Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 5

سورة المجادلة

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ کُبِتُوۡا کَمَا کُبِتَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ۚ﴿۵﴾

Indeed, those who oppose Allah and His Messenger are abased as those before them were abased. And We have certainly sent down verses of clear evidence. And for the disbelievers is a humiliating punishment.

بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کئے گئے تھے اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لئے تو ذلت والا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Explaining the Punishment of the Enemies of the Religion Allah states that those who defy Him and His Messenger and contradict His commandments, إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ... Verily, those who oppose Allah and His Messenger, Allah states that those who defy Him and His Messenger and contradict His commandments, ... كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... will be disgraced as those before them were disgraced, meaning, they will be humiliated, cursed and disgraced, just as what happened to their like were before them, ... وَقَدْ أَنزَلْنَا ايَاتٍ بَيِّنَاتٍ ... And We have sent down clear Ayat. meaning, none contradicts or opposes them, except a disbeliever, rebellious, sinner, ... وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ And for the disbelievers is a disgraceful torment. meaning, as just recompense for their arrogant refusal to follow, obey and submit to the religion of Allah. Allah the Exalted said,

احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے اور احکام شرع سے سرتابی کرنے والے ذلت ادبار نحوست اور پھٹکار کے لائق ہیں جس طرح ان سے اگلے انہی اعمال کے باعث برباد اور رسوا کردیئے گئے ، اسی طرح واضح ، اس قدر ظاہر ، اتنی صاف اور ایسی کھلی ہوئی آیتیں بیان کردی ہیں اور نشانیاں ظاہر کردی ہیں کہ سوائے اس کے جس کے دل میں سرکشی ہو کوئی ان سے انکار کر نہیں سکتا اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ایسے کفار کیلئے یہاں کی ذلت کے بعد وہاں کے بھی اہانت والے عذاب ہیں ، یہاں ان کے تکبر نے اللہ کی طرف جھکنے سے روکا وہاں اس کے بدلے انہیں بے انتہا ذلیل کیا جائے گا ، خوب روندا جائے گا ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا اور جو بھلائی برائی جس کسی نے کی تھی اس سے اسے آگاہ کرے گا ۔ گو یہ بھول گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اسے یاد رکھا تھا اس کے فرشتوں نے اسے لکھ رکھا تھا ۔ نہ تو اللہ پر کوئ چیز چھپ سکے نہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ تم جہاں ہو جس حالت میں ہو نہ تمہاری باتیں اللہ کے سننے سے رہ سکیں نہ تمہاری حالتیں اللہ کے دیکھنے سے پوشیدہ رہیں اس کے علم نے ساری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے اسے ہر زبان و مکان کی اطلاع ہر وقت ہے ، وہ زمین و آسمان کی تمام تر کائنات سے باعلم ہے ، تین شخص آپس میں مل کر نہایت پوشیدگی ، رازداری کے ساتھ اپنی باتیں ظاہر کریں انہیں وہ سنتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تین ہی نہ سمجھیں بلکہ اپنا چوتھا اللہ کو گنیں اور جو پانچ شخص تنہائی میں رازداریاں کر رہے ہیں وہ چھٹا اللہ کو جانیں پھر جو اس سے کم ہوں یا اس سے زیادہ ہوں ، وہ بھی یقین رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کے ساتھ ان کا اللہ ہے یعنی ان کے حال و قال سے مطلع ہے ان کے کلام کو سن رہا ہے اور ان کی حالتوں کو دیکھ رہا ہے پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے فرشتے بھی لکھتے جا رہے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 78؀ۚ ) 9- التوبہ:78 ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو بخوبی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پر اطلاع رکھنے والا ہے ، اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀ ) 43- الزخرف:80 ) کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں ، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے ، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ ۔ بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے ، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں ، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم بیان پر کیا ( مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے ۔ مترجم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 کتبوا، ماضی مجہول کا صیغہ ہے مستقبل میں ہونے والے واقعے کو ماضی سے تعبیر کر کے واضح کردیا کہ اس کا وقوع اور تحقق اسی طرح یقینی ہے جیسے کہ وہ ہوچکا ہے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ مشرکین مکہ بدر والے دن ذلیل کیے گئے کچھ مارے گئے کچھ قیدی ہوگئے اور مسلمان ان پر غالب رہے مسلمانوں کا غلبہ بھی ان کے حق میں نہایت ذلت تھا۔ 5۔ 2 اس سے مراد گزشتہ امتیں ہیں جو اسی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] حاد کا لغوی مفہوم :۔ (یُحَادُّوْنَ ) ۔ حد النظر بمعنی تیز نظر سے گھورنا اور حادَّ سے مراد ایسی مخالفت اور دشمنی ہے جس سے انسان غضب ناک ہو کر مقابلہ اور انتقام پر تل آئے۔ مخالفت کی ابتدائی شکل تو یہ ہے کہ انسان اللہ کا حکم تسلیم نہ کرے۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا شروع کردے اور تیسرا اقدام یہ ہے کہ اللہ کے قانون یا سزا یا تعزیر کے بجائے کوئی دوسری سزا یا تعزیر مقرر کرلے اور اللہ کے احکام کو نظر انداز کر دے۔ یا اس کی مخالفت میں آکر شرعی احکام کو مصلحت پر مبنی ہونے کے بجائے اسے معاشرہ کے لیے نقصان دہ یا غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سب صورتیں حاد کے ضمن میں آتی ہیں۔ [٦] کَبَتَ کے معنی کسی کو غصہ کی حالت میں ذلیل و رسوا کرنا اور دھکے مار کر باہر نکال دینا اور ہلاک کرنا سب معنوں میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو قومیں اللہ کے احکام کی مخالفت پر اتر آئی تھیں۔ اللہ نے انہیں ذلیل و رسوا کردیا تھا۔ اور اگر اب تم وہی کام کرو گے تو تمہارا بھی ویسا ہی انجام ہوگا۔ دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوگے اور آخرت میں جو عذاب دیا جائے گا وہ بھی ذلیل و رسوا کرنے والا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ ۔۔۔۔:” یحادون “ ” حد “ سے مشتق ہے جس کا معنی جانب ہے۔ ایک مغاعلہ عموماً مقابلہ کے معنی کے لیے آتا ہے ، یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، اللہ اور اس کے رسول ایک جانب ہوں تو وہ ان کے مقابلے میں دوسری جانب ہوتے ہیں ۔” کبتوا “ ” کبت یکبت کبتا “ (ض) ذلیل کرنا ، ہلاک کرنا ، لعنت کرنا ، دھکے دے کر نکال دینا ۔ اللہ تعالیٰ نے شروع سورت سے یہاں تک ظہار کی حرمت اور اس کے کفارہ کے احکام بیان فرمائے اور بتایا کہ یہ احکام اس لیے مقرر کیے گئے ہیں کہ لوگ ظہار اور اس جیسی بری رسوم سے باز آجائیں جن کے وہ جاہلیت میں عادی تھے ، تا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کے خوگر ہوجائیں اور ان کے احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل کریں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کریں گے ، ان کے احکام کی نافرمانی کریں گے اور ان کے مقابلے پر اتر آئیں گے انہیں دنیا میں ذلیل کیا جائے گا ، جس طرح ان قوموں کو ذلیل کیا گیا ، جنہوں نے ان سے پہلے اللہ اور اس کے رسولوں کی مخالفت کی اور یہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور ان کا انکار کرنے والوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ٢۔” کبتوا “ ماضی مجہول کا صیغہ ہے، لفظی معنی ہے ” ذلیل کیے گئے “۔ مراد یہ ہے کہ “ ذلیل کیے جائیں گے “۔ آئندہ ہونے والی بات کو ماضی کے صیغے کے ساتھ اس لیے فرمایا کہ اس کا ہونا اتنا یقینی ہے کہ سمجھویہ کام ہی ہوچکا ہے ۔ اس میں کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بدر اور دوسرے معرکوں میں کفار اور ان کے مدد گار یہود و منافقین بری طرح ذلیل ہوئے ، انہیں شکستوں پر شکستیں ہوئیں اور انہیں قتل ، قید مال و اولاد سے محرومی ، غلامی اور جلا وطنی کی ذلتیں اٹھانا پڑیں ، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں مکہ فتح ہوگیا ۔ پھر پورے جزیرۂ عرب پر اسلام کے مکمل غلبے کے ساتھ کفار و منافقین پر ذلت و رسوال کی مہر ثبت ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کے ہاتھوں مشرق سے مغرب تک اسلام غالب ہوا اور کفار و منافقین ذلیل و رسوا ہوئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Fate of those who Challenge Allah and His Apostle إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (Surely those who oppose Allah and His Messenger shall be disgraced, just as those before them were disgraced....58:5). In the preceding verse, stress was laid on keeping to Divine limits and to the sacred laws of Islam. The current verse warns those who oppose or reject them. Their profane designs shall be foiled and they shall be humiliated in this world and a condign torment shall be inflicted on them in the Hereafter.

(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ كُبِتُوْا كَـمَا كُبِتَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ، سابقہ آیت میں حدود اللہ اور شریعت اسلام کے احکام کی پابندی کی تاکید کی تھی، اس میں ان لوگوں پر وعید ہے جو حدود اللہ کے مخالف اور منکر ہیں، اس وعید میں ان کے لئے دنیا میں بھی انجام کار ذلت و خواری اور ان کے کفر یہ عزائم کی ناکامی کا بیان ہے اور آخرت میں عذاب الیم کا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ كُبِتُوْا كَـمَا كُبِتَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝ ٠ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝ ٥ ۚ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . والحدید معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ. ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے حدید لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ كبت الْكَبْتُ : الرّدّ بعنف وتذلیل . قال تعالی: كُبِتُوا كَما كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ [ المجادلة/ 5] ، وقال : لِيَقْطَعَ طَرَفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خائِبِينَ [ آل عمران/ 127] . ( ک ب ت ) الکبت ( ض ) کسی کو سختی اور ذلت کے ساتھ واپس کردینا ۔ قرآن میں ہے : كُبِتُوا كَما كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ [ المجادلة/ 5] وہ اسی طرح ذلیل کئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کئے گئے تھے ۔ لِيَقْطَعَ طَرَفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خائِبِينَ [ آل عمران/ 127]( یہ خدا نے ) اس لئے ( کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک ، یا ( نہیں ذلیل ومغلوب کر دے کہ ( جیسے آئے تھے ویسے ہی ) ناکام واپس چلے جائیں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو لوگ دین میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور اس سے دشمنی رکھتے ہیں یعنی وہ کفار مکہ وہ خندق کے دن اس طرح قتل و شکست کے ساتھ پکڑے جائیں گے جیسا کہ ان سے پہلے لوگ ذلیل و خوار کیے گئے جنہوں نے انبیاء کرام سے قتال کیا اور ہم نے بذریعہ جبریل امین اور امر و نواہی حلال و حرام کے بارے میں احکامات نازل کیے ہیں اور احکام خداوندی کا انکار کرنے والوں کو ذلت کا عذاب یا یہ کہ سخت ترین عذاب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ } ” یقینا وہ لوگ جو تل گئے ہیں مخالفت کرنے پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی “ اس مضمون کا تعلق سورة الحدید کے مرکزی مضمون کے ساتھ ہے۔ سورة الحدید کی آیت ٢٥ میں انبیاء و رسل (علیہ السلام) کی بعثت اور کتاب و میزان کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے : لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ تاکہ انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے نظامِ عدل وقسط کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ اب ظاہر ہے اہل ایمان جونہی اس مشن کے علمبردار بن کر اٹھیں گے تو شیطانی قوتیں بھی ان کا راستہ روکنے کے لیے پوری قوت سے سرگرم عمل ہوجائیں گی ۔ ان حالات میں معاشرے کا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ نظام عدل و قسط کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ لوگ تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کے حقوق ملیں۔ چناچہ وہ اپنے تمامتر وسائل کے ساتھ روایتی (ظالمانہ) نظام کے دفاع کے لیے میدان میں کود پڑیں گے۔ اس طرح فریقین کے درمیان ایک بھرپور کشمکش کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ آیت زیر مطالعہ میں انہی قوتوں کی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ آئندہ آیات میں ان دونوں گروہوں کے کردار اور رویے کا ذکر حزب اللہ اور حزب الشیطان کے نام سے آئے گا۔ واضح رہے کہ لفظ یُحَادُّوْنَ کا تعلق بھی حدید (سورۃ الحدید ‘ آیت ٢٥) ہی سے ہے۔ یہ حدّ سے باب مفاعلہ ہے ‘ جیسے جہد سے مجاہدہ یا قتل سے مقاتلہ۔ چناچہ اس لفظ میں پوری قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی مخالفت کرنے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مراد اللہ کا دین ہے اور یہ مخالفت جس کا یہاں ذکر ہے وہ دراصل اللہ کے دین کی مخالفت ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکومت جو پوری دنیا میں قائم ہے اسے تو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اسی طرح اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نہیں ۔ چناچہ دنیا میں جہاں کہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی جاتی ہے وہ بھی اللہ کے دین کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے۔ اس نکتہ کو سورة الانعام کی اس آیت میں یوں واضح کیا گیا ہے : { فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰـکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ۔ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں “۔ چناچہ باطل قوتوں کی اصل دشمنی اللہ کے دین سے ہے ‘ اور یہ دین بھی جب تک کتابوں اور لائبریریوں تک محدود رہے تب تک اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دینی مسائل کے بارے میں کوئی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرے ‘ مقالے لکھے ‘ کتابیں تصنیف کرے ‘ کسی کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ لیکن جب کوئی اللہ کا بندہ یہ دعویٰ کرے کہ ہم اللہ کے دین اور اس کے دیے ہوئے نظامِ عدل و قسط کی معاشرے میں بالفعل ترویج و تنفیذ چاہتے ہیں تو اس کی یہ بات باطل پسند قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ یہ لوگ ایسی کسی بھی کوشش کا راستہ روکنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ { کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ” وہ ذلیل و خوار کردیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں “ ان سے پہلے قوم فرعون ‘ قومِ عاد اور بہت سی دوسری اقوام نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں (علیہ السلام) کی مخالفت کی یہی روش اختیار کر کے اپنی بربادی کو دعوت دی تھی۔ چناچہ جو انجام مذکورہ اقوام کا ہوا ویسے ہی انجام سے اب یہ لوگ یعنی قریش مکہ بھی دوچار ہونے والے ہیں۔ { وَقَدْ اَنْزَلْنَـآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ } ” اور ہم اتار چکے ہیں روشن آیات۔ “ یعنی قرآن میں گزشتہ اقوام کے واقعات بہت تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر قومیں قریش مکہ کی نسبت بہت طاقتور تھیں۔ جب ایسی طاقتور اقوام بھی اپنے پیغمبروں کے انکار کی بنا پر صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں تو آج ان لوگوں کی سرکشی و نافرمانی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ { وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ۔ } ” اور کافروں کے لیے بہت ذلت والاعذاب ہے۔ “ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کو دنیا میں بھی ہزیمت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں بھی انہیں بہت رسوا کن عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 "So that you may believe": "So that you may adopt the attitude of a true and sincere believer. " Obviously, the addressees of this vase arc not the pagans and polytheists, but the Muslims who had already affirmed the Faith To tell them after reciting before them a Shari'ah injunction: "This is being enjoined so that you may believe in Allah and His Messenger," clearly signifies that the conduct of the person who continues to follow the traditional law of paganism even after hearing the, Divine command would be contradictory to his profession of the Faith. It is not the character of a believer that when Allah and His Messener have prescribed a law for him in some matter of life, he should set it aside and follow some other law of the world, or go on following his own whites and desires. 13 Here "disbeliever" dces not imply the denier of AIlah and His Messenger, but the person who adopts the attitude and conduct of a disbeliever even after affirming faith in AIIah and His Messenger. In other words, it means: `This, in fact, is a characteristic of the disbelievers that even after hearing the Command of Allah and His Messenger, they should go on following their own whims, and continue to practice the customs of ignorance, for a true and sincere believer would never adopt such an attitude. The same thing has been said in Surah AI-`Imran after enjoining the imperative duty of Hajj: "And the one who disbelieves (i.e. does not obey this commandment), then Allah is Self-Sufficient and does not stand in need of anyone in the worlds." (v. 97) At neither place has the word "kufr" been used in the sense that whoever continues to have marital relations with the wife after zihar without making the expiation, or thinks that divorce has taken place by the mere pronouncement of zihar on the wife, or does not go to perform Hajj, in spite of the means, should be declared an apostate and disbeliever by the religious court and regarded as excommunicated by the Muslims. But it means that in the sight of Allah such people as may reject His Commandments by word or deed, or may Ieast bother to know as to what bounds their Lord has set for them, what He has forbidden and what He has enjoined, what He has made lawful and what unlawful, arc not counted among the believers.

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :14 مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجائے کچھ دوسری حدیں مقرر کر لینا ہے ۔ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کر لیتے ہیں ۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یعادو نھما ویشاقونھما اویضعون او یختارون حدوداً غیر حدودھما ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں ، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کر لیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں ۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوئے شیخ الاسلام سعد اللہ چلَپی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کر لیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے ۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی ( یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی ) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے ، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جائے کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے ، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا ، ہلاک کرنا ، لعنت کرنا ، راندہ درگاہ کر دینا دھکے دے کر نکال دینا ، تذلیل کرنا ۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ چکی ہیں اس سے وہ لوگ ہرگز نہ بچ سکیں گے جو اب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں ۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بنائے ، یا دوسروں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوئے ، اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں ، بد درازیوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا ۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے چلا جائے ۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی ، نہ اس رسول کی امت سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :16 سیاق عبارت پر غور کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہاں اس روش کی دو سزاؤں کا ذکر ہے ۔ ایک کبُت ، یعنی وہ خوای و رسوائی جو اس دنیا میں ہوئی اور ہو گی ۔ دوسرے عذاب مہین ، یعنی ذلت کا وہ عذاب جو آخرت میں ہونے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:5) یحادون مضارع جمع مذکر غائب محادۃ (مفاعلۃ) مصدر سے وہ مخالفت کرتے ہیں۔ کبتوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ کبت (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی زمین پر گرا دینا۔ دشمن کو ذلیل و خوار کرنا۔ وہ ذلیل کئے جائیں گے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ لیقطع طرفا من الذین کفروا او یکبتہم فینقلبوا خائبین (3:27) (یہ خدا نے) اس لئے (کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک یا انہیں ذلیل و مغلوب کر دے۔ کہ (جیسے آئے تھے ویسے ہی) ناکام واپس جائیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 کھلی کھلی نشانیوں (یا آیتوں) سے مراد وہ نشانیاں (آیتیں) ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر ناقابل تردید شہادت پیش کرتی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ خواہ کسی حکم میں مخالفت کریں۔ 7۔ اس لئے ان کا انکار لا محالہ موجب سزا ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حدود اللہ کا خیال نہ رکھنے والوں کی دنیا میں سزا۔ جو لگ اللہ کی مقرر کردہ حدود کا خیال اور احترام نہیں کرتے حقیقت یہ ہے کہ وہ ” اللہ “ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ اسی طرح ہی ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اپنے احکام نازل کردیئے ہیں جو ان کو نہیں مانتے انہیں ذلّت ناک عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب لوگوں کو زندہ کرے گا اور پھر انہیں بتلائے گا کہ وہ کیا عمل کیا کرتے تھے۔ لوگ اپنے اعمال کو بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کو شمار کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ حدود اللہ کا خیال نہ رکھنے والے لوگوں کو نہ صرف آخرت میں اذّیت ناک عذاب ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی اسی طرح ذلیل کرے گا جس طرح ان سے پہلے مجرموں کو ذلیل کیا اور قیامت کے دن انہیں ان کے برے اعمال کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ برے اعمال کرنے والے لوگ عام طور پر اپنے کردار کو بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں نہیں بھولتا۔ کیونکہ وہ ہر چیز اس کے احاطہ علم میں رہتی ہے اور ہر وقت اپنی مخلوق کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا اور برے لوگوں کو ان کی برائی کی پوری پوری سزادے گا۔ پہلے ذلیل ہونے والوں میں سر فہرست یہودی ہیں جن میں حدود اللہ توڑنے کی وجہ سے کچھ کو دنیا میں بندر بنادیا گیا اور باقی پر دوسرے لوگوں کو مسلط کرکے ذلیل کیا گیا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَسْخٌ، وَخَسْفٌ، وَقَذْفٌ) (رواہ ابن ماجہ : کتاب الفتن، باب الاٰیاتِ ، ھٰذا حدیث صحیح) ” عبد اللہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے قریب لوگوں کی شکلیں تبدیل ہونا، دھنسایا جانا اور تہمت لگانا عام ہوگا۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اسی طرح ہی ذلیل کرے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو ذلیل کیا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرامین کھول کھول کر بیان کیے ہیں جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں وہ انہیں آخرت میں ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا اور ان سے پورا پورا حساب لے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں ذلیل ہونے والے لوگ : ١۔ یہودی دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ : ٨٥) ٢۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٣۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٣٤، آل عمران : ٥٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ : ٣٣) ٥۔ بچھڑے کے پجاری دنیا وآخرت میں ذلیل ہوئے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٦۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) ٧۔ فحاشی پھیلانے والوں کو دنیا وآخرت میں ذلت اٹھانی پڑے گی۔ (النور : ١٩) ٨۔ دین حق جھٹلانے والوں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ہوگا۔ (الزمر : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پہلے پیراگراف میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ اہل اسلام کے ساتھ کس قدر مہربانی کرنے والا ہے اور جماعت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار ہے۔ یہ دوسرا پیراگراف کافروں کی سرکوبی کے لئے ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور رسول اللہ کی دشمنی پر اتر آئے ہیں یعنی وہ مسلمانوں کی حدود پر متضاد اور مخالفانہ موقف اختیار کرتے ہیں اور محاذ آرائی کرتے ہیں۔ پہلے چونکہ حدود اللہ کا ذکر ہے اور حدود پر جو جھگڑتا ہے وہ دشمن ہوتا ہے یعنی سرحدوں پر جو لڑتا ہے اس لئے یہاں ایسے دشمنان اسلام کا ذکر کردیا گیا۔ جو رسول اللہ کے مقابلے میں حد پر کھڑے ہیں اور مقابلے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس سے دو مقابل فریقوں کی ایک تصویر دی گئی جو حدود پر لڑتے ہیں۔ اس سے کافروں کے اس فعل کی قباحت اور گھناؤنے پن کا اظہار مقصود ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے خالق اور رازق سے لڑنے نکل آئے ہیں اور انہوں نے اللہ کی حدوں پر اپنی شیطانی افواج جمع کررکھی ہیں۔ کبتوا .................... قبلھم (٨٥ : ٥) ” اسی طرح ذلیل و خوار کردیئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں۔ “ راجح بات یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں کے لئے بددعا ہے اور اللہ کی طرف سے بددعا دراصل حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تو فعال لما یرید ہے۔ کبت کے معنی قہر نازل ہونے اور ذلیل کرنے کے ہیں۔ پہلے لوگوں سے مراد یا تو وہ ہیں جو گزر چکے ، انبیائے سابقہ کی امتیں۔ جن کو اللہ نے اسی جرم میں پکڑ لیا ان سے مراد وہ مشرکین اور یہود ہیں جن کو مسلمانوں کے ذریعہ اللہ نے ذلیل کردیا تھا ، ان آیات کے نزول سے پہلے ، مثلاً غزوہ بدر میں۔ وقد .................... بینت (٨٥ : ٥) ” ہم نے تو صاف صاف آیات نازل کردی ہیں۔ “ اس آیت میں ان لوگوں کے انجام کو مفصل اور جدا کرکے بیان کیا ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کرتے ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ اس لئے کہ یہ انجام جو ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ لوگ اس انجام تک کسی جہالت کی وجہ سے نہیں پہنچ رہے یا اس لئے اس انجام تک نہیں پہنچ گئے کہ ان کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ بلکہ ان کو بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھادی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کا اخروی انجام نہایت ہی سبق آموز انداز میں لایا جاتا ہے تاکہ اہل ایمان کی اصلاح اور تربیت ہو۔ وللکفرین .................... شھید (٨٥ : ٦) ” اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ اس دن (یہ ذلت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کرکے اٹھائے گا۔ اور انہیں بتادے گا کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان کا سب کیا دھڑاگن گن کر محفوظ کررکھا ہے اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔ “ یہاں تو توہین آمیز عذاب ، ان کے تکبر کے بدلے ، ان کو دیا جائے گا۔ جب لوگوں کو اللہ اٹھائے گا تو ان نام نہاد بڑوں کو اللہ عوام کے سامنے توہین آمیز عذاب دے گا۔ یہ وہ عذاب ہوگا جو حق پر دیا جائے گا۔ اور ان کا مفصل اعمال نامہ اس کی پشت پر ہوگا جسے یہ اس دن بڑی بےپرواہی سے بھول جائیں گے۔ حالانکہ اللہ نے اسے یوں تیار کیا ہوگا کہ اس میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی ہوگی کیونکہ اللہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ وللہ .................... شھید (٨٥ : ٦) ” اور اللہ ہر ایک چیز پر گواہ ہے۔ “ یہاں رعایت اور فضل وکرم اور جنگ اور انتقام کی دونوں تصاویر آمنے سامنے ہیں۔ اللہ کا علم اور موجود گی ہر جگہ ہے۔ وہ رعایت امداد اور مہربانی کے لئے بھی حاضر ہے اور وہ جنگ اور انتقام اور دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے بھی حاضر ہے۔ لہٰذا اللہ کے حضوری اور موجودگی پر اہل ایمان مطمئن ہوجائیں اور کافر اور دشمن خوفزدہ ہوجائیں۔ یہ کہ اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ اب یہاں اس کی ایک زندہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ یہ اس قدر موثر ہے کہ قلب و شعور کی تاروں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والے ذلیل ہوں گے ان آیات میں کافروں کا دنیا میں ذلیل ہونا اور آخرت میں ذلت کے عذاب میں مبتلا ہونا بیان فرمایا ہے، ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں (جیسے کفار مکہ تھے) وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے جیسے ان سے پہلے لوگ ذلیل ہوچکے ہیں، چناچہ غزوات میں کفار مکہ اور ان کے ساتھی ذلیل ہوئے ان کے ذلیل ہونے کا سبب بھی بتادیا ﴿وَ قَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ﴾ (اور ہم نے کھلی کھلی واضح آیات اتاریں) انہوں نے انہیں تسلیم نہ کیا لہٰذا مستحق سزا ہوئے، دنیا میں تو انہوں نے ذلت کا منہ دیکھ ہی لیا آخرت میں بھی ان کو ذلت کا عذاب ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ان الذین یحادون “ یہ ان کفار و منافقین کے لیے زجر اور تخویف دنیوی واخروی ہے ج خدا اور رسول کے احکام کی مخافلت کرتے اور احکام شریعت پر نعطن کرتے ہیں۔ ان کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا جائیگا۔ جس طرح گذشتہ امتوں کے کافروں کو کیا گیا۔ حالانکہ ہم اسلام، قرآن اور پیغمبر (علیہ السلام) کی صداقت پر واضح اور روشن دلائل قائم کرچکے ہیں کہ انکار و مخالفت کی کئی گنجائش ہی باقی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان معاندین کو دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں مختلف مواقع پر نہایت ذلیل ورسوا کیا۔ جنگ بدر یا جنگ احزاب میں یا دونوں ہی مراد ہوں (بحر، روح) ۔ ” وللکفرین عذاب مھین “ دنیا میں اس ذلت و ناکامی کے علاوہ آخرت میں ان کے لیے اس سے بھی زیادہ رسوا کن عذاب تیار ہے۔ ” یوم یبعثہم اللہ “ ظرف ” مھین “ سے متعلق ہے یا متعلق لام سے منصوب بالظرف المستقر اعنی للکافرین او بمھین (مظہری ج 9 ص 221) ۔ قیام کے دن جب اللہ ان سب کو میدان حشر میں جمع کرے گا، تو انہیں ان کی تمام بد اعمالیوں سے آگاہ فرمائے گا جن کو وہ بھول چکے ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی تمام تفصیلات محفوظ ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ علم وقدرت کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور اوجھل نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل ورسوا کئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل ورسوا کئے گئے اور بیشک ہم نے کھلے کھلے اور واضح احکام نازل کئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے ذلیل ورسوا کن اور خوار کرنے والا عذاب ہے۔ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کا شیوہ اختیار کررکھا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کے درپے رہتے ہیں تو دنیا میں بھی ان کی ذلت و رسوائی اختیار کررکھا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کے درپے رہتے ہیں تو دنیا میں بھی ان ذلت و رسوائی ہوگی جس طرح سابقہ منکرین کے ساتھ بھی یہ سلوک ہوتا رہا ہے اور چونکہ ہم نے احکام واضح طور پر نازل کئے ہیں اور جو لوگ ان احکام واضحہ کا انکار کریں گے تو وہ سزا کے مستوجب ہوں گے اور قیامت میں ان کی توہین اور ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔