Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 102

سورة الأنعام

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ فَاعۡبُدُوۡہُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۱۰۲﴾

That is Allah , your Lord; there is no deity except Him, the Creator of all things, so worship Him. And He is Disposer of all things.

یہ ہے اللہ تعالٰی تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز کا کارساز ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is Your Lord Allah said, ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ ... Such is Allah, your Lord! Who created everything and has neither a son nor a wife. ... لاا إِلَـهَ إِلااَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ... None has the right to be worshipped but He, the Creator of all things. So worship Him. Alone without partners, and attest to His Oneness, affirming that there is no deity worthy of worship except Him. Allah has neither descendants, nor ascendants, wife, equal or rival. ... وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ And He is the Guardian over all things. meaning, Trustee, Watcher and Disposer of affairs for all things in existence, giving them provisions and protection by day and night. Seeing Allah in the Hereafter Allah said,

ہماری آنکھیں اور اللہ جل شانہ جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ، یہی تمہارا پالنہار ہے ، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو ۔ اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں ، اس کی بیوی نہیں ، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں ، وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ جو کہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ابن عباس سے اس کے بر خلاف مروی ہے انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور نے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا سور نجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اسمعیل بن علی فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور حضرات فرماتے ہیں یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مومنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23؀ۚ ) 75 ۔ القیامۃ:22-23 ) یعنی اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے اور فرمان ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین:15 ) یعنی کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حجاب نہیں ہو گا متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ حضرت ابو سعید ابو ہریرہ انس جریج صہیب بلال وغیرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن اللہ تبارک و تعالیٰ کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین! یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، واللہ اعلم ، اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لئے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مومن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ تو بےمثل ہے ابن علی فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک اخص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہ کر لینے کو اور عدم احاطہ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ احاطہ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ آیت ( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ) 20 ۔ طہ:110 ) صحیح مسلم میں ہے حدیث ( لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک ) یعنی اے اللہ میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثنا کا نہ کرنا نہیں ، ابن عباس کا قول ہے کہ کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی ۔ حضرت عکرمہ سے کہا گیا کہ آیت ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام:103 ) تو آپ نے فرمایا کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ قتادہ فرماتے ہیں اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کرلیں ۔ چنانچہ ابن جرید میں آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ ) 75 ۔ القیامۃ:22 ) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہو گی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجودہ ہوں تاہم ناممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہ کر سکیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا تو میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ، تو آپ نے مجھے فرمایا یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اللہ تعالیٰ سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ اے موسیٰ جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا ، خود قرآن میں ہے کہ جب تیرے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے افاقہ کے بعد کہنے لگے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ۔ یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مومنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ حضرت عائشہ فرماتی ہیں آخرت میں دیدار ہو گا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی روایت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لئے بھی ناممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 67 ۔ الملک:14 ) کیا وہ نہیں جانے گا جو پیدا کرتا ہے جو لطف و کرم والا اور بڑی خبرداری والا ہے اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ ولا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے واللہ اعلم جیسے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا اگر کوئی بھلائی یا برائی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو خواہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لائے گا اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ۔۔ : یعنی صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے یقین رکھو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی ہر چیز کا خالق، حفیظ اور رقیب ہے۔ (ترجمان)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۝ ٠ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۝ ١٠٢ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج) یہ انداز خطاب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشرکین مکہ اور اہل عرب اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ اللہ کو مانتے تو تھے لیکن اللہ کی صفات ‘ اس کی قدرت ‘ اس کی عظمت کے بارے میں ان کا ذہن کچھ محدود تھا۔ اس لیے یہاں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ دیکھو جس اللہ کو تم مانتے ہو وہی تو تمہارا رب اور پروردگار ہے۔ وہ اللہ بہت بلند شان والا ہے۔ تم نے اس کی اصل حقیقت کو نہیں پہچانا۔ تم نے اس کو کوئی ایسی شخصیت سمجھ لیا ہے جس کے اوپر کوئی دباؤ ڈال کر بھی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ تم فرشتوں کو اس کی بیٹیاں سمجھتے ہو۔ تمہارے خیال میں یہ جس کی سفارش کریں گے اس کو بخش دیا جائے گا۔ اس طرح تم نے اللہ کو بھی اپنے اوپر ہی قیاس کرلیا ہے کہ جس طرح تم اپنی بیٹی کی بات ردّ نہیں کرتے ‘ اسی طرح تم سمجھتے ہو کہ اللہ بھی فرشتوں کی بات نہیں ٹالے گا۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقی قدرت ‘ اس کی عظمت ‘ اس کا وراء الوراء ہونا ‘ اس کا بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم ہونا ‘ اس کا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر ہونا ‘ اس کا ہر جگہ پر ہر وقت موجود ہونا ‘ اس کی ایسی صفات ہیں جن کا تصور تم لوگ نہیں کر پا رہے ہو۔ لہٰذا اگر تم سمجھنا چاہو تو سمجھ لو : (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج ) وہ ہے اللہ تمہارا رب جس کی یہ شان اور قدرت بیان ہو رہی ہے۔ (لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَط خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ ) ۔ اس کے سوا کوئی تمہارے لیے کارساز نہیں۔ خود اس کا حکم ہے : (اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ) (بنی اسرائیل ) کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا کار ساز نہ سمجھا کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:102) وکیل۔ صفت مشبہ۔ وکل سے (ضرب) نگران، نگہبان ۔ کارساز ۔ ضامن ۔ گواہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے یقین رکھو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ہر چیز کا خالق حفیظ رقیب اور بڑارازق ہے (ترجمان )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 13 ۔ آیات 102 تا 111: اسرار و معارف : وہ تو ارض و سما کا بنانے والا اور ایسا بنانے والا ہے جس نے تخلیق کی ابتدا فرمائی نہ یہ کہ پہلے کوئی چیز تھی اور دیکھ کر یا مختلف اشیاء کا وجود تھا انہیں جوڑ کر زمین آسمان بنا دئیے بلکہ کچھ بھی نہ تھا پردہ عدم سے اشیاء کو وجود میں لایا اور اس کی اپنی اکیلی عظیم ذات کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اس کی مخلوق ہے ہر چیز کو اس نے پیدا فرمایا ہے اور وہ اکیلا خالق ہے نادانو بیٹا تو باپ کی جنس اور انہیں صفات کا حامل ہوتا ہے۔ جیسے انسان کا بچہ کیسا بھی ہو انسان تو ضرور ہوگا جب بیٹا ہو ناممکن ہے تو وہ اپنی شان اور ذات میں اکیلا تو نہ رہا پھر تو اس کے لیے بیوی بھی ہونی چاہئے اور اگر یہ سب سلسلہ ہوا تو پھر مخلوق خالق کی ہمسری کا دعوی کرسکتی ہے ہرگز نہیں اسی لیے وہ اکیلا ہے بےمثل و بےمثال ہے کوئی اس کی بیوی ہے نہ بیٹا بلکہ سب کچھ ہی اس کی صنعت اور مخلوق ہے تم سب کا پیدا کرنے اور پالنے والا ایسی ہی عظیم شان کا مالک ہے لہذا اس کے سوا کسی کو حق نہیں کہ معبود کہلائے نہ کوئی ہے اور نہ تمہیں زیب دیتا ہے کہ مخلوق مخلوق ہی کی عبادت شروع کردے اس لیے صرف خالق کل کی عبادت کرو اور یاد رکھو جس نے سب مخلوق کو پیدا فرمایا ہے سب کا کارساز بھی وہی ہے اگر اس کی بارگاہ سے منہ موڑ کر کسی بھی دوسرے کی عبادت کرتے بھی رہو تو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا اس لیے مخلوق ہونے کی وجہ سے خود محتاج ہوگا۔ رویت باری : ساری مخلوق کی نگاہیں مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتیں لیکن وہ بیک وقت ان سب لطیف نگاہوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور محیط ہے اس لیے کہ وہ بہت باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے کائنات کا کوئی ذرہ کسی لمحے اس کی ذات سے اوجھل نہیں اور دوسری کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس قدر وسیع علم کی متحمل ہوسکے۔ اس لیے کہ مخلوق کی نگاہ بھی تو ایک حاسہ ہے جو محسوس اشیاء کو ہی دیکھ سکتی ہے مگر اس کی ذات تو وہم و خرد سے بھی بالا تر ہے کہ وہ لا محدود ہے اور قیاس و خرد محدود ہاں ایک بات بہت اہم یہاں زیر بحث لائی گئی ہے کہ کیا دنیا میں رویت باری ممکن ہے ؟ اس کا سیدھا جواب علماء حق نے دیا ہے کہ اس عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور رویت نہیں ہوسکتی اور اس پر بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا رب ارنی۔ تو فرمایا۔ لن ترانی۔ کہ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے تو پھر کسی اور کو کیا دعوی ہوسکتا ہے شب معراج جو دیدار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا وہ اس دنیا کے امور سے متعلق نہیں کہ علما کے مطابق دنیا آسمان کے اندر ہے اور اس کے آگے کا عالم آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور آخرت میں تو مومنین کو میدان حشر میں بھی اور جنت میں بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا جس پر بہت احادیث مبارکہ دلالت فرماتی ہیں بلکہ جنت کی نعمتوں میں سب سے اعلی نعمت ہی دیدار باری ہے۔ ایک بات جو بہت وزن رکھتی ہے وہ یہ کہ حدیث احسان میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کریم کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو یہ یقین ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے یہاں دو درجے ارشاد ہوئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ عبادت کرنے کا حق یہ ہے کہ گویا تم ذات باری کو دیکھ رہے ہو اب اگر یہ کہا جائے یہ تو محض تصور کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے تو جو کام ممکن ہی نہ ہو وہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تصور کیا ہی نہیں جاسکتا اس کے بارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ارشاد فرما رہے ہیں تو بڑی سیدھی سی بات یہ ہے کہ چشم ظاہر سے عالم دنیا میں دیدار باری ممکن نہیں لیکن اگر دل بینا ہو تو دل کی نگاہ سے دیکھا بھی جاسکتا ہے بشرطیکہ اللہ کریم خود کسی کو کوئی ذرہ جمال دکھانا چاہیں اور تصور بھی کیا جاسکتا ہے مگر ہر آدمی ایسا نہیں کرسکتا یہ اللہ کے خاص بندوں کا مقام ہے اور دوسروں کے لیے انتہائے کمال یہ ہے کہ وہ یقین حاصل کرلیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے رہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کی تو مسئلہ وہاں بھی یہی ہے کہ چشم باطن تو ان کی منور تھی فرشتوں کو تجلیات باری کو دیکھ رہے تھے سوال چشم ظاہر سے نظارہ کرنے کا تھا جس پر ارشاد ہوا کہ چشم ظاہر کو اس عالم میں یہ قوت نصیب نہیں ہاں آخرت میں یہ قوت عطا کردی جائے گی جیسا کہ تفسیر مظہری اور دیگر تفاسیر میں ہے کہ اگر رویت باری چشم ظاہر سے ہو تو پھر صرف انسانی آنکھ ہی نہیں ہر نگاہ دیکھے گی اور ہر وجود حسن لازوال کا اثر قبول کریگا اور تاب نہ لاتے ہوئے سب فنا ہوجائیں گے اس لیے ارشاد ہوا لن ترانی ورنہ چشم باطن یا دل کی نگاہ نصیب ہو تو آخرت کا مشاہدہ بھی ممکن ہے اور ملائکہ سے کلام بھی انوارات و تجلیات تو نظر آتی ہی ہیں کسی پر انتہائے لطف ہو تو جمال ذات کا شمہ نصیب ہوجانا بھی ممکن ہے واللہ اعلم بالثواب اور آخرت میں اہل جنت کو اللہ کا دیدار ضرور نصیب ہوگا مگر وہاں بھی نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ نہ کرسکیں گی کہ مخلوق لاکھوں قوتیں پانے کے باوجود مخلوق ہی ہے اور اس کی ذات مخلوق کی گرفت و احاطہ سے بالا تر ہاں وہ ہر ذرے سے باخبر ہے اور ہر آن ہر شے کا علم رکھتا ہے ختم نبوت : لوگو اس کی عظمت پہ بیشمار واضح اور روشن دلائل آ چکے انسانیت تک یہ سب کچھ پہنچ چکا پھر آپ کی بعثت آپ کے کمالات و معجزات اور اللہ کا کلام یہ سب کچھ تمہارے پاس ہے اب مزید کچھ نازل نہیں ہوگا کوئی نئی دعوت نہیں آئے گی یہ بھی ختم نبوت پہ بہت بڑی دلیل ہے کہ جو کچھ نشانات ظاہر فرمانا منظور تھے وہ ہوچکے اب آپ انہیں یہ سمجھا دیں کہ بات تمہاری طرف ہے جس نے ان چیزوں پہ غور کیا اور اللہ کی اطاعت اختیار کی اس نے اپنا اپنی ذات کا بھلا اور فائدہ کرلیا مقصد حیات کو پا لیا اور جس نے آنکھیں بند کرلیں یعنی اس قدر واضح دلائل ہیں کہ جو نہ دیکھنا چاہے گویا اس نے آنکھ ہی بند کرلی تو اس نے بھی اپنا ہی نقصان کیا ، رہی میری حیثیت تو فرما دیجیے کہ میں تم پر داروغہ یا محافظ مقرر نہیں ہوں کہ تمہیں خواہ مخواہ لے کر بارگاہ الہی میں پیش کرنا ہے بلکہ میرا کام سب انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا اور جو قبول کریں اور ہدایت کے طالب ہوں ان کی تربیت فرمانا ہے۔ قرب نبوت : یہ ہمارا کرم ہے کہ اس قدر روشن دلائل مہیا فرم ادئیے اور آپ کا امی ہونے کے باوجود اس قدر اعلی کلام جس کا مضمون ، معانی اور بیان ایسا روشن ہے کہ بڑے بڑے فضلا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز اور فلاسفر و حکماء حیران لیکن ان کی کجروی بھی دیکھیں کہتے ہیں آپ نے کہیں سے سیکھ لیا حالانکہ آپ کی حیات مبارکہ تو ان کے سامنے ہے مگر کج رو ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں اور ہمارا مقصد بھی ہر ایک سے منوانا نہیں بلکہ جو طالب حق ہوں اور طلب علم رکھتے ہوں ان کی رہنمائی ہے ورنہ طاقت سے منوانا منظور ہوتا تو کس کی مجال تھی کہ شرک میں مبتلا ہوتا جو انسان ایک ایک سانس کے لیے محتاج ہے وہ بھلا کیا روگردانی کی جرات کرے گا ہاں خود ہم نے یہ آزمائش رکھی اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ اطاعت یا خود سری میں سے ایک راہ پسند کرلے لہذا آپ کے ذمہ ان کی حفاظت نہیں ہے اس طرح کہ کوئی انسان بھی گمراہ نہ ہو بلکہ جو شرک اور گمراہی کو اپنائیں آپ ان سے اپنا رخ انورپھیر لیں ان کی ہرگز کوئی پرواہ نہ کریں یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہی لوگوں کو تعلق نصیب ہوگا جن میں خلوص دل سے اللہ کریم کی طلب پیدا ہوگی ورنہ محض رسومات جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی بلکہ اکثر رسوم ایسی ہوتی ہیں جو بارگاہ نبوت سے دور کردینے کا باعث بنتی ہیں۔ اعاذنا اللہ منھا۔ بدکلامی منع ہے : ان آیات میں ایک سنہری اصول ارشاد ہوا کہ مشرکین جن معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں ان کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ سب ، ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جن سے کسی کو منسوب کیا جائے تو وہ ناپسند کرے یا سننے والوں میں اس کی تحقیر ہو اور عرف میں گالی کو کہتے ہیں تو فرمایا اگر تم ان کے لیے نازیبا کلمات استعمال کروگے تو وہ اللہ کی عظمت سے بےبہرہ ہونے کی وجہ سے اس کی شان میں گستاخی کریں گے اس لیے کہ انسانی مزاج ایسا بنایا گیا ہے کہ ہر آدمی اپنے کردار اور فکر کو ہی جائز قرار دیتا ہے اور اسی کو پسند کرتا ہے اور جب تک اللہ کی طلب پیدا نہ ہو انسان اس بات سے دست بردار نہیں ہوتا لہذا دلائل بیان کرو ، کردار سے واجح کرو مگر سلجھے ہوئے اور پسندیدہ انداز میں طعن وتشنیع سے نہیں اس میں واعظین کے لیے مقام عبرت ہے جو مسلمانوں پہ بھی بےدھڑک فتوے صادر کرتے چلے جاتے ہیں ہاں اگر وہ قبول نہیں کرتے تو انہیں بھی لوٹ کر رب العالمین ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے پھر وہ ان پر واضح فرما دے گا کہ ان کا اپنایا ہوا راستہ اور کردار کیسا تھا۔ یہ نادان ابھی قسمیں کھا کھا کر کہہ رہے ہیں کہ کوئی نشان آجائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے یعنی اب تک جو کچھ نازل ہوچکا جس قدر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام آئیے جو معجزات لائے پھر خود نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت یہ سب کچھ گویا کچھ ہوا ہی نہیں تو انہیں کہ دو کہ اللہ قادر ہے چاہے تو مزید نشان نازل کرے مگر ایسا ہوگا نہیں اس لیے نہیں کہ اللہ کریم کر نہیں سکتا اس لیے کہ اب جو آپ کی بعثت اور دلائل پہ مطمئن نہیں ہو پا رہا اللہ کریم کو ایسے لوگوں کی پرواہ بھی نہیں ہے اور اے مسلمانوں تمہیں کیا خبر کہ یہ ایمان لے آئیں گے ہم بتاتے ہیں کہ اگر اور کوئی بہت بڑا معجزہ بھی ظاہر ہوجائے تو یہ ایمان نہ لائیں گے اس لیے کہ جس دل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کو جگہ نہیں دی جس آنکھ کو آپ کا جمال متاثر نہیں کرسکا اسے اللہ کی طرف سے ہمیشہ کے لیے محروم ہی کردیا جاتا ہے یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس دروازے سے ہٹ جانے والے کو اللہ کریم کبھی اپنے دروازے کا راستہ دیکھنے کی توفیق ہی ارزاں نہیں فرماتے۔ بلکہ ایسے لوگ اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے گمراہیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ غرض خالق بھی وہی علیم بھی وہی۔ وکیل بھی وہی اور یہ سب امور مقتضی ہیں کہ معبود بھی وہی ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٠٢ ا۔ جب یہ بات تسلیم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ ہی خالق ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہی بادشاہ اور مالک ہے ۔ اور جب اللہ ہی خالق اور مالک ہے تو لازما وہی رازق ہے اس لئے کہ جب وہ خالق ہے اور مالک ہے تو رزق اسی کی ذمہ داری ہے اور یہ رزق وہ اپنی مملکت سے دیتا ہے جس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔ اللہ کی مملکت میں جو کچھ بھی ہے یا جس چیز سے بھی انسان فائدہ اٹھاتے ہیں وہ تمام چیز میں اللہ کی مملوکہ ہیں اور جب تخلیق ‘ ملکیت اور رزق اللہ کا ہے تو یہ بات حتما ثابت ہوجاتی ہے کہ رب بھی وہی ہے ۔ لہذا یہ ہر انسان کا فرض ہوگا کہ وہ خصائص ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ ربوبیت کی اہم خصوصیات یہ ہیں ‘ مختار ومنتظم ہونا ‘ ہدایت دینا ‘ بادشاہ ہونا اور ایسی پوزیشن میں ہونا کہ اس کی اطاعت کی جائے اور وہ ایک ایسا نظام اور دین دے جس پر لوگ اجتماعی طور پر عمل کریں ۔ (دیکھئے المصطلحات الاربعہ فی القرآن مولانا ومودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان ‘ مباحث الوہیت ‘ ربوبیت اور عبادت) لہذا ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اطاعت اس کی ہوگی جن میں سے اہم خضوع اور سرتسلیم خم کرنا ہے ۔ عرب لوگ اپنے دور جاہلیت میں اس بات کے منکر نہ تھے کہ اللہ اس کائنات کا خالق ہے ۔ وہ لوگوں کا خالق اور رازق ہے اور تمام لوگوں کو اللہ کی ملکیت سے تمام ضروریات زندگی فراہم ہو رہی ہے ۔ اس کی ملکیت میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے ۔ عربوں کے علاوہ تمام دوسری جاہلیتیں بھی ان حقائق کا انکار نہ کرتی تھیں (ماسوائے یونانی فلاسفہ کیا کی ایک قلیل تعداد کے) اور اس زمانے میں ہمارے دورجدید کے مادی مذاہب نہ تھے جن کی تشہیر وتشریح یونانی دور کے مقابلے میں زیادہ وسیع طور پر ہو رہی ہے ۔ لہذا سلام کے آغاز کے دور میں اللہ کے ساتھ جن الہوں کو شریک کیا جاتا تھا ان کی عبادت اس لئے کی جاتی تھی کہ یہ الہ الہ حقیقی کے قرب کا سبب اور ذریعہ ہیں ۔ یہ ایک انحراف تھا اور دوسرا انحراف یہ تھا کہ لوگوں کی زندگیوں پر اسلامی نظام حیات کی حکمرانی نہ تھی ۔ اور نہ اس دور میں تحریک اسلامی کو ایسے لوگوں سے سابقہ تھا جو ہمارے دور میں پائے جاتے ہیں جو سرے سے وجود باری کے منکر ہیں اور یہ انکار وہ بغیر علم بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی جو لوگ وجود باری کے منکر ہیں یا انکار خدا پر اصرار کرتے ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ ایک حقیر اقلیت ہی میں رہیں گے ۔ حقیقی گمراہی یہ تھی جس طرح آج ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور سے نظام زندگی اخذ کرتے تھے اور یہی وہ روایاتی شرک تھا جس پر جاہلیت عربیہ قائم تھی اور تمام دوسری جاہلیتیں قائم رہی ہیں۔ اب جو حقیر اقلیت انکار خدا پر مصر ہے کیا اس کے پاس کوئی علمی دلیل ہے ؟ کیا اس کا انکار سائنس پر مبنی ہے ؟ اگرچہ اس کا دعوی تو ہے لیکن سائنس ان کے اس عقیدے کی تصدیق نہیں کرتی ہے ؟ نہ کوئی سائنسی دلیل ہے اور نہ اس کائنات کی طبیعیات میں اس بات پر کوئی دلیل ہے ۔ یہ دراصل وہ انحراف اور بغاوت ہے جو لوگوں نے اہل کلیسا اور ان کے خداؤں کے خلاف اختیار کی ۔ کلیسا کے خدا اس بات پر مصر تھے کہ لوگ کلیسا کے پاس غلام ہوں حالانکہ اصول دین میں سے کوئی اصل ایسا نہ تھا کہ لوگوں کو غلام رکھا جائے ۔ پھر ان مذہبی پیشواؤں کی شخصیت کی فطری نشوونما بھی غلط تھی ۔ وہ انسان کے انسانی وظائف کو معطل کر رہے تھے مثلا وہ لوگ جنہیں بتییسمہ دے دیا جاتا تھا ۔ (دیکھئے کتاب الخصائص التصور الاسلامی باب الوہیت اور بندگی) یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں تخلیق کائنات اور تقدیر نظام کائنات کا ذکر اس لئے نہیں کیا جاتا کہ ان امور سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وجود پر دلائل قائم کیے جائیں ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکرین کا موقف اس قدر بودا تھا کہ قرآن کریم جیسی سنجیدہ کتاب میں اس پر بحث مناسب ہی نہ تھی ۔ خلق اور تقدیر کے حقائق تو قرآن مجید میں اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ راہ راست پر آجائیں ‘ وہ اپنے عقائد و اعمال میں اللہ کی الوہیت ‘ اس کی حاکمیت اور اس کی مکمل بندگی کو نافذ کریں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ یہی صورت حال حقیقت حیات کی ہے ۔ لیکن سائنسی اعتبار سے تخلیق اور دنیا کو ایک نہایت ہی حکیمانہ اندازے کے مطابق پیدا کرنا ‘ اور اس کائنات کے اندر زندگی کی مختلف شکلوں کو پیدا کرنا ‘ ایسے حقائق ہیں جو ان لوگوں کے دلائل کے قلع قمع کرنے کے لئے نہایت ہی کافی وشافی ہیں ۔ جو لوگ ذات باری کے وجود کے بارے میں کج بحثی کرتے ہیں وہ ان حقائق کے ہوتے ہوئے وجود باری کے خلاف کوئی قوی دلیل نہیں لاسکتے ‘ ماسوائے اس کے کہ وہ ہٹ دھرمی کریں اور اپنے آپ کو شرمندہ کریں۔ جو لیان ہاکسلے نے دو کتابیں لکھی ہیں ” انسان اکیلا کھڑا ہے “ اور ” انسان جدید دنیا میں “ یہ شخص ایسے ہی لوگوں میں سے ہے جو اس سلسلے میں نہایت ہی دریدہ دینی سے کام لیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں ۔ یہ شخص ایسی باتیں کرتا ہے جو صرف اس کے دل کی خواہشات ہیں اور ان باتوں پر کوئی علمی اور سائنسی دلیل اس کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اپنی کتاب ” انسان جدید دنیا میں “۔ یہ شخص ایسے ہی لوگوں میں سے ہے جو اس سلسلے میں نہایت ہی دریدہ دینی سے کام لیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں ۔ یہ شخص ایسی باتیں کرتا ہے جو صرف اس کے دل کی خواہشات ہیں اور ان باتوں پر کوئی علمی اور سائنسی دلیل اس کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اپنی کتاب ” انسان جدید دنیا میں “ میں دین کے موضوع پر یہ کلام کرتا ہے : ” ہمیں سائنس کی ترقی ‘ منطق کی ترقی اور علم النفس کی ترقی نے اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ایسے حالات میں اب اس کائنات کے کسی خدا کو فرض کرنے کا فائدہ نہیں ہے ۔ طبیعی علوم نے ہماری عقل سے خدا کو نکال دیا ہے ۔ چناچہ اب وہ اس کائنات کا حاکم اور مدبر نہیں رہا ہے ۔ اب یہ خدا اگر ہے تو وہ پہلا سبب (cAuse) ہے اور ایک مجمل یا ناقابل فہم بنیاد ہے “۔ دل ڈیورانٹ اپنی کتاب ” مناہج فلاسفہ “ میں لکھتے ہیں : ” فلسفہ بھی خدا کی ذات سے بحث کرتا ہے لیکن فلسفے کا خدا لاہوتی خدا نہیں ہے جسے وہ لوگ عالم طبیعی سے خارج وجود سمجھتے ہیں بلکہ بلاسفہ کا الہ ” قانون عالم ‘ اس کا ہیکل ‘ اس کی زندگی اور اس کی مشیت ہے “ ۔ ہمارے قارئین ایسی باتیں برداشت نہیں کرسکتے لیکن بہر حال یہ باتیں کہی گئی ہیں ۔ ہم اپنے مسائل کا فیصلہ نہ قرآن سے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی عقل سے ان کے ان غلط اقوال پر کوئی فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ ہماری عقل بھی قرآن ہدایت سے فیض یاب ہے ۔ ہم ان لوگوں کا فیصلہ انہی جیسے سائنس دانوں کی عدالت میں پیش کردیتے ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا ہے ۔ جان کلیفلانڈ کو تران ‘ مشہور ریاضی دان اور ماہر طبیعیات ہیں۔ انہوں نے جامعہ کو رنل سے ڈاکٹریت کی ڈگری لی اور ایک دوسری یونیورسٹی میں طبیعیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔ یہ شخص اپنے ایک مقالے میں جو ” حتمی نتیجہ “ کے عنوان سے کتاب ” اللہ سائنس کے دور میں روز روشن کی طرح ہیں “ میں شائع ہوا ‘ لکھتے ہیں : ” کیا کوئی سمجھ دار آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ مادہ جو عقل اور حکمت سے عاری ہے ‘ وہ خود اپنے آپ کو پیدا کرسکتا ہے اور یہ بھی محض اتفاق سے ۔ کون عقلمند ہے جو ایسا عقیدہ رکھ سکتا ہے یا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس بےجان اور بےعقل مادے نے یہ پورانظام اور یہ قوانین طبیعی ایجاد کئے اور پھر یہ قوانین اس نے اپنے اوپر لاگو کرلیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر معقول انسان اس سوال کا جواب نفی میں دے گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب مادہ قوت میں بدلتا ہے یا قوت مادے میں بدلتی ہے تو یہ عمل بھی متعین قوانین کے تحت ہوتا ہے وہ مادہ جو یہ نتائج پیدا کرتا ہے وہ بھی ان قوانین طبیعی کا پابند ہے جن کا وہ مادہ پابند ہے وج اس سے پہلے تھا “۔ ” کیمیائی تجربے بتاتے ہیں کہ مادے میں سے بعض چیزیں زوال اور فنا کی طرف جارہی ہیں ۔ ان میں سے بعض فنا کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔ بعض دوسری ایسی ہیں تو سست رفتاری سے فنا کی طرف جارہی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات مسلمہ ہے کہ مادہ ابدی نہیں ہے اور جب وہ ابدی نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ ازلی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ایک دن ایسا تھا جس میں مادے کی ابتدا ہوئی ۔ کیمیائی شواہد اور دوسرے سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مادے کا آغاز اس طرح نہیں ہوا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوا ہو یا وہ تدریج کے ساتھ آگے بڑھا ہو بلکہ دلائل یہ بتاتے ہیں کہ مادہ اچانک نمودار ہوا ہے ۔ آج سائنس نے وہ وقت بھی متعین کردیا ہے جس میں مادہ وجود میں آیا ۔ ان حقائق سے معلوم ہوگیا کہ یہ جہان مخلوق ہے اور جب سے یہ پیدا ہوا ہے وہ متعین قوانین قدرت کا پابند ہے ۔ لہذا اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ گنجائش ہے کہ یہاں معاملات اتفاقات سے طے ہوتے ہیں ۔ “ ” جب یہ مادی دنیا ‘ اس بات کی اہل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود پیدا کرسکے ‘ یا وہ قوانین اور ضابطے متعین کرسکے جس کے تحت دنیا کو چلنا ہے تو یہ بات متعین ہوگئی اور ثابت ہوگئی کہ یہ مادی مخلوقات کسی غیر مادی ذات کی پیدا کردہ ہے ۔ تمام قرائن اور شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس ذات خالق کو عقل و حکمت کا حامل ہونا چاہئے ۔ عقل عالم مادی میں کوئی کام بغیر اس کے اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک اس کے ساتھ ارادہ نہ ہو ۔ مثلا طب اور نفسیاتی علاج کا نظام اس بات کو ثابت کرتا ہے اور جو ذات صاحب ارادہ ہوگی وہ لازما اپنا ذاتی وجود رکھتی ہوگی لہذا خود ہماری عقل جو حتمی اور لازمی نتیجہ نکالتی ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس عالم کا ایک خالق ہے بلکہ وہ خالق علیم و حکیم بھی ہے اور ہر چیز پر قادر بھی ۔ وہ اس عالم کی تخلیق کی بھی قدرت رکھتا ہے اور اس کا انتظام اور تدبیر بھی کرتا ہے ‘ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خالق علیم و حکیم بھی ہے اور ہر چیز پر قادر بھی ۔ وہ اس عالم کی تخلیق کی بھی قدرت رکھتا ہے اور اس کا انتظام اور تدبیر بھی کرتا ہے ‘ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خالق دائم الوجود ہو ۔ اس کی آیات و علامات ہر جگہ پائی جاتی ہوں لہذا کوئی معقول شخص اس عالم کے مسئلہ کو اس وقت تک حل نہیں کرسکتا جب تک وہ وجود باری تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا ہو ‘ جو اس عالم کا خالق ہو اور اس کی طرف متوجہ ہو جس طرح ہم نے اس مقالے کے آغاز میں کہا “۔ لارڈ کلیفن کے زمانے کے بعد سائنسی علوم نے جس قدر ترقی کی ہے ‘ اس کے بعد ہمارے لئے یہ دلیل بےمثال انداز میں مؤکد ہوگئی ہے ۔ اس سے پہلے اس قسم کا کوئی تاکیدی استدلال نہ تھا کہ جس قدر بھی ہم گہرے غور وفکر سے کام لیں تو بہت جلد سائنس ہمیں مجبور کردے گی کہ ہم خدا پر ایمان لائیں۔ ایک دوسرے ماہر علوم جدید اور بیالوجی کے ماہر فرانک ایلن ایک مقالے میں جس کا عنوان یہ ہے ‘ تخلیق کائنات اتفاق ہے یا بالارادہ ہے “ اور یہ مقالہ بھی مذکورہ بالاکتاب میں ہے ۔ لکھتے ہیں : ” اکثر اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مادی کائنات کسی بھی خالق کی محتاج نہیں ہے ۔ لیکن اگر ہم تسلیم کریں کہ یہ جہان موجود ہے تو سوال یہ ہوگا کہ یہ کس طرح موجود ہوا ۔ اس سوال کے صرف چار جواب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ محض وہم اور خیال ہے ‘ تو یہ احتمال اس لئے غلط ہوگا کہ ہم نے اس کا وجود تسلیم کرکے گفتگو شروع کی ہے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ کائنات از خود وجود میں آئی ہے اور پھر تیسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ازلی ہو اور اس کا کوئی آغاز نہ ہو اور چوتھا یہ ہے کہ اس کا کوئی خالق ہو ۔ جہاں تک پہلے احتمال کا تعلق ہے تو اسے تسلیم کرنے میں اور کوئی مشکل نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ ہمارا شعور واحساس اس احتمال کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ عالم محض وہم ہے اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ۔ ماضی قریب میں یہ رائے سرجیمس جینز نے اختیار کی ۔ انہوں نے طبیعیات میں اس رائے کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جہان کا کوئی عملی وجود نہیں ہے بلکہ ہمارے ذہن کے اندر یہ محض ایک تصویر ہے ۔ اس رائے کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم محض ادہام کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ مثلا یہ ریل گاڑی جس میں ہم سوار ہو کر جاتے ہیں اور جسے ہم چھوتے ہیں یہ محض وہم ہے ۔ ان گاڑیوں میں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی محض ادہام ہیں اور یہ ریلیں جن صحراؤں اور دریاؤں کو عبور کرتی چلی جارہی ہیں ان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے ۔ وہ جن پلوں کے اوپر سے گزرتی ہیں وہ بھی محض وہم ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس رائے اور نظریے سے بڑھ کر اور کوئی وہمی بات نہ ہوگی۔ رہی دوسری رائے کہ یہ جہان اور یہ پوری مادی دنیا خودبخود وجود میں آگئی تو یہ بات اور احتمال سابقہ احتمال سے بھی زیادہ بودا ہے ‘ زیادہ احمقانہ ہے اور اس کے بارے میں بھی بحث وجدال کرنا یا اس پر سوچنا تک حماقت ہے ۔ تیسری رائے یہ کہ یہ جہان ازلی ابدی ہے اور اس کا کوئی آغاز نہیں ہے ۔ تو یہ رائے چوتھی رائے کے ساتھ ازلیت میں مشترک ہے کیونکہ وہاں الہ ازلی ہے یہاں مادہ ازلی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم صفت ازلیت کو کسی مردہ جہان کی طرف راجع کرتے ہیں یا ہم صفت ازلیت کو کسی زندہ حی وقیوم اور خالق کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں احتمالات کو مان لینے میں اس قدر شبہات ومشکلات نہیں ہیں جس قدر پہلے دو احتمالات کو قبول کرنے میں ہیں ۔ لیکن ڈائنامک حرارت کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ اس جہان کی ضرورت تدریجا ختم ہو رہی ہے اور آخر جا کر اس نے ختم ہونا ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا کا درجہ حرارت نہایت کم ہوجائے گا مثلا مطلق صفر تک ۔ اس دن قوت ختم ہوجائے گی ‘ زندگی محال ہوجائے گی ۔ ایسا ایک دن ضرور آئے گا جب تمام اجسام کا درجہ حرارت صفر مطلق تک پہنچ جائے گا ۔ یہ حالت طویل زمانے کے بعد ہوگی ۔ جلنے والا سورج ‘ بھڑکتے ہوئے ستارے اور یہ زمین اپنی زندگی کے مختلف انواع کے ساتھ یہ بتا رہی ہے کہ اس کا آغاز ایک وقت سے ہوا ‘ اور اس متعین وقت میں یہ وجود میں آئی ۔ لہذا اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس جہان کا ایک خالق ہے جو ازلی اور ابدی ہے ‘ اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور نہ خاتمہ ہے ‘ وہ ہر چیز کو جانتا ہے ‘ وہ نہایت ہی قوی اور اس کی قوت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ لہذا حقیقی بات یہی ہے کہ اس کے دست قدرت نے اس جہان کو بنایا ہے ۔ “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے یہاں قرآن کریم تخلیق کی اساس پر یہ اصول قائم کرتا ہے کہ چونکہ وہ خالق ہے لہذا یہ امر واجب ہے کہ صرف اسی کی بندگی کی جائے اور صرف وہی رب ہے ‘ اپنے تمام مفاہیم اور معانی کے ساتھ یعنی حاکم بھی وہی ہے ۔ مربی اور تربیت کنندہ بھیوہی ہے ‘ ہادی ورہبر بھی وہی ہے اور قیوم بھی وہی ہے ۔ (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ فَاعْبُدُوہُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ وَکِیْلٌ(102) ” یہ ہے اللہ تمہارا رب کوئی خدا ‘ اس کے سوا نہیں ہے ‘ ہر چیز کا خالق ‘ لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے ۔ “ اللہ قیوم اور نگران ہے ‘ صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کا قیوم اور منتظم اعلی ہے اس لئے کہ وہ سب کا خالق ہے ۔ اس اصول تخلیق کے یہاں ذکر کا مقصد ہی یہ ہے اور اس بات کا انکار مشرکین مکہ دور جاہلیت میں بھی نہ کرتے تھے کہ اللہ خالق ہے ‘ لیکن وہ لوگ خالق کائنات کی تخلیق کا حق نہ ادا کرتے تھے ۔ یعنی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے تجویز کردہ نظام حیات کو اپنی پوری زندگی میں اپنانا ۔ یہ صاحب نہایت یقین سے یہ باتیں کرتے ہیں لیکن خود انسانی علم بھی اسے تسلیم نہیں کرتا ۔ پھر حرارت کے ڈائنامک قوانین بھی حتمی نہیں ۔ البتہ تشریح کائنات کے دوسرے نظریات میں سے یہ بھی ایک نظریہ ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں ترمیم ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نظریہ سرے سے اڑ جائے ۔ ہماری عادت یہ نہیں ہے کہ ہم سائنس کے اصولوں سے اسلام کی صحت پر استدلال کریں ۔ نہ ہم سائنس کو اسلام کا تصدیق کنندہ سمجھتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں کے اصولوں سے اسلام کی صحت پر استدلال کریں نہ ہم سائنس کو اسلام کا تصدیق کنندہ سمجھتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں کے لئے یہ سائنسی شواہد پیش کرتے ہیں جو صرف سائنس کو الہ سمجھتے ہیں ۔ گویا یہ اقوال ان خداؤں کے ہیں جن پر جو لیان ہاکسلے یقین رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اللہ کی صفات کی یہاں ایک تعبیر پیش کی جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی انسانی زبان اللہ کی ایسی توصیف کرسکتی ہے ۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کو اسی طرح بلاتشریح دیکھیں کہ وہ نہایت صاف و شفاف انداز میں ذات باری کے بارے میں روشنی ڈالے اور اس مشہد کی تصویر کشی کرے جس کے اندر ایک نہایت ہی عظیم اور ہولناک حقیقت پوشیدہ ہے تاکہ صفات باری کے معاملے میں انسان کو پوری تشفی ہو اور اس کا ضمیر روشن ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ ) (یہ اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہر چیز کا پیدا فرمانے والا ہے لہٰذا تم اس کی عبادت کرو) ان صفات جلیلہ سے جو ذات متصف ہو وہی لائق عبادت ہے۔ مخلوق میں نہ شان ربوبیت ہے نہ شان خالقیت ہے پھر وہ کیسے شریک الوہیت ہوسکتے ہیں۔ (وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ) (اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے) تمام چیزوں میں جیسے چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ تصرف فرمانے کا اس کو پورا پورا اختیار ہے۔ پھر یہ مخلوق کیسے عبادت کی مستحق ہوسکتی ہے ؟ جو ہر چیز کا خلاق ہے اور ہر چیز میں تصرف فرمانے والا ہے صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی ان صفات سے متصف نہیں اور لائق عبادت نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

109 دلیل اور جواب شکوی کے بعد ثمرہ ذکر فرمایا یعنی جب کارساز اور غیب دان کے صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں تو صرف اسی کو پکارو پہلے چار دلائل عقلیہ کے بعد ان کا ثمرہ ذکر کیا گیا۔ پھر دلیل عقلی کے بعد دوسرا ثمرہ بیان کیا گیا۔ اب یہاں گیارہویں عقلی دلیل کے بعد تیسری بار دلائل کا ثمرہ بیان کیا گیا ہے۔ دلائل کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ ان کے بعد ذہن خود بخود ان نتائج کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 لوگو ! یہی اللہ تعالیٰ تو تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں وہی ہر چیز کا خالق اور پیدا کرنے والا ہے لہٰذا تم معبود ان باطلہ کو چھوڑ کر صرف اسی کی عبادت کرو اور وہی ہر چیز کا کار ساز اور ہر چیز پر نگراں اور نگہبان ہے۔