Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 8

سورة الحشر

لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اَمۡوَالِہِمۡ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾

For the poor emigrants who were expelled from their homes and their properties, seeking bounty from Allah and [His] approval and supporting Allah and His Messenger, [there is also a share]. Those are the truthful.

۔ ( فیٔ کا مال ) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those Who deserve the Fai'; and the Virtues of the Muhajirin and Al-Ansar Allah states; لِلْفُقَرَاء الْمُهَاجِرِينَ ... (And there is also a share in this booty) for the poor emigrants, Allah states the categories of needy people who also deserve a part of the Fai', ... الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ... who were expelled from their homes and their property, seeking bounties from Allah and (His) good pleasure, meaning, departed their homes and defied their people, seeking the acceptance of Allah and His favor, ... وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَيِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ and helping Allah and His Messenger. Such are indeed the truthful. meaning, `they are those who were truthful in statement and deed, and they are the chiefs of the Muhajirin.' Allah the Exalted praised the Ansar next and emphasized their virtue, status and honor, preferring to give to others over themselves, even though they were in need, and not feeling enviousness. Allah the Exalted said,

مال فے کے حقدار اوپر بیان ہوا تھا کہ فے کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آ گیا ہو اس کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پھر آپ یہ مال کسے دیں گے؟ اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس کے حق دار وہ غریب مہاجر ہیں جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لئے اپنی قوم کو ناراض کر لیا یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا ، اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد میں برابر مشغول ہیں ، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں ، یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا ، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے رضی اللہ عنہم ۔ پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت شرافت کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے ، ان کی کشادہ دلی ، نیک نفسی ، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا ، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایمان دار بن گئے تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے ، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی ، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگذر اور چشم پوشی کر لے ۔ ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت برابر ہمیں دے رہے ہیں ، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے ۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہو گے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا کہ میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے آپ نے فرمایا اچھا اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے کہ انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے آپ نے فرمایا نہیں ، پھر فرمایا سنو کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تو پیداوار میں شریک رکھو ، انصار نے جواب دیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے ، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا ، اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے ، تھوڑی دیر میں ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لئے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے تیسرے دن بھی یہی ہوا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لئے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہو گئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گذار دوں انہوں نے کہا بہت اچھا چنانچہ حضرت عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کر لیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھیں ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا ، جب تین راتیں گذر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کونسی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی چنانچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کونسا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں چنانچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی ، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا میں کبھی کسی مسلمان کا بد خواہ نہیں بنا ، حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہو گیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں ۔ امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اس حدیث کو لائے ہیں ، غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے ، بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) اتری ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں انصار نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئے آپ نے فرمایا اس سے بھی زیادہ ایثار کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہو آپ نے فرمایا مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم آپ اپنے مال کو قبضہ میں رکھو خود کام کرو خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کر دو انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کر لیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے ۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہو جائے یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے ، ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے ۔ یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں ، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر لگا دیا آپ نے پوچھا تبھی ابو بکر کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو؟ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی رکھ آیا ہوں ، اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا کہ میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں ، تڑپ رہے ہیں ، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے ، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے ، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آ جاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہو جاتا ہے ، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا ، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا ۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے آپ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خود کچھ نہیں یہ معلوم کر کے پھر آپ نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے؟ ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چنانچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں بیوی صاحبہ نے کہا آج گھر میں بھی برکت ہے بچوں کے لئے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں انصاری نے فرمایا اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گذار دیں گے ، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا انہی کے بارے میں ( وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ Ḍ۝ۚ ) 59- الحشر:9 ) نازل ہوئی ، صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ پھر فرماتا ہے جو اپنے نفس کی بخیلی حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی ۔ مسند احمد اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو ظلم سے بچو! قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا لوگو بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کر دیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ فحش سے بچو ۔ اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بےحیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے ، حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ، یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہو گیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کر لیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہو گیا آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ کہا قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پالی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں ، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھا جائے ، ہاں بخیلی بہ معنی کنجوسی بھی ہے بہت بری چیز ہے ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابو لہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں ۔ ( دعا اللھم فی سخ نفسی ) الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں؟ اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہو گیا تو پھر نہ زنا کاری ہو سکے گی نہ چوری اور نہ کوئی برا کام اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف تھے رضی اللہ عنہ ( ابن جریر ) ایک حدیث میں ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہو گیا ، پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورہ برات میں ہے ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ١٠٠؁ ) 9- التوبہ:100 ) یعنی اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں ، اس دعا سے حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لئے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر یہی آیت آپ نے تلاوت فرمائی ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے ( بغوی ) ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ ) 59- الحشر:6 ) میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اسی طرح اس کے بعد کی ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) والی نے عام کر دیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کر لیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے ، اس حدیث کی سند میں انتقطاع ہے ، ابن جریر میں ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀ ) 9- التوبہ:60 ) تک پڑھ کر فرمایا مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں پھر ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ 41؀ ) 8- الانفال:41 ) والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں پھر یہ ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) پڑھ کر فرمایا مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کر دیا ہے ، سب اس کے مستحق ہیں ۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چروا ہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لئے پسینہ تک نہ آیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اموال فے میں محتاجوں اور مہاجرین کا حصہ :۔ مال فے کی تقسیم میں پہلے محتاجوں کا عمومی ذکر فرمایا۔ اس کے بعد بالخصوص ان مہاجر محتاجوں کا ذکر فرمایا۔ جنہوں نے محض اسلام اور اللہ کی رضا کی خاطر اپنا گھر بار مال و دولت اور جائیدادیں سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ جبکہ یہاں ان کی آباد کاری اور معاش کے مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا تو عملی طور پر اسے سچ کر دکھایا۔ اور ہر وقت ہی اللہ کے دین کی مدد کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ایسے محتاج عام محتاجوں کی نسبت اموال فے کے زیادہ حقدار ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ لِلْفُقَرَآئِ : یہ پچھلی آیت میں مذکور :” وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ “ سے بدل ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ ان چاروں سے مراد فقراء مہاجرین ہیں اور انصار اور ان کے بعد آنے والے جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ، ان سے محبت کرنے والے اور ان کے لیے دعا کرنے والے ہیں۔ ٢۔ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ : یعنی ایک تو وہ فقراء ہیں پھر مہاجر ہیں ۔ مراد ان سے وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس جرم میں نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ یہ لوگ اپنے وطن میں گھر بار اور جائیداد وغیرہ سب کچھ رکھتے تھے مگر اب خالی ہاتھ تھے ، نہ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر تھے نہ ضرورت کے لیے مال ۔ بنو نضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے ان کی رہائش اور معاش کا کوئی مستقبل بندوست نہ تھا۔ انصار نے انہیں اپنے ساتھ اپنے گھروں میں رکھا ہوا تھا اور انہیں اپنے باغات اور زمینوں کی آمدنی میں بھی شرکت کر رکھا تھا ۔ اس آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ مال فے کے حق دار ہیں ، تا کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کے مشورے سے بنو نضیر کے باغات اور زمینیں فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیں اور ان کے پاس انصار کی جو زمینیں اور باغات تھے وہ انصار کو واپس کردیئے گئے ۔ صرف دو انصاریوں کو ان اموال میں سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مال فے میں صرف اس زمانے کے مہاجرین کا حصہ تھا ، بلکہ قیامت تک جو لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے ملک سے نکال دیئے جائیں انہیں جگہ دینا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا مسلمان ملکوں کا فرض ہے ۔ اس کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فے بھی خرچ کیے جائیں گے۔ ٣۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہ ِ وَرِضْوَانًا : یعنی ہجرت سے ان کا مقصد دنیا کی کوئی چیز نہیں ، بلکہ انہوں نے محض اللہ کا فضل یعنی جنت اور اس کی رضا کی تلاش کے لیے ہجرت کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ توبہ کی آیت (٧٢) کی تفسیر۔ ٤۔ وَّیَنْصُرُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ ط : اور وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی یعنی ان کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ٥۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ : یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عمل کے ساتھ اپنے قول میں سچے ہونے کو ثابت کردیا ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے صادق ہونے کی شہادت دی ہے ، اگلی آیت میں انصار کے بھی ” المفلحون “ ہونے کی شہادت دی ہے۔ سورة ٔ انفال میں دونوں کے متعلق فرمایا :(اولیک ھم المومنون حقا ً ) ( الانفال : ٧٣)” وہی سچے مومن ہیں۔ “ اب اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو انکے صدق یا ایمان میں شک کرے یا ان کے متعلق زبان درازی کرے ! ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Merits of al-Muhajirin [ The Emigrants ] لِلْفُقَرَ‌اءِ الْمُهَاجِرِ‌ينَ الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا وَيَنصُرُ‌ونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ([ And fai& is especially ] for the poor emigrants who were expelled from their homes and properties, while they were seeking the grace of Allah and (His) pleasure, and were helping Allah and His Messenger. They are the truthful.... 59:8) This verse describes all the characteristics of the emigrants. The first of them is that they were driven from their homes and wealth, that is to say, their only crime was that they had embraced Islam and supported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، as a result of which the pagans of Makkah persecuted them, so much so that they had to abandon their hearths and homes and emigrate to Madinah. Some of them had to tie stones to their stomach on account of unbearable hunger, and others used to protect themselves against cold by digging holes in the ground, because they did not have clothes to save them from the chill of winter. [ Mazhari, Qurtubi ] An Important Issue: The rule about the control of unbelievers over the wealth and property of the Muslims This verse describes the emigrants as poor, whereas a faqir [ poor ] in Islamic law refers to a person who has no property whatever, or a person who possesses a little property, but is poor because he does not possess the minimum amount of property constituting nisab of Zakah. However, most of the emigrants were rich, wealthy and affluent while they were in Makkah. Even after migration, if the wealth had remained in their ownership, it would be inappropriate to refer to them as &poor& because they had nisab of Zakah. But the Qur&an refers to them as &poor& and thus points out that the wealth and property which they had left behind in Makkah, and the pagans subsequently took possession of them, became the property of the pagans and the Muslims lost its ownership. Therefore, Imams Abu Hanifah and Malik رحمۃ اللہ علیہما ruled that if Muslims abandon their homes and possessions and migrate to some other land, and the non-believers take control of their abandoned homes and property, the ownership passes into their hands and Muslims lose ownership. Similarly, if - God forbid! - the unbelievers conquer an Islamic country, usurping Muslim property and wealth, then after having full control over it, they are deemed as owners of that property. Consequently, their transactions of sale and purchase of such properties are recognized in Shari` ah. Mazhari has, on this occasion in his commentary, cited all the relevant Traditions supporting this view. The second characteristic of the emigrants is described thus: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا (...seeking the grace of Allah and [ His ] pleasure...59:8). When they embraced Islam, abandoned their country and wealth and migrated, they did not have any ulterior motive. They did all this only to seek Divine favour and gain His good pleasure. This indicates their perfect sincerity. The word fadl [ bounty, grace ] is normally used for worldly blessings and ridwan [ good pleasure ] for blessings of the Hereafter. From this viewpoint, the verse purports to describe that the emigrants gave up all their previous means of luxury, such as their hearths and homes, and now they were in quest of their worldly needs and the blessings of the Hereafter in the shade of Islam. Their objective was to seek the necessities of worldly life under the banner of Allah&s and His Messenger&s efficacious grace. The third characteristic of the emigrants is described thus: وَيَنصُرُ‌ونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ (...and were helping Allah and His Messenger...59:8). The phrase &help Allah& means to help His religion, for which they made tremendous and amazing self-sacrifices. The fourth characteristic of the emigrants is described thus: أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (... They are the truthful...59:8). That is, such people are sincerely true in words and deeds. The covenant they made with Allah and His Messenger by reciting the kalimah, they duly fulfilled it and proved themselves to be true about it. This verse candidly testifies to the truthfulness of all emigrant Companions. Anyone calling any of them a &liar& cannot be a Muslim, because he is rejecting this verse. God forbid! Rawafid call these Companions &hypocrites&. This is a clear rejection of the verse. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) held the emigrant Companions (رض) in such high esteem that when he prayed to Allah, he would supplicate through their wasilah. [ as transmitted by Al-Baghawi and Mazhari ].

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ. ان چند آیات میں آخر رکوع تک فقراء مہاجرین و انصار اور ان کے بعد آنے والی عام امت کے افراد کا بیان ہے، ترکیب نحوی کے اعتبار سے للفقراء کو لذی القربیٰ کا بدل قرار دیا گیا جو اس سے پہلی آیت میں مذکور ہے (مظہری) اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ پچھلی آیت میں جو عام یتیموں، مساکین اور مسافرین کو ان کے فقر و احتیاج کی بنا پر مال فئی کے مستحقین میں شمار کیا گیا ہے ان آیات میں اس کی مزید تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اگرچہ حقدار اس مال میں تمام ہی فقراء و مساکین ہیں لیکن پھر ان میں یہ حضرات اور سب لوگوں سے مقدم ہیں جن کی دینی خدمات اور ذاتی اوصاف و کمالات دینیہ معروف ہیں۔ اموال صدقات میں صلحاء اور دینی خدمات انجام دینے والے حاجت مندوں کو مقدم کیا جائے : اس سے معلوم ہوا کہ اموال صدقات خصوصاً مال فئی اگرچہ عام فقراء مسلمین کی حاجت رفع کرنے کے لئے ہیں لیکن ان میں بھی نیک، صالح، دیندار خصوصاً دینی خدمات انجام دینے والے طلباء، علماء اوروں سے مقدم رکھے جاویں، اسی لئے اسلامی حکومتوں میں تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق میں مشغول علماء اور مفتیوں، قاضیوں کو ان کے گزارہ کے اخراجات مال فئی ہی سے دینے کا رواج تھا، کیونکہ ان آیات میں صحابہ کرام میں بھی اول دو درجے قائم کئے گئے، ایک مہاجرین جنہوں نے سب سے پہلے اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بڑی قربانیاں پیش کیں اور اسلام کے لئے بڑے مصائب جھیلے، بالآخر مال و جائیداد، وطن اور تمام خویش و اقرباء کو خیر باد کہہ کر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، دوسرے انصار مدینہ ہیں، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ آنے والے مہاجرین حضرات کو بلا کر دنیا کو اپنا مخالف بنایا اور ان حضرات کی ایسی میزبانی کی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی، ان دونوں طبقوں کے بعد تیسرا درجہ ان مسلمانوں کا قرار دیا جو حضرات صحابہ کے بعد مشرف باسلام ہوئے اور ان کے نقش قدم پر چلے جس میں قیامت تک آنے والے مسلمان سب شریک ہیں، آگے ان تینوں طبقات کے کچھ فضائل و کمالات اور دینی خدمات کا بیان ہے۔ فضائل مہاجرین : (آیت) الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ اس میں مہاجرین کا پہلا وصف یہ بیان فرمایا کہ ان کو ان کے وطن اور مال و جائیداد سے نکال دیا گیا، یعنی کفار مکہ نے صرف اس جرم میں کہ یہ لوگ مسلمان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامی و مددگار ہوگئے تھے ان پر طرح طرح کے مظالم کئے یہاں تک کہ وہ اپنا وطن اور مال و جائیداد چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، بعض لوگ بھوک سے مجبور ہو کر پیٹ کو پتھر باندھ لیتے تھے اور بعض لوگ سردی کا سامان نہ ہونے کے سبب زمین میں گڑھا کھود کر اس میں سردی سے بچتے تھے (مظہری، قرطبی ) ایک اہم مسئلہ، مسلمانوں کے اموال پر کفار کے قبضہ کا حکم : اس آیت میں حضرات مہاجرین کو فقراء فرمایا ہے اور فقیر وہ شخص ہوتا ہے جس کی ملک میں کچھ نہ ہو یا کم از کم بقدر نصاب کوئی چیز نہ ہو، حالانکہ حضرات مہاجرین میں سے اکثر مکہ مکرمہ میں اصحاب اموال و جائیداد تھے، اگر ہجرت کے بعد بھی وہ اموال ان کی ملکیت ہوتے تو ان کو فقراء کہنا درست نہ ہوتا، قرآن کریم نے ان کو فقراء فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ ہجرت کے بعد ان کی جائیداد اور مال جو مکہ میں چھوڑ آئے اور کفار نے ان پر قبضہ کرلیا وہ ان کی ملک سے نکل گئے۔ اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک نے فرمایا کہ اگر مسلمان کسی جگہ ہجرت کر کے چلے آویں اور ان کے مال و جائیداد پر کفار قابض ہوجائیں، یا خدانخواستہ کسی دارالاسلام پر وہ غالب آ کر مسلمانوں کے اموال و جائیداد چھین لیں تو یہ اموال و جائیداد کفار کے مکمل قبضہ مالکانہ کے بعد انہی کی ملک ہوجاتے ہیں، ان کے تصرفات بیع و شراء ان اموال مسلمین میں نافذ ہوتے ہیں، روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، تفسیر مظہری میں اس جگہ وہ سب روایات نقل کی ہیں۔ دوسری صفت مہاجرین کی اس آیت میں یہ ذکر فرمائی ہے يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا، یعنی ان کے اسلام میں داخل ہونے اور پھر ہجرت کر کے مال و وطن کو چھوڑنے کی کوئی دنیاوی غرض نہ تھی، بلکہ صرف اللہ کا فضل و رضا مطلوب تھی، جس سے ان کا کمال اخلاص معلوم ہوا، لفظ فضل عموماً دنیوی نعمت کے لئے اور رضوان آخرت کی نعمت کے لئے بولا جاتا ہے، اس لئے مفہوم یہ ہوا کہ ان حضرات نے اپنے تمام سابقہ اسباب عیش، مکان، جائیداد وغیرہ کو تو چھوڑ دیا، اب دنیاوی ضروریات بھی اور آخرت کی نعمتیں بھی صرف اسلام کے سایہ میں مطلوب تھیں اور دنیا کی ضروریات زندگی بھی اللہ و رسول کی رضا کے تحت حاصل کرنا مقصود تھا۔ تیسرا وصف حضرات مہاجرین کا یہ بیان فرمایا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ، یعنی یہ سب کام انہوں نے اس لئے اختیار کئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کریں، اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد ہے، جس میں انہوں نے حیرت انگیز قربانیاں پیش کیں۔ چوتھا وصف ان کا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ، یعنی یہی لوگ قول و عمل کے سچے ہیں، کلمہ اسلام پڑھ کر جو عہد اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باندھا تھا اس میں بالکل پورے اترے، اس آیت نے تمام صحابہ مہاجرین کے صادق ہونے کا عام اعلان کردیا، جو شخص ان میں سے کسی کو جھوٹا قرار دے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ اس آیت کا منکر ہے، معاذ اللہ، روافض جو ان حضرات کو منافق کہتے ہیں یہ اس آیت کی کھلی تکذیب ہے، ان حضرات مہاجرین کا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک یہ مقام تھا کہ اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے ان فقراء مہاجرین کا وسیلہ دے کر دعا فرماتے تھے، کمار واہ (البغوی، مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝ ٨ ۚ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : 354- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مال بنی نضیر کے بارے میں صحابہ کرام نے حضور سے فرمایا کہ اس میں سے آپ اپنا حصہ لے لیجیے اور باقی ہمارے لیے رہنے دیجیے، اس پر اللہ تعالیٰ ان سے فرما رہا ہے کہ یہ مال فی بالخصوص حاجت مند مہاجرین کا حق ہے جن کو مکہ والوں نے ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اور یہ تقریبا سو آدمی تھی کیونکہ یہ حضرات جہاد کے ذریعے سے ثواب اور اپنے پروردگار کی رضا کے طالب ہیں اور جہاد کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور یہی لوگ ایمان اور جہاد کے سچے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ } ” یہ (خاص طور پر) اُن تنگ دست مہاجرین کے لیے ہے جو نکال دیے گئے اپنے گھروں اور اپنے اموال سے “ { یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ ط } ” وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کر رہے ہیں۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔ } ” یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ “ یہاں سورة الحدید کی آیت ٢٥ کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِط } یعنی حق و باطل کی کشمکش سے دراصل اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے (ظاہر کردینا چاہتا ہے ) کہ کون لوگ غیب میں ہونے کے باوجود اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کے لیے جاں بکف ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں نہ صرف مال فے کی تقسیم کے حوالے سے فقراء مہاجرین کی ترجیح واضح کردی گئی بلکہ ان کی بےلوث قربانیوں کی تصدیق و توثیق بھی فرما دی گئی کہ یہ لوگ صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر گھروں سے نکلے ہیں۔ اب چونکہ ان کے پاس اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بھی کچھ نہیں تو مال فے کی تقسیم میں ان کے لیے خصوصی حصہ رکھا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 In the preceding verse what was pointed out was why these properties should not be distributed among the fighting army like the spoils, and why the legal injunction concerning them is different from that concerning the spoils Now in this verse it is being stated as to who are entitled to have a sha. re in these properties. The first share in these is of AIIah and His Messenger. The dctail of how the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) acted on this injunction has been related by Malik bin Aus bin al-Hadathan on the authority of Hadrat 'Umar (may Allah be pleased with him), thus: The Holy Prophet used to take from it necessary expenses for himself and his family and the rest he used to spend on arranging arms and conveyances for Jihad. (Bukhari Muslim, Musnad Ahmad, .96u Da 'ud, Tirmadhi Nasa i and others). After the passing away of the Holy Prophet this share was transferred to the Public Treasury of the Muslims so that it is spent in the service of the mission which Allah had entrusted to His Messenger. Imam Shafa' i is reported to have expressed the opinion that the share which was specifically meant for the Holy Prophet's person (upon whom be Allah's peace), is for his caliph after him, for the Holy Prophet was entitled to it on the basis of his office of leadership and not on the basis of the office of Apostleship. But the view of the. majority of the Shafe'i jurists in this matter is the same as of the other jurists, viz. that this share now is reserved for the religious and collective welfare of the Muslims, and not for any particular. person. The second share is of the kinsfolk, and this implies the kinsfolk of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace), i.e. the Bani Hashim and the Bani al-Muttalib. This share was set aside so that, besides meeting his own and his family's requirements, the Holy Prophet could also finlfil his obligations towards those of his relatives who stood in need of his help, or whom he felt like helping. ,After the death of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) this ceased to be a separate and independent source, because like the right; of the orphans and the wayfarers and the indigent among the Muslims, looking after the rights of the needy among the Bani Hashim and the Bani al-Muttalib also became the responsibility of the Public Treasury. However, they were treated as superior to others in so far as they had no share in the zakat. Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas has related that in the time of Hadrat Abu Bakr and 'Umar and 'Uthman (may Allah be pleased with them), the first two shares were dropped and only the remaining three shares (i.e. those for the orphans and the indigent and the wayfarers) were kept as of those entitled to fai Then Hadrat `AIi (may AIIah be pleased with him) also acted on the same in his time, Muhammad bin Ishaq has related on the authority of Imam Muhammad Baqir that although Hadrat 'Ali's personal opinion was the same as of the people of his house (that this share should be given to the relatives of the Holy Prophet), he did not think that he should act against the practice of Abu Bakr and `Umar. Hasan bin Muhammad bin Hanafiyah says that after the Holy Prophet a difference of opinion arose about these two shares (i.e. the sharc of the Holy Prophet and the share of his relatives). Some people said that the first share should go to the Holy Prophet's caliph, some said that the second share should go to the relatives of the Holy Prophet, and still others said that the second sharc should be given to the relatives of the caliph. At last, a consensus was reached that both the shares be spent on the requirements of Jihad 'Ata' bin Sa'ib says that Hadrat 'Umar bin 'Abdul `Aziz in his time had started sending the share of the Holy Prophet and the share of the relatives to the Bani Hashim. The opinion of Imam Abu Hanifah and of most of the Hanafi jurists is that in this matter the same practice is cornet as was., being followed in the time of the righteous Caliphs. (Abu Yusuf, Kitab al-Kharaj pp. 19-21). Imam Share'i's opinion is that both the rich and the needy from among the people whose being descended from the Bani Hashim and the Bani al-Muttalib is confirmed, or is well known, can be given shares from fai. (Mughni al-Muhtaj). The Hanafis say that only their needy people can be helped from this; however, their right to this is greater than that of others. (Ruh al-Ma'ani). According to Imam Malik, there is no restriction on the government in this matter. It can spend on any head that it deems fit and proper, but the better course is that it should give preference to the people of the Holy Prophet's house. (Hashiyah ad-Dusuqi ala-sh-Sharh-al-Kabir). About the remaining three shares there is no dispute among the jurists. However, the difference between Imam Shafe'i and the other Imams is that according to Imam Shafe'i the total properties of fai are to be divided into five equal parts one part of which is to be spent on the above-mentioned heads in such a way that one-fifth of it is spent on the common benefits of the Muslims, one-fifth on the Bani Hashim and the Bani al-Muttalib, one-fifth on the orphans, one-fifth on the indigent and one-fifth on the wayfarers. However, Imam Malik, Imam Abu Hanifah and Imam Ahmad do not concur with this division. Their opinion is that the whole of fai is for the welfare and common benefit of the Muslims. (Mughni al-Muhtaj). 14 This is one of the most important verses of the Qur'an, which lays down the basic principle of the economic policy of the Islamic community and government. Wealth should circulate among the whole community and not only among the rich lest the rich should go on becoming richer day by day and the poor poorer. This policy has not merely been enunciated in the Qur'an, but for the same objective the Qur'an has forbidden interest, made the zakat obligatory, enjoined that khums (one-fifth) be deducted from the booty, exhorted the Muslims to practise voluntary charity, has proposed such forms of different kinds of atonements that the flow of wealth is turned towards the poor classes of society, and has made such a law of inheritance that the wealth left by every deceased person spreads among the largest circle of the people. Apart from this, stinginess has been condemned and generosity commended as a noble moral quality, the well-to-do people have been told that in their wealth there is a definite share of the beggar and the indigent, which they must discharge not as charity but as the right of the concerned people, and the law enjoined in respect of a major source of revenue of the Islamic government (i.e. far) is that its one portion must necessarily be spent on supporting the poor classes of society. In this connection, it should also be borne in mind that there are two main sources of the revenue of the Islamic government: zakat and fai. The zakat is charged from the Muslims on their total extra capital, cattle, wealth, trade goods and agricultural produce, which is over and above the minimum exemption limit (nisab), and most of it is reserved for the poor. And fai comprises all the revenues including jizyah and taxes which are received from the non-Muslims; a major part of these also is set aside for the poor, This gives a clear hint to the effect that an Islamic government should manage its revenues and expenditure and the financial and economic affairs of the country on the whole in such a manner that the wealthy and influential people are not allowed to have their monopoly over the means and resources of wealth, and the flow of wealth is neither turned from the poor to the rich nor it should remain circulating only among the rich. 15 In view of the context the verse means: "Accept without question whatever decision the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) gives about the management of the properties of the Bani an-Nadir, and likewise about the distribution of fai properties and goods afterwards. One should take whatever the Prophet gives him, and the one whom l le dces not give anything, should neither protest nor demand it But since the words of the Command arc general, its application is not restricted to the distribution of the Jai properties and goods only, but its intention is that in all matters the Muslims should obey the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace). This intention of the Command becomes all the more clear when we consider that as against "whatever the Messenger gives you" the words used are "whatever he forbids you" and not "what. ever he does not give you. " If the object of the Command were restricted to call obedience to the distribution offal properties and goods .only, then as against "whatever he gives you" the words should have been "whatever he does not give you. " The use of the forbidding or restraining words in this context by itself shows that the object of the Command is to enjoin obedience to the Holy Prophet in whatever he commands and forbids. The same thing has been stated by the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) himself. According to Hadrat Abu Hurairah he said: "When I command you to do a thing, do it as far as you can; and when 1 forbid you to do a thing, restrain from it." (Bukhari, Muslim). About Hadrat `Abdullah bin Mas'ud it has been related that once during a speech he said: "Allah has cursed the woman who practices such and such a fashion." Thereupon a woman approached him and asked, "Wherefrom have you derived this thing? For I have not seen such a thing anywhere in the Book of Allah." Hadrat `Abdullah replied, "Had you studied the Book of Allah, you would certainly have found it therein. Have you not read the verse: Ma ata-kum ar-Rasulu fa-khudu hu wa ma naha-kum `anhu fantahu: "Take whatever the Messenger gives you, and refrain from whatever he forbids you. " When she said that she had read this verse, Hadrat `Abdullah said: "So the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) has forbidden this act, and has given the news that Allah has cursed the women who practice it. " The woman agreed that she had understood the Command. (Bukhari Muslim, Musnad Ahmad, Musnad Ibn abi Hatim,).

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :16 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا ۔ اب حکم دیا گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے ، اور آئندہ جو اموال بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں ۔ ان میں عام مساکین ، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا حق بھی ہے ، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں ۔ اس حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کردیے گئے ۔ لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا ۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں ، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے ، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یعنی وہ صحابہ جنہیں کافروں نے مکہ مکرَّمہ سے نکلنے پر مجبور کیا، اور وہ اپنے گھروں اور جائیدادوں سے محروم ہوگئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:8) للفقراء المھجرین : لام تملیک کا ہے۔ الفقراء المھجرین موصوف صفت۔ مہاجر حاجت مند۔ یعنی ایسے مہاجر جو غریب حاجت مند اور نادار تھے۔ الذین اسم موصول، اخرجوا صلہ۔ ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ، جو نکالے گئے۔ تتبعون : مضارع جمع مذکر غائب ابتغاء (افتعال) مصدر۔ وہ ڈھونڈھتے ہیں۔ وہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں۔ فضلا : بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ بمعنی روزی، رزق، فضل ۔ جیست اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ لتبتغوا فضل من ربکم (17:12) تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو۔ الفضل کے معنی کسی چیز کے اقتصاد (متوسط درجہ) سے زیادہ ہونے کے ہیں۔ اور یہ دو قسم پر ہے :۔ (1) محمود : جیسے علم و حلم وغیرہ کی زیادتی۔ (2) مذموم : جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا۔ لیکن عام طور پر الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے۔ اور الفضول بری باتوں پر۔ رضوانا ” مفعول ثانی “ یبتغون کا۔ اور اس کی رضا مندی۔ الصدقون : اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ سچے۔ سچ بولنے والے۔ راست باز، سچے لوگ۔ الذین اخرجوا سے لے کر اخیر آیت تک مہاجر حاجت مندوں کی نعمت میں ہے۔ للفقراء المھاجرین کے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ مثلاً :۔ (1) للفقراء المھاجرین بدل ہے اور لذی القربی والیتمی والمسکین مبدل منہ ہے۔ (زمخشری) (2) للفقراء المھاجرین بدل ہے اور والیتمی والمسکین سے بدل ہے اور الیتمی والمساکین وابن سبیل مبدل منہ ہے۔ ذی القربی مبدل منہ میں داخل نہیں ہے۔ (مام شافعی) (3) للفقراء المھاجرین : ذی القربی والیتمی والمسکین سے بدل ہے للرسول سے بدل نہیں ہے۔ (علامہ پانی پتی (رح) ) علامہ موصوف آگے رقمطراز ہیں :۔ للفقراء میں الف لام عہد کا ہے اور معبود وہی لوگ ہوں گے جن کا ذکر اوپر کردیا گیا یعنی ذی القربی والیتمی والمسکین۔ پس یہ بدل الکل من الکل ہے۔ میرے نزدیک فقراء مہاجرین اور وہ لوگ جو آگے ذکر گئے ہیں ان تمام مؤمنوں کو شامل ہیں جو قیامت تک آنے والے ہیں خواہ زردار ہوں یا نادار ۔ جن لوگوں کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے یعنی ذی القربی وغیرہ وہ بھی انہی لوگوں کی ذیل میں داخ (رح) ہیں اس صورت میں فقراء مہاجرین وغیرہ عام قرار پائیں گے۔ اور پہلے جن کا ذکر آچکا ہے وہ خاص مانے جائیں گے اور یہ صورت بدل الکل من البعض کی ہوجائے گی۔ (4) للفقراء المھاجرین بدل ہے لذی القربی سے۔ اس کا عطف لذی القربی پر نہیں ہے۔ (بیضاوی) صاحب تفسیر حقانی فقراء مہاجرین کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ للفقراء المھجرین ۔۔ الخ کہ یہ ان فقراء مہاجرین کو ملنی چاہیے کہ جو اللہ کے لئے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئے ہیں جب عرب میں اسلام کا چرچا ہوا اور اس آفتاب کی کرنیں اس سر زمین پر پڑیں تو مکہ اور دوسری جگہوں کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے مگر جہاں کوئی مسلمان ہوا اس پر اس کی قوم کی طرف سے مصیبتیں آئیں اور مار دھاڑ شروع ہوئی۔ اس لئے گھر بار۔ وطن چھوڑ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے آتے تھے۔ اب ان کے پاس بجز صبر و فاقے کے اور تھا کیا ؟ ان کو مہاجرین کہتے تھے اس لئے ان پر ترحم دلاتا ہے۔ کہ ان کو بھی دو ۔ ان کی فکر بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رہتی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ لوگ صرف یہی بات نہیں کہ ہجرت کرکے چلے آئے ہیں بلکہ ینصرون اللہ ورسولہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اسلام کا لشکر جرار جس نے بڑے بڑے گردن کشوں کو سیدھا کردیا۔ انہیں لوگوں کا تھا۔ اولئک ہم الصدقون یہ سچے لوگ ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جنہیں کفار مکہ نے ان کے گھر بار سے نکال دیا اور مال و دولت سے محروم کردیا۔6 اللہ کے فضل سے مراددنیا کی روزی اور اس کی رضا مندی سے مراد آخرت کا ثواب ہے۔7 یعنی دین اسلام کی راہ میں کفار سے جہاد کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی انہوں نے کسی دنیوی غرض سے ہجرت نہیں کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مال فئی میں غریب مہاجرین اور مستحق انصار کا حصہ بھی شامل ہوگا۔ مالِ فئی میں ان مسلمانوں کو بھی حصہ ملنا چاہیے جنہیں ان کے مالوں اور گھروں سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔ یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مال فئی میں وہ ایماندار بھی حصہ دار ہیں جو پہلے سے مدینہ میں مقیم ہیں اور اپنے ہاں آنے والے مہاجرین کے ساتھ محبت رکھنے والے ہیں وہ مہاجرین کے لیے ایثار کرتے ہیں حالانکہ وہ خود بھی ضرورت مند ہیں۔ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے آپ پر مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص شح سے بچا لیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان بخل، گناہ اور ہر قسم کی کمزوری سے اللہ کی توفیق سے بچتا ہے۔ یہاں انصارِمدینہ کی یہ کہہ کر تعریف کی گئی ہے کہ وہ اس قدر مخلص اور ایثار پیشہ لوگ ہیں کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود مہاجرین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ انصار مدینہ نے اسی وصف کی بنا پر مہاجرین کے ساتھ دلی محبت کا اظہار کیا اور ایثار کی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” شُحَّ “ کا لغوی معنی ہے کنجوسی، بخل مگر جب اصطلاح میں اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کیا جائے۔ ” شُحَّ نَفْسِ “ کہا جائے تو یہ دل کی تنگی، کم حوصلگی اور دل کے چھوٹے پن کا معنی دیتا ہے۔ انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار : مکہ سے ہجرت کرنے والے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آئے تھے جن کے لیے انصار نے اس قدر محبت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمارے اور مہاجرین کے درمیان ہماری جائیدادیں اور باغات تقسیم کردئیے جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہادی جائیدادیں تمہارے پاس ہی رہیں گی۔ انصار نے مہاجرین سے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹائیں تو پیداوار میں آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مہاجرین کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ انصار نے عرض کی تو پھر بھی ہم پیداوار میں انہیں آدھا حصہ دیں گے۔ ایثار کی انتہا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ َ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیِّ (رض) وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ) (رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ فإذا قضیت الصلاۃ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ آئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع انصاری اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی سعد مال دار آدمی تھے انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کی شادی کا انتظام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور اہل میں برکت کرے مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیں اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف (رض) بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) آئے تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتنا مہر ادا کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس سے کچھ کم دیا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ولیمہ کریں خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔ “ ” حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا : میں آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ ہجرت میں پہل کرنے والے مہاجرین کے حق کا خیال رکھے اور جن انصار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے اس گھر اور ایمان میں جگہ بنالی ان کے بارے میں خلیفہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کی اچھائی قبول کرئے اور ان کی کمزوری سے درگذر کرے۔ “ (رواہ البخاری : باب ” وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ “ ) مسائل ١۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار چھوڑتے ہیں وہ اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہیں۔ ٢۔ جو لوگ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کے باوجود ان کی ضرورت کے لیے ایثار کرتے ہیں وہ فلاح پائیں گے۔ ٣۔ جو دل کی بخیلی سے بچالیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف : ١۔ جو اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں وہ کامیاب ہیں۔ (الاحقاف : ١٣، ١٤، حم السجدۃ : ٣٠) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں وہ کامیاب ہوں گے۔ (البقرۃ : ٨٢) ٣۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ (الرحمن : ٤٦) ٥۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

للفقرائ ........................ الصدقون (٩٥ : ٨) ” ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں “۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جس میں مہاجرین کے خدوخال اچھی طرح ثبت کردیئے گئے ہیں وہ اپنے گھروں اور مال سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ ان کی مشرکین کی اذیت اور ان کی سختی نیز رشتہ داروں اور اہل خاندان کی طرف سے سرد مہری کی وجہ سے گھر بار چھوڑنا پڑا اور ان کا کوئی قصور اس کے سوا نہ تھا کہ وہ کلمہ طیبہ کے قائل تھے اور صرف اللہ کو رب جانتے تھے۔ یبتغون .................... ورضوانا (٩٥ : ٨) ” یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں “۔ ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے۔ صرف اس کے بھروسہ پر جی رہے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔ وینصرون ................ ورسولہ (٩٥ : ٨) ” اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ ہیں “۔ اپنے دلوں کے ساتھ ، اپنی تلواروں کے ساتھ۔ اور پھر نہایت ہی مشکل حالات میں انہوں نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ اولئک ھم الصدقون (٩٥ : ٨) ” یہی راست باز لوگ ہیں “۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے کلمہ ایمان ادا کیا اور پھر اپے عمل سے اس کی تصدیق کی۔ وہ اللہ کے ساتھ سچے تھے کہ انہوں نے اللہ کو اختیار کیا۔ رسول اللہ کے ساتھ سچے تھے کہ انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اور سچائی کے ساتھ بھی مخلص تھے کیونکہ ان کی صورت میں سیچائی چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرات مہاجرین کرام کی فضیلت اور اموال فئی میں ان کا استحقاق اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ اموال فئی میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے، مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر چلے آئے جب مدینہ منورہ پہنچے تو حاجت مند اور تنگ دست تھے ان پر بھی اموال فئی خرچ كئے جائیں۔ اموال اور گھر بار چھوڑ کر ان کا مدینہ آنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی مطلوب ہے ان کی ہجرت کسی دنیاوی غرض سے نہیں ہے وہ جو تکلیفیں ان کو پہنچی تھیں وہ اپنی جگہ ہیں ان کے علاوہ مدینہ منورہ آکر بھی جہاد میں شریک ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور کافروں سے لڑتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے ایمان اور ایمان کے تقاضوں میں سچے ہیں۔ پہلی آیت میں جو یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل کا ذکر فرمایا ہے، اس کے عموم میں فقراء مہاجرین بھی داخل ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ بھی ان کا استحقاق ظاہر فرما دیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائی تھیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” للفقراء “ ای انفقوا للفقراء یہاں تبعاً ان جماعتوں پر انفاق کی ترغیب ہے یا یہ مع المعطوفین، لذی القربی مع المعطوفات سے بدل الکل ہے یعنی ان انواع اربعہ سے فقراء مہاجرین وانصار مراد ہیں۔ فکانہ اقیل اعنی باولئک الاربعۃ ھؤلاء الفقراء والمھاجرین (کبیر ) ۔ بدل من قولہ تعالیٰ (لذی القربی) والمعطوف علیہ (کشاف) اس ضمن میں مہاجرین اور انصار کے فضائل بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ” الذین اخروجو “ وہ مہاجرین جن کو مشرکین مکہ نے اپنے گھروں سے نکلنے اور اپنے مالوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا چونکہ وہ بےوطن ہیں اور سارا مال چھوڑ کر آگئے ہیں اس لیے مال فیئ میں ان ک ابھی حصہ ہے۔ اس کے بعد ان کی عظمت شان کا ذکر ہے۔ ” یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا “ یہ ” اخرجوا “ کے نائب فاعل سے حال ہے مہاجرین نے اپنے گھروں کو اور اپنے اموال ومالک کو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے چھوڑا اس میں ان کی کوئی دنیوی غرض نہیں تھی اپنی قوم سے ان کی مخالفت ذاتی نہ تھی، بلکہ محض خدا کے لیے تھی۔ ای خرجوا من دیارھم وخالفوا قومہم ابتغاء مرضاۃ اللہ ورضوانہ (ابن کثیر ج 4 ص 337) ۔ ” وینصرون اللہ “ یہ یبتغون پر معطوف ہے یہ مہاجرین کی ایک اور صفت ہے۔ ان کا اپنے گھروں سے نکلنا اور اپنی جائیدادوں کو چھوڑنا محض اللہ کے دین اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور تائید کے لیے تھا۔ ای ینصرون دین اللہ یعینون رسولہ (مدارک) ۔ ” اولئک ھم الصدقون “ یہ مہاجرین اپنے دعوائے ایمان میں سچے اور جہاد و انفاق میں اور دین حق کی حمایت و تائید میں مخلص ہیں۔ الکاملون فی الصدق فی دعواہم الایمان (روح) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہاجرین کے ایمان واخلاص کی شہادت ہے کہ انہوں نے اپنی جان پر جس قدر تکلیفیں اٹھائیں اور جس قدر مالی نقصان اٹھایا اور اپنے رشتہ داروں سے مخالفت مول لی یہ سب کچھ انہوں نے کسی دنیوی لالچ کے لیے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کے لیے کیا ہے۔ قال قتادۃ المھاجرون الذین ترکوا الدیار والاموال والعثائر وخرجوا حبا للہ ولرسولہ واختاروا الاسلام علی ما کانوا فیہ من شدۃ (خازن و معالم ج 7 ص 62) ۔ مہاجرین میں سے کسی شخص کے بارے میں منافقت کا اعتقاد رکھنا اس آیت کا صریح انکار اور کفر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام مہاجرین کو ایمان وعمل میں مخلص اور صادق فرمایا ہے۔ الصدقون فی ادعاء ایمانہم وحالہم علی ضد دعواھم فمن قال من الروافض انہم کانوا منافقین وکانوا کاذبین فی ادعاء الایمان کفر لاستلزام انکار ھذہ الایۃ (مظہری ج 9 ص 242) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اس مال فی میں ان فقرائے مہاجرین کا بھی خاص طور سے حق ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے مالوں سے بےدخل کئے گئے دراں حالیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کی متلاشی اور طلب گار ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کیا کرتے ہیں یہی لوگ ہیں حقیقی سچے اور راست بازی۔ یعنی یوں تو تمام مساکین اس مال فئے کے مستحق ہیں لیکن وہ فقراء خاص طور پر حق دار ہیں جو کفار کے تنگ کرنے کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور اپنا گھر بار مکہ معظمہ سے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کے فضل کی جستجو میں نکل آئے اور مدینے میں آکر اللہ تعالیٰ کے دین کی اور اس کے پیغمبر کی حتیٰ المقدور مدد کرتے ہیں اور چونکہ یہ محض اپنا دین بچانے کے لئے وطن چھوڑ کر آئے ہیں ان کا مقصد محض اللہ تعالیٰ اور اس کی رضاجوئی ہے اس لئے ان کو سچا اور راست باز فرمایا اور ان کی امداد پر خاص طور سے توجہ دلائی چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین پر تین انصاریوں پر بنی نضیر کا مال تقسیم فرمایا۔