12 "So that you may believe": "So that you may adopt the attitude of a true and sincere believer. " Obviously, the addressees of this vase arc not the pagans and polytheists, but the Muslims who had already affirmed the Faith To tell them after reciting before them a Shari'ah injunction: "This is being enjoined so that you may believe in Allah and His Messenger," clearly signifies that the conduct of the person who continues to follow the traditional law of paganism even after hearing the, Divine command would be contradictory to his profession of the Faith. It is not the character of a believer that when Allah and His Messener have prescribed a law for him in some matter of life, he should set it aside and follow some other law of the world, or go on following his own whites and desires.
13 Here "disbeliever" dces not imply the denier of AIlah and His Messenger, but the person who adopts the attitude and conduct of a disbeliever even after affirming faith in AIIah and His Messenger. In other words, it means: `This, in fact, is a characteristic of the disbelievers that even after hearing the Command of Allah and His Messenger, they should go on following their own whims, and continue to practice the customs of ignorance, for a true and sincere believer would never adopt such an attitude. The same thing has been said in Surah AI-`Imran after enjoining the imperative duty of Hajj: "And the one who disbelieves (i.e. does not obey this commandment), then Allah is Self-Sufficient and does not stand in need of anyone in the worlds." (v. 97) At neither place has the word "kufr" been used in the sense that whoever continues to have marital relations with the wife after zihar without making the expiation, or thinks that divorce has taken place by the mere pronouncement of zihar on the wife, or does not go to perform Hajj, in spite of the means, should be declared an apostate and disbeliever by the religious court and regarded as excommunicated by the Muslims. But it means that in the sight of Allah such people as may reject His Commandments by word or deed, or may Ieast bother to know as to what bounds their Lord has set for them, what He has forbidden and what He has enjoined, what He has made lawful and what unlawful, arc not counted among the believers.
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :14
مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجائے کچھ دوسری حدیں مقرر کر لینا ہے ۔ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کر لیتے ہیں ۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یعادو نھما ویشاقونھما اویضعون او یختارون حدوداً غیر حدودھما ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں ، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کر لیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں ۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوئے شیخ الاسلام سعد اللہ چلَپی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کر لیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے ۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی ( یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی ) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے ، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جائے کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے ، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :15
اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا ، ہلاک کرنا ، لعنت کرنا ، راندہ درگاہ کر دینا دھکے دے کر نکال دینا ، تذلیل کرنا ۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ چکی ہیں اس سے وہ لوگ ہرگز نہ بچ سکیں گے جو اب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں ۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بنائے ، یا دوسروں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوئے ، اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں ، بد درازیوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا ۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے چلا جائے ۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی ، نہ اس رسول کی امت سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے ۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :16
سیاق عبارت پر غور کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہاں اس روش کی دو سزاؤں کا ذکر ہے ۔ ایک کبُت ، یعنی وہ خوای و رسوائی جو اس دنیا میں ہوئی اور ہو گی ۔ دوسرے عذاب مہین ، یعنی ذلت کا وہ عذاب جو آخرت میں ہونے والا ہے ۔