Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 110

سورة الأنعام

وَ نُقَلِّبُ اَفۡئِدَتَہُمۡ وَ اَبۡصَارَہُمۡ کَمَا لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٖۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ نَذَرُہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۱۱۰﴾٪  19

And We will turn away their hearts and their eyes just as they refused to believe in it the first time. And We will leave them in their transgression, wandering blindly.

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ... And We shall turn their hearts and their eyes away, as they refused to believe therein for the first time, Al-Awfi said that Ibn Abbas said about this Ayah, "When the idolators rejected what Allah sent down, their hearts did not settle on any one thing and they turned away from every matter (of benefit)." Mujahid said that Allah's statement, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ (and We shall turn their hearts and their eyes away) means, We prevent them from the faith, and even if every sign came to them, they will not believe, just as We prevented them from faith the first time. Similar was said by `Ikrimah and `Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas said, "Allah mentions what the servants will say before they say it and what they will do before they do it. Allah said; وَلاَ يُنَبِّيُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ (And none can inform you like Him Who is the All-Knower). (35:14) and, أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَى علَى مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ Lest a person should say, "Alas, my grief that I was undutiful to Allah." (39:56) until, لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ("If only I had another chance, then I should indeed be among the doers of good)." (39:58) So Allah, glory be to Him, states that if they were sent back to life, they would not accept the guidance, وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (But if they were returned, they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars). (6:28) Allah said, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance), as they refused to believe therein for the first time), meaning: `If they were sent back to this life, they would be prevented from embracing the guidance, just as We prevented them from it the first time, when they were in the life of this world." Allah said, ... وَنَذَرُهُمْ ... and We shall leave them... and abandon them, ... فِي طُغْيَانِهِمْ ... in their trespass..., According to Ibn Abbas and As-Suddi, meaning, disbelief. Abu Al-Aliyah, Ar-Rabi bin Anas and Qatadah said that; `their trespass' means, `their misguidance'. ... يَعْمَهُونَ to wander blindly. or playfully, according to Al-A`mash. Ibn Abbas, Mujahid, Abu Al-Aliyah, Ar-Rabi, Abu Malik and others commented, "to wander in their disbelief."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] یعنی اگر یہ لوگ معجزہ دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو قرآن بذات خود کیا کم معجزہ تھا جس کے کھلے کھلے چیلنج کے باوجود یہ سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورة بھی پیش نہ کرسکے اور اب اگر مزید ہم انہیں کوئی معجزہ دکھائیں گے تو پھر بھی ان کی یہ کیفیت ہوگی۔ یہ پھر اسی طرح بصارت اور بصیرت کے لحاظ سے اندھے بن جائیں گے جس طرح پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے ان کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی کہ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے تو اس کے متعلق پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار پر انسان کا مواخذہ ہوگا۔ رہے ان اسباب کے نتائج تو نتائج پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہذا نتائج کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ اور عمل کرنے والوں کی طرف بھی اور قرآن میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ ۔۔ : یعنی اس سے پہلے معجزے دیکھ کر جب یہ ایمان نہیں لائے تو اب کیسے لائیں گے ؟ جو شخص حق واضح ہونے کے بعد ہٹ دھرمی سے ایک دفعہ انکار کردیتا ہے، پھر وہ مسلسل انکار ہی کرتا رہتا ہے۔ اس کے اس بد عمل کی وجہ سے آئندہ ایمان لانے کی توفیق اس سے چھین لی جاتی ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٧٤) اور سورة انفال (٢٤) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی جن کو اللہ ہدایت دیتا ہے وہ پہلی دفعہ ہی حق کی بات سن کر انصاف سے قبول کرلیتے ہیں اور جس شخص نے پہلے ہی ضد سے ٹھان رکھی ہے کہ مانے گا ہی نہیں، وہ معجزہ دیکھ کر بھی کوئی حیلہ بنا لیتا ہے، مثلاً فرعون نے کتنے ہی معجزے دیکھے پر وہ ایمان نہ لایا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ كَـمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّنَذَرُہُمْ فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝ ١١٠ۧ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) اور ہم بھی ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو پھیردیں گے جیسا کہ یہ قرآن کریم پر جو کہ پہلا عظیم الشان معجزہ ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خبر دینے پر بھی ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں اندھے سرگرداں رہنے دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) اس قاعدے اور قانون کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اگر وہ ان کو استعمال کرتا ہے تو ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو علم سکھائیں گے تو آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔ آپ آنکھ کا استعمال کریں گے تو آنکھ صحت مند رہے گی ‘ اس کی بصارت برقرار رہے گی۔ اگر آنکھ پر پٹی باندھ دیں گے تو دو چار مہینے کے بعد بصارت زائل ہوجائے گی۔ انسانی جوڑوں کو حرکت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ‘ اگر آپ کسی جوڑ پر پلاسٹر چڑھا دیں گے تو کچھ مہینوں کے بعد اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ جو صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اگر وہ اس کا استعمال نہیں کرے گا تو وہ صلاحیت تدریجاً زائل ہوجائے گی۔ اسی طرح حق کو پہچاننے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو باطنی طور پر صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اب اگر ایک شخص پر حق منکشف ہوا ہے ‘ اس کے اندر اسے پہچاننے کی صلاحیت موجود ہے ‘ اس کے دل نے گواہی بھی دی ہے کہ یہ حق ہے ‘ لیکن اگر کسی تعصب کی وجہ سے ‘ کسی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب اس نے اس حق کو دیکھنے ‘ سمجھنے اور ماننے سے انکار کردیا ‘ تو اس کی وہ صلاحیت قدرے کم ہوجائے گی۔ اب اس کے بعد پھر دوبارہ کبھی حق کی کوئی چنگاری اس کے دل میں روشن ہوئی تو اس کا اثر اس پر پہلے سے کم ہوگا اور پھر تدریجاً وہ نوبت آجائے گی کہ حق کو پہچاننے کی وہ باطنی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سورة البقرۃ آیت ٧ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ) اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر ‘ اور ان کی آنکھوں کے آگے پردے ڈال دیے ہیں ‘ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اس لیے کہ جب ضد اور تعصب کی بنا پر وہ لوگ سمجھتے بوجھتے حق کا مسلسل انکار کرتے رہے تو ان کی حق کو پہچاننے کی صلاحیتیں سلب ہوگئیں۔ اب وہ اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس کو point of no return کہتے ہیں۔ ہر معاملے میں واپسی کا ایک وقت ہوتا ہے ‘ لیکن وہ وقت گزر جانے کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہی فلسفہ یہاں دوسرے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں پر حق منکشف ہوا ‘ اللہ نے حجت قائم کردی ‘ انہوں نے حق کو پہچان لیا ‘ ان کے دلوں ‘ ان کی روحوں اور باطنی بصیرت نے گواہی دے دی کہ یہ حق ہے ‘ اس کے بعد اگر وہ اس حق کو فوراً مان لیتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ انہوں نے نہیں مانا تو اللہ نے فرمایا کہ اس کی سزا کے طور پر ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ اب وہ سو معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (وَّنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ۔ ) ۔ یہی لفظ یَعْمَھُوْنَ ہم سورة البقرۃ کی آیت ١٥ میں پڑھ چکے ہیں ‘ جبکہ وہاں آیت ١٨ میں عُمْیٌ بھی آیا ہے۔ عَمِہَ یَعْمَہُ بصیرت سے محرومی یعنی باطنی اندھے پن کے لیے آتا ہے اور عَمِیَ یَعْمٰی بصارت سے محرومی یعنی آنکھوں سے اندھا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ہم چھوڑ دیں گے ان کو ان کی باطنی ‘ ذہنی ‘ نفسیاتی اور اخلاقی گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. This shows that they still suffer from the same mentality which had made them reject the call of the Prophet (peace be on him) at the outset. Their outlook has undergone no change. The same mental confusion, the same opacity of vision which had kept them from developing sound understanding and.a correct perspective still warps their understanding and clouds their vision.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ونقلب افئدتھم وابصارھم ونذرھم فی طغیانھم یعمھون ۔ ۔۔ اور آپ کو کیسے سمجھایا جائے کہ جب یہ خاص نشانیاں (جن کا یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں) آجائیں گے جب بھی یہ ایمان نہ لاویں گے جیسے کہ وہ ایمان نہ لائے تھے جب پہلی مرتبہ (جب اللہ کی طرف سے خاص نشانیاں اس کے انبیاء کی معرفت ظہور میں آئی تھیں) اور (اب ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے) ہم ان کے دلوں کو (حق طلبی کے قصد سے) اور ان کی نگاہوں کو (حق بینی کی نظر سے) پھیر دیں گے۔ اور ان کو (ان کی) سرکشی (وکفر) میں حیران و سرگردان چھوڑ دیں گے۔ (ملاحظہ ہو بیان القرآن از مولٰنا اشرف علی تھانوی (رح) اور ضیاء القرآن از پیر کرم شاہ صاحب بھیروی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 یعنی جیسا کہ انہوں نے پہلی دفعہ چاند کے پھٹ جانے کی عظیم الشان نشانی دیکھی اور وہ ایمان نہیں لائے بہ کی ضمیر کامر جع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا پھر قرآن۔15 یعنی جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے وہ پہلی دفعہ ہی حق کی بات سن کر انصاف سے قبول کرتے ہیں اور جس شخص نے پہلے ہی ضد سے یہ ٹھان رکھی ہے کہ زمانے کا ہی نہیں وہ معجزہ دیکھر کر بھی کچھ حیلہ بنالیتا ہے مثلا فرعون نے کتنے ہی معجزے دیکھے پر وہ ایمان نہ لایا۔ (از موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اللہ ہی نے ان کو خراب کردیا ہے پھر مواخذہ تقلیب واقع ہو۔ حاشا وکلا۔ بلکہ توجہ کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ نُقَلِّبُ اَفْءِدَتَھُمْ وَ اَبْصَارَھُمْ ) اور ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پلٹ دیں گے نہ حق کے طالب ہوں گے نہ حق پر نظریں کریں گے۔ (کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) جیسا کہ یہ لوگ اس قرآن پر پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے (وَّ نَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ) اور ہم ان کو اس حال میں چھوڑے رہیں گے کہ وہ اپنی سر کشی میں اندھے بنے رہیں۔ قال القرطبی فی تفسیرہٖ ٧ ص ٦٥ ھذہٖ اٰیۃ مشکلۃ و لا سیما و فیھا ” وَنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانھِمْ یَعْمَھُوْنَ “ قیل المعنی و نُقَلِّبُ اَفْءِدَتَھُمْ وَاَنْظَارَ ھُمْ یوم القیمۃ علی لھب النار و حرّالجمر، کمالم یومنوا فی الدّنیا وَنَذَرُھُمْ فی الدّنیا، أی نمھلھم ولا نعاقبھم، فبعض الاب فی الاٰخرۃ، و بعضھا فی الدنیا و نظیرھا ” وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ خَاشِعَۃٌ فَھٰذَا فی الاٰخرۃ ” عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ“ فی الدّنیا “ وقیل : ونُقَّلِبُ فی الدّنیا : أی نحول بینھم و بین الایمان لوجَاء تھم تلک الاٰیۃ، کما حلنا بینھم و بین الایمان اوّل مرّۃ لما دعوتھم وأظھرت المعجزۃ، و فی التنزیل ” وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ “ المعنیٰ کان ینبغی ان یؤمنوا اذا جَائتھم الآیۃ فرأوھا بابصار ھم وعرفوھا بقلوبھم، فاذا لم یؤمنوا کان ذٰلٰک بتقلیب اللہ قلوبھم و ابصار ھم کَمَا لَمْ یُؤمِنُوْ ابِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ، ودخلت الکاف علی محذوف ای فلا یومنون کما لم یؤمنوا بہٖ اوّل مرۃ، ای اول مرّۃ اتتھم الآیات التی عجزوا عن معارض تھا مثل القراٰن وغیرہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

119 واؤ تعلیلیہ ہے اور یہ لَا یُؤمِنُوْنَ کی علت ہے۔ اور کما لم یؤمنوا۔ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَھُمْ کی تعلیل ہے یعنی جب پہلی بار ان کے پاس آیتیں آئیں تو انہوں نے ضد وعناد کی وجہ سے ان کا انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت کردی اس لیے اب اگر وہ منہ مانگا معجزہ دیکھیں گے تو ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے اور وہ ایمان نہیں لائیں گے اور ہم ان کو سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے اور یہ پھیر دنیا تکوینی اسباب کے تحت ہوگا۔ ضد وعناد کی وجہ سے چونکہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اس لیے ان کی باطنی اور قلبی بصیرت دونوں ماؤف ہوچکی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

110 اور تمہیں کیا خبر ہے کہ اس وقت ہم ان کے قلوب کو حق کے فہم سے اور ان کی آنکھوں کو حق کی پہچان سے پلٹ دیں گے اور یہ ایمان نیں لائیں گے جیسے یہ لوگ پہلی مرتبہ سابقہ نشانات کو دیکھ کر ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی اور طغیان میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے یعنی جب ان کی عادت ہی یہ ٹھری کہ نشان اور معجزہ دیکھتے جائیں اور ایمان سے انکار کرتے رہیں ۔ جیسے قرآن کریم جو سب سے بڑا معجزہ ان کے پاس آیا اور انہوں نے انکار کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور معجزات دیکھے اور انہوں نے انکار کیا اسی طرح جو نشان یہ طلب کر رہے ہیں اس کو بھی دیکھ کر انکار کریں گے نیز یہ کہ ان کی اس سرکشی کے باعث ہم سزاء ان کے قلوب اور آنکھوں کو حق فہمی اور حق بینی سے محروم کردیں گے اور ان کو ان کی سرکشی میں حیران و سرگرداں چھوڑ دیں گے۔