Commentary In the first (126) of the three verses appearing here, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and it has been said: وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا (And this is the path of your Lord, a straight path). Here, as said by Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) عنہما the word: ھذا (hadha: this) re¬fers to the Qur&an, and as said by Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) it means Islam (Ruh al-Ma&ni). The sense of the sentence is: This Way is the Way of your Lord, that is, this is a Way which has been proposed by your Lord in His infinite Wisdom, and with Him it finds favour. Here, by attributing the Way to the Lord of all, it has been indicated that the working system of Qur&an and Islam given to him was not for the benefit of Allah Ta` ala, rather, it was for the benefit of those who would act in accordance with it. This is as required by His being the Rabb, the Supreme Nurturer. Through this Way, the purpose is to nurture, train and groom human beings in a manner which would guarantee their eternal well-being. Then, by bringing in the word: رَبّ (Rabb: Lord) in a state of attribu¬tion to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that is: (Rabbik: your Lord), the impression of a special kindness towards him has been released - that: ` your& Lord has proposed this Way. The delicacy of this attribution can be readily felt by people of taste. Think of a servant of Allah. If he ever happens to find his person placed in even the minor-most frame of reference to his Rabb and مَعبُود Ma` bud, his Lord and the object of his worship and devotion, that would be, for him, the highest possible achievement. And now, if the Lord of lords, the One worship-worthy entity in this whole universe, were to attribute His pristine Person to him and say, |"I am yours,|" what remains there for him to say anything anymore about his wonderful ` kismet!& After that, the ` existing identity& of this Qur&anic Way has been ex¬plained through the word: مُستَقِیم (mustaqim), that is, this path is the straight path. Here too, rather than have &mustaqim& (straight) as the adjective of صِرَاط ` sirat& (path), it has been placed as an adverb which indi¬cates that the Way has been proposed by the Lord of the universe, and in this, any probability, other than its being straight, just cannot exist. (Ruh al-Mani and Al-Bahr al-Muhit) The text then says: قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ (We have made the verses elaborate for people who accept the advice). The word: فَصَّلْنَا (Fassalna: We have made elaborate) is from: تَفصِیل (tafsil) which basically means to describe a subject by analysing it unit by unit. This way comprehending the subject becomes easy. Therefore, the outcome of tafsil is to explain explicitly. So, the sense comes to be: ` We have stated matters of principle explicitly and in details in which there remains no brevity or ambiguity.& After that, by saying: (for people who accept the advice), it was pointed out that, though these statements of the Qur&an are clear, but benefit from them has been derived only by those who ponder over the Qur&an to seek good counsel honestly, that is, doggedness, inherent resistance, opinionated¬ness, a priori hostility or the barriers of blind adherence to or following of ancestral customs do not come in between as walls.
خلاصہ تفسیر اور (اوپر جو اسلام کا ذکر ہے تو) یہی (اسلام) تیرے رب کا (بتلایا ہوا) سیدھا راستہ ہے (جس پر چلنے سے نجات ہوتی ہے، جس کا ذکر (آیت) فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ ، میں ہے، اور اسی صراط مستقیم کی توضیح کے لئے) ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے، (جس سے وہ اس کے اعجاز سے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کے مضامین پر عمل کرکے نجات حاصل کریں، یہی تصدیق و عمل صراط مستقیم کامل ہے، بخلاف ان کے جن کو نصیحت حاصل کرنے کی فکر ہی نہیں ان کے واسطے نہ یہ کافی نہ دوسرے دلائل کافی، آگے ان ماننے والوں کی جزاء کا ذکر ہے، جیسا نہ ماننے والوں کی سزا اوپر کئی جملوں میں مذکور ہے پس ارشاد ہے کہ) ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) سلامتی (یعنی امن وبقاء) کا گھر (یعنی جنت) ہے اور اللہ ان سے محبت رکھتا ہے، ان کے اعمال (حسنہ) کی وجہ سے اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کریں گے (اور ان میں سے بالخصوص کفار کو حاضر کرکے ان میں جو شیاطین الجن ہیں ان سے تو بیخاً کہا جاوے گا کہ) اے جماعت جنات کی تم نے انسانوں (کے گمراہ کرنے) میں بڑا حصہ لیا (اور ان کو خوب بہکایا یا اسی طرح انسانوں سے پوچھا جاوے گا (آیت) الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن الخ۔ غرض شیاطین الجن بھی اقرار کریں گے) اور جو انسان ان (شیاطین جن) کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ (بھی اقراراً کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ صحیح فرماتے ہیں واقعی) ہم میں ایک نے دوسرے سے (اس ضلال واضلال کے باب میں نفسانی) فائدہ حاصل کیا تھا (چنانچہ گمراہ انسانوں کو اپنے عقائد کفریہ و شرکیہ میں لذت آتی ہے اور گمراہ کنندہ شیاطین کو اس سے حظ ہوتا ہے کہ ہمارا کہنا چل گیا) اور (فی الحقیقت ہم ان کے بہکانے سے قیامت کے منکر تھے، لیکن وہ انکار غلط ثابت ہوا، چنانچہ) ہم اپنی اس معیّن میعاد تک آپہنچے جو آپ نے ہمارے لئے معیّن فرمائی، (یعنی قیامت آگئی) اللہ تعالیٰ (سب کفار جن وانس سے) فرماویں گے کہ تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو گے، (کوئی نکلنے کی سبیل و تدبیر نہیں) ہاں، اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (لیکن یہ یقینی ہے کہ خدا بھی نہیں چاہے گا اس لئے ہمیشہ رہا کرو) بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بڑی حکمت والا اور بڑا علم والا ہے (علم سے سب کے جرائم معلوم کرتا ہے اور حکمت سے مناسب سزا دیتا ہے) ۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (آیت) وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا، ” یعنی یہ راستہ تیرے رب کا ہے سیدھا “۔ اس میں لفظ ھذٰا سے بقول ابن مسعود (رض) قرآن کی طرف اور بقول ابن عباس (رض) اسلام کی طرف اشارہ ہے (روح) معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن یا شریعت اسلام جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے، یہ راستہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا ہے، یعنی ایسا راستہ ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے اپنی حکمت بالغہ سے تجویز فرمایا اور اس کو پسند کیا ہے، اس میں راستہ کی اضافت و نسبت پروردگار کی طرف کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ قرآن اور اسلام کا جو دستور العمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا کچھ اللہ تعالیٰ کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کے فائدہ کے لئے شان پروردگاری کے تقاضہ کی بنا پر ہے اس کے ذریعہ انسان کی ایسی تربیت کرنا مقصود ہے جو اس کی دائمی فلاح و بہبود کی ضامن ہو۔ پھر اس میں لفظ رب کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص لفط و عنایت کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے یہ راستہ تجویز فرمایا ہے، اس نسبت کا لفط اہل ذوق ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک بندہ کو اپنے رب اور معبود کی طرف کوئی ادنیٰ نسبت حاصل ہوجانا بھی اس کے لئے انتہائی فخر کی چیز ہے، اور اگر رب الارباب اور معبود کائنات اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرے کہ میں تیرا ہوں تو اس کی قسمت کا کیا کہنا، حضرت حسن نظامی رحمة اللہ علیہ اسی مقام سے فرماتے ہیں بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام، تو بزبان خود بگو کہ بندہ نواز کیستی اس کے بعد اس قرآنی راستہ کا یہ حال لفظ مُسْتَقِـيْمًا سے بیان کیا گیا کہ یہ راستہ سیدھا راستہ ہے، اس میں بھی مستقیم کو صراط کی صفت کے طور پر لانے کے بجائے حال کے طریقہ سے ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ جو راستہ پروردگار عالم کا تجویز کیا ہوا ہے، اس میں بجز مستقیم اور سیدھا ہونے کے اور کوئی احتمال ہو ہی نہیں سکتا (روح و بحر) اس کے بعد فرمایا (آیت) قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، یعنی ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے۔ فصلنا، تفصیل سے بنا ہے، تفِصیل کے اصلی معنی یہ ہیں یہ تجزیہ کر کے ایک ایک فصل کو الگ الگ بیان کیا جائے، اس طریقہ پر پورا مضمون ذہن نشین ہوجاتا ہے، اس لئے تفِصیل کا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، جس میں کوئی اجمال یا ابہام باقی نہیں چھوڑا، اس میں لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ اگرچہ قرآنی ارشاد بالکل واضح اور صاف ہیں، لیکن ان سے فائدہ انہی لوگوں نے اٹھایا جو نصیحت حاصل کرنے کے قصد سے قرآن میں غور کرتے ہیں، ضد اور عناد یا آبائی رسوم کی تقلید جامد کے پردے ان کے درمیان حائل نہیں ہوتے۔