Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 24

سورة الحشر

ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۲۴﴾  6

He is Allah , the Creator, the Inventor, the Fashioner; to Him belong the best names. Whatever is in the heavens and earth is exalting Him. And He is the Exalted in Might, the Wise.

وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا اسی کے لئے ( نہایت ) اچھے نام ہیں ہرچیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِيُ الْمُصَوِّرُ ... He is Allah, Al-Khaliq, Al-Bari, Al-Musawwir. Al-Khaliq refers to measuring and proportioning, Al-Bari refers to inventing and bringing into existence what He has created and measured. Surely, none except Allah is able to measure, bring forth and create whatever He wills to come to existence. Allah's statement, الْخَالِقُ الْبَارِيُ الْمُصَوِّرُ (Al-Khaliq, Al-Bari, Al-Musawwir.) means, if Allah wills something, He merely says to it "be" and it comes to existence in the form that He wills and the shape He chooses, فِى أَىِّ صُورَةٍ مَّا شَأءَ رَكَّبَكَ In whatever form He willed, He put you together. (82:8) Allah describing Himself as being Al-Musawwir, Who brings into existence anything He wills in the shape and form He decides. Al-Asma' Al-Husna Allah the Exalted said, ... لَهُ الاَْسْمَاء الْحُسْنَى ... To Him belong Al-Asma' Al-Husna (the Best Names). We explained the meaning of this Ayah in the Tafsir of Surah Al-A`raf. The Two Sahihs recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِنَّ للهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِايَةً إِلاَّ وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَهُوَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْر Allah the Exalted has ninety-nine Names, one hundred less one; whoever then preserves them, will enter Paradise. Allah is Witr (One) and He likes the Witr. Everything praises and glorifies Allah Allah's statement, ... يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... All that is in the heavens and the earth glorify Him. is similar to His other statement, تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا The seven heavens and the earth and all that is therein, glorify Him and there is not a thing but glorifies His praise. But you understand not their glorification. Truly, He is Ever Forbearing, Oft--Forgiving. (17:44) Allah's statement, ... وَهُوَ الْعَزِيزُ ... and He is Al-`Aziz, The Almighty, meaning, His greatness is never humbled, ... الْحَكِيمُ Al-Hakim, the All-Wise, in His legislation and decrees This is the end of the Tafsir of Surah Al-Hashr. All praise is due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 کہتے ہیں کہ خلق کا مطلب ہے اپنے ارادہ و مشیت کے مطابق اندازہ کرنا اور برا کے معنی ہیں اسے پیدا کرنا، گھڑنا، وجود میں لانا۔ 24۔ 2 اسمائے حسنٰی کی بحث (وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 180۔ ) 7 ۔ الاعراف :180) میں گزر چکی ہے۔ 24۔ 3 زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ 24۔ 4 جس چیز کا بھی فیصلہ کرتا ہے، وہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

٣٩] الخَالِقُ ۔ خ۔ خلق کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (١) کسی چیز کو بنانے کے لیے اس کا اندازہ لگانا یا خاکہ تیار کرنا۔ گویا تخلیق کا کام ذہنی بھی ہوسکتا ہے اور اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ (٢) کبھی یہ لفظ ابداع کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔ یعنی پہلی بار بنانا اور کسی نمونہ کے یا کسی تقلید کے بغیر بنانا۔ انوکھی چیز بنانا & قرآن کریم میں جیسے اللہ تعالیٰ کے لیے (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ ) ہے ویسے ہی (بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ ) بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہیں ہوسکتی، (٣) اور خلق کا عام مفہوم یہ ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز بنائی جائے۔ پہلے مادہ موجود ہو تو اس سے کوئی دوسری چیز بنائی جائے۔ اس صورت میں بھی اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہوسکتی ہے۔ اور اس لحاظ سے اللہ خالق ہی نہیں بلکہ احسن الخالقین ہے۔ [٤٠] البَارِیُ ۔ برأ بمعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، جامہ خلقت پہنانا، کسی چیز کا مادہ بھی وجود میں لانا پھر اس سے تخلیق کرنا یا بغیر مادہ کے تخلیق کرنا اور یہ صفت صرف اللہ کی ہے۔ دوسرا کوئی باری نہیں ہوسکتا۔ [٤١] المُصَوِّرُ بمعنی صورت بنانے والا۔ تصویر بنانے والا۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رحم مادر میں نطفہ اور مضغہ پر نقش و نگار بناتا ہے کسی کے نقوش تیکھے، کسی کے بھدے، کسی کی آنکھیں موٹی، کسی کی چھوٹی، کسی کا قد چھوٹا کسی کا بڑا۔ دوسرا پہلو یہ کہ ہر جاندار کی شکل و صورت الگ الگ ہے۔ انسان کی صورت الگ ہے، گھوڑے کی الگ، شیر کی الگ، بکری کی الگ، وغیرہ وغیرہ، تیسرا پہلو نباتات اور مختلف قسم کے پھولوں کی شکل و صورت ہے۔ غرضیکہ ہر چیز کو اللہ نے ایک صورت عطا فرمائی اور وہ بڑی اچھی صورت بنانے والا ہے۔ [٤٢] اللہ کے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے باقی سب نام صفاتی ہیں۔ اور چونکہ اللہ کی سب صفات بہترین ہیں۔ لہذا اس کے سب نام بھی اچھے ہیں۔ جو اعلیٰ درجہ کی خوبیوں اور کمالات پر دلالت کرتے ہیں۔ عیب اور نقص والی کوئی صفت اس میں ہے ہی نہیں۔ احادیث صحیحہ کے مطابق ان ناموں کی تعداد ننانوے ہے۔ ان کو حفظ کرنا اور صبح و شام ان کو پڑھنا باعث خیروبرکت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ہُوَ اللہ ُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ :” خلق ، برء اور تصویر “ پیدائش کے تین مراحل ہیں ، پہلا مرحلہ یہ کہ کوئی چیز بنانے سے پہلے اس کا پورا اندازہ لگانا اور نقشہ و خاکہ بنانا ہوتا ہے ، یہ خلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا پہلے ہی ایک اندازہ اور نقشہ طے کردیا ہے کہ وہ کیسی ہوگی ، مثلاً انسان کی کیا شکل ہوگی ، درخت کیسا ہوگا وغیرہ ۔ دوسرا مرحلہ ان چیزوں کو وجود میں لانا ہے جن سے اسے بنایا جانا ہے اور انہیں تراش خراش اور ڈھال کر وہ صورت قبول کرنے کے قابل بنانا جو اس کے لیے طے کی گئی ہے۔ یہ ” برئ “ ہے۔ مثلاً انسان کو مٹی سے بنایا ، مٹی کا گارا بنایا ، پھر آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ بنایا ۔ تیسرا اور آخری مرحلہ تصویر ہے جس کے ساتھ کوئی چیز مکمل ہو کر وجود میں آجاتی ہے۔ کائنات کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اللہ تعالیٰ نے تصویر عطاء فرمائی ہے، زمین و آسمان ہوں یا چیونٹی اور ذرہ ، ہر چیز کو پیدا کرنے کے تمام مراحل اسی کے ہاتھ میں ہیں، انسان اگر کچھ بناتا بھی ہے تو اس کے ہر کام کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ، جیسا کہ فرمایا :(واللہ خلقکم وما تعملون) ( الصافات : ٩٦)” اور اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو “۔ ان تینوں اسماء میں سے ہر ایک مطلق بنانے اور پیدا کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ اعراف (١١) کی تفسیر۔ ٢۔ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی : یعنی ان آیات میں جو اسماء اور صفات بیان ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ صرف انہی کے ساتھ متصف نہیں ، بلکہ ہر بہترین اسم و صفت کا وہی مستحق ہے ۔ دیکھئے سورة ٔ اعراف (١٨٠) کی تفسیر۔ ٣۔ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ : سورت کی ابتداء بھی اسی بات سے ہوئی ہے اور انتہاء بھی ۔ ابتداء میں ” سبح للہ “ ہے اور انتہاء میں ” یسبح لہ “ ہے ۔ اس میں ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانے آگئے۔ آیت کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید کی پہلی آیت اور سورة ٔ بنی اسرائیل (٤٤) کی تفسیر۔ ٤۔ معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ ” اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم “ کہے، پھر سورة ٔ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار (٠٠٠، ٧٠) فرشتے مقرر کردیتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ اس دن فوت ہوجائے تو شہید فوت ہوگا اور جو شام کو انہیں پڑھ لے اسے بھی یہ مرتبہ ملے گا۔ “ (ترمذی ، فضائل القرآن ، باب فی فضل قرأۃ آخر سورة الحشر : ٢٩٢٢۔ مسند احمد : ٥، ٢٦، ح : ٢٠٣٠٦) مسنداحمد کے محققین اور شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ تفصیل مسند احمد کی تحقیق میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

الْمُصَوِّرُ‌ (...the Originator of all Shapes....59:24) In other words, He gives shape to everything He creates. He has given particular shapes to all creatures whereby they are distinguished from one another. Every species has a shape distinguishable from all other species. Within one species too, there are differences in shape between males and females. Then there are uncountable differences between the shapes of the individuals of even one sex. The excellence of shaping or fashioning is of such high degree that the shapes of zillions of men and women are different from one another in a way that no face is an absolute copy of some other face. Had it not been so, no one could be distinguished from the other. This excellence and perfection of creative power belongs to none but Allah. Just as takabbur (show of greatness) is not permissible for anyone other than Allah [ as kibriya& is His exclusive attribute&], likewise no one, besides Allah, is permitted to do picture-making, because that too is the exclusive characteristic of Allah, and picture-making is an implied claim of being associate with Allah in this attribute. لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (... His are the Most Beautiful Names ....59:24). The Holy Qur&an has not given the exact number of these Most Beautiful Names of Allah. Authentic Prophetic ahadith have counted them ninety-nine. Tirmidhi has collected all the ninety-nine names in one Tradition. Many scholars have written full books on the subject of Asma ul-Husna or &Most Beautiful Names of Allah&. The present writer has also compiled a concise monograph on the subject of &Most Beautiful Names of Allah& published as an annexure to Munajat-i-Maqbul (by Maulana Ashraf Thanawi (رح)). يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ (...His purity is proclaimed by all that is in the heavens and the earth ....59:24). That all creatures in the heavens and the earth declare the purity of Allah in unuttered language is self-evident: The wonderful, marvelous and amazing things created by Allah, and the awe-inspiring and staggering shapes fashioned by Him proclaim the praises of their Creator in unuttered language. However, it is possible too that the word &tasbih& is used here in its real and literal sense, because according to the authentic view everything in this universe has some kind of sense that accords to its ability. Now, the foremost and primary requirement of this sense is to recognize one&s Creator and paying gratitude to Him. Based on this premise, it is not far-fetched to conceive that everything in nature really declares the purity of Allah in articulate language, though human ears might not be able to hear it. Thus the Qur&an on one occasion says وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (...but you do not understand their extolling.) (17:44) Benefits and Blessings of the Concluding Verses of Surah Al-Hashr It is recorded in Tirmidhi on the authority of Sayyidna Ma&qil Ibn Yasar (رض) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has stated that Allah appoints 70, 000 angels who pray for Divine mercy for anyone who recites the following three times: اَعُوذُ بِاللہِ اَلسَّمِیعِ اَلعَلِیمِ مِنَ اَلشَّیطَانِ الرَّجِیمِ and the last three verses of Surah Al-Hashr هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ. If he dies the same day, he will attain the status of a martyr. If a person recites the same solemn words in the evening, he will attain the same status. [ Mazhari ]. Al-Hamdulillah The Commentary on Surah Al-Hashr Ends here

الْمُصَوِّرُ کے معنی صورت بنانے والا، مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو حق تعالیٰ نے خاص خاص شکل و صورت عطا فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوئی اور پہچانی جاتی ہے۔ دنیا کی عام مخلوقات آسمانی اور زمینی خاص خاص صورتوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں، پھر ان میں انواع و اصناف کی تقسیم اور ہر نوع و صنف کی جداگانہ ممتاز شکل و صورت اور ایک ہی نوع انسانی میں مرد و عورت کی شکل و صورت کا امتیاز پھر سب مردوں سب عورتوں کی شکلوں میں باہم ایسے امتیازات کہ اربوں کھربوں انسان دنیا میں پیدا ہوئے ایک کی صورت بالکلیہ دوسرے سے نہیں ملتی کہ بالکل امتیاز نہ ہو سکے، یہ کمال قدرت صرف ایک ہی ذات حق جل شانہ کا ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں، جس طرح غیر اللہ کے لئے تکبر جائز نہیں کہ کبریا صرف اللہ جل شانہ کی صفت ہے اسی طرح تصویر سازی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت میں شرکت کا عملی دعویٰ ہے۔ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۭ ” یعنی اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں، قرآن کریم میں ان کی تعداد متعین نہیں فرمائی، صحیح احادیث میں ننانوے تعداد بتلائی ہے، ترمذی کی ایک حدیث میں یہ سب یک جا مذکور ہیں اور بہت سے علماء نے اسما حسنیٰ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، احقر کا بھی ایک مختصر رسالہ اسما حسنیٰ کے نام سے مناجات مقبول کے شروع میں طبع ہوا ہے۔ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ، یہ تسبیح زبان حال سے ہونا تو ظاہر ہی ہے کہ ساری مخلوقات اور ان کے اندر رکھی ہوئی عجیب و غریب صنعتیں اور صورتیں زبان حال سے اپنے بنانے والے کی حمد ثناء میں مشغول ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حقیقی تسبیح مراد ہو، کیونکہ تحقیق یہی ہے کہ تمام اشیاء کو عالم میں اپنی اپنی حیثیت کا عقل و شعور ہے اور عقل و شعور کا سب سے پہلا مقتضی اپنے بنانے والے کو پہچاننا اور اس کا شکر گزار ہونا ہے، اس لئے ہر چیز حقیقتہً تسبیح کرتی ہو تو اس میں کوئی بعد نہیں، اگرچہ ہم ان کی تسبیح کو کانوں سے نہ سن سکیں اسی لئے قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا ہے (آیت) ولکن لاتفقھون تسبیحھم، یعنی تم ان کی تسبیح کو سنتے سمجھتے نہیں۔ سورة حشر کی آخری آیات کے فوائد و برکات : ترمذی میں حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم اور اس کے بعد ایک مرتبہ سورة حشر کی آخری تین آیتیں ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو، سے آخر سورت تک پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتے ہیں جو شام تک اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے، اگر اس دن میں وہ مر گیا تو شہادت کی موت حاصل ہوگی اور جس نے شام کو یہی کلمات تین مرتبہ پڑھ لئے تو یہی درجہ اس کو حاصل ہوگا (مظہری) تمت بعون اللہ تعالیٰ سبحانہ و حمدہ سورة الحشر

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝ ٠ ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٢٤ ۧ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے بارئ خصّ بوصف اللہ تعالی، نحو قوله : الْبارِئُ الْمُصَوِّرُ [ الحشر/ 24] ، وقوله تعالی: فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] الباری ( پیدا کرنے والا ) یہ اسماء حسنیٰ سے ہے ۔ جیسے فرمایا :۔{ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الحشر 24) ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا ۔ { فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ } ( سورة البقرة 54) تو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے تو بہ کرو ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ معبود برحق پیدا کرنے والا ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلنے والا ہے اور رحموں میں صورت و شکل لڑکا و لڑکی نیک و بد بنانے والا ہے۔ یا باری کا مطلب یہ ہے کہ نطفہ میں روح ڈالنے والا ہے اس کی بلند وبالا صفتیں ہیں جیسا کہ علم وقدرت، سمع و بصر وغیرہ سو انہیں سے اس کو پکارو۔ تمام مخلوقات اور ہر ایک زندہ چیز اسی کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ } ” وہی ہے اللہ ‘ تخلیق کا منصوبہ بنانے والا ‘ وجود بخشنے والا ‘ صورت گری کرنے والا۔ “ اس آیت میں (اللہ کے علاوہ) تین اسمائے حسنیٰ آئے ہیں ۔ ان تینوں اسماء کا تعلق تخلیقی عمل کے مختلف مراحل سے ہے اور اس لحاظ سے یہاں ان کا ذکر ایک فطری اور منطقی ترتیب سے ہوا ہے ۔ ” خلق “ دراصل عمل تخلیق کا وہ مرحلہ ہے جب کسی چیز کا منصوبہ یا نقشہ تیار ہوتا ہے۔ بغرضِ تفہیم اگر ہم انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے ایک بڑھئی کی مثال سامنے رکھیں تو عمل تخلیق کے مختلف مراحل اور ان تینوں اسماء کے مابین پائے جانے والے خاص ربط کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ فرض کریں کہ بڑھئی ایک میز بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے وہ مطلوبہ سائز اور مطلوبہ شکل کی میز کا ایک نقشہ اپنے ذہن میں تیار کرتا ہے۔ یہ اس میز کی ذہنی تخلیق ہے۔ اس کے بعد بڑھئی مجوزہ نقشے کے مطابق لکڑی کا میز بنا کر اپنی ” ذہنی تخلیق “ کو عالم واقعہ میں ظاہر کردیتا ہے۔ پھر تیسرے اور آخری مرحلے میں وہ اسے finishing touches دیتے ہوئے رنگ و روغن کر کے میز کو حتمی طور پر تیار کردیتا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں اسمائے حسنیٰ کا تعلق تخلیق کے ان ہی تین مراحل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کا ایک نقشہ یا نمونہ تیار فرماتا ہے۔ اس مفہوم میں وہ الخالق ہے ‘ پھر وہ اس تخلیق کو عدم سے عالم وجود میں ظاہر کرتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ البارِیہے۔ (بَرَأَ کے معنی ظاہر کرنے کے ہیں۔ سورة الحدید کی آیت ٢٢ میں ہم پڑھ چکے ہیں : { مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّـبْرَأَھَا } ” اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں۔ “ ) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کو باقاعدہ ایک صورت یا شکل عطا کرتا ہے۔ اس معنی میں وہ ” الْـمُصَوِّر “ ہے ۔ { لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی } ” تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ “ { یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج } ” اسی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔ “ { وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ } ” اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔ “ اس سورت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے آغاز میں بھی اللہ کی تسبیح کا بیان ہے اور اس کا اختتام بھی اللہ کی تسبیح پر ہوتا ہے۔ آغاز میں تسبیح کے حوالے سے ماضی کا صیغہ (سَبَّحَ ) آیا ہے جبکہ اختتام پر مضارع کا صیغہ (یُسَبِّحُ ) ہے۔ اسی طرح اس کی ابتدائی آیت کے اختتام پر جو دو اسمائے حسنیٰ (الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم) آئے ہیں ‘ آخری آیت کا اختتام بھی ان ہی اسمائے حسنیٰ پر ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 The word used in the original is al-Malik, which means at He alone is the real Sovereign. Moreover, the word al-Malik its general sense also gives the meaning that He is King of the tire universe and not of a particular region or of a specific country. His Sovereignty and rule comprehends the entire universe. He is Master of everything. Everything submits itself to His command and power and authority, and there is nothing to delimit His Sovereignty. At different places in the Qur'iin all aspects of Allah's Sovereignty, have been presented and explained fully. "Whoever exist in the heavens and the earth are He servants; all arc obedient to Him." (Ar-Burn: 26) . "He administers the affairs of the world from the heavens to the earth. " (As-Sajdah: 5) "To Him belongs the dominion of the earth and the heavens, and all matters are referred to Him for decision." (AI-Hadid: 5) . "He has no partner in His sovereignty." (Al-Furqan: 2) . "In His hand is the absolute control of everything." (Ya Sin: 83) . "Doer of whatever He wills." (AI-Buruj: 16) . "He is accountable to none for what He does,l but aII others are accountable (to Him) .'" (Al-Anbiyii': 23) . "AIIah rules and there is none to reverse His decrees." (Ar-Ra'd: 41) . "The Being Who gives protection while none can give protection against Him." (Al-Mu'min: 88) . "Say: O AIlah, Sovereign of the Kingdom, Thou bestowest kingdom on whomcvcr Thou wilt, and Thou takest it away from whomcvcr Thou wilt. Thou exaltest whomcvcr Thou wilt and Thou abasest whomever Thou wilt. AII that is good is in Thy power; indeed Thou hast full power over all things." (Al-i-`lmriin: 26) . These explanations make it abundantly clear that Allah is not King in some limited or metaphoric sense but He is real King in the most perfect and complete sense of sovereignty. As a matter o£ fact, if sovereignty in its true sense is at aII found somewhere, it is found only in Allah's Kingship. Apart from this, wherever it is claimed to be, whether in the person of a king or dictator, or in a class or group or family, or in sonic nation, he or it possesses no sovereignty at aII, for sovereignty is not a gift, which may at one time be granted and at another time withdrawn, which may be in danger of being usurped, the establishment and existence of which may be temporary and temporal, and the sphere of power and authority of which may be circumscribed and restricted by many other conflicting powers.

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :45 یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پر داختہ ہے ۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے ، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے ، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں ۔ پہلا مرتبہ خَلُق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینیئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ ( Design ) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے ۔ دوسرا مرتبہ ہے برء ، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا ، چاک کرنا ، پھاڑ کر الگ کرنا ۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو ، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے ، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینیئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے ، پھر بنیادیں کھودتا ہے ، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے ۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا ، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا ۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سے کوئی مشابہت نہیں ہے ۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو ۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنی ایجاد ہے ۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے ۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے ۔ اسی طرح سورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے ۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس ، ہر نوع ، اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہو بہو تکرار نہیں کی ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :46 ناموں سے مراد اسمائے صفات ہیں ۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسمائے صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو ، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے یہ اسمائے حسنیٰ بیان کیے گئے ہیں ، اور حدیث میں اس ذات پاک کے 99 نام گنائے گئے ہیں ، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ کی رویت سے بالتفصیل نقل کیا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :47 یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :48 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حدید ، حاشیہ 2 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کئی اسمائے حسنیٰ ذکر فرمائے گئے ہیں، یہاں اُن کا ترجمہ دیا گیا ہے، لیکن اصل نام یہ ہیں : الرَّحْمٰنُ، الرَّحِيْمُ، الْمَلِکُ، الْقُدُّوْسُ، السَّلَامُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْعَزِيْزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَکَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ،، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے کل نناوے نام بیان فرمائے ہیں، جنہیں ’’اسمائے حسنیٰ‘‘ کہا جاتا ہے، وللہ الحمد اولاً وآخراً۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:24) الخالق : پیدا کرنے والا۔ بنانے والا۔ خلق (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ الباری : نکال کھڑا کرنے والا۔ پیدا کرنے والا ۔ برء (باب نصر) مصدر سے جس کے معنی بنانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ باری اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے برأ یبرأ کا استعمال پیدا کرنا کے معنی میں ہوتا ہے اس اعتبار سے باری۔ خالق کے ہم معنی ہوگا۔ لیکن آیت ہذا (ھو الخالق الباری المصور) وہی اللہ ہے بنانے والا۔ نکال کھڑا کرنے والا۔ صورت کھینچنے والا۔ سے پتہ چلتا ہے کہ خالق اور باری دو علیحدہ علیحدہ صفتیں ہیں۔ اور ان دونوں میں باہم فرق ہے۔ البتہ ہم معنی ماننے کی صورت میں باری کو خالق کی تاکید سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں :۔ کہ باری وہ ہے جس نے مخلوق کو تفاوت اور اجزاء و اعضاء کے عدم تناسب سے بری پیدا کیا۔ یعنی یہ نہیں کیا کہ ایک ہاتھ تو بہت چھوٹا اور پتلا ہو اور دوسرا بہت موٹا اور بڑا۔ اسی طرح خاصیتوں اور شکلوں اور نیز خوبی اور برائی میں ایک دوسرے سے ممتاز فرمایا ۔ پس اس اعتبار سے باری خاص ہے اور خالق عام ۔ (روح المعانی) یعنی خالق کے معنی ہیں صرف پیدا کرنے والا۔ اور باری کے معنی خاص صفت پر پیدا کرنے والا۔ المصور : اسم فاعل واحد مذکر تصویر (تفعیل) مصدر سے صورت بنانے والا۔ پیدا کرنے والا۔ لہ : میں لام استحقاق کا ہے۔ اسی کے لئے ہیں۔ اسماء الحسنی : موصوف و صفت، خوبصورت نام۔ یسبح : مضارع واحد مذکر غائب۔ تسبیح (تفعیل) مصدر۔ اس کی تسبیح پڑھتا ہے۔ اس کی پاکی بیان کرتا ہے۔ اس کے پاک ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ ما : موصولہ۔ فی السموت والارض اس کا صلہ۔ جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وھو العزیز الحکیم۔ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ ماقبل کی تاکید و تعظیم کے لیے آیا ہے۔ الحکیم : حکمت والا۔ بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں سے ہے ۔ کیونکہ اصل حکمت و دانائی اسی کی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“6 یعنی ان مذکورہ صفات کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفات کمال ثابت ہیں جنہیں قرآن نے اسماء حسنی سے تعبیر کیا ہے7 یعنی اپنی زبان حال بازبان قال سے شہادت دے رہے ہیں کہ وہ ہر عیب پر نقص سے پاک ہے۔8 بعض روایات میں جو اگرچہ ضعیف ہیں اس آیت کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مثلاً حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ” جو شخص تین بار اعوذ باللہ السمیع العلیم من الظیطان الرجیم پڑھے، اور پھر سورة حشر کا آخری حصہ پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے پاس ستر ہزار فرشتے بھیج دیگا جو شیطان جنوں اور شیطان انسانوں سے اس کی حفاظت کرینگے۔ اگر رات کے وقت پڑھے گا تو صبح تک اور اگر دن میں پڑھے گا تو شام تک (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی ہر چیز کو حکمت کی موافق بناتا ہے۔ 1۔ پس ایسے باعظمت کے احکام کی بجا آوری ضرور اور نہایت ضرور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ جاری ہے۔ اَلْخَالِقُ : یہ نام خلق سے بنا ہے۔ خلق کا معنی تقدیر اور اندازہ ہے۔ الخالق صرف اللہ ہے وہی جن وانس، حیوانات، نباتات، جمادات اور ہر چیز کو اس کی فطرت کے مطابق پیدا کرنے کے ساتھ اس کی نشوونما کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے خالق کا لفظ نہیں بولا جاسکتا۔ کوئی کسی چیز کا بانی اور موجد تو ہوسکتا ہے لیکن خالق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا کسی کو خالق کہتا ہے پرلے درجے کی جہالت اور گناہ ہے۔ (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ) (الانعام : ١٠٢) ” یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ “ اَلْبَارِئُ : اللہ تعالیٰ ہی الباری ہے اس کے بغیر کوئی الباری نہیں ہوسکتا کیونکہ الباری کا معنی ہے ایسی چیز پیدا کرنے والا جس کا پہلے سے کلی طور پر وجود نہ ہو یہاں تک کہ اس کا مواد (Material) اور تصور بھی نہ پایا جائے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کو یوں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (فَتُوْبُوْ اِلٰی بَارِءِکُمْ ) (البقرۃ : ٥٤) اَلْمُصَوِّرُ : شکل و صورت بنانے والا۔ دنیا میں جو لوگ مصوری کے پیشے سے منسلک ہیں اور مختلف چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں چاہے وہ (Painting) کے ذریعے ہی تصویر کشی کرتے ہیں ان کے ذہن میں کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوتا ہے۔ جس میں آگا پیچھا کر کے کوئی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں المصّور نہیں کہا جاسکتا کیونکہ المصور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اسی نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے عربوں اور کھربوں صورتیں بنائیں اور قیامت اور قیامت کے بعد بھی بناتا رہے گا جو آپس میں مختلف ہیں اور ہوں گی انسان خود اپنے آپ پر غور کرے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو دوسرے کے ساتھ سو فیصد مماثلت رکھتا ہو اس لیے صرف ایک ہی ذات ہے جو حقیقی الخالق، الباری، المصور ہے۔ کیونکہ وہی عدم کو وجود دیتا ہے وہی جسم میں روح ڈالتا ہے اور وہی شکل و صورت میں امتیاز اور انفرادیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے تمام نام اچھے ہیں اس کو اسی کے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے کیونکہ زمین و آسمانوں کی کوئی چیز ایسی نہیں بیشک وہ بےجان ہو یا جاندار۔ سب اپنی اپنی زبان میں اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کے حضور اپنی فریاد رکھتے ہیں۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے اور وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ (ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) (آل عمران : ٦) ” وہی ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔ “ (وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ) (التین : ١ تا ٤) ” قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ اور طور سینا کی۔ اور اس پُر امن شہر کی۔ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔ “ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) (المومنون : ١٢ تا ١٤) ” اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔” پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو اس پیدا فرمایا جب اس کا وجود بھی نہیں تھا۔ ٣۔ زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور آخری تسبیح ہی طویل ہے : ھواللہ (٩٥ : ٤٣) ” وہی ہے معبود “ اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ الخالق الباری (٩٥ : ٤٢) ” تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اسے نافذ کرنے والا “۔ خلق کا مفہوم ہے : منصوبہ بنانا اور پورا نظام تقدیر تیار کرنا۔ اور باری کے معنی پھر اس منصوبے کو مسلسل نافذ کرتے چلے جانا۔ یہ دونوں صفات باہم متصل ہیں۔ ان میں فرق بھی لطیف ہے۔ المصور (٩٥ : ٤٢) ” صورت گری کرنے والا “۔ یہ صفت بھی سابقہ دونوں صفات سے مربوط ہے۔ یعنی منصوبہ ، پھر تخلیق اور پھر تصور اور خدوخال کا تعین۔ ہر چیز کی صورت اور سیرت کا تعین۔ ہر چیز کو اس کے خواص عطا کرنا۔ یہاں ان صفات کا مسلسل لانا ، جن کے اندر بہت کم فرق ہے اور جو تخلیق ہی کے مختلف مراحل ہیں ، یہ اشارہ دیتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کے کام میں یہی تدریج کار فرما ہوتی ہے۔ یہ اشارہ انسانوں کو دیا جارہا ہے۔ انسانی تصورات کے مطابق پہلے نقشہ تخلیق ، پھر تخلیق اور پھر تصور ہوتی ہے ورنہ اللہ کے ہاں تو نہ درجات ہیں اور نہ مراحل ہیں۔ وہاں تو کن فیکون ہے۔ ہم انسان ان امور کو اپنے دائرہ ضرورت میں لاکر سمجھتے ہیں اور ہماری قدرت اور طاقت بہت چھوٹی ہے۔ لہ الاسماء الحسنی (٩٥ : ٤٢) ” اس کے بہترین نام ہیں “۔ یہ نام بذات خود اچھے ہیں۔ ان کو اچھا کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی اچھا کہے تو اچھے ہوں۔ یہ اسمائے حسنی انسانوں کے دلوں پر حسن کے فیوض کرتے ہیں۔ ان پر غوروتدبر کرکے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا اور ان سے ہدایت لے کر انسان کمال حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ ان صفات کے ساتھ متصف ہونا پسند کرتا ہے تو یہ پسندیدہ صفات ہیں ، اوصاف حمیدہ ہیں۔ لہٰذا انسان کو ان درجات میں بلند ہوتے رہنا چاہئے۔ اسمائے حسنی کے ساتھ اللہ کی تسبیح ، پاکی اور یاد کا یہ طویل سلسلہ اب اس پوری کائنات کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز یہ فیوض لے رہی ہے لہٰذا تم بھی ان تسبیحات سے اشارات لو اور فیوض حاصل کرو۔ یسبح لہ ........................................ العزیز الحکیم (٩٥ : ٤٢) ” ہر چیز جو آسمان اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ یہ ہے وہ منظر جو ان صفات کے ذکر کے بعد ایک متوقع منظر ہے۔ تمام اشیاء اس میں شریک ہیں۔ سورت کا آغاز واختتام بھی باہم مل جاتا ہے اور آغاز میں بھی اللہ کی پاکی اور انجام میں اس کی تسبیح سبحان اللہ وبحمدہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

الحادی عشر : الْخَالِقُ پیدا کرنے والا۔ الثانی عشر : الْبَارِئُ پیدا کرنے والا۔ ان دونوں کلمات کا ترجمہ قریب قریب ہے بعض حضرات نے الْخَالِقُ کا معنی بالکل صحیح ٹھیک اندازے کے مطابق بنانے والا کیا اور الْبَارِئُ کا معنی کیا ہے کہ وہ عدم سے و جود بخشنے والا ہے۔ علامہ قرطبی نے الخالق ھاھنا المقدر والباری المنشی والمخترع لکھا ہے۔ ملا علی قاری (رح) مرقات شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں : الخالق من الخلق واصلہ التقدیر المستقیم ویستعمل بمعنی الابداع وایجاد شی من غیر اصل کقولہ تعالیٰ؍ خلق السماوات والارض و بمعنی التکوین کقولہ عزوجل : خلق الانسان من نطفة وقولہ بمعنی انہ مقدرہ اومو جدہ من اصل او من غیر اصل۔ اس کے بعد الباری کے بارے میں لکھتے ہیں : الھمزہ فی آخرہ ای الذی خلق الخلق بری من التفاوت۔ اس تصریح سے معلوم ہوگیا کہ خالق کا معنی یہ بھی ہے کہ اس نے بالکل ابتداء بغیر کسی اصل کے پیدا فرمایا اور یہ بھی ہے کہ اس نے پہلے سے کوئی چیز پیدا فرمائی ہو پھر اس سے کوئی چیز پیدا فرما دی اور ٹھیک اندازہ کے مطابق پیدا فرمانے کا معنی بھی ہے اور باری کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ پیدا فرمایا وہ تفاوت سے بری ہے۔ الثالث عشر : الْمُصَوِّرُ ، یعنی تصویریں بنانے والا، اجسام کی جتنی بھی تصویریں ہیں وہ سب اللہ کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے مظاہرے ہیں۔ سورة الانفطار میں فرمایا ﴿خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَۙ٠٠٧ فِيْۤ اَيِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ٠٠٨﴾ (جس نے تجھ کو پیدا فرمایا پھر تیرے اعضاء کو درست کیا پھر تجھ کو اعتدال پر بنایا جس صورت میں چاہا تجھ کو ترکیب دیدیا) ۔ پھر فرمایا ﴿ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى ﴾ (یعنی اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں) جن اسماء وصفات پر یہ اسماء دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ شانہ ان سے متصف ہے۔ سورة الاعراف میں فرمایا ﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ﴾ (اور اللہ کے لئے اچھے نام ہیں سو ان کے ذریعہ اس کو پکارو) اور سورة الاسراء میں فرمایا ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ١ؕ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى﴾ (آپ فرما دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو اس کے لئے اچھے اچھے نام ہیں) صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں اچھی طرح یاد کرلے گا۔ جنت میں داخل ہوگا۔ مزید تشریح و توضیح کے لئے انوار البیان اور علامہ جزری (رح) تعالیٰ کی کتاب الحصن الحصین اور اس کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں۔ سنن ترمذی میں ننانوے نام مروی ہیں اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہیں ان میں بعض نام وہ ہیں جو سنن ترمذی کی روایت سے زائد ہیں یعنی ان میں سے بہت سے نام وہ ہیں جو سنن ترمذی میں مروی نہیں ہیں۔ ﴿ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (رح) ٠٠٢٤﴾ (سب چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے) ۔ فائدہ : حضرت معقل بن یسار (رض) کا بیان ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم پڑھ کر سورة حشر کی یہ آخری تین آیات پڑھ لے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ شانہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دے گا جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے رہیں گے اور اگر اس دن مرجائے تو شہید مرے گا اور جو شخص شام کو یہ عمل کرے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ شانہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دے گا جو اس پر صبح تک رحمت بھیجتے رہیں گے اور اگر وہ اس رات میں مرجائے گا تو شہید مرے گا۔ (ترمذی) تم تفسیر سورة الحشر والحمدللہ اولا وآ؍را وبطنا و ظاھرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” ھو اللہ الخالق “ یہ توحید کا پہلا مرتبہ اور دعوائے توحید کی تیسری علت ہے۔ پیدائش کے تین مراتب ہیں۔ اول خلق ہر چیز کی پیدائش کا حسب حکمت منصوبہ تیار کرنا۔ دوم، برء، عدم سے وجود میں لانا۔ سوم، صورت عطا کرنا۔ (الخالق) المقدر لما یوجدہ۔ (البارئ) المخترع المنشئ للاعیان من العدم الی الوجود (المصور) ای یخلق صورۃ العخلق علی ما یریدہ۔ فاولا یکون خلقا ثم برا ثم تصویرا (خازن و معالم ج 7 ص 73) ۔ اس کے علاوہ بھی اس کی بہت صفتیں ہیں۔ حاصل یہ کہ ساری کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔ اس لیے حاجت و مشکلات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ 25:۔ ” یسبح لہ “ یہ ابتداء سورت میں مذکور دعوے کا اعادہ ہے۔ ابتداء میں بصیغہ ماضی اور یہاں بصیغہ مضارع تاکہ استمرار تجددی پر دلالت کرے۔ یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز مسلسل اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں لگی ہوئی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ وہ جامع کمالات ہے، ہر نقص وعیب سے منزہ اور علم وقدرت میں کامل ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة حشر میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ سبح للہ ما فی السموات وما فی الارض۔ الایۃ “ نفی شرک ہر قسم 2 ۔ ” ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو۔ الایۃ “ توحید کا تیسرا مرتبہ یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں 3 ۔ ” ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو۔ الایۃ “ دوسرا مرتبہ۔ وہی متصرف و مختار ہے۔ 4 ۔ ” ھو اللہ الخالق البارئ۔ الایۃ “ توحید کا پہلا مرتبہ، وہی سب کا خالق ہے۔ سورة الحشر ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) وہ معبود برحق ہے وہ ہر چیز کا خالق ہے وہ ایجاد واختراع کرنے والا ہے وہ صورت بنانے والا ہے ، سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے خاص ہیں جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ خالق اور باری کے معنی میں تھوڑا سا فرق ہے۔ خالق کے معنی کسی چیز کو اندازے کے ساتھ پیدا کرنا اور باری کے معنی ہیں عدم سے وجود میں لانا بعض حضرات نے باری کے معنی ٹھیک ٹھیک بنانے والا کئے اچھے اچھے اور نیک نام جو اچھی صفتوں پر دلالت کرتے ہیں سب اسی کو زیبا اور اسی کے نام ہیں۔ خلاصہ : یہ کہ سورت کے آخر میں پھر توجہ دلائی کہ ایسے زبردست مالک الملوک کی موجودگی میں دوسروں کو معبود سمجھنا کس قدر جہالت اور نادانی ہے ہر حالت میں وہی فرمانروا ہے اور اسی کے احکام کی بجاآوری ہونی چاہیے۔ تم تفسیر سورة الحشر