Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 16

سورة المجادلة

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۶﴾

They took their [false] oaths as a cover, so they averted [people] from the way of Allah , and for them is a humiliating punishment.

ان لوگوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ... They have made their oaths a screen. Thus they hinder (others) from the path of Allah, meaning, the hypocrites pretended to be believers and concealed disbelief under the shield of their false oaths. Many were unaware of their true stance and were thus deceived by their oaths. Because of this, some people were hindered fro... m the Path of Allah ... فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ so they shall have a humiliating torment. meaning, as recompense for belittling the significance of swearing by the Mighty Name of Allah, while lying and concealing betrayal. Allah the Exalted said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 6 ۔ 1 ایمان، یمین، کی جمع ہے بمعنی قسم۔ یعنی قسم جس طرح ڈھال سے دشمن کے وار کو روک کر اپنا بچاؤ کرلیا جاتا ہے اسی طرح انہوں نے اپنی قسموں کو مسلمانوں کی تلواروں سے بچنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے۔ 1 6 ۔ 2 یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر یہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ا... ن کے بارے میں حقیقت واقعیہ کا علم نہیں ہوتا اور وہ ان کے غرے میں آکر قبول اسلام سے محروم رہتے ہیں اور یوں یہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کا جرم بھی کرتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] یعنی ایک طرف تو منافق مسلمانوں کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کی قسمیں کھا کر ان کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے جان اور مال محفوظ ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسلام، اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شکوک و شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلا... م قبول کرنے سے باز رہیں کہ جب گھر کے بھیدی ایسی خبریں دے رہے ہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً ۔۔۔۔۔: یعنی ایک طرف انہوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال بچانے کے لیے مسلمان ہونے کی جھوٹی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور دوسری طرف وہ مسلمانوں کے اندر رہ کر جب موقع ملتا ہے شکوک و شبہات پیدا کر کے بہت سے لوگوں کو جہاد فی سبیل اللہ سے روک دیتے ہیں ۔ مزید دیکھئے سورة...  ٔ آل عمران (١٥٦، ١٦٨) نساء (٧٢) اور سورة ٔ احزاب (١٨) ۔ ٢۔ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ : دنیا میں یہ رسوائی کہ نہ مسلمانوں میں ان کی کوئی عزت ہے اور نہ کفار میں سے کوئی ان پر اعتماد کرتا ہے اور قیامت کے دن ان کے لیے ” الدرک الاسفل من النار “ کی شکل میں عذاب تیار ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝ ١٦ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ ... [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ جُنَّةً والمِجَنُّ والمِجَنَّة : الترس الذي يجنّ صاحبه . قال عزّ وجل : اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً [ المجادلة/ 16] ، وفي الحدیث :«الصّوم جنّة» ۔ المجن والمجنۃ ڈھال ۔ کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بچاتا اور چھپاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً [ المجادلة/ 16] انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے ۔ اور حدیث میں ہے :۔ الصوم جنۃ کہ روزہ ڈھال ہے صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

انہوں نے اپنی جھوٹٰ قسموں کو قتل سے بچاؤ کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے اور خفیہ طور پر لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے لیے ذلت والا عذاب ہونے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً } ” انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے “ یہ لوگ جھوٹی قسموں کو اپنی کمزوریوں کی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جہاں کہیں کسی کی کسی بات پر گرفت ہوتی ‘ وہ فوراً قسمیں کھانا شروع کردیتا کہ اللہ کی قسم اصل میں یہ معاملہ یوں نہیں تھا بلکہ یوں تھا۔ اس ط... رح اس کا مخاطب مروّت میں آکر خاموشی اختیار کرلیتا۔ { فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ۔ } ” پس وہ اللہ کے راستے سے رک گئے ہیں (اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں) پس ان کے لیے اہانت آمیز عذاب ہے۔ “ صَدَّ یَصُدُّ کے معنی خود رکنا بھی ہیں اور دوسروں کو روکنا بھی ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 That is on the one hand, they swear oaths to their faith and fidelity to make the Muslims believe that they belong to them, and on the other, they sow doubts and suspicions against Islam and the followers of Islam and the Prophet of Islam in the hearts of the people, so that they should turn away from Islam in disgust taking their word to be a true inside picture of Islam, coming from the 'Musl... ims" them selves.  Show more

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :34 مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے ایمان اور اپنی وفاداری کی قسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچے رہتے ہیں ، اور دوسری طرف اسلام اور اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلام قبول کرنے سے ب... از رہیں کہ جب گھر کے بھیدی یہ خبریں دے رہے ہیں تو ضرور اندر کچھ دال میں کالا ہو گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یعنی جس طرح ڈھال سے تلوار کے وار کو روکا جاتا ہے، یہ لوگ سازشیں کرنے کے باوجود قسمیں کھاکر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دِلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی طرف سے کسی جوابی کاروائی سے بچ سکیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:16) اتخذوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ اتخاذ (افتعال) مصدر۔ انہوں نے ٹھہرا لیا۔ انہوں نے اختیار کرلیا۔ ایمانھم : مضاف مضاف الیہ۔ اپنی قسموں کو۔ ایمان جمع ہے اس کا واحد یمین ہے۔ یمین کے معنی اصل میں تو وہ اپنے ہاتھ کے ہیں۔ معاہدہ کرنے والا حلیف جو دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے۔ یمین حلف کے معنی میں ا... سی فعل سے مستعار لیا گیا ہے۔ جنۃ : سپر، ڈھال، آڑ، پردہ، جنن جمع ہے۔ جن سے مشتق ہے چونکہ ڈھال سے جسم کو چھپایا جاتا ہے اس لئے اس کو جنۃ کہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے (اپنے بچاؤ کے لئے) ۔ فصدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ صدو صدود (باب نصر) مصدر سے پھر خڈا کی راہ سے دوسروں کو روکتے ہیں۔ عذاب مھین : موصوف و صفت۔ مھین اسم فاعل واحد مذکر اھانۃ (افعال) مصدر۔ ذلیل و خوار کرنے والا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جیسے ڈھال سے تلوار کا حملہ روکا جاتا ہے، اسی طرح یہ منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں سے اپنی جان اور اپنا مال بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق صرف جھوٹ ہی نہیں بولتا بلکہ اکثر طور پر جھوٹی قسمیں بھی اٹھاتا ہے۔ قرآن مجید نے منافقین کے بارے میں کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ منافقین نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں انہیں ذلّت ناک عذاب ہوگا اور قیامت کے دن ان کے مال اور اولاد ”...  اللہ “ کے ہاں کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے، یہ جہنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ان سب کو قیامت کے دن اپنے حضور پیش کرے گا تو وہ اس کے سامنے اسی طرح جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے جس طرح لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں اٹھایا کرتے تھے۔ وہ خیال کریں گے کہ جس طرح دنیا میں جھوٹی قسمیں اٹھانے سے ہم اپنا کام نکال لیا کرتے تھے یہاں بھی جھوٹی قسموں کے ذریعے نجات پاجائیں گے حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سے واقف ہے اس لیے وہاں ان کی قسمیں ان کے کام نہیں آئیں گی۔ جھوٹا انسان عام طور پر مالی فائدے اور اپنی اولاد کی خاطر جھوٹ بولتا ہے۔ اس لیے یہاں بالخصوص مال اور اولاد کا ذکر فرماکر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ جس مال اور اولاد کی خاطر عام لوگ اور منافق جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں قیامت کے دن مال اور اولاد انہیں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ منافق شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی گفتار اور کردار سے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اس لیے انہیں ذلّت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ منافقین کو جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں پھینکا جائے گا، وہاں ان کی کوئی مدد نہیں کرپائے گا۔ ( النساء : ١٤٥) (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرّے (رض) خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ) ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ ناکام اور نامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا تہہ بندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ “ مسائل ١۔ منافق لوگ اپنی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ٣۔ منافقین کو قیامت کے دن ان کا مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ ٤۔ منافق اپنی عادت کے مطابق قیامت کے دن بھی جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے۔ ٥۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے کیونکہ وہ اپنے ایمان اور گفتار میں جھوٹے ہیں۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) ان منافقوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں پس ان لوگوں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ہے۔ یعنی سخت بھی اور رسوا کن بھی۔