Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 8

سورة المجادلة

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۸﴾

Have you not considered those who were forbidden from private conversation, then they return to that which they were forbidden and converse among themselves about sin and aggression and disobedience to the Messenger? And when they come to you, they greet you with that [word] by which Allah does not greet you and say among themselves, "Why does Allah not punish us for what we say?" Sufficient for them is Hell, which they will [enter to] burn, and wretched is the destination.

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں اور آپس میں گناہ کی اور ظلم و زیادتی کی اور نافرمانی ٔ پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالٰی نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لئے جہنم کافی ( سزا ) ہے جس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Evil of the Jews Ibn Abi Najih reported from Mujahid, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ ... Have you not seen those who were forbidden to hold secret counsels, and afterwards returned to that which they had been forbidden, He said, "The Jews." Similar was said by Muqatil bin Hayyan, who added, "The Prophet had a peace treaty with the Jews. When one of the Prophet's Companions would pass by a gathering of Jews, they would speak among themselves in secret, prompting the believer to think that they were plotting to kill or harm him. When the believer saw this, he feared for his safety and changed the route he was taking. The Prophet advised them to abandon their evil secret talks, but they did not listen and kept on holding the Najwa. Allah the Exalted sent down this Ayah in their case, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ ... Have you not seen those who were forbidden to hold secret counsels, and afterwards returned to that which they had been forbidden." Allah's statement, ... وَيَتَنَاجَوْنَ بِالاِْثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ ... and conspired together for sin and wrongdoing and disobedience to the Messenger. means, they used to talk to each other, بِالاْاِثْمِ for sin, which involves themselves, وَالْعُدْوَانِ and wrongdoing, which effects others. They speak about disobedience and defying of the Messenger, with persistence and recommending each other to follow their way, ... وَإِذَا جَاوُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ ... And when they come to you, they greet you with a greeting wherewith Allah greets you not, Ibn Abi Hatim recorded that A'ishah said, "Some Jews came to the Prophet and greeted him by saying, `As-Sam Alayka, O Abul-Qasim.' So I said to them, `wa `Alaykum As-Sam (the same death be upon you).' The Prophet said, يَا عَايِشَةُ إِنَّ اللهَ لاَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلاَا التَّفَحُّش O A'ishah, Allah does not like rudeness and foul speech. I said, `Didn't you hear them say, `As-Sam Alayka' He said, أَوَ مَا سَمِعْتِ أَقُولُ وَعَلَيْكُم Didn't you hear me answering them back by saying, `Wa `Alaykum (And the same upon you)' Allah the Exalted then sent down this Ayah, ... وَإِذَا جَاوُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ ... And when they come to you, they greet you with a greeting wherewith Allah greets you not," The narration collected in the Sahih states that A'ishah said, "And be upon you the death, disgrace and curse." The Messenger of Allah said to her, إِنَّهُ يُسْتَجَابُ لَنَا فِيهِمْ وَلاَ يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِينَا Allah accepts our supplication against them, but not theirs against us. Ibn Jarir recorded that Anas bin Malik said, "A Jew passed by Allah's Messenger, who was sitting with his Companions, he greeted them and they greeted him back. Allah's Messenger then said to his Companions, هَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ Do you know what he just said? They said, `He said: As-Salam, O Allah's Messenger.' The Prophet said, بَلْ قَالَ سَامٌ عَلَيْكُم Rather he said, Sam `Alaykum. (meaning, `may you disgrace your religion') Allah's Messenger then said, رُدُّوه Bring him back, and when he was brought back, the Prophet asked him, أَقُلْتَ سَامٌ عَلَيْكُمْ Did you say: Sam `Alaykum? He said, `Yes.' The Prophet then said, إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقُولُوا عَلَيْك When the people of the Book greet you, say, `Wa `Alaykum' (meaning, `and the same on you too). The basis for the Hadith of Anas is in the Sahih and similar to this Hadith of A'ishah is in the Sahih. Allah said, ... وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلاَ يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ... and say within themselves: "Why should Allah punish us not for what we say" means, the Jews say these words, changing the meaning of the Islamic greeting, into an abusive statement, and then say, `Had he been a Prophet, Allah would have punished us for what we said. Allah knows what we conceal. Therefore, if Muhammad were a Prophet, Allah would have sent His punishment on us sooner, in this life.' Allah the Exalted replied, ... حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ ... Hell will be sufficient for them; Hell should be sufficient for them in the Hereafter, ... يَصْلَوْنَهَا فَبِيْسَ الْمَصِيرُ they will enter therein. And worst indeed is that destination! Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr said, the Jews used to say, "Sam `Alayka," to Allah's Messenger. They would say then within themselves, "Why does Allah not punish us for what we say" This Ayah was later revealed, ... وَإِذَا جَاوُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلاَ يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِيْسَ الْمَصِيرُ And when they come to you, they greet you with a greeting wherewith Allah greets you not, and say within themselves: "Why should Allah punish us not for what we say" Hell will be sufficient for them; they will enter therein. And worst indeed is that destination! Its chain of narration is Hasan, but they (Al-Bukhari and Muslim) did not collect it. Manners of the Najwa, (Secret Counsel) Allah the Exalted teaches His believing servants to avoid the ways of the disbelievers and hypocrites,

معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لئے کہ ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا ، لیکں انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں ، ایک رات کو باری والے آگئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آگئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہوگئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی ، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے ، آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے ( یعنی ریاکاری ) اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے ، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں ۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا السلام علیک یا ابو القاسم حضرت عائشہ سے رہا نہ گیا فرمایا وعلیکم السام ۔ سام کے معنی موت کے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے ۔ میں نے کہا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا ۔ انہوں نے آپ کو السلام نہیں کہا بلکہ السام کہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا وعلیکم ۔ اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا علیکم السام والنام واللعنتہ اور آپ نے صدیقہ کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کو سنانا مقبول ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا صحابہ نے جواب دیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس نے کہا تھا سام علیکم یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آگیا تو آپ نے فرمایا سچ سچ بتا کیا تونے سام علیکم نہیں کہا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہی کہا تھا آپ نے فرمایا سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف علیک کہہ دیا کرو یعنی جو تونے کہا ہو وہ تجھ پر ( ابن جریر وغیرہ ) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے ، حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں ۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے ، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں ۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہوگی اس کے بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کرلے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا فلاں کیا تھا فلاں کیا تھا یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا ، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی ، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہو جاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ( بخاری و مسلم ) ۔ پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لئے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا ، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہئے کہ اعوذ پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔ ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے ، حدیث میں بھی منع آئی ہے ، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہوگا ( بخاری و مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں ( مسلم ) ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہوجاتے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کردیا آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔ 8۔ 2 یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت، الزام تراشی، بےہودہ گوئی ایک دوسرے کو رسول اللہ کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔ 8۔ 3 یعنی اللہ نے سلام کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ تم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو، لیکن یہودی نبی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کی بجائے کہتے السام علیکم یا علیک (تم پر موت وارد ہو) اس لئے رسول اللہ ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے، وعلیکم یا و علیکَ (اور تم پر ہی ہو) اور مسلمانوں کو بھی آپ نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو جواب میں و علیک کہا کرو یعنی علیک ما قلتَ (تو نے جو کہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو (صحیح بخاری) 8۔ 4 یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔ 8۔ 5 اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کی فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے ؟ نہیں یقینا نہیں جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] منافقوں کی سرگوشیاں :۔ ان لوگوں سے مراد مدینہ کے منافق ہیں۔ جو اپنے بعض معاملات کی خاطر مسلمان تو ہوگئے تھے۔ مگر ان کی سب ہمدردیاں کافروں کے ساتھ تھیں چاہے وہ یہود مدینہ ہوں یا قریش مکہ ہوں یا دوسرے عرب قبائل ہوں جو مشرک اور اسلام کے دشمن تھے۔ ان کی کئی قسم کی حرکات قابل گرفت تھیں جن سے مسلمانوں کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ ایک یہ کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں سے خفیہ روابط رکھتے تھے اور مسلمانوں کی نقل و حرکت یا ارادوں سے انہیں باخبر رکھتے تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کی قوت کو کمزور کرنے کے لیے آپس میں خفیہ مجلسیں کرتے تھے۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جہاں چند مسلمانوں کو دیکھا تو آپس میں کھسر پھسر اور کانا پھوسی ان کے سامنے ہی شروع کردی۔ اور اس کا مقصد محض مسلمانوں کو ذہنی کوفت پہنچانا ہوتا تھا۔ اور تیسرا کام وہ یہ کرتے تھے کہ جب رسول اللہ مسلمانوں کو کسی مشورہ یا کام کے لیے بلاتے اور ایسی مجالس میں مسلمان کہلانے کے ناطے سے منافقوں کو بھی بادل ناخواستہ آنا پڑتا تھا۔ اسوقت وہ آپ کو زیرلب وہی سلام کہتے جو انہوں نے یہودیوں سے سیکھا تھا یعنی السلام علیک کے بجائے السام علیک کہا کرتے (یعنی تم پر موت آئے) جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ یہود اور منافقین کا آپ کو السام علیک کہنا :۔ && سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب یہودی تمہیں سلام کہتے ہیں تو سلام کے بجائے سام (یعنی موت) کہتے ہیں۔ تو ان کے جواب میں تم فقط وعلیک کہہ دیا کرو (&& اور تم پر بھی && ) (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف یرد علٰی اھل الذمۃ السلام) سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ چند یہودی رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا السام علیک۔ میں سمجھ گئی اور کہا علیکم السام واللعنۃ (یعنی تم پر موت بھی آئے اور لعنت بھی) آپ نے فرمایا : عائشہ (رض) ! ذرا ٹھہرو ! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے && میں نے عرض کیا : یارسول اللہ آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے تھے ؟ && آپ نے فرمایا : میں نے سن کر ہی انہیں وعلیکم کہا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب ایضاً ) پھر دل میں یہ بھی سوچتے یا آپس میں تبادلہ خیالات کرتے کہ اگر یہ واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے حق میں ہماری اس بددعا کی پاداش میں ہم پر تباہی آچکی ہوتی۔ مگر چونکہ ہماری بددعا کے باوجود ہمارا آج تک کچھ بھی نہیں بگڑا تو ہم یہ کیسے سمجھیں کہ یہ واقعی سچا رسول ہے۔ اللہ نے منافقوں کی ان سب کارروائیوں سے مسلمانوں کو مطلع کردیا اور ان کی مذمت بھی بیان فرمائی۔ لیکن تباہی نازل نہیں کی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جبری اور اضطراری ایمان کے لیے پیدا نہیں کیا۔ البتہ انہیں مرنے کے بعد ان کے برے انجام سے مطلع فرمایا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰی ۔۔۔۔۔: یہاں سے یہود اور منافقین کے طرز عمل پر گرفت کا آغاز ہو رہا ہے ، جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا۔ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر رکھا تھا اور آپ کی مجلسوں میں آتے جاتے تھے اور منافقین بظاہر ایمان لا چکے تھے اور مسلمانوں کی جماعت کے فرد تھے ، مگر ان کی دوستی یہود ہی کے ساتھ تھی ۔ منافقین اور یہود نے اندر ہی اندر اپنا الگ جتھا بنا رکھا تھا، انہیں جب بھی موقع ملتا خفیہ مجالس میں مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے ، فتنہ برپا کرنے اور مشرکین سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے۔ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آتے تو آپس میں کھسر پھسر کرتے رہتے ، جس سے مجلس کی بےوقتی ہوتی اور اس بات کا اظہار ہوتا کہ انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ بعض اوقات وہ آپس میں سر گوشی کرتے ہوئے کسی مسلمان کو دیکھ کر آپس میں آنکھ مارتے ، تا کہ وہ سمجھے کہ وہ اس کے متعلق کوئی بات کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو ان کے اس رویے سے سخت تکلیف ہوتی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایسی مجالس سے منع کیا جن میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ مشورے اور سازشیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی مجلسوں میں علیحدہ سرگوشیوں سے بھی منع کیا ، مگر وہ باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیات نازل فرما کر ان پر اپنی ناراضی کا اظہار فرمایا۔ ٢۔ وَیتَنٰـجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ز : اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے خفیہ مشورے اور سرگوشیاں یا تو ایسے گناہوں پر مشتمل ہوتی تھیں جن کا تعلق ان کی ذات سے تھا یا ایسے گناہوں پر جن میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہوتی ، یا پھر ان کی سرگوشیاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی تھیں۔ ٣۔ وَاِذَاجَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللہ :” حیی یحییٰ حیاۃ “ ( حشیی یخشی) زندہ ہونا ۔ ” حیی یحی تحیۃ “ ( تفعیل) زندگی اور سلامتی کی دعا دینا ، سلام کہنا۔ (دیکھئے نسائ : ٨٦) یعنی جب یہ یہودی اور ان کے ہم نوا منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں تو ایسے الفاظ کے ساتھ آپ کو سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کا ذکر خاص اس آیت میں ہے :(یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ) (الاحزاب : ٥٦)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اس پر صلوٰۃبھیجو اور سلام بھیجو ، خوب سلام بھیجنا “۔ اور ذکر عام اس آیت میں ہے :(قل الحمد للہ وسلم علی عبادہ الذین اصطفی) ( النمل : ٥٩)” کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنہیں اس نے چن لیا “۔ یہودی آپ کو ” السلا م علیکم “ کے بجائے ” السام علیکم “ ( تم پر موت ہو) کہتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین نے بھی یہود کی دیکھا دیکھی یہ کام شروع کردیا تھا، جیسا کہ انہوں نے یہود سے سیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ” راعنا “ گالی کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا تھا ، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور اس کے بجائے ” انظرنا “ کہنے کا حکم دیا۔ ( دیکھئے بقرہ : ١٠٤) عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودی لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انہوں نے کہا :( السام علیک یا ابا القاسم) ” اے ابو لقاسم ! تجھ پر موت ہو۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( وعلیکم) ’ ’ اور وہ تمہی پر ہو “۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں میں نے کہا :( بل علیکم السام والذام) ’ ’ بلکہ تم پر موت اور مذمت ہو “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( یا عائشہ ! لا تکونی فاحشۃ) ” اے عائشہ ! نازیبا الفاظ کہنے والی نہ بن “۔ عائشہ (رض) نے کہا : آپ نے وہ نہیں سنا جو انہوں نے کہا ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( او لیس قد وددت علیھم الذی قالوا ، قلت وعلیکم) ” تو کیا میں نے وہ بات انہی پر لوٹا نہیں دی جو انہوں نے کہی ہے ؟ میں نے کہہ دیا : ” وعلیکم “ کہ ” وہ تمہیں پر ہو ۔ “ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمادی :(واذا جاء وک حیوک بما لم یحیک بہ اللہ)” اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو ( ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کیا “۔ ( مسلم ، السلام ، باب النھی عن ابتداء ، اھل الکتاب بالسلام۔۔۔: ١١، ٢١٦٥، مسند احمد : ٢، ٢٢٩، ٢٣، ح : ٢٥٩٧٨) ٤۔ ا وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللہ ُ بِمَا نَقُوْلُ ط ۔۔۔۔: اور وہ اپنے دل میں یا آپس کی مجلس میں اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول نہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے کہ اگر یہ رسول ہوتے تو یہ الفاظ کہتے ہوئے ہم پر عذاب آجاتا ، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا ہونے کے لیے یہی دلیل کافی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس حرکت سے آگاہ کردیا ۔ رہا عذاب ، تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ گناہ پر اسی وقت گرفت فرمائے ، اس نے تو ان لوگوں کو بھی مہلت دے رکھی ہے جو اسے گالی دیتے ہیں ، تا کہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں مہلت نہیں ملی اور اس نے ہر کام کی طرح ان کے عذاب کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ چناچہ مرنے کے بعد ان کے لیے جہنم کا عذاب تیا ر ہے اور وہ انہیں کافی ہے ، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Circumstances of Revelation There are several incidents related to the revelation of the current set of verses. [ 1] there was a peace agreement between the Jews and Muslims. But when one of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Companions would pass by a gathering of Jews, they would speak among themselves in secret, prompting the believer to think that they were plotting to harm or hurt him. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) advised them to give up their secret plots and conspiracies but they did not heed. As a result, verse أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ was revealed. [ 2] Likewise, the hypocrites used to hold secret counsels or conferences, in consequence of which verses: إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا and إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ were revealed. [ 3] When the Jews came to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they, with a little twist of the tongue, would invoke curses upon him by greeting him mischievously ` As-Samu ` alaykum& اَلسَّم ُ عَلَیکُم [ death to you!] instead of saluting him with the usual اَلسَّلَامُ عَلَیکُم ` As Salamu ` alaykum& [ peace be upon you ]. On this occasion, verse وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ was revealed.. [ 4] Ibn Kathir cites Imam Ahmad&s narration in which it is reported that the Jews used to greet in this way, changing the meaning of Islamic greeting into an abusive statement, and then say, لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّـهُ بِمَا نَقُولُ Had he been a Prophet, Allah would have punished us for the sin we committed - why did He not punish us?&. [ 5] Once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sitting in the suffah of the mosque. The congregation was large in the mosque. Some of the participants of the battle of Badr arrived late and they could not find place to sit, nor did the people sitting in the mosque make room for the late-comers. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked some of the people to stand up and leave. The hypocrites, however, found this objectionable. He also asked the people to spread out and make room for their fellow-believers and he prayed Allah for such people to show His mercy them. Verse يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا was revealed on that occasion. [ Transmitted by Abu Haim ]. Piecing all the elements of the narrations together, it is possible that at first the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) might have asked the Companions (رض) to spread out and make room for their companions. Some of them might have complied and others probably did not. So, the Holy Prophet might have admonished them to stand up and leave as the students of seminaries are admonished to do in a similar situation. Probably, the hypocrites objected to this. [ 6] Some wealthy people used to come to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and consult him in private for a long time which inconvenienced him and the poor people would not get much time to consult him. For this reason, verse إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّ‌سُولَ was revealed. It is cited in Fathul Bayan from Zaid Ibn Aslam, without any authoritative source, that the Jews and hypocrites used to hold unnecessary private conferences with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The Muslims were perturbed by this because they gained the impression that this type of consultation might be harmful. As a result verse نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ was revealed. When they did not heed, verse 12 إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّ‌سُولَ was revealed which required them to spend something in charity before their holding a private conference. At this point the fallacious people stopped from consulting the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلمٍ , because their greed for wealth did not allow them to do so. [ 7] When verse إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّ‌سُولَ was revealed requiring people to give alms before private conferences with the Holy Prophet M, many people stopped even the necessary private consultation with him. So, verse [ 13] أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا was revealed. Maulana Ashraf ` Ali Thanawi رحمۃ اللہ علیہ says that the concluding part of verse [ 12] (...but if you find nothing [ to offer ], then Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful...58:12) had already given a concession to poor people from the requirement of charity before consultation with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . However some people are neither completely destitute nor are they completely wealthy, even though they might have the minimum zakatable wealth. Probably, people in this category might have felt it difficult to advance freewill alms, because on the one hand, their means were limited, and on the other hand, they were unsure whether they were indigent. As a result, they could neither pay the charity, nor could they deem themselves exempt from the requirement of the verse. They felt that consultation was not an act of worship or devotion; and if they abandoned it, it could not be the cause of reproach. Therefore, they stopped consulting altogether. [ All narratives are from Ad-Durr-ul-Manthur ]. These causes of revelation will help and facilitate the comprehension of this passage. [ Bayan-ul-Qur’ an ]. Ethics and Etiquette of Secret Consultation Although the present verses were revealed in some particular events, as detailed above, the rules laid down by them are of general application, regardless of their cause of revelation. Thus the present verses contain instructions about secret or private consultations. They are explained below. Secret conferences are normally convened with special confidants to whom secrets are imparted trustingly. Members of the secret society are satisfied that they will not be betrayed. It is on the basis of this confidence that evil people design plots to oppress someone, or to kill him, or to usurp his wealth and property, and so on. In verse [ 7], Allah mentions that His knowledge is All-encompassing - it encompasses the entire creation. He is observing or watching them, perfectly hearing their speech and seeing them - whether in public or private, wherever and in whatever condition they may be. No plots or conspiracies of any kind are hidden from Him. If they commit any sin, they will not be able to escape the Divine chastisement. Allah is present in all their secret meetings or conferences - no matter how few or many people constitute their assembly. For example, if there are three people in the assembly, Allah will be the fourth one; and if there are five people in the gathering, Allah will be the sixth one - nor numerically less or numerically more but He is with them wheresoever they may be. Verse 7 specifies &three& and &five& numbers probably because Allah prefers that an assembly or congregation should comprise an odd number of members. This is the essence of verse [ 7]. Mischief of the Jews It was narrated earlier that there was a peace treaty between the Holy Prophet and the Jews. During this period, if one of the noble Companions passed by an assembly of the Jews, they would confer secretly among themselves in such a manner as to arouse suspicion and anxiety in the mind of the believer making him think that they were conspiring to injure or hurt him. Verse [ 8] أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ (Did you not see those who were forbidden to hold secret counsels,....58:8) prohibits the holding of such secret conferences. This rule applies not only to the enemies but also to the Muslims, in that they should not hold secret conference to harm or hurt another Muslim. However, the Muslims and others are allowed to hold secret conferences to promote good and righteous causes. A narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas is recorded in Bukhari, Muslim and other authentic collections, according to which the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has stated اِذَا کُنتُم ثلٰثۃً فَلَا یَتَنَاجَا رَجُلَانِ دُونَ الاٰخَرِ حَتّٰی یَختَلِطُوا بِالنَّاسِ فَاِنَّ ذٰلِکَ یَحزُنُہُ , (If you were three, then two of you should not hold secret conference leaving aside the third person [ in another narration of Muslim: &except with his permission&] because this bad manners would cause him anxiety and wound his feelings|", [ i.e. because he will feel estranged or alienated and possibly suspicions may arise that the two are plotting something against him and keeping it as a secret.] [ Mazhari ]

سرگوشی اور مشورہ کے متعلق ایک ہدایت : (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى، واقعہ شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ جس زمانے میں یہود سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ صلح ہوگیا تھا اس وقت وہ کھل کر تو مسلمانوں کے خلاف کوئی کام نہ کرسکتے تھے مگر اسلام اور مسلمانوں سے دل میں بھرا ہوا بغض نکالنے کا ایک یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب صحابہ کرام میں سے کسی کو اپنے قریب آتے دیکھتے تو باہم سرگوشی اور خفیہ مشورہ کی شکل بنا لیتے اور آنے والے مسلمانوں کی طرف کچھ اشارے کرتے جس سے ان کو یہ خیال پیدا ہوتا کہ ہمارے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور اس سے پریشانی اور رنج ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایسی سرگوشی سے منع فرمایا، نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى میں اسی ممانعت کا بیان ہے۔ اس ممانعت سے یہ حکم مسلمانوں کے لئے بھی نکل آیا کہ وہ بھی آپس میں کوئی سرگوشی اور مشورہ اس طرح نہ کریں جس سے دوسرے کسی مسلمان کو ایذاء پہنچے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ اذا کنتم ثلثة فلا یتناجا رجلان دون الاخر حتی یختلطوا بالناس فان ذلک یحزنہ، یعنی جس جگہ تم تین آدمی جمع ہو تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر باہم سرگوشی اور خفیہ باتیں نہ کیا کرو جب تک دوسرے آدمی نہ آجائیں، کیونکہ اس سے اس کی دل شکنی ہوگی (غیریت اور اجنبیت کا احساس ہوگا اور ممکن ہے کہ ایسے شبہات پیدا ہوجائیں کہ شاید یہ دونوں کوئی بات میرے خلاف کر رہے ہیں جو مجھ سے چھپاتے ہیں) (از مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَيَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ۝ ٠ ۡوَاِذَا جَاۗءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِہِ اللہُ۝ ٠ ۙ وَيَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللہُ بِمَا نَقُوْلُ۝ ٠ ۭ حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۚ يَصْلَوْنَہَا۝ ٠ ۚ فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ٨ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ نجو) سرگوشي) والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ( ن ج و ) النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔ عُدْوَانِ ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء/ 30] ، وقوله تعالی: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ، أي : غير باغ لتناول لذّة، وَلا عادٍأي متجاوز سدّ الجوعة . وقیل : غير باغ علی الإمام ولا عَادٍ في المعصية طریق المخبتین «2» . وقد عَدَا طورَهُ : تجاوزه، وتَعَدَّى إلى غيره، ومنه : التَّعَدِّي في الفعل . وتَعْدِيَةُ الفعلِ في النّحو هو تجاوز معنی الفعل من الفاعل إلى المفعول . وما عَدَا كذا يستعمل في الاستثناء، وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب . اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء/ 30] اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشر طی کہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے ۔ میں باغ سے وہ شخص مراد ہے جو لذت اندوزی کے لئے مردار کا گوشت کھانے کی خواہش کرتا ہے اور عاد سے مراد وہ شخص ہے جو قدر کفایت سے تجاوز کرتا ہے بعض نے باغ کے معنی خلیفہ وقت کا باغی اور عاد سے وہ شخص مراد لیا ہے جو عجزو نیاز کرنے والوں کے طریق سے تجاوز کرنے والا ہو اور یہ عدی طور سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اپنے رتبہ سے تجاوز کرنے والا اور اسی سے تعدیتہ فی الفعل ہے اور علم نحو میں فعل کے تعدیتہ سے مراد ہوتا ہے فعل کا اپنے فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچ جانا اور ماعدا کا لفظ استثناء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافربعید کے ناکے پر ۔ میں عدوٹ الدنیا سے مدینہ کی جانب کا کنارہ مراد ہے جو حد قریب سے کچھ دور تھا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ تحیۃ وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها [ النساء/ 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء/ 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : يقال للدّلالة علی الشیء نحو قول الشاعر : 377- امتلأ الحوض وقَالَ قطني الخامس : يقال للعناية الصادقة بالشیء، کقولک : فلان يَقُولُ بکذا . السادس : يستعمله المنطقيّون دون غيرهم في معنی الحدّ ، فيقولون : قَوْلُ الجوهر كذا، وقَوْلُ العرض کذا، أي : حدّهما . السابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفتہ ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ الرجز ) ( 324 ) امتلاالحوض وقال قطنی حوض بھر گیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے ( 5 ) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے فلان یقول بکذا فلان اس کا صدق دل سے خیال رکھتا ہے ( 6 ) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے جیسے قول اجواھر کزا ۔ وقول العرض کزا یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ ہے ( 7 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ، وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] ، أي : رقیبا يحاسبهم عليه، وقوله : ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ، فنحو قوله : عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] ، ونحوه : وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] ، وقیل معناه : ما من کفایتهم عليك، بل اللہ يكفيهم وإياك، من قوله : عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] ، أي : کافیا، من قولهم : حسبي كذا، وقیل : أراد منه عملهم، فسمّاه بالحساب الذي هو منتهى الأعمال . وقیل : احتسب ابْناً له، أي : اعتدّ به عند اللہ الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت : ۔ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] اپنی جانوں کی حفاظت کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور آیت : ۔ وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ان کا حساب ( اعمال ) میرے پروردگار کے ذمے ہے ۔ کے مفہہوم کے مطابق ہے بعض نے آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کو کافی ہونا تمہارا کام نہیں ہے ۔ بلکہ تیرے اور ان کے لئے اللہ ہی کافی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] میں حساب بمعنی کافی ہے اور یہ کے محاورہ سے لیا گیا ہے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اہل کتاب کو کس طرح سلام کہا جائے ؟ قول باری ہے (واذا جآء ک حیوک بما لم یحیک بہ اللہ۔ اور جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایسے لفظ سے آپ کو سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔ ) سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا۔ صحابہ کرام نے اس کے سلام کا جواب دے دیا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں کچھ پتہ چلا کہ اس نے کیا کہا ہے، صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اس نے ہمیں سلام کہا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ” اس نے سا علیکم کہا تھا جس کا مفہوم ہے کہ تم اپنے دین سے اکتا جائو۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ہے کہ ” جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں ” علیک “ کہہ دیا کرو۔ “ یعنی تم نے جو کچھ کہا ہے وہ تم پر پڑے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسحاق بن الحسین نے، انہیں ابو حذیفہ نے، انہیں سفیان نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب راستے پر مشرکین سے تمہارا آمنا سامانا ہوجائے تو سلام کہنے میں تم پہل نہ کرو اور انہیں راستے کے تنگ ترین حصے کی طرف ہٹ جانے پر مجبور کردو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے اس میں ذکر ہے کہ اہل کتاب السام علیکم کہہ کر یہ مراد لیتے تھے کہ مسلمان اپنے دین سے اکتا جائیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ اس لفظ سے وہ لوگ موت مرادلیتے تھے کیونکہ یہ لفظ موت کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہشام نے امام محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ ہمارے خیال میں مشرکین کو ان کے سلام کا جواب دے دیا جائے البتہ انہیں سلام کہنے میں پہل نہ کی جائے۔ امام محمد کا قول ہے کہ ہمارے عام فقہاء کی یہی رائے ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں عمرو بن مرذوق نے، انہیں شعبہ نے منصور سے، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ سے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ہمراہ تھے ہمارے ساتھ کچھ دہقان یعنی چودھری قسم کے غیر مسلم بھی تھے۔ انہوں نے ہمارے راستے سے ہٹ کر ایک اور راستہ اختیار کرلیا، حضرت ابن مسعود (رض) نے انہیں سلام کہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آیا یہ بات آپ کو ناپسند نہیں ؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ یہ حق صحبت ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعود نے انہیں سلام کہنے میں پہل کی تھی۔ کیونکہ سلام کا جواب دینا کسی کے نزدیک مکرو نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے کہ ” جب وہ لوگ تمہیں سلام کہیں تو تم جواب میں ” وعلیکم “ کہہ دیا کرو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلام میں پہل کرنا مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ لفظ اسلام اہل جنت کی نحیت ہے اس لئے یہ بات پسند نہیں کی گئی ہے کہ کافر کو جو اہل جنت میں سے نہیں ہے یہ لفظ کہنے میں پہل کی جائے۔ بدلے کے طور پر سلام کے جواب میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے (واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن المثنی نے، انہیں عثمان نے، انہیں عبدالواحد نے، انہیں سلیمان الاعمش نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے مسئلہ پوچھا کہ میں ایک عیسائی طبیب کے پاس آتا جاتا رہتا ہوں، آیا میں اسے سلام کروں تو ابراہیم نے جواب میں کہا :” اگر اس سے تمہیں کوئی ضرورت پیش آجائے تو سلام کہہ دیا کرو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں کی جن کو مومنین مخلصین کے علاوہ سرگوشی کرنے سے منع کردیا گیا پھر مومنین مخلصین کے علاوہ سرگوشی کرتے ہیں اور گناہ ظلم و زیادتی اور رسول اکرم کی مخالفت کی سرگوشی کرتے ہیں حالانکہ رسول اکرم نے ان کو اس چیز سے منع کردیا تھا اور یہ منافقین کا گروہ تھا جو یہودیوں کے ساتھ ملکر مسلمانوں کی خفیہ باتوں کے بارے میں سرگوشی کیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہو اور جب یہ یہودی آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے لفظ سے سلام کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں فرمایا اور نہ آپ کو حکم دیا ہے اور وہ رسول اکرم کو آکر السام علیکم کہا کرتے تھے آپ انہیں اس کا جواب دے دیتے تھے اور سام کے معنی ان کی لغت میں موت کے تھے اور اپنے دل میں یا آپس میں کہتے ہی کہ اگر یہ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمارے اس طرح کہنے پر ہمیں فورا سزا کیوں نہیں دیتا کیونکہ نبی کی دعا مقبول ہوتی ہے اور آپ ہم پر ہمارے الفاظ لوٹا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آخرت میں ان کی سزا کے لیے جہنم کافی ہے اس میں یہ لوگ داخل ہوں گے سو وہ جہنم جس میں یہ داخل ہوں گے بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ شان نزول : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى (الخ) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم اور یہود کے درمیان باہم صلح تھی، چناچہ جب آپ کے اصحاب میں سے کوئی شخص ادھر سے گزرتا تو یہودی آپس میں سرگوشی کنے بیٹھ جاتے جس سے وہ مسلمان سمجھتا کہ وہ مجھے قتل کرنے یا اور کوئی تکلیف پہنچانے کے بارے میں سرگوشی کر رہے ہیں تو رسول اکرم نے ان یہودیوں کو اس طرح سرگوشی کرنے سے منع کیا مگر وہ اس پر بھی باز نہ آئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ اور امام احمد طبرانی اور بزار نے سند جید کے ساتھ عبداللہ بن عمرو سے روایت نقل کی ہے کہ یہودی رسول اکرم کو کہا کرتے تھے سام علیکم اور اپنے دلوں میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے اس کہنے پر سزا کیوں نہیں دیتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ واذا جاوک حیوک (الخ) ۔ اور اس بارے میں حضرت انس اور حضرت عائشہ سے بھی روایت مروی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُہُوْا عَنْہُ } ” کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں منع کیا گیا تھا نجویٰ سے ‘ پھر وہ اعادہ کر رہے ہیں اسی شے کا جس سے انہیں منع کیا گیا تھا “ یہ مدینہ کے منافقین کا ذکر ہے جو یہودیوں کے ساتھ مل کر ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال ُ بننے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰیکے الفاظ میں سورة النساء کی آیت ١١٤ کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے : { لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹھُمْ } کہ ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ آیت زیر مطالعہ میں سورة النساء کی آیت کے حوالے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سورة المجادلہ ‘ سورة النساء کے بعد نازل ہوئی ۔ { وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ” اور وہ سرگوشیاں کرتے ہیں گناہ ‘ زیادتی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے متعلق۔ “ قبل ازیں سورة النساء کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی اطاعت کا حکم منافقین کو بہت برا لگتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اللہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں ‘ اللہ کی کتاب کے تمام احکام بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں ‘ لیکن اپنے جیسے ایک انسان کی تمام باتوں کو من وعن تسلیم کرنے کو ہم ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی سوچ اور اسی موقف کے تحت وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں پر گاہے بگاہے اعتراضات بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کے ایسے ہی ایک اعتراض کا ذکر سورة محمد کی آیت ٢٠ میں بھی آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتال کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو قریش کے ساتھ خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ شروع کر کے حالات کیوں خراب کیے جا رہے ہیں ؟ { وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ } ” اور جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس (کلمہ) سے دعا دیتے ہیں جس سے اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا نہیں دی “ ” تَحِیَّۃ “ کے لغوی معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے وقت ” حَیَّاکَ اللّٰہُ “ کے جملے کا تبادلہ کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی زندگی دے ‘ یا اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی دراز کرے۔ عرفِ عام میں اس دعا کو ” تحیہ “ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے دو مسلمانوں کی ملاقات کے موقع کے لیے دعائیہ کلمہ (greetings) کے طور پر السَّلام علیکم کے الفاظ کا انتخاب کیا ‘ لیکن تحیہ کا لفظ عربوں کے ہاں چونکہ بہت معروف تھا اس لیے ” السَّلام علیکم “ کو بھی اصطلاحاً ” تحیہ “ ہی کہا جانے لگا۔ سورة النساء کی آیت ٨٦ میں یہ لفظ ” السَّلام علیکم “ ہی کے مفہوم میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں منافقین کی اس شرارت کا ذکر ہے جو وہ اس کلمہ تحیہ کے حوالے سے کرتے تھے۔ جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوتے تو السَّلَام علَیکمکہنے کے بجائے ” السّام علیکم “ کہتے۔ ” سام “ کے معنی موت کے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں موجود مسلمانوں کے لیے اس دعائیہ کلمہ کو (معاذ اللہ ! ) بددعا میں بدل دیتے تھے۔ { وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ } ” اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہمارے اس طرح کہنے پر ؟ “ ایسی حرکت کرنے کے بعد وہ سوچتے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہوتے تو اللہ ان کی یہ توہین کبھی برداشت نہ کرتا اور اس گستاخی پر وہ فوراً ہماری زبانیں کھینچ لیتا ۔ چناچہ ہمارے بار بار ایسا کہنے پر بھی اگر ہمیں کچھ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ یہ مرض منافقت کی وہ سٹیج ہے جس کا ذکر سورة الحدید کی آیت ١٤ میں آچکا ہے۔ اس سٹیج پر منافق شخص کے بچے کھچے ایمان میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایمان کی تھوڑی بہت پونجی بھی برف کی طرح پگھلنے اور ضائع ہونے لگتی ہے۔ { حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” ان کے لیے تو اب جہنم ہی کافی ہے ‘ یہ اس میں داخل ہوں گے ‘ پس وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 This shows that before the revelation of this verse the Holy Prophet (upon whom by Allah's peace) had forbidden the people this practice. Yet when they did not desist, AIIah directly sent down this verse containing His warning and wrath for such people. 22 This was the common practice of the Jews and the hypocrites. According to several traditions, some Jews came before the Holy Prophet (upon be Allah's peace) and said: "As-sam alaika ya abul-Qasim. " That is, they pronounced as-sam `alaika in such a manner as to give the impression that they had said as-salam alaika (peace be on you), which is the Islamic way of greeting. But actually they had said "Sam ", which means death. In response the Holy Prophet said: "wa alaikum. "Hadrat `A'ishah retorted: "May death visit you and the curse of Allah!" The Holy Prophet warned her, saying: " `A'ishah, Allah does not like abusive language," She submitted: "Didn't you hear, O Messenger of Allah what they said?" The Holy Prophet replied: "And didn't you hear what reply I gave? I said: and the same upon you." (Bukhiiri, Muslim, Ibn Jarir Ibn Abi Hatim). Hadrat `Abdullah bin `Abbiis has stated that both the Jews and the hypocrites had adopted this very way of greeting. (Ibn Jarir). 23 That is, they regarded it as a proof of the Holy Prophet's not being a Messenger. They thought that if he had been a true Messenger, they would be punished by a torment as soon as they greeted him in that way. Since there was not torment while they were greeting him day and night like that, he was not a Messenger of Allah.

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :21 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے ، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :22 یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا ۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا ۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے ، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں ۔ حضور نے جواب میں فرمایا و علیکم ۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے ۔ حضور نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟ حضور نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا ؟ میں نے ان سے کہہ دیا اور تم پر بھی ) بخاری ، مسلم ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود ، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا ( ابن جریر ) ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :23 یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا ۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا ، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں ، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یہودیوں کی ایک اور شرارت یہ تھی کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے تو ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کے بجائے ’’السَّام علیکم‘‘ کہتے تھے، السلام علیکم کے معنیٰ ہیں: ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ اور االسَّام علیکم کے معنیٰ ہیں کہ ’’تم پر ہلاکت ہو‘‘، چونکہ دونوں لفظوں میں صرف ایک لام کا فرق ہے، اس لئے بولتے وقت سننے والے خیال بھی نہیں کرتے تھے، لیکن وہ لوگ اس طرح اپنے بغض کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس آیت میں ان کی اسی شرارت کی طرف اشارہ ہے۔ 6: اپنی مذکورہ شرارتوں کے بعد وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اﷲ تعالیٰ ہمیں ان پر سزا کیوں نہیں دیتا، اور چونکہ ہم پر کوئی سزا مسلط نہیں ہورہی ہے، اس لئے ثابت ہوا کہ ہم برحق ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:8) نھوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ فہی (باب فتح) مصدر۔ ان کو منع کیا گیا۔ وہ روکے گئے۔ نھی عن کے صلہ کے ساتھ ۔ بمعنی روکنا۔ منع کرنا۔ یتنجون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ تناجی (تفاعل) مصدر۔ وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہیں ۔ مناجاۃ (مفاعلۃ) چپکے چپکے کان میں بات کہنا۔ اللہ سے اپنی دلی مراد عرض کرنا۔ العدوان۔ ظلم و ستم۔ زیادتی۔ یہ عدا یعدوا کا مصدر ہے جو باب نصر سے آتا ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ وہ عدوان کہ جس کی ابتداء کرنی ممنوع ہے وہ اس آیت میں مراد ہے :۔ وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (5:2) اور آپس میں مدد کرو نیک کام اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ اور زیادتی پر ۔ لیکن جو عدوان کہ بدلہ کے طور پر ہوا اور جس کا اس شخص کے ساتھ برتنا روا ہے کہ جو اس کی پہل کرچکا ہے ۔ وہ اس آیت میں مراد ہے :۔ فلا عدوان الا علی الظلمین : تو زیادتی نہیں مگر بےانصاف لوگوں پر۔ بعض علماء سے نقل ہے کہ عدوان کے معنی ہیں کہ بری طرح حد سے بڑھ جانا۔ خواہ یہ بات قوت (استعداد) میں ہو یا فعل میں یا حال میں۔ اور اسی معنی میں ارشاد ہے۔ ومن یفعل ذلک عدوانا وظلما فسوف نصلیہ نارز (4:20) اور جو کوئی یہکام کرے زیادتی سے تو ہم ڈالیں گے اس کو آگ میں۔ معصیت الرسول۔ مضاف مضاف الیہ۔ رسول کی نافرمانی۔ معصیۃ مصدر۔ میمی ہے اور اسم ہے۔ نافرمانی کرنا۔ نافرمانی۔ عصیان بھی مصدر ہے (باب ضرب) ۔ عصا۔ لاٹھی ۔ عصیان کا ماخذ عصا ہی ہے ۔ جس کے پاس لاٹھی (قوت) ہوتی ہے وہ دوسرے کی نافرمانی کرتا ہی ہے۔ گویا عصیان کے معنی ہوئے لاٹھی کے بل پر کسی کی نافرمانی کرنا۔ توسیع استعمال کے بعد نافرمانی کو عصیان کہا جانے لگا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ کیا آپ نے (اے رسول) ان کو نہیں دیکھا کہ جن کو کانا پھوسی سے منع کردیا تھا ۔ پھر بھی وہ اس سے باز نہیں آتے اور گناہ اور سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے لئے مخفی مشورے کرتے ہیں۔ (ترجمہ تفسیر حقانی) واذا واؤ عاطفہ۔ اذا ظرف زمان ۔ جب۔ حیوک۔ حیوا ماضی جمع مذکر غائب تحیۃ (تفعیل) مصدر۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ انہوں نے تجھ کو سلام کیا۔ وہ تجھ کو سلام کرتے ہیں۔ (ح ی ی حروف مادہ) لم یحیک : لم یحییٰ مضارع مجزوم نفی جحد بلم۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ اس نے تجھ کو (ان کلمات سے) سلام نہ کیا۔ بما میں ما موصولہ اور بہ میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع ما موصولہ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کفار آپ سے ملتے ہیں تو ایسے کلمات سے آپ کو دعا سلام کرتے ہیں کہ جن سے اللہ سلام نہیں بھیجتا۔ مثلاً السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہنا جس کے معنی ہیں تم پر اللہ کی مار ہو۔ فی انفسھم : فی حرف جر۔ انفسھم مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور، اپنے دلوں میں۔ یا فی ما بینھم۔ آپس میں۔ لولا : ای ہل لا کیوں نہیں۔ حسبھم۔ ان کو بس ہے، ان کو کافی ہے۔ حسب مضاف ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ مضاف الیہ۔ یصلونھا : یصلون مضارع جمع مذکر غائب۔ صلی (باب سمع) مصدر۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جہنم ہے۔ جس میں وہ داخل ہوں گے۔ یا یصطلون بھا۔ وہ اس میں جلیں گے۔ فبئس المصیر۔ ف پس ۔ پھر۔ بئس فعل ذم ہے۔ اس کی گردان نہیں آتی بئس اصل میں بئس تھا۔ بروزن فعل (سمع) سے۔ ۔ عین کلمہ کی اتباع میں اس کے فاء کلمہ کو کسرہ دیا گیا۔ پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کردیا گیا۔ بئس ہوگیا۔ بئس برا ہے۔ المصیر : صیر سے اسم ظرف ومصدر میمی۔ لوٹنے کی جگہ۔ لوٹنا۔ یہاں بطور ظرف مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں اور یہودیوں کی عادت تھی کہ جب وہ کسی مسلمان کو آتادیکھتے تو علیحدہ ہو کر سرگوشیاں کرنے لگتے، تاکہ گزرنے والا مسلمان یہ سمجھے کہ وہ اس کے یا پیغمبر کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور پھر اس مسلمان کو تنگ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو آنکھ بھی مارتے مسلمانوں کو اس سے بڑا رنج ہوتا چناچہ انہوں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا۔ آنحضرت نے ان یہودیوں اور منافقوں کو بلا کر علیحدہ سرگوشیاں کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور اپنی عادت پر قائم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات فرمائیں۔ (ابن کثیر)5 یہ خاص طور پر یہودیوں کی عاد تھی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتیتو معروف طریقہ سے السلام علیک کہنے کی بجائے السام علیک کہتے۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ آپ کو موت آجائے۔ آنحضرت بھی ان کے جواب میں صرف علیکم یا وعلیکم (یعنی تم پر) فرما دیتے اور بعض اوقات یہود ان حرکات کا اعتراف بھی کرلیتے۔ اس لئے آنحضرت نے مسلمانوں سے فرمایا :” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں سلام کریتو اس کے جواب میں ” علیک “ کہا کرو ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت کی خدمت میں آئے اور انہوں نے حسب عادت السام علیک یا ابالقاسم “ کہہ کر سلام کیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ میں نے ان کے جواب میں ” علیکم السام و العنۃ “ کہا یعنی تم پر موت اور لعنتہو۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ” عائشہ ! اللہ تعالیٰ فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا … اگر وہ ایسا کہیں تو تم ان کے جواب میں صرف ” وعلیکم “ کہہ دیا کرو۔ (شوکانی)6 یعنی جلد کیوں کرتیہو ایسی سزا ملے گی کہ اس کے ہوتے کسی دوسری سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔ اب رہی پیغمبر کی صداقت تو اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اسے تمہارے دل کی بات کا پتا چل گیا اور ایسا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہی سے ہوسکتا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ایسی سرگوشی کرتے ہیں جس میں بوجہ منہی عنہ ہونے کے گناہ لازمی بھی ہے اور بوجہ تحرین مسلمین کے عدوان یعنی ضرر متعدی بھی ہے اور بوجہ اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منع فرماچکے تھے معصیت رسول بھی ہے۔ 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے الفاظ تو یہ ہیں سلام علی المرسلین، سلام علی عبادہ الذین اصطفی، صلوا علیہ وسلم وا تسلیما، اور وہ کہتے ہیں السام علیک۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے لوگوں کی سرگوشیوں کو جانتا ہے۔ وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا کہ جو وہ کیا کرتے تھے لیکن اس کے باروجود لوگ اپنی روش سے باز نہیں آتے۔ لوگوں کو یہ بات بتلانے اور سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ کفار، منافق اور برے لوگ اپنی روش سے بازآجائیں۔ لیکن برے لوگ اپنی روش سے باز آنے کی بجائے اس میں آگے ہی بڑھے جاتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین اور کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ گناہ، ظلم اور آپ کی مخالفت کرنے کے لیے خفیہ مجالس میں منصوبہ بندی کرتے تھے کہ اسلام کی ترقی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام کو لوگوں کی نظروں میں کس طرح ختم کیا جائے۔ اس کے لیے اہل مکہ دارالندویٰ میں اجلاس کرتے، منافق مسجد ضرار میں منصوبے بناتے اور یہودی راعنا کے لفظ کو مخصوص انداز میں ادا کرتے اور آپ سے ملاقات کرتے وقت آپ کو اس طرح سلام کہتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی یعنی اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے خلاف دعا، سلام کرتے تھے۔ برے لوگ اپنے کردار اور انداز پر نظر ثانی کرنے کی بجائے کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے الفاظ اور انداز پسند نہ ہوتے تو وہ ہمیں ضرور عذاب دیتا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی مخالفت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں کے لیے جہنم کافی ہے جو بدترین جگہ ہے۔ اس میں کفار، منافقین اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرنے والوں کو پوری پوری سزادی جائے گی۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ کچھ یہودی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا السام علیکم یعنی تم پر موت واقع ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا تم پر بھی موت واقع ہو، ” اللہ “ تم پر لعنت کرے اور اپنا غضب نازل کرے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو سختی اور ترش کلامی نہ کرو عائشہ (رض) نے عرض کی اے اللہ کے نبی ! آپ نے ان کی بات نہیں سنی ؟ آپ نے فرمایا جو میں نے انہیں جواب دیا ہے تو نے اسے نہیں سنا ؟ میری بات ان کے بارے میں قبول ہوگئی ہے اور ان کی بات میرے حق میں قبول نہیں ہوئی۔ “ (رواہ البخاری : باب الرفق فی الامر کلہ) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا کَانَ ثَلاَثَۃٌ فَلاَ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ ) (صحیح مسلم : باب تحریم مناجاۃ الاثنین) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو ان میں سے دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کیا کریں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بری سرگوشیاں کرنے سے منع کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گناہ، ظلم اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے سے منع کیا ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ ٥۔ جہنم ہر اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہر قسم کے گناہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے منع کیا ہے : ١۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ : ٩٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہری اور پوشیدہ بےحیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٤۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٥۔ اللہ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم ان سے دوستی کرو جنھوں نے تمہارے دین میں جھگڑا کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ (الممتحنہ : ٩) ٦۔ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ (الحشر : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم ترالی .................... المصیر (٨٥ : ٨) ” کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کردیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا ؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں ، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ؟ ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے۔ اسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا ہی برا انجام ہے ان کا۔ “ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں منافقین کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصوبہ نہایت روادارانہ اور ان کے ساتھ آپ کا رویہ نہایت ہی ہمدردانہ تھا۔ آپ ان کو یہی نصیحت فرماتے ہیں کہ اخلاص کے ساتھ اسلام کو قبول کرلیں۔ اور آپ ان کو بار بار نجویٰ ، سازشوں اور خفیہ تدابیر سے روکتے تھے۔ اور منافقین یہ کام یہودیوں کے ساتھ مل کر کرتے تھے۔ بلکہ یہ تمام کام مشرکین اور منافقین یہودیوں کے اشاروں پر کرتے تھے۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخلصانہ رویہ کے باوجود انہوں نے اپنی ان سازشوں اور خفیہ تدابیر اور نجویٰ کے کام کو اور تیز کردیا۔ اور اس کے لئے انہوں نے ایسے ذرائع اور تدابیر بھی شروع کردیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی نافرمانی کی جائے۔ اور مسلمانوں کے معاملات اور اسلامی نظام میں فساد برپا کرکے خلل ڈالا جائے۔ یہ لوگ اپنے کام میں اس قدر تیز اور جری ہوگئے تھے کہ انہوں نے اسلامی حکومت کے احکامات میں فساد ڈالنے کے ساتھ ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ علیک سلیک کے اندر بھی فساد پیدا کردیا تھا۔ اور السلام علیکم کے معنی میں بھی تبدیلی کردی تھی۔ واذا جائ ........................ بہ اللہ (٨٥ : ٨) ” اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے “۔ یہ منافقین اور یہودی السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہتے تھے۔ یعنی یہ کہ تم پر موت آجائے۔ اسی طرح انہوں نے کچھ دوسرے الفاظ بھی گڑھ لئے تھے جن کا ظاہر تو اچھا تھا مگر باطن میں وہ ان سے غلط مراد لیتے تھے اور پھر وہ کہتے تھے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں کا علم ہوتا یا ان مجالس کا علم ہوتا جن میں ہم اس کے خلاف تدابیر اور سازشیں کرتے ہیں۔ اس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ بھی جو یہ اپنے دلوں میں سوچتے تھے اور وہ بھی جو سازشیں وہ اپنی مجلسوں میں کرتے تھے۔ کیونکہ سورت کے آغاز میں بتا دیا گیا کہ جو عورت اپنے خاوند کے بارے میں تکرار کررہی تھی اس کی باتیں اللہ نے سن لیں۔ اور یہ کہ اگر تین آدمی نجویٰ کریں تو چوتھا اللہ ہوتا ہے ، اگر چار کریں تو پانچواں اللہ ہوتا ہے نیز ان کے نفوس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی اللہ کو معلوم ہے۔ اور اس کے بعد ان کی باتوں کی یہ تردید کردی گئی۔ حسبھم .................... المصیر (٨٥ : ٨) ” ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے۔ اسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا ہی برا انجام ہے ان کا۔ “ ان کی خفیہ سازشوں کا انکشاف ، ان کے نجویٰ کا انکشاف خصوصاً جبکہ حضور کی جانب سے ممانعت کے باوجود انہوں نے کیا ، پھر وہ جو دلوں میں کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو اسے ہماری یہ کاروائیاں معلوم ہونی چاہئیں ۔ ان باتوں کا انکشاف ، غرض یہ سب انکشافات اس بات کی دلیل ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر بات کا اللہ کو علم ہے اور اللہ پر نجویٰ میں موجود ہیں ، وہ خفیہ اجماع کا شاہد ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں منافقین کے لئے تو خوفناک تھیں کہ ان کے تمام امور طشت ازبام ہوچکے ہیں جبکہ اہل ایمان کے لئے اطمینان اور بھروسے کا باعث بنیں۔ اب خطاب اہل ایمان کو ہورہا ہے ” اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، کہ تم منافقین کی طرح نجویٰ نہ کرو ، گناہ کی باتوں میں ، دشمنی کی باتوں میں ، رسول کی نافرمانی میں ، بلکہ جو بات بھی کرو خدا خوفی کے ساتھ کرو ، اس قسم کا نجویٰ دراصل شیطان کے اشارے سے ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ شیطان مومنین کو پریشان کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کا نجویٰ مومنین کے لائق نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی شرارت، سرگوشی اور یہود کی بیہودہ باتیں یہودی مکار تو تھے ہی، طرح طرح کی شرارتیں بھی کرتے تھے اور خفیہ مشورہ بھی کرتے رہتے تھے، لفظ نجویٰ خفیہ بات چیت کے لئے بولا جاتا ہے، لفظ مناجاۃ بھی اسی سے لیا گیا ہے، مومن بندے آہستہ آہستہ (جسے اللہ تعالیٰ ہی سنے کوئی دوسرانہ سنے) اپنے خالق ومالک جل مجدہ سے دعا کرتے ہیں کیونکہ وہ ہر ظاہر اور خفیہ بات کو سنتا ہے اسی لیے خفیہ دعاء کو مناجاۃ کہا جاتا ہے۔ یہودی اور منافقین اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن تو تھے ہی مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے بری بری حرکتیں کرتے تھے، ان کی ان حرکتوں میں یہ بات بھی تھی کہ راستوں میں کسی جگہ بیٹھ جاتے تھے جب کوئی مسلمان وہاں سے گزرتا تو گہری نظروں سے دیکھتے تھے اور آنکھوں سے اشارہ بازی کرتے تھے اور چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے تھے۔ منافقین بھی ان کے شریک حال تھے، مسلمانوں کو ان کی حرکتوں سے تکلیف ہوتی تھی انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس بات کو پیش کردیا اور ان لوگوں کی شکایت کی، آپ نے ان لوگوں کو منع کردیا کہ سرگوشی اور خفیہ بات چیت نہ کریں اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے ان لوگوں نے ہدایت پر عمل نہ کیا ممانعت کے باوجود اپنی حرکتیں کرتے رہے اس پر آیت کریمہ ﴿اَلَمْ تَرَاِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ﴾ (الآیۃ) نازل ہوئی جس میں ان کی حرکت بدکا بھی تذکرہ فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ لوگ گناہ کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کے مشورے کرتے ہیں۔ یہودیوں کی شرارت یہودیوں کا یہ بھی طریقہ تھا کہ جب حاضر خدمت ہوتے تو السلام علیک کی بجائے السام کہتے تھے زبان دبا کر لام کو کھا جاتے تھے، سام عربی میں موت کو کہتے ہیں موت کی بددعاء کرتے تھے اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہم نے سلام کیا، ان کی اس حرکت کو بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : ﴿ وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ ﴾۔ (اور وہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو ان الفاظ میں تحیہ کرتے ہیں یعنی سلام کی ظاہری صورت اختیار کرتے ہیں، جن الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں بھیجا) ۔ ایک مرتبہ چند یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زبان دبا کروہی السام علیک کہہ دیا حضرت عائشہ (رض) نے محسوس فرمایا اور آڑے ہاتھوں لیا اور جواب میں فرمایا علیکم السام واللعنة فرمایا (تم پر موت ہو اور لعنت ہو) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عائشہ ! ٹھہرو (نرمی اختیار کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر معاملہ میں نرمی کو پسند فرماتا ہے، عرض کیا یارسول اللہ آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا ؟ آپ نے فرمایا تو نے نہیں سنا میں نے کیا کہا ؟ میں نے ان کے جواب میں علیکم کہہ دیا یعنی (ان کی بات ان پر لوٹا دی) انہیں موت کی بددعاء دے دی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٩٢٥، ج ٢) ﴿وَ يَقُوْلُوْنَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ ﴾ یعنی یہودی برے الفاظ بھی زبان پر لاتے ہیں پھر اپنے دلوں میں یوں بھی کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں ہماری باتوں پر عذاب کیوں نہیں دیتا، مقصد ان کا یہ تھا کہ اگر یہ اللہ کے نبی ہیں اور ہم ان کی شان میں بےادبی کرتے ہیں تو اب تک اللہ کا عذاب آجانا چاہئے تھا جب اللہ تعالیٰ ہمیں عداب نہیں دیتا تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے نبی نہیں ہیں (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی اعلان نہیں فرمایا کہ نبی کے جھٹلانے کی اور گناہوں کی سزا اسی دنیا میں ضرور دیدی جائے گی اور جلد دے دی جائے گی۔ بہت سے کافروں کو دنیا و آخرت دونوں میں سزا ملتی ہے اور بعض کو صرف آخرت میں دی جاتی ہے یہ دلیل بنا لینا کہ چونکہ ہمیں عذاب نہیں دیا جاتا اس لئے ہمارا عمل درست ہے جہالت اور حماقت کی بات ہے۔ ﴿حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ ١ۚ يَصْلَوْنَهَا ١ۚ فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ٠٠٨﴾ اس میں ان لوگوں کی جاہلانہ بات کا جواب دے دیا اور بتادیا کہ ان کو دوزخ میں جاناہی جانا ہے وہ برا ٹھکانا ہے اگر دنیا میں عذاب نہ دیا گیا تو یوں نہ سمجھیں کہ عذاب سے محفوظ ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” الم تر الی الذین “ زجر ثانی برائے منافقین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت یہود اور منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ قال ابن عباس نزلت فی الیھود والمنافقین (قرطبی ج 17 ص 291) ۔ جب مسلمانوں کی ایک جماعت کہیں جہاد میں شریک ہوتی تو منافقین دوسرے مسلمانوں کے سامنے الگ ٹولی بنا کر کھسر پھسر کرتے اور آنکھوں اور ہاتھوں سے مسلمانوں کی طرف اشارے کر کے ان کے وہم میں ڈالتے کہ ان کے اقارب تو وہاں کام آچکے اب وہ واپس نہیں آئیں گے اور اگر وہ کسی مسلمان کو تنہا گذرتے دیکھتے تو فورًا سر جوڑ کر اور اس کی طرف سر اور آنکھوں سے اشارے کر کے سرگوشی شروع کردیتے جس سے وہ سمجھے کہ یہ میرے قتل کا پروگرام بنا رہے ہیں اور خوف زدہ ہوجائے۔ ان کی ایسی شرارتوں سے مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچتا اور ایذاء ہوتی تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کا شکوہ کیا اس پر آپ نے ان منافقین کو ڈانٹا اور اس طرح سرگوشیاں کرنے سے ان کو روکا مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے چناچہ اس آیت میں ان زجر کیا گیا (روح، ابن کثیر) یہ لوگ کیسے معاند اور بد طینت ہیں کہ جرم و گناہ سے ان کو منع کیا گیا وہ پہلے سے بڑھ چڑھ کا اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ” النجوی “ الف لام عہد خارجی کے لیے ہے یعنی خلاف اسلام مشورے۔ ” لما نھوا عنہ “ ای لفعل ما نھوا عنہ۔ ان کو منع کیا گیا تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مشورے نہ کیا کریں لیکن وہ اس سے باز نہیں آئے اور بدستور ایسے منصوبے بناتے ہیں جو سراسر خلاف اسلام اور گناہ ہیں اور جن کا مقصد مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرنا اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت وعداوت پر اکسانا ہے۔ 10:۔ ” واذا جاءوک “ یہ یہود اور منافقین کی ایک اور شرارت کا ذکر ہے۔ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو السلام علیک کی بجائے السام علیک کہتے۔ السام کے معنی موت کے ہیں حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحیہ سلام نازل ہوتا ہے اور امت کو بھی تحیہ سلام پیش کرنے کا حکم ہے لیکن یہود و منافقین اپنے کمال خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے السام علیک کہتے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی اس شرارت و خباثت پر زجر فرمائی۔ 11:۔ ” ویقولون فی انفسہم “ اور پھر آپس میں کہتے ہیں کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس طرح تحقیر و توہین کرتے ہیں اگر واقعی وہ اللہ کا پیغمبر ہے تو اللہ ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا اور ہم سے انتقام کیوں نہیں لیتا ای یقولون فیما بینہم لوکان نبیا لعاقبنا اللہ بما نقولہ (مدارک ج 4 ص 177) ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” حسبھم جہنم الخ “ اگر دنیا میں ان کو ان شرارتوں کی سزا نہیں ملی تو کیا ہو آخرت میں ان کی سزا کے لیے جہنم ہی کافی ہے جس میں وہ داخل ہوں گے جو نہایت ہی برا ٹھکانا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) کیا اے پیغمبر آپ نے ان لوگوں کی طرف نظر نہیں کی جن کی سرگوشیوں سے روکا گیا تھا اور منع کیا گیا تھا اور وہ پھر وہی کام کرتے ہیں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور روکا گیا تھا اور وہ آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے چپکے چپکے مشورے اور سرگوشیاں کیا کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو ان الفاظ سے آپ کو سلام کرتے اور دعا دیتے ہیں جن الفاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر سلام نہیں بھیجا اور دعا نہیں دی اور اپنے دل میں اور اپنے جی میں یوں کہتے ہیں کہ جو الفاظ سلام اور دعا کے ہم کہتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا اور ہم کو عذاب کیوں نہیں کرتا ایسے لوگوں کے لئے جہنم کافی ہے اس جہنم میں یہ لوگ داخل ہوں گے سو وہ بری جگہ اور برا ٹھکانہ ہے دوزخ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھ کر منافق کان میں باتیں کرتے مجلس کے لوگوں پر ٹھٹھے کرتے اور عیب پکڑتے اور حضرت کی بات سن کر کہتے یہ مشکل بات ہے ہم سب کب ہوسکے گی پہلے سورہو نسآء میں منع آچکا تھا پھر وہی کرتے تھے اور دعا یہ کہ یہود آتے سلام علیک کے بدلے السام علیک کہتے۔ یہ دعا ہے کہ تجھ پر پڑے مرگ پھر آپس میں کہتے کہ اگر یہ رسول ہے تو اس کہنے سے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا اور کوئی منافق بھی کہتا ہو۔ خلاصہ : یہ کہ یہود کو اور منافقین کو اس قسم کی دل آزار حرکات سے منع کردیا گیا تھا کہ مجلس میں بیٹھ کر اس قسم کی ناشائستہ حرکات نہ کیا کرو جو آداب مجلس کے خلاف ہوں اور آواز سے توازے نہ پھینکا کرو باوجود منع کردینے کے پھر انہی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسی سرگوشیاں کرتے ہیں جن میں مسلمانوں کی کبیدگی اور حزن اور ظلم و زیادتی کی باتیں ہوتی ہیں اور رسول کے منع کردینے کے بعد رسول کی نافرمانی بھی ہوتی ہے نیز جب مجلس میں آتے ہیں تو بجائے سلام علیک اور السلام علیکم کے السام علیکم زبان کو دبا کر کہتے ہیں۔ سام کے معنی ہیں موت کے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ وسلام علی المرسلین کو بدل کر کہتے ہیں اور بجائے سلامتی کی دعا کے موت کی دعا کرتے ہیں اور پھر آپس میں یا ہر ایک ان میں سے اپنے دل میں کہتا ہے کہ اگر یہ واقعی اللہ کا رسول ہے تو اس بےادبی اور گستاخی پر اللہ تعالیٰ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا اور عذاب کیوں نہیں کرتا۔ اسی کو فرمایا کہ ان کو جہنم بس اور کافی ہے اس میں یہ داخل ہوں گے اور وہ دوزخ بری جگہ اور برا ٹھکانا ہے روایت میں آتا ہے کہ جب لوگ السام علیکم کہتے ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں صرف وعلیکم فرمادیا کرتے ۔ حضرت عائشہ (رض) نے ایک دن یہود کے ان الفاظ کو سن کر بہت برا بھلا کہا کہ تم پر موت پڑے اور تم پر خدا کی پھٹکار ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو سمجھایا کہ ناراض نہ ہو میں تو خودہی اس بددعا کے جواب میں صرف وعلیکم کہہ دیا کرتا ہوں آگے مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں اور ان کے خطاب سے منافقین کو سنانا مقصود ہے کہ اگر تم ایمان کے مدعی ہو تو تم کو ان احکام کی پابندی کرنی چاہیے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔