Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 108

سورة الأنعام

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۰۸﴾

And do not insult those they invoke other than Allah , lest they insult Allah in enmity without knowledge. Thus We have made pleasing to every community their deeds. Then to their Lord is their return, and He will inform them about what they used to do.

اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of Insulting the False gods of the Disbelievers, So that they Do not Insult Allah Allah says; وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ... And insult not those whom they worship besides Allah, lest they insult Allah wrongfully without knowledge. Allah prohibits His Messenger and the believers from insulting the false deities of the idolators, although there is a clear benefit in doing so. Insulting their deities will lead to a bigger evil than its benefit, for the idolators might retaliate by insulting the God of the believers, Allah, none has the right to be worshipped but He. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on this Ayah, "They (disbelievers) said, `O Muhammad! You will stop insulting our gods, or we will insult your Lord.' Thereafter, Allah prohibited the believers from insulting the disbelievers' idols, فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (lest they insult Allah wrongfully without knowledge)." Abdur-Razzaq narrated that Ma`mar said that Qatadah said, "Muslims used to insult the idols of the disbelievers and the disbelievers would retaliate by insulting Allah wrongfully without knowledge. Allah revealed, وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ (And insult not those whom they worship besides Allah)." On this same subject -- abandoning what carries benefit to avert a greater evil - it is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, مَلْعُونٌ مَنْ سَبَّ وَالِدَيْه Cursed is he who insults his own parents! They said, "O Allah's Messenger! And how would a man insult his own parents!" He said, يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّه He insults a man's father, and that man insults his father, and insults his mother and that man insults his mother. Allah's statement, ... كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ... Thus We have made fair seeming to each people its own doings; means, as We made fair seeming to the idolators loving their idols and defending them, likewise We made fair seeming to every previous nation the misguidance they indulged in. Allah's is the most perfect proof, and the most complete wisdom in all that He wills and chooses. ... ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ ... then to their Lord is their return, gathering and final destination, ... فَيُنَبِّيُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ and He shall then inform them of all that they used to do. He will compensate them for their deeds, good for good and evil for evil.

سودا بازی نہیں ہو گی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور آپ کے ماننے والوں کو مشرکین کے معبودوں کو گالیاں دینے سے منع فرماتا ہے گو کہ اس میں کچھ مصلحت بھی ہو لیکن اس میں مفسدہ بھی ہے اور وہ بہت بڑا ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ مشرک اپنی نادانی سے اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے ایسا ارادہ ظاہر کیا تھا اس پر یہ آیت اتری ، قتادہ کا قول ہے کہ ایسا ہوا تھا اس لئے یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی گئی ۔ ابن ابی حاتم میں سدی سے مروی ہے کہ ابو طالب کی موت کی بیماری کے وقت قریشیوں نے آپس میں کہا کہ چلو چل کر ابو طالب سے کہیں کہ وہ اپنے بھتیجے ( حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو روک دیں ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ اب ہم اسے مار ڈالیں گے تو ممکن ہے کہ عرب کی طرف سے آواز اٹھے کہ چچا کی موجودگی میں تو قریشیوں کو چلی نہیں اس کی موت کے بعد مار ڈالا ۔ یہ مشورہ کر کے ابو جہل ابو سفیان نضیر بن حارث امیہ بن ابی خلف عقبہ بن ابو محیط عمرو بن عاص اور اسود بن بختری چلے ۔ مطلب نامی ایک شخص کو ابو طالب کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے آنے کی خبر دیں اور اجازت لیں ۔ اس نے جا کر کہا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابو طالب نے کہا بلالو یہ لوگ گئے اور کہنے لگے آپ کو ہم اپنا بڑا اور سردار مانتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں ستار کھا ہے وہ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بلا کر منع کر دیجئے ہم بھی اس سے رک جائیں گے ، ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا آپ تشریف لائے ابو طالب نے کہا آپ دیکھتے ہیں آپ کی قوم کے بڑے یہاں جمع ہیں یہ سب آپ کے کنبے قبیلے اور رشتے کے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیں یہ بھی آپ کو اور آپ کے اللہ کو چھوڑ دیں گے ۔ آپ نے فرمایا خیر ایک بات میں کہتا ہوں یہ سب لوگ سوچ سمجھ کر اس کا جواب دیں ۔ میں ان سے صرف ایک کلمہ طلب کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر یہ میری ایک بات مان لیں تو تمام عرب ان کا ماتحت ہو جائے تمام عجم ان کی مملکت میں آ جائے بڑی بڑی سلطنتیں انہیں خراج ادا کریں ، یہ سن کر ابو جہل نے کہا قسم ہے ایک ہی نہیں ایسی دس باتیں بھی اگر آپ کی ہوں تو ہم ماننے کو موجود ہیں فرمائیے وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بس لا الہ الا اللہ کہہ دو ۔ اس پر ان سب نے انکار کیا اور ناک بھوں چڑھائی ۔ یہ بات دیکھ کر ابو طالب نے کہا پیارے بھتیجے اور کوئی بات کہو دیکھو تمہاری قوم کے سرداروں کو تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی آپ نے فرمایا چچا جان آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں اللہ کی قسم مجھے اسی ایک کلمہ کی دھن ہے اگر یہ لوگ سورج کو لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں کوئی اور کلمہ نہیں کہوں گا یہ سن کر وہ لوگ اور بگڑے اور کہنے لگے بس ہم کہہ دیتے ہیں کہ یا تو آپ ہمارے معبودوں کو گالیاں دینے سے رک جائیں ورنہ پھر ہم بھی آپ کو اور آپ کے معبود کو گالیاں دیں گے اس پر رب العالمین نے یہ آیت اتاری ، اسی مصلحت کو مد نظر رکھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے ۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی کیسے دے گا ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دے دوسرا کے باپ کو ، یہ کسی کی ماں کو گالی دے وہ اس کی ماں کو ، پھر فرماتا ہے اسی طرح اگلی امتیں بھی اپنی گمراہی کو اپنے حق میں ہدایت سمجھتی رہیں ۔ یہ بھی رب کی حکمت ہے یاد رہے کہ سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے وہ انہیں ان کے سب برے بھلے اعمال کا بدلہ دے گا اور ضرور دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یہ سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] کسی بڑے فتنہ سے بچنے کے لئے کوئی اچھا کام چھوڑ دینا یا چھوٹنا فتنہ گوارا کرلینا :۔ صبر و ضبط سے کام لو اور غصہ میں آ کر ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو ورنہ ردعمل کے طور پر تمہارے معبود حقیقی اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیں گے اور بالواسطہ تم خود ہی اللہ کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے حالانکہ ان کے معبودوں کے برا ہونے میں کوئی شک نہیں اور ان کو برا کہنے میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے اس آیت سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی اچھے کام کے کرنے سے اس کے ردعمل کے طور پر کسی بڑے فتنہ کا خوف ہو تو اس اچھے کام کو چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اس سے بھی آگے یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کسی چھوٹے فتنہ سے بچنے کی صورت میں کسی بڑے فتنہ کے بپا ہونے کا خطرہ ہو تو اس چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلینا چاہیے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مکہ میں کچھ مسلمان اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے ہجرت نہیں کر رہے تھے اور مشرکین مکہ کے پاس ہی پناہ لیے ہوئے تھے۔ جب ان مشرکوں کی مسلمانوں سے جنگ ہوتی تو مشرک ان ہجرت نہ کرنے والوں کو اپنی فوج کے آگے کردیتے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة توبہ) اب اگر مسلمانوں کی فوج ان مسلمانوں کو مارے تو ان کے قتل کی مجرم بنتی ہے اور نہ مارے تو سارے مسلمان مرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان مسلمانوں کو مار دینا ہی قرین صواب ہے اور اللہ نے ایسے ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں پر سخت نکیر فرمائی ہے۔ خ جمہوری نظام پر تبصرہ اور ووٹ ڈالنے کی حیثیت :۔ موجودہ دور میں اس کی مثال کسی جمہوری نظام سیاست میں الیکشن کے دوران ووٹ ڈالنے کا مسئلہ ہے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ جمہوری نظام اسلام اور اسلامی نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ جمہوری نظام میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ ہی ہوسکتا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے مقتدر اعلیٰ کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں سمجھوتہ ہونا ناممکن ہے اگرچہ پاکستان کے دستور میں یہ الفاظ لکھ دیئے گئے ہیں کہ && مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے && مگر اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کرلیا جائے تو موجودہ جمہوری نظام کا از خود جنازہ نکل جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظام میں پانچ باتیں ایسی ہیں جن میں سے کسی ایک کے بغیر بھی جمہوریت کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی اور یہ باتیں شرعاً ناجائز ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ سیاسی پارٹیوں کے وجود کا ضروری ہونا۔ ٢۔ طلب امارت یعنی نمائندہ اسمبلی بننے کے لیے از خود درخواست دینا۔ پھر اس کے لیے ہر جائز و ناجائز ذرائع سے تگ و دو کرنا۔ ٣۔ کثرت رائے کو معیار حق قرار دینا۔ ٤۔ حق بالغ رائے دہی۔ یعنی ہر کس و ناکس کو بشمول خواتین ووٹ کا حق دینا اور ٥۔ ہر کس و ناکس کے ووٹ کی قیمت برابر قرار دینا۔ اس صورت حال میں مناسب تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ ڈال کر اس نظام کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کی جائے مگر اس سے بھی بسا اوقات یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کوئی دین سے بےزار عنصر ہی برسراقتدار نہ آجائے لہذا جو پارٹی دینی لحاظ سے نسبتاً بہتر ہو اس سے تعاون کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کا جواز صرف اس حد تک ہی ہے کہ ایک بڑے فتنہ کے سدباب کے لیے ایک چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلیا جاتا ہے یہ تو اس کا وقتی علاج ہے اور اصل علاج یہ ہے کہ اس کا فرانہ نظام سیاست کو بدلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جائے جو انبیائے کرام کا شیوہ رہا ہے۔ [١١٠] ہر فرقہ اپنے ہی عقائد و اعمال میں کیوں خوش رہتا ہے ؟ یہ دنیا چونکہ دارالامتحان ہے اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کردیئے ہیں کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور و طریق پر نازاں رہتی ہے اللہ نے انسانی دماغ کی ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو اور غلطی کی طرف جانے کی اس میں گنجائش نہ ہو۔ البتہ اللہ کے پاس جا کر جب حقائق سامنے آجائیں گے تو ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں جو کام وہ کرتا رہا ہے کیسا تھا ؟ اس دنیا میں اگر کوئی فرقہ حق کی مخالفت میں بھی سر گرم ہو تو اسے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔ : یہ آیت سد ذرائع کی دلیل ہے، یعنی اگر ایک جائز کام کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اس جائز کام کو بھی چھوڑنا ضروری ہے۔ یعنی اگر تم مشرکین کے معبودوں کو گالی دو گے تو وہ جہالت سے اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے اور تم اس کا سبب بنو گے۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے ماں باپ کو گالی دینے سے منع فرمایا کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے۔ [ بخاری، الأدب، باب لا یسب الرجل والدیہ : ٥٩٧٣ ] كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ ۔۔ : یعنی انسان کی عادت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو، چاہے وہ در حقیقت اچھا ہو یا برا، اچھا ہی سمجھتا ہے، یعنی : (ۭ كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ) [ المؤمنون : ٥٣ ] ” ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔ “ لیکن انسان میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ وہ برے کام کو پوری آزادی سے چھوڑ کر نیک راستہ اختیار کرسکتا ہے، دنیا کا ہر کام اللہ کے چاہنے سے ہوتا ہے، وہ نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ انسانوں کو امتحان کے لیے اچھے برے دونوں کاموں کا اختیار دینا بھی اس کی مرضی اور حکمت سے ہے، مگر وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور برے کاموں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھیے سورة زمر (٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first of the present verses has been revealed concerning a particular event and provides guidance in a matter of principle, that is, what you are not permitted to do yourself, for that you cannot become the cause or channel either - both shall remain equally impermissible. The Background of Revelation According to the background of revelation as narrated by Ibn Jarir, when Abu Talib, the respected uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was on his death bed, the disbelieving chiefs of the tribe of Quraysh who, hostile and torturous to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) always plotting to kill him, became alarmed at the eventuality of the death of Abu Talib which was likely to become an impediment to their nefarious designs. Because, they thought, if they were to kill Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) after his protective uncle&s death, that would go against the norms of their own self-respect and honour, for people would say that they were unable to do anything like that in the presence of Abu Talib, but when he died, they killed his helpless nephew. So, they decided to get together and go to Abu Talib to talk about the matter in a decisive manner. Every educated Muslim knows that Abu Talib, though he had not formally embraced Islam, loved the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) dearly, even respected him as a great bearer of the Divine message right from his heart, and always defended him against his enemies. So, the Quraysh chiefs formed a deputation who would go to see Abu Ta1ib. Included as members of the deputation were Abu Sufyan, Abu Jahl, ` Amr ibn al-` As and some others. The name of the person chosen to arrange for an appointment to meet with Abu Talib was Muttalib. He got his permission and escorted the deputation to him. To Abu Ta1ib, the deputation said: You are our elder, and a chief, and you know that your nephew, Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been causing great pain to the idols we worship. We wish that you would talk to him and prevail on him that he should say nothing offensive against our idols, in which case, we shall make peace on the principle that he acts as he wishes on his faith, takes whoever he chooses as the object of his worship, against which, we shall raise no objection. Abu Talib called the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم to him and said: Here are the chiefs of your clan. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) turned to the deputation and asked: What is your wish? They said: We wish that you leave us and our idols alone. Do not speak ill of them. We shall leave you and your object of worship alone. This will end our mutual hostility. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: All right, you tell me, if I were to accept what you were saying, would you be ready to say a Kalimah (statement in words) by saying which you would become masters of the whole Arabia with even people from beyond subscribing to your au¬thority? Abu Jahl said: You are talking about only one Kalimah. We are ready to say ten of them. Tell us what are they? The Holy Prophet said: لا إلہ إلا اللہ [ La Ilaha Illallah : There is no god (worthy of worship) but Allah ]. That infuriated all of them. Abu Talib said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : 0 my nephew, say something other than this Kalimah because it has left your clansmen all confused. He said: As for me, I cannot say a Kalimah other than this. If they were to bring the sun down from the skies and put in my hands, even then I will not say a Kalimah other than this. His intention was to let them become totally disappointed. Thereupon, still in anger, they said: Either you stop speaking ill of our idols, the objects of our worship, or we too are going to start using insulting language against you, and also against that Being of which you claim to be the messenger. Revealed, thereupon, was the verse: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ (And do not abuse those whom they invoke other than Allah, lest they abuse Allah transgressively without knowledge). “ لَا تَسُبُّوا |" (la tasubbu) in this verse is a derivation from the word: سَبَّ (sabb) which means to abuse or use insulting language against someone (not in the sense of misuse, maltreatment or corrupt practice as currently used in American English which uses other alternates for hurling invectives - Tr.). The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم given his intrinsically high moral disposition, had already been abiding by this rule of conduct. Not even during his childhood, had his blessed speech ever been contaminated with an abusive word for any human being, rather not even for an animal. Perhaps, there may have been some hard word which escaped the lips of some from among the noble Com¬panions which was overestimated as an invective by the disbelievers of Makkah, and which was used as a pretext by the chiefs of the Quraysh when their deputation brought this case up before the Holy Prophet g and gave the ultimatum that either he stops insulting their deities or they would start insulting theirs. Thereupon, came the Qur&anic injunction through which Muslims were prohibited from making any insulting statement against the false objects worshipped by disbelievers. Particularly worth noticing in this verse is that, just a verse earlier (106-107), the address was to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، himself. Examples are: اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ (Follow what has been revealed to you from your Lord) and: أَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِين (and turn away from those who associate partners with Allah) and: مَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (And We have not made you to stand guard over them) and: مَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ (and you are not entrusted with their affairs). In all these grammatical forms, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was the addressee who was being asked to do or not to do something. After that, the form of address was changed in the present verse. It was turned away from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and was turned to Muslims in general. Said there was: لَا تَسُبُّوا (la tasubbu). The hint given thereby is that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who had never used abusive speech against anyone to start with, could not be directly addressed with the words of prohibition for that could make him disheartened. Therefore, the address was made general - and all Sahabah (رض) too started taking precaution in this matter. (As in Al-Bahr Al-Muhit) Related Considerations That idols have been mentioned in strong words in several verses of the Qur&an, and that those verses are not abrogated either for they are still recited, is a different matter. The answer is that such words wherever they appear in the verses of the Qur&an are there as a polemic or debating device to unfold some reality clearly. Intended at such places is no aggression, nor can a sensible person deduce from it such an intention to malign idols or to mock at disbelievers or to irritate them. This is an open difference in approach which is readily understood by those aware of the nuances of diction in any language. They know that the shortcoming or inade¬quacy of a person is called in question only to elucidate an issue in question. This is common practice in courts where no one challenges the statement being made before the Court as the throwing of invec¬tives against someone. Similarly, narrated before physicians are the kind of defects and drawbacks people could have which, if described elsewhere would be taken as invectives hurled at someone. But, such statement made under medical need is not regarded as abusive talk by anyone. Thus, when the Qur&an describes the helplessness of idols in being devoid of sense and consciousness, knowledge and power, it uses a manner of speaking which would help the understanding to under-stand reality and expose the error or short-sightedness of those who do not. Hence, it was said: ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ` Weak are, the seekers and weak, the sought (idols) 22:73.& And as it was said: إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (You, and what you worship, other than Allah, are but fuel for Hell - 21:98). Here too, the purpose is not to speak ill of someone. The purpose is to state the sad end of straying and error. Muslim jurists, may the mercy of Allah be upon them, have made it all clear by ex¬plaining: If anyone were to recite this verse too as a tool aimed at causing irritation for disbelievers, then, for him, this recitation at that time and for that purpose, shall be considered as included under this ` abusing which is prohibited,& and will, therefore, be impermissible - as is the case in the prohibition of the recitation of the Qur&an at times and places which are Makruh (reprehensible) and known to everyone. (Ruh al-Ma&ani). To sum up, it can be said that, no word which could be taken as abusive was ever said by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or had ap¬peared in the Holy Qur&an, nor was there any apprehension that it could happen in the future. Of course, the probability that Muslims at large may fall into such impulsive action did exist, therefore, this verse stopped them from doing so. This event and the Qur&anic instruc¬tion based on it has provided access to a large body of significant knowledge, some examples of which are given below: Becoming the Cause or Agent of a Sin is also a Sin 1. One of the principles thus deduced is: If doing something which is permissible intrinsically - in fact, even commendable in a certain de¬gree - but, in the actual doing of it some corruption has to be accommodated, or as a result of which, people are let into sin, then, the doing of such a thing is also prohibited. The reason is that identifying false ob¬jects of worship, that is, the idols, is, at least, permissible after all - and if said under the need to uphold one&s religious feelings, it may perhaps be even worthy of praise and reward - but, since this resulted in the apprehension that people would start speaking ill of Allah Jalla Sha&nuhu which, in turn, would make the degraders of idols the cause of this evil, therefore, prohibited was the act which was already permissible. 2. Another example of this appears in Hadith where, addressing his Companions, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: No one should abuse (use insulting language against) his or her par¬ents. The Companions submitted: Ya Rasul Allah, it is just not possi¬ble that one will abuse parents. He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Yes, one does not usually do that. But, when such a person abuses the parents of someone else and, as a consequence of it, the other person abuses his parents, then, the cause of his parents being so abused was this very son. So, he too is like one who has himself abused his parents. 3. Yet another instance of a case of this nature came to pass during the blessed time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He said to Sayyi¬dah ` A&ishah (رض) ، that the Baytullah (the Holy Ka&bah) had collapsed on its foundations in an accident during the Jahiliyyah. The Quraysh of Makkah reconstructed it before the advent of prophethood. In this structure, some details turned out to be against the initial Ibrahimi foundation. One of them was the part now known as حطیم Hatim. This too is part of the Baytullah. It was left out because of paucity of funds. Then, there were two doors of Baytullah, the Eastern and the Western - one for entry and the other for exit. The people of Jahiliyy¬ah closed the Western door. The one door left was raised higher than the ground level so that entry into the Baytullah would depend on their will and permission and that no one could go there freely. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: I wish I could demolish the present structure of Baytullah and make it like the structure raised by Sayyid¬na Ibrahim Khalilullah (علیہ السلام) . But, the danger is that your people, that is, the common Arabs, who have entered the fold of Islam just now, may fall a victim to some doubts at the sight of Baytullah being demolished, therefore, I have abandoned my intention. It goes without saying that raising the structure of Baytullah pre¬cisely on the foundations laid down by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was an act of obedience and a deed deserving of merit and reward. But, seeing the shadows of a danger lurking behind this intended action because of the ignorance of people around, he abandoned that idea. So, from this event too, there emerges the same principle that, should there be an apprehension of some evil or corruption necessarily result¬ing from what is permissible, even from what is otherwise an act of thawab or merit, then, that permissible or thawab-worthy act too becomes impermissible. But, there exists a strong doubt about this principle which has been reported from Abu Mansur in Ruh al-Ma&ani. The proposition posed is: Allah Ta` ala has made Jihad binding on Muslims - though, the inevitable outcome of killing is that, when a Muslim will start kill¬ing some non-Muslim, they would start killing Muslims - and killing Muslims is Haram (forbidden). Thus, given this principle, Jihad should also be prohibited. Then, the same will hold valid about our propagation of Islam and the recitation of the Qur&an, and about Adhan and Salah as well, all of which are subjected to mockery and ridicule by many among the disbelievers. If so, shall we surrender our right to worship and promote our religion? Answering this, Abu Mansur has himself said that this doubt has come up because of ignoring a necessary condition. That condition is that a permissible act which has been prohibited, because of the ap¬prehension of something evil, should not be one of the basic objectives and necessary duties in Islam. Thus, speaking ill of false objects of worship does not relate to any objective of Islam. Similarly, no basic Islamic objective depends on making the structure of Baytullah conform precisely to the foundations laid out by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . Therefore, whenever there was the danger of some religious mal¬-situation cropping up by doing what was permissible, or even reward-worthy, such acts or intentions were abandoned. As for acts which are either the very Islamic objectives in themselves, or on them depends some Islamic objective, then, even if the wrongdoings of other people seem to be bringing visible corruption or evil in its wake, then, these objectives will never be surrendered or abandoned. Instead of that, ef¬fort will be made that such permissible acts should keep continuing in their place, and steps will be taken to block the spreading of evils and corrupting agents as far as possible. This is why two great men of Islamic history acted the way they did. Once Hasan al-Basri (رح) and Imam Muhammad Ibn Sirin (رح) ، went out to participate in the Salah for a Janazah. There, they noticed a gathering which had men as well as women. Seeing this Ibn Sirin returned back. But, Hadrat Hasan al-Basri (رح) said: Why should we leave doing what is necessary because of the false practice or ways of other people? The Salah of Janazah is Fard (obligatory). It cannot be abandoned because of this corrupting agent. Of course, effort will be made, as far as possible, that this evil is rooted out. This event too has been reported in Ruh al-Ma&ani. So, the substance of this principle which emerges from this verse comes to be: An act which is permissible in itself, even if it be an act of obedience and thawab - but, not be one of the religiously binding objectives, then, should doing it bring forth evil consequences, abandoning of that permissible act becomes Wajib (necessary). This is contrary to the case of the objectives of the Shari&ah which cannot be abandoned because of any impending evil or corruption. From this principle, the jurists of the Muslim community have de¬duced solutions to thousands of problems. Some examples of their jur¬istic efforts are: 1. If a person has a disobedient son and he knows that, should he ask him to do something, he would refuse to do it and even prefer to do against it, in which case, he will become liable to a grave sin, then, in such a situation, the father should not ask him to do or not to do something as an order, instead of which, he should say so in the mode of a good counsel - for example, he says to him, ` if such and such job could be done, that would be nice& - so that, in the eventuality of a refusal or reverse action, the son does not become liable to the sin of a new diso¬bedience. (Khulasatul-Fatawa) 2. The same rule holds good in matters where well-meaning advice is given to someone. If circumstantial indicators show that a person, rather than take advice, is more likely to take a worse course, as a re¬sult of which, he will sink deeper into sin, then, in such a situation, to give up advising is better. In his Sahih, Imam al-Bukhari has intro¬duced a regular chapter on this subject: باب من ترک بعض الاختیار مخافۃ ان یقصر فھم بعض الناس فیقعوا فی اشد منہ There are occasions when things permissible, even those com¬mendable, are abandoned lest they put common people in mis¬understanding - subject to the condition that these acts are not from the core objectives of Islam. 3. But, acts which are included under the objectives of Islam - whether Fard, Wajib or Sunnah al-Mu&akkadah (obligatory, necessary or emphasized Sunnah) or other kinds of Islamic hallmarks - if by ob¬serving them some people lacking in understanding start falling in misunderstanding, then, these acts will not be abandoned, rather, oth¬er methods will be used to remove the misunderstanding and misdoing of such people. Events which came to pass in early Islam prove that the disbelievers of Makkah were provoked because of Salah, the recitation of the Qur&an and the preaching of Islam. But, the standing hallmarks of Islam were never abandoned because of such adverse condi¬tions. In fact, the very episode relating to Abu Jahl and the rest of Qu¬raysh chiefs recounted under the Background of Revelation of the present verse has proved the point eloquently. The essence of the epi¬sode was that the chiefs from the disbelieving Quraysh tribe wished to give a guarantee of peace if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would aban¬don preaching Tauhid, that is, stop calling Allah One. The answer giv¬en by him was: I can never do that, even if they were to bring the sun and the moon and put them in my hands. In conclusion, the question as refined and resolved is: If, by doing what is included under Islamic objectives, some people fall a victim to misunderstanding or misdeed, such acts would never be abandoned. Of course, acts which are not included under Islamic objectives - and leaving them off does not compromise or kill any religious objective - then, such acts will be abandoned because of the apprehension that others might fall into misunderstanding or misdeed.

خلاصہ تفسیر اور دشنام مت دو ان (معبودان باطلہ) کو جن کی یہ (مشرک) لوگ خدا (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، کیونکہ (تمہارے ایسا کرنے سے) پھر وہ براہ جہل حد سے گذر کر (یعنی غصہ میں آکر) اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے (اور اس کا تعجب نہ کیا جائے کہ ایسی گستاخی کرنے والوں کو ساتھ کے ساتھ سزا کیوں نہیں مل جاتی، کیونکہ) ہم نے (دنیا میں تو) اسی طرح ( جیسا ہورہا ہے) ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل (بھلا ہو یا برا ہو) مرغوب بنا رکھا ہے (یعنی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنا طریقہ پسند ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ عالم اصل میں ابتلاء و امتحان کا ہے، پس اس میں سزا ضروری نہیں) پھر (البتہ اپنے وقت پر) اپنے رب ہی کے پاس ان (سب) کو جانا ہے، سو (اس وقت) وہ ان کو جتلا دے گا جو کچھ بھی وہ (دنیا میں) کیا کرتے تھے (اور مجرمین کو سزا دے دے گا) اور ان (منکر) لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے (یعنی ہمارے) پاس (یعنی ان کے فرمائشی نشانوں میں سے) کوئی نشان (ظہور میں) آجاوے تو وہ (یعنی ہم) ضرور ہی اس (نشان) پر ایمان لے آویں گے (یعنی نشان ظاہر کرنے والے کی نبوت کو مان لیں گے) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ نشان سب خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں (وہ ان میں جس طرح چاہے تصرف فرما دے دوسرے کو دخل دینا اور فرمائش کرنا بےجا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ کس کا ظاہر ہونا حکمت ہے اور کس کا ظاہر نہ ہونا حکمت ہے، البتہ بعثت رسل کے وقت مطلقاً کسی نشان کو ظاہر کردینا اس میں حکمت یقینی ہے، سو اللہ تعالیٰ بہت سے نشان صدق دعو ٰی رسالت محمدیہ پر ظاہر فرما چکے ہیں جو کہ دلالت کے لئے کافی ہیں، بس یہ ان کی فرمائش کا جواب ہوگیا) اور (چونکہ مسلمانوں کے دل میں خیال تھا کہ خوب ہو اگر یہ نشان ظاہر ہوجاویں، شاید ایمان لے آویں ان کو خطاب فرماتے ہیں کہ) تم کو اس کی کیا خبر (بلکہ ہم کو خبر ہے) کہ وہ (فرمائشی) نشان جس وقت (ظہور میں) آجاویں گے یہ لوگ (غایت عناد سے) جب بھی ایمان نہ لاوینگے اور (ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے) ہم بھی ان کے دلوں کو (حق طلبی کے قصد سے) اور ان کی نگاہوں کو (حق بینی کی نظر سے) پھیر دیں گے (اور ان کا یہ ایمان نہ لانا ایسا ہے) جیسا یہ لوگ اس (قرآن) پر (کہ معجزہ عظیمہ ہے) پہلی دفعہ (جبکہ وہ آیا) ایمان نہیں لائے (تو اب ایمان نہ لانے کو بعید مت سمجھو) اور (تقلیب ابصار یعنی نگاہوں کو بےکار کرنے کا مطلب ظاہری تقلیب نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ) ہم ان کو ان کی سر کشی (وکفر) میں حیران (سرگرداں) رہنے دیں گے (ایمان کی توفیق نہ ہوگی کہ یہ معنوی تقلیب ہے) اور (ان کے عناد کی تو یہ کیفیت ہے کہ) اگر ہم (ایک فرمائشی نشان کیا کئی کئی اور بڑے بڑے فرمائشی نشان بھی ظاہر کردیتے، مثلاً یہ کہ) ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (لو لا انزل علینا الملائکة) اور ان سے مردے (زندہ ہو کر) باتیں کرنے لگتے (جیسا وہ کہتے ہیں (آیت) (فاتوا بآبائنا) اور (یہ تو صرف اتنا ہی کہتے ہیں (آیت) (تاتی باللہ والملائکة قبیلا) ہم (اسی پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ) تمام موجودات (غیبیہ) کو (جس میں جنت و دوزخ سب کچھ آ گیا) ان کے پاس ان کی آنکھوں کے رو برو دلا کر جمع کردیتے، (کہ سب کو کھلم کھلا دیکھ لیتے) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے، ہاں مگر خدا ہی چاہے (اور ان کی تقدیر بدل دے) تو اور بات ہے (پس جب ان کے عناد و شرارت کی یہ کیفیت ہے اور خود بھی وہ اس کو جانتے ہیں کہ ہماری نیت اس وقت بھی ایمان لانے کی نہیں تو اس کا مقتضایہ تھا کہ نشانوں کی فرمائش نہ کرتے کہ محض بےکار ہے) لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں (کہ ایمان لانے کا تو قصد نہیں پھر خواہ مخواہ کی فرمائشیں کہ جہالت ہونا اس کا ظاہر ہے) اور (یہ لوگ جو آپ سے عداوت کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت رکھتے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے، کچھ آدمی (جن سے اصل معاملہ تھا) اور کچھ جن (ابلیس اور اس کی اولاد) جن میں سے بعضے (یعنی ابلیس اور اس کا لشکر) دوسرے بعضوں کو (یعنی کافر آدمیوں کو) چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں (مراد اس سے کفر و مخالفت کی باتیں ہیں کہ ظاہر میں نفس کو بھلی معلوم ہوتی تھیں، اور باطن میں مہلک تھیں، اور یہی دھوکہ ہے، جب یہ کوئی نئی بات نہیں تو اس کا غم نہ کیجئے کہ آپ کے ساتھ یہ لوگ ایسے معاملات کیوں کرتے ہیں، اصل یہ ہے کہ اس میں بعضی حکمتیں ہیں، اس وجہ سے ان کو ایسے امور پر قدرت بھی ہوگئی ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ (یہ) چاہتا (کہ یہ لوگ ایسے امور پر قادر نہ رہیں) تو (پھر) یہ ایسے کام نہ کرسکتے (مگر بعض حکمتوں سے ان کو قدرت دے دی ہے) سو (جب اس میں حکمتیں ہیں تو) ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ (دین کے بارہ میں) افتراء پردازی کر رہے ہیں (جیسے انکار نبوت جس پر عداوت مرتب ہے) اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رہنے دیجئے (اس کی فکر وغم میں نہ پڑئیے، ہم خود متعین وقت پر مناسب سزاء دیں گے کہ ان حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے) اور (وہ شیاطین ان کافر آدمیوں کو اس لئے وسوسہ میں ڈالتے تھے) تاکہ اس (فریب آمیز بات) کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجاویں جو آخرت پر (جیسا چاہئے) یقین نہیں رکھتے (مراد کافر لوگ ہیں، اگرچہ اہل کتاب ہوں، کیونکہ جیسا چاہئے ان کو بھی یقین نہیں، ورنہ انکار نبوت پر جس پر قیامت میں سزاء ہوگی کبھی جرأت نہ کرتے) اور تاکہ (میلان نفسانی کے بعد) اس کو (اعتقاد قلبی سے بھی) پسند کرلیں اور تاکہ (اعتقاد کے بعد) مرتکب (بھی) ہوجاویں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس میں ایک اہم اصولی مسئلہ کی ہدایت دی گئی ہے کہ جو کام خود کرنا جائز نہیں اس کا سبب اور ذریعہ بننا بھی جائز نہیں۔ آیت کا شان نزول ابن جریر کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم ابو طالب مرض الموت میں تھے تو قریش کے مشرک سردار جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اور ایذاء رسانی میں لگے ہوئے تھے، اور قتل کی سازشیں کرتے رہتے تھے، ان کو یہ فکر ہوئی کہ ابو طالب کی وفات ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن جائے گی، کیونکہ ان کے بعد اگر ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کریں گے تو یہ ہماری عزت شرافت کے خلاف ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ ابو طالب کے سامنے تو ان کا کچھ بگاڑ نہ سکے، ان کے موت کے بعد اکیلا پا کر قتل کردیا، اس لئے اب وقت ہے کہ ہم مل کر خود ابو طالب ہی سے کوئی فیصلہ کن بات کرلیں۔ یہ بات تقریباً ہر لکھا پڑھا مسلمان جانتا ہے کہ ابو طالب اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہ صرف محبت بلکہ عظمت و جلالت بھی ان کے دل میں پیوست تھی، اور آپ کے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر رہتے تھے۔ چند قریشی سرداروں نے یہ مشورہ کر کے ابو طالب کے پاس جانے کے لئے ایک وفد مرتب کیا، جس میں ابو سفیان، ابو جہل، عمروبن عاص وغیرہ قریشی سردار شامل تھے، ابو طالب سے اس وفد کی ملاقات کے لئے وقت لینے کا کام ایک شخص مطّلب نامی کے سپرد ہوا، اس نے ابوطالب سے اجازت لے کر اس وفد کو وہاں پہنچایا۔ وفد نے ابو طالب سے کہا کہ آپ ہمارے بڑے اور سردار ہیں، اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اور ہمارے معبودوں کو سخت تکلیف اور ایذاء پہنچا رکھی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو بلا کر سمجھا دیں کہ وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں تو ہم اس پر صلح کرلیں گے کہ وہ اپنے دین پر جس طرح چاہیں عمل کریں، جس کو چاہیں معبود بنائیں، ہم ان کو کچھ نہ کہیں گے۔ ابو طالب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ یہ آپ کی برادری کے سردار آئے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اور ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیں، برا بھلا نہ کہیں، اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کو چھوڑ دیں گے، اس طرح باہمی مخالفت ختم ہوجائے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا یہ بتلاؤ کہ اگر میں تمہاری یہ بات مان لوں تو کیا تم ایک ایسا کلمہ کہنے کے لئے تیار ہوجاؤ گے جس کے کہنے سے تم سارے عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم کے لوگ بھی تمہارے تابع اور باج گزار بن جائیں گے۔ ا بوجہل بولا کہ ایسا کلمہ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں، بتلائیے وہ کیا ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لَآ اِلٰہَ الاَّ اللہ یہ سنتے ہی سب برہم ہوگئے، ابوطالب نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرے بھتیجے ! اس کلمہ کے سوا کوئی اور بات کہو، کیونکہ آپ کی قوم اس کلمہ سے گھبرا گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! چچا جان ! میں تو اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا کلمہ نہیں کہہ سکتا، اگر وہ آسمان سے آفتاب کو اتار لاویں اور میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا ہرگز نہ کہوں گا، مقصود یہ تھا کہ ان کو مایوس کردیں۔ اس پر یہ لوگ ناراض ہو کر کہنے لگے یا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں (بتوں) کو برا کہنے سے باز آجائے، ورنہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی گالیاں دیں گے اور اس ذات کو بھی جس کا رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو بتلاتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بتوں کو برا نہ کہیں جن کو ان لوگوں نے خدا بنا رکھا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگیں اپنی بےراہ روی اور بےسمجھی سے۔ اس میں وَلَا تَسُبُّوا لفظ سَبّ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں گالی دینا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنے فطری اخلاق کی بناء پر پہلے ہی اس کے پابند تھے، کبھی بچپن میں بھی کسی انسان بلکہ کسی جانور کے لئے بھی گالی کا لفظ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر جاری نہیں ہوا، ممکن ہے بعض صحابہ کرام کی زبان سے کبھی کوئی سخت کلمہ نکل بھی گیا ہو جس کو مشرکین مکہ نے گالی سے تعبیر کیا، اور قریشی سرداروں کے اس وفد نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس معاملہ کو رکھ کر یہ اعلان کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو سب وشتم کرنے سے باز نہ آئیں گے تو ہم آپ کے خدا کو سب وستم کریں گے۔ اس پر قرآنی حکم یہ نازل ہوا، جس کے ذریعہ مسلمانوں کو روک دیا گیا، کہ وہ مشرکین کے معبودات باطلہ کے متعلق کوئی سخت کلمہ نہ کہا کریں، اس آیت میں یہ بات خاص طور سے قابل نظر ہے کہ اس سے پہلی آیت میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہو رہا تھا، مثلاً ارشاد ہے : (آیت) اتبع ما اوحی الیک من ربک، اور (آیت) واعرض عن المشرکین اور (آیت) وما جعلنک علیہم حفیظا اور (آیت) ما انت علیہم بوکیل، ان تمام صیغوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخاطب تھے، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایساکریں یا ایسا نہ کریں، اس کے بعد اس آیت میں طرز خطاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھیر کر عام مسلمانوں کی طرف کردیا گیا، فرمایا وَلَا تَسُبُّوا اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی کسی کو گالی دی ہی نہیں تھی، ان کو براہ راست اس کلام کا مخاطب بنانا ان کی دل شکنی کا سبب ہوسکتا ہے، اس لئے خطاب عام کردیا گیا، اور تمام صحابہ کرام بھی اس میں احتیاط فرمانے لگے (کذا فی البحر المحیط) رہا یہ معاملہ کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بتوں کا تذکرہ سخت الفاظ میں آیا ہے، اور وہ آیات منسوخ بھی نہیں، ان کی تلاوت اب بھی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیات قرآنی میں جہاں کہیں ایسے الفاظ آئے ہیں وہ بطور مناظرہ کسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں وہاں کسی کی دل آزاری نہ پیش نظر ہے، اور نہ کوئی سمجھدار انسان ان سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس میں بتوں کو برا کہنا یا مشرکین کو چڑانا منظور ہے، اور یہ ایک ایسا کھلا ہوا فرق ہے جس کو ہر زبان کے اہل محاورہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کبھی کسی شخص کا کوئی عیب یا برائی کسی مسئلہ کی تنقیح کے لئے ذکر کی جاتی ہے، جیسے عام طور پر عدالتوں میں ہر روز سامنے آتا رہتا ہے، لیکن عدالت کے سامنے ہونے والے بیان کو دنیا میں کوئی آدمی یہ نہیں کہتا کہ فلاں نے فلاں کو گالی دی ہے، اسی طرح ڈاکٹروں اور حکیموں کے سامنے انسان کے بہت سے ایسے عیب بیان کئے جاتے ہیں کہ ان کو دوسری جگہ اور دوسری طرح کوئی بیان کرے گا تو گالی سمجھی جائے، لیکن بغرض علاج ان کے بیان کرنے کو کوئی گالی دینا نہیں کہتا۔ اسی طرح قرآن کریم نے جا بجا بتوں کے بےحس وبے شعور اور بےعلم وقدرت اور بےبس ہونے کو اس پیرایہ میں بیان فرمایا ہے کہ سمجھنے والے حقیقت کو سمجھ لیں، اور نہ سمجھنے والوں کی غلطی یا کوتاہ نظری واضح ہوجائے، جس کے نتیجہ میں ارشاد ہوا ہے ضعف الطالب والمطلوب،” یعنی یہ بت بھی کمزور ہیں اور ان کے چاہنے والے بھی کمزور “ یا یہ ارشاد ہوا ہے (آیت) انکم وما تعبدون من دون اللّہ حصب جہنم،” یعنی تم اور جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں “۔ یہاں بھی کسی کو برا بھلا کہنا مقصود نہیں، گمراہی اور غلطی کا انجام بد بیان کرنا مقصود ہے، اور فقہاء رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو بھی مشرکین کو چڑانے کے سبب سے پڑھے تو اس کے لئے اس وقت یہ تلاوت کرنا بھی سبِّ ممنوع میں داخل اور ناجائز ہے، جیسے مواضع مکروہہ میں تلاوت ِقرآن کا ناجائز ہونا سب کو معلوم ہے۔ (روح المعانی) خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک اور قرآن کریم میں تو نہ پہلے کبھی ایسا کلام آیا تھا جس کو لوگ گالی سمجھیں، اور نہ آئندہ آنے کا کوئی خطرہ تھا، ہاں مسلمانوں سے اس کا امکان تھا ان کو اس آیت نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس واقعہ اور اس پر قرآنی ہدایت نے ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا، اور چند اصولی مسائل اس سے نکل آئے۔ کسی گناہ کا سبب بننا بھی گناہ ہے : مثلاً ایک اصول یہ نکل آیا کہ جو کام اپنی ذات کے اعتبار سے جائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجہ میں لوگ مبتلائے معصیت ہوتے ہوں وہ کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے، کیونکہ معبودات باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم از کم جائز تو ضرور ہے، اور ایمانی غیرت کے تقاضہ سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو، مگر چونکہ اس کے نتیجہ میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس برائی کا سبب بن جائیں گے، اس لئے اس جائز کام کو بھی منع کردیا گیا۔ اس کی ایک اور مثال بھی حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو کسی شخص سے ممکن ہی نہیں کہ اپنے ماں باپ کو گالی دے، فرمایا کہ ہاں انسان خود تو ان کو گالی نہیں دیتا، لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے، تو اس گالی دلوانے کا سبب یہ بیٹا بنا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔ اسی معاملہ کی ایک دوسری مثال عہد رسالت میں یہ پیش آئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ بیت اللہ شریف زمانہ جاہلیت کے کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا تو قریش مکہ نے بعثت ونبو ّت سے پہلے اس کی تعمیر کرائی، اس تعمیر میں چند چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف ہوگئیں، ایک تو یہ کہ جس حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے یہ بھی بیت اللہ کا جز ہے، تعمیر میں اس کو سرمایہ کم ہونے کی بناء پر چھوڑ دیا، دوسرے بیت اللہ شریف کے دو دروازے شرقی اور غربی تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا باہر نکلنے کے لئے، اہل جاہلیت نے غربی دروازہ بند کرکے صرف ایک کردیا، اور وہ بھی سطح زمین سے بلند کردیا، تاکہ بیت اللہ شریف میں داخلہ صرف ان کی مرضی و اجازت سے ہوسکے، ہر شخص بےمحابانہ جاسکے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی تعمیر کے بالکل مطابق بنا دوں، مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عام عرب ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دلوں میں کچھ شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لئے میں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔ ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا ایک اطاعت اور کار ثواب تھا، مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارادہ کو ترک فرما دیا اس واقعہ سے بھی یہی اصول مستفاد ہوا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی مفسدہ لازم آتا ہو تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔ لیکن اس پر ایک قوی اشکال ہے، جس کو روح المعانی میں ابو منصور سے نقل کیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد و قتال لازم فرمایا ہے، حالانکہ قتال کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کے ارادہ کرے گا تو وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے، اور مسلمان کا قتل حرام ہے، تو اس اصول پر جہاد بھی ممنوع ہوجانا چاہئے، ایسے ہی ہماری تبلیغ اسلام اور تلاوت قرآن پر نیز اذان اور نماز پر بہت سے کفار مذاق اڑاتے اور مضحکہ بناتے ہیں، تو کیا ہم ان کے اس غلط رویہ کی بناء پر اپنی عبادات سے دستبردار ہوجائیں گے۔ اس کا جواب خود ابو منصور نے یہ دیا ہے کہ یہ اشکال ایک ضروری شرط کے نظر انداز کردینے سے پیدا ہوگیا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ جائز کام جس کو لزوم مفسدہ کی وجہ سے منع کردیا گیا ہے اسلام کے مقاصد اور ضروری کاموں میں سے نہ ہو، جیسے معبودات باطلہ کو برا کہنا، اس سے اسلام کا کوئی مقصد متعلق نہیں، اسی طرح بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا اس پر بھی کوئی اسلامی مقصد موقوف نہیں، اس لئے جب اس پر کسی دینی مفسدہ کا خطرہ لاحق ہوا تو ان کاموں کو ترک کردیا گیا، اور جو کام ایسے ہیں کہ اسلام میں خود مقصود ہیں، یا کوئی مقصد اسلامی اس پر موقوف ہے اگر دوسرے لوگوں کی غلط روی سے ان پر کوئی مفسدہ اور خرابی مرتب بھی ہوتی نظر آئے تو ان مقاصد کو ہرگز ترک نہ کیا جائے گا، بلکہ اس کی کوشش کی جائیگی کہ یہ کام تو اپنی جگہ جاری رہیں اور پیش آنے والے مفاسد جہاں تک ممکن ہو بند ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور امام محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ دونوں حضرات ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لئے چلے، وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے، اس کو دیکھ کر ابن سیرین واپس ہوگئے، مگر حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے ضروری کام کیسے چھوڑ دیں، نماز جنازہ فرض ہے اس کو اس مفسدہ کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکا، ہاں اس کی کوشش تابمقدور کی جائے گی کہ یہ مفسدہ مٹ جائے۔ یہ واقعہ بھی روح المعانی میں نقل کیا گیا ہے۔ اس لئے خلاصہ اس اصول کا جو آیت مذکورہ سے نکلا ہے یہ ہوگیا کہ جو کام اپنی ذات میں جائز بلکہ اطاعت وثواب بھی ہو مگر مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اگر اس کے کرنے پر کچھ مفاسد لازم آجائیں تو وہ کام ترک کردینا واجب ہوجاتا ہے، بخلاف مقاصد شرعیہ کے کہ وہ لزوم مفاسد کی وجہ سے ترک نہیں کئے جاسکتے۔ اس اصول سے فقہاء امت نے ہزاروں مسائل کے احکام نکالے ہیں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کا بیٹا نافرمان ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس کو کسی کام کے کرنے کے لئے کہوں گا تو انکار کرے گا اور اس کے خلاف کرے گا جس سے اس کا سخت گناہگار ہونا لازم آئے گا تو ایسی صورت میں باپ کو چاہئے کہ اس کو حکم کے انداز میں کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کو نہ کہے، بلکہ نصیحت کے انداز میں اس طرح کہے کہ فلاں کام کرلیا جائے تو بہت اچھا ہو، تاکہ انکار یا خلاف کرنے کی صورت میں ایک جدید نافرمانی کا گناہ اس پر عائد نہ ہوجائے (خلاصہ الفتاوٰی) اسی طرح کسی کو وعظ و نصیحت کرنے میں بھی اگر قرائن سے یہ معلوم ہوجائے کہ وہ نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی ایسا غلط انداز اختیار کرے گا، جس کے نتیجہ میں وہ اور زیادہ گناہ میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسی صورت میں نصیحت ترک کردینا بہتر ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے صحیح بخاری رحمة اللہ علیہ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب رکھا ہے باب من ترک بعض الاختیار مخافة ان یقصر فھم بعض الناس فقعوا فی اشد منہ، یعنی بعض اوقات جائز بلکہ مستحسن چیزوں کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم فہم عوام کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہ ہو۔ مگر جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں خواہ فرائض و واجبات ہوں یا سنن مؤ کدہ یا دوسری قسم کے شعائر اسلامی، اگر ان کے ادا کرنے سے کچھ کم فہم لوگ غلطی میں مبتلا ہونے لگیں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، بلکہ دوسرے طریقوں سے لوگوں کی غلط فہمی اور غلط کاری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، ابتداء اسلام کے واقعات شاہد ہیں کہ نماز و تلاوت اور تبلیغ اسلام کی وجہ سے مشرکین مکہ کو اشتعال ہوتا تھا، مگر اس کی وجہ سے ان شعائر اسلام کو کبھی ترک نہیں کیا گیا، بلکہ خود آیت مذکورہ کے شان نزول میں جو واقعہ ابوجہل وغیرہ رؤ ساء قریش کا ذکر کیا گیا ہے اس کا حاصل یہی تھا کہ قریشی سردار اس پر صلح کرنا چاہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یہ کام کسی حال میں نہیں کرسکتا اگرچہ وہ آفتاب و ماہتاب لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دیں۔ اس لئے اس مسئلہ کی تنقیح اس طرح ہوگئی کہ جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں اگر ان کے کرنے سے کچھ لوگ غلط فہمی یا غلط کاری کا شکار ہوتے ہوں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے گا، ہاں جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہیں، اور ان کے ترک کردینے سے کوئی دینی مقصد فوت نہیں ہوتا ایسے کاموں کو دوسروں کی غلط فہمی یا غلط کاری کے اندیشہ کی وجہ سے چھوڑ دیا جائیگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ۝ ٠۠ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٠٨ سبب السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر : فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر : ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر : لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2» والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح . ( س ب ب ) السبب اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

بُتوں کو بُرا بھلا نہ کہو قول باری ہے ( ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم اور ( اے ایمان والو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں) سدی کا قول ہے کہ بتوں کو گالیاں نہ دو کہ پھر اس کے جواب میں مشرکین کو تمہارے لیے شریعت نازل کرنے والی ذات کے خلاف بدزبانی کا موقعہ ہاتھ آ جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ تم بتوں کو برا بھلا نہ کہو کہ اس کے سبب پیدا ہونے والا غصہ اور جہالت ان مشرکین کو اس ذات کے خلاف بدزبانی کرنے پر نہ اکسا دے جس کی تم بندگی کرتے ہو۔ اس کے اندر اس بات کی دلیل موجود ہے کہ حق پرست پر، شفہاء اور باطل پرستوں کے خلاف بدزبانی سے گریز کرنا لازم ہے۔ اس لیے کہ نادان لوگ مقابلے میں اس کے خلاف سبت و شتم پر بہت جلد اتر آئیں گے جو بظاہر ان لوگوں کو معصییت پر آمادہ کرنے اور اکسانے کی ایک صورت ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) کیوں کہ یہ لوگ حد سے گزر کر غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے، اس سے پہلے ان مشرکوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم اور تمہارے معبودان باطل سب دوزخ کا ایندھن ہیں، مگر اس حکم کو ایک حکمت خاص کے سبب آیت قتال نے منسوخ کردیا جیسا کہ ہم نے ان لوگوں کو ان کا دین وعمل مرغوب بنا رکھا ہے اسی طرح ہر ایک طریقہ والے کو ان کا عمل اور طریقہ مرغوب بنارکھا ہے، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جتلا دے گا، جو کچھ یہ کرتے تھے۔ شان نزول : (آیت) ” ولا تسبوا الذین “۔ (الخ) حافظ عبدالرزاق (رح) نے بواسطبہ معمر (رح) ، قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کو برا بھلا کہتے تھے تو کفار غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کو برا مت کہو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ ط) ۔ یعنی کہیں جوش میں آکر ان کے بتوں کو برابھلا مت کہو ‘ کیونکہ وہ ان کو اپنے معبود سمجھتے ہیں ‘ ان کے ذہنوں میں ان کی عظمت اور دلوں میں ان کی عقیدت ہے ‘ اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ غصے میں آکر جواباً اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں۔ لہٰذا تم کبھی ایسا اشتعال آمیز انداز اختیار نہ کرنا۔ یہاں ایک دفعہ پھر نوٹ کیجیے کہ یہ خطاب مسلمانوں سے ہے ‘ لیکن انہیں یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ (کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ) جس طرح ہر کوئی اپنے عقیدے میں خوش ہے اسی طرح یہ مشرکین بھی اپنے بتوں کی عقیدت میں مگن ہیں۔ ظاہر بات ہے وہ ان کو اپنے معبود سمجھتے ہیں تو ان کے بارے میں ان کے جذبات بھی بہت حساس ہیں۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں مناسب انداز سے سمجھائیں ‘ انذار ‘ تبشیر ‘ تذکیر اور تبلیغ وغیرہ سب طریقے آزمائیں ‘ لیکن ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. The Prophet (peace be on him) and his followers are admonished not to allow their proselytizing zeal to dominate them so that their polemics and controversial religious discussions either lead them to be offensive to the beliefs of non-Muslims or to abuse their religious leaders and deities. Far from bringing people closer to the Truth, such an attitude is likely to alienate them from it further. 73. Here we should bear in mind, as we have pointed out earlier, that God declares those things which take place as a result of the operation of the laws of nature to be His own acts, for it is He Who has rnade those laws. Whatever results from the operation of those laws, therefore, results from His command. Whenever God states that a certain act was His, the same might be described by humans as occurring in the natural course of things.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :73 یہاں پھر اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو امور قوانین فطرت کے تحت رونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رونما ہوتا ہے ۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: اگرچہ جن دیوتاوں کو کافر و مشرک لوگ خدا مانتے ہیں، ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے، لیکن اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کافروں کے سامنے ان کے لئے نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کافر لوگ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کا سبب تم بنوگے، اور جس طرح اﷲ تعالیٰ کی شان میں خود گستاخی کرنا حرام ہے، اسی طرح اس کا سبب بننا بھی ناجائز ہے۔ اس آیت سے فقہائے کرام نے یہ اصول نکالا ہے کہ کوئی کام بذات خود توجائز یا مستحب ہو، لیکن اندیشہ ہو کہ اس کے نتیجے میں کوئی دوسرا شخص گناہ کا ارتکاب کرے گا توایسی صورت میں وہ جائز یا مستحب کام چھوڑدینا چاہئے۔ تاہم اس اصول کے تحت کوئی ایسا کام چھوڑنا جائز نہیں ہے جو فرض یا واجب ہو۔ مزید تفصیل کے لئے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع فرمائیں۔ یہاں یہ بھی واصح رہے کہ اہل عرب اگرچہ اﷲ تعالیٰ کو مانتے تھے اور اصل میں تو وہ خود بھی اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، لیکن ضد میں آکر ان سے ایسی حرکت سرزد ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا، چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ سے یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ ہمارے بتوں کو برا کہوگے تو ہم آپ کے رب کو برا کہیں گے۔ 47: یہ درحقیقت ایک ممکن سوال کا جواب ہے اور وہ یہ کہ اگر کافر لوگ اﷲ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں توان کو دُنیا میں ہی میں سزا کیوں نہیں دے دی جاتی۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ دُنیا میں توان لوگوں کی ضد کی وجہ سے ہم نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے کہ یہ اپنے طرز عمل کو بہت اچھا سمجھ رہے ہیں۔ لیکن آخر کار ان سب کو ہمارے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر عبد الرزاق تفسیر سدی تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جو شان نزول اس آیت کی بیان کے گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام کی قوت سے پہلے مسلمان جب شرکوں کے بتوں کو برا کہتے تھے تو وہ خدا کو برا کہنے سے منع فرمایا جب مسلمانوں کا زور ہوگیا تو بہتوں کو برا کہنا تو درکنار فتح مکہ کے وقت مسلمانوں نے ان بتوں کو توڑ ڈالا اس آیت کے حکم سے یہ مسئلہ نکلا کہ ضعف اسلام کے وقت کسی مباح کام سے کوئی بڑا فتنہ پیدا ہوتا ہو تو اس مباح کام کو نہیں کرنا چاہئے آیت جہاد سے اس آیت اور اس کی اوپر کی دو آیتوں کو بعض مفسروں نے جو منسوخ کہا ہے۔ اس کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے کہ جہاد کی آیت سے درگذر کی آیتیں منسوخ نہیں ہیں۔ یہ عبدالرزاق بن ہمام صنعانی (رح) بخاری کے استاد ہیں بخاری نے کہا ہے کہ ان کی کتابوں کی روایت صحیح ہے آخر عمر میں یہ نابینا ہوگئے تھے اس زمانہ کی ان کی زبانی روایت میں محدیثین کو تردد ہے ان کی تفسیر ان کو نابینا ہونے سے پہلے کی ہے اس واسطے معتبر ہے ان کا شمار متقدمین مفسروں میں ہے اور ان کی تفسیر اہل حدیث کے طور کی منقول تفسیر ہے ابن ماجہ اور حاکم سے تفسیر کے باب میں انکا طبقہ مقدم ہے اب آگے فرمایا کہ جو حال ان مکہ کے مشرکوں کا ہے کہ باوجود طرح طرح کی نصیحت کے یہ اپنا بھلا برا نہیں سمجہتے اور اپنے شرک کی برائی کو یہ لوگ یہاں تک اچھا جانتے ہیں کہ ان کے پتھر کے بتوں کو اگر کوئی برا کہوے تو اس کے مقابلہ میں یہ اپنے پیدا کرنے والے کی مذمت پر آمادہ ہوجاتے ہیں قوم نوح سے لے کر فرعون اور اس کی قوم تک یہی حال سب پچھلی امتوں کا تھا کہ وہ لوگ شرک کو اچھا اور شرک کے چھوڑ دینے کی نصیحت کو برا جانتے تھے آخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ دنیا میں تو وہ لوگ طرح طرح کے عذاب سے ہلاک ہوگئے اور عقبے میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی اور جواب دہی میں قائل ہو کر ان اعمال کی سزا بھگتنی پڑے گی معتبر سند سے ترمذی ‘ نسامذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان کے پھندے میں پھنس کر جب آدمی گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جس سے اسکا دل مرجاتا ہے اور وہ مردہ دل نصیحت کے سمجہنے سے غافل ہو کر برے کاموں کو اچھا جاننے لگتا ہے اس سبب سے برے کاموں سے باز آنے کی اس کو توفیق نہیں ہوتی اور مجبور کر کہ کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کا عقبے کا انجام وہی ہونے والا ہے جس کا ذکر آیت میں ہے حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث آیت کی تفسیر ہے جس سے برے کاموں کو اچھا جاننے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے مسند امام احمد کے حوالہ سے معتبر سند کی ابوسعید خدری (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ شیطان اللہ کے روبرو اس بات پر قسم کھاچکا ہے کہ اس سے جہاں تک ہو سکے گا وہ بنی آدم کو بہکاوے گا صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے کہ شیطان نے اپنا تخت سمندر میں بچھا رکھا ہے جس پر خود تو وہ بیٹھ جاتا ہے اور وہ اپنے شیاطینوں کو طرح طرح سے بہکانے کے پٹی پڑھا کر لوگوں کے بہکانے کو بھیجتا ہے شیطان کے بہکانے کا مطلب یہی ہے کہ وہ حق بات کے مقابلہ میں ناحق بات کو ایسے اچھے ڈھنگ سے لوگوں کو دیکھاتا ہے جس سے بڑے بڑے عقل منددھوکا کھا جاتے ہیں اور ان کے شرعی صحیح عقیدہ یا عمل میں فتور پڑجاتا ہے۔ مثلا فلسفی لوگ باوجودیکہ بڑے عقل مند کہلاتے ہیں لیکن اس ملعون نے ان کو عقلی دلیلوں کے پھندے میں پھنسا کر اس عقیدہ پر نہیں اجمادیا کہ حشر میں جسم پھر دوبارہ پیدا نہ ہوگا بلکہ آدمی کے مرنے کے بعد فقط روح باقی رہے گی اور اچھے لوگوں کی روح کو اچھی باتوں کے تصور سے ایک طرح کی خوشی ہوگی اور برے لوگوں کی روح کو بڑے باتوں کے تصور سے ایک طرح کا رنج ہوگا اس کا نام جنت و دوزخ ہے اس کے سوا اور بھی اسی طرح کے غلط عقیدے ہیں جن پر یہ لوگ جمے ہوئے ہیں اور ان عقیدوں کو ایسا اچھا جانتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں انبیاء کی آسمانی ہدایت کو اپنے حق میں ضروری نہیں خیال کرتے چناچہ سقراط کو اس قوت کے بعض نیک لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جانے اور شریعت موسوی کی باتیں سیکھنے کی صلاح دی تو سقراط نے اس کا جواب یہ دیا کہ انبیاء عالم لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے ہیں ہم لوگوں کو انبیاء کی ہدایات کی ضرورت نہیں حالانکہ سقراط اور اس کے ہم عقیدہ فلسفیوں کا یہ قول کہ ان کو انبیاء کی ہدایت کی ضرورت نہیں بالکل ایک غلط اور شیطانی بہکاوے کا قول ہے کیونکہ عقبی کی غیب کی باتیں حواس اور عقل سے یہیں معلوم ہوسکتیں اس لیے ان کے سیکھنے میں انبیاء کی تعلیم کی ضرورت ہے ان لوگوں نے اس ضرورت کا انکار کیا اسی واسطے ایسی غیب کی باتوں میں ان کے اکثر قول غلط ہیں مثلا شیخ ابو علی سینا سے پہلے کے فلسفیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ سوا اپنی ذات کے اللہ تعالیٰ کو کسی اور چیز کا علم نہیں ہے شیخ بو علی بن سینا سے پہلے کے فلسفیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ سوا اپنی ذات کے اللہ تعالیٰ کو کسی اور چیز کا علم نہیں ہے شیخ بو علی بن سینا نے یہ قول تراشا کہ اللہ تعالیٰ کو سوا اپنی ذات کے کلیات کا علم ہے جزی باتوں کا علم نہیں ہے پہلا قول تو اس لیے غلط ہے کہ مخلوقات میں ہر شخص اپنی ذات کو اور اپنے پیدا کرنے والے کو جانتا ہے تو گویا نعوذ باللہ مخلوقات کا علم اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے علم سے بڑھا ہوا ہے۔ اس بات کا منہ سے نکالنا دیوانہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔ دوسرا قول اس سبب سے غلط ہے کہ جو بادشاہ اپنی بادشاہت کا حال نہ جانے اس کی بادشاہت کیونکر چل سکتی ہے کیونکہ سلطنت کے جزوی امور میں کارپرداز جو چاہیں گے وہ اس انجان بادشاہ سے کر الیویں گے جس سے رفتہ رفتہ سلطنت کا انتظام خراب ہوجاوے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظام اس عیب سے بالکل پاک ہے اس واسطے انبیاء کی تعلیم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام عالم کے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور اسی علم کے موافق قیامت کے دن جزاوسزا گی انبیاء کی تعلم کے موافق جب ذرہ ذرہ برابر عمل کی جزاوسزا ہوگی تو اس وقت شیخ کو اپنے قول کی غلطی معلوم ہوجاوے گی اور اپنے غلط قول کا اسے اس وقت پچھتاوا ہوگا جس وقت کا پچھتاوا کچھ کام نہ آوے گا جس طرح اس عقیدہ کا فتور بیان کیا گیا ہے اسی طرح شیطان بدعت اور ریاکاری میں پھنسا کر لوگوں کے علموں میں طرح طرح کے فتور ڈالا دیتا ہے جس کی مثالیں شریعت کی کتابوں میں کثرت سے ہیں غرض اسی طرح کی باتوں کو کذلک زینا لکل امۃ عملھم۔ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے بہکاوے سے بعضے لوگوں کی نظروں میں برے کام یہاں تک اچھے لگنے لگتے ہیں کہ باوجود نصیحت کے وہ لوگ ان برے کاموں سے باز نہیں آتے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ اوپر گذر چکا ہے کہ مجبور کر کے کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:108) لا تسبوا۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ سب سے (باب نصر) تم برا مت کہو۔ تم گالیاں نہ دو ۔ عدوا۔ ظلما وعدوانا۔ زیادتی، تعدی، ظلم و ستم۔ حد سے بڑھنا۔ زیادتی کرنا۔ (یعنی برا کہنے لگیں گے خدا کو زیادتی اور بےسمجھے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اور تم اس کا سبب بنو ایک جائز کام اگر کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اسے چھوڑدینا ضروری ہے11 یعنی انسان کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہو اپنے ہر کام کو چاہے وہ فی نفسہ اچھا ہو یا برا اچھا ہی سمجھتا ہے لین اس میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ برے کام کو پوری آزادی ہے چھو ڑکر نیک راستہ اختیار کرسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 10 تا 108 : لاتسبوا (تم گالیاں نہ دو ۔ کسی کو برا نہ کہو) عدو (بےادبی۔ دشمنی) زینا (ہم نے خوبصورت بنادیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 108 : اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے سرداروں کا ایک وفد ابو طالب کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ بستر مرگ پر تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لائے۔ وفد نے ابو طالب سے کہا یہ آپ کے بھتیجے ہمارے بتوں کو برا کہتے ہیں۔ انہیں سمجھائیے۔ ورنہ ہم ان کو اور اس ہستی کو بھی جس کا رسول یہ اپنے آپ کو بتاتے ہیں جواباً برا بھلا کہنے لگیں گے۔ ابوطالب نے سمجھایا کہ بھتیجے ! تم کیوں بتوں پر تنقید کرتے ہو۔ کیوں اس قوم کی دشمنی مول لیتے ہو ؟ یہ لوگ تمہیں دولت اور بادشاہت دینے کو تیار ہیں۔ آپ نے جو کچھ جواب میں فرمایا اس کا ماحصل یہ ہے کہ میرا کلمہ ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اس کلمہ سے باز نہیں آؤں گا۔ وفد بپھر گیا اور واپس چلا گیا۔ ایک تلخ فضا پیدا ہوگئی تھی اور ممکن تھا کہ مومنوں اور مشرکوں کے درمیان گالیوں کا تبادلہ شروع ہوجاتا ۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلندی تمیز و شرافت سے تو یہ امید نہیں ہے کہ زبان پر گالی لاتے۔ نبوت سے پہلے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی گالی نہیں دی۔ ہاں یہ خطرہ عام مسلمانوں سے تھا۔ اس لئے آیت کا رخ نبی کی طرف نہیں ہے بلکہ عام مسلمانوں کی طرف ہے۔ اس آیت سے چند اصولی مسائل نکل آئے ہیں مثلاً (1) گالی اور تنقید میں کیا فرق ہے۔ گالی مبالغہ ہے ‘ جوش انتقام ‘ دشمنی ‘ نفرت وغیرہ کی بدولت ہے۔ ادب تمیز شرافت کی سرحد سے آگے ہے۔ اس کا مقصد دل کا بخار نکالنا ہے اور بس۔ لیکن تنقید حقیقت کو پیش کرتی ہے ( مگر تنقید کی بھی حدیں مقرر ہیں) ۔ اس کا مقصد تعمیری اور اصلاحی ہے۔ اس کے الفاظ نپے تلے ہوتے ہیں۔ تنقید شوق کے تحت نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہے۔ اعوذ با اللہ منا الشیطن الرجیم میں لفظ رجیم گالی نہیں ہے۔ تنقید ہے۔ حقیقت واقعہ ہے۔ (2) اگر کوئی کام اپنی ذات میں نہ صرف جائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہے مگر اس کے کرنے سے فتنہ اٹھنے کا احتمال ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس کام کے کرنے سے زیادہ بھلائی اور کم برائی ہے یا زیادہ برائی کم بھلائی۔ اگر زیادہ برائی اور کم بھلائی کا احتمال ہے تو اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے یا اس وقت چھوڑ دینا چاہیے۔ شیخ سعدی (رح) نے کہا ہے ” دروغ مصلحت آمیز بہ ازراستی فتنہ انگیز “ یعنی مصلحت کے تحت سچ بات کو چھپا نا یا نرم کردینا بہتر ہے اس بےکھٹکے راست گفتاری سے جو فتنہ اٹھا دے۔ (3) لیکن اگر مسئلہ ہے شعائر اسلام کا یعنی ‘ اللہ ‘ رسول ‘ عبات ‘ قرآن ‘ حدیث فقہ ‘ تاریخ ‘ تعلیم اور تہذیب۔ تو فرائض بہر حال انجام دیئے جائیں گے اور اسلام کے لئے تبلیغ بھی ہوگی سیاست بھی ہوگی او حسب ضرورت جہاد فی سبیل اللہ بھی ہوگا۔ لیکن عقل و تدبر کا تقاضا ہے کہ فتنہ کم سے کم اٹھے۔ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی سلامت رہے اور مخالف کو گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نہ نکالی جائے۔ فتنہ کے ڈر سے صرف وہی کام چھوڑا جاسکتا ہے جو شعائر اسلام میں سے نہیں ہے یا جو ملی ضرورت نہیں ہے۔ شعائر اسلام کی عظمت کرے سے اگر فتنہ پیدا ہوجائے یا احتمال ہو تو اس کا علاج دوسرے ذریعہ سے کیا جائے گا۔ اور عمل میں کوتاہی نہیں کی جائے گی۔ بتوں پر تنقید جائز ہے بلکہ ضرورت ہے۔ لیکن گالی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ بددعا کی اجازت ہے لیکن لعنت کی اجازت نہیں ہے۔ مظلوم ظالم پر لعنت نہیں بھیج سکتا البتہ وہ قرآن کی آیت پڑھ سکتا ہے۔ لعنت اللہ علی الظلمین۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے۔ صحابہ (رض) نے پوچھا ایسا کون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی اور کے ماں باپ کو گالی دینا گویا اپنے ہی ماں بات کو گالی دینا ہے کیوں کہ وہ جواب میں تمہارے ماں باپ کو گالی دے گا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ شریف کو ازسر نو اسی بنیاد اور نقشہ پر اٹھوائیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چھوڑا تھا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ ترک کردیا کہ فساد کا خطرہ تھا۔ ابو طالب کے واقعہ میں حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ آفتاب و ماہتاب بھی پیش کردیں تو میں کلمہ توحید و رسالت نہیں چھوڑوں گا ( یعنی حسب ضرورت بتوں پر تنقید کرتا رہوں گا) تو اس کا تعلق شعائر اسلام سے ہے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرض منصبی تھا۔ یہی مقام ہے بےخوفی کا ‘ استقلال کا اور توکل علی اللہ کا۔ بعض مذاہب اور فرقوں کو عادت پڑی ہوئی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا ان کے صحابہ کرام (رض) کو خواہ مخواہ برا کہتے ہیں۔ اگر ہم ان کو افہام و تفہیم سے بات سمجھا سکیں تو کیا کہنا۔ لیکن اگر نہ کرسکیں تو جواباً ان کے بزرگوں کو برا نہ کہیں۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر جماعت کو اس کے اعمال حسین اور نفیس نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان کو دشنام طرازی اچھی لگتی ہو۔ بہر حال سب کو اللہ کے پاس اپنے اپنے حساب و کتاب کے لئے واپس جانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنا طریقہ پسند ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ عالم اصل میں ابتلاء کا ہے پس اس میں سزا ضروری نہیں۔ 3۔ بتوں کو براکہنا فی نفسہ مباح ہے مگر جب وہ ذریعہ بن جائے ایک امرحرام یعنی گستاخی بجناب باری تعالیٰ کا تو وہ بھی منہی عنہ اوقبیح ہوجائے گا اس سے ایک قاعدہ شرعیہ ثابت ہوا کہ مباح جب حرام کا سبب بن جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے اور قرآن مجید کی بعض آیات میں جو معبودان باطلہ کی تحقیر مذکور ہوئی ہے وہ بقصد سب وشتم نہیں بلکہ مناظرہ میں بطورتحقیق مطلوب و استدلال والزام خصم کے ہے جو مناظرات میں مستعمل ہے اور قرائن سے مخاطب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ تحقیق مقصود ہے یاتحقیر۔ اول جائز دوسرا ناجائز۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کے شرک اور مخالفوں کے رد عمل میں اخلاق کا دامن نہ چھوڑنے کی ہدایت۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عزم و حوصلہ فلک بوس پہاڑوں سے بلند وبالا، آپ کی برد باری اور درگزر سمندر کے پانی کی گہرائی اور پھیلاؤ سے زیادہ تھی۔ آپ مشکل سے مشکل حالات میں صبر کرنے اور حوصلہ رکھنے والے تھے۔ کسی کی سنگین سے سنگین تر گستاخی اور زیادتی کے مقابلہ میں کبھی مشتعل نہ ہوتے۔ مکہ والوں نے آپ کی ذات اقدس پر ہر قسم کے الزام لگائے۔ سجدہ کی حالت میں آپ پر گندگی سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی رکھ دی۔ آپ کی ننھی منھی بچی حضرت فاطمہ (رض) کے معصوم چہرہ پر ابو جہل نے طمانچہ مارا۔ طائف کے غنڈوں نے آپ پر پتھربرسائے اور بدکلامی کی انتہا کردی مدینہ میں منافقوں نے ہر قسم کی ہرزہ سرائی کی یہاں تک کہ آپ کی پاک دامن اور وفا شعار بیوی حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی حالانکہ اس وقت اقتدار اور اختیار کے لحاظ سے سر زمین حجاز میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان مظالم اور زیادتیوں پر آپ کا مشتعل ہونا اور کسی سے بدلہ لینا تو درکنار پوری زندگی آپ کی زبان اطہر سے کسی نے کبھی سطحی لفظ نہیں سنا۔ پچھلی آیات میں آپ کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کے بجائے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ تبلیغ کے میدان میں کئی مراحل ایسے آتے ہیں کہ مبلغ کے لیے نازک صورت حال کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے بالخصوص جب مشرکین سچے خالق اور رحیم و کریم رب کے مقابلہ میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے لکڑی اور پتھر کے بتوں کو پیش کرتے، ان کے مشکل کشا، حاجت روا ہونے کے گھٹیا دلائل دیتے ہیں تو موحّد کی غیرت ایمانی جوش میں آتی ہے جس کی بنا پر ایک مصلح اور مبلغ کی زبان پر سطحی لفظ کا آنا غیر فطری بات نہیں۔ لیکن تبلیغ کے میدان میں چھوٹی سی لغزش بھی مبلغ کے لیے عار اور اس کے مشن میں رکاوٹ بنتی ہے اس لیے اسے ضابطۂ اخلاق کا پابند بناتے ہوئے گالی سے روکا گیا ہے۔ (سورۃ حٰم السجدہ، آیت : ٣٤) میں یہ کہہ کر مبلغ کو اخلاق کا سبق دیا گیا کہ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا کسی سے بحث و تکرار کے وقت بھی حسن اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مشرک دلائل کے اعتبار سے نہایت ہی کمزور ہوتا ہے اس لیے وہ فطرتاً سفلہ مزاج اور کم ظرف واقع ہوا ہے جس بنا پر باطل معبودوں کی حمایت میں وہ سچے حقیقی معبود کی گستاخی کرنے میں بھی نہیں چونکتا اسے بےعلم اور کم حوصلہ قرار دیتے ہوئے مواحد کو سمجھایا گیا ہے کہ ان کے باطل خداؤں کے بارے میں برے الفاظ مت کہو۔ کہیں وہ ذات کبریا کے بارے میں برے الفاظ نہ کہہ دیں۔ اس طرح تمہاری اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ شرک میں آگے بڑھتے ہوئے تمہیں مشتعل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے فائدے کے بجائے تبلیغ کے مشن کو نقصان ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن مجید باطل معبودوں کے لیے ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ “ کے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عربی زبان میں زندہ اور ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ “ سے مراد بےجان چیزیں اور پتھر کے بت مراد لیتے ہیں انھیں اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے کیونکہ من دون اللہ کے دائرہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر وہ چیز اور ذات آئے گی جسے کسی نہ کسی انداز میں خدا کی خدائی میں شریک کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہر مبلغ کو تسلی دی ہے کہ مشرکوں اور خدا کے نافرمانوں کی نافرمانیوں اور شرک کی وجہ سے ان کے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شرک اور توحید میں فرق نہیں سمجھتے، گناہ اور خدا کی نافرمانی کو اپنی زندگی کا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جتنا چاہیں دندناتے پھریں آخر وہ وقت آکر رہے گا جب انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ان کی ایک ایک حرکت اور عمل کے بارے میں نہ صرف ان کو بتلایا جائے گا بلکہ انھیں اس کے انجام سے دو چار ہونا ہوگا۔ (عَنْ وَاءِلٍ (رض) عَنْ الْمُرْجِءَۃِ فَقَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب خَوْفِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ] ” حضرت وائل (رض) مرجۂ سے بیان کرتے ہیں مجھے عبداللہ (رض) نے بتایا بلاشبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ “ مسائل ١۔ باطل عقائد کا حکمت و دانائی کے ساتھ رد کیا جانا چاہیے۔ ٢۔ ہر گروہ کے لیے ان کے اعمال مزین کردیے گئے ہیں۔ ٣۔ بتوں کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن برے اعمال کن لوگوں کے لیے خوبصورت ہوتے ہیں : ١۔ جن کے دل سخت ہوگئے اور ان کے اعمال کو شیطان نے مزین کردیا۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں شیطان ان کے اعمال مزین کردیتا ہے۔ (النمل : ٤) ٣۔ کفار کے لیے دنیا کی زندگی مزین کردی گئی۔ (البقرۃ : ٢١٢) ٤۔ کفار کے لیے ان کے اعمال کو مزین کردیا گیا ہے۔ (الانعام : ١٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٨۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ان میں سے جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وہ اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے اور وہ اپنے طرز عمل کی مدافعت کرتا ہے ۔ اگر وہ اچھے اعمال پر عمل پیرا ہے تو بھی وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے ۔ اگر وہ برے اعمال پر عمل پیرا ہے تو بھی وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے اور ان کی مدافعت کرتا ہے ۔ اگر وہ صحیح راہ پر ہو تو بھی اسے اچھی سمجھتا ہے اور اگر وہ ضلالت کی راہ پر گامزن ہو تو بھی وہ اسے اچھا سمجھتا ہے ۔ یہ ہے انسان کی فطرت اور اس کا مزاج ۔ مشرکین مکہ اللہ کے ساتھ کچھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے حالانکہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ صرف اللہ ہی خالق اور رازق ہے ۔ اگر ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مسلمانوں نے برا بھلا کہا تو وہ اپنے بتوں کے دفاع میں نکل آئیں گے اور اللہ رب العزت کو برا بھلا کہیں گے ۔ لہذا مسلمانوں کو ہدایت ہوئی کہ وہ انہیں ان کے حال ہی پر چھوڑ دیں ۔ (آیت) ” ثُمَّ إِلَی رَبِّہِم مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (108) ” پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے ‘ اس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں “۔ ایک مومن جس کو اسلامی دین پر اطمینان قلب حاصل ہو اور اسے یہ یقین ہو کہ وہ جس دین پر ہے وہ برحق ہے ۔ اس کا قلب مطمئن ہے اور وہ ایسے امور کے پیچھے نہیں پڑتا جس میں کوئی فائدہ نہ ہو ‘ کیونکہ بتوں کو گلیاں دینے سے ان کے ایمان ویقین میں کوئی اضافہ ہو نہیں سکتا ۔ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ مخالفین کے دلوں میں عناد بڑھ جائے ۔ اس لیے اہل ایمان کو اس بےفائدہ مشغلے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ۔ ہاں یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ جواب میں اہل ایمان مخالفین کی جانب سے ایسی باتیں سنیں جن کو وہ پسند نہیں کرتے یعنی رب ذوالجلال کی شان میں گستاخی ۔ اب اس سبق کا خاتمہ ہو رہا ہے ‘ اس پورے سبق میں اللہ تعالیٰ نے ایسے دلائل و شواہد پیش کئے ہیں جو رات ودن کے ہر لمحے میں چشم بینا کے لئے وافر مقدار میں موجود ہیں سبق کا خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ مخالفین اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے سامنے بھی رسولان سابقہ کی طرح کوئی خارق العادۃ مادی معجزہ آجائے تو وہ ضرور ایمان لائیں گے اور ان کے اس حلفیہ بیان کر سن کر بعض مخلصین اہل ایمان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تجویز پیش کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے کسی ایسے معجزے کے صدور کے لئے دست بدعا ہوں ۔ اس تجویز کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ دو ٹوک جواب یوں دیتے ہیں کہ دیکھو تمہیں ان مکذبین اور ان کی تکذیب کی حقیقت ہی کا علم نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کے معبودوں کو برا مت کہو ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ جو لوگ غیر اللہ کو پکارتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کے معبودوں کو برے الفاظ میں یاد مت کرو، چونکہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو اور انہیں تم سے دشمنی ہے اس لیے ضد میں آکر اپنی جہالت سے اللہ پاک کو برے الفاظ سے یاد کریں گے، ضد وعناد والے کو یہ ہوش نہیں ہوتا کہ میری بات کہاں لگے گی، یوں تو مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو ماننے کا دعویٰ کرتے اور اس کے بارے میں خالق کائنات ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن جب ضد میں آئیں گے تو صرف یہ دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے لہٰذا ہمیں بھی ان کے معبود کو برا کہنا چاہئے، یہ لوگ ضد اور عناد کے سبب حد ادب کے پھاند جائیں گے۔ اور اللہ وحدہٗ لا شریک کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں گے، چونکہ یہ حرکت بد ان کی تمہارے عمل کے جواب میں ہوگی۔ اس لیے ان کے معبود ان باطلہ کو برے الفاظ میں یاد کرکے اس کا سبب نہ بنو کہ وہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہٗ و تقدس کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کریں۔ لباب النقول ص ١٠٣ میں مصنف عبدالرزاق سے نقل کیا ہے کہ کافروں کے بتوں کو اہل ایمان برے الفاظ میں یاد کرتے تھے تو وہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی شان میں نازیبا کلمات کہہ جاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ ) نازل فرمائی۔ حضرات علماء کرام نے اس سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جو کام خود کرنا جائز نہیں اس کا سبب بننا بھی جائز نہیں، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے گا اور کسی کی ماں کو دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا (اس طرح سے وہ اپنے ماں باپ کو گالی دینے والا بن جائے گا) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٩ از بخاری و مسلم) پھر فرمایا (کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ) (ہم نے اسی طرح ہر امت کے لیے ان کے عمل کو مزین کردیا) جو لوگ کافر ہیں کفر ہی سے چپکے ہوئے ہیں کفر کو اچھا سمجھتے ہیں دنیاوی زندگی ختم ہوگی تو میدان قیامت میں سب پروردگار عالم جَلَّ مجدہٰ کی طرف لوٹیں گے سو وہ انہیں جتا دے گا کہ وہ کیا کام کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کی جزا بھی دے گا، یہ مزین کرنا تکوینی طور پر ہے اس سے تشریعی اوامر پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو لوگ کافر ہیں اپنے اختیار سے کفر اختیار کیے ہوتے ہیں۔ جب حقانیت اسلام کے دلائل ان کے سامنے آتے ہیں تو اپنے اختیار سے اسلام سے دور بھاگتے ہیں اور قبول نہیں کرتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

115 یَدْعُوْنَ کے بعد عائد محذوف ہے ای یدعونھم یعنی ان کے معبودان باطلہ کو بھی گالیاں نہ دو اگرچہ وہ حقیقت میں بھی برے ہوں ایسا نہ ہو کہ مشرکین عناد اور جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دینے لگیں لیکن اس پر ایہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے اس لیے اللہ کو گالیاں دینا ان سے کس طرح متصور ہوسکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات غیظ و غضب کی وجہ سے انسان آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور اس سے اس قسم کی غلطی صادر ہوجاتی ہے۔ ولا اشکال بناء علی ان الغضب و الغیظ قد یحملھم علی ذلک الا تری ان المسلم قد تحملہ شدۃ غیظہ علی التکلم بالکفر (روح ج 7 ص 351) ۔ یا بحذف مضاف اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دینا مراد ہے۔ وقیل المراد بسب اللہ تعالیٰ الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (روح) یا مراد تمام مومنین ہیں کیونکہ مشرکین ان کو محض توحید کی وجہ سے گالیاں دینا ہے۔ 116 یہ نہ ماننے کی چوتھی وجہ ہے یعنی مشرکین کو ان کے مشرکانہ اعمال اچھے اور خوبصورت نظر آتے ہیں اس لیے وہ ان کو چھوڑ کر توحید کی طرف نہیں آتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 اور اے مسلمانو ! تم ان معبودان باطلہ کو جن کی یہ مشرک خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں برا نہ کہا کرو اور نہ ان کو گالی اور دشنام دو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اپنی جہالت اور عدم علم کے باعث حد سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی شان بزرگ و برتر میں گستاخی کرنے لگیں ہم نے جس طرح ان کے اعمال کو ان کی نگاہ میں خوشنما اور خوش منظر کردیا ہے اسی طرح ہر فرقہ کے اعمال کو اس فرقہ کے لئے خوش نما اور خوش منظر بنا رکھا ہے پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف واپس جانا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے ان اعمال کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ اور خبردار کر دے گا جو وہ کیا کرتے تھے یعنی مشرکین کے اوتاروں اور بتوں کے حق میں دشنام طرازی نہ کیا کرو مبادا کبھی وہ مشرک انتقام کی غرض سے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے پر نہ اتر آئیں اور اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگیں اور اپنی جہالت کے باعث بغیر سوچے سمجھے حد سے آگے بڑھ جائیں کیونکہ اہل باطل کی حالت ی ہے کہ ان کو ان کے اعمال اسی طرح مستحسن اور اچھے نظر آتے ہیں اور ان کی نگاہ میں خوش منظر بنا دیئے گئے ہیں جس طرح ہر فرقہ والے کو اپنا اپنا عمل اچھا معلوم ہوتا ہے اور ہم نے اس دار الامتحان میں ہر فرقہ کو اس کے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے اس فرقہ کی نگاہ میں خوش نما بنا دیئے گئے ہیں اور اس دارالامتحان کے بعد چن کہ سب کی بازگشت ان کے رب کی جانب ہونی ہے اس لئے اعمال کی حقیقت اس وقت سب پر اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا۔