah? referring to the Jews with whom the hypocrites were allies in secret. Allah said, ... مَّا هُم مِّنكُمْ وَلاَ مِنْهُمْ ... They are neither of you nor of them, meaning, that these hypocrites are neither with the believers, nor with their allies the Jews, ... وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ and they swear to a lie while they know. meaning, the hypocrites lie when they vow, knowing that they are lying, which is called the vow of Al-Ghamus. We seek refuge with Allah from their ways. When the hypocrites met the believers they said that they believed and when they went to the Messenger, they swore to him by Allah that they were believers. They knew that they were lying in their vow, and they knew that they did not declare their true creed. This is why Allah witnessed here that they lie in their vows and know that they are lying, even though their statement (about the Prophet being Allah's Prophet) is true in essence. Allah the Exalted said, أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاء مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ   Show more

دوغلے لوگوں کا کردار منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں ، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قسمیں کھا...  کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بےدھڑک قسمیں کھا لیتے ہیں ، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں ، ایمان ظاہر کرتے ہیں کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں ، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی اس لئے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کر سکیں نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہو گا ۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہو گا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا سب جمع ہو جائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کر دکھاتے تھے آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لئے بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو؟ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بے ادبی نہیں کی ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہو گا ، قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا ۔ پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے یاد اللہ ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو ۔ حضرت سائب فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں ، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مدینے میں منافقین کا بھی زور تھا اور یہودیوں کی سازشیں بھی عروج پر تھیں ابھی یہود کو جلا وطن نہیں کیا گیا تھا۔ 14۔ 2 یعنی یہ منافقین مسلمان ہیں اور نہ دین کے لحاظ س... ے یہودی ہیں۔ پھر یہ کیوں یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔ ؟ صرف اس لیے کہ ان کے اور یہود کے درمیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی عداوت قدر مشترک ہے۔ 14۔ 3 یعنی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم تمہاری طرح مسلمان ہیں یا یہودیوں سے انکے رابطے نہیں ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] منافقوں کی یہود سے ملی بھگت :۔ && ان لوگوں سے && سے مراد مدینہ کے منافق ہیں اور مغضوب علیہ قوم سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں۔ منافقوں کی اصل دوستی اور ہمدردی یہودیوں سے تھی۔ کیونکہ اندر سے منافق بھی مسلمانوں کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی۔ اسی اسلام دشمنی کی مشترک قدر نے ان دونوں ... کو دوستی کے رشتہ میں منسلک کردیا تھا۔ ان دونوں میں بدتر حالت منافقوں کی تھی جن کے زبانی دعویٰ ایمان پر مسلمانوں کا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے دعویٰ کی وجہ سے مسلمانوں سے کئی قسم کے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ لہذا مسلمانوں میں انہیں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ مگر ان کی کرتوتیں چونکہ ان کے دعویٰ اور قسموں کی تکذیب کردیتی تھیں۔ اس لیے ان پر نہ مسلمان اعتماد کرتے تھے اور نہ یہودی۔ ان کی حالت دھوبی کے کتے جیسی ہوگئی تھی جو نہ گھر کا شمار ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ [١٩] یہودیوں کے سامنے یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے محض اُلّو بنا رکھا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے وہ یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور ان کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قوْمًا غَضِبَ اللہ ُ عَلَیْہِمْ : اس آیت میں منافقین کے تین اواف بان کرتے ہوئے ان کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے ، ان میں سے پہلا وصف یہ ہے کہ ایمان کے دعوے کے باوجود ان کی دوستی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ایمان والوں کے بد ترین دشمن ہیں اور جن پر اللہ کا ... غضب ہوا ہے۔ اگرچہ تمام کفار ہی پر اللہ کا غضب ہے اور منافقین تمام کفار سے درستی کرتے تھے ، مگر ” مغضوب علیھم “ خاص طور پر یہود کا لقب ہے ، جیسا کہ ” غیر المغضوب علیھم “ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ (١٦، ٩٠) ، آل عمران (١١٢) ، اعراف (١٥٢) ، مائدہ (١٦٠) اور سورة ٔ ممتحنہ (١٣) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یہود و نصاری اور کفار کی دوستی سے صریح الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٢٨) ، نسائ (١٤٤) ، مائدہ (٥١) اور سورة ٔ توبہ (٢٣) ۔ ٢۔ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ لا : یہ منافقین کا دوسرا وصف ہے کہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود فی الواقع وہ تم میں سے نہیں ہیں ، کیونکہ اگر وہ حقیقی مومن ہوتے تو کفار کو کبھی دوست نہ بناتے۔ ( دیکھئے مائدہ : ٨١) اور اسی طرح وہ یہود میں سے بھی نہیں ، کیونکہ وہ انہیں بھی حق پر نہیں سمجھتے ، ان کی دوستی محض غرض کی دوستی ہے کہ اگر مسلمانوں پر کوئی گردش آئی تو ان کی دوستی کام آئے گی۔ دیکھئے سورة ٔ نسائ (١٤٢، ١٤٣) کی تفسیر۔ ٣۔ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ : یعنی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر قسمیں بھی کھاتے ہیں ۔ اس جھوٹ سے مراد ایک تو مومن ہونے کا دعویٰ ہے۔ ( دیکھئے منافقون : ١۔ توبہ : ٥٦) پھر مختلف اوقات میں اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے خلاف ان کے کسی قول یا فعل پر جب گرفت کی جاتی تو وہ جھوٹ بول دیتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی، نہ یہ کام کیا ہے اور اس پر قسمیں کھا جاتے ۔ ( دیکھئے توبہ : ٦٢، ٧٤، ٩٥، ٩٦۔ منافقون : ٦، ٧) سیرت کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Chastising the Hypocrites for their Secret Alliance with the Jews أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِم (Have you not seen those who have friendship with a people with whom Allah is angry? ....58:14) Allah condemns the hypocrites who secretly formed an alliance with the Jews who challenge Allah and His Apostle, while in effect they belong neither to t... he Muslims nor to the Jews. Consequently, Allah has prepared for them a humiliating and condign chastisement. It is not permissible to have a friendly intimacy with the enemies of Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - whether the unbelievers are Jews, or Christians, or pagans or of any other creed. Even rationally this is not possible, because the capital asset of a believer is the love of Allah, while a non-believer relishes in opposing and challenging Him. It is not possible for a person to have sincere love and affection for someone and to love and have intimacy with the latter&s enemy. Here &love&, &affection& or &intimacy& refers to the one coming from the heart involving intense emotional commitment (which necessarily includes having love with his way of life. Ed.). This is called Muwalah or &intimate friendship&. This type of friendship is limited to sincere Muslims. Therefore, the Qur&anic verses on many occasions strictly prohibit Muslims from having this sort of relationship with non-Muslims. Any Muslim who has such intimate friendship with non-Muslims will be seen to fall in the circle of unbelievers. In contra-distinction to Muwalah [ intimate friendship ], there is a concept of Muwalah which refers to the relationship based on sympathy, kindness and concern. It includes charitable assistance and support, business, commercial, trade dealings and economic cooperation, condolence and consolation and any well-meaning attitude of well-being and welfare. Barring unbelievers who are at war with the believers, this kind of relationship is permissible with all other non-Muslims. The paradigm of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the noble Companions (رض) in this direction is ample testimony to this practice. However, it is necessary to ensure that the relationship of Muwalah is not harmful to the cause of religion; it should not create laxity in &faith and practice& of Islam nor should it &harm, hurt or injure& other Muslims. Please see Ma` ariful Qur&an, Vol. 2/ pp 54-61: under Surah Al-` Imran: v.28-30 for a detailed account of the distinction between Muwalat [ intimate friendship ], Muwasat [ sympathy ] and Muamalat [ dealings ] or Mudarah [ cordiality ]. وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ (and they swear false oaths ...58:14). It means they swear oaths profanely. According to some reports, this verse was revealed in connection with ` Abdullah Ibn &Ubayy and ` Abdullah Ibn Nabtal: One day the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sitting with his noble Companions (رض) and said to them: |"Soon a person will come to you whose heart will be the heart of a tyrant and who sees through the Shaitan&s eyes.|" Soon afterwards ` Abdullah Ibn Nabtal, the hypocrite, entered. He was blue-eyed, wheat-coloured, short-statured and skimpy-bearded. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him: |"Why do you and your comrades use obscene words against me?|" He swore that he did not do that. Then he called his comrades and they too took this false oath. Allah told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; about their lie and profane oath. [ Qurtubi ]  Show more

خلاصہ تفسیر کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب کیا ہے ( پہلے لوگوں سے مراد منافقین ہیں اور دوسرے لوگوں سے مراد یہود و جمیع کفار مجاہرین، اور منافقین چونکہ یہودی تھے اس لئے ان کی دوستی یہود سے اور اسی طرح اور کفار سے بھی مشہور اور معلوم ہے) یہ (م... نافق) لوگ نہ تو (پورے پورے) تم میں ہیں اور نہ (پورے پورے) ان ہی میں (بلکہ ظاہر میں تو تم سے ملے ہوئے ہیں اور باطناً و عقیدةً کفار کے ساتھ ہیں) اور جھوٹی بات پر قسمیں کھا جاتے ہیں ( وہ جھوٹی بات یہی ہے کہ ہم مسلمانوں میں شامل ہیں کقولہ تعالیٰ ویحلفون باللہ انہم لمنکم وماہم منکم) اور وہ ( خود بھی) جانتے ہیں ( کہ ہم جھوٹے ہیں، آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے (کیونکہ) بیشک وہ برے برے کام کیا کرتے تھے (چنانچہ کفر و نفاق سے بدتر کونسا کام ہوگا ؟ اور انہی برے کاموں میں سے ایک برا کام یہ ہے کہ) انہوں نے اپنی (ان جھوٹی) قسموں کو (اپنے بچاؤ کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے (تاکہ مسلمان ہم کو مسلمان سمجھ کر ہماری جان و مال سے تعرض نہ کریں) پھر (اوروں کو بھی) خدا کی راہ (یعنی دین) سے روکتے رہتے ہیں (یعنی بہکاتے رہتے ہیں) سو (اس وجہ سے) ان کے لئے ذلت کا عذاب ہونے والا ہے (یعنی وہ عذاب جیسا شدید ہوگا ایسا ہی ذلیل کرنے والا بھی ہوگا اور جب وہ عذاب ہونے لگے گا تو) ان کے اموال اور اولاد اللہ (کے عذاب) سے ان کو ذرا نہ بچا سکیں گے (اور) یہ لوگ دوزخی ہیں ( اس میں تعیین فرما دی اس عذاب شدید و مہین کی کہ وہ دوزخ ہے اور) وہ لوگ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہنے والے ہیں (آگے وقت عذاب کا بتلاتے ہیں کہ وہ عذاب اس روز ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ ان سب کو (مع دیگر مخلوقات کے) دوبارہ زندہ کرے گا سو یہ اس کے روبرو بھی (جھوٹی) قسمیں کھا جاویں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھا جاتے ہیں (جیسا مشرکین کی جھوٹی قسم قیامت کے دن اس آیت میں مذکور ہے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشر کین) اور یوں خیال کریں گے کہ ہم کسی اچھی حالت میں ہیں (کہ اس جھوٹی قسم کی بدولت بچ جاویں گے) خوب سن لو یہ لوگ بڑے ہی جھوٹے ہیں (کہ خدا کے سامنے بھی جھوٹ بولنے سے نہ چوکے اور ان کی جو حرکات اوپر مذکور ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان پر شیطان نے پورا تسلط کرلیا ہے (کہ اس کے کہنے پر عمل کر رہے ہیں) سو اس نے ان کو خدا کی یاد بھلا دی (یعنی اس کے احکام کو چھوڑ بیٹھے واقعی) یہ لوگ شیطان کا گروہ ہے، خوب سن لو کہ شیطان کا گروہ ضرور برباد ہونے والا ہے (آخرت میں تو ضرور اور گاہے دنیا میں بھی اور ان کی یہ حالت کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ اور رسول کے مخالف ہیں اور قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے نزدیک) سخت ذلیل لوگوں میں ہیں (جب اللہ کے نزدیک ذلیل ہیں تو آثار مذکورہ کا ترتب کیا مستبعد ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ذلت تجویز فرما رکھی ہے اسی طرح مطیعین کے لئے عزت کیونکہ وہ لوگ اللہ اور رسولوں کے متبع ہیں اور) اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکم ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے ( جو کہ حقیقت ہے عزت کی، مقصود یہاں غلبہ بیان کرنا ہے انبیاء کا، اپنا ذکر تشریف انبیاء کے لئے فرما دیا، پس جب رسل ذی عزت ہیں تو ان کے متبعین بھی اور معنی غلبہ کے سورة مائدہ کی آیت (آیت) ان حزب اللہ ھم الغلبون اور سورة مومن کی ( آیت) لننصر رسلنا الخ کے ذیل میں گزر چکے ہیں) بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے ( اس لئے وہ جس کو چاہے غالب کر دے، آگے دوستی کفار میں منافقین کے حال کے خلاف اہل ایمان کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان (کے قلوب) کو اپنے فیض سے قوت دی ہے (فیض سے مراد نور ہے، یعنی مقتضائے ہدایت پر ظاہراً عمل و باطناً سکون قلب وہو المذکور فی قولہ تعالیٰ (آیت) فہو علے ٰ نورمن ربہ، چونکہ یہ نور سبب ہے زیادت حیات معنویہ کا اس لئے اس کو روح سے تعبیر فرمایا، یہ دولت تو ان کو دنیا میں ملی، کقولہ تعالیٰ (آیت) اولٓئک علی ہدی من ربہم) اور (آخرت میں ان کو یہ نعمت ملے گی کہ) ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے (کقولہ تعالیٰ اولٓئک ہم المفلحون، بعد قولہ اولٓئک علیٰ ھدی من ربہم) معارف و مسائل اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ، ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان لوگوں کی بدحالی اور انجام کار عذاب شدید کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ کے دشمنوں کافروں سے دوستی رکھیں، کفار خواہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ یا دوسرے اقسام کے کفار کسی مسلمان کے لئے دلی دوستی کسی سے جائز نہیں اور وہ عقلاً ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ مومن کا اصل سرمایہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے کفار اللہ تعالیٰ کے مخالف اور دشمن ہیں اور جس شخص کے دل میں کسی شخص کی سچی محبت اور دوستی ہو اس سے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس کے دشمن سے بھی محبت اور دوستی رکھے، اسی لئے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں اور جو مسلمان کسی کافر سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرہ میں شامل سمجھے جانے کی وعید آئی ہے لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا یا تجارتی اور اقتصادی معاملات ان سے کرنا، دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا کھلا ہوا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا اپنے دین کے لئے مضر نہ ہو اپنے ایمان اور عمل میں سستی پیدا نہ کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی مضر نہ ہو۔ اس مسئلہ میں مولات اور مواسات اور معاملات کے فرق کی پوری تفصیل سورة آل عمران (آیت) لا یتخذ المومنون الکفرین اولیا کے تحت معارف القرآن جلد دوم صفحہ 45 تا 49 میں گزر چکی ہے وہاں مطالعہ کرلیا جائے۔ ویحلفون علے الکذب، بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن نبتل منافق کے بارے میں نازل ہوئی جس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ تشریف رکھتے تھے تو فرمایا کہ اب تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا قلب قلب جبار ہے اور جو شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اس کے بعد ہی عبداللہ بن نبتل منافق داخل ہوا جو نیلگوں چشم، گندم گوں، پست قد، خفیف اللحیہ تھا، آپ نے اس سے فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ اس نے حلف کھا کے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا، پھر اپنے ساتھیوں کو بھی بلالیا انہوں نے بھی یہ جھوٹا حلف کرلیا، حق تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے جھوٹ کی خبر دے دی (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ مَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْہُمْ۝ ٠ ۙ وَيَحْلِفُوْنَ عَلَي الْكَذِبِ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٤ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أض... رب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . والمُحَالَفَة : أن يحلف کلّ للآخر، ثم جعلت عبارة عن الملازمة مجرّدا، فقیل : حِلْفُ فلان وحَلِيفُه، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «لا حِلْفَ في الإسلام» . وفلان حَلِيف اللسان، أي : حدیده، كأنه يحالف الکلام فلا يتباطأ عنه، وحلیف الفصاحة . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور جو کسی سے الگ نہ ہوتا ہو اسے اس کا حلف یا حلیف کہا جاتا ہے حدیث میں ہے اسلام میں زمانہ جاہلیت ایسے معاہدے نہیں ہیں ۔ فلان حلیف اللسان فلاں چرب زبان ہے کو یا اس نے بولنے سے عہد کر رکھا ہے اور اس سے ایک لمحہ نہیں رکتا حلیف الفصا حۃ وہ صحیح ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کی جو یہودیوں کے ساتھ دوستی تھی اگلی آیات اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمائی ہیں۔ محمد کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی، یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے یہ منافق اندرونی طور پر نہ تو تم میں ہیں کہ تمہارے لیے جو چیزیں واجب ہیں و... ہ ان کے لیے واجب ہوں اور نہ علانیہ طور پر یہودیوں ہی میں ہیں کہ ان پر جو غصہ ہے وہ ان پر بھی ہو اور اپنے مسلمان ہونے اور ایمان کے دعوے کرنے پر جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں۔ شان نزول : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا (الخ) ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن نبتل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ } ” کیا تم نے غور نہیں کیا ان لوگوں (کے طرزِعمل) پر جنہوں نے دوستی گانٹھی ہے ان لوگوں سے جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ “ اللہ کے غضب کے حوالے سے یہاں قوم یہود (مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ ) کی طرف اشارہ ہے اور ان سے دوستیاں گان... ٹھنے والے اوس اور خزرج کے منافقین تھے جو ان کے ساتھ اپنے پرانے حلیفانہ تعلقات کو ابھی تک نبا ہے چلے جا رہے تھے۔ { مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ } ” نہ وہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں “ منافقین کے اس دوغلے کردار کا ذکر سورة النساء (آیت ١٤٣) میں اس طرح ہوا ہے : { لَآ اِلٰی ہٰٓــؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ہٰٓــؤُلَآئِ } ” نہ تو یہ ان کی جانب ہیں اور نہ ہی ان کی جانب ہیں۔ “ { وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ } ” اور وہ جانتے بوجھتے جھوٹ پر قسمیں اٹھاتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 The allusion is to the Jews of Madinah whom the hypocrites had taken for friends. 32 That is, they are neither sincere in their connections with the believers, nor with the Jews: their relations with both are based on selfish interests. 33 "A falsehood": that they have believed in and have accepted Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) as their guide and leader and are faithful ... to Islam and the Muslims  Show more

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :31 اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :32 یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہ اہل ایمان سے ہے نہ یہود سے ۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :... 33 یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لائے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: اس سے مراد منافقین ہیں جنہوں نے یہودیوں سے ایسی دوستی گانٹھی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ ٢٢۔ معتبر سند سے مسند امام احمد تفسیر ابن ٤ ؎ ابی حاتم تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار مشہور ہے۔ اس کے علاوہ منافقوں میں ایک شخص کرنجی آنکھوں کا عبداللہ بن بنتل جو بڑا فسادی تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآ... لہ وسلم) کے پاس آن کر اکثر بیٹھا کرتا اور پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کی باتیں برائی کے طور پر اپنے دوست یہودیوں سے بیان کیا کرتا۔ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ تھوڑی دیر میں ایک شخص کرنجی آنکھوں کا بڑا فسادی آنے والا ہے جب وہ آئے تو تم میں سے کوئی شخص اس سے بات نہ کرنا۔ اتنے میں عبداللہ بن بنتل آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ تو اور چند شخص مل کر مجھ کو برا بھلا کیوں کہا کرتے ہو۔ عبد اللہ بن بنتل نے انکار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نام لیا تھا ان کو بھی بلا لیا اور سب نے مل کر بہت قسمیں جھوٹی کھائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان منافقوں کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ ادھر تو انہوں نے اپنے ظاہری اسلام سے مسلمانوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اسی طرح مدینہ کے گرد و نواح میں جو یہود رہتے ہیں ان کو اپنی دوستی اور رفاقت کے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اور حقیقت میں یہ لوگ ادھر ہیں نہ ادھر۔ ان کی زبان پر کچھ ہوتا ہے اور دل میں کچھ۔ اس لئے یہ دل سے کسی کے بھی ساتھی نہیں ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح ان منافق لوگوں نے اپنی جان اور مال مسلمانوں کے ہاتھ سے بچانے کی غرض سے دنیا میں اپنی جھوٹی قسموں کو ڈھال ٹھہرا رکھا ہے اسی طرح قیامت کے دن اللہ کے رو برو بھی یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھائیں گے کہ دنیا میں یہ لوگ دل سے مسلمان تھے لیکن وہاں ان کی جھوٹی قسمیں اللہ عالم الغیب کے رو برو کچھ کام نہ آئیں گی۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ شیطان کے قابو میں ہیں۔ اسی واسطے شیطان ان کے برے کاموں کو اچھا کرکے ان کو دکھلاتا ہے پھر فرمایا ایسے شیطانی جتھے کے لوگ ہیں اور یہ شیطانی جتھے کے لوگ اخیر کو بہت خراب ہوں گے۔ اور اللہ کے رسول کے ساتھیوں کو اخیر میں غلبہ ہوگا اور ان منافقوں کی بدخواہی کچھ کارگر نہ ہوگی۔ پھر اللہ کے واسطے جو مسلمان لوگ بدر کی لڑائی کے دن اپنے رشتے داروں سے لڑے اور ان کو قتل کیا تھا ‘ ان کی تعریف فرمائی تاکہ منافقوں کو عبرت ہو کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں جو خدا اور خدا کے رسول کی رضا مندی کے لئے رشتہ داروں کے دشمن بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ مسلمان کیونکر ہوسکتے ہیں جو اللہ کے رسول کی بدخواہی کے لئے غیر قوم کے لوگ یہودیوں سے میل جول پیدا کرتے ہیں۔ بدر کی لڑائی کے دن حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے بیٹے عبد الرحمن کے قتل کرنے کی تاک میں تھے۔ اور حضرت عمر (رض) نے اس دن اپنے ایک رشتہ دار کو حضرت علی (رض) نے اپنے چچا کے بیٹے اور بھائی اور صحابہ نے اسی طرح اپنے رشتہ داروں کو قتل کیا۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر ایمان نقش کی طرح خدا کی طرف سے لکھا گیا ہے اور تائید غیبی ان کی مدد کرتی ہے۔ وھم یعلمون کا یہ مطلب ہے کہ جن باتوں پر یہ منافق لوگ قسمیں کھاتے ہیں ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ باتیں بالکل جھوٹی ہیں۔ منافقوں کے عذاب کی تفسیر سورة نساء میں گزر چکی ہے۔ کہ ان کو جہنم کے سب سے نیچے طبقہ میں جھونکا جائے گا جس کا عذاب بہت سخت ہے یہ لوگ منافق پنے کی باتیں کرتے تھے اور ان باتوں کو اچھا سمجھتے تھے اس لئے فرمایا کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہرگز اچھے کام نہیں بلکہ وہ سرتاپا برے کام ہیں۔ پھر فرمایا جس مال و اولاد کی حفاظت کے لئے ان لوگوں نے ظاہری اسلام اور یہود سے میل جول اختیار کیا ہے عقبیٰ کی مصیبت کے وقت وہ مال و اولاد ان کے کام نہ آئے گی۔ معتبر سند ١ ؎ سے مسند بزار میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان اور اس کے مال اولاد اور عمل کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے تین بھائی ہوں ان میں دو بھائی تو جیتے جی کے ساتھی ہوں اور ایک مرنے کے بعد کا بھی ساتھی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقبیٰ میں اصل کارآمد چیز آدمی کا عمل ہے اب جس کے نیک عمل وہاں قابل نجات ہوں گے اس کو مال و اولاد سے بھی کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے ان منافقوں کے بد اعمال جو عقبیٰ میں ان کے ساتھ ہوں گے وہ ایک ایسی بری چیز ہے جس کے سبب سے ان کی نجات ممکن نہیں۔ اسی واسطے ان کا مال ان کی اولاد سب ان کے حق میں بیکار ہے۔ صحیح ٢ مسلم میں عثمان بن ابی العاص کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان عثمان نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ شکایت کی کہ ان کے دل میں شیطان طرح طرح کے وسوسے اکثر ڈالا کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اعوذ باللہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ اسی قسم کی اور بھی حدیثیں اور سلف کے قول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی سے شیطان بھاگتا ہے اور یہ سورة خرف میں گزر چکا ہے کہ جو آدمی ذکر الٰہی سے غافل ہو اس کے دل پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے سورة النساء میں یہ علامت منافقوں کی گزر چکی ہے کہ لایذکرون اللہ الا قلیلاً اس لئے بیان فرمایا کہ یہ لوگ شیطان کے قابو میں آ کر شیطانی جھتے کے لوگ بن گئے ہیں۔ (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٢٨ ج ٤۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب باب الترغب ٨ فی الزھد فی الدنیا الخ ص ٣٠٧ ج ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب التعوذ من شیطان الوسوسۃ فی الصلوۃ ص ٢٢٤ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:14) الم تر : استفہام انکاری ہے۔ نفی کا انکار موجب اثبات ہوتا ہے۔ اسلئے الم ترکا مطلب ہوا۔ تو نے دیکھا۔ تو نے دیکھا ہے۔ الذین تولوا قوما غضب اللہ علیہم : الذین اسم موصول تولوا اس کا صلہ۔ قوما مفعول تولوا کا۔ غضب اللہ علیہم صفت قوما کی۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب قوما کی طرف راجع ہے۔ تولوا ماضی جمع م... ذکر غائب تولی (تفعل) مصدر۔ تولی کا تعدیہ جب بلاواسطہ ہوتا ہے تو اس کے معنی :۔ (1) کسی سے دوستی رکھنے۔ (2) کسی کام کو اٹھانے۔ (3) والیو حاکم ہونے کے ہوتے ہیں۔ (1) کی مثال۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ومن یتولہم منکم فانہ منھم (5:51) جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی رکھے وہ ان میں سے ہے۔ (2) کی مثال :۔ والذی تولی کبرہ (24:11) اور جس نے کہ اٹھایا اس بڑی بات کو۔ (3) کی مثال :۔ فہل عسیتم ان تولیتم (48:22) پھر تم سے یہ توقع ہے کہ اگر تم والی ہو۔ اور جب عن کے ساتھ متعدی ہو خواہ لفظوں میں مذکور ہو یا مستتر (محذوف) ہو تو منہ پھیرنے اور نزدیکی چھوڑنے کے معنی میں آتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے :۔ فتولی عنھم وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی (7:79) پھر اس نے ان سے منہ موڑا۔ اور کہا کہ اے میری قوم میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا۔ یہاں سورة ہذا میں تولوا بمعنی دوستی رکھنا ہے۔ یعنی کیا تو نے دیکھا نہیں (تو نے دیکھا ہے) ان لوگوں کی طرف جو دوستی کرتے ہیں اس قوم سے کہ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ ماہم منکم : ہم ضمیر جمع مذکر غائب الذین تولوا کی طرف راجع ہے اور منکم میں ضمیر کم جمع مذکر حاضر الم تر کے مخاطب کی طرف راجع ہے۔ ولا منھم : جملۃ مستانفۃ اوحال من فاعل تولوا 12 (حقانی) منھم میں ضمیر ھم جمع مذکر غائب قوما غضب اللہ علیہم کی طرف راجع ہے۔ مطلب یہ کہ :۔ یہ منافقین نہ تو پورے پورے تم میں سے ہیں۔ کیونکہ دین اور دوستی میں یہودیوں کے ساتھ ہیں۔ اور نہ یہ پورے پورے یہودیوں میں سے ہیں ۔ کیونکہ ظاہر میں یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ویحلفون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ حلف (باب ضرب) مصدر۔ وہ قسمیں کھاتے ہیں۔ وہ قسمیں کھائیں گے۔ اس کا عطف تولوا پر ہے۔ مضارع کا صیغہ تکرار حلف پر دلالت کرتا ہے۔ علی الکذب۔ جھوٹ پر۔ وہم یعلمون : جان بوجھ کر۔ آیت کا ترجمہ ہوا :۔ اور جان بوجھ کر جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں۔ وھم یعلمون جملہ حالیہ ہے۔ درآں حالیکہ وہ جانتے ہیں (کہ جو وہ کہہ رہے ہیں جھوٹ ہے) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 بلکہ دونوں کے درمیان لٹک کر رہ گئے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ” مذبذبین بین ذلک لا الی ھولاء ولا الی ھو لاء ومن تصل اللہ فلن تجدلہ سبیلاً وہ اس کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی نجات کی راہ نہ پائو گے۔ “ (نساء 183)9 یعنی مسل... مانوں کو قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہودیوں سے ہماری ہرگز دوستی نہیں ہے، حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٤ تا ٢٢۔ اسرار ومعارف۔ نفاق کی ایک خطرناک صورت آج کے مسلم حکمران جس کے عمومی شکار ہیں۔ (اعاذنا اللہ منھا) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے لوگوں سے وقف ہیں جنہوں نے ان اقوام کو دوست بنارکھا ہے جن سے اللہ سخت ناراض ہیں یہ ایسے بدنصیب ہیں کہ مسلمان کہلانے کے باوجود یہ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں...  کہ ان کے مفاد کے خلاف کام کرتے ہیں اور کافر انہیں اپنا نہیں سمجھتے بلکہ مسلمان جانتے ہیں لہذایہ ادھر کے ہیں اور نہ ادھر کے اور یہ بات خود ان کو بھی پتہ ہے مگر جھوٹی قسمیں کھائے جاتے ہیں کہ ہم یہ مسلمانوں کے بھلے کی خاطر کر رہے ہیں۔ کفار سے معاہدہ۔ عموما ہمارے حکمران عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ کا حوالہ دے کر یہود اور کفار سے معاہدوں کی بات کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ کہ ان معاہدوں کی دوستی اسلام اور مسلمانوں سے تھی اور ان کی بہتری مقصود تھی ۔ ایسا آج بھی نہ صرف جائز ہے بلکہ کمال ہے مگر ایسے معاہدوں جن میں مسلمانوں کا نقصان ہو اور کفار کا فائدہ ہو یہ کفار سے دوستی ہے اور ایسا کرنے والاخود مسلمان نہیں رہتا۔ بلکہ ارشاد ہوتا ہے ایسے لوگوں کے لیے اللہ نے شدید عذاب تیار کررکھا ہے کہ یہ بہت ہی برا کام کر رہے ہیں انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کو ڈھال بنالیا ہے حالانکہ یہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا سبب ہیں۔ اس عہد کے منافقین بھی یہی کوشش کرتے تھے کہ مسلمان عملا اسلام سے دور ہوتے جائیں اور آج کے کفار کے ساتھ مل کر نام ونہاد مسلمان وہی کام کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو نظام اسلام کی برکات سے محروم کررکھا ہے جو عملا اسلام کا راستہ روکنے کا عمل ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے بہت ہی ذلیل کرنے والاعذاب ہے ۔ ایسے لوگوں کونہ اولاد کام آئے گی اور نہ ان کا وہ مال جو انہوں نے لوٹ لوٹ کر خزانے بھررکھے ہیں اللہ کے عذاب سے بچاسکے گا بلکہ انہیں دوزخ میں ڈالاجائے گا جہاں یہ ہمیشہ پڑے سڑتے رہیں گے۔ قیامت کو یہ حال ہوگا کہ جب اللہ سب کو جمع کرے گا تو یہ اپنی سچائی پر ایسے ہی قسمیں کھائیں گے جیسے آج مسلمانوں کے روبرو کھاتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کی بات میں دم ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ یہ سخت جھوٹے ہیں ایسے کہ خود بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان پر شیطان غالب آگیا تھا۔ انہوں نے اس کی باتیں مان لیں اور اس نے ان کے دلوں سے اللہ کی محبت ختم کردی کہ ان سے اللہ کی یادہی چھین لی اور وہ اللہ کا ذکر ہی بھول گئے یہی لوگ شیطان کی فوج ہیں جو ساری زندگی شیطنت کے غلبہ کے لیے لڑتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ شیطان کی فوج ہمیشہ خسارے میں رہتی ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہاں بھی وقتی غلبے کے بعد شکست ان کا مقدر ہے۔ دنیا میں سب سے بڑے ناقدر شناس لوگ۔ کفار نے بھی انکار کرکے رسول اللہ کی قدر نہ پہچانی مگر یہ لوگ جو مسلمان کہلانے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں یہ سخت ناقدرے ہیں اور ذلیل ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول ، اور وہ زبردست قوت والا ہے وہی ہوگاجو وہ چاہے گا۔ لہذا ذلت ان کا مقدر ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ایک اصولی بات۔ اصولی بات یہ ہے کہ اے مخاطب تو ایسے لوگوں کو جن کا اللہ پر ایمان ہے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں کبھی کفار کو دوست نہیں پائے گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اس میں خواہ ان کے باپ بیٹے یا بھائی اور رشتہ دار بھی ہوں تب بھی ان سے دوستی نہیں کرتے اس لیے اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے یعنی ثبت کردیا ہے اور ان کے دلوں کو اپنی تجلیات سے قوت دی۔ ایک ضروری وضاحت۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک ، ہمدردی یاتجارتی واقتصادی امور میں یاسیاسی معاملات میں سمجھوتہ آپ سے اور خلفائے راشدین سے ثابت ہے اور درست ہے مگر ان سب میں بنیادی شرط ہے کہ سمجھوتے مسلمانوں کے لیے اسلام پر عمل کی راہ میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہوں نہ کہ مسلمانوں سے کفار کی پیروی کرانے لگیں۔ مسئلہ۔ حضرات فقہاء کرام نے بدعمل اور بدکردار مسلمانوں سے بھی اسی عمل کا حکم دیا ہے کہ کام کاج کی ضرورت کے علاوہ دلی دوستی نہ کی جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ کسی فاجر کا احسان مجھ پر نہ ہو۔ لہذایہی روشن قلوب لوگ اور عملی زندگی میں پل پل اسلام پرچلنے والے ہی وہ خوش نصیب ہیں جن کو اللہ جنت میں داخل فرمائے گا جہاں نہریں باغوں کے تابع ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور سب سے بڑا انعام کہ اللہ ان سے راضی ہوگا اور اتنا عطا کرے گا کہ وہ اللہ سے راضی اور بہت خوش ہوں گے ہاں یہ لوگ اللہ کی فوج ہیں اور اللہ کی فوج ہمیشہ کامیاب ہونے والی ہے یہی اپنی مراد کو پاتے ہیں۔ دوقومی نظریہ۔ کتاب اللہ نے واضح فرمادیا کہ انسان بنیادی طور پر دوقوموں میں تقسیم ہے اللہ کی فوج یا اللہ والے اور شیطان کی فوج یا شیطان والے ۔ اللہ والے وہ ہیں جن کا عقیدہ درست دل روشن اور اسلامی احکام ونظام حیات پر عمل کرتے ہیں اور شیطان کے ساتھ وہ ہیں جن کا دل ایمان سے خالی ہے اور نظام حیات میں اسلام کی پیروی نہیں کرتے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ یحلفون۔ وہ قسم کھاتے ہیں۔ اعد۔ اس نے تیار کیا ہے۔ جنۃ ۔ ڈھال۔ بچنے کا سہارا۔ استحعوذ۔ انہوں نے گھیرا ڈال لیا۔ حزب۔ جماعت۔ گروہ۔ اذلین۔ ذلیل ترین لوگ۔ یوادون۔ وہ دوستی کرتے ہیں۔ عشیرۃ۔ خاندان والے۔ اید۔ اس نے قوت دی۔ تشریح : کفار کے ساتھ عام زندگی میں حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، حسن اخ... لاق اور احسان کرنا۔ اسی طرح تجارتی اور اقتصادی تعلق رکھنا رواداری ہے جو ہر مومن کو ہر شخص کے ساتھ کرنا چاہیے لیکن کفار و مشرکین اور یہودو نصاریٰ یعنی اللہ و رسول کے دشمنوں سے قلبی تعلق رکھنا یا اپنے مفاد کے لئے دو کشتیوں میں سوار ہونا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اسی طرح تجارتی، اقتصادی لین دین اور سیاسی تعلقات مین اگر اہل ایمان کا نقصان اور غیرت مسلم کا ۔ ۔ پیش آجائے تو پھر وہ بھی جائز نہ ہوگا۔ مدینے کے یہودی اور کفار جو دکھانے اور کچھ دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے اور دیکھا دیکھی مسلمانوں کے ساتھ عبادات میں بھی شریک رہتے تھے وہ ذہنی الجھن اور کشمکش کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔ نہ تو ان کا مخلصانہ تعلق اہل ایمان سے تھا اور نہ یہودو نصاریٰ اور مشرکین سے بلکہ وہ اپنے وقتی مفادات کے لئے دونوں سے رشتہ اور تعلق قائم کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ چونکہ ان کی سوچ اور ذہنیت مجرمانہ بن چکی تھی لہذا اگر انہین اس بات کا خطرہ پیدا ہوتا کہ ان کا نفاق اور جھوٹ کھل جائے گا تو وہ جھوٹی قسمیں کھانے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔ جھوٹی قسمیں کھا نے کی عادتیں اتنی پختہ ہوچکی ہوں گی کہ جب قیامت میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور ان منافقین سے پوچھا جائے گا تو وہاں بھی اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دراصل ان کے دل و دماغ اور حواس پر شیطان نے اس طرح قابو پا لیا ہے کہ وہ شیطان کی گرفت سے کوشش کے باوجود نکل نیں سکتے۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت کے عذاب سے بھی نہ بچ سکیں گے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو سچے مومن ہیں ان کے نزدیک صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہی سب کچھ ہے۔ ان کے نزدیک رشتہ داریاں، تعلقات اور ذاتی مفادات سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی تعمل کرنا ہے۔ اس تعملیل میں اگر رشتہ داریاں اور تعلقات حائل ہونے کی کوشش کریں تو وہ ان کو کاٹ کر پھینک دینے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ غزوہ بند ر میں حضرت معصب ابن عمیر (رض) کے سگے بھائی ابو عزیز ابن عمیر کو ایک انصاری صحابی (رض) گرفتار کرکے ان کے ہاتھ پیر باندھ رہے تھے۔ حضرت معصب (رض) نے پکار کر کہا ذرا مضبوط باندھنا اس کی ماں بڑی مال دار ہے اس کی رہائی کے لئے وہ تمہیں بہت سافدیہ دے گی۔ ابو عزیر نے کہا کہ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو ؟ حضرت معصب (رض) نے جواب دیا کہ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کرکے لایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے نفاق کا راستہ اختیار کر رکھا ہے وہ کسی کا دوست نہیں ہوتا اس کو صرف اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے جہاں اسے اپنا ذاتی فائدہ نظر آتا ہے وہ اسی طرف جھکتا چلا جاتا ہے اور ہر ایک کو راضی کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ لیکن جس دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت رچ بس جاتی ہے اس کے نزدیک اپنے ذاتی مفادات، دوستیوں، رشتہ داریوں اور ہر طرح کے تعلقات کی اللہ ورسول کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ ایک مومن کی حیثیت سے انسانیت کی خدمت، مجبوروں اور بیکسوں سے ہمدردی کرنے کو، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کو اپنے دین و مذہب کا جزو سمجھتا ہے اور اس کا قلبی تعلق اور محبت صرف اللہ اور اس کے رسول ہی کے لئے ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کو زیر مطالعہ آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے بی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے کبھی ان منافقین کے حالات پر غور کیا جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل کیا گیا (یعنی یہودو نصاریٰ ) حقیقت یہ ہے کہ یہ منافق نہ تو تم میں سے ہیں اور نہ ان (یہودیوں) میں سے۔ یہ تو اپنے مفاد کے بندے ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ اپنے حق میں بہت برا کر رہے ہیں۔ ان کا عذاب الٰہی سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔ یہ جھوٹی قسموں کو اپنا سہارا اور ڈھال بنائے ہوئے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اپنی اولادوں اور گھر والوں کے لئے مال بٹورتے رہتے ہیں لیکن یہ بدنصیب لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ مال و دولت اور بال بچے اس کو قیامت کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ شیطان ان پر اس طرح مسلط ہوگیا ہے کہ یہ اس کے جال سے باہر نکل ہی نہیں سکتے یہ شیطانی جماعت بن چکے ہیں۔ اگر یہ لوگ بڑا جتھا بن بھی جائیں پھر بھی اہل ایمان پر غالب نہ آسکیں گے۔ اللہ نے یہ طے کرلیا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ہی سب پر غالب رہیں گے کیونکہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی ہے اس کے سوا کسی کی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں وہ کبھی ایسے لوگوں سے قلبی تعلق نہیں رکھ سکتے جو اللہ و رسول کے دشمن ہیں۔ اگرچہ وہ ان کے باپ، دادا، بھائی اور عزیر و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کے یقین کو جما دیا ہے اور ہر جگہ ان کو باطنی قوت اور باطنی سکون و اطمینان حاصل رہتا ہے۔ ان کا انجام بہترین ہے۔ ان کے لئے جنت کی راحتیں، بہتی ہوئی نہریں اور راحت و آرام کا ہر سامان موجود ہوگا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی ہیں۔ درحقیقت یہ اللہ کی جماعت ہے اور ہر شخص کو مان لینا چاہیے کہ ساری فلاح و کامیابی صرف اللہ کی جماعت ہی کو حاصل ہوگی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ پہلے لوگوں سے مراد منافقین ہیں، اور دوسرے لوگوں سے مراد یہود و جمیع کفار مجاہرین، اور منافقین چونکہ یہودی تھے اس لئے ان کی دوستی یہود سے اور اسی طرح اور کفار سے بھی مشہور معلوم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس رسول کی اطاعت اور محبت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان لوگوں کے ساتھ دلی دوستی نہ رکھیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ نبی (علیہ السلام) کے دور میں منافقوں کی حالت یہ تھی کہ اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے فائدہ پہنچتا تو وہ سر عام مسلمانوں کی حمایت کرتے ... اگر انہیں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسروں کی طرف سے فائدہ پہنچتا دکھائی دیتا تو وہ کفار اور یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے۔ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) کو ارشاد ہوا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے بارے میں غور نہیں کیا جو ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوچکا ہے۔ یہ منافق نہ تمہارے ساتھ ہیں اور نہ ہی یہود و کفارہ کے ساتھ ہیں۔ جب انہیں منافقت سے منع کیا جاتا تو وہ جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے شدید عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ جو کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔ مسلسل منافقت کرنے کی وجہ سے منافق پر ایسا وقت آتا ہے کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب تک میری گرفت نہیں ہوئی لہٰذا میں اپنے کردار اور مؤقف میں سچا ہوں کچھ لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ کھلے الفاظ میں کہتے ہیں جو ہم کرتے ہیں ” اللہ “ کو ایسے ہی منظور ہے۔ یہ کہنا بھی اللہ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جھوٹ، فریب اور منافقت کو پسند نہیں کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً ) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔ “ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ ) (رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر) ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا ‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر غضب نازل کیا۔ ٢۔ منافق پر بھی ” اللہ “ کا غضب ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق نہ مسلمانوں کا ساتھی ہوتا ہے اور نہ دوسروں کا۔ ٤۔ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ ٥۔ منافقت بدترین عمل ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے لیے شدید ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار اور اس کی سزا : ١۔ منافق دغا باز اور ریا کار ہونے کے ساتھ بےتوجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون : ٢) ٤۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤) ٥۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) ٦۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون : ٦) ٨۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١٠) ٩۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبہ : ٧٩) ١٠۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ : ٨٠) ١١۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبہ : ٦٨) ١٢۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم ترالی ........................................ ھم المفلحون یہ منا یقین پر ایک تنقیدی حملہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایک ایسی قوم سے دوستی کررہے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین مسلمانوں کے خلاف نہایت گہری چالیں چلتے تھے اور مسلمانوں کے شدید ترین دشمنوں یعنی ی... ہودیوں کے ساتھ مل کر یہ سازشیں تیار کرتے تھے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اقتدار مستحکم ہوگیا تھا۔ کیونکہ جب ان پر رسول اللہ اور مسلمان تنقید کرتے تھے اور ان سے باز پرس کرتے تھے تو یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھاتے تھے۔ حالانکہ رسول اللہ اور مسلمان جو بات کرتے تھے وہ اللہ کی طرف سے فراہم کردہ انکشافات پر مبنی ہوتی تھی۔ جب وہ حلف اٹھاتے تھے تو وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ وہ اپنی قسموں کی آڑ میں اپنے آپ کو اس مواخذے سے بچاتے تھے۔ کیونکہ ان کی تمام سازشیں اسلامی حکومت کی طرف سے قابل مواخذہ تھیں۔ اتخذوا ................ جنة (٨٥ : ٦١) ” انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ “ اس طرح وہ اپنی سازشیں جاری رکھی ہوئے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ ان آیات کے درمیان اللہ نے ان کو بار بار دھمکی دی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کا بدترین طریق کار، جھوٹی قسمیں کھانا، اور یہودیوں کو خبریں پہنچانا معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئیں جنہوں نے ظاہراً اسلام کا دعویٰ کیا لیکن اندر سے یہودیوں سے دوستی جاری رکھی مومنین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے جو ان کے راز معلوم ہوجایا کرتے تھے وہ یہو... دیوں تک پہنچا دیا کرتے تھے، اس کے بعد ایک قصہ یوں نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن نبتل نامی ایک یہودی تھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا پھر آپ کی باتیں (جو عام کرنے کی نہ تھیں) یہودیوں کو پہنچا دیتا تھا ایک دن یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے آپ نے خود ہی فرمایا کہ ابھی ایک شخص آئے گا جس کا قلب جبار ہے اور وہ شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اس شخص کی آنکھیں نیلی تھیں جب پہنچ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو اور تیرے ساتھی مجھے برے الفاظ میں کیوں یاد کرتے ہیں وہ قسم کھا گیا کہ نہیں ایسی بات تو نہیں ہے اور اپنے ساتھی کو بھی لے کر آگیا وہ بھی اسی طرح جھوٹی قسمیں کھا گیا اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ارشاد فرمایا ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا ﴾ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ کا غصہ ہے (ان سے یہودی مراد ہیں) ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ یہ لوگ یہودیوں سے ان کا دوست بن کر ملتے ہیں اور تمہارے پاس آکر یہ بتاتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں، اور یقینی قطعی بات یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ان میں سے ہیں نہ تم میں سے (جو شخص مطلب کا یار ہوتا ہے وہ ظاہر میں ہر اس شخص اور اس جماعت کا ساتھی بن جاتا ہے جس سے مفادوابستہ ہو، لیکن اخلاص کے ساتھ وہ کسی کا بھی دوست نہیں ہوتا) ، منافق ہر فریق کے پاس جا کر یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا ہوں لیکن حقیقت میں وہ کسی کا بھی نہیں ہوتا، اسی کو سورة النساء میں فرمایا ہے ﴿ مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ ﴾ (الآیۃ) نہ وہ ان کی طرف ہیں نہ ان کی طرف، جو اعمال کرتے ہیں وہ بھی دکھاوے کے لئے تاکہ ان کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہے حالانکہ وہ کسی کے ساتھ بھی نہیں ہوتے۔ ان منافقوں کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹی قسم کھاتے ہیں اور یہ قسم بھی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ جانتے ہوئے جھوٹی قسم کھاتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں جھوٹی قسم کھا رہے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” الم تر الی الذین تولوا “ یہ منافقین پر تیسرا زجر ہے۔ ” مغضوب علیہم “ (جن پر اللہ کا غضب ہوا) سے یہود مراد ہے۔ ” الکذب “ جھوٹ اور خلاف حقیقت بات، اس سے منافقین کا ادعائے اسلام مراد ہے وہ دعوی کرتے کہ ہم مؤمن ہیں لیکن ان کے دلوں میں بدستور کفر جاگزیں تھا اور ایمان کا ان کے دلوں میں شائبہ تک نہ ... تھا۔ (الکذب) وھو ادعاء الاسلام (مظہری ج 9 ص 227) ۔ منافقین کا اسلام چونکہ دنیوی منافع اور وقتی مصالح کی بنا پر تھا، اس لیے در پردہ ان کا گٹھ جوڑ یہودیوں سے تھا جو اپنی سرکشی اور شرارتوں کی وجہ سے غضب خداوندی کے مستحق ٹھہر چکے تھے دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے قسمیں کھاتے کہ وہ مخلص مومن ہیں۔ فرمایا کیا آپ نے ان لوگوں کا حال ملاحظہ نہیں فرمایا جن کی دوستی ان یہودیوں کے ساتھ ہے جن پر اللہ کا غضب مقدر ہوچکا ہے۔ حقیقت میں پرلے درجہ کے مکار ہیں وہ نہ تمہارے دوست ہیں اور نہ یہودیوں کے، وہ دونوں فریقوں کو دھوکہ دے کر اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں اور جان بوجھ کر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ کہ وہ مومن ہیں اور تمہارے ساتھ ہیں حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اے پیغمبر کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں ملاحظہ فرمایا جو اس قوم سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب نازل کیا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ غصے ہوا یعنی یہود یہ لوگ پوری طرح نہ تم سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں اور یہ لوگ جھوٹی بات پر قسم کھا جاتے ہیں حالانکہ یہ جانتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ... ہیں اللہ غصہ ہوا کافروں پر خصوصی یہود اور ان کے رفیق منافق۔ خلاصہ : یہ کہ منافق مسلمانوں سے ملے رہتے اور حضور کی خدمت میں آتے جاتے پھر یہاں کے بھید یہود کو بتاتے اور جب ان سے کہا جاتا تو قسمیں کھاتے کہ ہم نے نہیں کہا عبداللہ بن نبتل کے متعلق مشہور ہے کہ وہ منافق تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا اور یہود کو بھید بتایا کرتا۔ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے میں تشریف رکھتے تھے آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ تم میں ابھی ایک شخص آگے گا کہ دل اس کا متکبر ہے اور شیطان کی نظر سے دیکھتا ہے تھوڑی دیر میں عبداللہ بن نبتل آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے شکایت کی کہ تو ہماری جماعت کو کیوں گالیاں دیتا ہے اس پر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے قسم کھالی اور کہ اہم نے کبھی آپ کو یا آپ کی جماعت کو برا نہیں کہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ منافق نہ تم میں سے ہیں یعنی نہ مسلمان ہیں اور نہ ان میں سے ہیں یعنی نہ یہودی ہیں بلکہ غیر مذہب ہیں نہ ادھر نہ ادھر تمہارے بھید بتاتے ہیں اور جب ان پر اعتراض کرو تو جانتے بوجھتے جھوٹی قسم کھا کر انکار کرجاتے ہیں۔  Show more