Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 112

سورة الأنعام

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾

And thus We have made for every prophet an enemy - devils from mankind and jinn, inspiring to one another decorative speech in delusion. But if your Lord had willed, they would not have done it, so leave them and that which they invent.

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Prophet Has Enemies Allah says, وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الاِنسِ وَالْجِنِّ ... And so We have appointed for every Prophet enemies -- Shayatin among mankind and Jinn, inspiring one another with adorned speech as a delusion. Allah says, just as We made enemies for you, O Muhammad, who will oppose and rebel against you and become your adversaries, We also made enemies for every Prophet who came before you. Therefore, do not be saddened by this fact. Allah said in other Ayat: وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَى مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ Verily, Messengers were denied before you, but with patience they bore the denial, and they were hurt... (6:34) and, مَّا يُقَالُ لَكَ إِلاَّ مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةَ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ Nothing is said to you except what was said to the Messengers before you. Verily, your Lord is the Possessor of forgiveness, and (also) the Possessor of painful punishment. (41:43) and, وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ Thus have We made for every Prophet an enemy among the criminals. (25:31) Waraqah bin Nawfal said to Allah's Messenger, "None came with what you came with but he was the subject of enmity." Allah's statement, شَيَاطِينَ الاِنس (Shayatin among mankind..., refers to, عَدُوًّا (enemies...), meaning, the Prophets have enemies among the devils of mankind and the devils of the Jinns. The word, Shaytan, describes one who is dissimilar to his kind due to his or her wickedness. Indeed, only the Shayatin, may Allah humiliate and curse them, from among mankind and the Jinns oppose the Messengers. Abdur-Razzaq said that Ma`mar narrated that Qatadah commented on Allah's statement, شَيَاطِينَ الاِنسِ وَالْجِنِّ (Shayatin (devils) among mankind and Jinn...), "There are devils among the Jinns and devils among mankind who inspire each other." Allah's statement, ... يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ... inspiring one another with adorned speech as a delusion. means, they inspire each other with beautified, adorned speech that deceives the ignorant who hear it. ... وَلَوْ شَاء رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ... If your Lord had so willed, they would not have done it; for all this occurs by Allah's decree, will and decision, that every Prophet had enemies from these devils. ... فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ so leave them alone with their fabrications, (and lies). This Ayah orders patience in the face of the harm of the wicked and to trust in Allah against their enmity, for, "Allah shall suffice for you (O Muhammad) and aid you against them." Allah's statement,

ہر نبی کو ایذاء دی گئی ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ کے زمانے کے یہ کفار آپ کی دشمنی کرتے ہیں اسی طرح ہر نبی کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں جیسے اور آیت میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا آیت ( وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:34 ) تجھ سے پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیں جس پر انہوں نے صبر کی اور آیت میں کہا گیا ہے کہ تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور سات ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے اور آیت میں ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:31 ) ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا ہے یہی بات ورقہ بن نوفل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی کہ آپ جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی عدوا سے بدل شیاطین الانس والجن ہے ، انسانوں میں بھی شیطان ہیں اور جنوں میں بھی ، حضرت ابا ذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی ؟ صحابی نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، یہ حدیث منقطع ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ دیر تک تشریف فرما رہے ، مجھ سے فرمانے لگے ابو ذر تم نے نماز پڑھ لی؟ صحابی نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، یہ حدیث منقطع ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ دیر تک تشریف فرما رہے ، مجھ سے فرمانے لگے ابو ذر تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ نہیں پڑھی آپ نے فرمایا اٹھو اور دو رکعت ادا کر لو ، جب میں فارغ ہو کر آیا تو فرمانے لگے کیا تم نے انسان و جنات شیاطین سے اللہ کی پناہ مانگی تھی؟ میں نے کہا نہیں ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور وہ جنوں کے شیطانوں سے بھی زیادہ شریر ہیں اس میں بھی انقطاع ہے ، ایک متصل روایت مسند احمد میں مطول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ مسجد کا ہے اور روایت میں حضور صلی اللہ عیلہ وسلم کا اس فرمان کے بعد یہ پڑھنا بھی مروی ہے کہ آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ) 6 ۔ الانعام:112 ) الغرض یہ حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے جس سے قوت صحت کا فائدہ ہو جاتا ہے واللہ اعلم ، عکرمہ سے مروی ہے کہ انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطین ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطن ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انسانوں کے شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جنوں کے شیطان جو جنون کو گمراہ کرتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنی کار گذاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں کو اس طرح بہکا یا تو فلاں کو اس طرح بہکایا ایک دوسرے کو گمراہی کے طریقے بتاتے ہیں اس سے امام ابن جریر تو یہ سمجھے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر تو یہ مطلب عکرمہ کے قول سے تو ظاہر ہے ہاں سدی کے قول میں متحمل ہے ایک قول میں عکرمہ اور سدی دونوں سے یہ مروی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا ۔ صحیح وہی ہے جو حضرت ابو ذر والی حدیث میں اوپر گذرا ۔ عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کتوں میں شیطان ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد فرماتے ہیں کفار جن کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں میں مختار ابن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری بڑی تعظیم تکریم کی اپنے ہاں مہمان بنا کر ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن مجھ سے اس نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو کجھ سناؤ میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے آیت ( بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:3 ) اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ) 6 ۔ الانعام:112 ) اتنا سنتے ہی لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارپیٹ شروع کر دیں میں نے کہا ارے بھائیو! یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے؟ میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ۔ مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن حضرت صفیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں اور بڑی دیندار تھیں جب حضرت عبداللہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن میں ہے ( وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:121 ) یعنی شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں ، الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپ میں ایک دوسرے کو دھوکے بازی کی باتین سکھاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولوالعزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے ، تو ان کی عداوت کا خیال بھی نہ کر ، ان کا جھوٹ تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام اسے سونپ کر بےفکر ہو جا ، وہ تجھے کافی ہے اور وہی تیرا مددگار ہے ، یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کر تے ہیں یہ محض اسلئے کہ بے ایمانوں کے دل ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ، ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ان کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ کی تسلی کے لئے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ان کو جھٹلایا گیا انھیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمائیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے، باغی اور متکبر قسم کے ہیں۔ 112۔ 2 وَ حْیُ ، خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جسکی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پا جاتی ہے۔ 112۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے۔ لیکن بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] کافروں کی گمراہ کن تدبیریں اور پروپیگنڈے :۔ یعنی یہ معرکہ حق و باطل ہر نبی کو پیش آتا رہا ہے۔ سب شیطانی قوتیں انبیاء کے مقابلہ میں ڈٹ کر آ کھڑی ہوتی ہیں اور ان دشمنوں میں صرف انسان ہی نہیں ہوتے شیطان بھی شامل ہوجاتے ہیں جو اپنے دوستوں کے دلوں میں کئی خوش آئند تدابیر القاء کرتے رہتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر کے خاتمہ کے لیے یہ تدبیر بھی کارگر ہوسکتی ہے اور یہ تدبیر اس سے زیادہ بہتر ہے۔ نیز وہ کچھ ایسی تدبیریں پیش کرتے ہیں جو بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہیں لیکن اصل میں وہ مکر و فریب ہوتا ہے جیسے یہودیوں نے یہ تدبیر کی تھی کہ کچھ یہود ایمان لے آئیں پھر تھوڑے عرصہ بعد مرتد ہوجائیں۔ معاشرہ ہمارے اس فعل سے یہ اثر لے گا کہ یقینا دال میں کچھ کالا کالا ہے ورنہ یہودی تو عالم لوگ ہیں اگر اسلام سچا مذہب ہوتا تو یہ حق سے کیسے انحراف کرسکتے تھے پھر ایسی باتوں کا لوگوں میں پروپیگنڈہ بھی خوب کرتے ہیں۔ یا جیسے مشرک کہتے تھے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اللہ کے مارے ہوئے (مردار) کو تو حرام سمجھتے ہیں اور اپنے مارے ہوئے (ذبح کردہ) کو حلال قرار دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا۔۔ : یعنی جس طرح جن و انس کے شیطان آپ سے دشمنی کر رہے ہیں، یہ صرف آپ کا حال نہیں، بلکہ اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے تمام انبیاء کے لیے بھی جن و انس شیطان دشمن بنائے تھے، لہٰذا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، بلکہ جس طرح پہلے انبیاء نے اپنے شریر دشمنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیا، آپ بھی ان کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے، مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ دیجیے۔ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۔۔ : وحی کا معنی خفیہ طریقے سے اطلاع دینا ہے، یعنی وہ انسان اور جن جو شیطان ہیں، وہ اپنوں میں سے سیدھے سادے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے چوری چھپے طرح طرح کے مزین اور ملمع کیے ہوئے حیلے اور مکر سکھاتے ہیں۔ ” ِ غُرُوْرًا ۭ“ مفعول لہ ہے، یعنی دھوکا دینے کے لیے۔ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ : مگر وہ چونکہ حجت پوری کرنے کے لیے انھیں امتحان کا پورا پورا موقع دینا چاہتا ہے اور کسی کو زبردستی اپنی نافرمانی سے باز رکھنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے، اس لیے وہ انھیں ڈھیل دے رہا ہے۔ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ : یعنی ان کی کوئی پروا نہ کریں، انھیں اور ان کے جھوٹ گھڑنے کو اللہ پر چھوڑ دیں، وہ خود ان سے نمٹ لے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۝ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ۝ ١١٢ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے زخرف الزُّخْرُفُ : الزّينة المزوّقة، ومنه قيل للذّهب : زُخْرُفٌ ، وقال : أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس/ 24] ، وقال : بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء/ 93] ، أي : ذهب مزوّق، وقال : وَزُخْرُفاً [ الزخرف/ 35] ، وقال : زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، أي : المزوّقات من الکلام . ( زخ رف ) الزخرف اصل میں اس زینت کو کہتے ہیں جو ملمع سے حاصل ہو اسی سے سونے کو بھی زخرف کہا جاتا ہے ( کیونکہ یہ زیبائش کے کام آتا ہے ) ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس/ 24] ، یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی ۔ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء/ 93] طلائی گھر ۔ وَزُخْرُفاً [ الزخرف/ 35] اور سونے کے ( دروازے ) اور زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] کے معنی ہیں |" ملمع کی ہوئی باتیں |" غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) اور جیسا کہ ابوجہل اور دوسرے مشرکین آپ کے دشمن ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر ایک نبی کے دشمن بہت سے شیاطین پیدا کیے تھے جن میں سے کچھ آدمی تھے اور کچھ جن، جن میں سے بعض یعنی ابلیس دوسرے بعض کافروں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ انسانوں کو دھوکا میں ڈال دیں، لہٰذا آپ بھی ان استہزاء کرنے والوں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں کو ان کے حال پر رہنے دیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٢ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ ) سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے ‘ انبیاء کو تو مدد کی ضرورت تھی ‘ اللہ نے شیاطین کو ان کے خلاف کیوں کھڑا کردیا ؟ بہر حال یہ اللہ کا قانون ہے جو راہ حق کے ہر مسافر کو معلوم ہونا چاہیے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ حق و باطل میں اس نوعیت کی کشاکش نہیں ہوگی تو پھر کھرے اور کھوٹے کی پہچان بھی نہیں ہو سکے گی۔ کیسے معلوم ہوگا کہ کون واقعی حق پرست ہے اور کون جھوٹا دعویدار۔ کون اللہ سے سچی محبت کرتا ہے اور کون دودھ پینے والا مجنوں ہے۔ یہ دنیا تو آزمائش کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں اگر شر کا وجود ہی نہ ہو ‘ ہر جگہ خیر ہی خیر ہو تو خیر کے طلبگاروں کی آزمائش کیسے ہوگی ؟ لہٰذا فرمایا کہ یہ کشمکش کی فضا ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ ہم خود حق پر چلنے والوں کو تلاطم خیز موجوں کے سپرد کر کے ان کی استقامت کو پرکھتے ہیں اور پھر ثابت قدم رہنے والوں کو نوازتے ہیں۔ اس میدان میں جو جتنا آزمایا جاتا ہے ‘ جو جتنی استقامت دکھاتا ہے ‘ جو جتنا ایثار کرتا ہے ‘ اتنا ہی اس کا مرتبہ بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ چناچہ راہ حق کے مسافروں کو مطمئن رہنا چاہیے : ؂ تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے ! (یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ط) ۔ مثلاً ایک جن شیطان آکر اپنے ساتھی انسان شیطان کے دل میں خیال ڈالتا ہے کہ شاباش اپنے موقف پر ڈٹے رہو ‘ اسی کا نام استقامت ہے۔ دیکھو کہیں پھسل نہ جانا اور اپنے مخالف کے موقف کو قبول نہ کرلینا۔ ان کا آپس میں اس طرح کا گٹھ جوڑ چلتا رہتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو یہ چھوٹ دے رکھی ہے۔ (وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ ) ظاہر بات ہے کہ اس کائنات میں کوئی پتا بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ ابو جہل کی کیا مجال تھی کہ حضرت سمیہ (رض) کو شہید کرتا۔ وہ برچھا اٹھاتا تو اس کا ہاتھ شل ہوجاتا۔ لیکن یہ تو اللہ کی طرف سے چھوٹ تھی کہ ٹھیک ہے ‘ تم ہماری اس بندی کو جتنا آزمانا چاہتے ہو آزمالو۔ ان آزمائشوں سے ہمارے ہاں اس کے مراتب بلند سے بلند تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں اللہ تعالیٰ کے ایک بندے پر انعامات کا ذکر ہوا ہے : (قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ ۔ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ ) اس نے کہا کاش کہ میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے معززین میں سے بنادیا۔ ادھر تو میری شہادت کے بعد صف ماتم بچھی ہوگی ‘ بیوی شوہر کی جدائی میں نڈھال ہوگی ‘ بچے رو رو کر ہلکان ہو رہے ہوں گے ‘ لیکن کاش وہ جان سکتے کہ مجھے میرے رب نے کس کس طرح سے نوازا ہے ‘ کیسے کیسے انعامات یہاں مجھ پر کیے گئے ہیں اور میں یہاں کس عیش و آرام میں ہوں ! اگر انہیں میرے اس اعزازو اکرام کی کچھ بھی خبر ہوجاتی تو رونے دھونے کی بجائے وہ خوشیاں منا رہے ہوتے۔ (فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ ) ۔ یہ ہماری سنت ہے ‘ ہمارا طریقہ ہے ‘ ہم نے خود ان کو یہ سب کچھ کرنے کی ڈھیل دے رکھی ہے ‘ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض فرمائیے اور ان کو ان کی افترا پردازیوں میں پڑے رہنے دیجیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

79. The Prophet (peace be on him) is told that he should not be unnerved even if the evil ones among both mankind and the jinn stood united against him and opposed him with all their might. For this was not the first time that such a thing had happened. Whenever a Prophet came and tried to lead people to the Truth, all the satanic forces joined hands to defeat his mission. 'Specious talk' signifies all the trickery and manoeuvring to which the enemy resorts, all his efforts aimed at sowing doubts about Islam and undermining people's faith in it, so as to arouse them against both the Prophet (peace be on him) and his message. Taken as a whole, these are characterized as 'delusion', for the weapons used in their crusade by the opponents of the Truth have the effect of deluding others as well as themselves, no matter how beneficial and successful those weapons may appear to be. 80. Furthermore, we should always bear in mind that, according to the Qur'an, there is a tremendous difference between 'God's will' and 'God's good pleasure'. The failure to differentiate between the two often gives rise to serious misconceptions. If a certain thing takes place in accord with the universal will of God, and thus by His sanction, that does not necessarily mean that God is pleased with it. Nothing at all takes place in the world unless God permits it to take place, unless He makes it a part of His scheme, and unless He makes it possible for that event to take place by creating its necessary conditions. The act of stealing on the part of a thief, the act of homicide on the part of a murderer, the wrong and corruption of the wrong-doer and the corrupt, the unbelief of the unbeliever and the polytheism of the polytheist - none of these are possible without the will of God. Likewise, the faith of the believer and the piety of the pious are inconceivable without the will of God. In short, both these require the will of God. But whereas the things in the first category do not please Him, those in the second do. Even though the will of God is oriented to ultimate good, the course of the realization of that good is paved with conflict between the forces of light and darkness, of good and evil, of what is sound and pure on the one hand and what is corrupt and defiled on the other. With larger interests in view, God has endowed man with the disposition of obedience as well as of disobedience. He has created in man Abrahamic and Mosaic as well as Nimrodic and Pharaonic potentialities. Both the pure, unadulterated human nature and the satanic urges are ingrained in man's being and have been provided with the opportunity to work themselves out by coming into conflict with each other. He has granted those species of His creatures who are possessed of authority (viz. man and jinn) the freedom to choose between good and evil. Whosoever chooses to act righteously has been given the power to do so, and the same is the case with him who chooses to be evil. People of both categories are in a position to use material resources within the framework of the broader considerations underlying God's- governance of His universe. God will be pleased, however, only with those who are working for good. God likes His creatures to exercise their freedom of choice properly and commit themselves to good of their own volition. Unlike the angels, who carry out God's commands without resistance from any quarter, the task entrusted to men is to strive to establish the way of life sanctioned by God in the face of opposition and hostility from evil-doers and rebels against Him. In the framework of His universal will, God allows even those who have chosen the path of rebellion to strive for the realization of their goals, even as He grants the believers every opportunity to strive along the path of obedience and service to God. Despite this granting of freedom and choice to all there is no doubt that God is pleased with, and guides, directs, supports and strengthens the believers alone because their overall direction is to His liking. Nevertheless, they should not expect that by His supernatural intervention God will either force those who are disinclined to believe into believing or that He will forcibly remove the satanic forces - among both men and jinn - who are resolved to spare neither their mental and physical energy nor their material resources to impede the triumph of the Truth. Those determined to strive in the cause of the Truth, and of virtue and righteousness are told that they must prove their earnest devotion by waging a fierce struggle against the devotees of falsehood. For had God wanted to use miracles to obliterate falsehood and usher in the reign of the Truth, He would not have required human beings to accomplish the task. He could have simply seen to it that no evil one remained in the world, leaving no possibility for polytheism and unbelief to exist.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :79 یعنی آج اگر شیاطین جن و انس متفق ہو کر تمہارے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمہارے ہی ساتھ پیش آرہی ہو ۔ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دنیا کو راہ راست دکھانے کے لیے اٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مشن کا ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں ۔ ”خوش آیند باتوں“ سے مراد وہ تمام چالیں اور تدبیریں اور شکوک و شبہات و اعتراضات ہیں جن سے یہ لوگ عوام کو داعی حق اور اس کی دعوت کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے کا کام لیتے ہیں ۔ پھر ان سب کو بحیثیت مجموعی دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کیونکہ حق سے لڑنے کے لیے جو ہتھیار بھی مخالفین حق استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی حقیقت کے اعتبار سے محض ایک دھوکا ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ ان کو نہایت مفید اور کامیاب ہتھیار نظر آتے ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :80 یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعموم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں ۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیت اور اس کے اذن کے تحت رونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے ۔ دنیا میں کوئی واقعہ کبھی صدور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صدور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صدور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے ۔ کسی چور کی چوری ، کسی قاتل کا قتل ، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیت الہٰی کے بغیر محال ہے ۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رونما ہوتے ہیں ۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دوسری قسم کے واقعات کو اس کی رضا اور اس کی پسندیدگی و محبوبیت کی سند حاصل ہے ۔ اگرچہ آخر کار کسی خیر عظیم ہی کے لیے فرمانروائے کائنات کی مشیت کام کر رہی ہے ، لیکن اس خیر عظیم کے ظہور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے ۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرودیت ، موسویت اور فرعونیت ، آدمیت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے ۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق ( جن و انسان ) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے ۔ جو چاہے اس کار گاہ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام ۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو ، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں ، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو ۔ اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دشمنان حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اس سے مقصود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اور آپ کے ذریعہ سے اہل ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکام الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں ۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کردہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جد و جہد کرنا ہے ۔ اللہ اپنی مشیت کے تحت ان لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے ، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے ، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے ۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے ان لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے ، یا ان شیاطین جن و انس کو زبردستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ نہیں ، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باطل کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی ، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہور کا امکان نہ ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: یہاں پھر وہی بات فرمائی جا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توشیاطین کو یہ قدرت نہ دیتا اور لوگوں کو زبردستی ایمان پر مجبور کردیتا لیکن چونکہ مقصدامتحان ہے، اس لئے زبردستی کا ایمان معتبر نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(112 ۔ 113) ۔ شروع سورة سے یہاں تک مشرکین مکہ کی ایسی چند باتوں کا ذکر گذرا جو باتیں یہ لوگ عداوت دینی کے سب سے کرتے تھے کبھی کہتے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نوشتہ خاص ہم لوگوں کے نام اسلام کی تصدیق کا آوے گا جب ہم دین اسلام کو سچا جانیں گے کبھی کہتے تھے آسمان پر سے ایک فرشتہ آن کر ہمارے روبرو اسلام کی تصدیق کیوں نہیں کرتا کبھی قرآن کو پچھلے لوگوں کی کہانیاں بتلاتے تھے کبھی کہتے تھے آسمان پر سے ایک فرشتہ آن کر ہمارے روبرو اسلام کی تصدیق کیوں نہیں کرتا کبھی قرآن کو پچھلے لوگوں کی کہانیاں بتلاتے تھے کبھی کہتے تھے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں تو اللہ سے دعا کر کے ہم کو اتنا خزانہ دلوا دیں کہ ہم مالا مال ہوجاویں کبھی کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں ایسے غریب لوگ ہر وقت گھسے رہتے ہیں جن کے سبب سے ہم ان کی مجلس میں جانا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں کبھی قرآن کی شان نزول میں اور اللہ تعالیٰ کی شان میں بےادبی کے لفظ منہ سے نکالنے کو مستعد ہوجاتے تھے کبھی کہتے کہ محمد صلے اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو ان پڑھ ہیں اہل کتاب سے کچھ باتیں سیکھ آتے ہیں اور پھر انہیں کو کلام الٰہی مشہور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی ایسی باتوں سے گھڑی گھڑی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج ہوا کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے نے اپنے رسول کا رنج دفع کرنے کے لیے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان دشمن دین لوگوں کی یہ دشمنی کی باتیں تمہارے ساتھ کچھ انوکھی نہیں ہیں بلکہ پچھلے انبیاء سے بھی اس وقت کے مخالف لوگ ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں شیاطین الانس والجن کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے لیکن صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان خود تو اپنا تخت سمندر میں بچھا کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے شیاطینوں کو لوگوں کے بہکانے کے لیے بھی دیتا ہے یہ حدیث تو شیاطین الجن کی تفسیر ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ جن تو خود شیطان ہے اور وہ شیاطین جن کو شیطان لوگوں کے بہکانے کے لیے بھیجتا ہے وہ شیاطین الجن ہیں اب ان شیاطین کے بہکاوے میں جو لوگ آتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں ایک تو اس بہکاوے میں آن کر خود برے کام کرنے لگتے ہیں دوسرے وہ کہ خود بھی برے کام کرتے ہیں وہ شیاطینوں کے بہکانے سے خود بھی بت پرست ہوا اور جدے سے مکہ میں بت لاکر اہل مکہ کو بھی بت پرستی کی رغبت دلائی اور مکہ میں بت پرستی پھیلائی عمر وبن لحی کا یہ قصہ صحیح حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے صحیح مسلم میں جریر بن عبداللہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی ایسا برا طریقہ نکالے کہ جس سے لوگ برے کاموں میں لگ جاویں تو اس کو اس کے ذاتی بدعملوں کی سزا کے علاوہ لوگوں کے بہکانے کی سزا بھی ملے گی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان لوگوں کے بہکانے میں شیاطینوں کا کام کرے وہی شیاطین الانس ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے شیاطین الانس کی تفسیر کاہن لوگوں کو قرار دیا ہے لیکن یہ تفسیر جریر بن عبداللہ کی حدیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ جریر بن عبداللہ (رض) کی حدیث کے حکم میں کاہن لوگ اور غیروں کے بہکانے والے سب لوگ داخل ہیں اور سب لوگوں کو شیاطین الجن کی سی سزادی جاوے گی مسند امام احمد وغیرہ میں ابوذر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیاطین الجن سے اور شیاطین الانس سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین الجن کے علاوہ بنی آدم میں سے شیاطینوں کی طرح بہکانے والے آدمیوں کو آپ نے شیاطین الانس فرمایا ہے کیونکہ ابوذر (رض) کی اس حدیث کی بعضی روایتوں میں یہ لفظ بھی ہیں کہ شیاطین الانس اصلی شیاطینوں سے زیادہ بہکاتے ہیں مال بن دینار نے اپنا یہ ایک تجربہ بیان کیا ہے کہ اصل شیاطین ذکر الٰہی کے وقت بھاگ جاتے ہیں لیکن شیاطین الانس نہیں کیونکہ ابوذر (رض) کی اس حدیث کی بعضی روایتوں میں یہ لفظ بھی ہیں کہ شیاطین الانس اصل شیاطینوں سے زیادہ بہکاتے ہیں مالک بن دینار نے اپنا یہ ایک تجربہ بیان کیا ہے کہ اصل شیاطین ذکر الٰہی کے وقت بھاگ جاتے ہیں لیکن شیاطین الانس کسی وقت بہکانے سے باز نہیں آتے ٤ ؎ یہ مالک بن دینار معتبر تابعی ہیں بخاری میں بغیر سند کے اور سوائے مسلم کے صحاح میں مع سند کے مالک بن دینار سے روایتیں ہیں ابوذر (رض) کی اس حدیث کی روایت کے چند طریق ہیں جن میں بعضے معتبر ہیں اس لیے یہ حدیث معتبر ہے۔ یہ عمر وبن لحی بھی کاہن تھا۔ کاہن وہ لوگ تھے جو شیاطین کی نیاز نذر کرتے رہتے تھے جس کے سبب سے شیاطین ایسے لوگوں کا پانا معتقد سمجھتے تھے اور چوری سے آسمان کی باتیں جب سن آیا کرتے تھے وہ ان لوگوں سے کہہ دیا کرتے تھے اور اپنی طرف سے ان میں اکثر چھوٹ بھی ملا دیا کرتے تھے اور یہ کاہن اپنے معتقدوں کو پیشین گوئی کے طور پر آگندہ کی کچھ جھوٹ سچ باتیں بتلا دیا کرتے تھے ان ہی باتوں کو آپس کی فریب اور ملمع کی باتیں فرمایا صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کا ہن کی ایک بات سچی ہوتی ہے تو سوجھوٹی ہونی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ سچی وہ بات ہوتی ہے جو شیاطین چوری ہے آسمان پر سے سن آتے ہیں یہ حدیث فریب اور ملمع کو باتوں کی تفسیر ہے آگے فرمایا کہ اگر اللہ چاہے تو ان بناوٹ کی باتوں سے لوگوں کا بہکانا بند ہوجاوے لیکن امتحان کے طور پر جس طرح شیطان کو دنیا میں چھوڑا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ایک امتحان کا طریقہ ہے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاوے کیونکہ جو لوگ ایسی باتوں کے قائل ہیں وہی ایسی بناوٹ کی باتوں کی طرف اپنے دلوں کو مالک کرتے ہیں اور وہی ایسی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور جو وحی کے احکام کے پابند ہیں وہ ایسی بناوٹ کی باتوں کی پروا نہیں کرتے۔ پھر فرمایا یہ حی کے منکر جو کچھ کر رہے ہیں ان کے ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے وقت مقررہ پر انکا کیا ان کے آگے آجاوے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:112) کذلک۔ ایسے ہی۔ اسی طرح ۔ یعنی جس طرح یہ لوگ آپ سے عداوت رکھتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انسان سے اس کے دشمن پیدا کئے۔ یوحی۔ مضارع واحد مذکر۔ ایحاء سے وہ دوسوسہ ڈالتا ہے وہ وحی بھیجتا ہے۔ یہاں شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازی کو وحی سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ سب باتیں بھی بڑی روزداری اور چپکے چپکے ہوتی ہیں۔ زخرف۔ ملمع ۔ سنہری۔ سونا۔ آراستہ۔ زینت۔ اور کسی شے کے کمال حسن کو زخرف کہتے ہیں۔ اسی لئے سونے کو بھی زخرف کہا جاتا ہے۔ لیکن جب اس کا استعمال قول کے لئے ہو تو جھوٹ سے آراستہ کرنے اور ملمع کی باتیں کرنے کے معنی ہوں گے۔ یہاں ملمع اور زیب کے معنی میں آیا ہے۔ غرورا۔ دھوکہ دینے کے لئے۔ تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں۔ ما فعلوہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ شیاطین جن و انس کا لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا۔ اور جھوٹی باتیں ملمع کی صورت میں اذہان میں ڈالنے کی طرف راجع ہے۔ یفترون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ افتراء (افتعال) مصدر۔ وہ دروغ بازی کرتے ہیں۔ وہ افتراء بہتان باندھتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ای جعلنا الک عدوا کما جعلنا من الا نبیا) لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ جس طرح پہلے انبیا شریر دشمنوں کے مقابلہ میں صبر و استقامت سے کام لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی ایذار سانی پر صبر کیجئے اور مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ پانے دیجئے4 یعنی اپنو سے سیدھی سادے لوگوں کو فریب دینے کے لیے چوری چھپے ایک دوسرے کو طرح طرح کو حیلے بازیاں اور مکار یاں سکھاتے ہیں5 وہ چونکہ اتمام حجت کے لیے انہیں امتحان کا پورا پورا موقع دینا چاہتا ہے اور کسی کو اپنی نافرمانی سے زبر دستی باز رکھنا اس کی حکمت اروتکوینی نظام کے خلاف ہے اس لیے وہ انہیں ڈھیل دے رہا ہے، یعنی ان کی کوئی پروانہ کریں اور نہ ان کی بداعمالیوں پر رنجیدہ خاطر ہوں بلکہ ان کا معا ملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں وہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ ( نیز سورة مدثر آیت )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 14 آیات نمبر 112 تا 122: اسرار و معارف : ایمان کا مدار در اصل اس قلبی کیفیت پر ہے جو انسان کو رب العلمین سے نصیب ہوتی ہے جس کی بنیاد تو انسانی مزاج میں رکھ دی گئی ہے مگر اسے نور نبوت ہی سے جلا ملتی ہے اور یہ جذبہ دل میں سر اٹھاتا ہے کہ مجھے اپنے رب کی رضا کو حاصل کرنا چاہئے اور اس کا قرب پانا چاہئے۔ انسانی کردار اس کے ضمیر کو متاثر کرتا رہتا ہے حتی کہ بعض مظالم ایسے ہوتے ہیں جو دل میں اس جذبے پر تہ در تہ تاریکیاں مسلط کردیتے ہیں ایسے ہی بدنصیب تھے وہ لوگ جو آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک عہد میں آپ کے رخ انور سے بھی کوئی کرن تک حاصل نہ کرسکے کچھ خوش نصیب اگرچہ نور ایمان کو بعض وجوہ کی بنا پر جلدی نہ پا سکے ہوں مگر کردار کی نرمی مزاج میں قبولیت کی استعداد کو باقی رکھتی ہے اور جیسے ہی کوئی لو ان کی طرف لپکتی ہے ان کا دل روشن ہوجاتا ہے اور انہیں ہدایت نصیب ہوتی ہے آنکھ کھلتی ہے تو ہر تنکا عظمت باری پہ دلالت کرتا ہوا نظر آتا ہے اگر یہ نعمت نصیب نہ ہو پھر سارے دلائل محض اتمام حجت کا کام کرتے ہیں یہی مفہوم یہاں ارشاد ہورہا ہے کہ جن لوگوں کو آپ کے ارشادات اور آپ کی ذات سے ہدایت نہیں ہوپا رہی ان کے دل مردہ ہوچکے ہیں اللہ کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی استعداد کھو چکے ہیں ایسے لوگوں پر اگر فرشتے بھی نازل ہوں ان سے باتیں کریں مردوں کو زندہ کردیا جائے وہ خود انہیں برزخ کے احوال سنائیں بلکہ مغیبات آخرت یعنی خود جنت و دوزخ کو بھی ان کے سامنے کردیا جائے یہ پھر بھی نہ مانیں گے اور جب تک اللہ کریم نہ چاہے یہ کیسے مانیں گے جب کہ اللہ کریم زبردستی مسلط نہیں فرماتے جب تک نہاں کا نہ دل میں تڑپ پیدا نہ ہوا اور وہ ان کے گناہوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے لہذا ان کے لیے کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی مفید نہیں یہ خود اس قدر جہالت میں مبتلا ہیں کہ اصل بات کو سمجھ ہی نہیں رہے۔ تاریک شریعت سے عجائبات کا ظہور : یہ قاعدہ ہے کہ شیطان جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ان بدبختوں کو انبیاء سے دشمنی ہی نصیب ہوتی ہے جس کا بنیادی سبب ان کی شیطنت ہے حتی کہ یہ آپس میں بات کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہیں شیطان اگرچہ ایک تھا مگر اس کی اطاعت کرنے والے جنات اور انسانوں کو بھی شیطان کہا گیا ہے کہ ان میں بھی وہی عادات و خصائل پیدا ہوجاتے ہیں اور اسی عذاب میں اس کے شریک ٹھہرتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ شیطان آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور بات کرتے ہیں اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہوگیا کہ بعض تارک شریعت لوگوں سے عجائبات کا ظہور کیسے ہوتا ہے ظاہر ہے جہاں تک شیطان کی رسائی ہوگی اس کی مدد کردیں گے یہی جادو اور ٹونے ٹوٹکے کے اثر کا راز ہے مثلا کسی شیطان نے کسی انسان کو مس کرکے تکلیف میں مبتلا کردیا اس نے علاج کے لیے کسی ایسے شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا جو انسانوں میں شیطان ہے اس نے چند کفریہ جملے پڑھ کر پھونک مار دی یا کسی بدعت یا مشرکانہ رسم کو ادا کرنے کا حکم دیا ظاہر ہے شیطان چھوڑ دے گا یوں اس کی اولیائی کا سکہ جما کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے لہذا اگر کوئی دم ہی کرانا چاہے تو یہ بھی مسنون طریقہ علاج ہے مگر شرعی حدود کے اندر کلام جائز ہو طریقہ شرعی ہو ورنہ ہرگز ایسی خرافات میں نہ پڑنا چاہئے۔ اللہ کریم حکما روکنا چاہیں وہ تو قادر ہیں مگر یہ لوگ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے کہ اللہ کو یہ منظور نہیں بلکہ یہی تو آزمائش ہے لہذا آپ ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہ کریں نہ ان کے افعال کو کوئی اہمیت دیں اور دوسرے ایسے لوگ جن کے قلوب آخرت کے یقین سے خالی ہیں وہ بھی ان کے جھوٹ اور ملمع شدہ باتوں کو ہی پسند کریں گے یہی ان کی دلی کیفیت کا تقاضا ہے آپ انہیں کرلینے دیں جس راستے پہ چل نکلے ہیں وہ آخر ایک دن اپنی منزل پر بھی پہنچیں گے۔ قرآن کریم زندہ جاوید معجزہ ہے : آپ انہیں واضح طور پر بتا دیجئے کہ میں نے اعلانِ نبوت فرمایا تم اس کا انکار کرنے لگے مگر اللہ نے مجھ پر ایسی کتاب نازل فرما کر جس میں سب امور کی وضاحت موجود ہے میرے حق میں فیصلہ دے دیا میری تائید فرما دی کہ ایک ایسی ہستی جس نے ساری عمر کسی سے ایک لفظ پڑھا نہ ہو کسی شاعر یا ادیب کی مجلس میں نہ بیٹھا ہو یکایک ایسا کلام ارشاد فرمائے جس کا ادبی پایہ بھی بےمثال ہو نہ صرف دنیا بلکہ اس دنیا سے پہلے اور اس کے بعد کے احوال کو تفصیل سے زیر بحث لاتا ہو انسانی زندگی کی ہر ضرورت کا جواب اپنے اندر رکھتا ہو اور دنیا بھر کے بڑے بڑے ادیبوں کی جرات کلام اس کے سامنے جواب دے جائے کیا یہ سب بہت بڑا معجزہ نہیں کیا اس سے بڑا کوئی اور فیصلہ ہوسکتا ہے ہرگز نہیں اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ اہل کتاب جو مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں یہ تو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آپ پر جو کچھ نازل ہوا یہ اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لیے کہ ان کے پاس پہلے آسمانی کتب موجود ہیں یہ کلام الہی کی عظمت اور اسلوب بیان سے واقف ہیں نیز ان کی کتب میں نزول کتاب اور آپ کی بعثت کی نوید بھی موجود ہے آپ کا حلیہ مبارک تک تفصیل سے موجود ہے لہذا کسی کے لیے بھی اس امر میں معمولی شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں آپ کی رسالت اور کتاب اللہ کا حق ہونا روز روشن سے بڑھ کر واضح ہے۔ اس کے اوصاف بھی اس کی صداقت اور عظمت کے گواہ ہیں اول یہ کلام رب العالمین کامل اور مکمل ہے انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کے لیے انسانی زندگی کس راستے سے گزرے کیا کیا نشیب و فراز ہیں اور وہ کیونکر عبور ہوں یہ اتنا بڑا سوال ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے اس کا جواب دینا ممکن ہی نہیں بڑے بڑے دانشور اور محقق انسانی زندگی کے کسی ایک شعبے پر داد تحقیق دیتے رہے اسی ایک موضوع پر بےشمارکتب تصنیف ہوئیں مگر سوال پھر بھی تشنہ جواب رہا اور جو نتیجہ نکلا وہ یقینی بھی نہ تھا محض انسانی اندازے تھے جو بعد میں ہونے والی تحقیق سے غلط ثابت ہوئے اور تبدیل کیے گئے یہ اللہ کی کتاب کا خاصہ ہے کہ نہ صرف ایک پہلو بلکہ کامل انسانی زندگی کی خبر دی اس کی ضرورتوں سے آگاہ فرمایا اور ہر ضرورت کی تکمیل کا وہ طریقہ بھی بتا دیا جو رب کریم کو پسند ہے اور یہی انسانی زندگی کی کامیابی ہے یہ سب کچھ اس قدر مکمل ہے کہ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ اس ضمن میں تاریخ عالم بھی زیر بحث آئی اقوام کے کردار اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا ذکر ہوا آئندہ کے لیے خبر دی کہ کس عقیدے اور کون سے عمل پر کیا نتیجہ مرتب ہوگا اور یہ سب کچھ اس حد تک مکمل ہے کہ آئندہ نزول کتاب اور بعثت نبی کی ضرورت باقی نہ رہی اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور سب حق ہے سچائی ہے کوئی بیان جو گذشتہ سے متعلق ہو یا کوئی خبر جو آئندہ کے بارے ہو سب بالکل سچی ہیں یعنی صدق کھرے پن کے ساتھ اور عدلاً تیسرا وصف عدل ہے جس کے دو پہلو ہیں اول انصاف یعنی نہ تو کسی مستحق کا حق ضائع ہو اور نہ کوئی جرم کرکے چھپ سکے ہر دو طرح سے پورا پورا انصاف مل سکے ک دوسرے اعتدال کہ احکام اور زندگی کی راہیں اس قدر سخت اور شدید نہ ہوں جن کو انسانی مزاج برداشت ہی نہ کرسکے یا بہت مشکل سے برداشت کرے اور نہ بالکل ایسی کہ محض خواہشات نفس کی تابع ہوجائیں۔ مدعا یہ ہے کہ کلام باری حکمتوں سے پر اور صداقتوں کا خزینہ ہے یہاں تک کہ آنے والی نسلوں اور قوموں کے لیے ہر عہد اور ہر زمانے کے لیے ہر قوم اور ہر فرد کے لیے قابل عمل اور زندگی کا خوبصورت ترین لائحہ عمل ہے یہ کام صرف اللہ کریم کو سزاوار ہے مخلوق کے بس کا ہے ہی نہیں یہ سب صداقتیں آپ کے دعوائے نبوت کی روشن دلیل ہیں۔ رہے کفار کے نامناسب اعتراضات اور بہانے تو اللہ کریم ان کی بھی ہر بات کو سن رہے ہیں اور ہر ایک کے عمل سے واقف ہیں۔ ان کا حال یہ ہے اور نہ صرف ان کا بلکہ روئے زمین پر بسنے والی اس اکثریت کا جو اللہ کے کلام کو قبول نہیں کر رہی یہی حال ہے کہ جو بھی ان کی رائے قبول کرے گا اسے اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے اس لیے کہ ان کے پاس صرف اندازے اور اوہام ہیں جن کی کوئی اصل نہیں جن رسومات کو انہوں نے مذہبی تقدس دے رکھا ہے یہ بھی صرف ان کی اپنی رائے ہے جس کے سبب یہ خود گمراہ ہیں اور اے مخاطب کبھی ایسی اکثریت کو خاطر میں نہ لانا چاہئے جو حق پر نہ ہو اس لیے کہ فیصلہ اللہ کریم نے فرمانا ہے جو بدکاروں کی عملی زندگی ان کے عقیدے اور سوچ تک سے واقف ہے لہذا وہ اس کے عذاب سے بھاگ نہیں سکیں گے ایسے ہی ان سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے جو اس کی متعین کردہ راہ پر چلتے ہیں وہ انہیں اپنے کرم سے نوازے گا۔ ان کے کردار کا حال یہ ہے کہ اللہ کریم نے حلال جانوروں کو اپنے نام پر یعنی عند الذبح اپنا نام لینے کی ہدایت فرمائی اگر اللہ کا نام نہ لیا جائے یا از خود مرجائے تو حلال نہ ہوگا مگر کفار اس سے مھروم ہیں ان کی اٹکل یہ ہے کہ مسلمان جسے خود مارتے ہیں کھالیتے ہیں اور جو اللہ کا مارا ہوا ہو وہ نہیں کھاتے اس طرح کفار حرام کھاتے ہیں یا پھر بتوں پر چڑھاوا یا ان کے نام ذبح کے وقت لیکر اسے نجس کردیتے ہیں مگر تمہیں تو اس کی کتاب پر یقین حاصل ہے لہذا تمہارے پاس ایک اصول ہے کہ جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا وہ حلال اور درست ورنہ جو صورتیں حرام ہونے کی ہیں اللہ نے تم پر کھول کر بیان کردی ہیں اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ حالت اضطرار میں یعنی جان بچانے کے لیے اس قدر لے لینا کہ آدمی مرنے سے بچ سکے تو اس کا گناہ نہ ہوگا ورنہ کسی بھی صورت میں حرام کے قریب مت پھٹکو یہ اللہ کا قانون ہے جس کی خلاف ورزی پر پیٹ تو بھر جائے گا مگر اللہ کی ناراضگی مرتب ہوگی یہ اس بات سے بیخبر ہیں اور محض اپنی غلط رائے پر عمل کرکے گمراہ ہو رہے ہیں مگر ان کی گمراہی ان لوگوں کے اعمال تو ضائع نہیں کرسکتی جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اللہ کریم ان سے خوب واقف ہیں اصل راستہ ہی یہی ہے کہ اللہ کریم کی نافرمانی چھوڑ دی جائے خواہ وہ ظاہراً ہو یا باطناً کہ حرام کھانا بظاہر گناہ ہے اور حلال کو حرام خیال کرنا باطن کا گناہ ہے ایسے ہی حرام کو حلال جاننا کفر ہے اور اسلام سلامتی کا راستہ ہے جو ظاہر و باطن کی نافرمانی سے منع کرتا ہے اس لیے کہ نافرمان اپنے کیے کی سزا سے نہیں بچ سکے گا بہت جلد وہ اپنے کردار کے نتائج کو اپنے سامنے پا لے گا۔ حرام کھانے کا اثر : مومن کو چاہئے کہ وہ ایسے جانور کا گوشت کبھی نہ کھائے جو شرعی طور پر حلال نہ ہو اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ گوشت اس کی جسمانی صحت کے لیے مضر ہے اگرچہ ہر طرح کا حرام صحت انسانی کے لیے بھی نقصان دہ ہے مگر بہت بڑا نقصان حرام کی وہ ظلمت ہے جو دل پر طاری ہوجاتی ہے اور دل شیطان کی باتیں سننے لگتا ہے جن کا اثر آپ کے سامنے ہے کہ جو لوگ آپ سے یعنی ایمان رکھنے والوں سے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرتے ہیں اور ناحق کرتے ہیں کلام الہی کے مقابلے میں محض رسومات اور ذاتی رائے کو لے آتے ہیں ان کے دلوں میں یہ ساری بات شیطان ہی تو ڈالتا ہے جو حرام کھانے کے اثر کی وجہ سے ان کا دل قبول کرلیتا ہے اور یہ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں اگر تم لوگ ان کی بات ماننے لگو تو شرک میں مبتلا ہوجاؤ کہ اول تو ان کی باتیں ہیں شرک لیے ہوئے ہوتی ہیں اور دوسرے اللہ کے مقابلے میں کسی کی بات ماننا بھی شرک ہے جو بہت بڑی تباہی کا سبب ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن حالات سے آپ گزر رہے ہیں۔ ایسے اعتراضات اور حالات سے تمام انبیاء کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ کیونکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر نبی کا ایک دشمن ضرور ہوا کرتا تھا۔ کَذٰلِکَ کا لفظ اس بات کی ترجمانی کرر ہا ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء کرام (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے انھیں کئی قسم کے مظالم برداشت کرنے پڑے۔ ان پاکباز شخصیتوں پر الزامات لگائے گئے ان کی دعوت پر ہر قسم کی تنقید کی گئی لیکن وہ جو اں مرد پوری استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر قائم رہے۔ یہاں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ہر نبی کے جنوں اور انسانوں میں سے دشمن بنائے تھے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو عیاری، مکاری اور ملمع سازی کی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ یہاں شیاطین کے لیے وحی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ جو بات پیغمبر کو بتلانی ہوتی ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ سورة النحل آیت ٦٨ میں شہد کی مکھی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکھی کو شہد بنانے کی وحی کرتا ہے۔ شیطان صفت انسان اور جنات غیر محسوس طریقے سے اپنے چیلوں کے ذریعے برائی اور بےحیائی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگ برائی کی طرف مائل ہوجائیں۔ یہ باتیں شیطان ان کے ذہن میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دے رکھی ہے اور انسانوں کے لیے دنیا کی زندگی کو امتحان گاہ بنایا ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے کہ انسان کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کرنے کے بعد اختیار اور مہلت دی جائے کہ وہ ان میں سے کون سی چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسے لوگ اور شیطان اس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے تاکہ جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل اسی طرف مائل رہیں جو کچھ وہ اپنی من مرضی سے اپنے لیے پسند کرچکے ہیں۔ یہاں برائی کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں۔ ١۔ جب شیطان کسی شخص کو پھسلاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل میں باطل خیالات پیدا کرتا ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب نہ کرے تو بالآخر اس کا دل ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ ٢۔ انسان کے دل میں جو نظریہ جگہ پکڑ جائے وہ اسی پر اپنے آپ کو راضی اور مطمئن سمجھتا ہے۔ ٣۔ آدمی جب اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی بات کی طرف مائل اور اس پر راضی ہوجائے تو وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے اکثر اوقات اس گمراہی پر لوگوں سے جھگڑتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح رہے تو انسان صحیح رہتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو تمام جسم خراب ہوجاتا ہے وہ انسان کا دل ہے۔ (رواہ البخاری : باب فضل من استبراء الدینہ) (أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُورًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ ) [ سورة الأنعام : ١٢٢) ” بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کرتا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ کافروں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِینُہُ مِنْ الْجِنِّ قَالُوا وَإِیَّاکَ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ وَإِیَّایَ إِلَّا أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِی عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے، صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرا تابع ہے اس لیے وہ نیکی کے سوا مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ “ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْمَسْجِدِ جَالِسًا وَکَانُوا یَظُنُّونَ أَنَّہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ فَأَقْصَرُوْا عَنْہُ حَتّٰی جَاءَ أَبُو ذَرٍّ فَاقْتَحَمَ فَأَتٰی فَجَلَسَ إِلَیْہِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ ہَلْ صَلَّیْتَ الْیَوْمَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَصَلِّ فَلَمَّا صَلَّی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ الضُّحَی أَقْبَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ تَعَوَّذْ مِنْ شَرِّ شَیَاطِیْنِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَہَلْ لَلْإِنْسِ شَیَاطِینٌ قَالَ نَعَمْ شَیَاطِینُ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِیْ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا) [ مسند احمد : ٢١٢٥٧] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کا یہ گمان تھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اس لیے وہ آپ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے تھے اتنے میں حضرت ابوذر (رض) آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب انھوں نے چار رکعات چاشت کی نماز پڑھ لی تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا شیطان جنوں اور انسانوں سے پناہ طلب کیا کرو انھوں نے کہا اے اللہ کے نبی کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! جن اور انسان لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ ہر نبی کے شیاطین اور انسانوں میں دشمن ہوا کرتے تھے۔ ٢۔ جنوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد شیطان ہوتے ہیں۔ ٣۔ شیاطین لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے خوش نما باتیں لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ ٤۔ آخرت کا انکار کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ ٦۔ آخرت کے منکروں کے دل برائی کی طرف مائل رہتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٢ تا ١١٣۔ یوں ہم نے انسان کو لئے مقدر کردیا ہے کہ جو مشرکین اپنے ایمان کو ایسی باتوں پر موقوف کرتے ہیں جو خوراق عادت ہیں اور اپنے انفس اور اپنے آفاق وماحول میں اس پھیلی ہوئی کائنات کے اندر دلائل ہدایت اور نشانات راہ پر غور نہیں کرتے تو اگر ان کے پاس ہزار مضمرات اور خوارق عادت واقعات آجائیں وہ ایمان نہ لائیں گے ۔ ان لوگوں کی تقدیر کو ہم نے اسی طرح بنا دیا ہے ۔ ہم نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر نبی کے بامقابل انسانوں اور جنوں میں سے کچھ شیاطین اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض ‘ بعض دوسروں پر خوش آئندہ باتیں القا کرتے ہیں ۔ اور یہ عوام الناس کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور یوں وہ رسولوں کے ساتھ دشمنی کرکے لوگوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ ہدایت کے ساتھ برسرپیکار ہوتے ہیں ۔ یہ بھی ہماری سنت اور ہماری اسکیم ہے کہ ان شیطانوں کی باتوں کی طرف وہ لوگ بڑے شوق سے کان رکھتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اپنی اس روش پر راضی ہیں اور گناہ کماتے ہیں جس میں وہ مصروف ہیں یعنی رسولوں کی عداوت اور اس کرہ ارض پر فساد اور گمراہی کو پھیلانا ۔ یہ سب واقعات تقدیر الہی کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوتے ہیں اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو یہ لوگ ایسا رویہ اختیار نہ کرتے اور واقعات کا رخ بالکل الٹی سمت ہوتا اور اللہ کی تقدیر بالکل دوسری سمت پر چلتی ۔ اس لئے کہ یہ واقعات محض اتفاق کے طور پر واقع نہیں ہوتے اور نہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات خود حضرت انسان کی اپنی طاقت اور قوت سے رونما ہوتے ہیں۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ اس جہان میں حق و باطل کا جو معرکہ برپا ہے اور جس کے فریق ایک جانب سے رسول اور ان کے ساتھ کی سچائی ہے اور دوسرا فریق انسانوں اور جنوں کے شیاطین ہیں جن کے ساتھ باطل ‘ فریب اور دھوکہ ہے اور جب یہ بات بھی طے ہوگئی کہ یہ پوری کشمکش ‘ حق و باطل کی کشمکش ‘ اللہ کی مشیت اور اس کی تقدیر کی اسکیم کے تحت جاری ہے تو ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس حکمت اور تدبیر پر غور کرے جو اس کشمکش کی تہ میں کار فرما ہے اور اس سے قبل بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ ان واقعات کی تہ تک پہنچنے کی سعی کرے ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِیْنَ الإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِیْ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ (112) ” اور ہم نے تو اسی طرح شیطانوں انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القاء کرتے رہتے ہیں ۔ “ یعنی اپنے ارادے اور تقدیر کے مطابق ہم نے ایسا کیا ہے ۔ ہر نبی کا ہم نے ایک دشمن پیدا کیا ہے ۔ یہ دشمن انسانوں اور جنوں میں سے وہ لوگ ہوتے رہے ہیں جو شیطان تھے ۔ شیطنت کے معنی نافرمانی اور حکم عدولی کے ہیں ۔ شیطنت کا مفہوم ہے مجسمہ شر ہونا ۔ یہ ایسی صفت ہے جس سے انسان بھی متصف ہوتے ہیں اور جن بھی ۔ اگر کوئی مجسمہ شر ہو تو اگر جن ہو تو وہ جن شیطان ہے اور اگر انسان ہو تو وہ انسان شیطان ہے ۔ بعض اوقات اس صفت کے ساتھ ایک حیوان بھی متصف ہوتا ہے جبکہ وہ نافرمان ‘ سرکش اور حملہ آور ہو ‘ اس لئے کہ حدیث میں آیا ہے کہ سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ۔ “ یہ جنی اور انسی شیاطین جن کے بارے میں فیصلہ الہیہ ہے کہ وہ ہر نبی کے دشمن ہوں گے ‘ یہ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دیتے ہیں اور یہ باتیں وہ ایک دوسرے پر القاء کرتے ہیں ۔ وحی کے مفہومات میں سے ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی ایک جان سے دوسری جان کی طرف ایک خفیہ اور داخلی اثر منتقل ہو ۔ یا کوئی ایک شخص دوسرے کو دھوکہ دے اور لوگ ایک دوسرے کو سرکشی ‘ نافرمانی اور شرو معصیت کے لئے ابھاریں ۔ ان شیاطن میں سے جو انسان ہیں ان کی سرگرمیاں معروف ومشہور ہیں اور اس کرہ ارض پر ہم ان کو رات ودن دیکھتے ہیں ۔ ان کے نمونے اور ماڈل اور انبیاء کے مقابلے میں ان کی سرگرمیاں معلوم ومعروف ہیں ۔ ہر دور کے انسانوں نے اسے دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ رہے وہ شیطان جن کا تعلق جنات سے ہے تو وہ اللہ کے غیبی امور میں سے ایک امر ہے ۔ ان کے بارے میں ہم صرف اسی قدر جانتے ہیں ۔ جس قدر اللہ اور رسول اللہ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اس لئے کہ مفاتیح غیب صرف اللہ کے پاس ہیں اور ان کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے ۔ یہ بات کہ اس کرہ ارض پر معروف ومشہور ذی روح اشیاء کے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے ‘ تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اطلاع دی ہے ۔ اور اس مخلوق کے بارے میں اللہ نے جو اطلاع دی ہے اس کے حدود کے اندر ہم ایمان لاتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو سائنس کو ڈھال بنا کر اللہ کی ایسی کسی مخلوق کا انکار کرتے ہیں تو ہمیں معلوم نہیں ہے کہ وہ کن دلائل پر انحصار کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ انسانی علم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ انسان نے تمام قسم کے ذی روح اشیاء کو معلوم کرلیا ہے ۔ خصوصا اس چھوٹے سے ستارے کرہ ارض کے اندر بھی جبکہ دوسرے بیشمار اجرام فلکی کے بارے میں سائنس کے پاس ابھی تک ابتدائی معلوم ہی ہیں ‘ صرف یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ اس کرہ ارض پر جس قسم کی مخلوق ہے وہ بعض دوسرے ستاروں میں ممکن ہے یا نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ زندگی کی ایک مختلف قسم اور زندہ اور ذی روح مخلوقات کی کوئی دوسری جنس اور صنف ممکن نہیں ہے جس کا علم سائنس کو نہ ہو ۔ اس لئے کہ سائنس کے عنوان سے کوئی جاہل ہی ہوگا جو اس جہان سے آگے دوسرے جہانوں کا انکار کرتا ہو ۔ ہو سکتا ہے بیشمار ایسی مخلوقات ہوں ۔ اس اصولی عقیدے کے بعد اب یہ بات کہ اس مخلوقات کا مزاج کیا ہوتا ہے اور اس کی طبیعی زندگی کیسی ہوتی ہے تو اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے ۔ اس بارے میں ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر مخبر صادق حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتایا ہے ۔ ہم اس قدر جانتے ہیں کہ یہ مخلوق ناری مخلوق ہے ۔ یہ مخلوق زمین کے اوپر ‘ زمین کے اندر اور اس سے خارج میں بھی زندہ رہ سکتی ہے ۔ یہ مخلوق نہایت ہی سریع الحرکت ہے ۔ اس مخلوق میں سے بعض لوگ صالح اور مومن ہیں ‘ بعض شیاطین اور سرکش ہیں ۔ وہ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ اور انسان ان کو نہیں دیکھ سکتے ۔ یعنی ان کی اصلی شکل میں ۔ اور کتنی ہی مخلوق ہے جسے انسان نظر آتا ہے لیکن انسانوں کو وہ نظر نہیں آتی ۔ بعض شیاطین ایسے ہیں جو انسانوں پر مسلط کردیئے گئے ہیں اور وہ انسانوں کو دھوکہ و فریب دے کر گمراہ کرتے ہیں لیکن ان کو اللہ کے خاص بندوں پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کو یاد کرنے والے اور پختہ ایمان کے مالک ہوتے ہیں ۔ شیطان ہر وقت مومن کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے ۔ جب مومن اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ چھپ جاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو پھر وسوسے ڈالتا ہے ۔ مومن یاد الہی سے سرشار ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں شیطان کا مکر کمزور ہوجاتا ہے ۔ جنوں کا حشر ونشر بھی اسی طرح ہوگا جس انسانوں کا حشر ونشر ہوگا ۔ اسی طرح ان کا بھی حساب و کتاب ہوگا ۔ اسی طرح جنت کی جزاء اور دوزخ کی سزا کے وہ بھی مستوجب ہوں گے ۔ جنات کا جب فرشتوں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ بہت ہی ضعیف نظر آتے ہیں اور ان کے پاس کوئی قوت نہیں ہوتی ۔ اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بنی کے مقابلے میں جنوں اور انسانوں میں سے اپوزیشن کو کھڑا کیا ہے ۔ اللہ کی ذات تو اس بات پر قادر تھی کہ اگر اس کی مشیت کا تقاضا ہوتا تو جن یہ طرز عمل اختیار نہ کرتے ۔ وہ سرکشی نہ کرتے اور مجسمہ شر ہر گز نہ بنتے ۔ وہ انبیاء کے دشمن نہ ہوتے ‘ اہل ایمان کو اذیت نہ دیتے اور عوام الناس کو اللہ کی راہ سے برگشتہ نہ کرتے ۔ اللہ تو اس بات پر قادر تھا کہ انہیں مجبور کر کے ہدایت کی راہ پر ڈال دیتا اور ان کو ہدایت دے دیتا بشرطیکہ وہ ہدایت کی طرف متوجہ ہوتے اور یوں وہ انبیاء کی دشمنی ‘ حق کی مخالفت اور مومنین سے عداوت نہ کرتے ۔ لیکن اللہ نے ان کو ایک حد تک اختیار اور آزادی دے دی اور ان کو یہ اذان دے دیا کہ وہ اللہ کے دوستوں پر دست درازیاں کرتے پھریں ۔ اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم تقدیر کے مطابق تاکہ اس کے دوستوں کی آزمائش ہو سکے اور یہ آزمائش اس کے دشمنوں کے ذریعے ایذا رسانی سے ہو ۔ جس طرح اللہ اپنے دشمنوں کو قوت ‘ اختیار اور آزادی کی ایک محدود ومقدار عطا کر کے آزماتا ہے ۔ دشمن بھی اللہ کے دوستوں کو اسی حد تک اذیت دے سکتے ہیں جس حد کو اللہ نے مقرر کیا ہے ۔ (آیت) ” وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہ (٦ : ١١٢) (اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر ہی نہ سکتے ۔ “ سوال یہ ہے کہ اس ہدایت سے ہمارے لئے کیا نتائج نکلتے ہیں ؟ ١۔ یہ کہ جو لوگ انبیاء کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور انبیاء کے متبعین کو اذیت دیتے ہیں وہ شیطان ہوتے ہیں ۔ یہ شیطان انسانوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور جنات میں سے بھی ۔ جنوں کے شیطان اور انسانوں کے شیطان دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں اور دونوں کے کام کی نوعیت بھی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں جبکہ سب کی مشترکہ خاصیت یہ ہے کہ وہ سرکش ‘ گمراہ اور اللہ کے دشمن ہوتے ہیں۔ ٢۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ شیاطین جو انبیاء کے دشمن ہوتے ہیں اور انبیاء کے متعبین کو اذیت دیتے ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے ذریعے اللہ اپنے بندوں اور دوستوں کو آزماتا ہے اور یہ آزمائش بھی گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کو چھان پھٹک کر دیکھ لیا جائے ‘ ان کے دلوں کو صاف کیا جائے ۔ ان کے صبر کا امتحان لیا جائے ‘ ان کی قوت برداشت اور امانت ودیانت کو آزمایا جائے ۔ جب بھی وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے یہ آزمائش اور امتحان ختم ہوجاتا ہے اور مخالفین کی مخالفت ختم ہوجاتی ہے ۔ اب دشمن دست درازی کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ اس لئے کہ اللہ کی اسکیم تقدیر ختم ہوجاتی ہے اور اب ان کے دشمن کمزور اور ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کا بوجھ اٹھائے اللہ کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہ (٦ : ١١٢) (اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر ہی نہ سکتے ۔ “ ٣۔ یہ کہ یہ اللہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ شیاطین جن اور شیاطین انس کو یہ مہلت عطا کرے کہ ہو شیطنت کرتے پھریں اس لئے کہ اللہ نے ان شیطانوں کو جو مہلت اور طاقت دی ہوئی ہے اس میں ان کو آزمائے ‘ تاکہ وہ ایک وقت تک اللہ کے دوستوں کو اذیت دیتے رہیں ۔ اس طرح اللہ اپنے دوستوں کو بھی آزماتا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ وہ صبر کرتے ہیں ؟ کیا ان کے پاس جو سچائی ہے اس پر وہ ثابت قدم رہتے ہیں جبکہ باطل ان پر زور آور ہو رہا ہے اور دست درازی کر رہا ہو۔ کیا وہ اپنے نفوس کو اللہ کے ہاں پوری طرح فروخت کرتے ہیں اور خوشی اور دیکھ دونوں حالتوں میں ‘ تنگی وترشی میں اور فراوانی اور خوشحالی دونوں میں اللہ عہد پر پختہ رہتے ہیں ؟ ورنہ یہ تو اللہ کے دائرہ قدرت میں تھا کہ وہ اس تمام کھیل کو شروع ہی نہ کرتا ۔ ٤۔ یہ کہ جن وانس کے تمام شیاطین کی مکاری کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے ‘ یہ تو بہت ہی کمزور مخلوقات ہیں ۔ ان کے پاس انکی کوئی ذات قوت اور طاقت نہیں ہے ۔ وہ تو ان حدود وقیود کے اندر کام کرسکتے ہیں جو ان کے لئے اللہ نے مقرر فرمائی ہیں ۔ وہ مومن جو اس بات کو جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ قادر مطلق تو ہی ہے وہی ہے جس نے ان لوگوں کو اجازت دے رکھی ہے ‘ تو اس کی نظروں میں یہ شیاطین ضعیف ہوتے ہیں ۔ اگرچہ بظاہر وہ قہار وجبار نظر آئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کو متوجہ کردیا جاتا ہے ۔ (فذرھم وما یفترون) چھوڑ دیجئے انکو اور ان کی افتراء پردازی کو ۔ میں قادر مطلق ہوں اور ان کے جرائم کی سزا ان کے لئے تیار ہے ۔ ٥۔ ان اہل ایمان اور شیاطین کے ابتلاء کے علاوہ ایک اور حکمت بھی ہے ۔ یہ عداوت اور یہ گمراہی پھیلانا اور قول وفعل سے یہ وسیع فریب کاری ‘ اللہ نے اس کا اذن اس لئے بھی دے رکھا ہے : (آیت) ” وَلِتَصْغَی إِلَیْْہِ أَفْئِدَۃُ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ وَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُواْ مَا ہُم مُّقْتَرِفُونَ (113) ” (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لئے کرنے دے رہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل اس خوشنما دھوکے کیطرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہوجائیں اور ان برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں ۔ “ یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ ان ہدایات پر کان نہیں دھریں گے اور ان شیطانوں کی وسوسہ اندازی پر توجہ دیں گے ۔ اس لئے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کی تمام صلاحیتیں دنیاوی کاموں میں صرف ہوتی ہیں ۔ ایسے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر موڑ پر شیاطین بیٹھے ہوئے ہیں اور نبی کے مخالف ہیں ‘ نبیوں کے متبعین کو رات اور دن اذیت دیتے ہیں اور یہ شیاطین ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ‘ ایک دوسرے کی باتوں کو مزین بنادیتے ہیں اور ایک دوسرے کی قولی اور فعلی تائید کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ دنیا پرست لوگ شیاطین کے تابع ہوجاتے ہیں اور ان کے اس باطل رعب وداب اور شان و شوکت سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ ان کا یہ اقتدار اور قوت نہایت ہی کمزور ہوتی ہے ۔ چناچہ یوں وہ بھی برائی اور گناہ کماتے ہیں اور شر ‘ معصیت اور فساد کے پھیلانے میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ اس توجہ اور اصغاء کی وجہ سے یہ دنیا پرست شیطانی ہدایات لیتے رہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کا یونہی چلنا منصوبہ تقدیر الہیہ کے مطابق تھا ۔ کیونکہ اس عمل کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش کرکے اللہ ان میں سے کھرے اور کھوٹے کو سامنے لانا چاہتے تھے ۔ نیز اس اسکیم کے مطابق اللہ ہر شخص کو آزادی کے ساتھ ایک راہ پر چلانا چاہتے تھے تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے عمل کے ساتھ بالکل مناسب جزا کا مستحق بن جائے ۔ نیز یہ مقصد بھی تھا کہ اس کشمکش میں حق و باطل کے ذریعے دنیا میں اصلاحی کام جاری رہ سکے ۔ حق باطل سے علیحدہ ہو کر ممتاز ہوجائے اور صبر کے صیقل کے ذریعے خیر صاف ستھری ہو کر سامنے آجائے ۔ شیاطین قیامت کے دن اپنے کئے کا پورا پورا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں اور یہ تمام اسکیم اللہ کی مشیت کے مطابق جاری وساری رہے ۔ اسی اسکیم کے مطابق معاملہ اللہ کے دوستوں کا بھی طے ہو اور اسی کے مطابق معاملہ اللہ کے دشمنوں کا بھی طے ہو ۔ یہ ہے اللہ کی اسکیم مشیت اور اللہ جو چاہتا ہے ‘ وہ کرتا ہے ۔ اب ذرا اس منظر پر غور کریں ‘ اس میدان معرکہ میں ایک جانب جن وانس کے تمام شیطان اور ان کے دوست و مددگار کھڑے ہیں اور دوسری جانب انبیائے کرام اور ان کے تمام متبعین کھڑے ہیں اور اس کشمکش میں ایک تیسری اور فیصلہ کن قوت اللہ کی مشیت ‘ اس کا غلبہ اور اس کا اقتدار اعلی ہے ۔ اس منظر کے یہ تین پہلو ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ذرا توقف کرکے اس پر گہری نگاہ ڈالیں ۔ یہ ایک ایسا معرکہ ہے کہ اس میں اس کائنات میں شر کی تمام قوتیں جمع ہو رہی ہیں ۔ جن شیطان اور انسان شیطان شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ یہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کررہے ہیں اور نہایت ہی تعاون اور ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں ۔ ان لوگوں کا مشترکہ منصوبہ یہ ہے کہ یہ تمام انبیاء ‘ ان کی دعوت اور انکے حامیوں کے دشمن ہیں ۔ اور ان کا ہدف اور منصوبہ متعین ہے ۔ ” یہ ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القاء کر رہے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کی مدد تمام وسائل کے ساتھ کرتے ہیں جن میں فریب کاری اور دھوکہ بازی کے تمام ذرائع شامل ہیں اور یہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں اور جب بھی حق اور سچائی کے مطابق کوئی مجمع جمع ہوتا ہے تو اس مجمع کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو بھی فریب دیتے ہیں ۔ وہ باہم تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں اور اس گمراہی میں ایک دوسرے کے معاون بنتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو حق کی کوئی بات نہیں بتاتے ۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کے سامنے سچائی کی دشمنی کو ایک بڑا جہاد کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ اس سچائی کے ساتھ طویل عرصے تک لڑیں گے ۔ ان قوتوں کی یہ مکاری مکمل طور پر آزاد اور بےقید بھی نہیں ہے ۔ اس کے اردگرد مشیت الہیہ کا ایک وسیع دائرہ ہے ۔ یہ شیاطین جو سرگرمیاں بھی دکھاتے ہیں وہ اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دکھاتے ہیں ۔ یہ مشیت کا دائر اللہ کی تقسیم کا دائرہ ہے ۔ یہیں سے اللہ کے بندوں کی نظروں میں شر کی قوتوں کا یہ اکٹھ اور ان کی پشت پر عالمی تائید پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ۔ یہ مقید اور پابزنجیر ہے ۔ یہ اکٹھ اور گٹھ جوڑ بےقید اور آزاد نہیں ہے ۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے ‘ کرتا ہے اور یوں نہیں کرتا کہ ہر کوئی ان کے اس جال میں بغیر کسی مدافعت اور مقادمت کے پھنس جائے جس طرح ہمیشہ تمام سرکش شیاطین چاہتے ہیں کہ انہیں بےقید حاکمیت حاصل ہو اور لوگ ان کی غیر مشروط اطاعت کریں اور ان کی مرضی اور خواہش کے اوپر عمل پیرا ہوں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان سرکشوں کی تمام سرگرمیاں اللہ کی مشیت اور اس کی تقدیر اور ضوابط کے اندر محدود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شیطانی قوتیں اللہ کے دوستوں کو کوئی اذیت اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں ۔ ہاں اس قدر اذیت یہ ضرور پہنچا دیتے ہیں جس قدر اللہ میاں اپنے دوستوں کی آزمائش کے طور پر اجازت دیں ۔ آخر کار تمام معاملات اللہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ لیکن شر کی قوتوں کا یہ اکٹھ اور ان کا باہم تعاون اہل حق کے لئے بھی ایک نکتہ تفکیر ہے ۔ ان کو غور وفکر کرکے شر کی قوتوں کے اس منصوبے کو سمجھنا چاہیے اور شر کے وسائل کو بھی زیر نظر رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح یہ منظر کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ان لوگوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے یہ بھی اہل حق کے لئے ایک بشارت ہے ۔ اس سے بھی اہل حق کو یقین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ آخر کار وہ کامیاب رہیں گے ۔ اس لئے ان کی نظریں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ پر مرکوز رہنی چاہئیں جو ہمیشہ نافذ اور کارگر رہتی ہے ۔ اور آخر کار اللہ کا اقتدار اعلی قائم ہوتا ہے ۔ اور حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ‘ اس لئے اہل حق کو چاہیے کہ وہ اپنے یقین اور عقیدے کو اللہ کی ذات کبریا کے ساتھ وابستہ رکھیں خواہ شیطان چاہے یا نہ چاہے ۔ اور وہ اپنی راہ پر اس طرح گامزن ہوں کہ ان کے اخلاق و اعمال میں سچائی رچی بسی ہو ‘ ان کے دل و دماغ حق سے سرشار ہوں ۔ رہی شیطانوں کی دشمنی اور ان کی مکاری تو اہل حق کو چاہیے کہ ان کو اللہ کی مشیت اور قدرت کے حوالے کردیں جو ہر صورت میں کامیاب اور غالب رہتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ سب امور اللہ کی مشیت کے مطابق چلتے ہیں اور ” اگر تمہارے رب کی مشیت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے پس انہیں چھوڑ دیں جو چاہیں افترا پردازیاں کرتے پھریں ۔ “ درس ٦٨ ایک نظر میں : اب یہاں سے وہ موضوع شروع ہوتا ہے جو اس پوری سورة کا موضوع ہے اور اس موضوع کے بارے میں تمہیدی باتیں اس سورة میں جگہ جگہ آتی رہیں ہیں۔ ان میں سے آخری تمہیدی بات وہ علیم نظریاتی مسئلہ ہے جو سابقہ دو آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ نیز وہ نظریاتی کشمکش ہے جو حق و باطل کے درمیان برپا رہی ہے اور اس کشمکش کے درمیان شیاطین جن اور شیاطین انس اور دوسری جانب سے انبیاء اور ان کے متبعین کے درمیان دشمنی رہی ہے اور اس پر آخر کار اللہ کی مشیت غالب رہی ہے اور پھر یہ بیان کہ ہدایت وضلالت سنت الہیہ کے مطابق اور مشیت الہیہ کے تحت ہوتی ہے ۔ یعنی درس سابق کے آخر میں آنے والے تمام مباحث جن پر تفصیلی بحث کی گئی ہے بطور تمہید آئے ہیں ۔ اب روئے سخن اس اصل موضوع کی طرف آتا ہے جس کے لئے یہ تمام باتیں بطور تمہید تھیں ۔ یہ موضوع تھا مسئلہ ” ما اھل بہ لغیر اللہ “ یعنی ان چیزوں کی حلت اور حرمت کا مسئلہ جن پر ذبح کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ۔ اس مسئلہ کی اہمیت اسلام کے اس اولین اصول کی وجہ سے ہے کہ اسلام میں حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے ‘ اور اقتدار اعلی کا مستحق صرف اللہ ہے ۔ کسی انسان کو اللہ کے حق حاکمیت کو کسی صورت میں بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ اور اگر مسئلہ اصولی اور نظریاتی ہو تو اس میں چھوٹی سی بات بھی ایک نہایت ہی عظیم معاملے کی طرح اہم ہوجاتی ہے ۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ یہ ایک ذبیحہ کا مسئلہ ہے یا یہ کہ یہ اس قدر معمولی مسئلہ ہے کہ ایک متعین جانور کا گوشت کھانا جائز ہے یا ناجائز ہے یا یہ معاملہ ہے کہ ایک مملکت کا اقتدار اعلی کس کو حاصل ہو یا کسی معاشرے میں اقتدار اعلی کس کو حاصل ہو یا کسی معاشرے میں اقتدار اعلی کس کا ہوگا ۔ اصولوں کے اس معاملے میں دونوں باتوں کی اہمیت برابر ہے کیونکہ دونوں میں ایک شخص اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ حاکمیت کس کو حاصل ہے اللہ کو یا کسی اور کو ۔ یا یہ کہ اقرار حاکمیت الہیہ ہے یا اس کا انکار ہے ۔ اسلامی نظام حیات اور قرآن اس اصول پر ہر جگہ زور دیتا ہے اور چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ ہر جگہ اس اصول کو بتکرار اور بتاکید مزید پیش کیا جاتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ اصول نہایت ہی اہم نظریاتی اصول ہے ۔ یہ اصول اسلام ہے اور یہی دین ہے ۔ اس اصول کے علاوہ جو مسائل بھی ہیں وہ اس اصول کی عملی تطبیق اور تشریح ہیں اور تفصیلی نتائج ہیں ۔ سورة کے زیر بحث حصے میں یا سورة کی تمام دوسری آیات میں ہم اس حقیقت کو پالیں گے کہ قرآن میں اس اصول کو بتکرار دہرایا گیا ہے اور مختلف شکلوں میں اسے لایا گیا ہے ۔ جب دور جاہلیت کے قانون ‘ نظام اور رسم و رواج پر بحث ہوتی ہے تو بھی اس اصول کو دہرایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قوانین اور رسوم و رواج شرک ہیں اور اسلام سے سرکشی کے مترادف ہیں ۔ اور یہ قوانین و ضوابط اس نظریہ سے پیدا ہوئے کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسے قوانین اور ایسے رسوم و رواج پر سخت ترین تنقید کرتا ہے ۔ اور یہ تنقید مختلف اسالیب اور مختلف طرز ادا میں کی گئی ہے ۔ لیکن اس تنقید کا اصل محور یہی اسلام کا اصول اعظم ہے کہ اس کائنات پر مقتدر اعلی صرف اللہ ہے ۔ یہی اصل اسلام اور اصل ایمان ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معاندین کا مزید تذکرہ اور شیاطین کی شرارتیں ان آیات میں معاندین کا مزید عناد بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ فرمائشی معجزے طلب کرنا حق قبول کرنے کے لیے نہیں محض باتیں بنانے اور بہانے تراشنے کے لیے ہے۔ اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیں اور مردے ان سے باتیں کرلیں اور ہم ہر چیز ان کے سامنے لے آئیں یعنی غیب کی چیزیں ان کے سامنے ظاہر کردیں۔ مثلاً دوزخ دکھا دیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ایمان لانا مقصود نہیں ہے پھر بھی فرمائشیں کرتے ہیں جو سراپا جہالت ہے پھر فرمایا (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ ) (الآیۃ) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ یہ لوگ جو دشمنی میں لگے ہوئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آپ سے پہلے جو نبی آئے ہم نے ان کے لیے انسانوں میں اور جنات میں سے دشمن بنا دیئے تھے۔ یہ دشمن ایک دوسرے کو ایسی ایسی باتیں سمجھاتے ہیں جو بظاہر بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ جیسے کسی بد صورت چیز پر ملمع کر کے بظاہر خوب صورت بنادی جائے یہ لوگ ایسی باتیں سامنے لا کر اپنے لوگوں کو دھوکہ دیتے تھے تاکہ ایمان قبول نہ کریں۔ جو حال انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کے دشمنوں کا تھا وہی ان لوگوں کا حال ہے جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ غم نہ کیجیے ایسا ہوتا ہی رہا ہے۔ (وَلَوْشَآءَ رَبُّکَ مَافَعَلُوْہُ ) (اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ لوگ ایسا نہ کرتے) ان لوگوں کا وجود اور ان کی مخالفت حکمتوں پر مبنی ہے (فَذَرْھُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ ) (سو جب اس میں اللہ کی حکمتیں ہیں تو آپ فکر مند نہ ہوں ان کو اور یہ جو کچھ افتراء کر رہے ہیں اس کو چھوڑیے) یعنی اس غم میں نہ پڑیئے کہ یہ لوگ مخالفت میں لگے ہوئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

121 زُخْرُفَ الْقَوْلِ ۔ یعنی غلط اور باطل بات جسے خوبصورت بنا کر پیش خوبصورت بنا کر پیش کیا جائے یہ نہ ماننے کی پانچویں وجہ ہے علی سبیل الترقی۔ جس طرح شیاطین جن و انس ہر پیغمبر کے دشمن ہوتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے پیغمبر کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن (شیاطین انس و جن) یہ کام سر انجام دے رہے ہیں اور مسئللہ توحید کے خلاف لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے پھر رہے ہیں۔ مثلاً یہ شخص بےادب ہے اور بزرگوں کی بےادبی کرتا ہے اس سے بچو۔ تائید۔ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقٰ الشَّیْطَانُ فیْ اُمْنِیَّتہ۔ یعنی جب اللہ کا پیغمبر اللہ کی آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سناتا اس وقت شیطان لوگوں کے دلوں میں اس کے بارے میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

112 اور جس طرح کفار مکہ میں سے بعض لوگ جیسے ابوجہل وغیرہ اے پیغمبر ! آپ کے دشمن ہیں اسی طرح ہم نے ہر نبی کے بہت سے شیاطین دشمن بنائے تھے وہ شیاطین کچھ تو انسانوں میں سے تھے اور کچھ حقیقی شایطنی اور ان کی ذریت میں سے تھے ان دشمنوں کی حالت یہ تھی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دل میں طمع کی ہوئی فریب آمیز باتیں وسوسہ کے طور پر ڈالا کرتے تھے یعنی ابلیس اور اس کی ذریت کافر انسانوں کے دلوں میں فریب آمیز باتیں ڈالا کرتے تھے جو ہر زمانہ کے پیغمبروں کو نقصان پہونچانے الی ہوتی تھیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ اس قسم کی ناشائستہ حرکات نہ کرتے سو آپ ان کو اور ان کی ناشائستہ افترا پردازیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔