Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 109

سورة الأنعام

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۰۹﴾

And they swear by Allah their strongest oaths that if a sign came to them, they would surely believe in it. Say, "The signs are only with Allah ." And what will make you perceive that even if a sign came, they would not believe.

اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالٰی کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے ، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Asking for Miracles and Swearing to Believe if They Come Allah says; وَأَقْسَمُواْ بِاللّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ... And they swear their strongest oaths by Allah, Allah states that the idolators swore their strongest oaths by Allah, ... لَيِن جَاءتْهُمْ ايَةٌ ... that if there came to them a sign..., a miracle or phenomenon, ... لَّيُوْمِنُنَّ بِهَا ... ...  they would surely believe therein. affirming its truth. ... قُلْ إِنَّمَا الايَاتُ عِندَ اللّهِ ... Say: "Signs are but with Allah." meaning: Say, O Muhammad - to those who ask you for signs out of defiance, disbelief and rebellion, not out of the desire for guidance and knowledge - "The matter of sending signs is for Allah. If He wills, He sends them to you, and if He wills, He ignores your request." Allah said next, ... وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءتْ لاَ يُوْمِنُونَ And what will make you perceive that (even) if it came, they will not believe. According to Mujahid it was said that; `you' in `make you perceive' refers to the idolators. In this case, the Ayah would mean, what makes you -- you idolators -- perceive that you are truthful in the vows that you swore. Therefore, in this recitation, the Ayah means, the idolators will still not believe if the sign that they asked for came. It was also said that; `you' in, `what will make you perceive', refers to the believers, meaning, what will make you perceive, O believers, that the idolators will still not believe if the signs come. Allah also said, مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ "What prevented you (O Iblis) that you did not prostrate, when I commanded you!" (7:12) and, وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَأ أَنَّهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ And a ban is laid on every town (population) which We have destroyed that they shall not return (to this world again). (21:95) These Ayat mean: `What made you, O Iblis, refrain from prostrating, although I commanded you to do so, and, in the second Ayah, that village shall not return to this world again. In the Ayah above (6:109) the meaning thus becomes: What makes you perceive, O believers, who wish eagerly for the disbelievers to believe, that if the Ayat came to them they would believe. Allah said next,   Show more

معجزوں کے طالب لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ...  معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور حضرت عیسیٰ مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ کی نبوت کو مان لیں گے ، آپ نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ کو سچا جاننے لگیں گے ۔ آپ کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ، آپ نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں جاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما ۔ اسی پر یہ آیتیں ( وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:111 ) تک نازل ہوئیں یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17 ۔ الاسراء:59 ) یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا ۔ انھا کی دوسری قرأت انھا بھی ہے اور لا یومنون کی دوسری قرأت لا تومنون ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ۔ اس صورت میں انھا الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی یشعر کم کا معمول ہو کر اور لا یومنون کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت ( قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ) 7 ۔ الاعراف:12 ) میں ۔ اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:95 ) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھا معنی میں لعلھا کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں انھا کے بدلے لعلھا ہی ہے ، عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ، امام ابن جرید رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ، واللہ اعلم پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت ( وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ) 35 ۔ فاطر:14 ) اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے؟ اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ، ہرگز نہ چھوڑیں گے ، یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لئے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے ۔ آمین ) ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 جھد ایمانہم، ای : حلفوا ایمانا مؤکدۃ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔ 109۔ 2 یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ علیہ السلام۔ احیائے موتی اور ناقہء خمود وغیرہ جیسا۔ 109۔ 3 ان کا یہ مطالبہ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ... ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنادیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جائے گا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہ فرمایا۔ (ابن کثیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١١] کفار مکہ کا معجزہ کا مطالبہ اور اس مطالبہ کے جواب :۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ اگر کوہ صفا خالص سونے کا بن جائے تو ہم یقینا ایمان لے آئیں گے اور بعض مسلمانوں کو یہ خیال آگیا کہ اگر ان کی یہ حجت پوری ہوجائے تو اچھی بات ہوگی۔ اس آیت میں اس پس منظر کو ملحوظ رکھا گیا ہے اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ا... ن کفار کو ایسا معجزہ پیش کرنے سے صاف جواب دے دو ۔ اور کہہ دو کہ ایسا معجزہ دکھانا اللہ کے اختیار میں ہے، میرے اختیار میں کچھ نہیں اور مسلمانوں سے یوں خطاب فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ اگر انہیں ایسا معجزہ دکھا دیا جائے تو یہ لوگ ضرور ایمان لے ہی آئیں گی۔ یہ لوگ تو ایسے بدبخت ہیں کہ کوئی بھی معجزہ دیکھ لیں، ایمان نہیں لانے کے۔ لہذا ان سے کسی طرح کی خیر کی توقع مت رکھو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ۔۔ : مثلاً صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیا جائے، یا ان مطالبوں کو پورا کیا جائے جو ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں ذکر فرمائے ہیں۔ فرمایا ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں، میرے اختیار میں نہیں اور تمہیں کیا خبر کہ نیا معجزہ یا نش... انی آ بھی جائے تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

On Signs and Miracles The previous verses had mentioned how obstinate people failed to benefit from clear signs of Allah and open miracles of His Messenger and kept on denying the message of truth. The present verses mention how they took a new turn, and demanded particular miracles from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . As reported by Ibn Jarir, the Quraysh chiefs asked that they be sh... own the miracle of turning the Mount of Safa into solid gold; if so, they would accept that he was a prophet and messenger, and that they would embrace Islam. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: All right, make a solid agreement that, if this miracle is shown, all of you will become Muslims. They took solemn oaths. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stood up to pray that Allah turns the Mount into gold. Sayyidna Jibra&il (علیہا السلام) came with Wahy which said: If you wish, We shall make this whole Mount a Mount of gold, but the consequence will be that, according to the custo¬mary Divine Law, all of them - if they still fail to believe - shall be de¬stroyed through a mass punishment, as has been happening with past communities who demanded a miracle which was shown, yet they re¬verted back to denial when the wrath and punishment of Allah overtook them. Since the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was aware of their ha¬bitual obstinacy, and because he was in mercy the foremost, he said that he was not going to pray for that miracle anymore. Thereupon, the following verse was revealed: وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ (And they swore by Allah on eloquent oaths - 109). Reported here is the sworn saying of the disbelievers that they would embrace Islam if they can see the miracle demanded by them. After that, in the sentence which follows immedi¬ately, it was said: إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّـهِ (Signs are, definitely, with Allah - 109). This contains an answer to their saying. It has been declared here that all signs and miracles are within the power and control of Allah Ta` a1a. As for the miracles already manifested, they too were from Him - and those being demanded now, they too lie within His absolute control. But, according to the dictate of reason and justice, they had no right to make such a demand - because, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) claims to be a Messenger of Allah, in support of which, he has already presented proofs and evidences in the form of miracles. Now, the other party does have the right to question these proofs and evidences by showing the proofs of their being false. But, the attitude of not cross-examining evidences presented and yet demanding some other evidences would be like the scenario in a law court where the respondent would avoid cross-examining the witness presented by the plaintiff and take the plea that he does not accept the evidence of these witnesses and that he would accept what is said particularly by such and such a person in his statement. Obviously, no court would consider this plea worth hearing. Similar is the case of the veracity of a prophet or Rasul of Allah. To that end there are many clear signs and miracles before those who dis¬believe. Now, unless they prove that these signs and miracles are false, they have no right to say that they would rather like to see a miracle of this or that kind before they could believe. After that, upto the end of the cited verses, Muslims have been di¬rectly instructed that their duty is to stay firm on the true faith in their individual capacity, as well as convey it to others correctly and properly. If they, even then, show signs of rigidness and obstinacy, one should not worry about them because no one has to be forced into becoming a Muslim. If this was what could be done by force, who can claim to have greater coercive power than Allah Ta` ala. He Himself would have made everyone a Muslim. And in order to give Muslims their peace of heart, it was also explained in the verse that these peo¬ple will not believe even if Allah were to show them the miracles of their choice openly and clearly. The reason was that their denial was not based on any misunderstanding or lack of awareness. In fact, it was due to their hostility and obstinacy - a disease which cannot be treated by miracles. In verse 111 وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ , it has been said that these people, if they were shown all miracles demanded by them, in fact, even if they were made to meet with angels and talk to the dead, they would still not believe. In the two verses that follow (112 113), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been comforted by saying that the hostility of such people against him is nothing surprising. Past prophets too had their enemies - so, let him not be sad about it.  Show more

پچھلی آیات میں اس کا ذکر تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھلے ہوئے معجزات اور اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کے باجود ہٹ دھرم لوگوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا، اپنے انکار اور ضد پر جمے رہے، اگلی آیات میں اس کا ذکر ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا ایک نیا روپ یہ بدلا کہ آنحضرت (صلی...  اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خاص خاص قسم کے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ قریشی سرداروں نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ معجزہ دکھلا دیں کہ کوہ صفا پورا سونا ہوجائے تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کو مان لیں گے، اور مسلمان ہوجائیں گے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا معاہدہ کرو کہ اگر یہ معجزہ ظاہر ہوگیا تو تم سب مسلمان ہوجاؤ گے، انہوں نے قسمیں کھا لیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے کہ اس پہاڑ کو سونا بنا دیجئے، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) وحی لے کر آئے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں تو ہم ابھی اس پورے پہاڑ کو سونا بنادیں، لیکن قانون الٓہی کے مطابق اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو سب پر عذاب عام نازل کرکے ہلاک کردیا جائے گا، جیسی پچھلی قوموں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، کہ انہوں نے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کیا، وہ دکھایا گیا، اور وہ پھر بھی منکر ہوگئے، تو ان پر خدا تعالیٰ کا قہر و عذاب نازل ہوگیا، رحمة اللعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ان لوگوں کی عادات اور ہٹ دھرمی سے واقف تھے، بمقضائے شفقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب میں اس معجزہ کی دعا نہیں کرتا، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ، جس میں کفار کے قول کی نقل کی ہے، کہ انہوں نے مطلوبہ معجزہ ظاہر ہونے پر مسلمان ہوجانے کے لئے قسمیں کھالیں، اس کے بعد کی آیت اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ میں ان کے قول کا جواب ہے کہ معجزات اور نشانیاں سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اور جو معجزات ظاہر ہوچکے ہیں وہ بھی اسی کی طرف سے تھے، اور جن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان پر بھی وہ پوری طرح قادر ہے، لیکن ازروئے عقل و انصاف ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کے مدعی ہیں، اور اس دعوے پر بہت سے دلائل اور شہادتیں معجزات کی صورت میں پیش فرما چکے ہیں، اب دوسرے فریق کو اس کا تو حق ہے کہ ان دلائل اور شہادتوں پر جرح کرے ان کو غلط ثابت کرے، لیکن ان پیش کردہ شہادتوں میں کوئی جرح نہ کریں اور پھر یہ مطالبہ کریں کہ ہم تو دوسری شہادتیں چاہتے ہیں، یہ ایسا ہوگا جیسا عدالت میں کوئی مدعا علیہ مدعی کے پیش کردہ گواہوں پر تو کوئی جرح نہ کرے، مگر یہ کہے کہ میں تو ان گواہوں کی شہادت نہیں مانتا، بلکہ فلاں معیّن شخص کی گواہی پر بات مانوں گا، اس کو کوئی عدالت قابل سماعت نہ سمجھے گی۔ اسی طرح نبوت و رسالت پر بیشمار آیات بینات اور معجزات ظاہر ہوجانے کے بعد جب تک ان معجزات کو غلط ثابت نہ کریں ان کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ ہم تو فلاں قسم کا معجزہ دیکھیں گے جب ایمان لائیں گے۔ اس کے بعد آخر آیات تک مسلمانوں کو فہمائش اور خطاب ہی کہ تمہارا کام دین حق پر خود قائم رہنا اور دوسروں کو صحیح طریقہ سے پہنچا دینا ہے، پھر بھی اگر وہ ہٹ دھرمی کرنے لگیں تو ان کی فکر میں پڑنا نہیں چاہئے، کیونکہ زبردستی کسی کو مسلمان بنانا نہیں، اگر زبردستی بنانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ زبردست کون ہے، وہ خود ہی سب کو مسلمان بنا دیتے، اور ان آیات میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اگر ہم ان کے مانگے ہوئے معجزات کو بھی بالکل کھلے اور واضح طور پر ظاہر کردیں یہ جب بھی ایمان نہ لائیں گے، کیونکہ ان کا انکار کسی غلط فہمی یا ناواقفیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ضد اور عناد اور ہٹ دھرمی سے ہے، جس کا علاج کسی معجزہ سے نہیں ہوا کرتا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِہَا۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ۝ ٠ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٠٩ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما ل... كلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٩) ان مشرکوں میں سے جب بھی کوئی قسم کھاتا ہے تو بڑا زور لگا کر قسم کھاتا ہے کہ اگر ہماری فرمایش کردہ نشانی میں سے کوئی نشانی آجائے تو ہم اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان ہنسی اڑانے والوں سے فرما دیجیے کہ سب نشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور اے ایمان والوں ... تم حقیقت کو نہیں جانتے ہمیں خبر ہے جب ان کی فرمایش کردہ نشانی بھی آجائے گی تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ شان نزول : (آیت) واقسموا باللہ جہد ایمانھم “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی اور بولے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس عصا تھا جسے وہ پتھر پر مارتے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے اور قوم ثمود کے پاس اونٹنی تھی، لہٰذا آپ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لے کر آئیے تاکہ ہم آپ کی تصدیق کریں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کون سی چیز پسند کرتے ہو، جسے میں تمہارے پاس لے کر آؤں وہ بولے اس صفا پہاڑی کو سونے کا کردیجیے، آپ نے فرمایا اگر میں نے سونے کا کردیا تو تم میری تصدیق کرو گے، قریش نے کہا ہاں ! اللہ کی قسم۔ چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی، آپ کے پاس جبریل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور عرض کیا کہ اگر آپ چاہیں تو اللہ جل شانہ صفا پہاڑی کو سونے کا کردیں لیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی تصدیق نہیں کی تو ہم ان کو عذاب دیں گے۔ اور اگر آپ چاہیں تو چھوڑ دیں جس کو توبہ کرنا ہو وہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَءِنْ جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا ط) ۔ پھر ان کے اسی مطالبے کا ذکر آگیا کہ کس طرح وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر انہیں معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ لازماً ایمان لے آئیں گے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ یہ مضمون اس سورة...  مبارکہ کا عمود ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس سے پہلے تمام انبیاء معجزات دکھاتے رہے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ٰ نے اپنی قوم کو معجزات دکھائے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی معجزات دکھائے ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو معجزہ دکھایا ‘ تو پھر آپ معجزہ دکھا کر کیوں ہمیں مطمئن نہیں کرتے ؟ ان کے سردار اپنے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دکھائیے تو سہی ایک دفعہ معجزہ ‘ اسے دیکھتے ہی ہم لازماً ایمان لے آئیں گے۔ (قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں صاف طور پر بتائیں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی معجزہ نہیں دکھانا چاہتا۔ ان کی اس طرح کی باتوں کا چونکہ مسلمانوں پر بھی اثر پڑنے کا امکان تھا اس لیے آگے فرمایا : (وَمَا یُشْعِرُکُمْ لا اَنَّہَآ اِذَا جَآءَ تْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) ۔ یہ لوگ ایمان تو معجزہ دیکھ کر بھی نہیں لائیں گے ‘ لیکن معجزہ دیکھ لینے کے بعدان کی مہلت ختم ہوجائے گی اور وہ فوری طور پر عذاب کی گرفت میں آجائیں گے۔ اس لیے ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں معجزہ نہ دکھایا جائے۔ چناچہ ان کی باتیں سن سن کر جو تنگی اور گھٹن تم لوگ اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو اس کو برداشت کرو اور ان کے اس مطالبے کو نظر انداز کردو۔ اب جو آیت آرہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. 'Sign' in this context signifies a tangible miracle which is so impressive that it leaves people with no alternative but to believe in the veracity of the Prophet (peace be on him) and the truth of his claim to have been appointed by God. 75. The Prophet (peace be on him) denies his ability to perform miracles. That power lies with God alone. If God wants a miracle to take place, He has the p... ower; if He does not want miracles to take place, none will. And so indeed does every Prophet of God - Ed. 76. These words are addressed to the Muslims. Driven by the restless yearning to see people embrace Islam - a yearning which they sometimes expressed in words - they wished some miracle to happen which might lead their erring brethren to the true faith. In response to this wish and longing they are told that their embracing the true faith does not depend upon their observing any miraculous sign.  Show more

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :74 نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور مِنَ اللہ ہونے کو مان لینے کو سوا کوئی چارہ نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :75 یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل ... نہیں ہے ، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے ، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :76 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بے تاب ہو ہو کر تمنا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کردیتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہوجائے جس سے ان کے گمراہ بھائی راہ راست پر آجائیں ان کی اسی تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمہیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے طور پر موقوف نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :77 یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ ان کے نقطہ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انہیں اس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مسلط ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: تشریح کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر 35 کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(109 ۔ 110) ۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں مجاہد اور بعضے اور سلف کے قول کے موافق ان آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش طرح طرح کے معجزے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاہتے تھے اور قسمیں کھا کر یہ کہتے تھے کہ ان معجزوں کے دیکھ لینے کے بعد وہ اسلام کے تابع ہوجاویں گے۔ مشرک... وں کی قسما قسمیں دیکھ کر مسلمان لوگوں کو بھی یہ خواہش تھی کہ ان معجزوں کا ظہور ہوجاوے تو خوب ہے تاکہ ان معجزوں کے دیکھنے کے بعد اپنی قسماقسمی کے موافق شاید ان مشرکوں میں سے کچھ لوگ اسلام کے تابع ہوجاویں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں حاصل معنے ان آیتوں کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت مشرکوں کی خواہش کا تو یہ جواب دیا کہ معجزہ اللہ کے اختیار میں ہے جب اس کی حکمت مقتضی ہوگی کسی معجزہ کا ظہور ہوجاویگا کسی کی خواہش اور قسما قسمی معجزات کا ظہور منحصر نہیں ہے کیونکہ یہ عادت الٰہی ہے کہ جس قوم کے خواہش پر کسی معجزہ کا ظہور ہو اور اس معجزے کے دیکھنے کے بعد بھی وہ قوم راہ راست پر نہ ملے تو اکثر ایسی قوم کسی عذاب میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو خواہش کا یہ جواب دیا کو جو لوگ اللہ کے علم میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کا حال تم کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کو ان کا حال خوب معلوم ہے کہ اس خواہش اور قسما قسمی سے پہلے جس طرح معراج شق القمر وغیرہ معجزات کا ان کے دل پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی طرح وہ اپنے کفر میں سرگرد ان رہیں گے۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ج ٧ ص ١٩٢۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:109) جھد۔ تاکید۔ پوری کوشش، مشقت۔ جھد یجھد کا مصدر ہے۔ اقسموا باللہ جھد ایمانھم۔ وہ پوری کوشش سے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔ ایۃ۔ نشانی۔ یہاں نشانی سے مشرکین کی مراد کوئی خاص نشانی ہے جیسے عصا موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ کا مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرنا۔ کوڑھیوں کو تندرست کرنا وغیرہ۔ محمد بن ... کعب القرضی اور الکلبی نے کہا ہے کہ مشرکین نے بطور خاص نشانی کے یہ مطالبہ کیا تھا کہ کوہ صفا سونا ہوجائے۔ ہمارے کچھ مرے ہوئے لوگ زندہ ہوجائیں کہ آپ کی تصدیق کریں مابعد الممات کے متعلق اور ہمیں فرشتے دکھائیے کہ ہم ان سے آپ کی صداقت کے متعلق دریافت کریں۔ انما الایات عند اللہ۔ کہ نشانیاں تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں۔ یہ مشیت ایزدی ہے کہ ان کو ظاہر کرے یا نہ کرے۔ یا کب اور کن حالات میں کرے۔ ما یشعرکم۔ میں مخاطبین اہل ایمان ہیں۔ (گو بعض کے نزدیک یہاں خطاب مشرکین سے ہے) تمہیں کیا خبر۔ تمہیں کیسے سمجھایا جائے۔ یشعر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ اشعار (افتعال) سے ۔ آگاہ کرے۔ واقف بنائے ۔ سمجھائے۔ نقلب۔ مضارع جمع متکلم۔ تقلیب (تفعیل) مصدر۔ ہم (حق کی طرف) پھیر دیتے ہیں۔ موڑ دیتے ہیں۔ کما۔ جیسے ۔ جیسا کہ ۔ جس طرح ۔ کما تعلیل کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسا کہ بعض کے نزدیک اس کا استعمال ان آیات میں آیا ہے۔ (1) کما ارسلنا فیکم رسولا منکم (2:151) فاذکرونی ۔۔ (2:152) چونکہ میں نے پیغمبر بھیج دیا تمہیں میں سے ۔۔ اس لئے میری یاد کرو۔ یہاں ارسال رسل ذکر الٰہی کی علت ہے۔ (2) واذکروہ کما ھدکم (2:198) چونکہ اللہ نے تمہیں ہدایت کردی اور ذکر کا طریقہ بتادیا۔ اس لئے اس کی یاد کرو۔ یہاں ہدایت ذکر کی علت ہے۔ (3) ونقلب افئدتھم وابصارھم کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ۔ (آیۃ ہذا) کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے ہم ان کے دلوں اور نظروں کو پھیر دیں گے۔ یہاں ان کے پہلی مرتبہ کے معجزوں (آیات) پر ایمان نہ لانا علت بن گیا ان کے تقلیب قلوب و ابصار کا۔ الکشاف اور ابن کثیر نے اس آیۃ میں کاف کو تعلیل کے معنوں میں لیا ہے۔ المنجد میں سے کہ کاف کبھی تعلیل کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے اذکروا اللہ کما ھدکم (2:198) اللہ کو یاد کرو کیونکہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔ لغات القرآن میں ہے کہ :۔ کاف کو تعلیل کے لئے اخفش اور بعض کو فیوں نے قرار دیا ہے اور اکثر اہل عربیت نے انکار کیا ہے۔ اول مرۃ۔ پہلی مرتبہ۔ اس سے مراد یا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سابقہ معجزات ہیں مثلاً شق القمر وغیرہ۔ یا سابقہ انبیاء کے معجزات مثلاً عصاء موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کو ڑھوں تندرست کرنا۔ مردوں کو زندہ کرنا۔ نذرھم۔ مضارع جمع متکلم۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وذر مصدر (باب سمع) ہم ناقابل پر واہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا ماضی مستعمل نہیں۔ صرف مضارع اور امر مستعمل ہے۔ طغیانھم۔ ان کی گمراہی۔ ان کی سرکشی ۔ ان کی شرارت۔ ان کی بےراہی۔ یعمھون ۔ مضارع جمع مذکر غائب عمہ مصدر ۔ (باب فتح، سمع) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ وہ بھٹکے پھرتے ہیں۔ وہ حیران و پریشان پھرتے ہیں۔ عمہ۔ سرگردانی۔ حیرانی۔ گمراہی۔ تردد۔ لیؤمنن بھا۔ میں کفار کے قول کی نقل ہے۔ انما الایات عند اللہ میں ان کا جواب (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے ہے) اور وما یشعرکم سے لے کر آخر آیۃ 111 تک پارہ 8) مسلمانوں سے خطاب (منجانب اللہ) ہے۔ قل انما الایات عند اللہ سے یعمھون تک عبارت کچھ یوں ہوگی۔ قل انما الایات عند اللہ وما ئشعرکم انھا اذا ھاءت لایؤمنون کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ (بذلک)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 جیسے صفا کی پہاڑی کو سونے کا بنا دینادیا جائے13 یا یہ ایمان نہ لائیں گے، کیونکہ ان مقصد حق کی تلاش و جستجو نہیں بلکہ محض دل لگی ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 109 تا 113 : اقسموا ( انہوں نے قسم کھائی) جھد ایمان (زبردست قسمیں۔ مضبوط قسمیں) ‘ ماشعرکم (تم نہیں سمجھتے) نقلب ( ہم پلٹ دیں گے) افئدۃ (فواد) دل ‘ اول مرۃ ( پہلی مرتبہ) یعمھون ( وہ سرگرداں ہیں۔ وہ بہک رہے ہیں) کلم (باتیں کیں۔ کلام کیا) ۔ الانس (انسان) زخرف (ظاہر۔ چمکدار چیز۔ ب... ناوٹی) غرور ( دھوکہ) لتصغی (تاکہ جھکیں) لیرضوہ ( تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں) لیقترفوا (تاکہ وہ کرتے رہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 109 تا 113 : پچھلی آیات میں ذکر تھا کہ کفار و مشرکین ‘ نشانیوں ‘ معجزوں کے باوجود ایمان نہ لائے۔ اب ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی سیاہ ضمیری میں ایک نیا روپ بدلا ہے یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئے معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” کوہ صفا “ کو سونے کا بنادیں تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ اس پر انہوں نے بڑی تاکید کے ساتھ اللہ کی قسمیں کھائیں۔ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی بھی خواہش تھی کہ یہ معجزہ رونما ہوجائے تاکہ گمراہ لوگوں کو نجات کا راستہ مل جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کو ہاتھ اٹھانے والے تھے کہ حضرت جبرئیل یہ وحی لے کر نازل ہوئے۔ ان آیات نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور تمام مسلمانوں پر یہ حقیقت حال کھول کر رکھ دی کہ ان کا یہ نیا مطالبہ ہر قسم کی سخت سے سخت قسم کے باوجود دھوکا اور فریب ہے۔ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ کوہ صفا کو سونے کا بنا دینا تو کیا۔ اگر فرشتے ظاہر ہو کر ان سے کلام کرنے لگیں۔ اگر مردے قبر سے نکل کر اٹھ کھڑے ہوں بلکہ اگر سارے مردے زندہ ہو کر ان کے سامنے آکھڑے ہوں۔ تب بھی یہ اپنے مکر اور چال میں ویسے ہی لگے رہیں گے جیسے اب تک لگے رہے ہیں۔ اس لئے ان کو سمجھانے کے لئے یہ جواب دید یجئے کہ معجزہ دکھانا نبی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ اختیار سراسر اللہ کے پاس ہے۔ اس طرح ان کے پر فریب مطالبے کی اخلاقی اعتبار سے نفی کردی جائے بلکہ ان آیات کی تبلیغ کے ذریعہ ان کے ڈھول کا پول کھول دیا جائے۔ انہیں بھی معلوم ہوجائے کہ یہاں فریب اور سازش چل نہیں سکتی۔ اور اللہ تو دلوں کے اندر کا راز تک جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ہم نے اسی طرح ہمیشہ شرارت پسند انسانوں اور سرکش جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھوکے اور فریب کی بنائوٹی باتیں سکھاتے ہیں۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ لوگ ایسا کام نہ کرتے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کار نبوت آسان نہیں ہے۔ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سو فیصد ایمان ‘ لگن ‘ قربانی ‘ محنت ‘ خلوص ‘ تبلیغ ‘ عقل و تدبیر ‘ حکمت و قیادت ‘ صبر و استقامت ‘ جہاد و قتال کی ضرورت ہے۔ پیغام حق کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دوست کم اور دشمان زیادہ ہوں گے اور دشمن بھی وہ جن کے ہاتھ میں ملک و مال ‘ حکومت ‘ فوج ‘ جیل اور پھانسی خانہ سب کچھ ہے آپ کی تحریک کا وارجن بادشاہوں ‘ امیروں ‘ وزیروں ‘ ساہوکاروں ‘ تاجروں ‘ خوشامدیوں ‘ نادانوں ‘ اندھی تقلید پرستوں اور دنیا پرستوں پر پڑے گا وہ سب کے سب ایک محاذ بن کر مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شیاطین جن وانس کے اس عظیم محاذ سے ٹکرانا ہوگا۔ اگر اللہ چاہتا تو تکوینی طور پر ان تمام دشمنان اسلام کو پیدائشی صاحب ایمان بنادیتا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نرم چارہ بنادیتا کہ ادھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چار معجزے دکھلائے دو چار تبلیغیں کیں ‘ جنت اور جہنم کی زبانی تصویر کھینچہ اور وہ فوج درفوج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے کامیابی کے قلعہ میں پرچم لہراتے ہوئے داخل ہوجائیں گے۔ مگر یہ اس کی مصلحت نہیں ہے۔ یہاں ہر ابراہیم (علیہ السلام) کو نمرود سے ‘ ہر موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے ‘ ہر عیسیٰ کو یہود سے دو دوہاتھ کرنے یہ پڑتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں بھی بہت بھاری جتھا کھڑا ہو رہا ہے۔ اس کی مصلحت نہیں ہے کہ سراسر معجزہ پر معجزہ دکھا کر کافروں کو رام کردیا جائے۔ معجزوں کی اپنی اہمیت ہے لیکن ان کی بھی ایک حد ہے اور وہ حد گذرچ کی۔ اب پیغام حق کے دلائل کو دیکھ کر جو شخص حق و صادقت کی بات مانتا ہے وہ مانے ورنہ اپنے لئے جہنم میں ٹھکانا بنا لے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور منکرین کے باطل نظریات اور یا وہ گوئی کے مقابلے میں مسلمانوں کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرنے کے بعد کفار کے لایعنی مطالبہ کا جواب اور اس کی حقیقت منکشف کی گئی ہے۔ یہود و نصاریٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاجواب کرنے اور مسلمانوں کو ورغلانے کے...  لیے یہ ہتھکنڈا بھی استعمال کیا کرتے تھے کہ جب مسلمانوں کی مجالس میں بیٹھتے تو اپنا اعتماد اور اخلاق ظاہر کرنے کے لیے قسمیں اٹھایا کرتے تھے کہ اگر یہ نشانیاں اور معجزات ہمارے سامنے پیش کیے جائیں تو ہم حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے۔ ان کے ساتھ اہل مکہ کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دیا جائے تاکہ ہماری معاشی مشکلات حل ہو سکیں اور ہم کامل یکسوئی کے ساتھ اسلام کی خدمت کرسکیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جس کے جواب میں جبرائیل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے کہا کہ آپ کی دعا کے بدلے یہ پہاڑ سونے میں تبدیل ہوجائے گا اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو انھیں فی الفور صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اگر آپ چاہیں تو انھیں مزید مہلت دی جائے تاکہ ان میں سلیم الفطرت لوگ ایمان لے آئیں۔ آپ نے اسی بات کو پسند کرتے ہوئے ان لوگوں سے فرمایا کہ معجزہ ظاہر کرنا میرے بس کی بات نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اپنے رسول کو عطا فرماتا ہے۔ اے رسول معجزات تو ان کے پاس پے درپے آچکے تھے لیکن جب کسی کی سوچ الٹی ہوجائے اور اس کی آنکھیں کسی چیز کو غلط زاویے سے دیکھنے لگیں تو اسے ہدایت کس طرح نصیب ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے ہم نے انھیں ان کی نافرمانیوں کے حوالے کردیا ہے جس میں وہ سرگرداں رہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” ونقلب افئد تھم وابصارھم “ کا مفہوم یہ لیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں جہنم کی طرف پھیر دے گا۔ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ دل رحمن کے اختیار میں ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکْثِرُ فِی دُعَاءِہٖ أَنْ یَقُول اللّٰہُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ أَوَإِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ قَالَ نَعَمْ مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ بَشَرٍ إِلَّا أَنَّ قَلْبَہُ بَیْنَ أَصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ فَإِنْ شَاء اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَہُ وَإِنْ شَاء اللّٰہُ أَزَاغَہُ ۔۔ )[ رواہ احمد ] ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اپنی دعاؤں میں کہا کرتے تھے اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔ وہ بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! آیا دل بھی پھیرے جاتے ہیں ؟ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! بنی آدم کے ہر فرد کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس کو قائم رکھتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو اس کو پھیر دے۔۔ “ (رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ ) [ آل عمران : ٨] ” اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد پھیر نہ دینا۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عنایت کر بلا شبہ تو ہی دینے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ کفار بےجامعجزات کے مطالبے کیا کرتے تھے۔ ٢۔ مشرکین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پھیر دیے۔ ٣۔ مشرکین اپنی ہی سرکشی میں الجھے پھرتے ہیں  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٩ تا ١١٠۔ ” وہ دل جو اس کائنات میں بکھرے ہوئے شواہد و دلائل کو تسلیم نہیں کرتا ‘ خصوصا اس تبلیغ وبیان کے بعد جو اس کتاب نے بےمثال پیرائے میں پیش کیا اور اس کائنات اور خود انسان کے نفس کے اندر موجود آیات الہیہ اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتیں اور وہ اپنے رب کی طرف دوڑ کر نہیں آتا تو ای... سا دل یقینا لاعلاج دل ہے ۔ ان لوگوں نے ابتداء ہی سے ایمان کا انکار کردیا ہے تو جو مسلمان حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواستیں کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ایسے معجزات کے صدور کی دعا کریں تو ان کے پاس کی گارنٹی ہے کہ وہ صدور معجزہ کے بعد دوبارہ انکار نہ کریں گے ۔ اللہ ہی ان کے دلوں کا حال جانتا ہے اور خوب جانتا ہے ۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ یہ لوگ یونہی اپنی سرکش میں غرق رہیں کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ ان کی تکذیب کا صلہ یہی ہے اور اللہ کو یہ بھی علم ہے کہ صدور معجزہ کے بعد بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ اگر فرشتے بھی اتر آئیں تب بھی وہ مان کردینے والے نہیں ہیں ۔ اگر مردے اٹھ کر قبروں سے بات چیت شروع کردیں تب بھی نہیں مانیں گے ۔ اگر تمام مخلوق کو اٹھا کر ان کے سامنے حشر برپا کر دیاجائے اور یہ تمام مخلوق ان کو دعوت ایمان دے تب بھی یہ مان کردینے والے نہیں ہیں ۔ یہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ کی مشیت انہیں مجبور ایمان نہ کر دے ۔ اور اللہ کی مشیت کسی کو مجبور نہیں کرتی کیونکہ لوگ اس طرف آنا ہی نہیں چاہتے ۔ یہ وہ نفسیاتی حقیقت ہے جسے اکثر داعی بھول جاتے ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ اہل ضلال کے سامنے دلائل وبراہین کی کوئی کمی ہے ‘ بلکہ وہ دل کے بیمار ہیں ۔ ان کی فطرت معطل ہوچکی ہے اور ان کا ضمیر فاسد ہوچکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حصول کے لئے سعی کریں ۔ بٹگرام ١٢ دسمبر ١٩٩٠۔ ٤٩ : ١٢ بجے دن ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی جھوٹی قسمیں کہ فلاں معجزہ ظاہر ہوجائے تو ایمان لے آئیں گے اس کے بعد فرمایا (وَ اَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ ) (اور انہوں نے بہت زور دار طریقہ پر اللہ کی قسم کھائی کہ ہمارے کہنے کے مطابق فرمائشی معجزہ ظاہر ہوجائے تو ہم ایمان لے آئیں گے) ان لوگوں کی یہ تاکیدی قسمیں سن کر مسلمان... وں کو خیال ہوا کہ جن معجزات کی فرمائش کر رہے ہیں وہ ظاہر ہوجاتے تو اچھا تھا تاکہ یہ لوگ ایمان لے آتے لیکن انہیں تو ایمان لانا نہیں ہے معجزات کی فرمائش ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ ہے۔ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ١٦٤ میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ سے ایمان لانے کے بارے میں بات کی تو کہنے لگے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں بتاتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک لاٹھی تھی جسے پتھر میں مارتے تھے تو بارہ چشمے پھوٹ پڑتے تھے اور آپ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے اور یہ بھی بتایا کہ قوم ثمود کے لیے بطور معجزہ ایک اونٹنی ظاہر کی گئی تھی، آپ ہمارے لیے بھی کوئی ایسی ہی نشانی ظاہر کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کون سی نشانی چاہتے ہو ؟ کہنے لگے کہ صفا پہاڑ سونا بن جائے آپ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوجائے تو میری تصدیق کرو گے کہنے لگے اگر ایسا ہوگیا تو ہم سب آپ کا اتباع کرلیں گے آپ اللہ جل شانہٗ سے دعا کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ غور فرما لیجیے دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار فرما لیں آپ چاہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئیں (گو اس میں دیر لگے گی) آپ نے فرمایا کہ میں ان کو اسی حال میں چھوڑ دیتا ہوں (جنہیں توبہ کرنا ہو توبہ کر کے ایمان لے آئیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریم (وَ اَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ ) سے (وَ لکنَّ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ ) تک نازل فرمائی۔ (قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ معجزات سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں) وہ چاہے تو ان کی فرمائشوں کے مطابق معجزات ظاہر فرمائے اور اگر اس کی مشیت نہ ہو تو کوئی بھی معجزہ ظاہر نہ ہو۔ (وَ مَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّھَآ اِذَا جَآءَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) یہ اہل ایمان کو خطاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں کیا خبر ہے کہ ان کی مطلوبہ نشانی آجائے گی جب بھی وہ ایمان نہ لائیں گے، ان کی قسمیں جھوٹی ہیں خواہ کیسی ہی زور دار ہوں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

117 زجر بطور شکوی وہ بڑی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کو معجزہ دکھایا جائے تو وہ مان لیں گے۔ قُلْ اِنَّمَا الْاٰ یٰتُ عِنْدَ اللہِ الخ جواب شکوہ آپ فرمادیں معجزات تو اللہ کے اختیار میں ہیں میرے اختیار میں نہیں ہیں۔ انما الایت عند اللہ لا عندی فکیف اجیبکم الیھا واتیکم بھا او المعنی ھو القادر علیھا ل... ا انا حتی اتیکم بھا (روح ج 7 ص 253) ۔ 118 چونکہ تمام صحابہ کرام (رض) کی بھی آرزو تھی کہ مشرکین کا مطلوبہ معجزہ آجائے تاکہ وہ ایمان لے آئیں اس لیے یہاں کُمْ ضمیر جمع سے خطاب میں ان کو بھی شامل فرمایا لیا اور فرمایا کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر ان کو مطلوبہ معجزہ دے بھی دیا جائے تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اس لیے معجزہ دکھانا حکمت کے خلاف ہے نیز ان بہتری اسی میں ہے کہ ان کو معجزہ نہ دکھایا جائے کیونکہ مطلوبہ معجزہ کے انکار کے بعد فوری عذاب آجاتا ہے اور مہلت نہیں ملتی۔ قیل للمؤمنین تتمنون ذلک وما یدریکم انہم یومنون۔ حاصل الکلام ان القوم طلبوا من الرسل معجزات قویۃ و حلفوا انھا لو ظھرت لامنوا فبین اللہ تعالیٰ انھم واِن حلفوا علی ذلک الا انہ تعالیٰ عالم بانھا لو ظھرت لم یومنوا (کبیر ج 4 ص 185) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

109 اور یہ منکر بڑی تاکید اور بڑے مبالغہ کے ساتھ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر حسب منشاء اور ہماری فرمائش کے موافق کوئی نشانی اور معجزہ ہمارے پاس آجائے اور کوئی نشانی ان کو پہونچ جائے تو یقینا یہ اس پر ایمان لے آئیں گے اے پیغمبر ! آپ فرما دیجیے کہ ہر قسم کی نشانیاں بس اللہ تعالیٰ ہ... ی کے پاس ہیں اور صرف اسی کے قبضے ہیں اور مسلمانو ! تم کو کیا خبر کہ جس وقت نشان آجائے گا اور ان کی فرمائش کے موافق معجزہ نمایاں ہوجائے گا تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے یعنی باوجود قسموں کے نشان دیکھ کر بھی ایمان لانے سے انکار کریں گے۔  Show more