Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 103

سورة الأنعام

لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾

Vision perceives Him not, but He perceives [all] vision; and He is the Subtle, the Acquainted.

اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لااَّ تُدْرِكُهُ الااَبْصَارُ ... No vision can grasp Him, in this life. The vision will be able to look at Allah in the Hereafter, as affirmed and attested to by the numerous Hadiths from the Prophet through authentic chains of narration in the collections of the Sahihs, Musnad and Sunan collections. As for this life, Masruq narrated that Aishah said, "Whoever claims that Muhammad has seen his Lord, will have uttered a lie against Allah, for Allah the Most Honored, says, لااَّ تُدْرِكُهُ الااَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الااَبْصَارَ (No vision can grasp Him, but His grasp is over all vision.)" In the Sahih (Muslim) it is recorded that Abu Musa Al-Ashari narrated from the Prophet, إِنَّ اللهَ لاَ يَنَامُ وَلاَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ اللَّيْلِ وَعَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ النَّهَارِ حِجَابُهُ النُّورُ أَوِ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لاََحْرَقَتْ سَبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِه Verily, Allah does not sleep and it does not befit His majesty that He should sleep. He lowers the scale (of everything) and raises it. The deeds of the day are ascended to Him before the night, and the deeds of the night before the day. His Veil is the Light -- or Fire -- and if He removes it (the veil), the Light of His Face will burn every created thing that His sight reaches. In the previous (revealed) Books there is this statement, "When Musa requested to see Him, Allah said to Musa: `O Musa! Verily, no living thing sees Me, but it dies and no dried things sees me, but it rolls up."' Allah said, فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّأ أَفَاقَ قَالَ سُبْحَـنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُوْمِنِينَ So when his Lord appeared to the mountain, He made it collapse to dust, and Musa fell down unconscious. Then when he recovered his senses he said: "Glory be to You, I turn to You in repentance and I am the first of the believers." (7:143) These Ayat, Hadiths and statements do not negate the fact that Allah will be seen on the Day of Resurrection by His believing servants, in the manner that He decides, all the while preserving His might and grace as they are. The Mother of the Faithful, Aishah, used to affirm that; Allah will be seen in the Hereafter, but denied that it could occur in this life, mentioning this Ayah as evidence, لااَّ تُدْرِكُهُ الااَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الااَبْصَارَ (No vision can grasp Him, but His grasp is over all vision). Her denial was a denial of the ability to encompass Him, meaning to perfectly see His grace and magnificence as He is, for that is not possible for any human, angel or anything created. Allah's statement, ... وَهُوَ يُدْرِكُ الاَبْصَارَ ... but His grasp is over all vision. means, He encompasses all vision and He has full knowledge of them, for He created them all. In another Ayah, Allah said; أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ Should not He Who has created know! And He is the Most Subtle, Well Acquainted (with all things). (67:14) It is also possible that `all vision' refers to those who have the vision. As-Suddi said that Allah's statement, لااَّ تُدْرِكُهُ الااَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الااَبْصَارَ (No vision can grasp Him, but His grasp is over all vision.) means, "Nothing sees Him (in this life), but He sees all creation." ... وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ He is the Most Subtle, Well-Acquainted (with all things). Abu Al-Aliyah said about Allah's statement that it means, "He is the Most Subtle, bringing forth all things, Well-Acquainted with their position and place." Allah knows best. In another Ayah, Allah mentions Luqman's advice to his son, يبُنَىَّ إِنَّهَأ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى السَّمَـوَتِ أَوْ فِى الاٌّرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ O my son! If it be (anything) equal to the weight of grain of mustard seed, and though it be in a rock, or in the heavens or in the earth, Allah will bring it forth. Verily, Allah is Most Subtle, Well Acquainted. (31:16)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہونگے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعًا جھوت بولا (صحیح بخاری) ، کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا :۔ (وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23؀ۚ ) 75 ۔ القیامۃ :23-22) کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] ان تمام مذکورہ اشیاء کو پیدا کرنے والی ہستی ایسی ہے جسے انسان اپنی ان آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ کیا اس دنیا میں دیدار الہی ممکن ہے ؟ مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ (رض) کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے (مخاطب کر کے) کہا : ابو عائشہ (رض) (مسروق کی کنیت) تین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی اگر کسی نے کہی تو اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ جس نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اپنے پروردگار کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣۔ ) 6 ۔ الانعام :103) ۔ نیز فرماتا ہے : (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ 51؀) 42 ۔ الشوری:51) میں اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین ! جلدی نہ کیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ( وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 ۝ ۙ ) 53 ۔ النجم :13) نیز فرمایا : ( وَلَقَدْ رَاٰهُ بالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ 23۝ۚ ) 81 ۔ التکوير :23) سیدنا عائشہ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے اس بارے میں رسول اللہ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا : وہ تو جبریل تھے جنہیں میں نے دیکھا تھا۔ اور دونوں بار ان کی اصلی صورت میں نہیں بلکہ آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اتنے بڑے تھے کہ زمین و آسمان کے درمیان کی فضا بھر گئی تھی۔ && اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منزل من اللہ وحی سے کچھ چھپایا۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ فرماتا ہے : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کو ہونے والی بات جانتے تھے۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :) ( قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 65؀) 27 ۔ النمل :65) (ترمذی ابو اب التفسیر) البتہ قیامت کو انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکے گا جیسا کہ بیشمار آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو کائنات کی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر لمحہ انکی خبر گیری کر رہا ہے۔ پھر ان کی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کو پورا بھی کرتا رہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ ۔۔ : ” اَدْرَکَ یُدْرِکُ “ کا معنی کسی چیز کو پالینا ہے، اس لیے اس کا معنی دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور کسی چیز کی حقیقت کو پالینا بھی۔ ادراک کا معنی اگر آنکھوں سے دیکھنا ہو تو اس کے متعلق ام المومنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” جو تمہیں بیان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔ “ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ ) ۔۔ پھر فرمایا : ” لیکن آپ نے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، سورة والنجم : ٤٨٥٥ ] عبداللہ بن مسعود (رض) نے بھی فرمایا ( سورة نجم میں مذکور آیات) (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی، فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( فکان قاب قوسین أو أدنی ) : ٤٨٥٦ ] صحابہ کرام (رض) میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا میں رب تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ یہی صحیح معلوم ہوتا ہے، صرف ابن عباس (رض) دیکھنے کے قائل ہیں، مگر وہ کبھی ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ مزید تفصیل سورة نجم میں آئے گی۔ یہ تمام بحث دنیا میں نہ دیکھ سکنے کی ہے، مگر قرآن مجید کی متعدد آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن انبیاء کے علاوہ مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنی اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جیسے چاند کے دیکھنے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جنت کی سب سے بڑی نعمت یہی ہوگی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَة، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) [ القیامۃ : ٢١، ٢٢ ] ” کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “ لیکن ادراک کا معنی اگر حقیقت کو پالینا ہو تو یہ تو قیامت کے دن بھی نہ کسی فرشتے کے لیے ممکن ہے نہ رسول کے لیے، کیونکہ محدود مخلوق لا محدود کی حقیقت کو کیسے پاسکتی ہے۔ پھر زیر تفسیر آیت کے مطابق دنیا اور آخرت کسی جگہ بھی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو نہیں پاسکتیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور اس کے علیم ہونے کی اور اس میں منفرد ہونے کی یہ کیفیت ہے کہ) اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی (دنیا میں تو اس طرح کہ کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اور آخرت میں اس طرح کہ اہل جنت کو دیکھیں گے جیسا کہ یہ بھی دلائل شرعیہ سے ثابت ہے لیکن احاطہ محال رہے گا اور جس محسوس بالبصر کے ظاہر کا احاطہ احساس بصری سے محال ہو تو اس کی حقیقت باطنی کا کہ ظاہر کے مقابلہ میں بدرجہا خفی تر ہے، احاطہ کرنا عقل سے جو کہ احساس سے بدرجہا زیادہ محتمل خطا ہے بدرجہ اولیٰ محال ہوگا) اور وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) سب نگاہوں کو (جو کہ اس کے احاطہ سے عاجز تھیں وجوباً ) محیط ہوجاتا ہے (اسی طرح اور چیزوں کو بھی علماً محیط ہے، (آیت) (وھو بکل شیء علیم) اور (اس امر سے کہ وہ سب محیط ہے اور اس کو کوئی محیط نہیں لازم آگیا کہ) وہی بڑا باریک ہیں، باخبر ہے (اور کوئی دوسرا نہیں، اور یہ وہ کمال علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع (یعنی توحید و رسالت کے حق ہونے کے دلائل عقلیہ و نقلیہ) پہنچ چکے ہیں سو جو شخص (ان کے ذریعہ سے حق کو) دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا، اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا (یعنی تمہارے اعمال کا) نگران نہیں ہوں (یعنی جیسا نگرانی کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے کہ ناشائستہ حرکت نہ کرنے دے، یہ میرے ذمہ نہیں، میرا کام صرف تبلیغ ہے) اور (دیکھئے) ہم اس (عمدہ) طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کو پہنچا دیں، اور تاکہ یہ (منکرین تعصب سے) یوں کہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے (ان مضامین کو) پڑھ لیا ہے (مطلب یہ کہ تاکہ ان پر اور زیادہ الزام ہو کہ ہم تو اس طرح واضح کرکے حق کو ثابت کرتے تھے اور تم پھر لغو بہانے تراشتے تھے) کہ ہم اس (قرآن کے مضامین) کو دانشمندوں کے لئے خوب ظاہر کردیں (یعنی قرآن کے نازل کرنے کے تین فائدے ہیں، ایک یہ کہ آپ کو اجر تبلیغ ملے، دوسرے یہ کہ منکرین پر زیادہ جرم قائم ہو، تیسرے یہ کہ دانشمند و طالبانِ حق کو حق ظاہر ہوجاوے پس) آپ (یہ نہ دیکھئے کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا) خود اس طریق پر چلتے رہئے جس (پر چلنے) کی وحی آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے (اور اس طریق میں بڑی چیز یہ اعتقاد ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (اور اس طریق میں تبلیغ کا حکم بھی داخل ہے) اور (اس پر قائم رہ کر) مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (کہ افسوس انہوں نے قبول کیوں نہ کیا) اور (وجہ خیال نہ کرنے کی یہ ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے (لیکن ان لوگوں کی بدعنوانیوں سے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ان کو سزا دیں، اس لئے ایسا ہی سامان جمع کردیا، پھر ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مسلمان بنا سکتے ہیں) اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فکر میں پڑے ہی کیوں) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ( کے اعمال) کا نگراں نہیں بنایا اور نہ آپ (ان اعمال پر عذاب دینے کے ہماری طرف سے) مختار ہیں (پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نہ ان کے جرائم کی تفتیش ہے اور نہ ان کی سزا کا حکم ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں تشویش ہے) ۔ معارف و مسائل سورة انعام کی ان پانچ آیات میں سے پہلی آیت میں ابصار، بصر کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نگاہ اور دیکھنے کی قوت، اور ادراک کے معنی پالنا، پکڑ لینا، احاطہ کرلینا ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے اس جگہ ادراک کی تفسیر احاطہ کرلینا بیان فرمائی ہے (بحر محیط) معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ ساری مخلوقات جن و انس و ملائکہ اور تمام حیوانات کی نگاہیں مل کر بھی اللہ جل شانہ کو اس طرح نہیں دیکھ سکتیں کہ یہ نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ کرلیں، اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کی نگاہوں کو پوری طرح دیکھتے ہیں اور ان کا دیکھنا ان سب پر محیط ہے، اس مختصر آیت میں حق تعالیٰ کی دو مخصوص صفتوں کا ذکر ہے، اول یہ کہ ساری کائنات میں کسی کی نگاہ بلکہ سب کی نگاہیں مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکیں۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر جہان کے سارے انسان اور جنّات اور فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے، اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا اپنی نگاہ میں احاطہ نہیں کرسکتے۔ (مظہری بحوالہ ابن ابی حاتم) اور یہ خاص صفت حق جل شانہ کی ہی ہو سکتی ہے، ورنہ نگاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت بخشی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی چھوٹی سے چھوٹی آنکھ دنیا کے بڑے سے بڑے کُرّے کو دیکھ سکتی اور نگاہ سے اس کا احاطہ کرسکتی ہے، آفتاب و ماہتاب کتنے بڑے بڑے کُرّے ہیں کہ زمین اور ساری دنیا کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے، مگر ہر انسان بلکہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی آنکھ ان کُرّوں کو اسی طرح دیکھتی ہے کہ نگاہ میں ان کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نگاہ تو انسانی حواس میں سے ایک حاسّہ ہے، جس سے صرف محسوس چیزوں کا علم حاصل ہوسکتا ہے، حق تعالیٰ کی ذات پاک تو عقل و وہم کے احاطہ سے بھی بالاتر ہے، اس کا علم اس حاسہ بصر سے کیسے حاصل ہو تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے حق تعالیٰ کی ذات وصفات غیر محدود ہیں، اور انسانی حواس اور عقل و خیال سب محدود چیزیں ہیں، ظاہر ہے کہ ایک غیر محدود کسی محدود چیز میں نہیں سما سکتا، اسی لئے دنیا کے عقلاء و فلاسفر جنہوں نے عقلی دلائل سے خالق کائنات کا پتہ لگانے اور اس کی ذات وصفات کے ادراک کے لئے اپنی عمریں بحث و تحقیق میں صرف کیں، اور صوفیائے کرام جنہوں نے کشف و شہود کے راستہ سے اس میدان کی سیاحت کی، سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ اس کی ذات وصفات کی حقیقت کو نہ کسی نے پایا نہ پاسکتا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا دور بینان بارگاہ الست غیر ازیں پے نہ بردہ اندکہ ہست اور حضرت شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا چہ شبہا نشستم دریں سیر گم کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم رُویت باری تعالیٰ کا مسئلہ انسان کو حق تعالیٰ کی زیارت ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں تمام علماء اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اس عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور زیارت نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ درخواست کی کہ رَبِّ اَرِنِی ” اے میرے پروردگار مجھے اپنی زیارت کرا دیجئے “۔ تو جواب میں ارشاد ہوا کہ لَن تَرَانِی ” آپ ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے “۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو جب یہ جواب ملتا ہے تو پھر اور کسی جن و بشر کی کیا مجال ہے، البتہ آخرت میں مؤمنین کو حق تعالیٰ کی زیارت ہونا صحیح و قوی احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور خود قرآن کریم میں موجود ہے : (آیت ( وجوہ یومئذ الناضرہ) ” قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔ البتہ کفار و منکرین اس روز بھی سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی رویت سے مشرف نہ ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے : (آیت) کلا انہم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) ” یعنی کفار اس روز اپنے رب کی زیارت سے محجوب و محروم ہوں گے “۔ اور آخرت میں حق تعالیٰ کی زیارت مختلف مقامات پر ہوگی، عرصہ محشر میں بھی، اور جنت میں پہنچنے کے بعد بھی، اور اہل جنت کے لئے ساری نعمتوں سے بڑی نعمت حق تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو حق تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ جو نعمتیں جنت میں مل چکی ہوں ان سے زائد اور کچھ چاہئے تو بتلاؤ کہ ہم وہ بھی دیدیں، یہ لوگ عرض کریں گے، یا اللہ ! آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی، جنت میں داخل فرمایا، اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہیں ؟ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا، اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی، اور جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی، یہ حدیث صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) سے منقول ہے۔ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات چاند کی چاندنی میں تشریف فرما تھے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا مجمع تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف نظر فرمائی اور پھر فرمایا کہ (آخرت میں) تم اپنے رب کو اسی طرح عیاناً دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ ترمذی اور مسند احمد کی ایک حدیث میں بروایت ابن عمر (رض) منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائیں گے، ان کو روزانہ صبح وشام حق تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی کو حق تعالیٰ کی زیارت نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں سب اہل جنت کو ہوگی، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو شب معراج میں زیارت ہوئی وہ بھی درحقیقت عالم آخرت ہی کی زیارت ہے، جیسا شیخ محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ دنیا صرف اس جہان کا نام ہے جو آسمانوں کے اندر محصور ہے، آسمانوں سے اوپر آخرت کا مقام ہے، وہاں پہنچ کر جو زیارت ہوئی اس کو دنیا کی زیارت نہیں کہا جاسکتا۔ اب سوال یہ رہتا ہے کہ جب آیت قرآنی لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَار سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رویت ہو ہی نہیں سکتی تو پھر قیامت میں کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب کھلا ہوا یہ ہے کہ آیت قرآنی کے یہ معنی نہیں کہ انسان کے لئے حق تعالیٰ کی رویت وزیارت ناممکن ہے، بلکہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ انسانی نگاہ اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کی ذات غیر محدود اور انسان کی نظر محدود ہے۔ قیامت میں بھی جو زیارت ہوگی وہ اسی طرح ہوگی کہ نظر احاطہ نہیں کرسکے گی، اور دنیا میں انسان اور اس کی نظر میں اتنی قوت نہیں جو اس طرح کی رویت کو بھی برداشت کرسکے، اس لئے دنیا میں رویت مطلقًا نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں قوت پیدا ہوجائے گی، تو رویت وزیارت ہوسکے گی، مگر نظر میں ذات حق کا احاط اس وقت بھی نہ ہو سکے گا۔ دوسری صفت حق تعالیٰ شانہ کی اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی نظر ساری کائنات پر محیط ہے، دنیا کا کوئی ذرہ اس کی نظر سے چھپا ہوا نہیں، یہ علم مطلق اور احاطہ علمی بھی حق تعالیٰ شانہ کی ہی خصوصیت ہے، اس کے سوا کسی مخلوق کو تمام اشیاء کائنات اور ذرہ ذرہ کا علم نہ کبھی حاصل ہوا نہ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ مخصوص صفت ہے رب العزت جل شانہ کی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ، لطیف، عربی لغت کے اعتبار سے دو معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ایک معنی مہربان، دوسرے بمقابل کثیف یعنی وہ چیز جو حواس کے ذریعہ محسوس وہ معلوم نہیں کی جاسکتی۔ اور خبیر کے معنی ہیں باخبر، معنی اس جملہ کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ لطیف ہیں، اس لئے حواس کے ذریعہ ان کا ادراک نہیں کیا جاسکتا، اور خبیر ہیں، اس لئے ساری کائنات کا کئی ذرہ ان کے علم و خبر سے باہر نہیں، اور اگر لطیف کے معنی اس جگہ مہربان کے لئے جاویں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ ہمارے ہر قول وفعل بلکہ ارادہ اور خیال سے بھی باخبر ہیں، جس کا اقتضاء یہ تھا کہ ہم ہر گناہ پر پکڑے جایا کرتے، مگر چونکہ وہ لطیف و مہربان بھی ہیں، اس لئے ہر گناہ پر مواخذہ نہیں فرماتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۝ ٠ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ۝ ٠ۚ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۝ ١٠٣ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

رئویت باری تعالیٰ قول باری ہے ( لا تدرکہ الابصارو ھو یدرک الابصار۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے) کہا جاتا ہے کہ ادراک کے اصل معنی لحقو یعنی پالینے اور جا لینے کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً آپ کہتے ہیں ” ادرک زمان المنصور “ یا ” ادرک ابا حنیفۃ “ ( اس نے خلیفہ منصور کا زمانہ پایا تھا یا اس اس نے امام ابوحنیفہ کو پایا تھا) نیز ” ادرک الطعام “ یا ” ادرک الزرع و الثمرۃ “ ( طعام پک کر تیار ہونے کے مرحلے کو پہنچ گیا یا فصل پک گئی پھل پک گئے) اسی طرح کہا جاتا ہے ” ادرک الغلام “ ( لڑکا بالغ ہوگیا) یعنی بالغ مردوں کی حالت کو پہنچ گیا۔ آنکھوں کا کسی چیز کو ادراک کرلینے کے معنی ہیں کہ آنکھیں اس چیز تک جا پہنچیں اور آنکھوں کو اس کی رئویت حاصل ہوگئی۔ اس لیے کہ اہل لغت کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتے ” ادرکت ببصریی شخصاً “ ( میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ ایک شخص کو جا لیا) تو اس کے معنی ہیں کہ ” میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا “۔ ادراک کو احاطہ کرنے کے معنی میں لینا درست نہیں ہے اس لیے کہ گھر ان تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے جو اس میں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ان چیزوں کو مدرک نہیں کہلاتا۔ اس لیے قول باری ( لاتدر کہ الابصار) کے معنی یہ ہیں کہ آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ اس میں آنکھوں کے ذریعے رئویت کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کی مدح سرائی کی گئی ہے جس طرح اس قول باری ( لا تاخذہ سنۃ ولا نوم۔ اسے نہ اونگھ آسکتی ہے نہ نیند) میں نیند اور اونگھ کی نفی کر کے اللہ کی تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے جس چیز کی نفی کر کے مدح سرائی کی ہو اس کی ضد کا اثبات ذم اور نقص کہلائے گا۔ اس لیے کسی حالت میں بھی اس کے نقیض یعنی صد کا اثبات نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح کہ اگر ( لاتاخذہ سنۃ ولا نوم) کی بناء پر صفت مدح کا استحقاق باطل ہو جاتاے سو اس کے نتیجے میں ایسی صفت لازم آتی جو نقص پر دلالت کرتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے رئویت بصر کی نفی کرکے اپنی تعریف فرمائی ہے تو اب اس کی ضد اور نقیض کا کسی صورت میں بھی اثبات جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ اس طرح ایسی صفت کا اثبات لازم آئے گا جو نقص پر دلالت کرنے ولای ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ قول باری ( وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف نظر میں کئی معانی کا احتمال ہے۔ ایک معنی ثواب اور بد لے کے انتظار کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سلف کی ایک جماعت سیمروی ہے۔ جب اس آیت میں تاویل کا احتمال ہو اس کے ذریعے اس آیت کے حکم کی تخصیص درست نہیں ہوگی جس میں کسی قسم کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کا احتمال ۔ رئویت ذات باری کے متعلق جو روایات منقول ہیں اگر وہ روایت اور اسناد کے لحاظ سے درست تسلیم کرلی جائیں تو ان میں مذجکورہ رئویت سے علم مراد ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣) اس کو تو کسی کی نگاہ دنیا میں از روئے رؤیت اور آخرت میں بااعتبار کیفیت کے محیط نہیں ہوسکتی اور نگاہوں کی پرواز وہاں تک نہیں ہوسکتی اور وہ دنیا و آخرت میں سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے، اس پر مخلوق کی کوئی چیز بھی خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ مخفی نہیں، وہ اپنے افعال میں بڑا باریک بین ہے، اس کا علم اس کی مخلوقات پر نافذ ہے اور اپنی مخلوق اور ان کے اعمال سے بڑا باخبر ہے یہ اس کے وہ کمالات ہیں جو اس کے سوا کسی میں اس طرح نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (لاَ تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) ۔ وہ اس حد تک لطیف ہے ‘ اس قدر لطیف ہے کہ انسانی نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ چناچہ اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شب معراج میں کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو دیکھا یا نہیں دیکھا ؟ اس میں کچھ اختلاف ہے۔ حضرت علی (رض) کی رائے یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو دیکھا تھا ‘ لیکن حضرت عمر اور حضرت عائشہ (رض) کی رائے ہے کہ نہیں دیکھا تھا۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے : نُورٌ اَنّٰی یُرٰی یعنی وہ تو نور ہے اسے دیکھا کیسے جائے گا ؟ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب کوہ طور پر استدعا کی تھی : (رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط) (الاعراف : ١٤٣) پروردگار ‘ مجھے یارائے نظر دے کہ میں تیرا دیدار کروں ! تو صاف کہہ دیا گیا تھا کہ (لَنْ تَرٰٹنِی) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ اتنی لطیف ہستی ہے کہ اس کا دیکھنا ہماری نگاہوں سے ممکن نہیں۔ ہاں دل کی آنکھ سے اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں بیٹھ کر بھی دل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: یعنی اس کی ذات اتنی لطیف ہے کہ کوئی نگاہ اس کو نہیں پاسکتی اور وہ اتنا باخبر ہے کہ ہر نگاہ کو پالیتا ہے اور اس کے تمام حالات سے خوب واقف ہے اس جملے کی یہ تفسیر علامہ آلوسی (رح) نے متعدد مفسرین سے نقل کی ہے اور سیاق وسباق کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے یہاں یہ واضح رہے کہ لطافت بھی عام بول چال میں جسم ہی کی صفت ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ؛ لیکن لطافت کا اعلی ترین درجہ وہ ہے جو جسمیت کے ہر شائبہ سے ماورا ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات کو لطیف اس معنی میں کہا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جن آیات متشابہت میں اہل سنت خارجی معتزلی اور مرجیہ فرقوں میں بڑی بحث ہے ان آیتوں میں کی یہ ایک آیت بھی ہے وہ فرقے س بات کے قائل ہیں کہ آخرت میں بھی خدا کا دیدار کسی کو نہیں ہوسکتا لیکن اہل سنت نے آیتوں اور حدیثوں سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اہل جنت میں ضرور خدا کا دیدار ہوگا ہاں دنیا کی آنکھوں سے کوئی خدا کو نہیں دیکھ سکتا آخرت کی بنائی آخرت کی قوت سب دنیا سے نرالی ہے اب رہی یہ بات کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی دنیا کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں اکثر سلف کا یہ قول ہے کہ آنحضرت نے اللہ تعالیٰ کو دنیا میں دو دفعہ فقط خواب میں دیکھا ہے زیادہ تفصیل اس کی سورة نجم میں آوے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں تو یہ ذکر ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات حصرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا لیکن معراج کی حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ معراج کی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھا ہے یہ معراج کی حدیثیں سورة بنی اسرائیل میں آویں گی اس آیت اور سورة قیامہ کی آیت وُجُوْہٌ یَّوْمَئَذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبّھَا نَاِظَرَہٌ میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ سورة قیامت کی آیت میں لفظ یومئذ موجود ہے جس کے معنے قیامت کے دن کہ ہیں اور اس آیت میں وہ لفظ نہیں ہے۔ اس لیے یہ آیت دنیا کے حال سے متعلق ہے اور سروہ قیامہ کی میت آخرت کے حال سے متعلق ہے اور ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے وہی معنے ہوئے جو اوپر بیان کئے گئے کہ دنیا کی آنکھوں سے کوئی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ہاں حساب و کتاب کے وقت نیک وبد سب کو اللہ تعالیٰ کے روبر وکھڑا رہنا پڑے گا پھر اہل جنت کو آخرت میں اللہ کا دیدار نصیب ہوگا صحیح مسلم میں ابوامامہ (رض) کی بڑی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موت سے پہلے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نہیں دیکھ سکتا اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخرت میں نیک لوگ اللہ تعالیٰ کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح اب دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں یہ حدیثیں اس آیت اور سورة قیامۃ کی آیت دونوں کی گویا تفسیر ہیں کیونکہ ان حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے وہی مطلب حاصل ہوتا ہے جو دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے اوپر حاصل ہوا تھا۔ دیدار الٰہی کے منکر فرقوں نے ان آیتوں اور حدیثوں کے معنے میں سلف کے برخلاف طرح طرح کی جدید شاخیں نکالی ہیں اور اہل سنت نے طرح طرح سے ان شاخوں کو قطع کیا ہے جس کی تفصیل بڑی تفسیروں میں ہے۔ ھُوَا للَّطِیْفُ الْخِبیْر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب نیک وبدعملوں کی خبر ہے جس دن دیدار الہی اور اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کا موقعہ پیش آوے گا تو اللہ ہر ایک شخص کے ساتھ اس شخص کی نیت اور عملوں کی موافی برتاؤکرے گا صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعضے ایمان دار گنہگار قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان سے قریب ہو کر راز کے طور پر ان کے گناہ انہیں یاد دلاوے گا جب وہ لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمادے گا جس طرح دنیا میں تمہارے یہ گناہ لوگوں پر ظاہر کر کے میں نے تمہیں رسوا نہیں کیا اسی طرح آج بھی میں تمہارے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ منکرین قیامت اور منافقوں کے سارے گناہ تمام اہل محشر کو جتلائے جاکر ان کو رسوا کیا جاوے گا۔ کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے قابل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی رحمت سے دور اور دوزخ میں جانے کے قابل ہیں صحیح مسلم میں صہیب (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل جنت کو بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔ یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے ہر ایک حال کی خبر رکھنے اور اس کے نتجیہ کی یہ تفصیل معلوم ہوسکتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور مؤاخذہ کا برتاؤ کیونکر ہوگا اور اہل جنت کو جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کس طرح ہوگا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 103 تا 104 : لاتدرک ( نہیں پاسکتی) الابصار (آنکھیں) یدرک ( وہ پالیتا ہے) ‘ بصائر ( بصیرۃ) نشانیاں ‘ عمی ( جو اندھا بن گیا) حفیظ ( نگراں۔ نگہبان۔ دیکھ بھال کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 103 تا 104 : تمام مخلوق کی نگاہیں مل کر ‘ تمام خوردبین اور دور بین مل کر بھی اگر کوشش کریں تب بھی وہ نظر نہیں آسکتا۔ ” اے برترازگمان و قیاس و خیال و وہم “۔ تمام آنکھوں کی مجموعی طاقتوں سے بھی وہ اتنا عظیم ہے ‘ یا اتنا مخفی ہے ‘ یا اتنا غیر مرئی ہے ‘ یا اتنا غیر محسوس ہے ‘ یا اتنا نزدیک یا دور ہے ‘ یا اتنا بلند ہے یا اتنا عمیق ہے کہ اس کو آنکھیں پا نہیں سکتیں۔ آنکھیں صرف ٹھوس یا سیال یا ایک خاص کیفیت کی اشیاء کو پاسکتی ہیں اور وہ بھی ایک خاص فاصلہ پر۔ نہ بہت زیادہ قریب نہ بہت زیادہ دور اور وہ ان سب حد بندیوں سے ورے ہی ورے ہے۔ یہاں پر لفظ ” ادراک “ بھی آتا ہے۔ یعنی محض دیکھ لینا ہی شرط نہیں ہے بلکہ سمجھ لینا بھی شرط ہے کہ یہ کیا ہے کس حالت میں ہے اس کے نقشے کیا ہیں۔ وہ دیکھنا ہی کیا جس سے پر دئہ دماغ پر تصویر نہ بنے خواہ ہزار مبہم ہی سہی۔ نگاہیں ٹہر نہیں سکتیں ‘ فوکس ڈال نہیں سکتیں گرفت میں لا نہیں سکتیں چونکہ اس کا جسم نہیں ‘ وہ کسی ایک جگہ ٹھہرا ہوا یا چلتا ہوا نہیں ‘ وہ محدود نہیں۔ اور جب بصارت اس کے آگے ہار ہار جاتی ہے تو ادراک ‘ اس کو دیکھنا اور آنکھوں کی طاقت سے سمجھنا ناممکن ہے۔ بے شک قیامت کے دن اللہ نظر آئے گا مگر صرف اس کا ایک خفیف رخ۔ اس وقت بھی ساری مخلوقات کی نگاہیں مل کر اس کا سراپا نہیں دیکھ سکتیں۔ اس کے جمال و جلال کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ صرف ایک جلوہ نظر آئے گا۔ دنیا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ہی تجلی میں بیہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ آخرت میں لوگ بےہوش نہ ہوں گے چونکہ انہیں اتنی طاقت عطا کی جائے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر دنیا جہان کے سار انسان اور جنات اور فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے ۔ وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ اپنی نگاہوں سے نہیں کرسکتے (روایت ابو سعید خدری (رض) خالق کی ذات وصفات لامحدود ہیں۔ مخلوقات کی بصارت ‘ بصیرت ‘ حواس اور قوت ادراک سب محدود ہیں۔ بھلا محدود میں لامحدود کیوں کر سما سکتا ہے۔ تمام عقلا ‘ علماء اور صوفیا کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ اس فانی زندگی میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ و ادراک ناممکن ہے۔ جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو جواب ملا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا تو پھر ہم جیسوں کی کیا مجال ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کے موقع پر جو زیارت نصیب ہوئی اس کا تعلق اس دنیا سے نہ تھا۔ اور ہمارا ذہن و فکر اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ آپ نے اللہ کے نور کا کس حد تک مشاہدہ فرمایا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں “ اس کا تعلق صرف اسی دنیا سے ہے۔ کیونکہ خود قرآن ایک جگہ کہتا ہے “ قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے “۔ یہ بشارت صرف اہل ایمان کے لئے ہے۔ کیونکہ قرآن ایک جگہ کہتا ہے ” کفار اس دن اپنے رب کی زیارت سے محروم ہوں گے “۔ مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی زیارت عرصہ محشر میں بھی ہوگی اور جنت پہنچ کر وہاں بھی۔ اہل جنت کے لئے ساری نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) کی روایت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جو نعمتیں تمہیں جنت میں مل چکی ہیں ان سے زائد اور کچھ چاہیے تو بتائو کہ ہم وہ بھی دیدیں۔ یہ لوگ عرض کریں گے یا اللہ آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی ‘ جنت میں داخل فرمایا اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہ سکتے ہیں۔ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور یہ نعمت جنت کی تمام دوسری نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی “۔ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات چاندنی میں اپنے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا تم اپنے رب کو اسی طرح کھلی آنکھوں سے دیکھو گے جس طرح اس وقت اس چاند کو دیکھ رہے ہو “۔ حضرت ابن عمر (رض) کی ایک روایت ترمذی اور مسند احمد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائے گا ان کو ہر صبح و شام دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔ مختصر یہ کہ اس دنیا میں اللہ کا نظارا ناممکن ہے۔ آخرت میں بھی اتناہی کچھ نظر آئے گا جتنی اجازت ہوگی۔ بصارت اور قوت ادراک دونوں اجازت کی حد سے ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید کے بین اور ٹھوس دلائل دینے کے بعد وضاحت فرمائی گئی ہے کہ تم اپنے خالق کو بصیرت کی آنکھوں اور اس کی قدرت کے نشانات کے حوالے سے دیکھ سکتے ہو لیکن ظاہری آنکھ سے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی چاہت رکھنا مومن کے ایمان کی معراج ہے۔ جنت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی زیارت اور خوشنودی ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے حجاب میں ہم کلامی کرتے ہوئے فرط محبت میں آکر مطالبہ کیا تھا۔ اے رب کریم میرا دل تیری زیارت کے لیے تڑپ رہا ہے اس لیے میری درخواست ہے کہ مجھے اپنی زیارت کے شرف سے سرفراز فرمائیں۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا۔ اے موسیٰ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا جب موسیٰ محبت الٰہی میں بےقرار ہو کر اصرار کرنے لگے تو حکم ہوا کوہ طور کے فلاں حصہ پر نگاہ اٹھاؤ۔ اگر وہ میرے جلال و جمال کی ایک کرن برداشت کرسکا تو تُو بھی میرے جلال اور جمال کی جھلک برداشت کرسکے گا۔ جو نہی اللہ تعالیٰ کے جمال کی ایک کرن کوہ طور پر پڑی تو طور کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر پیٹھ کے بل نیچے گرپڑے۔ جب ہوش آیا تو اس مطالبہ پر اللہ سے معافی طلب کی۔ اس کی تفصیل سورة الاعراف آیت ١٤٣ میں ملاحظہ فرمائیے۔ کفار محبت الٰہی کی بنا پر نہیں بلکہ انبیاء (علیہ السلام) پر بےیقینی اور ان کو لاجواب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان میں یہودی سرفہرست رہے ہیں جنھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بار ہا مطالبہ کیا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب ہم براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مجبور ہو کر ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر پہنچے جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اس کے دیدار کا مطالبہ کرنے لگے تو ایک کڑک نے انھیں آلیا۔ وہ سب کے سب ہلاک ہوئے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندگی عنایت فرمائی۔ (الاعراف : ١٥٥) معراج کی رات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا مؤقف ہے آپ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی براہ راست زیارت کی ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات رؤیت کا شرف پایا۔ حضرت ابن عباس (رض) کی وجہ سے کچھ صحابہ اور بعض ائمہ کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ اس کے لیے وہ دو آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ( وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقُ الْمُبِیْنِ )[ التکویر : ٢٣] ” اور اس نے اس کو روشن افق پر دیکھا “ (وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی )[ النجم : ١٣] ” اور ایک مرتبہ اور بھی اس نے اس کو دیکھا “ لیکن صحابہ کرام (رض) کی غالب اکثریت ان آیات کو جبریل امین (علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی ملاقات پر منطبق کرتی ہیں کیونکہ حضرت عائشہ (رض) فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے براہ راست اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار پایا ہے ؟ آپ نے اس کی نفی فرمائی۔ کیوں کہ قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی جبکہ وہ ہر آنکھ کو دیکھنے والا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ ہے یہ ہر اعتبار سے فضول اور ناقابل فہم ہے۔ انسان کی نگاہ سمندر، پہاڑ اور صحرا کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ انسانی آنکھ سورج کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی یہاں تک کہ انسان اپنے ہاتھوں سے بنائے کسی پاور فل بلب کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کس طرح دیدار کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی لطیف بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ یہاں توحید کے دلائل کو بصائر کہا گیا ہے جو بصیرت کی جمع ہے۔ واضح رہے کہ جسمانی آنکھ کے دیکھنے کو بصارت اور قلب و فکر کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنے کو بصیرت کہا جاتا ہے۔ یہاں توحید کے دلائل اور ان کی فہم کو بصیرت قرار دیا گیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک رکھتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کرتا ہے وہی عقل و دانش کا حامل انسان ہے۔ اس نور بصیرت کا اسے دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا وہ عقل و دانش کا اندھا ہے اور اس اندھے پن کا اسے دنیا و آخرت میں بےانتہا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ توحید کا فائدہ اور شرک کا نقصان بیان کرنے کے بعد رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو لوگوں کی گمراہی پر آزر دہ ہونے اور انسانی حد سے بڑھ کر کوشش کرنے کے بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے نفع و نقصان اور ہدایت و گمراہی کا ذمہ دار نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام، فرامین، اور دلائل کو مختلف انداز، الفاظ اور زاویوں سے اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو جان جائیں۔ یہاں تک حقائق اور بصائر جو بصیرت کی جمع ہے جسکا معنی ہے ایسی حقیقت یا دلیل جس سے انسان کی آنکھیں کھل جائیں۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسے معجزات نازل کیے گئے کہ جن کو مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ کفار بھی کھلے الفاظ میں اپنی مجالس میں ان کا اعتراف کرتے تھے لیکن خاندانی نخوت جھوٹے مذہب کی عصبیت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے سرعام اعتراف کرنے کی بجائے آئے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئے سے نئے معجزہ کا مطالبہ کرتے تاکہ کفر پر قائم رہنے کے لیے اپنے اور عوام کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرسکیں۔ جن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو جان بوجھ کر اندھا ہوجائے اس کے اندھے پن کا وبال اسی کے اوپر پڑے گا۔ جس کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ نبی کا کام حق پہچانا ہے منوانا نہیں۔ قیامت کے دن دیدار ہوگا : (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃً یَعْنِی الْبَدْرَ فَقَالَ إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ہٰذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُّونَ فِی رُؤْیَتِہٖ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ، باب فضل صلاۃ العصر ] ” حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف دیکھا جو کہ چودھویں کا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ تم عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تم اس کو دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا کسی آنکھ کے بس کی بات نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٣۔ وہ لوگ جو اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ وہ اللہ کو دیکھ لیں ‘ وہ ایسے ہی ہیں جس طرح بعض دوسرے لوگ اپنی قبیح فطرت کی وجہ سے وجود باری پر مادی دلیل پیش کرتے ہیں ۔ یہ دونوں قسم کے لوگ درحقیقت سمجھتے ہی نہیں کہ وہ کہتے کیا ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی نظر ‘ انسان کے حواس ‘ اور انسان کا ذہنی ادراک یہ سب قوتیں اسے صرف اس لئے دی گئی ہیں کہ وہ اس کائنات کے ساتھ تعلق کی نسبت سے اپنے معاملات طے کرسکے اور اس کرہ ارض پر منصب خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرسکے اور اس مخلوق کائنات کے صفحات میں وجود باری پر دلالت کرنے والے آثار کی تلاش کرسکے ۔ رہی ذات باری کی حقیقت تو وہ اس طاقت ہی سے محروم ہیں جس کے ذریعے وہ اس کا ادراک کرسکیں ۔ اس لئے کہ ایک حادث اور فانی وجود کے اندر وہ قدرت ہی نہیں ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ذات کا ادراک کرسکیں ۔ اس لئے کہ ایک حادث اور فانی وجود کے اندر وہ قدرت ہی نہیں ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ذات کا ادراک کرسکے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس کرہ ارض پر انسان کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی کے لئے اس کے لئے رویت باری کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ جہاں تک یہاں انسانی فرائض کا تعلق ہے ان کی ادائیگی کے لئے انسان کو مناسب طاقت دی گئی ہے ۔ انسان کے لئے یہ تو ممکن ہے کہ وہ سابقہ لوگوں کی سادگی کو سمجھ لے مگر وہ آخری دور میں آنے والوں کی قبیح فطرت کو سمجھنے میں غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے ‘ یہ لوگ ایٹم اور برق کی بات کرتے ہیں ۔ پروٹون اور نیوٹرون کی بات کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے اپنی زندگی کے اندر ایٹم ‘ کوئی برق ‘ کوئی نیوٹرون اور کوئی پروٹون نہ دیکھا ‘ اس لئے کہ زندگی کی ماہیت کو دیکھنے کی دوربین ابھی تک وجود میں نہیں آسکی ۔ ان سائنس دانوں کے نزدیک یہ امور بہرحال مسلم ہیں اور وہ انکے وجود کو فرض کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے ان چیزوں کے کچھ آثار متعین کر لئے ہیں ۔ جب وہ آثار پائے جاتے ہیں تو ان لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ موجود ہیں اور کائنات بھی موجود ہے حالانکہ یہ صرف احتمال ہے کہ جس طرح انہوں نے فرض کیا ہے کائنات اسی طرح ہو ۔ تاہم جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ موجود ہے اس لئے کہ اس کے آثار موجود ہیں اور یہ آثار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ موجود ہے تو پھر یہ لوگ وجود باری کے بارے میں جدل وجدال اور مناقشہ شروع کردیتے ہیں بغیر علم ‘ بغیر ہدایت ‘ بغیر ادراک اور بغیر کسی کتاب منیر کے ۔ اس کے برعکس اللہ کے وجود کے لئے وہ ایسی دلیل طلب کرتے ہیں کہ آنکھیں اللہ کو دیکھ سکیں ۔ اس کرہ ارض پر زندگی کے عجائب گویا ان کے لئے کافی نہیں ہیں حالانکہ وہ وجود باری پر کافی ثبوت ہیں۔ دلائل تکوینی جو اس کائنات کی کھلی کتاب کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں اور انسانی نفوس کے اندر بھی موجود ہیں ان کے بیان کے بعد اور یہ کہنے کے بعد کہ ۔ (آیت) ” اَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (103) ” نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے ۔ ‘ اب اس خوبصورت انداز میں صفات الہی کے بیان کے بعد بات یوں آگے بڑھتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) (آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرتیں وہ سب نگاہوں کو محیط ہے اور وہ لطیف ہے باخبر ہے) اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی ایک خاص صفت بیان فرمائی اور وہ یہ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا احاطہ فرماتا ہے اس صفت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں دنیا میں اس کو نہیں دیکھا جاسکتا اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیدار الٰہی کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے (لَنْ تَرَانِیْ ) فرما دیا۔ (کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے) وہ نگاہوں کو بھی دیکھتا ہے اور نگاہیں جس چیز کو دیکھتی ہیں وہ ان کو بھی دیکھتا ہے۔ اور جو چیزیں مَرْئیِ (دکھائی دینے والی) نہیں ہیں ان کو بھی اس کا علم محیط ہے۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا جیسا کہ سورة قیامہ میں فرمایا (وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍنَّا ضِرَۃٌ الیٰ رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ) (اس دن بہت سے چہرے تر و تازہ ہونگے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے) اللہ تعالیٰ کا جسم نہیں ہے پھر بھی اسے دیکھیں گے اور جب دیکھیں گے تو وہ کسی جگہ میں نہیں ہوگا اور یہ بات وہیں سمجھ میں آئے گی۔ خالق کی رؤیت کو مخلوق کی رؤیت پر قیاس نہ کیا جائے۔ پھر فرمایا (وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) اور وہ لطیف ہے (جسے حواس کے ذریعہ مشاہدہ میں نہ لایا جاسکتا ہے اور وہ باریک بین ہے ہر چیز کو دیکھتا ہے) اور وہ خبیر ہے (جو ہر چیز سے باخبر ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

110 یعنی دنیا میں انسانی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ دنیا میں اس کی ذات محض اپنی صفات سے معلوم ہوتی ہے جو دلائل کے ضمن میں بیان ہوچکی ہیں۔ وَھُوَ اللَّطِیْفُ یہ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ سے متعلق ہے اَلْخَبِیْڑُ یہ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ سے متعلق ہے بطریق لف و نشر مرتب (وَھُوَ اللَّطِیْفُ ) ای العالم بدقائق الامور و مشکلاتہا (الخبیر) العلیم بظواھر الاشیاء و خفیا تھا وھو من قبیل اللف و النشر (مدارک ج 2 ص 21) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 مخلوق کی نگاہیں اس کی کنہ کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور مخلوق کی آنکھیں اس کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں اور وہ سب کی نگاہوں کی کنہ اور ان کی حقیت کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کے علم نے سب کو گھیر رکھا ہے وہ بڑا باریک ہیں اور بڑا باخبر ہے ینی حضرت حق تعالیٰ کی مقدس ذات کی کنہ کا علم کسی آنکھ کو میسر نہیں آسکتا اور اس کا علم سب کی آنکھوں اور نگاہوں سے باخبر ہے اور اس کے علم ازلی نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے۔