Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 128

سورة الأنعام

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ۚ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ ۚ وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا ؕ قَالَ النَّارُ مَثۡوٰىکُمۡ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

And [mention, O Muhammad], the Day when He will gather them together [and say], "O company of jinn, you have [misled] many of mankind." And their allies among mankind will say, "Our Lord, some of us made use of others, and we have [now] reached our term, which you appointed for us." He will say, "The Fire is your residence, wherein you will abide eternally, except for what Allah wills. Indeed, your Lord is Wise and Knowing."

اور جس روز اللہ تعالٰی تمام خلائق کو جمع کرے گا ( کہے گا ) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لئے جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تو نے ہمارے لئے معین فرمائی ، اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے ۔ بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, `Mention, O Muhammad, in what you convey and warn,' that, وَيَوْمَ يِحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ... on the Day when He will gather them (all) together. gather the Jinns and their loyal supporters from mankind who used to worship them in this life, seek refuge with them, obey them and inspire each other with adorned, deceitful speech. Allah will proclaim then, ... يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الاِنسِ ... O you assembly of Jinn! Many did you mislead of men, So the Ayah; قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الاِنسِ (Many did you mislead of men) refers to their misguiding and leading them astray. Allah also said; أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يبَنِى ءَادَمَ أَن لاَّ تَعْبُدُواْ الشَّيطَـنَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وَأَنِ اعْبُدُونِى هَـذَا صِرَطٌ مُّسْتَقِيمٌ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّ كَثِيراً أَفَلَمْ تَكُونُواْ تَعْقِلُونَ Did I not command you, O Children of Adam, that you should not worship Shaytan. Verily, he is a plain enemy to you. And that you should worship Me. That is the straight path. And indeed he (Shaytan) did lead astray a great multitude of you. Did you not, then, understand. (36:60-62) and, ... وَقَالَ أَوْلِيَأوُهُم مِّنَ الاِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ... and their friends among the people will say: "Our Lord! We benefited one from the other..." The friends of the Jinns among humanity will give this answer to Allah, after Allah chastises them for being misguided by the Jinns. Al-Hasan commented, "They benefited from each other when the Jinns merely commanded and mankind obeyed." Ibn Jurayj said, "During the time of Jahiliyyah, a man would reach a land and proclaim, `I seek refuge with the master (Jinn) of this valley,' and this is how they benefited from each other. They used this as an excuse for them on the Day of Resurrection." Therefore, the Jinns benefit from humans since humans revere the Jinns by invoking them for help. The Jinns would then proclaim, "We became the masters of both mankind and the Jinns." ... وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِيَ أَجَّلْتَ لَنَا ... but now we have reached our appointed term which You did appoint for us. meaning, death, according to As-Suddi. ... قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ ... He (Allah) will say: "The Fire be your dwelling place..." where you will reside and live, you and your friends, ... خَالِدِينَ فِيهَا ... you will dwell therein forever. and will never depart except what Allah may will. ... إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ .... except as Allah may will. ... إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَليمٌ Certainly your Lord is All-Wise, All-Knowing."

یوم حشر وہ دن بھی قریب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا ۔ جناب انسان عابد معبود سب ایک میدان میں کھڑے ہوں گے اس وقت جنات سے ارشاد ہو گا کہ تم نے انسانوں کو خوب بہکایا اور ورغلایا ۔ انسانوں کو یاد دلایا جائے گا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا وہ تمہارا دشمن ہے میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے لیکن تم نے سمجھ سے کام نہ لیا اور شیطانی راگ میں آ گئے اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انہوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور فائدہ حاصل کرتے رہے ، جاہلیت کے زمانہ میں جو مسافر کہیں اترتا تو کہتا کہ اس وادی کے بڑے جن کی پناہ میں میں آتا ہوں ۔ انسانوں سے جنات کو بھی فائدہ پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سردار سمجھنے لگے تھے موت کے وقت تک یہی حالت رہی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اچھا اب بھی تم ساتھ ہی جہنم میں جاؤ وہیں ہمیشہ پڑے رہنا ۔ یہ استثناء جو ہے وہ راجع ہے برزخ کی طرف بعض کہتے ہیں دنیا کی مدت کی طرف ، اس کا پورا بیان سورۃ ہود کی آیت ( خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ) 11 ۔ ہود:107 ) کی تفسیر میں آئے گا انشا اللہ ۔ اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے جنت دوزخ کا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ سب مشیت رب پر موقوف ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

128۔ 1 یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورة یٰسین میں فرمایا ' اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے (یٰسین۔ 60، 62) ۔ 128۔ 2 جنوں اور انسانوں نے ایک دوسر سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر تلذذ حاصل کرنا اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطان نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنادیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کی انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں ا۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھایا یہ ہی انسان جنات کا بیان کردہ جھوٹی اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔ 128۔ 3 یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٥] جنوں کا انسانوں کے سر چڑھنا :۔ سورة جن میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون سے ملتا جلتا مضمون بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ انسانوں کے اس فعل نے جنوں کی سرکشی کو اور بڑھا دیا۔ یعنی جن انسانوں کے سر پر چڑھ گئے۔ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا یا کسی سفر میں اسے جان کا خطرہ درپیش ہوتا تو وہ یوں کہتا میں اس جنگل کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا اور جو شخص اس سے پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو بھی پہنچتا تھا اور یہ بادشاہ کوئی شیطان یا جن ہی ہوا کرتا تھا۔ جو آدمیوں کی ایسی فریاد سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا اور کہتا میں جنوں کے علاوہ آدمیوں کا بھی سردار بن گیا۔ جن ایک غیر مرئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اکثریت برے لوگوں کی ہے جنہیں خبیث روحیں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ روحیں بعض دفعہ سفر میں اور بالخصوص ناپاک جگہوں میں کوئی بری سی شکل دھار کر انسانوں کو خوفزدہ کرتی ہیں اور ان پر اپنا رعب جماتی ہیں۔ ایسی بد روحوں کو ہمارے ہاں عموماً بھوت اور چڑیل کہا جاتا ہے۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت ہمیں جو دعا رسول اللہ نے سکھائی ہے وہ یوں ہے && اے اللہ ! میں جنوں اور جننیوں (بد روحیں مذکر ہوں یا مونث) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ && (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب الدعاء عندالخلائ) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسی بد روحیں انسان کو تنگ اور پریشان کرسکتی ہیں۔ خ جنوں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا :۔ اب جنوں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی صحیح صورتیں تو ہمیں معلوم نہیں تاہم ایک مشہور و معروف صورت جو ہم دیکھتے ہیں وہ && تسخیر جنات کی صورت ہے۔ جنوں کو مسخر کرنے والے انسانوں کو ہماری زبان میں عامل کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی مختلف سورتوں، آیتوں یا بعض دوسرے جنتروں منتروں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اور زکوٰۃ نکالنا، کی اصطلاح ان کے پورے عمل کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔ ان کے زکوٰۃ کے عمل کی یہ صورت ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص سورة جن کی زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ چالیس دن رات کو کسی جنگل میں جا کر مقررہ تعداد میں سورة مذکور کو پڑھے گا اور اپنے گرد ایک حصار یا گول دائرہ کھینچ لے گا اور یہ عمل چالیس دن تک برابر جاری رکھے گا اور ان دنوں میں فلاں فلاں کھانے یا فلاں کام کرنے سے پرہیز رکھے گا۔ جب وہ یہ عمل رات کو کر رہا ہوگا تو جن طرح طرح کی شکلیں بن کر اسے ڈرانے آتے رہیں گے۔ لیکن حصار کے اندر داخل ہو کر اس پر حملہ نہ کرسکیں گے۔ اگر اس دوران عامل جنوں سے ڈر گیا تو جن اس سے انتقام لیں گے۔ مثلاً بیمار کردیں گے، اپاہج بنادیں گے، پاگل بنادیں گے، اس سے چمٹ کر طرح طرح کی اذیتیں دیں گے یا جان ہی سے مار ڈالیں گے۔ یہ سزا وہ اس عامل کے اس وقت تک کیے ہوئے عمل کے مطابق دیں گے۔ اور اگر وہ عامل پوری دلجمعی سے اپنا عمل جاری رکھے اور بد روحوں سے ہرگز خوفزدہ نہ ہو اور چالیس دن کا کو رس پورا کرلے تو پھر وہ کامیاب ہے۔ کوئی نہ کوئی جن اس کا تابع بن جائے گا جس سے وہ طرح طرح کے کام لے سکتا ہے جب اس جن کی ضرورت پیش آئے تو ایک دفعہ سورة جن پڑھ کر اسے بلائے تو وہ حاضر ہوجائے گا اور عامل اس کو مطلوبہ کام پر مامور کر کے اس سے کام کروا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس عامل نے کوئی جن یا بدروح مسخر کرلی ہو وہ اسے مطلوبہ کام پر لگا کر دنیوی مفادات بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب کوئی جن کسی عورت کے جسم میں حلول کر کے اسے پریشان کر رہا ہو (یاد رہے کہ جن عموماً عورتوں کو ہی پڑتے ہیں مردوں کو کم ہی پڑتے ہیں) تو عامل کو بلایا جاتا ہے۔ وہ جن کو حاضر کر کے حالات معلوم کرتا، مریض کے علاج معالجہ کا وعدہ کرتا اور گھر والوں سے نذرانے وصول کرتا ہے یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ جن عموماً اس بستی میں عورتوں کو پریشان کرتے ہیں جہاں کوئی عامل رہتا ہو۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر عامل بعض دفعہ خود ہی جن ڈالتے ہیں پھر جب اسے علاج کے لیے بلایا جائے تو اپنے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ بہرحال جنوں کے انسانوں کو تنگ کرنے اور عاملوں کے کارناموں کے متعلق طرح طرح کی داستانیں مشہور ہیں اور کچھ واقعات دیکھنے میں بھی آتے رہتے ہیں اور حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ [١٣٦] یہ سارا کاروبار چونکہ جادو سے ملتا جلتا ہے اور جنوں کے ذریعہ غیب کے حالات معلوم کرنے کا دھندا بھی اس میں شامل ہے۔ لہذا قرآن کی نظروں میں یہ بھی کفر ہے اسی لیے اللہ نے ایسے جنوں اور انسانوں کی سزا دوزخ مقرر کی ہے۔ [١٣٧] گناہوں کی سزا احوال و ظروف کو مدنظر رکھ کردی جاتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کے عذاب دوزخ کی مدت میں کمی بیشی عین انصاف کے مطابق ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ۚ: جنوں سے مراد یہاں شیطان جن ہیں۔ ان کا بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لینے کا مطلب انھیں گمراہ کر کے اپنے راستے پر لگا لینا ہے اور جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انھوں نے ان کو گمراہی کی دعوت دی اور انھوں نے اسے قبول کرلیا اور ان کی تعظیم و تکریم اور مصیبتوں کے وقت ان کو پکارنا شروع کردیا اور یہی شیاطین کی کامیابی ہے اور انسانوں کے جنوں سے فائدہ اٹھانے سے مراد ان سے آسمان کے فرشتوں سے سنی ہوئی خبریں، جو وہ جھوٹ ملا کر بتاتے ہیں، سن کر اپنی جھوٹی غیب دانی کا بازار چمکانا، جادو ٹونے میں ان سے مدد لینا وغیرہ ہے اور پھر لوگوں سے پیسے بٹورنا، مزید کئی فوائد حاصل کرنا اور انھیں گمراہ کرنا ہے۔ قَال النَّارُ مَثْوٰىكُمْ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جو شخص بھی کسی جن سے کوئی غلط فائدہ اٹھائے یا قید کر کے اس سے کوئی مقصد حاصل کرے اس شخص اور جن دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شیطان جن کو نماز کے دوران آپ پر حملہ کرنے پر گرفتار کرلیا اور مسجد کے ستون سے باندھنے کا ارادہ کیا تو سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد کر کے اسے چھوڑ دیا کہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ……...) [ صٓ : ٣٤ تا ٤٠ ] مزید دیکھیے : سورة شعراء (٢٢١ تا ٢٢٣) اور سورة جن (٦) ۔ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ: اس لفظ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جہنم آخر ختم ہوجائے گی اس کے جواب میں شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اللہ تو یہ اس لیے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اسی کے چاہنے سے ہے، وہ چاہے تو موقوف کرے مگر وہ چاہ چکا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the third verse (128) is a dialogue before a gathering of Jinns and human beings on the plains of the Resurrection (Al-Hashr). Allah Ta` ala will address the satans among Jinns telling them about their excessive role in misleading human beings. What would they say in reply has not been mentioned by the Qur&an. As obvious, there was not much they could do but to confess the truth before the All-Knowing and the All-Aware. But, in not mentioning their confes¬sion, the hint given is that they will be so confounded with the ques¬tion that they would not know how to make an answer. (Ruh al-Ma&ani) After that, the text turns to the satans among human beings, that is, those who followed the instigations of satans during their life of the world, went astray themselves, and kept becoming the cause of others going astray. It is from them that an answer submitted in the court of the Judge of all judges has been mentioned - though, the initial ques¬tion was not asked of the satans of human beings, but in an implied manner, they too were the addressees, because they too had done the same job of making people go astray as was the job of the satans of the Jinn. Thus, their reply was based on their being the implied address¬ees. But, it seems obvious that the human-like satans too are liable to be questioned which, though, is not mentioned here explicitly. Howev¬er, it does find mention in a verse of Surah Ya’ Sin, which is: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ that is, had I not taken a pledge from you, 0 chil¬dren of Adam (through messengers), that you shall not obey the Shay-tan? - 36:60). From this we know that human satans too will be subjected to the question on this occasion and they would, in reply, confess that, surely, they committed that crime and that they listened to the satans, and they would also confess that, surely, the two of them benefitted from each other through their friendship and cooperation. The human sa¬tans learned from them the ways of securing gratification from worldly enjoyments and, on occasions, called on them for help in one or the other way, as is the practice in idol-worshipping Hindus and, for that matter, even among ignorant Muslims, who would practice methods through which the help of satans and jinns can be harnessed in some tasks. As for the satans among Jinns, their gain was that they found a pliable people to listen to them because of which they succeeded in making human beings follow their dictates, so much so that they forgot all about death and the Hereafter. That was when they confessed that they had forsaken the thought of death and the Hereafter because of the instigation of satans, and now they see it in front of them. Thereupon, Allah Ta ala will say: النَّارُ‌ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ(|"The Fire is your abode where you shall remain forever, except what Allah wills [ that is, wills to take someone out of it ]. Surely, your Lord is All-Wise, All-Knowing|" ). But, as in the definitive statements of the Qur&an (Nusus), it stands proved that even Allah Ta` ala would not so will, therefore, it is for ever that they shall have to be in it.

تیسری آیت میں میدان حشر کے اندر تمام جنات اور انسانوں کو جمع کرنے کے بعد دونوں گروہوں سے ایک سوال و جواب کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ شیاطین الجن کو خطاب کرکے ان کے جرم کا اظہار اس طرح فرمائیں گے کہ تم نے انسانوں کی گمراہی میں بڑا حصہ لیا ہے، اس کے جواب میں جنات کیا کہیں گے قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، ظاہر یہی ہے کہ علیم وخبیر کے سامنے اقرار کرنے کے سوا چارہ کیا ہے، مگر ان کا اقرار ذکر نہ کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ اس سوال پر وہ ایسے مبہوت ہوجائیں گے کہ جواب کیلئے زبان نہ اٹھ سکے گی (روح) ۔ اس کے بعد شیاطین الانس یعنی وہ لوگ جو دنیا میں شیطانوں کے تابع رہے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے رہے ان لوگوں کی طرف سے بارگاہ احکم الحاکمین میں ایک جواب ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ سوال شیاطین الانس سے نہیں کیا گیا، مگر ضمنی طور پر گویا وہ بھی مخاطب تھے، کیوں کہ انہوں نے بھی گمراہی پھیلانے کا وہی کام کیا تھا، جو شیاطین الجن کا کام تھا، اس ضمنی خطاب کی وجہ سے ان لوگوں نے جواب دیا، مگر ظاہر یہ ہے کہ خود انسان نما شیطانوں سے بھی سوال ہوگا، جس کا ذکر صراحةً اگرچہ یہاں نہیں ہے، مگر سورة یٰسین کی اس آیت میں مذکور ہے :) (آیت) الم اعھد الیکم یٰبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطٰن، ” یعنی اے بنی آدم کیا ہم نے تم سے رسولوں کے واسطے سے یہ نہ کہا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا “۔ جس سے معلوم ہوا کہ انسانی شیطانوں سے بھی اس موقع پر سوال ہوگا اور وہ جواب میں اقرار کریں گے کہ بیشک ہم سے یہ جرم سرزد ہوا کہ ہم نے شیطانوں کی بات مانی اور یہ کہیں گے کہ بیشک جنی شیاطین نے ہم سے اور ہم نے ان سے دوستانہ تعلقات رکھ کر ایک دوسرے سے نفع حاصل کیا، انسانی شیطانوں نے تو ان سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ دنیا کی لذتیں حاصل کرنے کی راہیں سیکھیں، اور کہیں کہیں جنات شیاطین کی دہائی دے کر یا کسی دوسرے طریق سے ان سے امداد بھی حاصل کی، جیسے بت پرست ہندوؤں میں بلکہ بہت سے جاہل مسلمانوں میں بھی ایسے طریقے معروف ہیں جن کے ذریعہ شیاطین اور جنات سے بعض کاموں میں امداد لے سکتے ہیں، اور جنی شیطانوں نے انسانوں سے یہ فائدہ حاصل کیا کہ ان کی بات مانی گئی، اور یہ انسان کو اپنے تابع بنانے میں کامیاب ہوگئے، یہاں تک کہ وہ موت اور آخرت کو بھول بیٹھے، اور اس وقت ان لوگوں نے اقرار کیا کہ جس موت اور آخرت کو ہم شیطان کے بہکانے سے بھول بیٹھے تھے اب وہ سامنے آگئی، اس پر حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا : (آیت) النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ ” یعنی تم دونوں گروہوں کے جرم کی سزا اب یہ ہے کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے، جس میں ہمیشہ رہو گے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس سے کسی کو نکالنا چاہے “ لیکن دوسری نصوص میں قرآن شاہد ہے کہ الہ بھی نہیں چاہے گا اس لیے ہمیشہ ہی رہنا پڑے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا۝ ٠ ۚ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ۝ ٠ ۚ وَقَالَ اَوْلِيٰۗـؤُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِيْٓ اَجَّلْتَ لَنَا۝ ٠ ۭ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۝ ١٢٨ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ ( معشر) ، اسم جمع بمعنی الجماعة، وزنه مفعل بفتح المیم والعین ... ويجمع علی معاشر . جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ استکثرتم ۔ تم نے بہت زیادہ ( تابع) کرلیا۔ استکبار ( استفعال) سے ۔ کسی کام کو بہت زیادہ کرنا۔ اسی باب سے لفظ استحصال ہے بہت زیادہ وصول کرنا۔ یہاں استکثرتم من الانس سے مراد یہ ہے کہ انسانوں میں بہتوں کو تم ضلالت اور سرکشی کی طرف لے گئے تھے۔ اسْتَمْتَعَ : واسْتَمْتَعَ : طلب التّمتّع . رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام/ 128] ، فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ [ التوبة/ 69] ، فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلاقِهِمْ [ التوبة/ 69] اور استمتع کے معی کیس چیز سے نفع حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام/ 128] اے ہمارے پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔ فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ [ التوبة/ 69] وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے ۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھاچکے ہیں ۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًاج یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ج) وہ جو تمہارے بڑے جن عزازیل نے کہا تھا : (وَلاَ تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ ) (الاعراف ) اور تو ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا۔ تو واقعی بہت سے انسانوں کو تم نے ہتھیا لیا ہے۔ یہ گویا ایک طرح کی شاباش ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دی جائے گی۔ (وَقَالَ اَوْلِیٰٓءُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ) اس پر جنوں کے ساتھی انسانوں کی غیرت ذرا جاگے گی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ جنات نے ہمیں ہتھیا لیا ہے ‘ شکار کرلیا ہے۔ اس پر وہ بول اٹھیں گے : (رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ) ہم ان سے اپنے کام نکلواتے رہے اور یہ ہم سے مفادات حاصل کرتے رہے۔ ہم نے جنات کو اپنا مؤکل بنایا ‘ ان کے ذریعے سے غیب کی خبریں حاصل کیں اور کہانت کی دکانیں چمکائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94. The term finn here refers to the evil ones among the jinn. 95. This means that they had derived unfair benefit from one another and had served their selfish ends by mutual deception. 96. Even though God has the right to punish whoever He wishes and to forgive whoever He wishes, His punishing and forgiving will be neither arbitrary nor whimsical. It will rather be founded on absolute knowledge and wisdom. God will forgive those whom He knows not to be responsible for their guilt, and thus not liable to punishment according to His wisdom and justice.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :94 یہاں جنوں سے مراد شیاطین جن ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :95 یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے ناجائز فائدے اٹھائے ہیں ، ہر ایک دوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :96 یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی ، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی ۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ خود اپنے جرم کا ذمہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

57: اِنسان تو شیطانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ ان کے بہکائے میں آ کر اپنی نفسانی خوہشات کی تکمیل کی اور وہ گناہ کئے جن سے ظاہری طور پر لذت حاصل ہوتی تھی۔ اور شیطان اِنسانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ انہیں گمراہ کر کے خوش ہوئے کہ یہ لوگ خوب اچھی طرح ہمارے قابو میں آ گئے ہیں۔ در اصل وہ یہ کہہ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہوں گے، اور غالبا آگے معافی بھی مانگنا چاہتے ہوں گے، لیکن یا تو اس سے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، یا چونکہ معافی کا وقت گذر چکا ہوگا، اس لئے اﷲ تعالیٰ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ فرمائیں گے کہ اب معافی تلافی کا وقت گذر چکا، اب تو تمہیں جہنم کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔ 58: اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، لیکن بظاہر استثنا کے اس جملے سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ایک یہ کہ کافروں کے عذاب وثواب کا فیصلہ کسی سفارش یا اثر ورسوخ کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا تمام ترفیصلہ خود اﷲ تعالیٰ کی مشیت کی بنیاد پر ہوگا، اور یہ مشیت اس کی حکمت اور علم کے مطابق ہوگی جس کا ذکر اگلے جملے میں ہے۔ دوسری حقیقت جو اس استثنا سے ظاہر کی گئی ہے یہ ہے کہ کافروں کو ہمیشہ جہنم میں رکھنا (معاذاللہ) اﷲ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے، لہٰذا اگر بالفرض اس کی مشیت یہ ہوجائے کہ کسی کو باہر نکال لیا جائے تو یہ عقلی اعتبار سے ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی اُس مشیت کے خلاف کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی مشیت اس کے علم اور حکمت کے مطابق یہی ہو کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جن شیاطینوں کے بہکانے سے بت پرست لوگ دنیا میں بت پرستی کرتے تھے اور جو شیطان الجن شیاطین الانس کے دل میں ملمع کی باتیں لوگوں کے بہکانے کے لیے ڈالتے تھے قیامت کے دن ان سب کو ساتھ کھڑا کیا جاکر جس طرح ذلیل کیا جاویگا مکہ کے بت پرستوں کی تنبیہ کے لیے اس آیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے قَدِ اسْتَکْثَرْ نُمِْ مِنَ الِاْنِسْ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی آدم کے بہکانے والے شیاطینوں سے قائل کرنے کے طور پر اللہ تعالیٰ یہ پوچھے گا کہ تم نے بہت سے بنی آدم کہ بہکانے کا وبال اپنے سرلیا یا نہیں۔ شیاطین تو اس کا کچھ جواب نہ دے سکیں گے بہکنے والے بنی آدم فقط یہ کہویں گے کہ ہم اور شیاطین مل جل کر ایک دوسرے سے جیتے جی فائدہ اٹھاتے رہے۔ ہم شیاطین کو مانتے اور ان کی نذر ونیاذ کرتے رہے اور یہ ہم کو ملمع اور بناوٹ کی باتوں سے بہکاتے اور عقبے سے غافل بناتے رہے جس سے ہم ہمیشہ ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے تفسیر سدی وغیرہ میں اجل کے معنے یہاں موت کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جیتے جی ہمارا اور شیاطنیوں کا وہ معاملہ رہا جو ہم نے بیان کیا۔ مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ قسم کھائی ہے کہ بنی آدم کے جیتے جی میں ان کو ہر طرح بہکاؤں گا اس سے معلوم ہوا کہ جن مفسروں نے اجل کے معنے یہاں موت کے کئے ہیں وہ اس صحیح حدیث کے موافق ہیں۔ اِلَّامَاشَائَ اللّٰہ۔ اس کا مطلب حضرت ابی بن کعب اور فتادہ کے قول کے موافق یہ ہے کہ مرنے کی تاریخ سے عذاب قبر ہے اور پھر دوزخ ہے غرض نافرمان لوگوں کے لیے یہ ہمیشہ کا عذاب ہے لیکن دونوں صور کے مابین ان کا عذاب قبر موقوف فرما دیا ہے۔ اس کی زیادہ تفصیل سورة یسین میں مَنْ بَعَثَنَا مِنُ مَّرُقَدِنَا کی تفسیر میں آوے گی حکیم علم (اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی نیت کا ہر ایک کے عمل کا خوب حال معلوم ہے اس واسطے اس نے اپنے علم کے موافق اپنی حکمت اور تدبیر سے ہر ایک کی سزا و جزا مقرر کی ہے جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:128) ویوم یحشرھم۔ ای اذکر یوم یحشرھم۔ اور یاد کرو وہ دن جب وہ (اللہ) ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب ۔ جمیع جن و انس کے لئے ہے۔ الخازن۔ صاحب مدارک التنزیل اور بیضاوی نے نحشر (نون کے ساتھ صیغہ جمع متکلم پڑھا ہے) یمعشرالجن۔ اس سے پہلے یقول محذوف ہے تقدیر ہے ویقول یمعشرالجن ۔۔ اے جنات کے گروہ۔ یہاں جنات سے مراد شیاطین ہیں۔ المعشر۔ اسم مفرد معاشر جمع ۔ بڑا گروہ۔ استکثرتم۔ تم نے بہت زیادہ (تابع) کرلیا۔ استکبار (استفعال) سے ۔ کسی کام کو بہت زیادہ کرنا۔ اسی باب سے لفظ استحصال ہے بہت زیادہ وصول کرنا۔ یہاں استکثرتم من الانس سے مراد یہ ہے کہ انسانوں میں بہتوں کو تم ضلالت اور سرکشی کی طرف لے گئے تھے۔ اولیئہم من الانس۔ انسانوں میں سے جو ان شیاطین کے دوست ۔ ہمنوا ۔ ان کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ استمتح۔ اس نے فائدہ اٹھایا۔ اس نے کام نکالا۔ اجلت۔ تو نے مدت مقرر کی۔ تاجیل (تفعیل) سے جس کے معنی مدت ٹھہرانے اور دیر کرنے کے ہیں۔ اجل۔ وقت مقررہ۔ مدت مقررہ۔ چونکہ موت کا وقت بھی مقرر ہے اس لئے اجل موت کو بھی کہتے ہیں۔ قال۔ ای قال اللہ۔ مثوی کم۔ مثوی۔ ظرف مکان مفرد۔ مثاوی۔ جمع ٹھکانہ۔ درانہ مدت تک ۔ ٹھہرنے کا مقام ۔ فرودگاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اور پھر جنوں سے فرمائے گا۔۔۔۔۔۔11 یا ان کو مطیع اور فرماں بردار بناکر خوب مزے سے لوٹے،12 جنوں جنوں کا انسانوں سے فا ئدہ اٹھانا یہ ہے کہ انہوں نے ان کو گمراہی کی طرف دعوت دی اور انسانوں نے اسے قبول کرلیا اور انسانوں نے جنوں سے یہ فائدہ اٹھایا کہ انہوں نے ان سے طرح طرح کے گناہ اور برے کام سیکھے اور آخرت سے غافل ہو کر دنیا پرستی میں مست ہوگئے۔ (کذافی الکبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 128 سا 132 : یمعشر (اے جماعت۔ اے گروہ) استکثرتم ( تم نے بتہ کچھ حاصل کرلیا) استمتع ( نفع اٹھایا۔ فائدہ اٹھایا) بلغنا ( ہمیں پہنچا) اجلت ( تو نے مقرر کیا تھا) مثوی (ٹھکانا) نولی ( ہم دوست بناتے ہیں) الم یا تکم ( کیا تمہارے پاس نہیں آئے) یقصون ( بیان کرتے ہیں) ینذرون (وہ ڈراتے ہیں) لقاء ( ملاقات۔ ملنا) غرت (دھوکے میں ڈال دیا) لم یکن ( نہیں ہے) مھلک القری ( بستیوں کو ہلاک کرنے والا) اھلھا ( اس کے رہنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 128 تا 132 : ان آیات میں اس وقت کی منظر کشی کی گئی ہے جب میدان حشر میں قوم جن اور قوم انس میں سے سارے گنہ گار ایک طرف جمع ہونگے۔ اللہ تعالیٰ قوم جن کے گناہ گاروں کو کہے گا کہ تم نے تو قوم انسان کی کثیر تعداد کو اپنے اشاروں پر نچایا تھا۔ اس لئے ان کے گناہوں کا وبال بھی تمہارے ہی سر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان طنزیہ انداز میں ابلیس کے لئے کہا گیا ہے جو قوم جن میں سے تھا اور جس نے انسانوں کے جم غفیر کو بھٹکانے اور بہکانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس آیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابلیس نے پہلا وار اپنے ہم قوم جنوں ہی پر کیا اور ان ہی میں سے سیاطین کی ایک زبردست کھیپ تیار کی۔ ان شیاطین جن کو اپنا ای جنت اور کار پر دازبنا کر انسانوں میں بھیجا۔ ان شیاطین جن کو یہ سہولت تھی کہ وہ بھیس بدل سکتے تھے بلکہ انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر اپنا کام کرسکتے تھے۔ اور اس طرح شیاطین انس کی کھیپ تیار کرتے تھے۔ ان دونوں اقسام کے خناسوں کا سب سے بڑا ہتھکنڈا یہ تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے تھے جیسا کہ قرآن کی آخری سورة میں ذکر ہے۔ یہ وسوسے بالاقساط ڈالے جاتے تھے۔ پہلے ہلکا اور مختصر۔ پھر رفتہ رفتہ زیادہ گہرا اور پائیدار۔ دوسرے شیاطین انس ہیں جیسا کہ سورة یٰسین میں مذکور ہے۔ اے بنی آدم ! کیا ہم نے تمہی نصیحت نہیں کردی تھی کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا۔ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ جواب میں وہ ان الفاظ میں اپنے قصوروں کا اعتراف کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم دونوں یعنی شیاطین جن اور شیاطین انس نے ایک دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ بہکانے والے جنوں نے بہکنے والے انسانوں کو خوب گمراہ کیا۔ لیکن شیاطین انس نے کس طرح شیاطین جن کو استعمال کیا ؟ جواب یوں سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں دوطرح کے عوامل اور اسباب ہوا کرتے ہیں ایک ظاہر۔ دوسرے پوشیدہ۔ ایک وہ جو نظر آتے ہیں ‘ جن کے بنانے بگاڑنے میں انسان کا دخل ہے۔ دوسرے وہ جو نظر نہیں آتے ‘ جن کے بنانے بگاڑنے میں انسانوں کا دخل نہیں ہوتا۔ ظاہر او پوشیدہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مل جل کر کام کرتے ہیں۔ یہاں شیاطین جن سے پوشیدہ عوامل کی طرف اشارہ ہے۔ قیامت کے دن زمین وآسمان کی ہر چیز گواہی دینے لگ جائے گی جیسا کہ سورة زلزال میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور جیسا کہ سورة یٰسین میں ذکر ہے اللہ ان کی زبانوں کو بند کر کے جسم کے تمام اعضاء کو بولنے کی قوت دے دے گا اور وہ سب شہادتیں دینے لگ جائیں گے ۔ تب جا کر کہیں یہ ڈھیٹ جھوٹے مکار مجرمین نرم پڑیں گے۔ مجرمین نہ صرف اقرار جرم کریں گے بلکہ اپنی گمراہی کی واحد اصلی اور بنیادی وجہ بھی بیان کریں گے کہ ہم دنیا کی عشرتوں اور زینتوں پر ریجھ گئے تھے۔ ہم نے انہیں اپناسب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنوں میں بھی رسول آئے ہیں ؟ علمائے تفسیر وحدیث میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ رسول ہمیشہ انسانوں میں سے آئے ہیں۔ ان میں سے بعض جنوں کے لئے بھی معبوث ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے جنوں ہی میں سے افراد کو منتخب کیا ہے کہ اپنی قوم میں تبلیغ کریں۔ یا جیسا کہ سورة جن میں مذکور ہے ‘ خود نیک جنوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے اللہ کا کلام سنا اور اپنی قوم تک پہنچایا۔ یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں ‘ جنوں بلکہ تمام ذی عقل مخلوقات کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ علماء کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں انسانوں سے پہلے جنوں کی آبادی تھی۔ ان میں تبلیغ کے لئے جن رسول آیا کرتے تھے۔ لیکن حضرت آدم کے آنے کے ساتھ ہی جن رسولوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ‘ یہ دونوں اقوال متضاد نہیں ہیں۔ اس مضمون کی آخری آیت کا مقصد و منشا یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول اس لئے بھیجے ہیں تاکہ کسی بھی بستی کے رہنے والے احکام الٰہی سے بیخبر رہ کر جہنم میں نہ پہنچ جائیں۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ باقی رہے گا۔ کیونکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب کسی طرح کے رسول اور کسی طرح کے نبی آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قادیانیوں نے اس آیت سے جو استدلال کیا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی اور جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ختم نبوت پر پوری طرح ایمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ علم سے سب کے جرائم معلوم کرتا ہے اور حکمت سے مناسب سزا دیتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اسلام کو چھوڑنے والے انسانوں اور جنوں کا انجام اور ان کا اقرار۔ جن لوگوں اور جنات نے اسلام کے بغیر کوئی اور دین اپنایا وہ صراط مستقیم سے گمراہ ہوئے جس کا نتیجہ ہے کہ وہ ” دارالسلام “ یعنی جنت سے محروم ہوگئے۔ انسان کی گمراہی شیطان کی وجہ سے ہوتی ہے اور شیاطین کی اکثریت کا تعلق جنات سے ہے اس لیے محشر کے دن اللہ تعالیٰ جنات کو خطاب کرتے ہوئے فرمائے گا۔ اے جنو ! تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا جس کا اقرار شیاطین کے ساتھ انسان اس طرح کریں گے اے ہمارے رب تیرا فرمان سچا ہے اور واقعی ہم نے ایک دوسرے سے مفادات اور فائدے اٹھائے اور ہم نے بڑے بڑے جرائم کیے ہیں یہاں تک کہ ہماری اجل آن پہنچی جو آپ نے ہمارے لیے مقرر کر رکھی تھی یعنی ہمیں موت نے آلیا۔ آج تیری بارگاہ میں مجرم کی حیثیت سے اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں حکم ہوگا کہ اب آگ ہی تمہارا ٹھکانہ ہے جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ ما شاء اللہ کے الفاظ کے بارے میں مفسرین نے دو تفسیریں کی ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان الفاظ میں مجرموں کے لیے بالآخر نجات کی نشاندہی کی گئی ہے جب کہ اہل علم کی اکثریت کا نظریہ ہے کافر اور مشرکوں کا جہنم سے نجات پانے کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار ان کے بارے میں خٰلِدِیْنَ فِیْھٰآ اَبَدًا کا اعلان کیا ہے۔ انھیں ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا اور جنت ان پر حرام کردی گئی ہے۔ البتہ کلمہ گو گناہگار جنات اور انسانوں کو سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ کچھ مفسرین نے الا ما شاء اللہ کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اختیارات کا اشارہ دیا ہے کہ دنیا میں کئی لوگ جنات کو مشکل کشا سمجھتے تھے الا ما شاء اللہ میں ان کے باطل عقیدہ کی نفی کی گئی ہے کہ وہی کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور آخرت میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور چاہے گا۔ اگر دنیا میں تم شرک و کفر اور صراط مستقیم چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اللہ کے علم، طاقت اور دسترس سے باہر ہو بلکہ یہ مہلت اس کی حکمت کا نتیجہ ہے۔ اسی مہلت اور حکمت کے تحت اللہ تعالیٰ ظالموں کو ایک دوسرے کی مدد کا موقع دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنوں اور انسانوں سے ان کے عقیدہ و عمل کے بارے میں سوال کرے گا۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرم ایک دوسرے کو گمراہ کرنے کا اعتراف کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں ظالموں کو اس لیے ڈھیل دیتا ہے کہ وہ زیادہ گناہ کرسکیں۔ ٤۔ مشرک اور کافر ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ٥۔ دنیا میں برے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ ٦۔ مجرم آخرت میں اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے۔ ٧۔ مجرموں کا اقرار قیامت کے دن انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٦٩ تشریح آیات : ١٢٨۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٣٥۔ اس سے پہلے سبق میں یہ بات گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے دل بیدار ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ دارالسلام میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے رب کی ولایت اور کفالت میں رہتے بستے ہیں ۔ اب یہاں ایسے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو ان کے نقیض ہیں ۔ قیامت کے مناظر بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کا یہی انداز ہوتا ہے کہ وہ تصویر کے دونوں رخ انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اب یہاں انسانوں اور جنوں میں سے جو لوگ شیطانی کام کرتے ہیں ان کے شب وروز کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں ایسی زندگی گزاری ہے کہ یہ ایک دوسرے کو کھوٹی باتیں بتاتے رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور یہ کام وہ اس لئے کرتے رہے ہیں کہ لوگ گمراہ ہوں ۔ ان لوگوں کا رویہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ لوگ نبیوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے پشتیبان بنیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کو مشورے دیتے رہے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ان معاملات میں بحث و مباحثہ کریں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال و حرام کا تعین کیا ہے ۔ ان لوگوں کو قرآن کریم نے اس طرح پیش کیا ہے جس طرح ایک زندہ اور متحرک منظر میں کوئی چلتا پھرتا نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ اس منظر میں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے نہایت ہی منائف نظر آئے ۔ غرض اس آیت میں وہ مناظر بھر پور انداز میں آگئے جس طرح کہ قرآن کریم ہر جگہ مناظر قیامت کے بیان کے وقت یہ انداز عموما اختیار کرتا ہے ۔ (آیت) ” نمبر ١٢٨ تا ١٣٠۔ یہ منظر براہ راست مستقبل کے واقعات سے شروع ہوتا ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ سب کو گھیر کر میدان حشر میں جمع کرے گا ‘ لیکن سننے والے کے لئے یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو اور یہ تخیل اور تصور صرف ایک لفظ (اور کہے گا) کے حذف سے سامنے آتا ہے یعنی ” اور جس روز ان سب کو گھیر کر جمع کرلے گا (اور یہ کہے گا) اے گروہ جن “۔ صرف لفظ کہے گا کے حذف سے مفہوم ایک منظر کی شکل میں نظروں کے سامنے آکھڑا ہوجاتا ہے اور وہ منظر جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والا تھا فی الواقع سامنے آجاتا ہے اور یہ انداز بیان قرآن کریم کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اب ذرا اس منظر کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں ۔ (آیت) ” یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُم مِّنَ الإِنسِ “ (٦ : ١٢٨) ” اے گروہ جن ! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا ۔ “ یعنی تم نے انسانوں کی اکثریت کو اپنا تابع بنا لیا ۔ وہ تمہاری ہدایات واشارات پر چلتے رہے اور تمہاری وسوسہ اندازیوں پر خوب یقین کرتے رہے ۔ تمہارے منصوبوں پر چلتے رہے ۔ یہ صورت واقعہ کا ایسا بیان ہے کہ جس سے مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ صرف واقعہ بیان کرنا مطلوب ہے اس لئے کہ جن اس بات کو خوب جانتے تھے کہ انہوں نے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو گمراہ کردیا ہے بلکہ اس واقعی صورت حال کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ یہ تمہارا بہت ہی بڑا جرم ہے کہ تم نے انسانوں کی اتنی بڑی اکثریت کو گمراہ کردیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس جرم کو دیکھ کر پشیمان ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جنات کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ البتہ وہ لوگ جواب دیتے ہیں جنہیں دھوکہ دیا گیا اور جو بسہولت ان شیاطین کے وسوسوں کا شکار ہوجاتے تھے ۔ یہ لوگ یوں جواب دیتے ہیں ۔ (آیت) ” وَقَالَ أَوْلِیَآؤُہُم مِّنَ الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِیَ أَجَّلْتَ لَنَا “ (٦ : ١٢٨) ” انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار ! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے ‘ اور اب ہم اس وقت آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کردیا ہے ۔ “ اس جواب سے ان غافلوں کی غفلت اور ان کے ہلکے پن کا اندازہ ہوتا ہے اور اس دنیا میں شیطان انسانوں کو جس راہ پر گمراہ کرتا ہے اس کا اندازہ بھی خوب ہوجاتا ہے ۔ یعنی جب جنات ان لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے تو یہ دھوکہ کھانے والے بھی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ یوں یہ جنات ان افکار و تصورات کو ان لوگوں کے لئے خوشنما بناتے تھے ۔ اس طرح یہ لوگ ظاہر اور باطنی بدکاریوں میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔ گویا شیطان عیاشیوں کے راستے سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ اس طرح اس دھوکے اور گراہ سازی کے ذریعے یہ شیاطین بھی خوب لفط اندوز ہوتے تھے ۔ یوں شیطان ان کو اپنی ہوس کا شکار بناتا اور ان سے کھیلتا اور ان کو اس جہان میں ابلیسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ۔ جبکہ یہ دھوکہ کھانے والے یہ سمجھتے کہ ہم نے شیطان کو گمراہ کردیا ہے ۔ اس طرح یہ خود بھی اس کھیل میں مشغول ہوتے ‘ دلچسپی لیتے اور لطف اندوز ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ۔ (آیت) ” استمتع بعضنا ببعض “۔ (ہم ایک دوسرے سے خوب لطف اندوز ہوتے ۔ ) چناچہ مرنے تک ہماری یہی عیاشی جاری رہی اور پھر اچانک موت آگئی ۔ اور اب وہ جان رہے ہیں کہ یہ مہلت تو اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور یہ جو عیاشیاں کرتے تھے ‘ اس وقت بھی دراصل وہ پوری طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں تھے ۔ (اور اب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے ) اب اس مقام پر اللہ کی جانب سے فیصلہ کن جواب آتا ہے : (آیت) ” قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِیْنَ فِیْہَا إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلیْمٌ(128) ” اللہ فرمائے گا ” اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے ‘ اس میں تم ہمیشہ رہو گے ۔ “ اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا ‘ بیشک تمہارا رب دانا اور علیم ہے ۔ “ یعنی تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ۔ یہاں تمہارا قیام ہوگا اور یہ قیام دائمی ہوگا ‘ (الا ما شاء اللہ (٦ : ١٢٨) اور یہ لفظ (الا ماشاء اللہ (٦ : ١٢٨) یہاں اس لئے استعمال ہوا ہے کہ اللہ کی مشیت مطلق ہے ‘ بےقید ہے ۔ اسلامی تصورات و عقائد میں اللہ مشیت کا بےقید ہونا ایک اساسی اصول ہے ۔ نہ اس پر کوئی چیک ہے اور نہ اس میں کوئی نقص ہے کیونکہ اللہ دانا اور علیم ہے اور وہ اپنی مشیت اور تقدیر کو پورے علم کے ساتھ چلاتا ہے ۔ اس کے علم کے ساتھ حکمت بھی موجود ہے ۔ اس منظر کے خاتمے سے پہلے اس منظر پر ایک تبصرہ سامنے آتا ہے اور یوں ایک حکمت ہمارے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن جنات سے اور انسانوں سے سوال : اس کے بعد قیامت کے دن جو سوالات ہوں گے ان میں سے ایک سوال کا ذکر فرمایا (وَ یَوْمَ یَحْشَرُھُمْ جَمِیْعًا) کہ جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو یعنی جنات اور انسانوں کو محشر میں جمع فرمائے گا اور جنات سے اللہ تعالیٰ کا یوں خطاب ہوگا۔ (یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ) کہ اے جنات کے گروہ تم نے کثیر تعداد میں انسانوں کو اپنے تابع کرلیا۔ جنات سے شیاطین مراد ہیں۔ جب ابلیس مردود ہوا تھا اس نے کہا تھا (لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًامَّفْرُوْضًا) (کہ میں تیرے بندوں میں سے حصہ مقرر بنا لوں گا) اور یہ بھی کہا تھا۔ (لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ) (کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان کے سامنے سے اور پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔ ) ابلیس نے جو کہا تھا وہ برابر اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس کی ذریت بھی اس کی کوششوں میں اس کی معاون و مددگار ہے۔ اور انسانوں کی غفلت کی وجہ سے شیاطین اپنی محنت میں کامیاب ہیں انہوں نے اکثر انسانوں کو اپنا بنا لیا ہے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہ کردیا شیاطین الجن سے اللہ جل شانہٗ فرمائیں گے کہ انسانوں میں سے کثیر تعداد کو تم نے اپنا بنا لیا ہے اور ان کو صراط مستقیم سے ہٹا دیا۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہٗ کا یہ خطاب توبیخ کے طور پر ہوگا یعنی بطور ڈانٹ ڈپٹ ان سے یہ خطاب ہوگا۔ انسانوں کا جواب اور اقرار جرم : (وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُھُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا) (اور شیاطین کے دوست جو انسانوں میں سے تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم میں بعض سے بعض نے انتفاع کیا) یعنی انسان جنات سے اور جنات انسانوں سے منتفع ہوئے۔ صاحب روح المعانی نے حضرت حسن اور ابن جریج وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ انسانوں کا جنات سے نفع حاصل کرنا یوں تھا کہ جب ان میں سے کوئی شخص سفر پر جاتا اور جنات کا خوف ہوتا تو جس منزل پر اترنا ہوتا تو یوں کہتے کہ اَعُوْذُ بِسَیّدِ ھٰذَا الوادی (کہ میں اس وادی کے سردار کی پناہ لیتا ہوں) اللہ کی پناہ لینے کی بجائے شیاطین کی پناہ لیتے تھے۔ اور شیاطین کا انسانوں سے نفع حاصل کرنا یہ تھا کہ جب یہ لوگ اعوذ بِسَید ھٰذا الوادی کہتے تھے توجنات خوش ہوتے اور کہتے تھے کہ دیکھو انہوں نے ہم کو پناہ دینے پر قادر سمجھا اور جو پناہ اللہ سے مانگنی چاہئے تھی ہم سے مانگی۔ انسانوں کا گروہ آپس میں ایک دوسرے سے نفع حاصل کرنے کا اقرار کرنے کے بعد یوں کہے گا۔ کہ (وَّ بَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا) اور ہم پہنچ گئے اس مقرر میعاد کو جو ہمارے لیے آپ نے مقرر فرمائی تھی) اس اجل یعنی مقررہ معیاد سے بعض حضرات نے موت اور بعض نے قیامت کا دن مراد لیا ہے انسانوں کا گروہ یہ بات بطور اقرار جرم کہے گا۔ جس میں اظہار ندامت بھی ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا ! حسرت بھی ہے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ (قَال النَّارُ مَثْوٰیکُمْ ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ دوزخ تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ابلیس کو خطاب کر کے بتادیا تھا (لَاَ مْلَءَنَ جَھنَّمَ مِنْکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (کہ میں ضرور دوزخ کو بھر دوں گا۔ تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے جو تیرا اتباع کریں گے) یہ اعلان اسی وقت فرما دیا تھا جب ابلیس نے تکبر کیا اور اس نے بنی آدم کو بہکانے کی قسم کھا کر اپنا مضبوط ارادہ ظاہر کیا اللہ تعالیٰ نے اس کے دعوے پر اسے اور اس کے ماننے والوں کو دوزخ میں بھیجنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ اسی کے مطابق آج دوزخ میں شیطان کے ماننے والوں کا ٹھکانا ہوگا۔ (خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ) (یہ لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے) (اِلَّا مَا شَآء اللّٰہُ ) (مگر یہ کہ جو اللہ چاہے) یعنی وہ چاہے تو دوزخ سے نکال سکتا ہے۔ مگر کافروں کو نہیں نکالے گا جیسا کہ دوسری آیت میں (خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا) فرمایا۔ (اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ) (بےشک تیرا رب حکمت والا جاننے والا ہے اس طرح ہم بعض ظالموں کو بعض کا ولی بناتے ہیں بسبب ان کے اعمال کے جو وہ کرتے تھے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

141:۔ یہ تخویف اخروی ہے یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ اس سے پہلے یَقُوْلُ مقدر ہے اِسْتَکْثَرْتُمْ مَّنَ الْاِنْسِ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنے تابع کرلیا اور بہت سوں کو گمراہ کیا اَوْلِیَاءُھُمْ مِّنَ الْاِنسِ ضمیر مجرور الجن کی طرف راجع ہے اور اولیاء سے مراد متبعین ہے وقال اولیاء الجن ای الکفار من الانس (بحر ج 4 ص 220) ای الذین اطاعوھم واتبعوھم (روح ص 25 ج 8) ۔ جن لوگوں نے دنیا میں شیاطین کی پیروی کی وہ اظہار ندامت اور اعترافِ جرم کے طور پر کہیں گے اے اللہ بیشک ہم ایک دوسرے سے (یعنی جن انسانوں سے اور انسان جنوں سے) فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور آج اس میعاد پر آپہنچے ہیں جو تو نے مقرر کر رکھی تھی یعنی قیامت۔ ایک دوسرے سے فرائدہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بعض مشرک جنوں کی پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ جنوں کی پناہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور دوسری طرف جنوں کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ انسانوں کی نظروں میں معظم و مقدس ہوجاتے ہیں۔ عن الحسن وابن جریج والزجاج وغیرھم ان استمتاع الانس بھم انھم کانوا اذا سافر احدھم و خاف الجن قالوا اعوذ بسید ھذا الوادی واستمتاعھم بالانس اعترافھم بانھم قادرون علی اعاذتھم واجارتھم (روح) قال ابن عباس ایضا ومقاتل استمتاع الانس بالجن قال بعضہم اعوذ بعظیم ھذا الوادی من شر اھلہ اذا بات بالوادی فی سفرہ واستمتاع الجن والانس افتخارھم علی قومھم وقولھم قد سدنا الانس حتی صاروا یعوذون بنا (بحر) ۔ 142 یہ ماقبل سے استثناء ہے اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ مشرکین کو کبھی دوزخ سے باہر نکالا جائے گا اور اس سے مراد وہ وقفہ ہے جن ان کو ماء حمیم (گرم پانی) پلانے کے لیے باہر لایا جائے گا۔ یا جب ان کو طبقہ زمہریر یہ میں داخل کیا جائے گا۔ (روح) یا کوئی اور عذاب دیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمایا سَاُرْھِقُہٗ صَعُوْدًا (روح) کذا قال اشیخ قدس سرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

128 اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ تمام جنات اور انسانوں کو جمع کرے گا اور خاص کو جنات کو خطاب فرمائے گا اے گروہ جنات تم نے انسانوں میں سے بہت بڑی اکثریت کو حاصل کرلیا یعنی تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا اس پر ان جنات کے وہ رفیق و مددگار اور دوست جو انسانوں میں سے تھے کہیں گے یعنی وہ انسان جو جنات کے دنیا میں دوست تھے وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے آپس میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا اور جو میعاد تو نے ہمارے لئے مقرر کی تھی ہم اس کو پہنچ گئے یعنی ہم کو اپنے اپنے مقرر ہ وقت پر موت آگئی یا قیامت آگئی۔ اللہ تعالیٰ سب جنات اور انسان کفار سے فرمائے گا تم سب کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے جس میں تم ہمیشہ ہو گے مگر ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو دوسری بات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو نکالنا چاہے تو وہ الگ بات ہے بشلابہ آپ کا پروردگار بڑی حکمت اور بڑے علم والا ہے۔