Commentary In the opening verse (12), قل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ the disbelievers have been asked as to who is the Master of the entire universe and all that it con¬tains. Then, Allah Himself gives the answer through the blessed words of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that Allah is the Master of all. The reason for answering the question, rather than waiting for the dis¬believers... to answer it, is that the answer given was an accepted fact with the disbelievers of Makkah as well, for they were, though in¬volved with Shirk and idolatry, no deniers of the fact that Allah Al-mighty was the Master of the heavens and the earth and everything they contained. The word, اِلٰی :ila (towards) in the next sentence: لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ He will surely gather you towards a day of doom) has been used either in the sense of tawaffa meaning to take in full, bring to a finish, or gather, (as in the translation of the meaning given here), in which case, it would mean that Allah Ta` ala will gather everyone, from the beginning to the end, on the day of Qiyamah - or, it could mean ` to gather in the graves,& in which case, it would mean that human beings will be kept being gathered into their resting places unto the day of Qiyamah when they will be raised back to life. (Qurtubi) As for the sentence: كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (He has prescribed for Himself to be merciful) appearing a little earlier in verse 12, a narration from Sayyidna Abu Hurairah (رض) in the Sahih of Muslim reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When Allah Ta` la made His creation, He made a promise to Himself in writing which is with Him, written in which are the words: اِنَّ رَحمَتِی تَغلِبُ عَلٰی غَضَبِی that is, ` My mercy shall remain dominant over My wrath.& (Qurtubi) The sentence which appears at the end of the verse: الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ (Those who have brought loss to themselves ... ) indicates that the dep¬rivation of the disbelievers from the universal mercy of Allah Almighty mentioned earlier was caused by their own deeds, for they did not take to the way which brings mercy - that is, the way of belief and faith. (Qurtubi) Show more
خلاصہ تفسیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان مخالفین سے بطور الزام حجت کے) کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملک ہے (اوّل تو وہ بھی یہی جواب دیں گے جس سے توحید ثابت ہوگی، اور اگر کسی وجہ سے مثل خوف مغلوبیت کے جواب نہ دیں تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ سب اللہ ... ہی کی ملک ہے (اور ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) اللہ تعالیٰ نے (اپنے فضل سے توبہ کرنے والوں کے ساتھ) مہربانی فرمانا اپنے ذمہ لازم فرما لیا ہے (اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ اگر تم نے توحید کو قبول نہ کیا تو پھر سزا بھی بھگتنا پڑے گی، کیونکہ) تم کو خدا تعالیٰ قیامت کے روز (قبروں سے زندہ اٹھا کر میدان حشر میں) جمع کریں گے (اور قیامت کی حالت یہ ہے کہ) اس کے آنے میں کوئی شک نہیں (مگر) جن لوگوں نے اپنے کو (یعنی اپنی عقل و نظر کو) ضائع (یعنی معطل) کرلیا ہے، سو وہ ایمان نہ لاویں گے (اور ان سے بطور اتمام حجت یہ بھی کہئے کہ) اللہ ہی کے ملک میں ہے جو کچھ رات میں اور دن میں رہتے ہیں، (اس کے اور اس سے پہلی آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مجموعہ کا حاصل یہ نکلا کہ جتنی چیزیں کسی مکان میں ہیں یا کسی زمان میں ہیں سب اللہ کی مملوک ہیں) اور وہی سب سے بڑا سننے والا جاننے والا ہے (پھر اثبات توحید کے بعد ان سے) کہئے کہ کیا اللہ کے سوا جو کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے ہیں اور جو (سب کو) کھانا کھلاتے ہیں اور ان کو کوئی نہیں کھلاتا (کیونکہ وہ کھانے پینے کی احتیاج سے بالاتر ہیں، تو کیا ایسے اللہ کے سوا) کسی کو اپنا معبود قرار دوں (آپ اس استفہام انکاری کی تشریح میں خود) فرما دیجئے (کہ میں غیر اللہ کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہوں جو عقل و نقل کے خلاف ہے) مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کرلوں (جس میں عقیدہ توحید بھی آگیا) اور (مجھ کو یہ کہا گیا کہ) تم مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔ معارف و مسائل آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں کفار سے سوال کیا گیا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کی تمام کائنات کا مالک کون ہے ؟ پھر خود ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ سب کا مالک اللہ ہے، کفار کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی جواب دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جواب کفار مکہ کے نزدیک بھی مسلم ہے وہ اگرچہ شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے مگر زمین و آسمان اور کل کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ میں لفظ الیٰ یا تو فی کے معنی میں ہے، اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب اولین و آخرین کو قیامت کے دن میں جمع فرما دیں گے، اور یا جمع فی القبور مراد ہے، تو مطلب یہ ہوگا کہ قیامت تک سب انسانوں کو قبروں میں جمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ روز قیامت میں سب کو زندہ کریں گے (قرطبی) كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو ایک نوشتہ اپنے ذمہ وعدہ کا تحریر فرمایا جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، جس کا مضمون یہ ہے : ان رحمتی تغلب علی غضبی، یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (قرطبی) اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اس میں اشارہ ہے کہ شروع آیت میں جو اللہ تعالیٰ کی عموم رحمت کا ذکر ہے کفار و مشرکین اگر اس سے محروم ہوئے تو وہ خود اپنے عمل سے محروم ہوئے، انہوں نے حصول رحمت کا طریقہ یعنی ایمان اختیار نہیں کیا (قرطبی) Show more