Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 22

سورة الحشر

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۲۲﴾

He is Allah , other than whom there is no deity, Knower of the unseen and the witnessed. He is the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں چھپے کھلے کا جاننے والا مہربان اور رحم کرنے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He is Allah, beside Whom La ilaha illa Huwa, the All-Knower of the unseen and the seen. He is the Most Gracious, the Most Merciful. Allah states that He Alone is worthy of worship, there is no Lord or God for the existence, except Him. All that is being worshipped instead of Allah are false deities. Allah is the All-Knower in the unseen and the seen, He knows all that pertains to the creations that we see, and those we cannot see. Nothing in heaven or on earth ever escapes His knowledge, no matter how great or insignificant, big or small, including ants in darkness. Allah's statement, هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم (He is the Most Gracious, the Most Merciful). was duly explained before at the very beginning of this Tafsir, so it is not necessary to repeat it here, and it asserts that Allah is the Owner of the wide encompassing mercy that entails all of His creation. He is Ar-Rahman and Ar-Rahim of this life and the Hereafter. Allah the Exalted said in other Ayat, وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ And My mercy embraces all things. (7:156), and, كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ Your Lord has written (prescribed) mercy for Himself. (6:54), and, قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ Say: "In the bounty of Allah, and in His mercy; -- therein let them rejoice." That is better than what (the wealth) they amass. (10:58) Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 غیب مخلوقات کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب نہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے چاہے وہ ہمارے سامنے ہو یا ہم سے غائب ہو حتی کہ وہ تاریکیوں میں چلنے والی چیونٹی کو بھی جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] غیب اور شہادت سے کیا مراد ہے ؟ شہادت سے مراد وہ تمام اشیائ، واقعات اور علوم ہیں جو انسان کے علم میں آچکے ہیں یا جنہیں وہ مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل کرچکا ہے اور غیب سے مراد وہ تمام اشیاء واقعات اور علوم ہیں جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ خواہ یہ اشیاء عالم اکبر یا کائنات سے متعلق ہوں یا عالم اصغر یا انسان کے جسم کی اندرونی کائنات سے متعلق ہوں۔ اور اللہ کے لیے سرے سے کوئی چیز غائب ہے ہی نہیں۔ اس کے لیے سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اور قرآن میں جہاں یہ غیب اور شہادت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو صرف انسان کو سمجھانے کی غرض سے استعمال ہوئے ہیں۔ اور اللہ کے لیے کوئی چیز غائب اس لیے نہیں ہوتی کہ ہر چیز کو اور ہر واقعہ اور حادثہ کو وجود میں لانے والا تو وہ خود ہے۔ لہذا اس سے کوئی چیز مخفی یا غائب کیسے رہ سکتی ہے ؟ [٢٨] رحمن اور رحیم میں فرق :۔ وہ رحمن اور رحیم اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کے وجود، اس کی زندگی اور زندگی کے بقا کے لیے جو جو اشیاء ضروری اور لازمی تھیں وہ اس نے اس کی پیدائش سے پہلے ہی مہیا فرما دی ہیں اور یہ اس کی کمال مہربانی ہے۔ کائنات میں کوئی دوسرا اس غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے جانداروں میں اگر رحم کی صفت پائی بھی جاتی ہے۔ تو ایک تو وہ جزوی اور محدود ہوتی ہے دوسری یہ کہ وہ اس کی ذاتی صفت نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے اور اسے اس لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ جیسے والدین اپنی اولاد کے حق میں رحیم ہوتے ہیں اور یہ چیز بذات خود اس کی رحمت بےپایاں کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ رحمن صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور اس میں بہت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس کا تعلق ان رحمتوں اور انعامات سے ہے جو زندگی اور اس کی بقاء کے لیے ضروری ہیں مثلاً انسان کی پیدائش سے پہلے سورج، چاند، ہوا، بارش اور زمین میں قوت روئیدگی کا انتظام کرنا۔ یا حمل قرار پاتے ہی ماں کے پستانوں کی مشینری کا متحرک ہونا، خون کو دودھ میں تبدیل کرنے کا عمل اور بچہ کی پیدائش پر ماں کے پستانوں میں دودھ اتر آنا اور بچے کو دودھ کی طرف لپکنے اور دودھ چوسنے کا طریقہ سکھانا۔ جبکہ رحیم اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق بھی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ : اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی ضمیروں اور صفات کا ذکر چالیس (٤٠) مرتبہ آیا ہے، چوبیس (٢٤) بار لفظ ” اللہ “ کے ساتھ اور سولہ (١٦) مرتبہ ضمیر ظاہر یا صفات عالیہ کے ساتھ ۔ غرض پوری سورت ہی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور اس کے عجیب و غریب تصرفات کے ذکر سے بھرئی ہوئی ہے ، اس لیے اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی صفات عزیز و حکیم کے ساتھ ہوئی ہے اور اختتام بھی اس کی ایسی صفات کے ساتھ ہوا ہے جن کے ذکر سے ایمان والوں کے دلوں میں اس کی خشیت و محبت میں اضافہ ہو اور سرکشوں کو اس کی گفت اور ہیبت و جلال سے خوف دلای جائے ۔ ساتھ ہی ان صفات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر صفت کا سورت میں مذکور واقعات و مضامین میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق بھی ہے۔ ( ابن عاشور ، ملخص) ٢۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُو : اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے پہلے اس کے ” الہٰ واحد “ ہونے کی صفت بیان فرمائی ، کیونکہ یہ دوسری تمام صفات کی اصل ہے ۔ دوسری تمام صفات اس صفت کی دلیل ہیں کہ عبادت اس اکیلے کا حق ہے ، اس لیے قرآن مجید میں اسم مبارک ” اللہ “ کے بعد اکثر اس صفت کا ذکر آتا ہے ، جیسا کہ آیت الکرسی میں اور سورة ٔ آل عمران کے شروع میں فرمایا :(اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم)” اللہ ( وہ ہے کہ ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، زندہ ہے ، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے “۔ ٣۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ :” الغیب “ اور ” الشھادۃ “ مصدر ہیں جو اسم فاعل کے معنی میں ہیں ، یعنی غائب و شاید ۔ مبالغے کے لیے اسم فاعل کی جگہ مصدر کا لفظ استعمال کیا گیا ، جیسا کہ ” زیدعادل “ کے بجائے مبالغے کے لیے ” زید عدل “ کہہ دیتے ہیں کہ زید سراپا عدل ہے۔” الغیب والشھادۃ “ پر الف لام استغراق کا ہے ، یعنی وہ ہر غائب و حاضر کو جاننے والا ہے۔ وحدانیت کے بعد دوسری صفت علم بیان فرمائی ، کیونکہ معبود ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہو اور اس کا علم کامل ہو ۔ وہ معبود کیسا جسے معلوم ہی نہیں کہ کوئی میری عبادت کر رہا ہے۔ ( دیکھئے احقاف : ٥، ٦) ” الغیب والشھادۃ “ دوسروں کے اعتبار سے فرمایا، ورنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز غائب نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ ” عالم الغیب “ تو واقعی صرف اللہ تعالیٰ ہے مگر ” عالم الشہادت “ تو اور لوگ بھی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ” الشہادت “ کا علم بھی اس کے سوا کسی کے پاس نہیں ، چند چیزیں جاننے والے کو ” عالم الشہادت “ نہیں کہا جاسکتا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ رعد (٩، ١٠) اور سورة ٔ اعلیٰ (٧) کی تفسیر۔ ٤۔ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ فاتحہ کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A Few of Allah&s Attributes of Perfection Having urged the people to be concerned about the Hereafter and having asserted the greatness of the Qur&an, this Surah is concluded with a few of Allah&s attributes of perfection, as follows: الِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (...the Knower of the unseen and the seen - 22). The attribute &the Knower of the Unseen and the seen& means that Allah knows all things, visible or invisible.

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہر چھپی اور کھلی چیز اور غائب و حاضر کا پوری طرح جاننے والا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝ ٠ ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝ ٢٢ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے شَّهَادَةُ : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف/ 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ ان تمام باتوں کو جاننے والا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہیں اور ان باتوں کو بھی جو پوشیدہ نہیں اور وہی بڑا مہربان ہے کہ نیک ہو یا بد سب کو روزی دیتا ہے اور خاص طور پر مومنین پر رحم کرنے والا ہے کہ ان کے گناہ معاف فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢{ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ } ” وہی ہے اللہ ‘ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ “ { عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِج } ” وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔ “ یہ پورا مرکب اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اسے بھی جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن میں جہاں اللہ کے لیے غیب اور شہادۃ کے الفاظ آتے ہیں ‘ وہ ہم انسانوں کے لیے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے لیے تو سب شہادہ ہی شہادہ ہے ‘ اس کے لیے تو کوئی چیز بھی غیب نہیں۔ ہم انسانوں کے لیے کچھ چیزیں تو وہ ہیں جنہیں ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتے ہیں۔ ایسی تمام اشیاء ہمارے لیے ” ظاہر “ (الشَّہَادَۃ) کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی چیز کو ہم مائیکرو سکوپ یا ٹیلی سکوپ سے بھی دیکھ لیں تو اس کی حیثیت بھی ہمارے لیے ” ظاہر “ ہی کی ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے حقائق ہیں جنہیں ہم سے چھپا دیا گیا ہے ‘ انہیں ہم کسی طرح بھی اپنے حواس کے احاطہ میں نہیں لاسکتے۔ ایسی سب چیزیں ہمارے لیے غیب کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ فرشتے ‘ جنت ‘ دوزخ ‘ عالم ِ آخرت وغیرہ ‘ سب ہمارے لیے غیب ہیں۔ یہ مضمون سورة الجن میں دوبارہ واضح تر انداز میں آئے گا۔ { ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۔ } ” وہ بہت رحم کرنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ “ سورة الفاتحہ کی دوسری آیت ان ہی دو اسمائے حسنیٰ پر مشتمل ہے۔ لغوی اور اشتقاقی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو متعلقہ آیت کی تشریح۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 The parable means that if a huge creation like a mountain had the sense and knowledge that it had been made responsible and accountable, like man, before Allah Almighty, for its deeds, it would have trembled from the fear of it. But how heedless, senseless and thoughtless is the man, who understands the Qur'an, and has known the whole truth through it, yet he is neither seized by any fear not feels worried as to what answer he would make to his God about the responsibilities that have been placed on him. On the contray when be reads the Qur'an, or hears it read, he remains. go un-moved as if he were a lifeless and senseless stone, which is not supposed to hear and see and understand anything. (For further explanation, see E.N. 120 of Surah AI-Ahzab)

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :32 ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، جس نے یہ ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں ، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے ، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں ۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگرچہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بے نظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح تصور حاصل ہوتا ہے ، لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے ۔ ایک سورہ بقرہ میں آیت الکرسی ( آیت 255 ) ۔ دوسرے ، سورہ حشر کی یہ آیات ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :33 یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے ۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :34 یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں ۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے ، حال میں جو کچھ موجود ہے ، اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا ، ہر چیز اس کو براہ راست معلوم ہے ۔ کسی ذریعہ علم کا وہ محتاج نہیں ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :35 یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے ، تمام کائنات پر وسیع ہے ، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے ۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے ۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے ، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے ۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے ، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے ۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:22) ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو : ھو ضمیر شان ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ مسند الیہ کی تعظیم و بڑائی پر دلالت کرتی ہے اس طرح کہ پہلے اس کا ذکر مبہم طریقہ سے کرکے پھر اس کی تشریح کی جائے۔ اللہ مسند الیہ باقی کا جملہ مسند اس کی صفت ہے۔ الزی اسم مفعول موصول باقی جملہ اس کا صلی۔ لا ناصیہ (اپنے اسم کو نصب دیتا ہے) الہ اس کا اسم الا حرف استثنائ۔ وہ اللہ ہے ایسی ذات کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے۔ الہ معبود۔ بروزن فعال بمعنی اسم مفعول مالوہ ہے ۔ ہر قوم کے نزدیک جس کی بندگی کی جائے وہ الہ ہے خواہ وہ معبود برحق ہو یا معبود باطل۔ علم الغیب : مضاف مضاف الیہ ۔ غیب کا علم رکھنے والا۔ غیب کا علم جاننے والا ۔ والشھادۃ : ای وعالم الشھادۃ اور جاننے والا ہے ہر طاہر اور مشاہدہ میں آنے والی چیز کا۔ شھادۃ : شھد یشھد کا مصدر ہے۔ لیکن اسم ہوکر بھی استعمال ہوتا ہے۔ علم الغیب والشھادۃ۔ ہر باطن و ظاہر کا جاننے والا۔ ہر موجود و معدوم ، مخفی و ظاہر ہر کا علم رکھنے والا۔ الرحمن بڑا مہربان ، بہت بخشش کرنے والا۔ چونکہ اس لفظ کے معنی بجز ذات باری تعالیٰ کے اور کسی پر صادق نہیں آتے کیونکہ اسی کی رحمت سب پر عام ہے اس لئے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لئے اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ علمائے عبرت کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے یا نہیں اور عربی ہونے کی صورت میں یہ مشتق ہے یا غیر مشتق۔ مبرد اور ثعلب جو عربیت اور لغت کے امام ہیں وہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ عبرانی لفظ ہے اگر اس کو عبرانی لفظ مان لیا جائے تو اس صورت میں یہ لفظ اللہ کی طرح ذات باری کا علم ہوگا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ 53 جگہ مزکور ہے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا استعمال بطور صفت نہیں بلکہ بطور علم ہوا ہے۔ الرحیم : بڑا مہربان ۔ نہایت رحم والا۔ رحمۃ سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کی جمع رحماء ہے۔ اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیر کے لئے ہوتا ہے :۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید میں رؤف الرحیم کہا گیا ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو لغات القرآن) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کھلی اور چھپی باتیں “ دوسروں کے اعتبار سے فرمایا اور نہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے تو ہر بات کھلی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ نے قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی ہے اس کی عظیم اور بےمثال صفات۔ ” اللہ “ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی ہر قسم کی پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے، سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ” الٰہ “ اللہ تعالیٰ کا متبادل نام بھی ہے اور عظیم صفت بھی۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے سب نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس لیے صرف اسی کی بندگی کرو۔ وہی اپنی مخلوق کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنے والا ہے۔ وہ ان چیزوں کو جانتا ہے جو اس کی مخلوق کے لیے غیب ہیں اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کی مخلوق کے سامنے ہیں۔ غیب سے مراد مخلوق کے حوالے سے کسی چیز کا پوشیدہ ہونا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے غائب اور ظاہر، پوشیدہ اور اعلانیہ دونوں برابر ہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے۔ (عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَہَرَ بِہٖ وَ مَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بالَّیْلِ وَ سَارِبٌ بالنَّہَارِ ) (الرعد : ٩، ١٠) ” وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے بلند آواز سے کرے رات کی روشنی میں چھپ جائے یا دن کی روشنی میں چلے پھرئے اس کے نزدیک سب برار ہیں۔ “ رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اس کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ الرحمن : لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ” الرحیم “ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ معنٰی یہ ہوا کہ وہ ” اللہ “ بےانتہا مہربان، ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کا لفظ کسی مشفق شخصیت کے لیے استعمال جاسکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ” الرحمن “ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیّت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا جاتا ہے۔ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوجائے کہ الٰہی ! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کردیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیات نو سے ہمکنار کر دے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سرافگندگی کی وجہ سے رحمن و رحیم کی رحمت کے سمندر میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے بندے کو معاف کردیتا ہے۔ الرحمن کی رحمت کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ ہَدَیْتُہُ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ جَاءِعٌ إِلاَّ مَنْ أَطْعَمْتُہُ فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ عَارٍ إِلاَّ مَنْ کَسَوْتُہُ فَاسْتَکْسُونِی أَکْسُکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ تُخْطِءُون باللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو ! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو ! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو ! تم رات دن گناہ کرتے ہو، میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو ‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو ! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو ! تمہارے تمام اگلے پچھلے ‘ جن و انس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو ! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو ! تمہارے اگلے پچھلے ‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر آدمی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی اس کی پوری مخلوق کو نہیں جانتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور مخلوق پر بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٣۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف وہی الٰہ ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ ( النمل : ٦٢) ٦۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے ؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٣) ٧۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا کون ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا کیے جاؤگے۔ (الشعرآء : ٢١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھواللہ .................... العزیز الحکیم (٤٢) (٩٥ : ٢٢ تا ٤٢) ” وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا ، وہی رحمن اور رحیم ہے ۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس ، سراسر سلامتی ، امن دینے والا ، نگہبان ، سب پر غالب ، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا ، اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا۔ پاک ہے ، اللہ اس شرک سے جو لوگ کررہے ہیں وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے ، اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ اللہ کی تسبیح کے تین ٹکڑے ہیں اور ہر ایک کا آغاز عقیدہ توحید سے ہوتا ہے۔ ھواللہ لا الہ الا ھو یا ھواللہ سے ہوتا ہے۔ اللہ کے اسماء میں سے ہر اسم کا اثر اس کائنات میں صاف نظر آتا ہے یا انسانی زندگی میں نظر آتا ہے۔ دکھانا یہ ہے کہ اللہ کی ذات فعال ہے۔ اور اللہ کی فعالیت کا تعلق اس کائنات اور انسانوں کی زندگیوں سے ہے۔ یہ کوئی منفی صفات نہیں اور نہ اس زندگی کے عملی پہلو سے جدا ہیں۔ یہ صفات ہمارے ماحول ، ہمارے احوال اور ہمارے مظاہر میں ہمارے ساتھ ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے لئے اسمائے حسنیٰ ہیں جو اس کی صفات جلیلہ کا مظہر ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہ کی شان الوہیت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو لوگ اس کی ذات وصفات میں اور اس کی شان الوہیت میں جس کسی کو بھی شریک بناتے ہیں وہ ان شرک کرنے والوں کے شرک سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے اولاً عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ فرمایا یعنی وہ غائب کی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور جو چیزیں ظاہر ہیں اس کی مخلوق کے سامنے ہیں انہیں بھی جانتا ہے غیب کے مفہوم عام میں سب کچھ آجاتا ہے جو چیزیں پیدا ہو کرنا پید ہوگئیں اور جو آئندہ وجود میں آئیں گی، ازل سے ابد تک اسے ہر چیزیں کا علم ہے، جو چیزیں وجود میں کبھی بھی آئیں گی اسے ان کا بھی علم ہے اور جو چیزیں ممتنع الوقوع ہیں اسے ان کا بھی علم ہے۔ الشہادۃ کا مفہوم بھی عام ہے مخلوق کو جن چیزوں کا علم ہے اور جن چیزوں کا مخلوق کو علم نہیں وہ انہیں بھی جانتا ہے اور ان کے نہ جاننے کو بھی جانتا ہے۔ غرضیکہ ہر ممتنع اور ہر موجود اور ہر غیر موجود کا اسے علم ہے۔ جو علم اللہ نے کسی کو دے دیا اور جتنا دیدیا، اسے اسی قدر مل گیا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو کچھ علم غیب دیا گیا وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہی ملا اور اتنا ہی ملا جتنا اللہ تعالیٰ نے دیا، کماقال اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿ وَ مَا كَان اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ (الآیۃ) وقال تعالیٰ : عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ٠٠٢٦ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الآیۃ) ثانیاً : صفت رحمت کو بیان کیا اور فرمایا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ کہ وہ رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور رحمت سے مشتق ہیں چونکہ دونوں کے معنی میں مبالغہ ہے اس لئے ترجمہ میں بھی مبالغہ کا خیال رکھنا جاتا ہے، اکثر علماء فرماتے ہیں لفظ رحمن میں لفظ رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے دنیا میں بھی اس کی رحمت کا بہت زیادہ مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت بڑا مظاہرہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” ھو اللہ الذی “ آخر میں توحید کے تینوں مراتب کا ذکر ہے اس آیت کے پہلے حصے میں توحید کا تیسرا مرتبہ مذکور ہے یعنی دعائے توحید کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ ” علم الغیب والشہادۃ “ یہ دعائے توحید کی علت ہے اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں کیونکہ وہی عالم الغیب ہے اور وہی رحمن ورحیم ہے تمام دین و دنیا کی نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ عالم الغیب الخ۔ اس سے پہلے ھو مبتدا محذوف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) وہ اللہ تعالیٰ ایسا معبود ہے جس کے سوا اور کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں وہ ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا ہے وہ بےخد مہربان نہایت رحم والا ہے۔ یعنی وہ اللہ ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں جو چیز مخلوق سے پوشیدہ ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو مخلوق سے پوشیدہ نہیں وہ اس کی بھی کنہ اور حقیقت کو جانتا ہے آگے پھر اسی توحید کی تاکید ہے۔