Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 130

سورة الأنعام

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾

"O company of jinn and mankind, did there not come to you messengers from among you, relating to you My verses and warning you of the meeting of this Day of yours?" They will say, "We bear witness against ourselves"; and the worldly life had deluded them, and they will bear witness against themselves that they were disbelievers.

اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو اس آج کے دن کی خبر دیتے؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Chastising the Jinns and Humans after their Admission that Allah Sent Messengers to Them Allah will chastise the disbelieving Jinns and humans on the Day of Resurrection, when He asks them, while having better knowledge, if the Messengers delivered His Messages to them, يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ... "O you assembly of Jinn and humans! Did not there come to you Messengers from among you," We should note here that the Messengers are from among mankind only, not vice versa, as Mujahid, Ibn Jurayj and others from the Imams of Salaf and later generations have stated. The proof for this is that Allah said, إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ Verily, We have sent the revelation to you as We sent the revelation to Nuh and the Prophets after him. (4:163) until, رُّسُلً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِيَلَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ Messengers as bearers of good news as well as of warning in order that mankind should have no plea against Allah after the (coming of) Messengers. (4:165) Allah said, concerning the Prophet Ibrahim, وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ And We ordained among his offspring Prophethood and the Book. (29: 27), thus sending the Prophethood and the Book exclusively through the offspring of the Prophet Ibrahim. No one has claimed that there were Prophets from among the Jinns before the time of Ibrahim, but not after that. Allah said, وَمَأ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِى الاٌّسْوَاقِ And We never sent before you any of the Messengers but verily, they ate food and walked in the markets. (25:20) and, وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى And We sent not before you any but men unto whom We revealed, from among the people of townships. (12:109) Therefore, concerning Prophethood, the Jinns follow mankind in this regard and this is why Allah said about them, وَإِذْ صَرَفْنَأ إِلَيْكَ نَفَراً مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْءَانَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُواْ أَنصِتُواْ فَلَمَّا قُضِىَ وَلَّوْاْ إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ قَالُواْ يقَوْمَنَأ إِنَّا سَمِعْنَا كِتَـباً أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ يقَوْمَنَأ أَجِيبُواْ دَاعِىَ اللَّهِ وَءَامِنُواْ بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ وَمَن لاَّ يُجِبْ دَاعِىَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِى الاٌّرْضَ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَأءُ أُوْلَـيِكَ فِى ضَلَـلٍ مُّبِينٍ And (remember) when We sent towards you a group of the Jinn, listening to the Qur'an. When they stood in the presence thereof, they said: "Listen in silence!" And when it was finished, they returned to their people, as warners. They said: "O our people! Verily, we have heard a Book sent down after Musa, confirming what came before it, it guides to the truth and to the straight way. O our people! Respond to Allah's caller, and believe in him. He (Allah) will forgive you your sins, and will save you from a painful torment (i.e. Hell-fire). And whosoever does not respond to Allah's caller, he cannot escape on earth, and there will be no helpers for him besides Allah. Those are in manifest error. (46:29-32) A Hadith collected by At-Tirmidhi stated that; the Messenger of Allah recited Surah Ar-Rahman, to these Jinns, in which Allah said, سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَا الثَّقَلَنِ فَبِأَىِّ ءَالاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ We shall attend to you, O you two classes (Jinn and men)! Then which of the blessings of your Lord will you both (Jinn and men) deny! (55:31-32) Allah said in this honorable Ayah, يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا ... O you assembly of Jinn and humans! "Did not there come to you Messengers from amongst you, reciting unto you My verses and warning you of the meeting of this Day of yours!" They will say: "We bear witness against ourselves." meaning, we affirm that the Messengers have conveyed Your Messages to us and warned us about the meeting with You, and that this Day will certainly occur. Allah said next, ... وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ... It was the life of this world that deceived them. and they wasted their lives and brought destruction to themselves by rejecting the Messengers and denying their miracles. This is because they were deceived by the beauty, adornment and lusts of this life. ... وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ ... And they will bear witness against themselves, on the Day of Resurrection, ... أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ that they were disbelievers... in this worldly life, rejecting what the Messengers, (may Allah's peace and blessings be on them), brought them.

جن اور انسان اور پاداش عمل یہ اور سرزنش اور ڈانت ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں کو ہو گی ان سے سوال ہو گا کہ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے ۔ یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا ۔ ائمہ سلف خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے ۔ بدی سے روکتے تھے لیکن رسول صرف انسانوں میں سے ہی آتے رہے ۔ ضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے کہ جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسی ہی ہے جیسے آیت ( مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ) 55 ۔ الرحمن:19 ) سے ( يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ) 55 ۔ الرحمن:22 ) تک کی آیتیں صاف ظاہر ہے کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں ۔ میٹھے پانی سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے اس طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل آیت ( اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣؀ۚ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۭ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ١٦٤؀ۚ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ) 4 ۔ النسآء:163 ) اور ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:26 ) پس ثابت ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا انحصار آپ ہی کی اولاد میں ہو رہا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں کہ آپ سے پہلے نبی ہوتے تھے اور پھر ان میں سے نبوت جھین لی گئی اور آیت اس سے بھی صاف ہے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں آتے جاتے تھے اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے فرماتا ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ) 12 ۔ یوسف:109 ) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا ہے جو شہروں کے ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی نازل فرمائی تھی ۔ چنانچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہے آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:29 ) جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف پھیرا جو قرآن سنتے رہے جب سن چکے تو واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے موسیٰ کے بعد کی نازل شدہ کتاب سنی جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہ حق دکھاتی ہے اور صراط مستقیم کی رہبری کرتی ہے ، پس تم سب اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی مانو اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں المناک عذابوں سے بچائے اللہ کی طرف سے جو پکارنے والا ہے اس کی نہ ماننے والے اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے نہ اس کے سوا اپنا کوئی اور کار ساز اور والی پا سکتے ہیں بلکہ ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔ ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ اس موقعہ پر جنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمن پڑھ کر سنائی تھی جس میں ایک آیت ( سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ ) 55 ۔ الرحمن:31 ) ہے یعنی اے جنو انسانوں ہم صرف تمہاری ہی طرف تمام تر توجہ کرنے کیلئے عنقریب فارغ ہوں گے ۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کو جھٹلا رہے ہو؟ الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کر لیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں ۔ نبیوں کا کام یہی رہا کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں ۔ اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے تیرے رسول ہمارے پاس آئے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے بھی متنبہ کر دیا تھا ۔ پھر جناب باری فرماتا ہے انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گذاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے ۔ معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہے گئے ۔ شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم (علیہ السلام) کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 130۔ 2 میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الا نعام، 123) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٨] سلسلہ نبوت اب صرف انسانوں میں ہے :۔ انسان سے پہلے اس زمین پر جن ہی آباد تھے اور قرین قیاس یہی بات ہے کہ ان میں بھی رسول آتے ہوں گے۔ لیکن انسان کے زمین پر آباد ہونے کے بعد سلسلہ نبوت انسانوں سے ہی مختص ہوگیا۔ جو رسول انسانوں کے لیے ہوتا وہ جنوں کے لیے بھی ہوتا۔ انسانوں میں رسول آنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے جن نہیں۔ اور جن رسول سے استفادہ کرسکتے ہیں کیونکہ رسول بشر ہوتا ہے جو اپنی شکل بدل نہیں سکتا۔ لیکن اگر رسول جنوں میں سے ہوتے تو ان سے انسان استفادہ بھی نہ کرسکتا تھا۔ چناچہ رسول اللہ کا جنوں کے لیے بھی رسول ہونا قرآن میں دو مقامات سے ثابت ہے۔ سورة احقاف میں بھی ذکر آیا ہے اور سورة جن میں بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ :” تم میں سے رسول “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول جن و انس میں سے انسان ہی ہوئے ہیں۔ افضل مخلوق فرشتے یا انسان ہیں۔ دیکھیے سورة یوسف (١٠٩) اور سورة فرقان (٢٠) جنوں کا نبی ہونا ثابت نہیں، علمائے سلف و خلف کی اکثریت کا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا، البتہ ان میں سے کئی منذرین گزرے ہیں، یعنی اپنی قوم کو خبردار کرنے والے، جو انسانوں کی طرف آنے والے رسولوں پر ایمان لاکر اپنی قوم کو پیغام پہنچاتے تھے۔ دیکھیے سورة احقاف (٢٩ تا ٣٢) اور سورة جن۔ دونوں میں جنوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اقرار کیا ہے اور اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے، بلکہ سورة احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے تھے۔ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْن : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے، پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔ (موضح) دیکھیے سورة انعام (٢٣ اور ٢٧ تا ٣٠) ، سورة حٰم السجدۃ (٢٠، ٢١) اور سورة یٰسٓ (٦٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the second verse (130), is a question which will be asked of the Jinn and human beings on the plains of Resurrection. They will be asked to show the reason why they chose to disbelieve and disobey Allah Ta` ala. They were told that they could not deny that Divinely ordained messengers from among them did reach them, mes¬sengers who recited to them the verses of Allah and warned them of that day of reckoning. In the reply to this question, mentioned there is their confession that the messengers did come, they did tell them the truth, and that they were involved with disbelief and disobedience. But, no reason for this wrongdoing was given from their side. Instead, Allah Ta` ala has Himself given its reason by saying: وَگَرَّتھُمُ الحَیاۃُ الدُنیُا (And the worldly life had deceived them). It means that the charms of their transitory life had put them on the wrong track. They thought that it was everything, which was really nothing, and that made them heedless to their end. There is something noteworthy here. There are other verses in the Qur&an which say that the disbelievers will deny their Kufr and Shirk when asked to explain it on the day of Resurrection and before their Lord, they would lie by saying: وَاللَّـهِ رَ‌بِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِ‌كِي that is, ` we swear by Allah, our Lord, we were no mushriks (of those who ascribe partners to Him).& Now, this verse tells us that they would be ashamed of their Kufr and Shirk and will confess their error. On the outside, this seems to be contradictory. But, there are further explanations in other verses of the Qur&an that they would initially deny when asked, but, when Al¬lah Ta` ala - in His perfect power - would make them speechless, wit¬nesses will come from different parts of their own body. Then, Allah will give them their speech back and they will tell everything about their misdeed openly and clearly. Then, the Jinn and human beings will find out that all parts of their body were really the private eyes of the created system which finally produced the true evidence on every-thing about them. Then, left with no choice to deny, they will confess. Are there messengers of Allah among the Jinn too? Something else to be considered here is that, in this verse, Allah Ta` ala has addressed both Jinnkind and mankind and asked them about messengers (rusul) coming to them, messengers of Allah who were from among them. This shows that messengers have been sent to the Jinnkind from among their own kind - as is the case with human-kind among whom the messengers were sent from among them, that is, they were human beings. On this question, the ` Ulama& of Tafsir and Hadith differ. Some say that Rasul (messenger) and Nabiyy (prophet) have always been hu¬man. There has been no Ras O appointed directly from among the Jinnkind. Instead, what has happened is that there have been Jinns charged with the mission of getting reports of the message of truth conveyed by human prophets and messengers and take it to their kind. They were really, in that way, couriers and message-bearers of a Ra¬sul. Therefore, they too are called rasul or carrier of a message, within the literal sense of the word in Arabic. The proof of the position taken by these respected scholars comes from the verses of the Qur&an where sayings of the Jinn that they conveyed the Qur&an or the saying of the prophet to their kind have been mentioned, for example: وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ and they returned to their people to warn them - 46:29), and in the verse of Surah Al-Jinn: فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ they said: Indeed, we have heard a wonderful Qur&an that leads to rectitude, so in it we believe - 72:1). But, there is a group of ` Ulama& who, given the outward meaning of this verse, also believe that, before the appearance of the Last among Prophets (علیہم السلام) ، each of the two species had their messengers from among them. To human beings came messengers who were hu¬man beings, and to the different classes of the Jinn, messengers were sent from among their kind only. It is the distinction of the Last among Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he was sent as the only Rasul for all human beings and the Jinn of the whole world - and that too was not limited for one given time - in fact, all human beings and the Jinn born right up to the Last Day of Qiyamah shall be his community and he alone shall be the Rasul and Nabiyy for them. Related Notes on Hindu Autars Leading scholars of Tafsir, Kalabi and Mujahid hold that the Au-tars of Hindus are generally from the Jinns. Qadi Thana&ullah of Pani¬pat, in his Tafsir Mazhari, has followed this view. According to him, it proves that, before Sayyidna Adam (علیہ السلام) the messengers of the Jinn used to be from their kind only. Then, it is proved that the Jinn inhab¬ited the earth thousands of years before human beings - and since they too are obligated to observe the percepts of the injunctions of the Shari&ah like human beings, it is necessary on the basis of reason and reve¬lation that they too should have prophets and messengers among them in order to convey the commandments of Allah Ta` ala. Qadi Thana&ullah Panipati has said that the Hindus of India claim the history of their Vedas as thousands of years old. According to them their religious deities they called Autar date back to the same early time. It is not far out to say that they may be these very prophets and messengers of the Jinnkind, and may be the instructions brought by them were put together in the form of some book. The images and idols of اوتار Autars of Hindus placed in temples have particular patterns. Some are represented with several faces, others with many hands and feet, while still others would have other features such as a trunk like that of an elephant. They are very different from common human shapes. That the Jinn could transform themselves into such shapes is not be¬yond the range of probability. Therefore, saying that their Autar might be the prophets, messengers or their deputies who came to serve the Jinnkind - and their book itself be the collection of their instructions - is not so far out either. Then, gradually, as there were alterations in other books, alterations were made here too and what was left of it was idolatry and Shirk. However, even if that original book and the authentic instructions left by those messengers were present, they would have stood abrogat¬ed after the appearance of the Holy Prophet LI and the uni¬versal application of his prophethood. And that it would have become impossible to act in accordance with it after its having been deformed and altered is something evident by itself.

دوسری آیت میں ایک سوال و جواب کا ذکر ہے جو محشر میں جنات اور انسانوں کو مخاطب کرکے کیا جائے گا، کہ تم جو کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا ہوئے اس کا کیا سبب ہے ؟ کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں پہنچے جو تمہاری قوم میں سے تھے، جو میری آیات تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور آج کے دن کی حاضری اور حساب سے ڈراتے تھے ؟ اس کے جواب میں ان سب کی طرف سے رسولوں کے آنے اور پیغام حق سنانے کا اور اس کے باوجود کفر و نافرمانی میں مبتلا ہونے کا اقرار ذکر کیا گیا ہے، اور ان کی طرف سے کوئی وجہ اور سبب اس غلط کاری کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ حق تعالیٰ نے ہی اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ (آیت) وَغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا یعنی ان لوگوں کو دنیا کی زندگی اور لذتوں نے دھوکہ میں ڈال دیا، کہ وہ اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے جو درحقیقت کچھ نہ تھا، اور انجام و عاقیت سے غافل ہوگئے، بقول اکبر مرحوم تھی فقط غفلت ہی غفلت، عیش کا دن کچھ نہ تھا ہم اسے سب کچھ سمجھتے تھے وہ لیکن کچھ نہ تھا اس آیت میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ بعض دوسری آیات میں تو یہ مذکور ہے کہ مشرکین سے جب محشر میں ان کے کفر و شرک کے متعلق سوال ہوگا تو وہ اپنے جرم سے مکر جائیں گے، اور رب الارباب کے دربار میں قسم کھا کر یہ جھوٹ بولیں گے کہ (آیت) واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین، ” یعنی قسم ہے ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ کی ہم مشرک ہرگز نہ تھے “۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کفر و شرک کا ندامت کے ساتھ اقرار کرلیں گے، ان دونوں میں بظاہر تعارض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے، مگر دوسری آیات میں اس کی تشریح و توضیح اس طرح موجود ہے کہ ابتداء میں جب ان سے سوال ہوگا تو مکر جائیں گے، مگر اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زبانیں بند کردیں گے، ہاتھوں، پیروں اور دوسرے اعضاء سے گواہی لیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے ان کو گویائی عطا ہوگی، اور وہ صاف صاف اس کے اعمال کا کچا چٹھا بیان کر دینگے اور اس وقت جن و انس کو یہ معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں اور کان اور زبان سب قدرت کے کارخانہ کی خفیہ پولیس کے افراد تھے۔ جنہوں نے سارے معاملات اور حالات کی سچی اور صحیح شہادت دیدی، تو اب ان کو انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی، اس وقت یہ سب لوگ صاف صاف اعتراف جرم کرلیں گے۔ کیا جنّات میں بھی رسول ہوتے ہیں دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے جنّات اور انسانوں کی دونوں جماعتوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ کیا ہمارے رسول تمہارے پاس نہیں پہنچے جو تمہاری ہی قوم سے تھے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح انسانوں کے رسول انسان اور بشر بھیجے گئے ہیں اسی طرح جنّات کے رسول جنّات کی قوم سے بھیجے گئے ہیں۔ اس مسئلہ میں علماء تفسیر و حدیث کے اقوال مختلف ہیں بعض کا کہنا یہ ہے کہ رسول اور نبی صرف انسان ہی ہوئے اور ہوتے چلے آئے ہیں، جنّات کی قوم میں سے کوئی شخص رسول بلا واسطہ نہیں ہوا، بلکہ ایسا ہوا ہے کہ انسانی رسول اور پیغمبر کا کلام اپنی قوم کو پہنچانے کے لئے جنّات کی قوم میں کچھ لوگ ہوئے ہیں جو درحقیقت رسولوں کے قاصد اور پیغمبر ہوتے تھے، مجازی طور پر ان کو بھی رسول کہہ دیا جاتا ہے، ان حضرات کا استدلال قرآن مجید کی ان آیات سے ہے جن میں جنّات کے ایسے اقوال مذکور ہیں کہ انہوں نے نبی کا کلام یا قرآن سن کر اپنی قوم کو پہنچایا، (آیت) مثلاً ولوا الی قومھم منذرین، اور سورة جن کی (آیت) فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا یھدی الی الرشد فامنا بہ، وغیرہ۔ لیکن ایک جماعت علماء اس آیت کے ظاہری معنی کے اعتبار سے اس کی بھی قائل ہیں کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہر گروہ کے رسول اسی گروہ میں سے ہوتے تھے، انسانوں کے مختلف طبقات میں انسانی رسول آتے تھے، اور جنّات کے مختلف طبقات میں جنّات ہی میں سے رسول ہوتے تھے، حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے عالم کے انسانوں اور جنّات کا واحد رسول بنا کر بھیجا گیا اور وہ بھی کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں، بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سب کے رسول و پیغمبر ہیں۔ ہندوؤں کے اوتار بھی عموماً جنّات ہیں، ان میں کسی رسول و نبی ہونے کا احتمال۔ ائمہ تفسیر میں سے کلبی رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے اسی قوم کو اختیار کیا ہے، اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اسی قول کو اختیار فرماتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے جنّات کے رسول جنّات ہی کی قوم میں سے ہوتے تھے، اور جبکہ یہ ثابت ہے کہ زمین پر انسانوں سے ہزاروں سال پہلے سے جنات آباد تھے اور وہ بھی انسانوں کی طرح احکام شرع کے مکلف ہیں، تو ازروئے عقل و شرع ضروری ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے والے رسول و پیغمبر ہوں۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہندوستان کے ہندو جو اپنی وید کی تاریخ ہزارہا سال پہلے کی بتلاتے ہیں اور اپنے مقداء و بزرگ جن کو وہ اوتار کہتے ہیں اسی زمانہ کے لوگوں کو بتاتے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ وہ یہی جنّات کے رسول و پیغمبر ہوں اور انہی کی لائی ہوئی ہدایات کسی کتاب کی صورت میں جمع کی گئی ہوں، ہندوؤں کے اوتاروں کی جو تصویریں اور مورتیاں مندروں میں رکھی جاتی ہیں وہ بھی اسی انداز کی ہیں، کہ کسی کے کئی چہرے ہیں، کسی کے بہت سے ہاتھ پاؤں ہیں، کسی کے ہاتھی کی طرح سونڈ ہے، جو عام انسانی شکلوں سے بہت مختلف ہیں، اور جنّات کا ایسی شکلوں میں متشکل ہونا کچھ مستبعد نہیں، اس لئے کچھ بعید نہیں کہ ان کے اوتار جنّات کی قوم میں آئے ہوئے رسول یا ان کے نائب ہوں اور ان کی کتاب بھی ان کی ہدایت کا مجموعہ ہو، پھر رفتہ رفتہ جیسے دوسری کتابوں میں تحریف ہوگئی، اس میں بھی تحریف کرکے شرک و بت پرستی داخل کردی گئی۔ اور بہر حال اگر وہ اصل کتاب اور رسل جن کی صحیح ہدایات بھی موجود ہوتیں تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور رسالت عامہ کے بعد وہ بھی منسوخ اور ناقابل عمل ہی ہوجائیں اور مسخ و محرف ہونے کے بعد تو اس کا ناقابل عمل ہونا خود ہی واضح ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۝ ٠ ۭ قَالُوْا شَہِدْنَا عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ۝ ١٣٠ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٠) تم لوگوں کے پاس کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام نہیں آئے اور جنات کے پاس بالخصوص وہ نو حضرات نہیں آئے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور پھر اپنی قوم کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لیے گئے تھے اور بھی کہا گیا کہ جنات کی طرف بھی ایک نبی یوسف (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے تھے جو تمہیں پڑھ کر میرے اوامرو نواہی سناتے تھے اور اس دن کے عذاب سے تمہیں ڈراتے تھے، جن وانس جواب دیں گے، بیشک ان حضرات نے آپ کے احکامات ہم تک پوری طرح پہنچا دیئے تھے مگر ہم نے ان کا انکار کیا اور ان منکرین حق کو دنیاوی سازوسامان نے دھوکا میں ڈال رکھا ہے اور یہ لوگ آخرت میں اللہ کا عذاب سہیں گے کہ دنیا میں وہ کافر تھے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ ) اب چونکہ یہ بات جن و انس دونوں کو جمع کر کے کہی جا رہی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو انسانوں میں سے رسول ہیں وہی جنات کے لیے بھی رسول ہیں۔ (وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَاط قالُوْا شَہِدْنَا عَآٰی اَنْفُسِنَا) یہاں پر علٰی کے معنی مخالف گواہی کے ہیں۔ یعنی ہم اپنی جانوں کے خلاف خود گواہ ہیں۔ (وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُوْا عَآٰی اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ ۔ ) ۔ قرآن مجید میں میدان حشر کے جو مکالمات آئے ہیں وہ مختلف آیات میں مختلف قسم کے ہیں۔ مثلاً یہاں تو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ بیشک ہم کفر کرتے رہے ہیں۔ مگر اسی سورة میں پیچھے ہم نے پڑھا ہے : (ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ الاّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ) اس وقت ان کی کوئی چال نہیں چل سکے گی سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو مشرک نہیں تھے۔ چناچہ معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں بہت سے مراحل ہوں گے اور بیشمار گروہ مواخذے کے لیے پیش ہوں گے۔ یہ مختلف مراحل میں ‘ مختلف مواقع پر ‘ مختلف جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ ہونے والے مختلف مکالمات نقل ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. The wrong-doers would confess that even though the Prophets had come, in succession, in order to inform them of the Truth, it was their own fault that they did not respond to their call. 99. They were deniers of, and disbelievers in, rather than ignorant of the Truth. They acknowledged tha! the Truth had been conveyed to them and that they had refused to accept it.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :98 یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے رسول پر رسول آتے اور ہمیں حقیقت سے خبردار کرتے رہے ، مگر یہ ہمارا اپنا قصور تھا کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :99 یعنی بے خبر اور ناواقف نہ تھے بلکہ کافر تھے ۔ وہ خود تسلیم کریں گے کہ حق ہم تک پہنچا تھا مگر ہم نے خود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

60: اِنسانوں میں تو پیغمبروں کا تشریف لانا واضح ہے۔ اس آیت کی وجہ سے بعض علما کا کہنا ہے کہ جنات میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبر آتے رہے ہیں۔ اور دوسرے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ باقاعدہ پیغمبر توجنات میں نہیں آئے، لیکن اِنسانوں میں جو پیغمبر بھیجے گئے، وہی جنات کو تبلیغ کرتے تھے، اور جو جنات مسلمان ہوجاتے وہ پھر انبیائے کرام کے نمائندے بن کر دوسرے جنات کو تبلیغ کرتے تھے، جیسا کہ سورہ جن میں تفصیل سے مذکور ہے۔ آیت کی رو سے دونوں احتمال ممکن ہیں، کیونکہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ اِنسانوں اور جنات دونوں کو تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا تھا اور وہ دونوں طرح ممکن ہے۔ 61: پیچھے آیت نمبر ۲۳ میں گذرا ہے کہ وہ شروع میں جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے، لیکن جب خود ان کے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دے دیں گے تو وہ بھی سچ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تفصیل کے لئے آیت ۲۳ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

علمائے مفسرین نے اس بات میں بڑا اختلاف کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر مضمون آیت کے موافق جن اور انسان دونوں قسم کے رسول آئے ہیں یا رسول فقط انسان ہی آئے ہیں اور ہدایت جن اور انسان دونوں فرقوں کی ان رسولوں کے ذمہ پر رہی ہے رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ پہلے قول کی روایت ضحاک بن مزاجم پر ختم ہوتی ہے اور ضحاک بن مزاحم اگرچہ متقدمین مفسرین میں سے ہیں اور اکثر متاخرین کی تفسیروں میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بواسطہ ضحاک کی روایت کی جاتی ہے لیکن دراصل یہ سلسلہ روایت کا منقطع ہے کس لیے کہ ضحاک بن مزاحم کی ملاقات امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نہیں ہوئی اور دوسرے قول کی روایت مجاہدبن جبر بن المقری پر ختم ہوتی ہے مجاہد کی ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے پڑھا اسی واسطے امام شافعی (رح) اور امام بخاری (رح) اور ائمہ تفسیر کو مجاہد کی تفسیر پر زیادہ اعتماد ہے اور مجاہد کا ہی قول اس باب میں صحیح ہے ابن حبان نے مجاہد کو ضعفاء میں لکھ دیا ہے لیکن علماء نے کہا ہے کہ ابن حبان کے سوا اور کسی کی کتاب میں مجاہد کا نام شریک نہیں ہے اور یحییٰ القطان نے کہا ہے اجمعت الامۃ علی امامۃ مجاھد والاحتیاج بہ جس کا مطلب یہ ہے کہ علماء کے مجمع عام نے مجاہد کو امام اور لائق حجت پکڑنے کے قرار دیا ہے حافظ عمادالدین ابن کثیر نے چند قرآن کی آیتیں اس بات کے ثبوت میں پیش کی کہ رسول سب انسان ہی ہوئے اور جنات کے ہدایت بھی الٰہی کے ذمہ پر رہی ہے آخر فیصلہ اس میت پر کیا ہے کہ وجعلنافی ذریتھا النبوۃ والکتاب کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے کیا ہے اس سے یہ امر تو یقینی ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت تک انسان ہی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق نبی ہوئے اور حضرت ابراہیم سے پہلے کسی مفسر نے کسی جن کا نبی ہونا نقل نہیں کیا ایک ڈھنگ کی جماعت کو عربی میں مشعر کہتے ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت کے موافق بت پرست سورج پرست جن وانس کی جب ٹکڑیاں بن جاویں گی تو انہیں قائل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیا اللہ کے رسول کی معرفت تمہیں اللہ کا وہ کلام نہیں پہنچا جس میں قیامت کا اور اس دن نافرمان لوگوں کے عذاب میں پکڑے جانے کا ذکر تھا۔ یہ ہر ایک ٹکڑی کے جنات اور انسان اس بات کا اقرار کریں گے کہ اللہ کے رسولوں کی معرفت یا اللہ تیرا ایسا کلام ہم کو بلاشک پہنچا لیکن دنیا کے مال ومتاع نے ہم کو ایسا مغرور کردیا کہ ہم نے رسولوں کی نصیحت کو نہیں مانا بلکہ ہم ان کی نصیحت کو جھٹلاتے رہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نافرمان لوگ قیامت کے دن اپنی بداعمالی کا انکار کریں گے ان کے منہ پر مہر لگائی جا کر ان کے ہاتھ پیروں سے ان کی بداعمالی کی گواہی ادا کرائی جاوے گی حاصل یہ ہے کہ جن آیتوں میں بدعمل لوگوں کے بدعملی سے انکار کرنے کا ذکر ہے وہ اس گواہی سے پہلے کا ہے اور یہ اقرار کا ذکر گواہی کے بعد کا ہے دونوں طرح کی آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:130) یقصون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ قصص مصدر (باب نصر) وہ نقل کرتے ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں یا بیان کرتے تھے۔ ینذرونکم۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ انذار (افعال) وہ ڈراتے تھے۔ غرتھم۔ غرت۔ ماضی واحد مؤنث غائب ہمضمیر جمع مذکر غائب۔ دنیوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں رکھا ہوا تھا۔ ان کو بہکارکھا تھا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی وہ رسول انسان تھے جنوں میں سے نہیں تھے ل علما نے سلف وخلف کی اکثریت یا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا ،۔ ( ابن کثیر)4 یعنی تیرے پیغمبر ہمارے پاس آئے اور انہوں نے تیرا پیغام پہنچا یا۔5 حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا نکار کریں گے پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قاتل کرے گا۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم میں جانے والے جنات اور انسانوں کو مشترکہ خطاب۔ اللہ تعالیٰ اظہارِ حق اور مجرموں کو ان کے جرائم کا احساس دلانے کے لیے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھیں گے کیا میں نے تمہارے پاس تم ہی سے رسول نہیں بھیجے تھے جو تمہیں میرے احکام پڑھ کر سناتے اور اس دن کے ہولناک انجام سے ڈراتے تھے۔ مجرم جواب دیں گے کیوں نہیں ہمارے رب آپ کے بھیجے ہوئے رسول تشریف لائے اور ہمیں سمجھاتے اور ڈراتے رہے لیکن ہمیں دنیا کی زندگی نے فریب میں ڈالے رکھا جس کی وجہ سے ہم تیرے حضور پیشی کو بھول گئے۔ اس طرح وہ اپنے بارے میں شہادت دیں گے کہ بلاشک ہم اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن انسانوں کے ساتھ جنوں کو سوال کرنے کے بارے میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے جتنے رسول دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سب کے سب انسان ہی تھے مگر ان کا پیغام جنوں اور انسانوں کے لیے مشترکہ ہوا کرتا تھا اس لیے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر جنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں توحید و رسالت کی دعوت دی تھی۔ اس کی تفصیل جاننے کے لیے سورة الاحقاف اور سورة الجن کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اسی بنیاد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ )[ مسند احمد ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے ( قیامت کے دن) کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔ “ اعمش کہتے ہیں مجاہد کا خیال ہے کہ احمر سے مراد انسان اور اسود سے مراد جن ہیں جہاں تک قیامت کے دن مجرموں کا اپنے خلاف شہادت دینے کا تعلق ہے مجرم پہلے اپنے شرک و کفر اور برے اعمال سے انکار کریں گے۔ جب ان کے خلاف ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے تو پھر مجبور ہو کر اس کا اعتراف کریں گے۔ اس اعتراف کا قرآن مجید نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مسائل ١۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت جنوں اور انسانوں کے لیے تھی۔ ٢۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اپنے گناہوں کا خود اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کے اعترافات : ١۔ جہنمیوں سے ملائکہ کا خطاب۔ (الزمر ٧١، ٧٢) ٢۔ جہنمیوں سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمیوں کا اپنے گناہوں کا اقرار۔ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) ٣۔ جہنمیوں کے ایک دوسرے سے سوالات۔ (حآ، السجدۃ، الاحزاب) ٤۔ جہنمیوں سے اللہ تعالیٰ کا سوال۔ (الصٰفٰت) ٥۔ جہنمیوں کی باہم گفتگو۔ (الصفت : ٢٧ تا ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” َا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاء یَوْمِکُمْ ہَـذَا قَالُواْ شَہِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130) ”(اس موقع پر اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ) اے گروہ جن وانس ! کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ہو پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے ۔ “ وہ کہیں گے ” ہاں ! ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں ۔ “ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “ یہ استفہام تقریری ہے ۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ اللہ ان لوگوں سے معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے کہ آیا رسول آئے تھے یا نہیں ۔ اللہ تو خوب جانتے تھے کہ کیا ہوچکا ہے ۔ ان کی جانب سے اقرار اور استشہاد درحقیقت ان کی سزا کے لئے وجہ جواز ہے ۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ سزا ان کے لئے عادلانہ سزا ہے ۔ وہ اس کے مستحق ہیں ۔ خطاب جس طرح جنوں سے ہے اسی طرح انسانوں سے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جنوں کے پاس بھی خود ان کے ہم جنس رسول بھیجے گئے تھے ؟ جس طرح انسانوں کے پاس انسان آئے تھے ۔ جن انسانوں سے پوشیدہ مخلوق ہے اور ان کے اصل حالات سے تو صرف اللہ خبر رکھتا ہے ۔ رہی یہ آیت ‘ تو اس کی تفسیر میں کہا جاسکتا ہے کہ جنات بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والے کلام کو سنتے تھے ۔ پھر جا کر اپنی قوم کو ڈراتے تھے اور خوشخبری بھی سناتے تھے ۔ اس کی تفصیلات احقاف میں قرآن نے دی ہیں : ۔ ” اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ وہ قرآن سنیں ۔ جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ ‘ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ۔ انہوں نے جاکر کہا : ” اے ہماری قوم کے لوگو ‘ ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے ‘ تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی ‘ راہنمائی کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف ‘ اے ہماری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی طرف بلانے والی دعوت قبول کرلو ‘ اور اس پر ایمان لے آؤ اور اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذاب الیم سے بچا لے گا ۔ “ اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کردے اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچائیں ایسے لوگ گمراہی میں پڑے ہیں ۔ “ (٤٦ : ٢٩ تا ٣٢) ہو سکتا ہے کہ یہ سوال و جواب ان انسانوں اور جنوں سے ہو رہا ہو جو اس طرح کھڑے تھے ۔ بہرحال اصل علم اللہ ہی کو ہے ۔ یہاں ہم اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے ۔ اس سے زیادہ اس مسئلے پر بحث کرنے کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہے ۔ بہرحال جن وانس میں سے جن لوگوں سے سوال کیا گیا تھا ‘ وہ جانتے تھے کہ یہ محض استفسار کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ فرد قرار داد جرم ہے ۔ ان کے جرم کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے اور یہ سوال و جواب محض زجرو توبیخ کے لئے ہیں ۔ چناچہ انہوں نے پورا پورا اعتراف کرلیا اور اس بات کا اقرار کرلیا جس کے وہ مستحق تھے ۔ (آیت) ” قَالُواْ شَہِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا (١٣٠) ” انہوں نے کہا ہم خود اپنے اوپر گواہی دیتے ہیں ۔ “ اب یہاں اس منظر پر ایک مبصرسامنے آتا ہے اور کہتا ہے ۔ (آیت) ” وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130) ” آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “ یہ تبصرہ دنیا میں ان کے حالات پر خوب منطبق ہوتا ہے ۔ دراصل اس دنیاوی زندگی کی بوقلمونیوں نے انہیں دھوکہ دے رکھا ہے اور اس دھوکے کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں ۔ اب وہ قیامت کے دن سب کچھ دیکھ لینے کے بعد مجبور ہیں کہ اپنے اوپر کی شہادت دیں کیونکہ یہاں انکار اور مکابرہ کرنے سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہے ۔ اس سے بڑی مایوس کن صورت حالات اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسے حالات میں گھرا ہوا پائے کہ خود اپنا دفاع بھی نہ کرسکتا ہو ۔ نہ انکار کی تاب ہو ۔ اور نہ کوئی عذر ومعذرت اس کے پاس ہو۔ اب ذرا ملاحظہ ہو قرآن کریم کا انداز بیان ۔ مشاہدہ قیامت کا جو تصویری نقشہ قرآن پیش کرتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا نقشہ یوں کھینچ دیا جاتا ہے کہ انسان منظر کو اسکرین پر دوڑتا محسوس کرتا ہے ۔ مستقبل کے بجائے قرآں کریم ان مناظر کے لئے ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے ‘ گویا یہ مناظر دکھلائے جا چکے ہیں ۔ یہ قرآن ہم اس دنیا میں پڑھ رہے ہیں ‘ بلکہ آج پڑھ رہے ہیں ‘ ابھی قیامت تو واقعہ ہی نہیں ہوئی ۔ ابھی تو ہم اس کرہ ارض پر ہیں لیکن یوں نظر آتا ہے کہ یہ منظر نظروں کے سامنے ہے بلکہ یہ منظر ہم دیکھ چکے ہیں ۔ ایک دیکھے ہوئے منظر کی حکایت ہو رہی ہے اور ہم اپنے حافظہ سے یاد تازہ کر رہے ہیں ۔ انسان یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس منظر کو تو ابھی آنا ہے ۔ لیکن بات یوں ہو رہی ہے کہ شاید کوئی تاریخی واقعہ دہرایا جا رہا ہے ۔ (آیت) ” وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَشَہِدُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَنَّہُمْ کَانُواْ کَافِرِیْنَ (130) ”’ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ “ یہ انداز تخیل کے عجائبات میں سے ہے ۔ اب اس منظر کا خاتمہ ہوتا ہے اور روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے ۔ آپ کو خطاب کر کے اہل ایمان کو سمجھایا جاتا ہے اور اہل ایمان کے بعد قیامت تک آنے والے مومنین کو بتایا جاتا ہے کہ جن وانس کے اس انجام میں تمہارے لئے یہ سبق ہے ۔ یہ عظیم مخلوق جو جہنم کی طرف جارہی ہے اور تم اس منظر میں دیکھ رہے ہو کہ وہ خود اپنے خلاف اقرار جرم کر رہے ہیں کہ بیشک رسول آئے تھے ‘ انہوں نے اللہ کی پوری پوری ہدایات ہمیں سنائی تھیں ۔ اس برے انجام سے ہمیں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا ۔ مومنین کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ تو ان پر حجت تمام کرتا ہے ‘ ان کو بذریعہ رسل خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتا ہے ۔ خوشخبر بھی دیتا ہے اور انجام بد سے ڈراتا بھی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جن و انس سے سوال ! کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے ؟ اور ان کا اقرار جرم ان آیات میں اول تو اللہ جل شانہٗ نے اپنے اس خطاب کا ذکر فرمایا جو جنات کی جماعت سے اور انسانوں سے قیامت کے دن ہوگا۔ دونوں جماعتوں کے مجرمین کافرین جو میدان حشر میں موجود ہوں گے ان سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے جنات اور اے انسانو ! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے جو تمہیں میرے احکام بتاتے تھے اور تمہیں آج کے دن کی حاضری سے اور اعمال کے نتائج سامنے آنے سے باخبر کرتے تھے اور تمہیں ڈراتے تھے کہ دیکھو ایک دن ایسا آنے والا ہے تم اس کے لیے فکر مند ہوجاؤ اور ایمان لاؤ۔ اول تو مجرمین اقرار جرم سے گریز ہی کریں گے۔ اور اپنے کفر و شرک کا انکار ہی کر بیٹھیں گے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا قول (وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ) ذکر فرمایا ہے۔ پھر بعد میں اپنے ہاتھ پیروں کی گواہی سے اور اپنے نبیوں کی گواہی کی وجہ سے مجبور ہو کر اقرار کرلیں گے۔ جس کا تذکرہ اوپر آیت بالا میں فرمایا۔ (قَالُوْا شَھِدْنَا عَلآی اَنْفُسِنَا) وہ کہیں گے کہ اپنی جانوں کے مقابلہ میں ہم گواہی دے رہے ہیں کہ واقعی ہم مجرم تھے اور واقعی ہم کافر تھے۔ درمیان کلام ان لوگوں کی گمراہی کا اور کفر و شرک پر جمنے کا سبب بھی ذکر فرما دیا۔ (وَ غَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا) یعنی دنیا والی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔ دنیاوی زندگی کو انہوں نے اصل سمجھا اور اس کے منافع اور ثمرات اور شہوات و لذات ہی کے پیچھے پڑے رہے۔ ایمان کی دعوت دینے والوں اور یوم آخرت کی یاد دہانی کرانے والوں کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

144 تخویف اخروی ہے اور اس سے قبل یُقَالُ لَھُمْ مقدر ہے۔ یعنی قیامت کے دن ان سے یہ کہا جائے گا قَالُوْا شَھِدْنَا عَلیٰ اَنْفُسِنَا یہ کفار جن و انس کی طرف سے اعتراف ہوگا کہ بلاشبہ ان کے پاس اللہ کے رسول آئے مگر وہ دنیوی عیش میں منہمک اور ظاہری شان و شوکت پر مغرور ہوگئے اور اللہ کے رسولوں کا انکار کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

130 اے جماعت جن و انس اور اے گروہ جنات و انسان کا کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے پیغمبر نہیں آئے جو تم پر میرے احکام بیان کرتے تھے اور تم کو میرے احکام بتایا اور سنایا کرتے تھے اور تم کو تمہارے اس دن کے پیش آنے سے ڈرایا کرتے تھے یعنی قیامت اور حشر کے دن سے اس پر وہ سب جنات و انسان کہیں گے ہ ہاں ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اقرار جرم کرتے ہیں اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان ک دنیوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا اور وہ اپنے خلاف گواہی دیتے ہوئے کہیں گے کہ بیشک وہ کافر تھے ۔ یعنی رسولوں کا آنا اور سمجھانا اور میدان حشر سے ڈرانا سب صحیح ہے لیکن ہم نے ان کا کہا نہ مانا اور وہ مانتے بھی کی سے ان کو تو دنیا کی زندگی نے دھوکہ اور فریب دے رکھا تھا آخر کار ان کو یہ کہنا ہی پڑا کہ بیشک وہ کافر تھے۔ رسل منکم میں کل مجموعہ مکلفین مخاطب ہیں جنات میں سے کسی کا پیغمبر ہونا ثابت نہیں۔