Commentary Chastising the Hypocrites for their Secret Alliance with the Jews أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِم (Have you not seen those who have friendship with a people with whom Allah is angry? ....58:14) Allah condemns the hypocrites who secretly formed an alliance with the Jews who challenge Allah and His Apostle, while in effect they belong neither to t... he Muslims nor to the Jews. Consequently, Allah has prepared for them a humiliating and condign chastisement. It is not permissible to have a friendly intimacy with the enemies of Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - whether the unbelievers are Jews, or Christians, or pagans or of any other creed. Even rationally this is not possible, because the capital asset of a believer is the love of Allah, while a non-believer relishes in opposing and challenging Him. It is not possible for a person to have sincere love and affection for someone and to love and have intimacy with the latter&s enemy. Here &love&, &affection& or &intimacy& refers to the one coming from the heart involving intense emotional commitment (which necessarily includes having love with his way of life. Ed.). This is called Muwalah or &intimate friendship&. This type of friendship is limited to sincere Muslims. Therefore, the Qur&anic verses on many occasions strictly prohibit Muslims from having this sort of relationship with non-Muslims. Any Muslim who has such intimate friendship with non-Muslims will be seen to fall in the circle of unbelievers. In contra-distinction to Muwalah [ intimate friendship ], there is a concept of Muwalah which refers to the relationship based on sympathy, kindness and concern. It includes charitable assistance and support, business, commercial, trade dealings and economic cooperation, condolence and consolation and any well-meaning attitude of well-being and welfare. Barring unbelievers who are at war with the believers, this kind of relationship is permissible with all other non-Muslims. The paradigm of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the noble Companions (رض) in this direction is ample testimony to this practice. However, it is necessary to ensure that the relationship of Muwalah is not harmful to the cause of religion; it should not create laxity in &faith and practice& of Islam nor should it &harm, hurt or injure& other Muslims. Please see Ma` ariful Qur&an, Vol. 2/ pp 54-61: under Surah Al-` Imran: v.28-30 for a detailed account of the distinction between Muwalat [ intimate friendship ], Muwasat [ sympathy ] and Muamalat [ dealings ] or Mudarah [ cordiality ]. وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ (and they swear false oaths ...58:14). It means they swear oaths profanely. According to some reports, this verse was revealed in connection with ` Abdullah Ibn &Ubayy and ` Abdullah Ibn Nabtal: One day the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sitting with his noble Companions (رض) and said to them: |"Soon a person will come to you whose heart will be the heart of a tyrant and who sees through the Shaitan&s eyes.|" Soon afterwards ` Abdullah Ibn Nabtal, the hypocrite, entered. He was blue-eyed, wheat-coloured, short-statured and skimpy-bearded. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him: |"Why do you and your comrades use obscene words against me?|" He swore that he did not do that. Then he called his comrades and they too took this false oath. Allah told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; about their lie and profane oath. [ Qurtubi ] Show more
خلاصہ تفسیر کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب کیا ہے ( پہلے لوگوں سے مراد منافقین ہیں اور دوسرے لوگوں سے مراد یہود و جمیع کفار مجاہرین، اور منافقین چونکہ یہودی تھے اس لئے ان کی دوستی یہود سے اور اسی طرح اور کفار سے بھی مشہور اور معلوم ہے) یہ (م... نافق) لوگ نہ تو (پورے پورے) تم میں ہیں اور نہ (پورے پورے) ان ہی میں (بلکہ ظاہر میں تو تم سے ملے ہوئے ہیں اور باطناً و عقیدةً کفار کے ساتھ ہیں) اور جھوٹی بات پر قسمیں کھا جاتے ہیں ( وہ جھوٹی بات یہی ہے کہ ہم مسلمانوں میں شامل ہیں کقولہ تعالیٰ ویحلفون باللہ انہم لمنکم وماہم منکم) اور وہ ( خود بھی) جانتے ہیں ( کہ ہم جھوٹے ہیں، آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے (کیونکہ) بیشک وہ برے برے کام کیا کرتے تھے (چنانچہ کفر و نفاق سے بدتر کونسا کام ہوگا ؟ اور انہی برے کاموں میں سے ایک برا کام یہ ہے کہ) انہوں نے اپنی (ان جھوٹی) قسموں کو (اپنے بچاؤ کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے (تاکہ مسلمان ہم کو مسلمان سمجھ کر ہماری جان و مال سے تعرض نہ کریں) پھر (اوروں کو بھی) خدا کی راہ (یعنی دین) سے روکتے رہتے ہیں (یعنی بہکاتے رہتے ہیں) سو (اس وجہ سے) ان کے لئے ذلت کا عذاب ہونے والا ہے (یعنی وہ عذاب جیسا شدید ہوگا ایسا ہی ذلیل کرنے والا بھی ہوگا اور جب وہ عذاب ہونے لگے گا تو) ان کے اموال اور اولاد اللہ (کے عذاب) سے ان کو ذرا نہ بچا سکیں گے (اور) یہ لوگ دوزخی ہیں ( اس میں تعیین فرما دی اس عذاب شدید و مہین کی کہ وہ دوزخ ہے اور) وہ لوگ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہنے والے ہیں (آگے وقت عذاب کا بتلاتے ہیں کہ وہ عذاب اس روز ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ ان سب کو (مع دیگر مخلوقات کے) دوبارہ زندہ کرے گا سو یہ اس کے روبرو بھی (جھوٹی) قسمیں کھا جاویں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھا جاتے ہیں (جیسا مشرکین کی جھوٹی قسم قیامت کے دن اس آیت میں مذکور ہے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشر کین) اور یوں خیال کریں گے کہ ہم کسی اچھی حالت میں ہیں (کہ اس جھوٹی قسم کی بدولت بچ جاویں گے) خوب سن لو یہ لوگ بڑے ہی جھوٹے ہیں (کہ خدا کے سامنے بھی جھوٹ بولنے سے نہ چوکے اور ان کی جو حرکات اوپر مذکور ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان پر شیطان نے پورا تسلط کرلیا ہے (کہ اس کے کہنے پر عمل کر رہے ہیں) سو اس نے ان کو خدا کی یاد بھلا دی (یعنی اس کے احکام کو چھوڑ بیٹھے واقعی) یہ لوگ شیطان کا گروہ ہے، خوب سن لو کہ شیطان کا گروہ ضرور برباد ہونے والا ہے (آخرت میں تو ضرور اور گاہے دنیا میں بھی اور ان کی یہ حالت کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ اور رسول کے مخالف ہیں اور قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے نزدیک) سخت ذلیل لوگوں میں ہیں (جب اللہ کے نزدیک ذلیل ہیں تو آثار مذکورہ کا ترتب کیا مستبعد ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ذلت تجویز فرما رکھی ہے اسی طرح مطیعین کے لئے عزت کیونکہ وہ لوگ اللہ اور رسولوں کے متبع ہیں اور) اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکم ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے ( جو کہ حقیقت ہے عزت کی، مقصود یہاں غلبہ بیان کرنا ہے انبیاء کا، اپنا ذکر تشریف انبیاء کے لئے فرما دیا، پس جب رسل ذی عزت ہیں تو ان کے متبعین بھی اور معنی غلبہ کے سورة مائدہ کی آیت (آیت) ان حزب اللہ ھم الغلبون اور سورة مومن کی ( آیت) لننصر رسلنا الخ کے ذیل میں گزر چکے ہیں) بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے ( اس لئے وہ جس کو چاہے غالب کر دے، آگے دوستی کفار میں منافقین کے حال کے خلاف اہل ایمان کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان (کے قلوب) کو اپنے فیض سے قوت دی ہے (فیض سے مراد نور ہے، یعنی مقتضائے ہدایت پر ظاہراً عمل و باطناً سکون قلب وہو المذکور فی قولہ تعالیٰ (آیت) فہو علے ٰ نورمن ربہ، چونکہ یہ نور سبب ہے زیادت حیات معنویہ کا اس لئے اس کو روح سے تعبیر فرمایا، یہ دولت تو ان کو دنیا میں ملی، کقولہ تعالیٰ (آیت) اولٓئک علی ہدی من ربہم) اور (آخرت میں ان کو یہ نعمت ملے گی کہ) ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے (کقولہ تعالیٰ اولٓئک ہم المفلحون، بعد قولہ اولٓئک علیٰ ھدی من ربہم) معارف و مسائل اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ، ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان لوگوں کی بدحالی اور انجام کار عذاب شدید کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ کے دشمنوں کافروں سے دوستی رکھیں، کفار خواہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ یا دوسرے اقسام کے کفار کسی مسلمان کے لئے دلی دوستی کسی سے جائز نہیں اور وہ عقلاً ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ مومن کا اصل سرمایہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے کفار اللہ تعالیٰ کے مخالف اور دشمن ہیں اور جس شخص کے دل میں کسی شخص کی سچی محبت اور دوستی ہو اس سے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس کے دشمن سے بھی محبت اور دوستی رکھے، اسی لئے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں اور جو مسلمان کسی کافر سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرہ میں شامل سمجھے جانے کی وعید آئی ہے لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا یا تجارتی اور اقتصادی معاملات ان سے کرنا، دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا کھلا ہوا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا اپنے دین کے لئے مضر نہ ہو اپنے ایمان اور عمل میں سستی پیدا نہ کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی مضر نہ ہو۔ اس مسئلہ میں مولات اور مواسات اور معاملات کے فرق کی پوری تفصیل سورة آل عمران (آیت) لا یتخذ المومنون الکفرین اولیا کے تحت معارف القرآن جلد دوم صفحہ 45 تا 49 میں گزر چکی ہے وہاں مطالعہ کرلیا جائے۔ ویحلفون علے الکذب، بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن نبتل منافق کے بارے میں نازل ہوئی جس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ تشریف رکھتے تھے تو فرمایا کہ اب تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا قلب قلب جبار ہے اور جو شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اس کے بعد ہی عبداللہ بن نبتل منافق داخل ہوا جو نیلگوں چشم، گندم گوں، پست قد، خفیف اللحیہ تھا، آپ نے اس سے فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ اس نے حلف کھا کے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا، پھر اپنے ساتھیوں کو بھی بلالیا انہوں نے بھی یہ جھوٹا حلف کرلیا، حق تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے جھوٹ کی خبر دے دی (قرطبی) Show more