Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 121

سورة الأنعام

وَ لَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمۡ یُذۡکَرِ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۲۱﴾٪  1

And do not eat of that upon which the name of Allah has not been mentioned, for indeed, it is grave disobedience. And indeed do the devils inspire their allies [among men] to dispute with you. And if you were to obey them, indeed, you would be associators [of others with Him].

اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of what was Slaughtered in other than Allah's Name Allah says; وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ... Eat not of that on which Allah's Name has not been pronounced, for surely it is disobedience. This Ayah is used to prove that slaughtered animals are not lawful when Allah's Name is not mentioned over them -- even if slaughtered by a Muslim. The Ayah about hunting game, فَكُلُواْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُواْ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهِ (So eat of what they (trained hunting dogs or birds of prey) catch for you, but pronounce the Name of Allah over it), (5:4) supports this. The Ayah here emphasized this ruling, when Allah said, وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ (for surely it is disobedience). They say that "it" refers to eating it, and others say that it refers to the sacrifice for other than Allah. There are various Hadiths that order mentioning Allah's Name when slaughtering and hunting. The Hadith narrated by Adi bin Hatim and Abu Thalabah (that the Prophet said); إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ وَذَكْرتَ اسْمَ اللهِ عَلَيْهِ فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْك When you send your trained hunting dog and mention Allah's Name on releasing it, then eat from whatever it catches for you. This Hadith was collected in the Two Sahihs. The Rafi bin Khadij narrated that the Prophet said; مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ فَكُلُوه You can use what would make blood flow (i.e., slaughter) and you can eat what is slaughtered and the Name of Allah is mentioned at the time of slaughtering. This Hadith was also collected in the Two Sahihs. Ibn Mas`ud narrated that Allah's Messenger said to the Jinns. لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْه (For food) you have every bone on which Allah's Name was mentioned on slaughtering. Muslim collected this Hadith. Jundub bin Sufyan Al-Bajali said that the Messenger of Allah said, مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ الله Whoever slaughtered before he prayed (the `Id prayer), let him slaughter another sacrifice in its place. Whoever did not offer the sacrifice before we finished the prayer, let him slaughter and mention Allah's Name. The Two Sahihs recorded this Hadith. The Devil's Inspiration Allah said, ... وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَأيِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ... And certainly, the Shayatin do inspire their friends to dispute with you, Ibn Abi Hatim recorded that Abu Ishaq said that; a man said to Ibn Umar that Al-Mukhtar claimed that he received revelation. So Ibn Umar said, "He has said the truth," and recited this Ayah, وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَأيِهِمْ (And certainly, the Shayatin do inspire their friends...). Abu Zamil said, "I was sitting next to Ibn Abbas at a time when Al-Mukhtar bin Abi Ubayd was performing Hajj. So a man came to Ibn Abbas and said, `O Ibn `Abbas! Abu Ishaq (Al-Mukhtar) claimed that he received revelation this night.' Ibn Abbas said, He has said the truth.' I was upset and said, `Ibn Abbas says that Al-Mukhtar has said the truth.' Ibn Abbas replied, `There are two types of revelation, one from Allah and one from the devil. Allah's revelation came to Muhammad, while the Shaytan's revelation comes to his friends.' He then recited, وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَأيِهِمْ (And certainly, the Shayatin do inspire their friends...). We also mentioned Ikrimah's commentary on the Ayah, يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (Inspiring one another with adorned speech as a delusion). (6: 112) Allah said next, لِيُجَادِلُوكُمْ (to dispute with you), Ibn Jarir recorded that Ibn Abbas commented; وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ (Eat not of that on which Allah's Name has not been mentioned...) until, لِيُجَادِلُوكُمْ (...to dispute with you), "The devils inspire their loyal supporters, `Do you eat from what you kill but not from what Allah causes to die"' As-Suddi said; "Some idolators said to the Muslims, `You claim that you seek Allah's pleasure. Yet, you do not eat what Allah causes to die, but you eat what you slaughter.' Allah said, وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ (and if you obey them...), and eat dead animals, إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ then you would indeed be polytheists." Similar was said by Mujahid, Ad-Dahhak and several others among scholars of the Salaf. Giving Preference to Anyone's Saying Over the Legislation of Allah is Shirk Allah's statement, ... وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ and if you obey them, then you would indeed be polytheists. means, when you turn away from Allah's command and Legislation to the saying of anyone else, preferring other than what Allah has said, then this constitutes Shirk. Allah said in another Ayah, اتَّخَذُواْ أَحْبَـرَهُمْ وَرُهْبَـنَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللَّهِ They (Jews and Christians) took their rabbis and their monks to be their lords besides Allah. (9:31) In explanation of this Ayah, At-Tirmidhi recorded that; Adi bin Hatim said, "O Allah's Messenger! They did not worship them." The Prophet said, بَلَى إِنَّهُمْ أَحَلُّوا لَهُمُ الْحَرَامَ وَحَرَّمُوا عَلَيْهِمُ الْحَلَلَ فَاتَّبعُوهُمْ فَذَلِكَ عِبَادَتُهُمْ إِيَّاهُم Yes they did. They (monks and rabbis) allowed the impermissible for them and they prohibited the lawful for them, and they followed them in that. That was their worship of them.

سدھائے ہوئے کتوں کا شکار یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا ، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر ، اس کی دلیل آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) ہے یعنی جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھا لو اور اللہ کا نام اس پر لو ، اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ یہ کھلی نافرمانی ہے یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ، احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے آپ فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لئے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے اور حدیث میں ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو ، جنوں سے حضور نے فرمایا تھا تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے ، عید کی قربانی کے متعلق آپ کا ارشاد مروی ہے کہ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کر لے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر ے ، چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو ، الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قومی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ نے بھی سمجھا کر بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں؟ تو حضور نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تا کہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے ، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہو گا ، دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہ کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر ، کوئی حرج نہیں ۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام:145 ) بقول عطا ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممکن کی گئی ، اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ ( وانہ ) میں واؤ حالیہ یہ ۔ تو فسق فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا ، لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے ( وان الشیاطین ) سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ تو یقینا عاطفہ جملہ ہے ۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہو گا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہو جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس کا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو ۔ اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں حضور کا فرمان ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا ۔ اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ نے اجازت دی تو اگر بم اللہ کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور تحقیق کرنے کا حکم دیتے ، تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو ذبیحہ پر عمداً بسم اللہ نہ کہی جائے وہ حرام ہے اسی لئے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ، امام شافعی سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس حضرت ابو ہریرہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا اس سے اختلاف ہے ۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے واللہ اعلم ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھا لے ۔ یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبید اللہ خرزمی کی ہے ، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس سے موقوف روایت کرتے ہیں ۔ بقول امام بہیقی یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ شعبی اور محمد بن سیرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔ واللہ الموفق ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہو گئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھا لو ، پھر محمد بن سیرین سے یہی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے لیکن اس میں ضعف ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے ( یعنی وہ حلال ہے ) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے ، مردان بن سالم ابو عبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے ، واللہ اعلم ، میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے ، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہو گیا تو وہ حرما نہیں ہوتا ( واللہ اعلم مترجم ) عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے پھر فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے ۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔ ابن عباس کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو آنحضرت کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں ۔ چنانچہ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں؟ اس پر یہ آیت اتری اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے ۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھا لو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور ۔ اس پر یہ آیت اتری ، پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لئے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ، مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے ، اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرمایا اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قران کریم میں ہے آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:31 ) یعنی انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے ، ترمذی میں ہے کہ جب حضرت عدی بن حاتم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ نے فرمایا انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121۔ 1 یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے، حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَ اِنَّہُ لَفِسْق، ُ کو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں 121۔ 2 شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مرگیا (سوائے سمندری مچھلی کے وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] جس چیز پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے وہ قرآن کی متعدد آیات کی تصریح کے مطابق حرام ہے اور جس پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نیز اس کی دلیل سیدہ عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ ہمارے پاس لوگ گوشت بیچنے آجاتے ہیں۔ وہ نیا نیا اسلام لائے ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں لیا تھا ؟ آپ نے فرمایا && تم خود بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اسے کھالیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید والتسمیہ۔ باب ذبیحہ الاعراب و نحو ہم) نیز دیکھئے اسی سورة کی آیت نمبر ١٣٨ کا حاشیہ۔ [١٢٧] عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے && کیا جس چیز کو ہم خود ماریں (ذبح کریں) اسے تو کھا لیں اور جسے اللہ مارے (یعنی مرجائے) اسے نہ کھائیں ؟ && اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٢٨] حلت وحرمت کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ یعنی شرک صرف یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی پرستش کی جائے یا اسے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جائے یا اس کے نام کی قربانی یا نذر و نیاز دی جائے بلکہ اللہ کے سوا کسی کے حلال بتائے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کو حرام سمجھنا بھی شرک ہی ہوتا ہے کیونکہ حلال و حرام ٹھہرانے کے جملہ اختیارات صرف اللہ کو ہیں چناچہ جب یہ آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀) 9 ۔ التوبہ :31) نازل ہوئی تو عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) کہنے لگے && یا رسول اللہ ! ہم لوگ اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ نے عدی سے پوچھا : کیا جس چیز کو وہ حلال کہتے یا حرام کہتے تو تم ان کی بات مان لیتے تھے ؟ عدی کہنے لگے : ہاں ! یہ تو تھا۔ آپ نے فرمایا : بس یہی رب بنانا ہے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وہ یہودیوں کی اس طرح کی گمراہ کن اور شرک میں مبتلا کرنے والی چالوں میں نہ آئیں اور اگر انہوں نے یہود کا کہنا مان لیا تو وہ بھی مشرک ہی بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ : پہلے اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ کے نام کا ذبیحہ حلال ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے، اس میں مردار اور وہ جانور تو آیت کے صاف الفاظ میں داخل ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے ہوں اور آیت گو لفظ عام ہونے کی وجہ سے ہر اس چیز کو شامل ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، خواہ وہ کھانے کی کوئی بھی چیز ہو، مگر فقہاء نے اس سے بالاجماع ذبیحہ مراد لیا ہے۔ (رازی) یاد رہے ! اگر کسی ذبیحہ پر جان بوجھ کر اللہ کا نام ترک کردیا جائے تو وہ اکثر فقہاء کے نزدیک حرام ہے، مگر جب مسلمان ذبح کرتے وقت ” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ “ بھول جائے تو اس کا کھانا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے خطا اور نسیان معاف کردیا ہے۔ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭ: یعنی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا فسق ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٤٥) ۔ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ ۔۔ : دیکھیے اسی سورت آیت کی (١١٣) کا حاشیہ (٢) ۔ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ : اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے والا بھی مشرک ہے، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنا لیا، یعنی تحلیل و تحریم کا حق کسی اور کے لیے تسلیم کرلیا، جب کہ یہ صرف اللہ کا حق ہے۔ (رازی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے اللہ کے پوجے، بلکہ شرک حکم میں بھی ہے کہ کسی اور کا مطیع ہو وے۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۝ ١٢١ ۧ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو وحی( اشاره) وإمّا بإلقاء في الرّوع کما ذکر عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» «2» ، وإمّا بإلهام نحو : وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ، وإمّا بتسخیر نحو قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] أو بمنام کما قال عليه الصلاة والسلام : «انقطع الوحي وبقیت المبشّرات رؤيا المؤمن» فالإلهام والتّسخیر ( و ح ی ) الوحی وحی کی تیسری صؤرت القاء فی لروع کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دیتا جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ۔ اور کبھی وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیر ی ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا : ۔ اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر بیشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ذبیحہ پر ترک تسمیہ اور اقوال فقہاء قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے) آیت میں اسے جانور کا گوشت کھانے کی ممانعت ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسلمان ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اگر بھول کر بسم اللہ چھوڑ دے تو اس کا گوشت کھالیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں گوشت کھالیا جائے گا۔ اوزاعی سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ جو شخص بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو ایسے ذبیحہ کے گوشت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض)، حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، عطاء، سعید بن المسیب، ابن شہاب اور طائوس سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا گوشت کھا لینے میں کوئی حرک نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ ایسا ذبیحہ ملب اسلامیہ کے مطابق ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے۔ آپ کا یہ قول بھی ہے کہ جس طرح شرک کی صورت میں اللہ کے نام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسی طرح ملت اسلامیہ پر ہوتے ہوئے اللہ کا نام بھول جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ عطاء کا قول ہے کہ المسلم ، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے مسلمان کے نام المسلم میں، خود اللہ کا نام کا ذکر موجود ہے، المومن بھی اللہ کا ایک نام ہے اس لیے ذبح کرنے والے کے نام المومن میں اللہ کے نام کا ذکر موجود ہے۔ ابن عمر (رض) کا خیال ابو خلاد الصم نے ابن عجلان سے روایت کی ہے، انہوں نے نافع سے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے ایک غلام سے جب و جانور ذبح کرنے لگا، فرمایا ” اللہ کے بندے، بسم اللہ پڑھ لو “ غلام نے جواب دیا ” میں نے پڑھ لیا ہے “۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے پھر یہی کہا، اس نے پھر یہی جواب دیا، تیسری دفعہ بھی آپ نے اس سے یہی کہا اور اس نے یہی جواب دییا۔ جب اس نے جانور ذبح کرلیا تو حضرت ابن عمر (رض) نے اس کا گوشت نہیں کھایا۔ یونس بن عبید نے قریش کے ایک آزاد کردہ غلام سے روایت کی ہے ، اس نے اپنے والد سے ، کہ وہ حضرت ابن عمر (رض) کے ایک غلام کے پاس سے گزرے تھے جو ایک قصاب کی دکان پر کھڑا تھا۔ قصاب نے ایک بکری ذبح کی تھی لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تھا ۔ حضرت ابن عمر (رض) نے اسے وہاں کھڑا کر کے یہ حکم دیا تھا کہ جب کوئی شخص گوشت خریدنے آئے تو اسے میری طرف سے کہہ دینا کہ اس شخص نے بکری درست طریقے سے ذبح نہیں کی ہے اس لیے اس کا گوشت نہ خریدو ۔ شعبہ نے حماد سے روایت کی ہے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ایک شخص جانور ذبح کرتا ہے لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا ہے تو مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ایسے جانور کے گوشت کی تحریم کی موجب ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو خواہ جان بوجھ کر نہ لیا گیا ہو یا بھول جانے کی بنا پر ایسا ہوا ہو۔ تا ہم ہمارے پاس ایسی دلالت موجود ہے جو یہ نشاندہی کرتی ہے کہ آیت میں نسیان مراد نہیں ہے ۔ یعنی نسیان کی بناء پر اگر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس سے گوشت کی حلت پر کوی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ جو لوگ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں بھی اس ذبیحہ کے گوشت کی حلت کے قائل ہیں ان کا قول آیت کے خلاف ہے۔ آیت کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایسے لوگوں کے پاس کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ علاوہ ازیں یہ قول ان تمام آثار و روایات کے خلاف جاتا ہے جس میں شکار اور ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا ایجاب مروی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں نہی کے حکم سے وہ جانور مراد ہیں جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو شریک نے سماک بن حرب سے نقل کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آپ نے فرمایا ” مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ جس جانور کو تمہارا رب قتل کر دے اور وہ مرجائے اس کا گوشت تو تم نہیں کھاتے ہو لیکن جو جانور تم خود قتل کر دو اور ذبح کر تو اس کا گوشت کھالیتے ہو “۔ اس پر اللہ تعالیٰ ن یہ آیت نازل فرمای۔ ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد مردار ہے۔ اس پر سلسلئہ تلاوت میں یہ قول بارب بھی دلالت کرتا ہے۔ ( لیوحون الیٰ اولیاء ھم لیجادلوکم۔ شیاطین ساتھیوں کے دلوں میں شکوک اور اعتراضات القا کرتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑا کریں) جب یہ آیت مردار نیز ان جانوروں کے بارے میں ہے جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے تو اس کا حکم ان ہی صورتوں تک محدود رہے گا۔ اس میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور داخل نہیں ہوں گے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر آیت کا نزول کسی خاص سبب کے تحت ہوا ہو تو اس سے اس کے حکم کو اسی سبب کے اندر محدود کردینا لازم نہیں آتا بلکہ حکم کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے جب کہ حکم میں سبب سے بڑھ کر عموم موجود ہو۔ اگر آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح شدہ جانور مراد ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا ان کا ضرور ذکر کرتا۔ اور صرف ترک تسمیہ کے ذکر پر اقتصار نہ کرتا۔ جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین اپنے ذبائح پر اللہ کا نام لے بھی لیں پھر بھی ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ علاوہ ازیں آیت میں مشرکین کے دبائح مراد ہی نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کسی صورت میں بھی نہیں کھایا جاتا خواہ انہوں نے ان پر اللہ کا نام لیا ہو یا نا لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کی تحریم کو منصوص طریقے سے بیان کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے ( وما ذبح علی النصب اور ایسا جانور جو کس آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) نیز اگر آیت میں مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہوں پھر بھی ترک تسمیہ کی بناء پر ذبح کے عدم جواز پر آیت کی دلالت قائم رہے گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ترک تسمیہ کو ذبح ہونے والے جانور کے مردار ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہر ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ مردار ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت بھی منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں تسمیہ مراد ہے۔ کافر کا ذبیحہ مراد نہیں ہے۔ یہ روایت اسرائیل نے سماک سے کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ انہوں نے قول باری ( وان الیاطین لیوحون الی اولیاء ھم) کی تفسیر میں فرمایا : ” مشرکین کہا کرتے تھے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے گا اس کا گوشت نہ کھائو، اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس کا گوشت کھالو۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ مشرکین کی طرف سے جھگڑا ترک تسمیہ کے بارے میں تھا، جبکہ آیت کا نزول تسمیہ کے ایجاب کے سلسلہ میں ہوا۔ اس کا نزول نہ تو مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کے بارے میں ہوا اور نہ مردار ہی کے بارے میں۔ جان بوجھ کر ترک تسمیہ کی بنا پر ذبح کا عمل فاسد ہوجاتا ہے اس پر یہ قول باری ( یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو) تا قول باری ( واذکروا اسم اللہ علیہ ۔ البتہ اس پر الہل کا نام لے لو) یہ تو واضح ہے کہ آیت میں صیغہ امر ہے جو ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ کھانے والے پر اللہ کا نام لینا واجب نہیں ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ شکار کے دوران اللہ کا نام لینا مراد ہے۔ آیت میں جن سائلین کا ذکر ہے وہ سب مسلمان تھے انہیں شکار کا گوشت کھانے کی تسمیہ کی شرط پر اجازت دی گئی اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : ( فاذکرو اسم اللہ علیھا صواف۔ تم انہیں کھڑے کر کے ان پر اللہ کا نام لیا کرو) یعنی انہیں سخر یعنی ذبح کرنے کی حالت میں اس لیے قول باری ہے ( فاذا وجبت جنوبھا۔ پس جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں) حرف فاء تعقیب کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت عدی (رض) حاتم کی حدیث دلالت کرتی ہے ۔ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا تھا ( اذا رسلت کلبک المعلم وذکرت اسم اللہ علیہ فکل اذا سمک علیک، وان وجدت معہ کلیا اخروقد قتلہ لا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علیٰ کلبک ولم تذکرہ علی غیرہ۔ جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور اس پر اللہ کا نام لے لو۔ تو اس شکار کا گوشت کھالو جب کتا وہ شکار تمہارے لیے پکڑ رکھے ۔ اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا دیکھو جبکہ شکار قتل ہوچکا ہو تو اس کا گوشت نہ کھائو۔ اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر اللہ کا نام لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا) حضرت عدی (رض) مسلمان تھے۔ آپ نے انہیں کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا تھا اور بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں انہیں یہ کہہ کر شکار کا گوشت کھانے سے روک دیا تھا کہ ( فلا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علی کلب، تو نہ کھا اسے بیشک تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے) زیر بحث آیت اس جانور کا گوشت کھانے سے نہی کی مقتضی ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور ترک تسمیہ سے نہی کی بھی مقتضی ہے۔ اس نہی کی تاکید پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( وانہ لفسق ایسا کرنا فسق ہے) یہ حکم دونوں صورتوں کی طرف راجع ہے یعنی ترک تسمیہ کی طرف اور اکل کی طرف بھی۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہاں وہ صورت مراد ہے جس میں جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو اس لیے کہ بھول جانے والے انسان کو فسق کا نشان لگانا درست نہیں ہوتا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے عبدالعزیز الدر اور دی نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کہ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عر کیا ” جب ہم بدوئوں کے ہاں رات گزارتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کھانے میں گوشت پیش کرتے ہیں چونکہ کفر سے ان کا زمانہ قریب ہے، اس لیے ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ آیا انہوں نے جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھا ہے یا نہیں “۔ آپ نے جواب میں فرمایا ( سموا علیہ اللہ وکلوا، اس پر اللہ کا نام لے کر اسے کھالو) اگر تسمیہ ذبح کی شرط نہ ہوتی تو آپ سائلین سے یہ فرماتے کہ ” ترک تسمیہ سے تم پر گوئی گناہ لازم نہیں آتا “ لیکن آپ نے انہیں کھانے کا حکم دیا۔ اس لیے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کو جواز اور صحت پر محمول کیا جاتا ہے۔ فساد اور عدم جواز پر کسی دلالت کی بنا پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں اگر کسی مسلمان کا ترک تسمیہ مراد ہوتا تو جو شخص ایسے گوشت کا کھانا مباح سمجھتا ہے وہ ضرور فاسق کہلاتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ( وانہ لفسق) اب جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے والا مسلمان فسق کی علامت کا مستحق قرار نہیں پاتا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ آیت میں ترک تسمیہ مراد نہیں ہے بلکہ مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر قول باری (وانہ لفسق) مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کی طرف راجع ہے۔ اگر ان میں سے بعض کی تخصیص پر دلالت قائم ہوجاتی ہے تو یہ دلالت ذبیحہ کے سلسلے میں مسلمان پر تسمیہ کے ایجاب کے بارے میں آیت کے حکم کے بقا کے لیے مانع نہیں ہوگی۔ نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص تسمیہ کے وجوب کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اسے جان بوجھ کر ترک کردیتا ہے وہ فاسق ہے، اسی طرح اس شخص پر بھی فسق کی علامت چسپاں ہوجائے گی جو اس اعتقاد کے باوجود اس قسم کے ذبیہ کا گوشت کھالے گا اس لیے کہ تسمیہ ذبح کی شرط ہے لیکن جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ اس حکم کا تعلق مردار سے ہے یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں سے ہے۔ مسلمانوں کے ذبائح سے نہیں ہے وہ فاسق نہیں کہلائے گا اس لیے کہ آیت کے حکم کی تاویل کی بناء پر اس سے فسق کی علامت زائل ہوجائے گی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب تسمیہ ایک ذکر کا نام ہے ذبح کے عمل کے دوران اور اس کی انتہا پر اس کا موجود ہونا واجب نہیں ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ابتداء میں بھی یہ واجب نہ ہو، اگر یہ واجب ہوتا تو پھر جان بوجھ کر ترک کرنے والے اور بھول کر ترک کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جس قیاس کا ذکر کیا ہے وہ محض ایک دعویٰ ہے۔ اس قیاس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایمان، شہادتین، تبلیہ اور استیذان وغیرہ کی صورتوں میں اس قیاس کا انتقاض لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ان امور میں نہ بقا کے دوران وجوب ہے اور نہ ہی انتہاء میں لیکن اس کے باوجود ابتداء میں اس کا وجوب ہے۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ بھول کر اگر بسم اللہ پڑھنا رہ جائے تو یہ ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس میں عمداً ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب ہے، بھول کر ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب نہیں ہے۔ سلسلہ تلاوت میں قول باری ( وانہ لفسق) بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔ فسق اس شخص کی صفت نہیں بن سکتا جو بھول کر تک تسمیہ کا مرتکب بنا ہو، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بھول جانے والا شخص نسیان کی حالت میں بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ اوزاعی نے عطاء بن ابی رباح سے۔ انہوں نے عبید بن عمیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( تجاوز اللہ عن امنی الخطاء والنسیان وما اسکرھوا علیہ ۔ اللہ نے میری امت سے خطاء اور نسیان کی بنا پر سززد ہونے والے افعال کا گناہ معاف کردیا ہے۔ اسی طرح اس فعل کا گناہ بھی جس پر مجبور کیا گیا ہو) جب بھول جانے والا شخص بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں تھا تو اس نے گویا ذبح کا عمل اسی طریقے پر سرانجام دیا جس کا اسے حکم ملا تھا اس لیے ترک تسمیہ اس کے اس عمل کو فاسد نہیں کرے گا۔ اس پر دوبارہ ذبح کے عمل کو لازم کرنا درست نہیں ہوگا اس لیے کہ اس عمل کو دوبارہ بروئے کار لانے کا وقت نہیں رہا ۔ بھول کر ترک تسمیہ کی صورت نماز میں تکبیر تحریمہ یا وضو وغیرہ بھول جانے کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ نماز کی صورت میں اسے یہ باتیں یاد آ جانے پر ایک اور فرض اس پر لازم ہوجاتا ہے لیکن ذبح کی صورت میں بھول جانے والے پر کسی اور فرض کا لزوم درست نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت تک ذبح کا محل و مقام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بسم اللہ پڑھنا اگر شرعی ذبح کی شرط ہوتا تو نسیان کی بنا پر اس کا سقول لازم نہ آتا جس طرح ذبح کرنے والا اوداج یعنی گردن کی رگیں نہ کاٹے تو ذبح کا عمل واقع نہیں ہوتا۔ یہ سوال دونوں گروہوں سے کیا جاتا ہے جو لوگ سرے سے تسمیہ کو ساقط کردینے کے قائل ہیں ان سے بھی اور جو لوگ نسیان کی حالت میں اسے واجب کرتی ہیں ان سے بھی ، جو لوگ تسمی کے اسقاط کے قائل ہیں وہ ہمارے خلاف یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہم سب نسیان کی حالت میں متفقہ طور پر ترک تسمیہ کے جواز کے قائل ہیں جبکہ نسیان ذبح کی شرطوں کو ساقط نہیں کرتا۔ جس طرح ذبح کے عمل میں اوداج کو قطع نہ کرنے سے عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذکاۃ یعنی ذبح میں تسمیہ شرط نہیں ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے اقئل ہیں وہ اسے اس صورت میں مشابہ قرار دیتے ہیں ججس میں ذبح کرنے والا حلقوم اور گردن کی رگیں بھول کر یا جان بوجھ کر نہ کاٹے۔ یہ بات ذبح کی صحت کے لیے مانع ہوتی ہے جن لوگوں نے بسم اللہ پڑھنے کی فرضیت کو سرے سے ساقط کردیا ہے ان سے وہ سوال درست نہیں ہے جو معترض نے اٹھایا ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے خیال میں ترک کلام نماز میں فرض ہے۔ اسی طرح وضو کرنا بھی نماز کا ایک فرض ہے۔ یہ دونوں چیزیں نماز کی شرائط میں داخل ہیں۔ پھر ان لوگوں نے بھول کر وضو نہ کرنے والے اور بھول کر نماز میں گفتگو کرنے والے کے درمیان فرق کیا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں نماز نہیں ہوگی اور دسوری صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی بلکہ درست ہوجائے گی اسی طرح روزے کی صحت کے لیے نیت شرط ہے نیز کھانا پینا چھوڑے رکھنا بھی روزے کی صحت کی شرط ہے ۔ اگر ایک شخص بھول کر روزے کی نیت نہیں کرتا تو اس کا روزہ درست نہیں ہوگا لیکن اگر وہ بھول کر کھا لیتا ہے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ یہ سوال سائل کے بیان کردہ اصل اور قاعدہ کی روشنی میں منتقض ہوجاتا ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے قائل ہیں اور انہوں نے اس پر گردن کی رگوں کے ترک قطع سے استدلال کی اے ان سے بھی یہ سوال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ گردن کی رگوں کو کاٹ دینا ہی ذبح کی صورت ہے جو جانور کی طبعی موت کے منافی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ذبیحہ اور مردار کے درمیان فرق واقع ہوتا ہے۔ اس عمل کے لیے تسمیہ کی شرط اس بناء پر نہیں ہے کہ یہ نفس ذبح ہے یعنی بسم اللہ پڑھنا ہی ذبح کا عمل کہلاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یاد ہونے کی صورت میں ذبح کرنے والا اس کے پڑھنے کا پابند ہے۔ یاد نہ وہنے کی صورت میں وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ اس لیے نسیان کی بناء پر بسم اللہ نہ پڑھنا شرعی جواز کے وجود میں آ جانے کے لیے مانع نہیں بنا۔ اس بنا پر یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢١ (وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ ط) ۔ اس آیت کا تعلق بھی مشرکین عرب کے خود ساختہ اعتقادات اور توہمات سے ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام سرے سے لینا ہی نہیں چاہیے۔ یہ حکم ایک خاص مسئلے کے حوالے سے ہے ‘ جس کی وضاحت آگے آیت ١٣٨ میں آئے گی۔ (وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ) ۔ مشرکین مکہ اپنے غلط اعتقادات کی حمایت میں طرح طرح کی حجت بازی کرتے رہتے تھے ‘ مثلاً یہ کیا بات ہوئی کہ جو جانور اللہ نے مارا ہے یعنی ازخود مرگیا ہے وہ تو حرام قرار دے دیاجائے اور جس کو تم خود مارتے ہو یعنی ذبح کرتے ہو اس کو حلال مانا جائے ؟ اسی طرح وہ سود کے بارے میں بھی دلیل دیتے تھے کہ (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ٧) (البقرۃ : ٢٧٥) کہ یہ بیع بھی تو ربا (سود) ہی کی طرح ہے۔ جیسے تجارت میں نفع ہوتا ہے ایسے ہی سودی لین دین میں بھی نفع ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دس لاکھ کسی کو قرض دیے ‘ اس سے چار ہزار روپے ماہانہ منافع لے لیا تو وہ ناجائز اور دس لاکھ کا مکان کسی کو کرائے پردے کر چار ہزار روپے ماہانہ اس سے کرایہ لیا جائے تو وہ جائز ! اس طرح کے اشکالات بظاہر بڑے دلنشین ہوتے ہیں ‘ جن کے بارے میں یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کے شیاطین انہیں سکھاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلہ کریں ‘ تاکہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گمراہی کے راستے پر لے چلیں۔ لہٰذا تم ان کی اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہا کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86. It has been reported in a tradition transmitted by 'Abd Allah b. 'Abbas that the Jewish religious scholars used to prompt the ignorant people of Arabia to address many enquiries to the Prophet (peace be on him) so as to discredit him. One of the questions they taught them to ask was: 'Why is it that an animal killed by (the act of) God should be deemed prohibited, while one killed by us is considered lawful?'This is a common example of the warped mentality of the People of the Book. They strained their minds to contrive such questions so as to create doubts in people's minds and to provide them with intellectual weapons in their fight against the Truth. 87. To acknowledge the overlordship of God, yet to follow at the same time the orders and ways of those who have turned away from Him, amounts to associating others with God in His divinity. True belief in the unity of God consists in orienting one's entire life to the obedience and service of God. Those who believe that any other being besides God is to he acknowledged in principle as having an independent claim on man's unreserved obedience should know that such acknowledgement amounts to associating others with God in His divinity at the level of belief. On the other hand, if they actually do obey those who, in sheer disregard of God's guidance and injunctions, arrogate to themselves the right to declare according to their whims certain things to be lawful and others to be unlawful, and to bid and forbid people as they please, this amounts to associating others with God in His divinity at the level of action.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :86 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ علمائے یہود جہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“ ۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیت کا جو ان نام نہاد اہل کتاب میں پائی جاتی تھی ۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شبہات ڈالیں اور انہیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :87 یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے ۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو ۔ اللہ کے ساتھ اگر دوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے ، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر و نہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:121) فسق۔ اصلاح شریعت میں فسق کے معنی ہیں۔ حدود شریعت سے نکل جانا۔ گناہ کرنا۔ عموماً عملی گناہ کو فسق کہتے ہیں۔ اور ضروریات دین کے انکار کو کفر۔ عربی میں ہے فسقت الرطبۃ عن قشرھا۔ کھجور اپنے چھلکے سے باہر نکل آئی۔ فاسق بھی خیر سے باہر نکل آتا ہے۔ یوحون۔ مضارع جمع مذکر غائب ایحاء (افعال) مصدر۔ وہ وحی کرتے ہیں ۔ وہ دل میں ڈالتے ہیں۔ وہ وسوسہ ڈالتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمادیا کہ اللہ تعالیے نام کا ذبیحہ حلال ہے اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے اس میں میتہ اور وہ جانور یا لتنصیص داخل ہیں جو بتوں کے نام پر ذبح کئے گئے ہوں اور آیت گو اپنے عموم کے اعتبار سے ہر اس چیز کو شامل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو مگر فقہا نے بالا جماع اس سے ذبیحہ مراد لیا ہے (رازی) مسئلہ اگر کسی ذبیحہ پر عمدا اللہ تعالیٰ کا نام ترک کردیا جائے تو وہ اکثر فقہا نے کے نزدیک حرام مگر جب مسلمان ذبح کرتے وقت بسم للہ بھول جائے تو کھا جائز ہے۔8 یعی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا) دیکھئے 415)9 اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلا قرار دینے والا بھی مشرک ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنالیا ، (کبیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے خدا کے پوجے بلکہ شرک کے حکم میں بھی ہے کہ اور کا مطیع ہوئے، ( موضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی مالم یذکراسم اللہ علیہ کا کھانا بےحکمی ہے۔ 6۔ یعنی ان کی اطاعت ایسی بری چیز ہے اس لیے اس کے مقدمات یعنی التفات سے بھی بچنا چاہیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مردار اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور کھانے، سے آدمی کا ضمیر اور ایمان مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں ان دونوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی زندگی دو عناصر پر مشتمل ہے جسم کو قائم رکھنے کے لیے بہتر فضا اور اچھی غذا کی ضرورت ہے۔ روح کو بیدار اور صحت مند رکھنے کے لیے گناہوں سے اجتناب اور کفرو شرک سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ خوراک اور آب و ہوا مناسب نہ ہو تو جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ روح کی خوراک، اچھے اعمال اور عقیدۂ توحید ہے۔ جس قدر آدمی کے اعمال اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگا اتنی ہی اس کی روح کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود انسان روحانی طور پر مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں مردار خوری اور غیر اللہ کے نام وقف کی ہوئی چیز سے بچنے کو زندگی قرار دیا گیا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ یہ طرز زندگی عطا فرمائے گو یا کہ وہ زندہ انسان ہے۔ وہ لوگوں میں تابناک، اور شاندار زندگی بسر کر رہا ہے۔ روشنی کا منبع اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ جسے سورة ابراہیم کی دوسری آیت میں یوں بیان فرمایا ہے اس کتاب کو ہم نے اپنے رسول پر نازل کیا تاکہ اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر واضح اور شاندار روشنی میں لاکھڑا کرے۔ ( البقرۃ، آیت : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کا مربی اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کی ظلمات سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیاطین ہیں جو انھیں ایمان اور توحید کی روشنی سے نکال کر شرک و بدعت اور گناہوں کی تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہاں اسی بات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ روشنی میں زندگی بسر کرنے والا ایسے شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو کفر و شرک کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو۔ اسے اندھیروں سے کوئی نکالنے والا نہیں گویا کہ جو علماء لوگوں کو شرک اور غیر اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی چیزیں کھانے کی دعوت دیتے ہیں وہ لوگوں کو ایمان کی روشنی سے نکال کر بدعت و شرک کے اندھیروں میں گھسیٹتے ہیں۔ گمراہ علماء کے پیروکار اس لیے اندھیروں سے نکل کر ایمان کی روشنی کی طرف نہیں آتے کیونکہ باطل عقیدہ اور برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ ایسے لوگ توحید کے دلائل سننے اور ماننے میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور شرک و بدعت کو اپنانے اور برے اعمال اختیار کرنے کو فیشن اور دین سمجھتے ہیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید زندگی کی علامت ہے۔ ٣۔ کافر اپنی بد اعمالیوں میں مگن رہتا ہے۔ ٤۔ کافر دنیا کی خوش نما اور عارضی زندگی پر بھروسہ رکھتا ہے۔ ٥۔ حرام کھانے سے انسان کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ ٦۔ ایمان روشنی ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ ٧۔ ایمان دار زندہ ہے اور گمراہ انسان مردہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نور اور اندھیرے : ١۔ ” اللہ “ ایمان والوں کا دوست ہے انہیں اندہیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٢۔ اندھا اور بینا اندہیرا اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠) ٣۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ لوگوں کو اندہیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (الحدید : ٩) ٤۔ جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اللہ کی طرف سے روشنی پر ہے۔ (الزمر : ٢٢) ٥۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے روشنی اور اندہیروں کو پیدا کیا۔ (الانعام : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٢١۔ اس کے بعد ایک بار پھر کفر و ایمان کی اصل حقیقت پر بات کی جاتی ہے اور دو بار تکرار کا مطلب ہے کہ اسلام میں حلال و حرام قرار دینے کا تعلق کفر واسلام سے ہے ۔ یہ بار بار کی تاکید ‘ یہ بار بار کے ربط اور بات کو دہرانے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نظر میں قانون سازی اور اقتدار اعلی انسان کی روز مرہ زندگی کے اندر کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ۔ ّ (آیت) ” أَفَغَیْْرَ اللّہِ أَبْتَغِیْ حَکَماً وَہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ (114) ” پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ‘ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ‘ اور جن لوگوں کو ہم نے تم سے پہلے کتاب دی تھی وہ جانتے تھے کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو ۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ایک سوال ہے اور یہ استفہام انکاری ہے ۔ یہ تنبیہ اس بات پر کی گئی ہے کہ کسی کے لئے یہ کوئی درست رویہ نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں سے کسی معاملے میں بھی اللہ کے سوا کسی اور کو حاکم اور فیصلہ کنندہ تسلیم کرے ۔ چناچہ اس طرح اس بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام میں زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا اور یہ ایک غیر متنازعہ بات ہے اور اس بات کی ممانعت کردی جاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو انسانوں کی زندگیوں میں فیصلے کرنے کا مجاز ہو اور اپنی مرضی کے مطابق وہ ایسا کرتا رہے ۔ (آیت) ” أَفَغَیْْرَ اللّہِ أَبْتَغِیْ حَکَماً “۔ ” کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ؟ “ اس کے بعد اس ناگوار احساس کی تفصیل آتی ہے ‘ ان حالات کی تفصیل بھی بیان کردی جاتی ہے جن کی وجہ سے اللہ کے سوا دوسروں کا اقتدار اعلی ایک قابل سرزنش فعل قرار پاتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کی تفصیلات دے دی ہیں اور اور بندوں کو اس بات کا محتاج نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے لئے خود راہ ہدایت تلاش کرتے پھریں ‘ یا اللہ کے سوا کسی دوسری جگہ سے اپنی زندگی کے مسائل کے فیصلے لیں ۔ اور مشکلات حیات کو حل کریں ۔ (آیت) ” وَہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً “۔ ‘” حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ‘ “۔ یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان ان معاملات کے فیصلے کرے جن کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو اور یوں اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کا ظہور ہو ۔ پھر اللہ نے یہ کتاب نہایت ہی مفصل طور پر نازل کی ہے ۔ اس میں وہ تمام اصول منضبط کردیئے گئے ہیں جن کے اوپر پورا نظام زندگی استوار ہوگا ۔ اس میں بعض فروعی اور جزئی مسائل بھی بیان کردیئے گئے ہیں جن کے بارے میں اللہ کی مرضی یہ تھی کہ وہ انسانی معاشرے کے لئے دائمی احکام ہوں چاہے وہ معاشرہ جس قدر بھی ترقی یافتہ ہو اور علمی لحاظ سے وہ بہت ہی آگے کیوں نہ بڑھ گیا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے پھر کسی دوسرے پلیٹ فارم سے فیصلہ لینے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ یہ ہے وہ فیصلہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے مقام کے بارے میں کیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے : ” کہ دنیا ترقی کرچکی ہے اور اب اسے اس کتاب کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں ہے تو ہزار بار کہتا پھرے لیکن اسے اس قول کے ساتھ ایک اور بات بھی صاف صاف کہہ دینا چاہئے وہ یہ کہ میں (نعوذ باللہ) کافر ہوں ‘ اس دین اسلام کا منکر ہوں اور اللہ رب العالمین کے اقوال کی تکذیب کرتا ہوں۔ یہاں ان لوگوں کے اردگرد ایک مخصوص صورت حالات بھی موجود ہے ‘ جس کے اندر زندگی کے حالات میں سے کسی حال میں بھی اللہ کے سوا کسی اور مصدر سے فیصلہ طلب کرنا نہایت ہی مکروہ عمل قرار پاتا ہے ‘ اور نہایت ہی عجیب سا لگتا ہے ۔ وہ یہ کہ جن لوگوں کو اس سے قبل آسمانی کتابیں دی گئیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن بھی منزل من اللہ ہے اس لئے کہ وہ کتب سماوی کے بارے میں معرفت رکھنے والے ہیں۔ (آیت) ” وَالَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ (٦ : ١١٣) ” اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب ہمارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ “ یہ صورت حالات مکہ مکرمہ اور جزیرۃ العرب میں موجود تھی اس لئے اللہ تعالیٰ مشرکین کو اس طرف متوجہ فرماتے ہیں ۔ چاہے اہل کتاب اس حقیقت کو مان کردیں جس طرح بعض لوگوں نے کیا بھی جن کے دل اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیئے تھے یا وہ اسے چھپا دیں اور اس کا اظہار نہ کریں ۔ اکثر اہل کتاب نے یہی رویہ اختیار کیا ‘ لیکن دونوں صورتوں میں یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ اہل کتاب حقیقت سے باخبر تھے ۔ خود اللہ تعالیٰ ان کے علم کے بارے میں شہادت دیتے ہیں اور اللہ کی شہادت سچی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ (یعلمون) جانتے ہیں کہ قرآن اللہ کی جانب سے سچائی لے کر نازل ہوا ہے اور اس میں صرف سچائی ہی سچائی ہے اور یہ سچائی منزل من اللہ ہے ۔ آج بھی اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس دین کی قوت کا راز صرف یہ ہے کہ اس کی پشت پر عظیم سچائی ہے اور قرآن کریم اسی عظیم سچائی پر مشتمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس علم کی وجہ سے اس دین کے خلاف اس بےجگری سے مسلسل لڑ رہے ہیں ۔ وہ اس کتاب سے بھی لڑتے ہیں اور ان کی یہ لڑائی اس دین کے آغاز سے آج تک جاری ہے ۔ یہ نہایت ہی شدید اور تکلیف دہ جنگ ہے ۔ یہ جنگ اہل کتاب محض اس مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی کے اوپر سے اس کتاب کی حاکمیت ختم کردیں اور مسلمانوں کی زندگی کچھ دوسری کتابوں اور کچھ دوسرے وضعی قوانین کی حکمرانی میں آجائے ۔ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو جج اور حاکم بنا لیں تاکہ یہ کتاب زندہ نہ رہے اور اللہ کے دین کا کوئی حقیقی وجود نہ رہے ۔ ان کی کوشش ہے وہ ان اسلامی ممالک میں جہاں کبھی اللہ کی حاکمیت قائم تھی کچھ دوسری حاکمیتیں اور اقتدار قائم کردیں حالانکہ کبھی ان ممالک میں وہ نظام اور قانون نافذ تھا جو اس کتاب میں تھا ۔ صرف یہی قانون نافذ تھا اور اس میں اس کے ساتھ کوئی دوسرے قوانین شریک عمل نہ تھے ۔ نہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کچھ دوسری کتابیں بھی رائج تھیں جن سے لوگ اصول قانون اور زندگی کی دوسری اقدار اخذ کرتے ہوں اور ان کی دفعات اور آیات کو کتاب اللہ کی طرح بطور اتھارٹی پیش کرتے ہوں ۔ ایسے تمام منصوبوں کے پیچھے اہل کتاب یعنی صلیبی اور صہیونی عزائم کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس قسم کی تمام سرگرمیاں آج بھی ان اہل کتاب ہی کی ریشہ دوانیوں سے ہوتی ہیں ۔ یہاں کہا گیا کہ اللہ نے اس کتاب کو نہایت مفصل انداز میں نازل کیا ہے اور یہ کہ اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے سچائی کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ اب روئے سخن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے اور آپ کے واسطہ سے تمام اہل ایمان کو یہ حقیقت بتلائی جاتی ہے اور یہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اہل کتاب کے جدل وجدال اور تکذیب اور روگردانی سے دل تنگ نہ ہوں ۔ وہ جو حق کو چھپا رہے ہیں جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ یہ بات آپ کے لئے گرانبارنہ وہ۔ ّ (آیت) ” (فلا تکونن من الممترین) (٦ : ١١٤) ” لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو ۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی شک اور شبہ نہیں کیا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آپ پر سورة یونس کی یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” فان کنت فی شک مما انزلنا الیک فسئل الذین یقرء ون الکتب من قبلک لقد جآءک الحق من ربک فلا تکونن من الممترین “۔ (١٠ : ٩٤) ” اب اگر تجھے اس ہدایت کی طرف سے کچھ شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں ۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے ‘ تیرے رب کی طرف سے لہذا تو شک کرنے والوں میں نہ ہو۔ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نہ شک کرتا ہوں اور نہ مجھے ان سے پوچھنے کی ضرورت ہے ۔ “ لیکن ان ہدایات اور اس قسم کی دوسری مثالوں سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت مسلمہ کو نہایت ہی گہری ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ مخالفین سخت عناد اور انکار کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا تھا کہ آپ کو ایسی سخت ہدایات دے کر آپ اور امت مسلمہ کو سخت موقف اختیار کرنے کی تلقین کی جائے ۔ آگے مزید کہا جاتا ہے کہ اللہ کی دو ٹوک بات اب ختم ہوگئی ہے ‘ مکمل ہوگئی ہے ۔ اللہ کی اتھارٹی کے اوپر کوئی اور اتھارٹی نہیں ہے جو اس فیصلہ کن بات کو بدل دے کیونکہ یہ برحق ہے اور یہ حق ان کی تمام سازشوں تک رسائی رکھتا ہے ۔ (آیت) ” وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (115) “ ” تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ‘ کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے جو کہنا تھا اور جو فیصلے کرنے تھے وہ سچائی کے ساتھ کردیئے ‘ اور جو قانون سازی کرنی تھی وہ عادلانہ طور پر کردی ۔ اللہ کی بات کے بعد اب نہ کسی کی بات ہے ‘ نہ کوئی نظریہ و عقیدہ ہے ‘ نہ کوئی اصول و قانون ہے اور نہ کوئی قدر ومیزان ہے ۔ اب نہ کوئی قانون اور شریعت کے بارے میں اس کے خلاف کوئی بات کہہ سکتا ہے ‘ نہ کوئی رسم و رواج اس کے مقابلے میں رہ سکتے ہیں ۔ نہ اللہ کی اتھارٹی کے اوپر کوئی اتھارٹی ہے کہ وہ اللہ کی بات کو بدلنے کی مجازہو۔ (آیت) ” (وھو السمیع العلیم) (٦ : ١١٥) ’ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ “ اس کے بندے جو کچھ کہتے ہیں وہ سنتا ہے اور ان کے اقوال کے پس منظر کو بھی جانتا ہے اور ان کے مصالح ومفادات کو بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ سچائی وہی ہے جو کتاب اللہ میں ہے اور جو اللہ نے نازل کی ہے ‘ یہ بھی فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ کتاب اللہ کی سوچ کے مقابلے میں انسان جو سوچ پیش کرتا ہے وہ محض ظن وتخمین کے پائے چوبیں پر قائم ہوتی ہے ۔ جو لوگ انسانی سوچ کی پیروی کرتے ہیں وہ محض ظن وتخمین کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا انجام صرف یہی ہوگا کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے ۔ انسانوں کی سوچ صرف اسی وقت درست اور ہدایت یافتہ ہو سکتی ہے جب وہ کتاب اللہ سے ماخوذ ہو جو ایک یقینی مصدر ہدایت ہے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی متنبہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگوں کی ان باتوں پر دھیان نہ دیں جو وہ محض انسانی سوچ کی بنیاد پر کرتے ہیں اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سوچ کی ماننے والی ہو ‘ اس لئے کہ جاہلیت بہرحال جاہلیت ہوتی ہے ‘ چاہے اس کے ماننے والے زیادہ ہوں یا کم ‘ بہرحال وہ گمراہ ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِیْ الأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ إِن یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ (116) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین پر میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ۔ وہ تو بس گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت ‘ نزول قرآن کے وقت اہل جاہلیت پر مشتمل تھی ‘ جس طرح آج ہمارے دور میں لوگوں کی اکثریت ‘ نزول قرآن کے وقت اہل جاہلیت پر مشتمل تھی ‘ جس طرح آج ہمارے دور میں لوگوں کی اکثریت نے جاہلیت کو اپنا لیا ہے ۔ اس وقت لوگوں کی اکثریت الہی قانون کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرتی تھی ‘ نہ انہوں نے اللہ کی کتابوں میں موجود شریعت کو لاء آف دی لینڈ قرار دیا تھا ۔ وہ اپنے تصورات و افکار ‘ اپنی طرز فکر اور طرز زندگی اللہ کی ہدایات اور راہنمائی سے اخذ نہ کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثریت نزول قرآن کے وقت جاہلیت میں مبتلا تھی جس طرح آج لوگوں کی اکثریت جاہلیت میں مبتلا ہے ۔ وہ لوگ کوئی فکر ‘ کوئی رائے اور کوئی فیصلہ اس ” حق “ سے اخذ نہ کرتے تھے اور نہ وہ اس سچائی پر مبنی ہوتا تھا ۔ نیز اس دور کے قائدین اپنے متبع لوگوں کی ہدایت کی طرف نہیں بلکہ ضلالت کی طرف لے جاتے تھے ۔ جس طرح آج کی صورت حال ہے کہ لوگ یقینی علم کتاب وسنت کو چھوڑ کر ظن اور تخمین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ظن وتخمین صرف گمراہی پر منتج ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کردیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر لوگوں کی اطاعت شروع کردی تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے ۔ اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمومی ہدایات اگرچہ شان نزول کے اعتبار سے دی ہیں تاہم یہ ہدایت ایک مخصوص مسئلے یعنی ذبیحوں کے ضمن میں آئی جیسا کہ آگے تفصیلات آرہی ہیں ۔ اس کے بعد یہ قرار داد آتی ہے کہ بندوں کے بارے میں ہدایت یافتہ ہونے یا گمراہ ہونے کا فیصلہ کرنے کا مجاز بھی اللہ ہی ہے ‘ کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو بندوں کی حقیقت سے باخبر ہے ۔ کسی کے راہ راست پر ہونے اور گمراہ ہونے کا فیصلہ بھی وہی کرسکتا ہے ۔ (آیت) ” إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ مَن یَضِلُّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ (117) ” اور حقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے ۔ “ لوگوں کے تصورات و افکار ‘ ان کی اقدار اور پیمانوں ‘ ان کے طرز عمل اور سرگرمیوں کے بارے میں حسن وقبح کا فیصلہ کرنے کے لئے لازما کوئی معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ۔ یہ معیار لوگوں کی خواہشات نفسانیہ اور ان کی بدلتی ہوئی اصطلاحات اور رسم و رواج کو نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ یہ دونوں امور متغیر ہیں ۔ اس لئے ایک ایسے منبع اور ماخذ کا تعین ہونا چاہیے جہاں سے لوگ اپنے پیمانون اور خود لوگوں کے بارے میں فیصلے کرسکیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ یہ قرار دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ اللہ نے کرنا ہے کہ یہاں اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے اور یہ حق صرف اللہ ہی کو ہے ۔ وہی فیصلہ کرسکتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ہادی کون ہے اور ضال کون ہے ؟ ہم کسی سوسائٹی کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے بدلتے ہوئے حالات اور اصطلاحات کے مطابق حسن وقبح کا فیصلہ کرے اس لئے کہ ہر سوسائٹی کے عناصر ترکیبی ‘ اس کی شکل و صورت اور اس کی مادی ضروریات بدلتی رہتی ہیں ۔ اگر یہ حق سوسائٹی کو دے دیا جائے تو حسن وقبح کے پیمانے بھی مستقل نہ رہیں گے ۔ پھر ایک زرعی معاشرے کی اخلاقی اقدار اور ہوں گیی اور ایک صنعتی معاشرے کی اقدار اور ہوں گی ۔ سرمایہ دارانہ بور ژدا معاشرے کی اقدار اور ہوں گی اور اشتراکی اور کمیونسٹ معاشرے کی اقدار اور ہوں گی اور پھر ان معاشروں کی اقدار کے مطابق لوگوں کے حسن وقبح کے اصول مختلف ہوں گے ۔ اسلام اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے ‘ اس لئے ایسی مستقل ذاتی اقدار وضع کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے مستقلا دی گئی ہیں ۔ معاشرے اور سوسائٹیاں جس قدر بدل جائیں ‘ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ ۔ جو ساسوئٹیاں ان اصولوں کو ترک کردیں اسلامی نظام ان کے لئے ایک مخصوص اصطلاح استعمال کرتا ہے ۔ اسلام انہیں جاہلی معاشرے کے نام سے پکارتا ہے ۔ یہ مشرک معاشرہ ہوتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ معاشرہ اللہ کے سوا دوسرے خداؤں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ان کے لئے حسن قبح کے پیمانے مقرر کریں ۔ ان کو تصور حیات ‘ اصول اخلاق اور نظام حیات دیں ۔ اسلامی نظام صرف ایک ہی تقسیم روا رکھتا ہے ۔ اس کے نزدیک ایک معاشرہ یا تو اسلامی معاشرہ ہے یا جاہلی معاشرہ ۔ کوئی تیسری قسم اس کے نزدیک نہیں ہے ۔ آگے جاہلی معاشرے کی اشکال اور صورتیں پھر مختلف ہو سکتی ہیں۔ اس طویل تمہید کے بعد اب اسلامی نظام میں ذبیحوں کے اصولی مسئلے کو لیا جاتا ہے ۔ اس مسئلے کو اسی اساسی اصول کے مطابق لیا جاتا ہے کہ اسلام میں حسن وقبح اور حلال و حرام کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ آیات میں اس اصول پر تفصیلی گفتگو ہوئی : (آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118) وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ وَإِنَّ کَثِیْراً لَّیُضِلُّونَ بِأَہْوَائِہِم بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ (119) وَذَرُواْ ظَاہِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُونَ الإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُواْ یَقْتَرِفُونَ (120) وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121) (پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (٦ : ١١٨۔ ١٢١) حکم یہ ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ ۔ اللہ کا نام لینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ لوگوں کے نظریے اور ان کے عقیدے کی سمت کا تعین کردیا جائے ‘ تاکہ انکا ایمان اور ان کی اطاعت ان احکام کے لئے مخصوص ہو جو اللہ کی طرف سے صادر ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118) ” پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ۔ “ اور اس کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو تمہارے لئے ایسے جانوروں کے گوشت کو کھانے سے روک رہی ہے جبکہ ان پر اللہ کا نام لیا گیا ہے ‘ اور ان کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اضطراری حالت میں استثناء کی گنجائش رکھتے ہوئے ان چیزوں کی تفصیلات دے دی ہیں جو حرام ہیں ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حلت اور حرمت کے معاملے میں کسی کو بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اس لئے کوئی شخص یہ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی مرضی سے بعض چیزوں کو حلال سمجھتے ہوئے کھائے اور بعض کو حرام سمجھتے ہوئے ترک کردے ۔ (آیت) ” وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ (٦ : ١١٩) ” آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے “۔ ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ “ اس مسئلے کو وقتی تعلق اس وقت کے معاشرے میں پائے جانے والے ایک معاملے سے ہے ۔ مشرکین مکہ بعض ایسے جانوروں کا گوشت کھاتے تھے جنہیں اللہ نے حرام قرار دے دیا تھا اور بعض ایسے جانور کے گوشت کو حرام قرار یتے ہوئے نہ کھاتے ہیں جو عنداللہ حلال تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کی شریعت ہے ۔ چناچہ یہاں قرآن مجید اس قصے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ قرار دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات سے متاثر ہو کر اور بغیر علم کے قانون سازی کرتے ہیں اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان حدود کار میں داخل ہوتے ہیں جو اللہ کے لئے مخصوص ہیں حالانکہ وہ اللہ کے بندے اور غلام ہیں ۔ (آیت) ” وَإِنَّ کَثِیْراً لَّیُضِلُّونَ بِأَہْوَائِہِم بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ (119) ” بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ “ اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم ہر قسم کے گناہوں کو ترک کر دو ‘ چاہے ظاہری ہوں یاباطنی ۔ یہ بات بھی ان گناہوں ہی میں سے ہے کہ کوئی بغیر علم کے لوگوں کو گمرہ کرنے کا سبب بنے ۔ اور یہ کام وہ محض اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے کرے اور پھر اپنی اس سرگرمی کو دینی اور شرعی رنگ بھی دے اگرچہ شریعت کے ساتھ اسے کوئی نسبت بھی نہ ہو بلکہ یہ اسلامی شریعت پر محض افتراء ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں اس قسم کی افتراء پردازی کے انجام بد سے ڈراتا ہے ۔ (آیت) ” وَذَرُواْ ظَاہِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُونَ الإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُواْ یَقْتَرِفُونَ (120) ” تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ “ اس کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ جن جانوروں پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ‘ ان کا گوشت کھانے سے باز رہو ۔ یہ لوگ بعض جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کے سوا اور الہوں کے نام لیتے تھے ۔ یا وہ انہیں قماربازی کے لئے ذبح کرتے تھے اور پھر پانسوں کے ذریعے انہیں تقسیم کرتے تھے ۔ بعض مردار جانوروں کے گوشت کے استعمال کے معاملے میں وہ مسلمانوں سے جھگڑتے تھے ۔ وہ کہتے تھے اگرچہ ایسے مردہ جانروں پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن اللہ نے خود انہیں ذبح کردیا ہے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت تو کھاتے ہیں لیکن اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت وہ نہیں کھاتے ۔ یہ وہ تصور اور استدلال ہے جس کی کمزوری بالکل واضح ہے اور یہ تصور تمام جاہلیتوں کے اندر پایا جاتا رہا ہے ۔ یہ تصور مشرکین کو ان کے وہ شیاطین دیتے تھے جو جنوں اور انسانوں میں سے انکے ساتھ لگے ہوئے تھے تاکہ وہ ان کے بودے تصورات اور دلائل کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ مجادلہ کریں ۔ ان باتوں کی تفصیلات ان آیات میں دی گئی ہیں ۔ (آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121) ” اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو ۔ “ اس آخری فیصلہ کے سامنے کھڑے ہو کر ذرا غور کیجئے ۔ یہ فیصلہ کس قدر دو ٹوک اور صریح ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حاکم صرف اللہ ہے ‘ اس لئے مطاع بھی وہی ہوگا اور یہ اس دین کا بنیادی اصول ہے ۔ یہ آیت فیصلہ کردیتی ہے کہ زندگی کے مسائل کے کسی ایک جزئیہ میں بھی اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنا جبکہ یہ اطاعت اللہ کی شریعت اور اس کے اصولوں کی طرف منسوب نہ ہو ‘ کھلا شرک ہے اور اس کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو کر دائرہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے ۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ (آیت) ” وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121) ” اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو ۔ “ یعنی جہاں تم نے امر الہی اور شریعت الہیہ کو ترک کردیا اور دوسروں کے اوامر اور احکام کو ان پر ترجیح دے دی تو یہ صریح شرک ہوگا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” اتخذوا اخبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنایا ہے ۔ “ اس آیت کی تفسیر میں ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ حضرت عدی (رض) ابن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہوں نے تو احبارو رہبان کی بندگی نہیں کی ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ بالکل انہوں نے کی ہے ۔ انہوں نے ان کے لئے حرام کو حلال کردیا اور حلال کو حرام اور یہ لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو یہ ان لوگوں کی جانب سے احبارورہبان کی عبادت ہے ۔ اسی طرح علامہ ابن کثیر نے حضرت عدی (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت (آیت) ” اتخذوا اخبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں سے نصیحت وہدایت طلب کی اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا ۔ (آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا الھا واحد “۔ ” انکو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ صرف الہ واحد کی بندگی کریں “۔ یعنی اس کی بندگی کریں جس نے اگر کسی چیز کو حرام قرار دے دیا تو وہ حرام ہوجاتی ہے اور کسی چیز کو حلال قرار دیا تو وہ حلال ہوجاتی ہے ۔ جو قانون بنایا وہ قابل اتباع ہوتا ہے جو فیصلہ وہ کرتا ہے وہ نافذ ہوجاتا ہے ۔ یہ ہیں اقوال حضرت ابن کثیر اور سدی کے ۔ یہ دونوں حضرات نہایت ہی دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ کرتے ہیں اور بات کو بالکل کھول کر بیان کرتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اس معاملے میں قرآن کی بات بھی نہایت ہی واضح اور دوٹوک ہے پھر اس بات کو حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تشریح کرکے واضح کردیا ہے کہ جو شخص بھی معاملات زندگی کے کسی بھی جزئیہ میں اللہ کی بنائی ہوئی شریعت کے مقابلے میں لوگوں کی بنائی ہوئی شریعت پر چلتا ہے وہ مشرک ہے اگرچہ ایسا شخص اپنی اصلیت کے اعتبار سے مسلم ہو کیونکہ اس فعل کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہو کر مشرکوں کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ زبان کے ساتھ وہ بار بار ” اشھد “ پڑھتا رہے جبکہ عملا وہ غیر اللہ کا مطیع فرمان اور شاگرد ہو ۔ آج جب ہم اس کرہ ارض پر اس زاوے سے نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسے ہم ان آیات کی ان تصریحات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر شرک اور جاہلیت کا مکمل کنٹرول ہے ۔ الا ماشاء اللہ تو ہم اس کرہ ارض کے مالکان اقتدار کے اس عمل پر اعراض کرتے ہیں جنہوں نے خدائی خصوصیات کا دعوی کردیا ہے کہ ان کا کوئی قانون اور کوئی حکم قابل قبول نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کوئی نہایت ہی مجبور ہو ۔ آیت زیر بحث (ولا تاکلوا) میں ذیبحوں کے بارے میں جو ہدایت دی گئی ہیں ان میں سے فقہی اعتبار سے حلال و حرام کی تفصیلات علامہ ابن کثیر نے اس طرح دی ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اس مسء لہ میں ائمہ فقہ کے تین اقوال ہیں۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایسے ذیبحے کا گوشت کھانا حرام ہے چاہے ذبیحے پر اللہ نام عمدا نہ لیا گیا ہو یا سہوا ۔ حضرت ابن عمر ‘ نافع ‘ عامر شعبی اور محمد ابن سیرین سے بھی ایسے ہی مروی ہے ‘ امام مالک سے بھی ایک روایت ایسی ہی ہے ۔ امام احمد ابن حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی ہے اور متقدمین ومتاخرین میں سے ایک گروہ نے اس کی تائید کی ہے ۔ ابوثور ‘ داؤد ظاہری اور ابو الفتوح محمد ابن علی طائی جو متاخرین شافعیہ میں ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب اربعیں میں بھی یہی رائے اختیار کی ہے اور انہوں نے اپنے مذہب پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ نیز اس گروہ نے شکار کے بارے میں وارد دوسری آیت سے بھی استدلال کیا ہے ۔ (آیت) ” ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ) پس اس شکار سے کھاؤ جسے وہ (کتے) پکڑ کر تمہارے لئے رک لیں ‘ اور اس پر اللہ کا نام لو۔ “ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ اس آیت میں اس کے لئے انہ لفسق کا تاکیدی لفظ آیا ہے ۔ انہ کی ضمیر کا مرجع اکل ہے ۔ بعض مفسرین نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی طرف عائد کیا ہے ۔ نیز یہ رائے رکھنے والے حضرات ان احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جو شکار اور ذبیحوں پر اللہ کا نام لینے کے بارے میں وارد ہیں مثلا عدی (رض) ابن حاتم اور ابو ثعلبہ کی احادیث ۔ ” جب تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑا اور اس پر تم نے اللہ کا نام لیا تو جب تک وہ کتا تمہارے لئے روکے رکھے تم کھاؤ۔ “ یہ دونوں احادیث صحیحین نے روایت کی ہیں ۔ نیز رافع ابن خدیج کی حدیث سے بھی یہ گروہ استدلال کرتا ہے ۔ ” جس سے خون نکلا اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ “ یہ حدیث بھی صحیحین نے روایت کی ہے ۔ اس مسئلے میں دوسرا مذہب یہ ہے کہ ذبیحوں پر اللہ کا نام لینا شرط اور واجب نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مستحب ہے ۔ اگر کوئی عمدا یانسیان کی وجہ سے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے ۔ اور آپ نے تمام رفقاء بھی اسی طرف گئے ہیں امام احمد ابن حنبل سے بھی ایک روایت اسی مضمون کی ہے ۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اس کے مطابق ہے ۔ آپ کے رفقاء میں سے اشہب ابن عبدالعزیز نے اس کی تصریح کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) ‘ ابوہریرہ (رض) ‘ عطاء ابن ابو رباح (رض) سے بھی ایسی ہی روایات نقل کی ہیں ‘ واللہ اعلم ۔ اب رہیں وہ آیات و احادیث تو ان کی تاویل امام شافعی نے یوں کی ہے کہ آیت (آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ “۔ ان ذبیحوں کے بارے میں ہے جن پر بتوں کا نام لیا گیا ہو۔ مثلا ّ (اوفسقا اھل لغیر اللہ بہ) میں اس کی تصریح ہے ۔ اسی طرح ابن جریج کہتے ہیں کہ آیت (الاتاکلوا ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) میں ممانعت ان ذبیحوں سے ہے جو قریش بتوں کے اوپر ذبح کرتے تھے ۔ نیز ان ذبیحوں کے بارے میں جو مجوسی ذبح کرتے تھے امام شافعی نے جو مسلک اختیار کیا ہے یہ قوی تر ہے ۔ ابن ابو حاتم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ نقل کیا ہے کہ (آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ “۔ مردار کے بارے میں ہے ۔ اس کی تائید میں امام ابو داؤد نے اپنی مرسل احادیث میں ثور ابن یزید کی حدیث نقل کی ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلم کا ذبیحہ حلال ہے ‘ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ اس لئے کہ اگر وہ نام لیتا تو صرف اللہ ہی کا لیتا ۔ “ اور اس مرسل روایت کی تائید دارقطنی کی روایت سے ہوتی ہے جبکہ ایک مسلمان ذبح کرے اور اس ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے تو چاہیے کہ اس کا گوشت کھایا جائے ‘ اس لئے کہ مسلمان کے اندر اللہ کے ناموں میں سے کوئی نام ہوتا ہی ہے ۔ “ تیسرا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی بھول کر اللہ کا نام نہ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر عمدا ایسا کرے تو کھانا جائز نہ ہوگا ۔ امام مالک (رح) اور امام احمد ابن حنبل (رح) کا یہ مشہور مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے ساتھی بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ اسحاق ابن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ حضرت علی ‘ ابن عباس ‘ سعید ابن مسیب ‘ عطاء طاؤس ‘ حسن بصری ابو مالک ‘ عبدالرحمن ابن ابولیلی ‘ جعفر ابن محمد اور ربیعہ ابن عبدالرحمن سے بھی ایسا ہی منقول ہے ۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ اہل علم نے اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ اس آیت کا کوئی حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں ۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ اپنے مفہوم میں محکم آیت ہے اور اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے ۔ مجاہد اسی کے قائل ہیں۔ حسن بصری ‘ (رح) عکرمہ (رح) کا یہ قول ہے کہ (آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118) دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ وانہ لفسق “۔ اس طرح اس آیت نے پہلی کو منسوخ کردیا ۔ پھر اس سے اہل کتاب کا کھانا مستثنی کیا گیا ۔ (آیت) ” وطعام الذین اوتوالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم) ابن ابو حاتم کہتے ہیں کہ عباس ابن الولید کے سامنے مکحول کی یہ روایت پڑھی گئی کہ اللہ نے پہلے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ ) اور اس کے بعد اللہ نے اسے منسوخ کردیا ۔ یوں اس نے اہل اسلام پر رحم فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” الیوم احل لکم الطیبت وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم “۔ یوں اس دوسری آیت نے پہلی کو منسوخ کردیا اور اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ۔ اس کے بعد ابن جریر نے کہا : ” کہ حقیقت یہ ہے کہ جن چیزوں پر اللہ نام نہ لیا گیا ہو ۔ ان کی حرمت اور اہل کتاب کے ذبیحوں کی حلت کے احکام میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابن جریر کی بات درست ہے ۔ سلف میں سے جن لوگوں نے نسخ کا لفظ استعمال کیا ان کی مراد تخصیص ہے ‘ واللہ اعلم ۔ اس کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان ایک مکمل معرکہ سامنے آتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گاؤں میں بڑے بڑے مجرمین پیدا کئے ہیں اور ان کے دلوں میں کبروغرور کی ایک بڑی مقدار پائی جاتی ہے ۔ یہ اس گاؤں کے بڑے مجرم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ پورے علاقے میں لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں ۔ اس بیانیہ میں واضح طور پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں ۔ اس بیانیہ میں واضح طور پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے دل ایمان کے لئے کھل جاتے ہیں ان کے حالات کیسے ہوتے ہیں ۔ وہ حالات کس طرح کے ہوتے ہیں جن میں لوگوں کے دل اسلام اور قبولیت حق کے لئے تنگ ہوجاتا ہے اور اسلام کا تصور کرتے ہی وہ لوگ تنگی محسوس کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گویا ان کی سانس رک گئی ہے ۔ یوں یہ بیانیہ موضوع سخن یعنی اسلام میں حلال و حرام کے موضوع کے ساتھ اصولی طور پر منسلک ہوجاتا ہے ۔ یعنی اصول اور فروع کی نسبت قائم ہوجاتی ہے اور یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ ذبیحوں کی حلت اور حرمت کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ نہایت ہی اصولی مسئلہ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

133 جن جانوروں پر خالص اللہ کا نام نہیں لیا گیا انہیں مت کھاؤ یعنی ان کو حلال نہ سمجھو وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۔ جن جانوروں پر خالص اللہ کا نام نہ لیا جائے بلکہ غیر اللہ کا نام لیا جائے ان کو حلال جاننا فسق اور کفر ہے۔ فسق سے اس کا کامل درجہ یعنی کفر مراد ہے وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ ای من الجن والانس۔ یعنی شیاطین جن وانس اپنے ماننے والوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے اور ان کو مشرکانہ افعال کی ترغیب دیتے ہیں۔ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُم اگر تم نے اے جماعت مومنین ان کی بات مان لی اور تحریمات لغیر اللہ کو حرام اور نذور غیر اللہ کو حلال جاننے لگے جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو یاد رکھو پھر تم بھی ان جیسے مشرک ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے محرمات کو حلال جاننا اور اس کے حلال کو حرام جانا بھی شرک ہے۔ قال الزجاج فیہ دلیل علی ان کل من احد شیئا مما حرم اللہ او حرم شیئا مما احل اللہ تعالیٰ فھو مشرک الخ (کبیر ج 4 ص 203) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

121 اور جس جانور پر ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام نہ لای جائے اس ذبیحہ میں سے تم کچھ نہ کھائو یقینا اس کا کھانا کھلی نافرمانی اور کھلا ہوا فسق ہے اور بلاشبہ شیاطین اپنے رفقاء اور دوستوں کے دلوں میں وسوسے اور شکوک و شبہات ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ رفقاء تم سے بیکار جھگڑا کریں اور اگر تم ان انسان نما شیطانوں کا کہا ماننے لگو اور تم ان کی اطاعت کرنے لگو تو یقین جانو ! کہ تم مشرک ہو جائو گے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں دوسروں کے احکام کو ترجیح دوں گے اور حلال اور حرام جو منصب خداوندی ہے اس منصب میں کسی دوسرے کو شریک کرنا کھلا شرک ہے۔