Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 12

سورة الأنعام

قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۲﴾

Say, "To whom belongs whatever is in the heavens and earth?" Say, "To Allah ." He has decreed upon Himself mercy. He will surely assemble you for the Day of Resurrection, about which there is no doubt. Those who will lose themselves [that Day] do not believe.

آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے ، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا ، اس میں کوئی شک نہیں ، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is the Creator and the Sustainer Allah says; قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ قُل لِلّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ... Say: "To whom belongs all that is in the heavens and the earth!" Say: "To Allah." He has prescribed mercy for Himself. Allah states that He is the King and Owner of the heavens and earth and all of what is in them, and that He ... has written mercy on His Most Honorable Self. It is recorded in the Two Sahihs, that Abu Hurayrah said that the Prophet said, إِنَّ اللهَ لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي When Allah created the creation, He wrote in a Book that He has with Him above the Throne; `My mercy overcomes My anger.' Allah said; ... لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ ... Indeed He will gather you together on the Day of Resurrection, about which there is no doubt. swearing by His Most Honored Self that He will gather His servants, إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ (For appointed meeting of a known Day), (56:50), the Day of Resurrection that will certainly occur, and there is no doubt for His believing servants in this fact. As for those who deny and refuse, they are in confusion and disarray. Allah's statement, ... الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ ... Those who destroy themselves, on the Day of Resurrection, ... فَهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ will not believe. in the Return and thus do not fear the repercussions of that Day. Allah said next,   Show more

ہر چیز کا مالک اللہ ہے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ، سب اللہ کا ہے ، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے ، پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھ... ا کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقینا آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے ، حضور سے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہو گا ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا ، اولیاء اللہ ان ہوضوں پر آئیں گے جو انبیاء کی ہوں گی ۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لئے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب ، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے ہر نبی کے لئے ہوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ، جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں ، زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے ، سب کا مالک وہی ہے ، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے ، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے ۔ پھر اپنے نبی کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ حکم دیتا ہے کہ آپ اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا ، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بےنیاز ہے ، فرماتا ہے میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ، ایک قرأت میں والا یطعم بھی ہے یعنی وہ خود نہیں کھاتا ، قبا کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، ہم بھی آپ کے ساتھ گئے ، جب حضور کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا ، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں ، ہم اس کی ناشکری نہیں کرتے ، نہ اس سے کسی وقت ہم بےنیاز ہو سکتے ہیں ، الحمد للہ اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، کپڑے پہنائے ، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی ، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اے پیغمبر اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں ، پھر فرماتا ہے خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا ، یہ بھی اعلان کر دیجئے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی ، سچی کامیابی یہی ہے اور آیت میں فرمایا ہے جو بھی جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا اس نے منہ مانگی مراد پالی ۔ فوز کے معنی نفع مل جانے اور نقصان سے بچ جانے کے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 جس طرح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ " یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے " لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا...  میں تو اس کی رحمت یقینا عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان وامان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) 007:156 اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس لیے دیا ہے کہ مشرکین اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے تھے وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اب اگر وہ اس بات کا اقرار کرتے تو اس اقرار سے استدلال ان کے خلاف پڑتا تھا اور اگر انکار کرتے تو یہ بات ان کے عقیدہ ... کے خلاف تھی لہذا جب انہوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی تو اللہ نے خود ہی اس کا جواب دے دیا۔ اور یہ جواب ایسا تھا جو ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔ [١٣] ویسے تو انسان کا تربیت اور پرورش پانا بھی اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک ایک قدم پر اللہ کی رحمت شامل ہو تو تب ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے مزید برآں یہ کہ وہ مشرکوں کو شرک کرتے دیکھتا ہے۔ کافروں کو اپنی آیات کا انکار اور ہٹ دھرمی کرتے دیکھتا ہے۔ لیکن انہیں ہلاک نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں بھی رزق دیئے جاتا ہے اور اس کی وجہ محض اس کی رحمت ہے۔ چناچہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ && میری رحمت میرے غصہ پر سبقت لے گئی ہے۔ && (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی المائ) پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو ہلاک کرنے کا ذکر کیا تو ساتھ ہی اس آیت میں اپنی صفت رحمت کا ذکر اس انداز سے کیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت پر صفت رحمت بہرحال اور اکثر ادوار میں غالب رہی ہے علاوہ ازیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں سب سے پہلے اپنی ذات پر، پھر اپنی سب سے اہم صفت رحمت پر اور آخر میں آخرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ [١٤] یعنی عقل اور فطرت سلیمہ دونوں سے کام لینا چھوڑ دیا ہے لہذا وہ خود ہی خسارہ میں رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔۔ : وعظ و نصیحت اور ڈرانے کے بعد انھی تینوں اصولوں (کائنات کی ابتدا، اسے دوبارہ زندہ کرنے اور انبیاء کی نبوت) کو ثابت کرنے پر دلیل قائم کی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کافروں سے پوچھیے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے ؟ ا... س سوال کا مقصد ڈانٹ اور پھٹکار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیجیے کہ اللہ کے سوا کون ہوسکتا ہے اور یہ جملہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی زبانی ادا کیا گیا ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرنا لازم کرلیا ہے، وہ توبہ و استغفار قبول کرتا ہے اور اسی صفت رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے تمہیں دنیا میں مہلت دی ہے، فوراً نہیں پکڑتا، لیکن قیامت کے دن تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنے پاس کتاب میں، جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، اپنے متعلق لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ویحذرکم اللہ نفسہ۔۔ ) : ٧٤٠٤ ] لیکن یہ رحمت قیامت کے دن صرف اہل ایمان کے لیے ہوگی، کافروں کے لیے اللہ تعالیٰ سخت غضب ناک ہوگا۔ دنیا میں اس رحمت سے مسلم اور کافر، نیک اور بد سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ الأعراف : ١٥٦] ” اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ( ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) رہا دنیا میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا) [ بنی إسرائیل : ٢٠ ] ” ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے اور تیرے رب کی بخشش کبھی بند کی ہوئی نہیں۔ “ ۭلَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ۔۔ : یعنی قیامت کا آنا ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کرسکتا، اس سے انکار اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل و فطرت سے کام نہیں لیتا اور خسارے کے سودے پر اڑا ہوا ہے، نفع کے سودے کی خواہش ہی نہیں رکھتا، حالانکہ اللہ نے فرمایا : ( فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the opening verse (12), قل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ the disbelievers have been asked as to who is the Master of the entire universe and all that it con¬tains. Then, Allah Himself gives the answer through the blessed words of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that Allah is the Master of all. The reason for answering the question, rather than waiting for the dis¬believers...  to answer it, is that the answer given was an accepted fact with the disbelievers of Makkah as well, for they were, though in¬volved with Shirk and idolatry, no deniers of the fact that Allah Al-mighty was the Master of the heavens and the earth and everything they contained. The word, اِلٰی :ila (towards) in the next sentence: لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ He will surely gather you towards a day of doom) has been used either in the sense of tawaffa meaning to take in full, bring to a finish, or gather, (as in the translation of the meaning given here), in which case, it would mean that Allah Ta` ala will gather everyone, from the beginning to the end, on the day of Qiyamah - or, it could mean ` to gather in the graves,& in which case, it would mean that human beings will be kept being gathered into their resting places unto the day of Qiyamah when they will be raised back to life. (Qurtubi) As for the sentence: كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّ‌حْمَةَ (He has prescribed for Himself to be merciful) appearing a little earlier in verse 12, a narration from Sayyidna Abu Hurairah (رض) in the Sahih of Muslim reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When Allah Ta` la made His creation, He made a promise to Himself in writing which is with Him, written in which are the words: اِنَّ رَحمَتِی تَغلِبُ عَلٰی غَضَبِی that is, ` My mercy shall remain dominant over My wrath.& (Qurtubi) The sentence which appears at the end of the verse: الَّذِينَ خَسِرُ‌وا أَنفُسَهُمْ (Those who have brought loss to themselves ... ) indicates that the dep¬rivation of the disbelievers from the universal mercy of Allah Almighty mentioned earlier was caused by their own deeds, for they did not take to the way which brings mercy - that is, the way of belief and faith. (Qurtubi)   Show more

خلاصہ تفسیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان مخالفین سے بطور الزام حجت کے) کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملک ہے (اوّل تو وہ بھی یہی جواب دیں گے جس سے توحید ثابت ہوگی، اور اگر کسی وجہ سے مثل خوف مغلوبیت کے جواب نہ دیں تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ سب اللہ ... ہی کی ملک ہے (اور ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) اللہ تعالیٰ نے (اپنے فضل سے توبہ کرنے والوں کے ساتھ) مہربانی فرمانا اپنے ذمہ لازم فرما لیا ہے (اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ اگر تم نے توحید کو قبول نہ کیا تو پھر سزا بھی بھگتنا پڑے گی، کیونکہ) تم کو خدا تعالیٰ قیامت کے روز (قبروں سے زندہ اٹھا کر میدان حشر میں) جمع کریں گے (اور قیامت کی حالت یہ ہے کہ) اس کے آنے میں کوئی شک نہیں (مگر) جن لوگوں نے اپنے کو (یعنی اپنی عقل و نظر کو) ضائع (یعنی معطل) کرلیا ہے، سو وہ ایمان نہ لاویں گے (اور ان سے بطور اتمام حجت یہ بھی کہئے کہ) اللہ ہی کے ملک میں ہے جو کچھ رات میں اور دن میں رہتے ہیں، (اس کے اور اس سے پہلی آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مجموعہ کا حاصل یہ نکلا کہ جتنی چیزیں کسی مکان میں ہیں یا کسی زمان میں ہیں سب اللہ کی مملوک ہیں) اور وہی سب سے بڑا سننے والا جاننے والا ہے (پھر اثبات توحید کے بعد ان سے) کہئے کہ کیا اللہ کے سوا جو کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے ہیں اور جو (سب کو) کھانا کھلاتے ہیں اور ان کو کوئی نہیں کھلاتا (کیونکہ وہ کھانے پینے کی احتیاج سے بالاتر ہیں، تو کیا ایسے اللہ کے سوا) کسی کو اپنا معبود قرار دوں (آپ اس استفہام انکاری کی تشریح میں خود) فرما دیجئے (کہ میں غیر اللہ کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہوں جو عقل و نقل کے خلاف ہے) مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کرلوں (جس میں عقیدہ توحید بھی آگیا) اور (مجھ کو یہ کہا گیا کہ) تم مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔ معارف و مسائل آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں کفار سے سوال کیا گیا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کی تمام کائنات کا مالک کون ہے ؟ پھر خود ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ سب کا مالک اللہ ہے، کفار کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی جواب دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جواب کفار مکہ کے نزدیک بھی مسلم ہے وہ اگرچہ شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے مگر زمین و آسمان اور کل کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ میں لفظ الیٰ یا تو فی کے معنی میں ہے، اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب اولین و آخرین کو قیامت کے دن میں جمع فرما دیں گے، اور یا جمع فی القبور مراد ہے، تو مطلب یہ ہوگا کہ قیامت تک سب انسانوں کو قبروں میں جمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ روز قیامت میں سب کو زندہ کریں گے (قرطبی) كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو ایک نوشتہ اپنے ذمہ وعدہ کا تحریر فرمایا جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، جس کا مضمون یہ ہے : ان رحمتی تغلب علی غضبی، یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (قرطبی) اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اس میں اشارہ ہے کہ شروع آیت میں جو اللہ تعالیٰ کی عموم رحمت کا ذکر ہے کفار و مشرکین اگر اس سے محروم ہوئے تو وہ خود اپنے عمل سے محروم ہوئے، انہوں نے حصول رحمت کا طریقہ یعنی ایمان اختیار نہیں کیا (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ قُلْ لِّلہِ۝ ٠ۭ كَتَبَ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۝ ٠ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۝ ٠ۭ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٢ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْ... تُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل مکہ سے سوال کریں کہ یہ تمام مخلوقات کس کی ملکیت ہیں اول تو وہ جواب دیں گے اور اگر وہ جواب نہ دے سکیں تو آپ فرما دیجیے کہ اس اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی وجہ سے عذاب کو...  موخر کرکے اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن تم سب کو جمع کریں گے، جس دن کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ مگر جن لوگوں نے اپنی جسمانی منازل خدام اور بیبیوں کو ضائع کردیا ہے۔ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان نہیں لائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط قُلْ لِّلّٰہِ ط) دراصل یہ کہنا اس اعتبار سے ہے کہ مشرکین مکہ بھی یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کا مالک اور خالق اللہ ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ وہ ایسے احمق نہیں تھے۔ اپنے ان معبودوں کے بارے میں ان...  کا ایمان تھا : (ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط ) ( یونس : ١٨) کہ یہ اللہ کی جناب میں ہماری شفاعت کریں گے۔ سورة العنکبوت (آیت ٦١) میں الفاظ آئے ہیں : (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ہیں اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو یہ لازماً کہیں گے کہ اللہ نے ! چناچہ وہ لوگ کائنات کی تخلیق کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس کا مالک بھی اللہ ہی کو سمجھتے تھے۔ البتہ ان کا شرکیہ عقیدہ یہ تھا کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے بڑے چہیتے اور لاڈلے ہیں ‘ اللہ کے ہاں ان کے بڑے اونچے مراتب ہیں ‘ یہ ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑوا لیں گے۔ (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط) اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ یہ لزوم اس نے خود اپنے اوپر کیا ہے ‘ ہم اس پر کوئی شے لازم قرار نہیں دے سکتے۔ (لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط) (اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) یہاں ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قیامت کا دن تو بڑا سخت ہوگا ‘ جس میں احتساب ہوگا ‘ سزا ملے گی۔ پھر یہاں پر رحمت کے لزوم کا ذکر کس حوالے سے آیا ہے ؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رحمت کا ظہور قیامت کے دن خاص اہل ایمان کے لیے ہوگا۔ اس لحاظ سے یہاں خوشخبری ہے انبیاء و رسل کے لیے ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین کے لیے ‘ اور اہل ایمان کے لیے ‘ کہ جو سختیاں تم جھیل رہے ہو ‘ جو مصیبتیں تم لوگ برداشت کر رہے ہو ‘ اس وقت دنیا میں جو تنگی تمہیں ہو رہی ہے ‘ اس کے بدلے میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وہ وقت آکر رہے گا جب تمہاری ان خدمات کا بھر پور صلہ ملے گا ‘ تمہاری ان ساری سر فروشیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرمحشر قدرافزائی کا اعلان ہوگا۔ کبھی تمہیں یہ خیال نہ آنے پائے کہ ہم تو اپنا سب کچھ یہاں اللہ کے لیے لٹا بیٹھے ہیں ‘ پتا نہیں وہ دن آئے گا بھی یا نہیں ‘ پتا نہیں کوئی ملاقات ہوگی بھی یا نہیں ‘ پتا نہیں یہ سب کچھ واقعی حق ہے بھی یا نہیں ! ان وسوسوں کو اپنے دل و دماغ سے دور رکھو ‘ اور خوشخبری سنو : (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط)   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. The subtlety of this expression should not go unnoticed. The unbelievers are asked to whom belongs whatever exists in either the heavens or on the earth. The inquirer then pauses to wait for the answer. Those questioned are themselves convinced that all belongs to God, yet while they dare not respond falsely, they are nevertheless not prepared to give the correct answer. Fearing that their resp... onse may be used as an argument against their polytheistic beliefs, they keep quiet. At this, the inquirer is told to answer the question himself and to say that all belongs to God.  Show more

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :9 یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو ، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں ۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا ۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب د... ینا چاہتے ہیں ، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انہیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا ۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے ۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(12 ۔ 18) ۔ اوپر ذکر تھا کہ آسمان زمین انسان اور اس کی ضرورت کی چیزیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں لیکن یہ مشرک لوگ زبر دستی سوا اللہ تعالیٰ کے بلا استحقاق اوروں کو اللہ کا ہمسر ٹھہرا کر اس کی تعظیم اور عبادت میں ان کو شریک کرتے ہیں۔ ان آیتوں میں ارشاد ہ... ے کہ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے دریافت تو کرو کہ آخر ان کے نزدیک آسمان و زمین میں کس کی بادشاہت ہے۔ مکہ کے قحط کے وقت یہ تو ان لوگوں کو اچھی طرح تجربہ ہوچکا ہے کہ انہوں نے اپنے بتوں سے رات دن مینہ برسنے کی التجا کی اور ایک بوند نہ پڑی آخر اے رسول اللہ کے جب تمہارے دعا سے اللہ نے اپنا رحم کیا تو مینہ برسا اس واسطے یہ تو ان کا منہ نہیں کہ یہ لگ سوا اللہ تعالیٰ کے آسمان اور زمین میں کسی اور کی بادشاہت بتلاویں اس لئے اے رسول اللہ کے ان لوگوں کے قائل کرنے کے طور پر تم ہی ان سے کہہ دو کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے جس میں تم لوگوں کے بتوں کی کچھ شراکت نہیں اس واسطے وہ بت ضرورت کے وقت تمہارے کام نہیں آتے۔ رہی یہ بات کہ جب آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے تو پھر اس بادشاہت میں اوروں کو شریک ٹھہرانے کے سبب سے ان لوگوں پر کوئی ناگہانی آفت جلدی سے کیوں نہیں آتی اس کا سبب یہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غصہ پر غالب بھی ہے جس کے سبب سے اس نے یہ انتظام فرما دیا ہے کہ قیامت تک سب جاندار بےجان ہو کر زمین کے اوپر سے زمین کے اندر جمع ہوجاویں گے اور پھر وقت مقررہ پر ان کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا اور نیک و بد کی جزا و سزا ہوگی۔ اگرچہ یہ انتظام شک و شبہ سے اس قدر دور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاکس کی قسم کھا کر یہ انتظام ان لوگوں کو جتلایا ہے لیکن علم ازلی الٰہی کے موافق جو لوگ عقبیٰ میں نقصان اٹھانے والے ہیں وہ اس انتظام کو نہیں مانتے اور اس انتظام کی خبر کو جھٹلاتے ہیں مگر ان لوگوں کے جھٹلانے سے انتظام الٰہی کچھ پلٹنے والا نہیں دنیا میں سب رات دن کے رہنے سہنے والے اس کے انتظام کے تابع ہیں اور وہ سب کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو اور سب کے ہاتھ پیروں کے کام کو سنتا جانتا ہے ہر ایک کے قول و فعل کے موافق ایک دن جزا و سزا کا موقع پیش آنے والا ہے۔ مشرکین مکہ جس طرح خود اپنے بڑوں کے راستہ پر چل کر بت پرستی میں پھنسے ہوئے تھے اسی راستہ پر چلنے کی فرمائش اللہ کے رسول سے بھی وہ لوگ کبھی کبھی کیا کرتے تھے ان کی اس فرمائش کا جواب اپنے رسول کی زبانی اللہ تعالیٰ نے جو ان آگے کی آیتوں میں دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین سب کچھ پیدا کیا۔ سب اس کے رزق کے محتاج ہیں اور وہ کسی بات میں کسی کا محتاج نہیں اس نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ امت کے سب لوگوں کے پہلے وہ احکام الٰہی کا پابند ہو کر امت کے لوگوں کو بھی اس کے موافق ہر وقت نصیحت کریں۔ شرک کی باتوں سے خود بھی بچیں اور امت کے لوگوں کو بھی بچاویں۔ اس نے اپنے رسول کے دل میں یہ خوف پیدا کردیا کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان لوگوں کو بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اس لئے اللہ کی فرمانبرداری کے سبب سے جو اس عذاب سے بچ گیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو بیماری تنگ دستی وغیرہ کی تکلیف میں کبھی پھنسادیوے تو اس سوا اس کے اور کوئی اس تکلیف کو رفع نہیں کرسکتا اور اگر وہ کسی کو کچھ راحت پہنچاوے تو اس کی راحت کو کوئی تکلیف سے بدل نہیں سکتا کیونکہ ہر چیز اس کی قدرت اور اس کے اختیار میں ہے کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے ساری مخلوق اس کے بس میں ہے اپنی حکمت اور اپنی خبرداری کے موافق جس طرح وہ چاہتا ہے اپنی مخلوق پر حکومت کرتا ہے بھلا تم ہی لوگ سوچو کہ باوجود ان سب باتوں کے کوئی شخص سوا اللہ کے کسی دوسرے کو اپنا حامی و مددگار ٹھہرا کر کیا پھل پاسکتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو ارحم الرحمین نے یہ بات پہلے ہی لکھ لی ہے کہ مخلوقات کی سزا کے باب میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غصہ پر غالب رہے گی ١ ؎۔ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مخلوقات کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق مخلوقات کی سب حالت لکھ لی ہے ٢ ؎۔ صحیح بخاری میں عمران بن حصین (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق جو شخص جنت میں جانے کے قابل پید ہوا ہے وہ دنیا میں نیک کام کرتا ہے اور جو شخص دوزخ میں جانے کے قابل ہوا ہے وہ ویسا ہی عمل کرتا ہے ١ ؎۔ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہے ہوتا ہے کہ مشرک لوگوں پر کوئی فورت آفت اس لئے نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے یہ بات لکھ لی ہے کہ مخلوقات کے پیدا ہونے کے بعد ان کے معاملات میں اللہ کی رحمت اللہ کے غصہ پر غالب رہے گی۔ یہ نافرمان لوگ باوجود فہمائش کے اپنی نافرمانی سے اس لئے باز نہیں آتے کہ علم الٰہی میں جو لوگ دوزخ کے قابل قرار پا چکے ہیں وہ اپنی نافرمانی سے ہرگز کبھی باز نہ آویں گے کیونکہ وہ نافرمانی بھی ان کو عین فرمانبرداری نظر آتی ہے اسی واسطے ان کی جرأت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول سے بھی اسی ڈھنگ پر آجانے کی فرمائش کی جس کا جواب دے کر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قائل کیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:12) لمن۔ کس کا ہے۔ من استفہامیہ ہے۔ کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ رحمت فرمانے کو اس نے اپنے اوپر لازم اور واجب کرلیا ہے۔ یہاں واجب سے مراد یہ ہے کہ اس نے رحمت کرنے کا وعدہ مؤکدہ کرلیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 وعط و نصیحت اوتحذیر کے بعد اب دوبارہ اصول ثلاثہ (مبدا معاد، نبوات) کے اثبات پر دلیل قائم کی ہے یعنی آسمان و زمین کا خالق اور مالک اللہ ہی ہے اور اس کی ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ( رازی)12 اور پھر اس نے محض اپنے فضل و کرم سے سے اپنے بندوں سے رحمت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو رحم... ان ورحیم ہونے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کا ذکر بہت ہی احادیث میں بھی مذکور ہے ایک حدیث میں ہے جب اللہ تعالیٰ خلق سے فارغ ہوا تو کتاب میں لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ (رازی)13 یعنی قیامت کا آنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کرسکتا اس سے انکار اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل و فطرت سے کام نہیں لیتا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 12 تا 14 : علی نفسہ (اپنی ذات پر) لیجمعن (البتہ وہ ضرور جمع کرے گا) ‘ خسروا (نقصان میں پڑگئے) ‘ سکن ( وہ ٹھہرا) اللیل (رات) ‘ النھار (دن) فاطر (پیدا کرنے والا) ‘ یطعم (وہ کھلاتا ہے) لایطعم (وہ نہیں کھلایا جاتا۔ یعنی وہ نہیں کھاتا) امرت (مجھے حکم دیا گیا ہے) ۔ ان اکون ( یہ کہ م... یں ہوں) اسلم (گردن کھادی۔ اسلام قبول کیا) ‘ لاتکونن (تم ہرگز نہ ہونا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 12 تا 14 : سارے انسان مانتے ہیں کہ یہ کائنات اللہ ہی نے بنائی اور اسی کے حکم پر چل رہی ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انسان کا خالق ومالک اللہ ہی ہے۔ اگر ان کفار سے پوچھا جائے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ان تمام چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ جب اس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ بنایا اور سجایا تو پھر اپنی قدرت سے انہیں توڑ پھوڑ بھی سکتا ہے۔ وہ توڑ پھوڑ کا دن قیامت کا دن ہوگا۔ کیا وہ توڑ پھوڑیوں ہی بےمقصد ہے ؟ نہیں۔ اس دن ہر انسان کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا۔ ایک نیا دور شروع ہوگا ۔ جس کا نام آخرت ہے۔ اس حساب وکتاب میں اللہ تعالیٰ سختی سے نہیں بلکہ بہت نرمی سے پیش آئے گا۔ اس نے خود اپنے اوپر فرض کرلیا ہے کہ میں بہت رحم و کرم سے پیش آؤں گا ۔ مگر کچھ بد نصیب ایسے بھی ہیں جو اس رحم و کرم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ یہی لوگ کافر ‘ مشرک اور منافق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بےنیازی ہے کہ وہ خود نہیں کھاتا مگر سارے جہان والوں کو ساری مخلوقات کو کھلاتا پلاتا ہے۔ دوسرے تمام معبود خود کھاتے ہیں۔ کھلاتے نہیں یعنی وہ عام انسانوں کی مدد کے محتاج ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کو عبرت آموزی کے لیے زمین میں چل پھر کر نشانات عبرت دیکھنے کا حکم دینے کے بعد بتایا گیا ہے کہ جس زمین پر تم چلتے اور آسمان کے نیچے رہتے ہو۔ وہ اللہ کی ملک ہیں۔ لہٰذا کفار اور مشرکین سے چند سوال کیے جاتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے اور آپ سے استہزاء کرنے والوں سے پوچھیے کہ یہ زمین و آسمان کس کی ملکیت اور کس کے کنٹرول میں ہیں ؟ کیونکہ اہل مکہ کا عقیدہ تھا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور ان پر کلی اختیار رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا ان کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے آپ کو حکم ہوا کہ بےدھڑک فرما دیں کہ یہ اللہ کی ملک ہیں اور اسی کے اقتدار اور اختیار کے تابع ہیں۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا مذاق اڑانے والے کھلے پھر رہے ہیں تو اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت سے باہر ہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنے آپ پر لازم کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کو ایک مدت تک مہلت دے گا۔ البتہ ایک دن ضرور آئے گا، جس میں سب لوگوں کو جمع کیا جائے گا۔ اس دن اللہ کے منکر ایسے خسارے میں ہوں گے جس کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔ بعض لوگ اس آیت کریمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت غالب اور واجب کرلی ہے اور وہ ماں کی مامتا سے زیادہ مہر بان ہے تو پھر اس کا اپنے بندوں کو عذاب دینا چہ معنی دارد۔ مفسر قرآن امام رازی (رض) اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماں اپنے بچے پر اس وقت تک ہی مہربان ہوتی ہے جب بچہ اپنی ماں کی مامتا کو تسلیم کرتا ہے اگر کوئی ماں کے ہونے کا کلیتاً انکار کرے اور کسی اور کو ماں کا درجہ دے دے تو کوئی غیور ماں ایسے بچے پر ترس کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ مشرک اور کافر کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْیٌ فَإِذَا امْرَأَۃٌ مِّنْ السَّبْیِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْیَہَا تَسْقِی إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبْیِ أَخَذَتْہُ فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِہَا وَأَرْضَعَتْہُ فَقَالَ لَنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتُرَوْنَ ہٰذِہٖ طَارِحَۃً وَلَدَہَا فِی النَّارِ قُلْنَا لَا وَہِیَ تَقْدِرُ عَلٰی أَنْ لَا تَطْرَحَہُ فَقَال اللّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ہٰذِہٖ بِوَلَدِہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں ایک عورت کی چھاتی سے دودھ بہہ رہا تھا۔ جونہی اس نے اپنے بچے کو پایا اس کو پکڑتے ہوئے اس نے اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت کی محبت سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو واجب کرلیا ہے ٣۔ تمام لوگوں کو قیامت کے دن اکٹھا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت بےکنار ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٢۔ قیامت کے منکر اللہ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔ (العنکبوت : ٢٣) ٣۔ دن اور رات کو اللہ نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے پر سکون بنایا ہے۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرلیتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٥) ٥۔ ایماندار صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ (الجاثیۃ : ٣٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٥٧ تشریح آیات : ١٢۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ١٩ ۔ (آیت) ” نمبر ١٢ تا ١٣۔ یہاں خطاب بیان اور فیصلے کے لئے ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ ان مشرکین سے مخاطب ہوں جو اچھی طرح جانتے ہیں اللہ ہی خالق ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی خالق کا ہمسر ان لوگوں کو بناتے ہ... یں جو بذات خود مخلوق ہیں ۔ اور پھر بزعم کود اپنی زندگی کے تصرفات میں ان شرکاء کو بھی دخیل کرتے ہیں۔ سوال یہ کیا جاتا ہے کہ تم مانتے ہو کہ اللہ خالق ہے تو یہ بتاؤ کہ تخلیق کے بعد پھر مالک کون ہے ؟ یعنی اس پوری کائنات اور زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ (مافی السموت والارض) کا مالک کون ہے ؟ اور پھر اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اس کا انکار نہ کرتے تھے ۔ (قل للہ) عربوں سے اگر پوچھا جاتا کہ (آیت) ” (لمن مافی السموت والارض) ؟ تو وہ جواب دیتے (للہ) تو معلوم ہوا کہ جاہلیت کے اندھیروں میں ہوتے ہوئے اور فکری اور نظری گمراہی کا شکار ہوتے ہوئے بھی وہ دور جدید کی جاہلیت سے بہرحال زیادہ بہتر تھے ۔ دور جدید کی جاہلیت کو علمی جاہلیت کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ وہ اس سادہ حقیقت کی بھی منکر ہے ‘ کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے ۔ اس نے اپنی فطرت کو اندھا کردیا ہے اور وہ اس بدیہی حقیقت کو بھی دیکھ نہیں رہی ہے ۔ عرب جاہلیت کے پیروکار اگرچہ اس بدیہی حقیقت کا ادراک کرتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے لیکن وہ اس حقیقت اور اقرار پر پھر اس کے منطقی نتیجے مرتب نہ کرتے تھے ۔ یوں وہ اللہ کو اس کی مملوکات کے اندر بھی حاکم مطلق اور مقتدر اعلی نہ سمجھتے تھے ۔ وہ دنیا میں اپنے تمام تصرفات اور تمام حرکات و سکنات کو اذن اللہ کے دائرے کے اندر محدود نہ کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرک قرار پاتے تھے اور انہیں اہل جاہلیت کہا گیا ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے تمام امور کو اللہ تعالیٰ کے دائرہ حاکمیت سے نکال دیں اور اپنی زندگی کے خود حاکم بن جائیں تو اب یہ سوال ان سے کیا جاسکتا ہے کہ ہم انہیں کیا کہیں اور انکی زندگی پر کیا فیصلہ دیں ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مشرکین کے سوا کوئی اور لقب نہیں دیا جاسکتا اور نہ ان کی زندگی کو شرکیہ زندگی کے سوا کچھ اور کہا جاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ خود اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کی یہ زندگی فاسقانہ ‘ ظالمانہ اور کافرانہ ہے ۔ چاہے وہ جس قدر بھی اسلام کا دعوی کریں (ان کے برتھ سرٹیفکیٹ چاہے ان کا مذہب جو بھی بتائیں کیونکہ وہ تو پیدائش کے وقت خانہ پری ہوتی ہے) اب ذرا آیت پر بھرپور نظر ڈالیں ۔ اس میں اللہ تعالیٰ یہ قرار دینے کے بعد کہ زمین اور آسمان کا مالک وہ ہے ساتھ ساتھ یہ بھی اضافہ فرماتے ہیں (کتب علی نفسہ الرحمۃ) ” اس نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ “ اللہ وحدہ خالق ومالک ہے اور اس میں اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے جو نزاع کرسکے ۔ لیکن اس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی ہے کہ وہ رؤف ورحیم ہے ۔ اپنے ارادے اور اپنی مشیت اور مرضی سے اس نے یہ رویہ لازم کرلیا ہے کوئی اور نہیں ہے جس نے اللہ رپ اس رویے کو لازم کردیا ہو ‘ نہ کسی اور نے اللہ سے اس کا مطالبہ کیا ہے اپنے ارادہ مطلق اور اپنی کریمانہ شان ربوبیت کی وجہ سے اس نے یہ رحیمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ اور یہ اصول اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلوں اپنے اخلاق اور اپنے معاملات میں ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے لئے ایک مسلمہ قاعدہ قرار دیا ہے ۔ اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظریات کی بنیادوں کے اندر بھی یہ اصول کار فرما ہے ۔ اصل اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم کرتا ہے یہاں تک کہ اگر اللہ کسی بندے کو مشکلات اور مصائب سے دو چار کرتا ہے تو بھی دراصل اس پر شفقت مطلوب ہوتی ہے ۔ وہ بندوں کو مشکلات میں اس لئے ڈالتا ہے تاکہ ان میں سے ایک ایسا عنصر ہر وقت تیار رہے جو اللہ کی امانت کا بار اٹھانے کا اہل ہو اور یہ امانت کبری ان کو تب سپرد کی جاتی ہے جب یہ گروہ اپنے خلوص ‘ اپنی بےلوثی اور اپنی فہم ودراک ‘ اور اپنی تیاری اور تجربات کے اعتبار سے اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے تیار ہوجائے ۔ خبیث قوتیں پاک اور صاف لوگوں کی صفوں سے نکال کر باہر پھینک دی جائیں اور یہ اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ کون صحیح طرح مطیع رسول ہے اور کون بھاگنے والا ہے ۔ جو ہلاک ہوتا ہے وہ سمجھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ رہتا ہے تو اصولوں پر زندہ رہے ۔ یہ تمام امور اللہ کے دائرہ رحمت کے اندر ہیں ۔ اللہ کی رحمت کے مواقع سے تو ہماری زندگی بھری پڑی ہے ۔ ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کی شفقت اور رحمت کی نئی شان ہے ۔ ہم نے بتلاء اور مشکلات کے زمانے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بعض اوقات لوگوں کی فکر ونظر اس میں دھوکہ کھاجاتی ہے ۔ ہماری یہاں یہ کوشش نہیں ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کے معاملات اور مظاہر گنوائیں ‘ بعض مظاہر آنے والے صفحات میں آپ دیکھیں گے ۔ یہاں ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اس آیت پر قدرے غور کریں ۔ اور دیکھیں (کتب علی نفسہ الرحمۃ) سے دراصل کیا مراد ہے ۔ اسی سورة میں دوسری جگہ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے (آیت) ” کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ) اس آیت میں جو بات جاذب نظر ہے وہ یہی فضل وکرم ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ۔ یعنی ایک ذات عالی جو خالق ہے ‘ مالک ہے اور قوت قاہرہ کی مالک ہے وہ اپنی قوت قاہرہ کے استعمال کے بجائے فضل وکرم کا مظاہرہ فرما رہی ہے اور پھر اس صورت میں کہ اس نے اس فعل کو اپنے اوپر لکھ لیا ہے ‘ فرض قرار دے لیا ہے ۔ از خود اس نے اس عہد پر دستخط کر لئے ہیں ۔ محض اپنے ارادہ مطلقہ اور اپنی مشیت کی رو سے وہ ہم پر فضل کر رہا ہے ۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے کہ جب انسان اسے پیش نظر رکھے اس پر غور کرے اور اس کے عجیب انداز کا ملاحظہ کرے تو اس کا انسان کی شخصیت اس کی فکر اور اس کے ذوق نظر پر اچھا اثر مرتب ہونا ضروری ہے ۔ پھر یہ امر بھی جاذب نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی اس شان رحیمی کی اطلاع بھی دیتا ہے کہ میں نے یہ اصول اپنے اوپر لکھ لیا ہے ‘ اپنے لئے اسے فرض قرار دے لیا ہے کہ میں فضل وکرم ضرور کروں گا ۔ اب وہ بندے ہیں کون جن کے بارے میں عالم بالا میں یہ فیصلہ ہوا ہے اور اس کا حکم ان تک تحریری شکل میں آپہنچا ہے کہ ان کے بارے میں یہ فیصلہ ہوگیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان تک اس کی اطلاع ہو رہی ہے ۔ یہ لوگ کون ہیں ؟ یہ کوئی خاص لوگ نہیں ہیں ‘ بلکہ یہ لوگ عام لوگ ہیں اور اللہ کا یہ فضل وکرم تمام لوگوں کے لئے ہے ۔ اس انداز میں ‘ اس حقیقت پر غور کرنے سے دل میں عجیب و غریب خیالات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ انسان حیران ہوجاتا ہے ۔ اس کے دل میں انس اور اس کے اندر اس قدر روحانی سرور پیدا ہوتا ہے جس کا اظہار الفاظ کے اندر ممکن نہیں ہے ۔ یہ حقائق قلب ونظر جو اثرات چھوڑتے ہیں انسان اسے چکھ تو سکتا ہے ‘ اسے محسوس تو کرسکتا ہے لیکن انسانی اسلوب کلام میں ان کا اظہار ممکن نہیں ہے اور نہ پوری طرح اسے بیان کیا جاسکتا ہے ۔ اس حقیقت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی تصور حیات میں شان رحیمی حقیقت الہیہ کا اساسی پہلو ہے ۔ اسی کی اساس پر بندے اور الہ کا تعلق بندگی استوار ہوتا ہے اور یہ تصور نہایت ہی خوبصورت ‘ پرکیف ہے اور محبت اور مودت سے سرشار ہے ۔ اس اساسی تصور کے ہوتے ہوئے ہر منصف مزاج شخص کو ان بدمزاج لوگوں کی ذہینت اور ان کی بہتان تراشیوں پر سخت تعجب ہوگا کہ وہ جو اسلام کے تصور الہ کے خلاف ایسی باتیں کرتے ہیں جو خلاف حقیقت ہیں ‘ یہ الزامات وہ اس لئے عائد کرتے ہیں کہ اسلام عقیدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا قائل نہیں ہے ۔ اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی اس کا بیٹا ہو سکتا ہے جب کہ کینسہ نے انجیل میں انحراف کرکے یہ عقیدہ گھڑا ۔ اسلامی تصور حیات اللہ کی شان کریمی کے بارے میں بہت ہی اعلی وارفع ہے اور یہ کنیسہ کہ کینسہ بچگانہ تصورات سے بہت ہی بلند ہے ۔ اللہ اور بندے کے درمیان جو شفقت اور محبت کا تعلق ہے وہ انسانی الفاظ سے ماوراء ہے ۔ اللہ کی شان جلالت کے ساتھ ساتھ اسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ کی رحمت کا فیضان اس کے تمام بندوں پر ہوتا ہے ۔ یہ رحمت سب کو اپنے جوار میں لیتی ہے ۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے جس کے ذریعے ذات انسان زندہ ہے ۔ اس کے جسم اور جان کا رشتہ استوار ہے ۔ انسانی وجود میں اور اس پوری کائنات کے وجود میں اللہ کی رحمت اور اس کی شان کریمی ہر وقت جاری وساری ہے ۔ جہاں تک انسانی زندگی اور انسانی جسم کا تعلق ہے ‘ اس کے اندر اللہ کی رحمت کے مواقع کو تو ہم گن ہی نہیں سکتے ۔ البتہ ان میں سے چند ممتاز پہلوؤں اور مظاہر کا ذکر ضروری ہے ۔ سب سے پہلے انسان کی ذات میں اللہ کی شان رحیمی نظر آتی ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ اس طرح پیدا کرتا ہے کہ خود انسان کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ خود انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کس طرح انہیں یہ وجود عطا ہوا ۔ پھر اس کے اندر ایسے خصائص رکھ دیئے گئے جن کی وجہ سے انسان کو تمام موجودات پر فضیلت حاصل ہوگئی ۔ پھر اس کی شان کریمی ان قوتوں کے اندر نظر آتی ہے جن کو آج تک انسان مسخر کرسکا ہے ۔ یہ کائنات اور اس کی قوتیں ‘ اور یہ ہے اللہ کا رزق اپنے وسیع تر مفہوم میں یوں سمجھیں کہ کائنات جس کے وسیع میدانوں میں ہر وقت انسان جولانیاں دکھاتا ہے ۔ پھر اس شان کریمی کا اظہار اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو علم عطا فرمایا ۔ پہلے اسے حصول علم کی استعداد عطا کی اور اس کی صلاحیتوں اور اس کائنات کی قوتوں کے اندر ہم آہنگی پیدا کی ۔ یہ علم جس کی وجہ سے بعض بدفطرت اور بدمزاج انسان خود ذات باری پر دست درازی شروع کردیتے ہیں حالانکہ یہ وہی تو ہے جس نے ان بدمزاجوں کو یہ علم عطا فرمایا اور یہ علم اللہ کے ارزاق میں سے ایک رزق ہے ۔ پھر اس شان کریمی کا اظہار یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اس جہان میں اپنا خلیفہ بنا کر اس کی نگہداشت اور تربیت کا انتظام یوں کیا کہ اس کی ہدایت کیلئے مسلسل رسول بھیجے ۔ جب بھی انسان بھٹکا ‘ اللہ نے اسے ہدایت سے نوازا اور بڑی محبت اور صبر کے ساتھ اسے دوبارہ راہ مستقیم پر ڈال دیا ۔ حالانکہ بعض اوقات انسان نے ان ڈرانے والوں اور نصیحت کرنے والے رسولوں کی آواز پر کان بھی نہ دھرا اللہ کے لئے اس کا ہلاک کردینا مشکل نہ تھا لیکن اللہ کی صفت رحمت نے ہمیشہ اس کو مہلت دی اور ہمیشہ اللہ کے حلم نے انسان کو ڈھانپ لیا۔ پھر اس شان کریمی کا اظہار اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ جب ایک بندہ اپنی جہالت کی وجہ سے گناہ کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتے ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کرنا لازم کرلیا ہے ۔ اور یہ بھی اس کی شان کریمی کا ایک پہلو ہے کہ وہ برائی کی جگہ ایک ہی برائی شمار کرتا ہے ۔ ایک ہی برائی کی سزاد دیتا ہے لیکن ایک نیکی کے بدلے وہ دس دنیکیوں کا ثواب اور اجر عطا کرتا ہے اور اس کے بعد بھی وہ جس کے اعمال نامے میں جو چاہے اضافہ کر دے ۔ پھر مزید یہ کہ اللہ نیکی کے بدلے کو محو بھی کرتا جاتا ہے اور یہ سب اس کا کرم ہے ۔ پھر یہ کہ کوئی شخص محض اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا کرم شامل حال نہ ہو ۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بارے میں بھی یہی کہا ہے کہ وہ بھی اللہ کے فضل سے جنت میں جائیں گے ۔ اگر اللہ کا فضٰل وکرم شامل حال نہ ہو تو انسان بہت ہی عاجز ہے ۔ غرض اللہ کے رحم وکرم اور جود وسخا کے مواقع اور مظاہر کی تفصیلات دینے کے بجائے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے قصور فہم کا اعلان کردیں اور یہ کہہ دیں کہ ہمارے لئے اس کی شان کریمی کو پوری طرح سمجھنا ہی مشکل ہے اور ہمارے لئے مناسب رویہ ہے ۔ اس لئے کہ اگر ہم ایسا نہ کریں اور یہ اعلان نہ کردیں کہ ہم فیل ہوگئے تو ہم اس میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ وہ لمحہ جس میں کسی بندے پر اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں ‘ اسے اللہ تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔ وہ معرفت کردگار سے سرشار ہوتا ہے ‘ اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے سایہ عاطفت میں پناہ لیتا ہے ۔ اس کی بارگاہ میں پناہ لیتا ہے ‘ ایسا ایک مختصر لحظہ بھی اس قدر وسعت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی انسان کے لئے اس کا بیان کرنا اور اس کی وضاحت کرنا ممکن نہیں ہے ‘ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی شان کریمی کو پوری طرح بیان کرسکے ۔ ذرا غور کیجئے کہ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جوامع الکلم کے ذریعے ‘ خوبصورت تمثیلات کے ذریعے کس طرح اللہ کی شان کریمی کو ہماری فہم اور ہماری عقل کے قریب کرنے کی سعی کی ہے : شیخین نے اپنی سندوں کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت فرمائی ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کا فیصلہ کردیا (امام مسلم نے کہا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کردیا) تو اللہ نے ایک ایسی کتاب میں جو ذات باری کے پاس عرش پر ہے لکھا کہ ” میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہوگئی “۔ امام بخاری نے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ دیئے ہیں ” میری رحمت ‘ میرے غضب پر غالب آگئی ہے ۔ “ شیخین نے اپنی سند سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اللہ نے رحمت کے سو حصے کئے ہیں جن میں سے ٩٩ اللہ نے اپنے ہاں روک لئے ہیں اور زمین پر اللہ نے صرف ایک حصہ اتارا ہے ۔ اس ایک حصے کو استعمال کرکے مخلوقات ایک دوسرے کے ساتھ رحیمانہ سلوک کرتی ہیں ۔ “ یہاں تک کہ ایک جانور اپنے کھروں کو اٹھاتا ہے مبادا کہ اس کا پاؤں اس کے بچے پر پڑجائے ۔ “ امام مسلم نے اپنی سند کے ذریعے حضرت سلمان فارسی سے روایت فرمائی ہے ۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے پاس سور حمتیں ہیں ‘ ان میں سے ایک رحمت کو استعمال کرکے مخلوق خدا باہم شفیقانہ سلوک کرتی ہے اور ٩٩ رحمتیں اللہ نے قیامت کے لئے محفوظ کی ہوئی ہیں ۔ “ انہی سے ایک دوسری روایت میں ہے ” جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تو اس نے سو رحمتیں پیدا کیں ۔ اللہ کی ہر رحمت زمین و آسمان سے بڑی ہے ۔ اس میں صرف ایک رحمت کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر استعمال کے لئے دیا ۔ اسی رحمت سے والدہ اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے اور وحشی جانور اور پرندے ایک دوسرے پر رحمت کرتے ہیں۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کے باقی ٩٩ جز کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس رحمت کو مکمل کر دے گا ۔ “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس تمثیلی انداز میں رحمت کی مقدار کو بیان کیا ہے یہ محض تقریب الی الافہام کے لئے ہے ۔ انسان جب زندہ جانوروں میں یہ دیکھتا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ کس قدر حمت و شفقت سے پیش آتی ہیں ‘ لوگ بچوں پر کس قدر شفقت کرتے ہیں ‘ اسی طرح بوڑھوں ‘ ضعفاء مریضوں ‘ اقرباء ‘ دوستوں اور اولاد پر ‘ نیز پرندے اور وحشی جانور ایک دوسرے کے ساتھ ‘ تو انسان ورطہ حیرت میں غرق ہوجاتا ہے ۔ بعض مناظر تو ایسے ہوتے ہیں کہ انسان پر دہشت طاری ہوجاتی ہے اور اس کے بعد انسان یہ تصور کرتا ہے کہ اللہ کی شان کریمی کے سو حصوں میں سے یہ صرف ایک حصہ ہے تو انسان مزیدحیران ہوتا ہے ۔ یہ انداز تفہیم ایسا ہے کہ بات لوگوں کے ذہن کے قریب آجاتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو اس عظیم رحمت کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے تھے ۔ حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ جنگی قیدی عورتیں لائی گئیں ۔ ان میں سے ایک عورت دوڑی پھرتی تھی ‘ اس کے پستانوں سے دودھ بہہ رہا تھا ۔ اسے گرفتار عورتوں کے کیمپ میں جو بچہ بھی ملتا وہ اسے پکڑتی ‘ اسے پیٹ سے لگاتی اور دودھ پلاتی ۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تم اس بات پر یقین کرو گے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی ۔ “ ہم نے کہا خدا کی قسم اگر وہ ایسا نہ کرنے کی قدرت رکھتی ہو (یعنی مجبور نہ ہو) تو وہ ہرگز ایسا نہ کرے گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جان لو کہ اس عورت کو اپنے بچے سے جس قدر محبت ہے ‘ اللہ کو اپنے بندوں کے ساتھ اس سے زیادہ محبت ہے ۔ “ (بخاری ۔ مسلم) کس طرح نہ ہوگی ؟ یہ عورت اپنے بچے کے ساتھ جو رحم اور شفقت رکھتی ہے تو یہ اس رحمت کی برکت ہے جو اللہ نے اپنی وسیع رحمت سے اہل زمین کو عطا کی ہے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو اس قسم کی جو تعلیم دی تھی ‘ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ایک قدم مزید آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اس سلسلے میں اللہ کے اخلاق کو اپنائیں ۔ آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ رحمت اور مودت سے پیش آئیں ۔ اس جہان کے تمام زندہ جانوروں کے ساتھ رحم کریں ۔ ان کے دلوں کے اندر محبت اور شفقت کا ذوق پیدا ہو اور وہ اپنے تمام معاملات میں اس ذوق کو برتیں جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے معاملات میں اپنی مخلوقات کے ساتھ رحمت برتتا ہے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کا یہ پہلو نہایت ہی زندہ اور تابندہ ہے ۔ کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت عمر ابن العاص (رض) سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” رحم کرنے والوں پر اللہ کا رحم ہوگا ۔ تم لوگ اہل زمین پر رحم کرو تم پر وہ رحم کرے گا جو آسمانوں میں ہے ۔ “ (ابو داؤد ‘ ترمذی) ابن جریر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔ “ (بخاری ‘ مسلم اور ترمذی) ابو داؤد اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت میں یہ کہا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” رحمت صرف اس شخص سے چھین لی جاتی ہے جو شقی القلب ہو ۔ “ اور اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسن ابن علی کو بوسہ دیا اور اس وقت آپ کے پاس اقرع ابن حابس بیٹھے ہوئے تھے ۔ اقرع نے کہا میرے تو دس بیٹھے ہیں میں نے کبھی ان میں سے ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا :” جس نے شفقت نہ کی اس پر شفقت نہ ہوگی ۔ “ (مسلم و بخاری) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو صرف یہ تعلیم نہ دی تھی کہ وہ فقط انسانوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک رکھیں ‘ اس لئے کہ آپ کو علم تھا کہ اللہ کی رحمت بہت ہی وسیع ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کریں۔ انسان اس وقت تک مکمل انسان نہیں بن سکتا جب تک وہ تمام مخلوقات کے ساتھ رحمت کا برتاؤ نہی کرے ۔ اس سلسلے میں آپ کی تعلیمات نہایت ہی موثر تھیں جیسا کہ ہم کہہ آئے ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یوں ہوا کہ ایک شخص کسی سفر کے دروان کسی راستے پر جا رہا تھا کہ اسے شدید پیاس لگ گئی ۔ اسے ایک کنواں ملا ۔ وہ اس میں اترا اور پانی پایا اور باہر نکل آیا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی وجہ ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے مٹی کھا رہا ہے ۔ اس شخص نے کہا ‘ اس کا حال بھی پیاس نے ایسا کردیا جس طرح میرا کردیا تھا ۔ وہ کنویں میں اترا اپنے جوتے کو پانی سے بھرا اور اپنے منہ میں پکڑا یہاں تک کہ نکل آیا ۔ اس نے کتے کو پانی پلایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کا اجر دیا اور اس کی مغفرت فرما دی “۔ اس پر صحابہ کرام نے کہا : رسول اللہ کیا ہمارے لئے بہائم میں بھی اجر ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر تر کلیجے والی چیز کے ساتھ رحم پر اجر ہے ۔ “ (بخاری مسلم ‘ موطائ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک بدکار عورت نے ایک بار دیکھا کہ شدید گرمی میں ایک کتا ایک کنویں کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے ۔ اس نے پیاس کی وجہ سے زبان نکالی ہوئی ہے ۔ اس نے اس کے لئے اپنے جوتے کو ڈول بنا کر اور دوپٹے کو رسی بنا کر نکال کر پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ۔ “ حضرت عبدالرحمن ابن عبداللہ (رض) نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر تھے ۔ ہم نے ایک (حمرہ) (پرندہ) کو دیکھا جس کے ساتھ اس کے دو بچے تھے ۔ ہم نے اس کے بچے پکڑ لئے ۔ (حمرہ) آئی اور وہ زمین پربچھی جارہی تھی (یعنی پر ڈھیلے کر کے پھیلا کر زمین کے قریب ہو رہی تھی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ۔ آپ نے فرمایا :” کس نے اسے اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ۔ اس کے بچوں کو لوٹا کر اسے دے دو ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ ہم نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے کہا یہ تو ہم نے جلایا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آگ کے ساتھ صرف آگ کا مالک سزا دے سکتا ہے ۔ (ابو داؤد) حضرت ابوہریرہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی نبی کو چیونٹی نے کاٹا ۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کے گھر کو جلایا جائے اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی بھیجی ” اگر آپ کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو کیا آپ اس کی پوری نوع کو جلا ڈالیں گے جو تسبیح کرتی ہے ۔ (مسلم بخاری) یوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو قرآن کریم کی اس تعلیم کے مطابق تربیت دی کہ وہ اللہ کی رحمت کا مزہ اس طرح چکھیں کہ اسے لوگوں کے برتیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مخلوقات ایک دوسرے کے ساتھ جو رحم اور شفقت کرتی ہے وہ اللہ کی بےبہا اور بیشمار رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے ۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مسلمان کے تصور حیات کے اندر رحمت کی حقیقت بیٹھ جانے سے اس کے احساسات ‘ اس کی زندگی اور اس کے اخلاق پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انہیں کسی صورت میں بھی مٹایا نہیں جاسکتا ۔ مزکور بالا تعلیم کے جو اثرات ایک مسلم کی زندگی پر پڑتے ہیں ‘ یہاں ہم ظلال القرآن کے مختصر اسلوب کے مطابق اس کی طرف بھی کچھ اشارہ کئے دیتے ہیں ۔ اس حقیقت کے شعور کے نتیجے میں ‘ دل مومن اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب کی جانب سے پوری طرح مطمئن ہوجاتا ہے ۔ خصوصا ایسے حالات میں جب کہ وہ مشکلات اور شدید لمحات سے گزر رہا ہو کیونکہ مصائب وشدائد میں انسان کے قلب ونظر دھوکہ کھا سکتے ہیں اس طرح مشکلات میں گھرا ہوا مومن ہر وقت رحمت خداوندی کا امیدوار ہوتے ہوئے یہ یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی لمحہ حالات میں تبدیلی آسکتی ہے اور ہر صورت حال کے بعد نئی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کو مشکلات میں مبتلا کر کے چھوڑ نہیں دیتا ‘ یا اسے اپنی رحمت سے محروم نہیں کردیتا ۔ اس لئے کہ جو شخص بھی رحمت خداوندی کا طلبگار ہوگا اسے اللہ محروم نہ کرے گا ۔ لوگ تو خود اپنے آپ کو رحمت خداوندی سے محروم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں ‘ رحمت کے سایہ میں آنے سے انکار کرتے ہیں اور اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ پھر اللہ کی رحمت کی امیدواری پر پختہ اطمینان کے نتیجے میں انسان کے اندر صبر وثبات پیدا ہوتا ہے ‘ امید کی کرن روشن ہوتی ہے ‘ وہ اطمینان اور آرام محسوس کرتا ہے ‘ کیونکہ وہ بارگاہ رحمت و محبت میں ہوتا ہے ‘ جس کا سایہ گھنا ہوتا ہے جب تک وہ خود اپنے آپ کو اس اس سے دور نہ کرلے ۔ جب ایک مسلم یہ شعور پاتا ہے تو اس کے احساسات میں باری تعالیٰ کی نسبت سے ایک حیا پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ مغفرت کی امیدواری اور رحمت باری کی خواہش کی باوجود کوئی شخص یہ جرات نہیں کرسکتا کہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے حالانکہ اس امید کے نتیجے میں اللہ غفور و رحیم کی نافرمانی کرنے سے شرم آتی ہے ۔ جن لوگوں کے اندر رحمت خداوندی اور مغفرت خداوندی کے نتیجے میں مزید معصیت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے انہوں نے درحقیقت ایمان کی حقیقت مٹھاس کو پایا ہی نہیں ہے ۔ اس لئے نہ یہ بات میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ میں اسے تسلیم کرتا ہوں جو بعض صوفی کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کا ارتکاب اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کے صبر اور حلم کا مزہ چکیں یا اس کی مغفرت اور رحمت سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ سلیم الفطرت لوگوں کی سوچ نہیں ہے ‘ رحمت الٰہیہ کے لئے یہ ایک منفی رد عمل ہے ۔ اس حقیقت کو اس انداز میں پالینے کے بعد ایک مسلم کے ذہن میں بہت ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ وہ جانتا ہے کہ اسے اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کرنے ہیں ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس پر ہر طرف سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہورہی ہے اس کے باوجود کہ وہ پراز تقصیرات ہے اور اس سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ۔ اس طرح وہ خود بھی رحم اور شفقت کے انداز سیکھ لیتا ہے ‘ وہ معاف کرنا جانتا ہے ۔ وہ گناہوں اور غلطیوں سے درگزر کرتا ہے اور یہ بات ہمیں ان تعلیمات میں صاف صاف نظر آتی ہے جو حضور نے صحابہ کرام کو دیں اور یہ تعلیم آپ نے بذریعہ ” تخلق باخلاق اللہ “ دی ۔ اللہ کی رحمت کے مقامات میں سے ایک مقام یہ ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر یہ لکھ دیا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو ایک دن میدان حشر میں اٹھائے گا ۔ یہ آیت اس کا بھی فیصلہ کرتی ہے : (آیت) ” قُل لِّمَن مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ قُل لِلّہِ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ (٦ : ١٢) ” ان سے پوچھو ‘ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو سب کچھ اللہ کا ہے ‘ اس نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ (اسی لئے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی نہیں پکڑ لیتا) قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘ یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے ۔ “ اللہ کی اس تحریری رحمت کے دعوے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایک دن انہیں دوبارہ جمع کرے گا اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔ اور اس جمع کے بعد اللہ کی عنایات کا دور ہوگا اور یہ عنایات اللہ کی ان لوگوں پر ہونگی جو اس کی بندگی کریں گے ۔ اس لئے کہ اللہ نے انہیں پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی کی راہ اپنائیں ۔ انہیں اس زمین پر منصب خلافت صرف اسی مقصد کے لئے دیا گیا تھا ۔ انہیں بےمقصد نہیں پیدا کیا گیا اور نہ وہ یونہی چھوڑ دیئے گئے ۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس میں یہ سب لوگ جمع ہوں گے ۔ یہ وہ آخری ٹھکانا ہے جس کی طرف یہ لوگ اس طرح لوٹیں گے جس طرح ایک سواری اور قافلہ اپنی منزل مقصود کی طرف مسلسل بڑھتا ہے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزاء دے گا جنہوں نے اللہ کی طرف جانے کی صحیح راہ اختیار کی اور زندگی کے اس طویل سفر میں تکلیفات اٹھائیں ۔ دنیا میں انہوں نے جو اچھے اعمال کئے اور اب وہاں انہیں اس کا اجر ملے گا تاکہ ان کی مشقتیں اور تکالیف ضائع نہ جائیں بلکہ یوم آخرت میں انہیں ان کا اجر پورا دیا جائے گا ۔ یوں اللہ کی رحمتوں کے مظاہر میں سے ایک مظہر کا اظہار ہوگا ۔ قیامت میں اللہ کا جو فضل ہوگا کہ برائی کا بدلہ صرف برائی جیسا ہوگا جبکہ نیکی کے بدلے دس گناہ اجر ہوگا بلکہ اللہ چاہے تو اضعاف مضاعطہ ہوگا تو یہ بھی اللہ کی رحمت اور شفقت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہوگا ۔ اللہ نے عربوں پر دین اسلام کے ذریعے جو فضل وکرم کیا اور انہیں اس دین کے ذریعے جو باعزت مقام دیا وہ ان پر اللہ کا احسان عظیم ہے ۔ اس سے قبل عرب قیام قیامت کا انکار کرتے تھے ۔ وہ بعینہ اسی طرح کے تصورات رکھتے تھے جس طرح دور جدید کی مہذب جاہلیت کے افکار ہیں ‘ یعنی سائنسی جاہلیت ۔ یہی وجہ ہے کہ قیام قیامت کا ذکر اس قدر تاکیدی الفاظ میں کیا گیا اور اس تکذیب کے مقابلے میں اس قدر حروف تاکید لائے گئے ۔ (آیت) ” لیجمعنکم الی یوم القیمۃ لا ریب فیہ “۔ (٦ : ١٢) تمہیں قیامت کے دن اٹھایا اور جمع کیا جائے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ “ قیامت کے دن خسارہ صرف ان لوگوں کو ہوگا ‘ جو اس دنیا میں ایمان سے محروم رہیں گے ۔ اہل ایمان کو کوئی خسارہ نہ ہوگا ۔ جبکہ اہل کفر کو پورا پورا خسارہ ہوگا ۔ اس لئے کہ انہوں نے اپنی ذات ہی کو ہار دیا تو وہ کمائیں گے کیا ۔ انسان تو اپنی جان اور اپنے نفس کے لئے کماتا ہے ۔ اگر اس کا نفس اور اس کی زبان ہی چلی جائے تو وہ کمائی کس کے لئے کرے گا ۔ کس کے لئے کمائے گا ۔ (آیت) ” الذین خسروا انفسھم فھم لا یومنون “۔ (٦ : ١٢) ” مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کردیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ “ ۔ انہوں نے اپنی ذات ہی کو خسارے میں ہار دیا ۔ ان کی ذات اور شخصیت ہی چلی گئی ‘ چونکہ ان کے پاس کوئی شخصیت ہی نہ رہی لہذا ایمان کون لائے ۔ اہل کفر کی حالت کی یہ نہایت ہی لطیف اور حقیقت پسندانہ تعبیر ہے ۔ اس تعبیر کے اندر ایک نہایت ہی گہری فطری پکار ہے کہ ایمان لاؤ ۔ ایمان کی برکات میں سے ایک بڑی برکت یہ ہے کہ وہ تمہیں ایک ذات اور شخصیت عطا کرتا ہے ۔ یہ لوگ جو ایمان سے قبل اپنی شخصیت گم کر بیٹھے تھے ‘ ان کی فطرت مسخ ہوچکی گھی ان کی وہ صلاحتیں جو حق کو قبول کرتی ہیں ‘ ختم ہوگئی تھیں ‘ یا ان پر پردے پڑگئے تھے اس لئے وہ قبولیت حق کی صلاحیت کھو کر اپنی شخصیت اور شناخت کم کر گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایمان نہ لائے تھے اس لئے کہ ان کے پاس ان کی ذات اور شخصیت ہی نہ رہی تھی ۔ یہ ان کے عدم اطمینان اور کفر کی ایک نہایت ہی لطیف اور گہری تعبیر ہے ۔ حالانکہ دلائل ایمان موجود تھے اور ایسے اشارات موجود تھے کہ جن کی وجہ سے انسان حق کو قبول کرتا ہے اس امر نے ان کے معاملے میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کی ۔ یوں گویا وہ اپنی شخصیت سے ہاتھ دھو کر ایک عقیم خسارے سے دوچار ہوئے ۔ اب اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ لیل ونہار میں جو لوگ اور جو مخلوق ہے یعنی زمان میں ‘ وہ بھی اسی کی ملکیت ہے ۔ جس طرح پہلی آیات میں بتایا گیا تھا کہ جہاں اور جس جگہ میں جو متنفس ہے ‘ وہ اللہ کا مملوک ہے ۔ یوں یہ ملکیت زمان ومکان دونوں پر مشتمل ہوگئی ۔ اللہ کا علم تمام مخلوقات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ۔ (آیت) ” وَلَہُ مَا سَکَنَ فِیْ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (13) ” رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے ‘ سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ “ ّ (ماسکن) کی زیادہ قریب الفہم تفسیر یہ ہے کہ یہ لفظ سکنہ سے ہے ‘ جیسا کہ زمحشری نے کشاف میں لکھا ہے یعنی وہ تمام جو لیل ونہار میں پناہ لیتی ہیں یعنی تمام مخلوقات ۔ یہ سب مخلوق اللہ کی ملکیت میں ہے ۔ اس سے پہلی آیت میں بھی یہ قرار دیا گیا ہے ۔ (قل لمن ما فی السموت والارض قل للہ) (٦ : ١٢) اس آیت میں تمام مخلوقات کی حصر بلحاظ مکان تھی اب اس آیت میں (آیت) ” ولہ ما سکن فی الیل والنھار “۔ (٦ : ١٣) آیا ہے جس میں حصر بلحاظ زمان ہے ۔ قرآن کریم کا یہ معروف انداز بیان ہے ۔ ان آیات کی تفسیر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ میرے خیال میں یہ تاویل سب سے بہتر ہے کہ ایک آیت میں حصر زمانی اور دوسری میں حصر مکانی ہے ۔ اس کے بعد ایک تبصرہ یہ آتا ہے کہ اللہ سمیع وعلیم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے اعتبار سے بھی اللہ تمام مخلوقات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اس آیت کے جواب میں مشرکین جو بھی کہتے ہیں وہ اللہ کے علم میں ہے یعنی وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ اللہ وحدہ ہی مالک ہے ‘ اس کے باوجود وہ بعض مویشیوں ‘ انکے بچوں اور بعض پھلوں کو شرکاء کے لئے مخصوص کرتے تھے ۔ اس سورة کے آخر میں یہ بحث آرہی ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام مخلوقات پر اللہ کا حق ملکیت تسلیم کریں تاکہ بعد میں انہیں یہ سمجھایا جائے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض چیزیں تم شرکاء کے کھاتے میں کس کی اجازت سے ڈالتے ہو۔ جبکہ اسی فقرے میں آنے والی یہ بات بھی اس سے ثابت کرنا مطلوب ہے کہ جب مالک وہ ہے تو ولی اور حاکم بھی وہی ہے ۔ اور وہ اس لئے حاکم ہے کہ وہی مالک ہے ہر اس چیز کا جو زمان ومکان کے اندر ہے اور جو اللہ کے علم کے اندر ہے ۔ اب جب کہ یہ بات تسلیم ہوگئی کہ وہی خالق ہے اور وہی مالک ہے تو ان لوگوں پر سخت نکیر وتنقید کی جاتی ہے جو اللہ کے سوا کسی اور سے امداد طلب کرتے ہیں ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرتے ہیں اور کسی اور کو ولی اور حاکم بناتے ہیں ۔ چناچہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ یہ صورت حال اسلام سے متضاد ہے ۔ یہ صریح شرک ہے اور اسلام کے ساتھ اس کا یکجا جمع ہونا ممکن نہیں ہے ۔ یہاں اللہ کی صفات میں سے اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے فاطر السموت والارض ‘ رازق ومطعم ‘ نافع وضار اور قاہر و قادر کے الفاظ لائے جاتے ہیں ‘ جبکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ خوفناک سزا بھی دیتا ہے ۔ اس سے فضا پر ایک دم جلال باری تعالیٰ کے سائے پڑجاتے ہیں اور یہ انسان ڈر جاتا ہے اور یہ نہایت ہی زور دار انداز میں کہا جاتا ہے ۔ :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمانوں اور زمین میں سب اللہ ہی کا ہے وہ قیامت کے دن سب کو جمع فرمائیگا ان آیات میں اول تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا گیا کہ آپ ان سے پوچھ لیں کہ بتاؤ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے یہ کس کا ہے ؟ یہ سب کس کی مخلوق ہے ؟ اور کس کی ملکیت ہے ؟ اور ان سب میں کس کا تصرف ہے ؟ ... پھر فرمایا کہ آپ خود ہی جواب دیدیں کہ یہ سب چیزیں اللہ کی ہیں سب اس کے زیر تصرف ہیں جو بھی کوئی ذرا بہت اختیار اور اقتدار رکھتا ہے وہ سب اسی کا دیا ہوا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ اس نے ان سب کو پیدا فرمایا وہ سب پر مہربان بھی ہے۔ اس نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ وہ رحمت فرمائے گا۔ مومنین پر تو اس کی رحمت دنیا اور آخرت دونوں میں ہے، اور اہل کفر کے ساتھ بھی دنیا میں مہربانی کا معاملہ ہے۔ اور اگر وہ بغاوت چھوڑ دیں اور ایمان قبول کرلیں اللہ کے رسولوں ( علیہ السلام) اور اس کی کتابوں کی تکذیب سے باز آجائیں تو آخرت میں بھی ان پر رحم ہوگا۔ سورة اعراف میں فرمایا (قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ) (فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ میرا عذاب ہے میں جسے چاہوں پہنچا دوں، اور میری رحمت ہر چیز کے لئے عام ہے۔ سو میں اپنی رحمت کو لکھ دوں گا ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو ایک نوشتہ لکھا جو اس کے پاس عرش پر ہے اس میں لکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ (رواہ البخاری ج ٢ ص ١١٠١) نیز حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت نازل فرمائی جو جن اور انسان اور چوپائے اور زہریلے جانوروں میں بٹی ہوئی ہے اس ایک رحمت کے ذریعہ آپس میں ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ وحشی جانور تک اپنی اولاد پر مہربانی کرتے ہیں اور ننانوے رحمتیں اللہ نے رکھ لی ہیں جن کے ذریعہ قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ (رواہ البخاری) پھر فرمایا (لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (کہ اللہ تعالیٰ تم سب کو قیامت کے دن ضرور جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں جن لوگوں نے اپنے نفسوں کو خسارہ میں ڈالا وہ ایمان نہ لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنی مہربانی سے پیدا فرمایا وہ سب کی پرورش فرماتا ہے وہاں کے حساب و کتاب سے باخبر فرمایا لیکن جن لوگوں نے اپنے نفسوں کو خسارے میں ڈال لیا فطرت اصلیہ کو کھو دیا عقل سلیم سے کام نہیں لیا وہ اپنی جانوں کو ضائع کرچکے۔ اب ان کو ایمان لانا نہیں کوئی تو اپنے مال کو ضائع کرتا ہے ان لوگوں نے اپنی جانوں کو ضائع کردیا اور ایمان جیسی پونجی کو ہاتھ نہ لگنے دیا۔ (اَلَا ذَالِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14 یہ مسئلہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے لیکن علی سبیل الاعتراف من الخصم یعنی دلیل میں ایک ایسی حقیقت ذکر کی گئی ہے جسے مشرکین بھی مانتے تھے کہ جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے سب کا مالک اللہ ہی ہے۔ قُلْ لِّلّٰہِ یہاں ہمزہ استفہام تقریری مقدر ہے اصل میں تھا قُلْ اَ لِلّٰہِ ۔ مطلب یہ ہے کہ سب کچھ اللہ ... ہی کا ہے۔ کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ یعنی اللہ نے اپنی مخلوق پر رحم کرنا اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ لَیَجْمَعَنَّکُمْ الخ اِلیٰ بمعنی فی ہے اور یہ منکرین کیلئے تخویف اخروی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منکرین توحید سے فرمائیے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے یہ کس کی ملک ہے اور ان سب کا مالک کون ہی آپ جواب میں کہہ دیجیے یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے یعنی اول تو وہ خود ہی اس کا اعتراف کریں گے اور اگر خوف وغیرہ کی وجہ سے جواب میں پہلوتہی کریں ت... و آپ ہی کہہ دیجیے کہ یہ سب کچھ اس کی ملک ہے او ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم و مہربانی کا برتائو اپنے ذمہ الزم کرلیا ہے یعنی مہربانی اور رحم اس کا عام شیوہ ہے وہ اپنے بندوں پر عذاب میں جلدی نہیں کرتا یقینا وہ تم سب کو قیامت کے دن قبروں سے زندہ کر کے جمع کرے گا اور قیامت کے دن کی حالت یہ ہے کہ اس کے واقع ہونے میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں مگر ہاں جنہوں نے اپنی فطرت اور اپنی عقل سلیم کو ضائع کر کے اپنے آپ کو خسارے اور گھاٹے میں ڈال دیا ہے تو وہ ماننے والے نہیں یعنی وہ صحیح عقل سے کام ہی نہیں لیتے تو ایمان کس طرح لائیں گے۔  Show more