Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 126

سورة الأنعام

وَ ہٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسۡتَقِیۡمًا ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ ﴿۱۲۶﴾

And this is the path of your Lord, [leading] straight. We have detailed the verses for a people who remember.

اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

After Allah mentioned the way of those who were themselves led to stray from His path and who hindered others from it, He emphasized the honor of the guidance and religion of truth that He sent His Messenger with. Allah said next, وَهَـذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ... And this is the path of your Lord leading straight. that is, Islam, that We have legislated for you, O Muhammad, by revealing this Qur'an to you, is Allah's straight path. ... قَدْ فَصَّلْنَا الايَاتِ ... We have detailed Our Ayat..., We have explained the Ayat and made them clear and plain, ... لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ for a people who take heed. those who have sound comprehension and understand what Allah and His Messenger convey to them,

قرآن حکیم ہی صراط مستقیم کی تشریح ہے گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے اس دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ سیدھی اور صاف راہ جو بےروک اللہ کی طرف پہنچا دے یہی ہے ( مستقیما ) کا نصب حالیت کی وجہ سے ہے ۔ پس شرع محمدی کلام باری تعالیٰ ہی راہ راست ہے چنانچہ حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے ( ملاحظہ ہو ترمذی مسند وغیرہ ) جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم و عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ کی آیتیں آ چکیں ۔ ان ایمانداروں کیلئے اللہ کے ہاں جنت ہے ، جیسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔ وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کا کار ساز اور دلی دوست ہے ۔ حافظ و ناصر مویدو مولی ان کا وہی ہے ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان ، سرور اور خوشی ہی خوشی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ ۔۔ : ” َھٰذَا “ یعنی حکم برداری میں عقل کو راہ نہ دینا سیدھی راہ ہے۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the first (126) of the three verses appearing here, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and it has been said: وَهَـٰذَا صِرَ‌اطُ رَ‌بِّكَ مُسْتَقِيمًا (And this is the path of your Lord, a straight path). Here, as said by Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) عنہما the word: ھذا (hadha: this) re¬fers to the Qur&an, and as said by Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) it means Islam (Ruh al-Ma&ni). The sense of the sentence is: This Way is the Way of your Lord, that is, this is a Way which has been proposed by your Lord in His infinite Wisdom, and with Him it finds favour. Here, by attributing the Way to the Lord of all, it has been indicated that the working system of Qur&an and Islam given to him was not for the benefit of Allah Ta` ala, rather, it was for the benefit of those who would act in accordance with it. This is as required by His being the Rabb, the Supreme Nurturer. Through this Way, the purpose is to nurture, train and groom human beings in a manner which would guarantee their eternal well-being. Then, by bringing in the word: رَبّ (Rabb: Lord) in a state of attribu¬tion to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that is: (Rabbik: your Lord), the impression of a special kindness towards him has been released - that: ` your& Lord has proposed this Way. The delicacy of this attribution can be readily felt by people of taste. Think of a servant of Allah. If he ever happens to find his person placed in even the minor-most frame of reference to his Rabb and مَعبُود Ma` bud, his Lord and the object of his worship and devotion, that would be, for him, the highest possible achievement. And now, if the Lord of lords, the One worship-worthy entity in this whole universe, were to attribute His pristine Person to him and say, |"I am yours,|" what remains there for him to say anything anymore about his wonderful ` kismet!& After that, the ` existing identity& of this Qur&anic Way has been ex¬plained through the word: مُستَقِیم (mustaqim), that is, this path is the straight path. Here too, rather than have &mustaqim& (straight) as the adjective of صِرَاط ` sirat& (path), it has been placed as an adverb which indi¬cates that the Way has been proposed by the Lord of the universe, and in this, any probability, other than its being straight, just cannot exist. (Ruh al-Mani and Al-Bahr al-Muhit) The text then says: قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُ‌ونَ (We have made the verses elaborate for people who accept the advice). The word: فَصَّلْنَا (Fassalna: We have made elaborate) is from: تَفصِیل (tafsil) which basically means to describe a subject by analysing it unit by unit. This way comprehending the subject becomes easy. Therefore, the outcome of tafsil is to explain explicitly. So, the sense comes to be: ` We have stated matters of principle explicitly and in details in which there remains no brevity or ambiguity.& After that, by saying: (for people who accept the advice), it was pointed out that, though these statements of the Qur&an are clear, but benefit from them has been derived only by those who ponder over the Qur&an to seek good counsel honestly, that is, doggedness, inherent resistance, opinionated¬ness, a priori hostility or the barriers of blind adherence to or following of ancestral customs do not come in between as walls.

خلاصہ تفسیر اور (اوپر جو اسلام کا ذکر ہے تو) یہی (اسلام) تیرے رب کا (بتلایا ہوا) سیدھا راستہ ہے (جس پر چلنے سے نجات ہوتی ہے، جس کا ذکر (آیت) فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ ، میں ہے، اور اسی صراط مستقیم کی توضیح کے لئے) ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے، (جس سے وہ اس کے اعجاز سے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کے مضامین پر عمل کرکے نجات حاصل کریں، یہی تصدیق و عمل صراط مستقیم کامل ہے، بخلاف ان کے جن کو نصیحت حاصل کرنے کی فکر ہی نہیں ان کے واسطے نہ یہ کافی نہ دوسرے دلائل کافی، آگے ان ماننے والوں کی جزاء کا ذکر ہے، جیسا نہ ماننے والوں کی سزا اوپر کئی جملوں میں مذکور ہے پس ارشاد ہے کہ) ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) سلامتی (یعنی امن وبقاء) کا گھر (یعنی جنت) ہے اور اللہ ان سے محبت رکھتا ہے، ان کے اعمال (حسنہ) کی وجہ سے اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کریں گے (اور ان میں سے بالخصوص کفار کو حاضر کرکے ان میں جو شیاطین الجن ہیں ان سے تو بیخاً کہا جاوے گا کہ) اے جماعت جنات کی تم نے انسانوں (کے گمراہ کرنے) میں بڑا حصہ لیا (اور ان کو خوب بہکایا یا اسی طرح انسانوں سے پوچھا جاوے گا (آیت) الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن الخ۔ غرض شیاطین الجن بھی اقرار کریں گے) اور جو انسان ان (شیاطین جن) کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ (بھی اقراراً کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ صحیح فرماتے ہیں واقعی) ہم میں ایک نے دوسرے سے (اس ضلال واضلال کے باب میں نفسانی) فائدہ حاصل کیا تھا (چنانچہ گمراہ انسانوں کو اپنے عقائد کفریہ و شرکیہ میں لذت آتی ہے اور گمراہ کنندہ شیاطین کو اس سے حظ ہوتا ہے کہ ہمارا کہنا چل گیا) اور (فی الحقیقت ہم ان کے بہکانے سے قیامت کے منکر تھے، لیکن وہ انکار غلط ثابت ہوا، چنانچہ) ہم اپنی اس معیّن میعاد تک آپہنچے جو آپ نے ہمارے لئے معیّن فرمائی، (یعنی قیامت آگئی) اللہ تعالیٰ (سب کفار جن وانس سے) فرماویں گے کہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو گے، (کوئی نکلنے کی سبیل و تدبیر نہیں) ہاں، اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (لیکن یہ یقینی ہے کہ خدا بھی نہیں چاہے گا اس لئے ہمیشہ رہا کرو) بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بڑی حکمت والا اور بڑا علم والا ہے (علم سے سب کے جرائم معلوم کرتا ہے اور حکمت سے مناسب سزا دیتا ہے) ۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا، ” یعنی یہ راستہ تیرے رب کا ہے سیدھا “۔ اس میں لفظ ھذٰا سے بقول ابن مسعود (رض) قرآن کی طرف اور بقول ابن عباس (رض) اسلام کی طرف اشارہ ہے (روح) معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن یا شریعت اسلام جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے، یہ راستہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا ہے، یعنی ایسا راستہ ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے اپنی حکمت بالغہ سے تجویز فرمایا اور اس کو پسند کیا ہے، اس میں راستہ کی اضافت و نسبت پروردگار کی طرف کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن اور اسلام کا جو دستور العمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا کچھ اللہ تعالیٰ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کے فائدہ کے لئے شان پروردگاری کے تقاضہ کی بنا پر ہے اس کے ذریعہ انسان کی ایسی تربیت کرنا مقصود ہے جو اس کی دائمی فلاح و بہبود کی ضامن ہو۔ پھر اس میں لفظ رب کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص لفط و عنایت کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے یہ راستہ تجویز فرمایا ہے، اس نسبت کا لفط اہل ذوق ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک بندہ کو اپنے رب اور معبود کی طرف کوئی ادنیٰ نسبت حاصل ہوجانا بھی اس کے لئے انتہائی فخر کی چیز ہے، اور اگر رب الارباب اور معبود کائنات اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرے کہ میں تیرا ہوں تو اس کی قسمت کا کیا کہنا، حضرت حسن نظامی رحمة اللہ علیہ اسی مقام سے فرماتے ہیں بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام، تو بزبان خود بگو کہ بندہ نواز کیستی اس کے بعد اس قرآنی راستہ کا یہ حال لفظ مُسْتَقِـيْمًا سے بیان کیا گیا کہ یہ راستہ سیدھا راستہ ہے، اس میں بھی مستقیم کو صراط کی صفت کے طور پر لانے کے بجائے حال کے طریقہ سے ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ جو راستہ پروردگار عالم کا تجویز کیا ہوا ہے، اس میں بجز مستقیم اور سیدھا ہونے کے اور کوئی احتمال ہو ہی نہیں سکتا (روح و بحر) اس کے بعد فرمایا (آیت) قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، یعنی ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے۔ فصلنا، تفصیل سے بنا ہے، تفِصیل کے اصلی معنی یہ ہیں یہ تجزیہ کر کے ایک ایک فصل کو الگ الگ بیان کیا جائے، اس طریقہ پر پورا مضمون ذہن نشین ہوجاتا ہے، اس لئے تفِصیل کا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، جس میں کوئی اجمال یا ابہام باقی نہیں چھوڑا، اس میں لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ اگرچہ قرآنی ارشاد بالکل واضح اور صاف ہیں، لیکن ان سے فائدہ انہی لوگوں نے اٹھایا جو نصیحت حاصل کرنے کے قصد سے قرآن میں غور کرتے ہیں، ضد اور عناد یا آبائی رسوم کی تقلید جامد کے پردے ان کے درمیان حائل نہیں ہوتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا۝ ٠ ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ۝ ١٢٦ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٦) ہم نے بذریعہ قرآن حکیم اوامرو نواہی اور اہانت و کرامت کو ایسے لوگوں کیلیے بیان کردیا ہے جو نصیحت حاصل کرکے ایمان لائیں کہا گیا ہے۔ (آیت) ” فمن یرد اللہ ان یھدیہ “۔ (الخ) یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوجہل کے موازنہ میں نازل ہوئی ہے یا یہ کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی اور ان مومنین کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے، سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور گھر سے مراد جنت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:126) ھذا۔ اشارہ ہے اس طرف جو قرآن میں آیا ہے۔ یا اشارہ ہے اسلام کی طرف یا اس بیان کی طرف جو دا نے توفیق شرح صدر اور خذلان کے متعلق اوپر فرمایا ہے (بیضاوی) قرآن ۔ اسلام۔ دین حق۔ مستقیما۔ منصوب بوجہ حال ہونے کے۔ یذکرون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ تذکر (تفعل) سے ۔ نصیحت پکڑتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی حکم پردازی میں عقل راہ نہ دینا سیدھی راہ ہے۔ (مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی اسلام۔ 8۔ تاکہ وہ اس کے اعجاز سے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کے مضامین پر عمل کرکے نجات حاصل کریں یہی تصدیق وعمل صراط مستقیم کامل ہے بخلاف ان کے جن کو نصیحت حاصل کرنے کی فکر ہی نہیں ان کے واسطے نہ یہ کافی ہے نہ دوسرے دلائل کافی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل جائے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ملتی ہے اور اسلام ہی صراط مستقیم اور دنیا وآخرت کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پچھلی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے یہاں ” ھٰذا “ اسم اشارہ لا کر اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے اسلام ہی صراط مستقیم ہے۔ آخری نبی اور ان پر نازل ہونے والا یہی ” الاسلام “ آخری دین قرار پایا ہے۔ سورۃ المائدۃ، آیت : ٣ میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ دین کامل اور مکمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین کے طور پر پسند کیا ہے۔ سورۃ آل عمران، آیت : ٨٥ میں دو ٹوک انداز میں صراحت کی ہے کہ جو شخص دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا وہ شخص اور قوم آخرت میں نقصان پائے گی۔ اسی سورة کی آیت ٨٤ میں وضاحت کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرو گے جبکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہے۔ یہاں اسلام کو اللہ تعالیٰ کی تابعداری کے مفہوم میں بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا دین اسلام ہی افراد اوراقوام کے لیے دنیا و آخرت کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اس لیے جنت کو ” دارالسلام “ قرار دیتے ہوئے دین اسلام ماننے والوں کو اس کی خوشخبری دی کہ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں دارالسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام پہ چلنے والوں کا والی اور دوست ہے۔ ولی کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی قربت کا احساس دلاکر یہ وضاحت کی ہے کہ اگر تم میری قربت و محبت اور جنت کے طلب گار ہو تو تمہیں صراط مستقیم پر چلنا ہوگا جو اسلام کے بغیر کسی دوسرے دین میں نہیں مل سکتا۔ انفرادی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے سے دنیا میں بھی سلامتی نصیب ہوتی ہے اس طرح دنیادار الفساد بننے کے بجائے دارالسلام بن جاتی ہے۔ ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :” اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا دوسری راہوں پر نہ چلو دوسری راہیں تمہیں صراط مستقیم سے جدا کردیں گی۔ “ [ رواہ ابن ماجۃ : باب اتباع سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] مسائل ١۔ اسلام ہی صراط مستقیم ہے۔ ٢۔ اسلام دنیا میں سلامتی کا ضامن ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ٣۔ نیک اعمال سے مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی قربت اور ولایت حاصل ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کے نشانات : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ٢۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٥۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یسٰین : ٦١) ٦۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٣) ٧۔ اللہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٨۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٢٦۔ ١٢٧۔ یہ ہے صحیح راستہ اور تیرے رب کا راستہ ” تیرے رب “ کا لفظ نہایت ہی اطمینان بخش اور تفشی بخش ہے ۔ دل مومن کو اعتماد اور یقین سے بھر دینے والا ہے اور ایک اچھے انجام کے لئے خوشخبری ہے ۔ یعنی یہ ہے ہدایت وضلالت کے بارے میں سنت الہیہ اور یہ ہے اسلام کا قانون حلال و حرام اور یہ دونوں دین اسلام کا حصہ ہیں اور سیاق قرآن میں اسی لئے انہیں یکجا اور ایک ٹکڑا بنایا گیا ہے ۔ ہم نے تو ان آیات الہیہ کو نہایت ہی واضح کرکے بیان کردیا ہے لیکن ان سے استفادہ وہی لوگ کرسکیں گے جو ان کو بھلائیں گے نہیں بلکہ یاد رکھیں گے ۔ اس لئے کہ دل مومن تو یاد کرنے والا ہے ‘ بھولنے والا نہیں ہے ۔ نیز دل مومن ہمیشہ ہدایت کے لئے کھلا رہتا ہے ۔ وہ زندہ ہوتا ہے اور بات سنتا ہے ‘ مردوں کی طرح نہیں ہوتا ۔ پھر جو لوگ یاد کرتے ہیں اور نصیحت پکڑتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک دارالسلام ہے جہاں وہ تسلی اور تشفی سے رہیں گے ۔ اس امن و طمانیت کی ضمانت اللہ دیتا ہے جو کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ وہ ان کا ولی اور مددگار ہے اس لئے کہ وہ صحیح راستے پر عمل کرتے ہیں اور آزمائش دنیا میں ان کی کامیابی پر یہ ان کے لئے انعام ہے ۔ یہاں آکر ہم ایک بار پھر اپنے آپ کو ایک عظیم حقیقت کے سامنے کھڑا پاتے ہیں ۔ اس حقیقت کا تعلق اس دین کے نظریاتی پہلو سے ہے اور یہ حقیقت اسلام کے ان نظریات اور اللہ کے حق حاکمیت پر مشتمل ہے جن کے اوپر اللہ کا سیدھا راستہ استوار ہوتا ہے ۔ یہ اس دین کا حقیقی مزاج ہے اور اسی پر اسے اللہ رب العالمین نے استوار کیا ہے ۔ درس ٦٩ ایک نظر میں : یہ پورا مضمون درس سابق ہی کے ساتھ ملحق ہے ‘ بلکہ یہ اسی کا تسلسل ہے ۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح سمندر میں لہر کے بعد لہر اٹھتی ہے ۔ اس میں شیاطین جن اور شیاطین انس کے انجام کا بیان کیا گیا ہے اور یہ انجام اس اچھے انجام کے بالمقابل بیان ہوا ہے جو ان لوگوں کا ہوگا جو صراط مستقیم پر قائم ہوں گے ۔ اس جگہ اس کا ذکر اس مناسبت سے ہوا ہے کہ یہاں اللہ کی حاکمیت اور اس کے حق قانون سازی کا مضمون چل رہا تھا اور یہ مسائل وہ ہیں جن کا تعلق دین اسلام کے بنیادی اور ایمانی تصورات کے ساتھ ہے ، مقصد یہ بتلانا ہے کہ یہ مسائل محض سیانی اور دنیاوی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ ایمانیات کے ساتھ متعلق ہیں اور ان پر اخروی جزاوسزا بھی مرتب ہوتی ہے یعنی دنیا میں تبلیغ اور دعوت اور ڈراوے کے بعد انسان جو بھی کمائے گا اس پر تمام لوگوں کا انجام ہوگا ۔ اگر لوگوں کے کسب وعمل کو دخل نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تو اس بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ شیاطین اور ان کی دوست اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اور ان کی جگہ دوسری فرمانبردار اقوام کو لے کو آئے کیونکہ پوری دنیا کی آبادی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ یہ تمام امور نظریاتی عقائد کے ساتھ متعلق ہیں ۔ اور ان کو ذبیحوں کے حلال و حرام کی بحث کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بحث سے قبل بھی اور بعد میں بھی ۔ ذبیحوں کے بیان کے بعد پھلوں اور مویشیوں اور اولاد کی نذر کے مسئلے کو بھی یہاں لیا گیا ہے ‘ اس کا بھی یہاں نظریاتی پہلو ہے اور جاہلیت کے مختلف ادوار میں یہ رسوم کچھ نظریات پر مبنی تھیں ۔ اس طرح یہ تمام مباحث ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور پیوستہ نظر آتے ہیں ۔ اور یہ مسئلہ اسلامی نظام میں اس کی حقیقی حیثیت اور مقام میں نظر آتا ہے ۔ ان سب کے اندر مشترکہ صفت یہ ہے کہ ان تمام مسائل کا ایک نظریاتی پہلو ہے اور وہ یہ کہ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق حلال و حرام کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا راستہ سیدھا ہے مومن اور کافر کا فرق بیان فرمانے کے بعد اب صراط مستقیم کی دعوت دی جا رہی ہے۔ (دین اسلام) تیرے رب کا راستہ ہے جو سیدھا راستہ ہے اس میں کوئی کجی اور ٹیڑھا پن نہیں ہے اس کی دعوت بھی واضح ہے، جو لوگ نصیحت حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے واضح طور پر آیات بیان کردیں۔ پھر صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لیے دو انعام ذکر فرمائے اول یہ کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس دارالسلام ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

139: یہ مذکورہ بیان کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تحریمات غیر اللہ کی نذور کو حرام جاننا شرک اعتقادی اور شرک فعلی سے اجتناب کرنا یہ تمام چیزیں ہی صراط مستقیم اور یہی اللہ کا دین ہے جو اس نے مقرر فرمایا ہے ای ھذا لادین الذی شرعناہ لک یا محمد بما اوحینا الیک ھذا القراٰن ھو صراط اللہ المستقیم الخ (ابن کثیر ص 175 ج 2) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

126 اور یہ راستہ جس کو قرآن کریم بیان کرتا ہے یعنی اسلام ! اے پیغمبر آپ کے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے ہم نے ان لوگوں کے لئے اپنے دلائل کو مفصل بیان کیا ہے جو نصیحت قبول کیا کرتے ہیں۔