Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 133

سورة الأنعام

وَ رَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِکُمۡ مَّا یَشَآءُ کَمَاۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ ذُرِّیَّۃِ قَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ؕ

And your Lord is the Free of need, the possessor of mercy. If He wills, he can do away with you and give succession after you to whomever He wills, just as He produced you from the descendants of another people.

اور آپ کا رب بالکل غنی ہے رحمت والا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو اُٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

If They Disobey, They Will Perish Allah said, وَرَبُّكَ ... And your Lord..., (O Muhammad), ... الْغَنِيُّ ... is Al-Ghani, Rich, free from needing His creatures in any way or form, while they stand in need of Him in all situations, ... ذُو الرَّحْمَةِ ... full of mercy; towards creation. Allah said in another Ayah, إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ Truly, Allah is full of kindness, the Most Merciful towards mankind. (2:143) ... إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ ... if He wills, He can destroy you. if you defy His commandments, ... وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاء ... And in your place make whom He wills as your successors, who behave obediently, ... كَمَأ أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اخَرِينَ As He raised you from the seed of other people. and surely, He is able to do this, and it is easy for Him. And just as Allah has destroyed the earlier nations and brought their successors, He is able to do away with these generations and bring other people in their place. Allah has also said; إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِـاخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذلِكَ قَدِيراً If He wills, He can take you away, O people, and bring others. And Allah is Ever Capable over that. (4:133) يأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَمِيدُ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُـمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ O mankind! It is you who stand in need of Allah. But Allah is Rich (free of all needs), Worthy of all praise. If He willed, He could destroy you and bring about a new creation. And that is not hard for Allah. (35:15-17) and, نَّفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِىُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُواْ But Allah is Rich (free of all needs), and you are poor. And if you turn away, He will exchange you for some other people and they will not be your likes. (47:38) Muhammad bin Ishaq said that Yaqub bin Utbah said that he heard Aban bin Uthman saying about this Ayah, كَمَأ أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اخَرِينَ (As He raised you from the seed of other people), "`The seed' means the offspring and the children." Allah's statement, إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لاتٍ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ

سب سے بےنیاز اللہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے ، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں ۔ اسے کسی سے کوئی فائدہ نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ ساری مخلوق اپنے ہر حال میں اس کی محتاج ہے ۔ وہ بڑی ہی رافت و رحمت والا ہے رحم و کرم اس کی خاص صفتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) اللہ اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی اور لطف سے پیش آنے والا ہے تو جو اس کی مخالفت کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں ایک آن میں غارت کر سکتا ہے اور تمہارے بعد ایسے لوگوں کو بسا سکتا ہے جو اس کی اطاعت کریں ۔ یہ اس کی قدرت میں ہے تم دیکھ لو اس نے آخر اوروں کے قائم مقام تمہیں بھی کیا ہے ۔ ایک قرن کے بعد دوسرا قرن وہی لاتا ہے ایک کو مار ڈالتا ہے دوسرے کو پیدا کر دیتا ہے لانے لے جانے پر اسے مکمل قدرت ہے جیسے فرمان ہے اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو لے آئے وہ اس پر قادر ہے ۔ فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) 35 ۔ فاطر:15 ) لوگو تم سب کے سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لے آئے اللہ کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں اور فرمان ہے آیت ( وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ) 47 ۔ محمد:38 ) اللہ غنی ہے اور تم سب فقیر ہو ۔ فرماتا ہے اگر تم نافرمان ہو گئے تو وہ تمہیں بدل کر اور قوم لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ ذریت سے مراد اصل و نسل ہے ، اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ قیامت جنت دوزخ وغیرہ کے جو وعدے تم سے کئے جا رہے ہیں وہ یقینا سچے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے والا ہے تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے وہ تمہارے اعادے پر قادر ہے ۔ تم گل سڑ کر مٹی ہو جاؤ گے پھر وہ تمہیں نئی پیدائش میں پیدا کرے گا اس پر کوئی عمل مشکل نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے بنی آدم اگر تم میں عقل ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کرو واللہ اللہ کی فرمائی ہوئی سب باتیں بہ یقین ہونے والی ہیں کوئی نہیں جو اللہ کے ارادے میں اسے ناکام کر دے ، اس کی چاہت کو نہ ہونے دے ، لوگوں تم اپنی کرنی کئے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر کون تھا ؟ اور ضلالت پر کون تھا ؟ کون نیک انجام ہوتا ہے اور کون گھٹنوں میں سر ڈال کر روتا ہے ۔ جیسے فرمایا بے ایمانوں سے کہہ دو کہ تم اپنے شغل میں رہو میں بھی اپنے کام میں لگا ہوں ۔ تم منتظر رہو ہم بھی انتظار میں ہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کے لحاظ سے کون اچھا رہا ؟ یاد رکھو اللہ نے جو وعدے اپنے رسول سے کئے ہیں سب اٹل ہیں ۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ نبی جس کا چپہ چپہ مخالف تھا جس کا نام لینا دو بھر تھا جو یکہ وتنہا تھا جو وطن سے نکال دیا گیا تھا جس کی دشمنی ایک ایک کرتا تھا اللہ نے اسے غلبہ دیا لاکھوں دلوں پر اس کی حکومت ہو گئی اس کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ عرب کا وہ تنہا مالک بن گیا یمن اور بحرین پر بھی اس کے سامنے اس کا جھنڈا لہرانے لگا ، پھر اس کے جانشینوں نے دنیا کو کھنگال ڈالا بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیر دیئے ، جہاں گئے غلبہ پایا جدھر رخ کیا ، فتح حاصل کی ، یہی اللہ کا وعدہ تھا کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے ، مجھ سے زیادہ قوت وعزت کسی کی نہیں ۔ فرما دیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی مدد فرمائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ رسولوں کی طرف اس نے وحی بھیجی تھی کہ ہم ظالموں کو تہ وبالا کر دیں گے اور ان کے بعد زمینوں کے سرتاج تمہیں بنا دیں گے کیونکہ تم مجھ سے اور میرے عذابوں سے ڈرنے والے ہو ۔ وہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ تم میں سے ایمانداروں اور نیک کاروں کو میں زمین کا سلطان بنا دوں گا جیسے کہ پہلے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے دین میں مضبوطی اور کشائش دے گا جس کے دین سے وہ خوش ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا ۔ فللہ احمد و المنہ اولا و اخر او ظاہر او باطنا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

133۔ 1 وہ غنی بےنیاز ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بےنیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔ 133۔ 2 یہ اس کی بےپناہ قوت اور غیر محدود قدرت کا اظہار ہے جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نبود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ مزید ملاحظہ ہو سورة نساء 133، سورة ابراہیم 20، سورة فاطر 15، 17، سورة محمد 38۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٠] تم پر اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ تم سے دین کی خدمت لے رہا ہے :۔ یعنی اللہ کی کوئی غرض تمہاری وجہ سے ان کی ہوئی نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑتا ہو اور فرمانبرداری سے اس کا کچھ سنورتا ہو بلکہ یہ اس کی انتہائی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت کی راہ دکھائی۔ جس پر عمل کر کے تم عذاب سے بھی بچ سکتے ہو اور بلند درجات بھی حاصل کرسکتے ہو۔ اس کے مہربان ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تمہیں فوراً سزا نہیں دے رہا اور تمہارے قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو تمہارے جرائم اتنے زیادہ ہیں کہ تمہیں اس دنیا سے رخصت کردیتا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آتا۔ جیسے تمہیں پہلی قوموں کے بعد لایا گیا ہے اور یہ کام اس کے لیے کچھ مشکل بھی نہیں۔ لہذا اس کی فرمانبرداری میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ : یہاں ” الْغَنِيُّ “ خبر معرفہ ہونے اور ” الرَّحْمَةِ “ پر ” الف لام “ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ” اور تیرا رب ہی ہر طرح بےپروا، کمال رحمت والا ہے “ اس کے سوا کوئی اور نہ ہی بےپروا ہے نہ کمال رحمت والا، یعنی اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں، پھر بھی بطور احسان کمال رحمت والا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پہلے جو نعمتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً رسولوں کا بھیجنا وغیرہ، محض رحمت کی بنا پر ہیں، اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں۔ ذُو الرَّحْمَةِ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت اس نے جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتاری ہے، وہ اسی ایک رحمت کی وجہ سے ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی ایک رحمت کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہیں جو اپنے بندوں پر قیامت کے دن کرے گا۔ “ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ ۔۔ : ١٩؍٢٧٥٢ ] اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ ۔۔ : یعنی جس طرح تمہیں پہلے لوگوں کا جانشین بنایا اسی طرح تمہیں تباہ کر کے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے، یا یہ کہ اس کی قدرت جن و انس کو پیدا کرنے ہی پر منحصر نہیں، بلکہ وہ ان کے بجائے کوئی تیسری قسم کی مخلوق بھی پیدا کرسکتا ہے۔ (رازی) دیکھیے سورة نساء (١٣٣) ، سورة ابراہیم (١٩، ٢٠) اور سورة فاطر (١٥ تا ١٧)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Stated in previous verses was that Allah Ta` ala has always been sending His messengers and the rules of conduct required by Him to every set of people among the Jinn and the human beings and, unless they were fully warned through their messengers, punishment was never given to them for their disbelief and disobedience. In the first (133) of the four verses cited above, it has been pointed out that the practice of sending needed our obediences and worthier because the Lord of the universe needed our obedience and worship, or some task of His depended on our obedience. No, this was never so. He is absolutely All-Independent, and need-free. But, alongwlth never so. He is absolutely All-Independent, and need-free. But His perfect freedom from dependence and need, there is that attribute of mercy in Him. See how He brings fulfilling all outward and, then He maintains it and keeps present and future needs of everyone and everything. The cause is this very attribute of mercy. Otherwise, human beings, being what they are, would have hardly been able to produce what they needed, not to say much about their lack of etiquette the very blessing of existence. need. This is particularly true about the very blessing of existence. That it has been bestowed without asking is all too clear. No human being anywhere has prayed to be born - nor can praying before coming into existence be imagined. Similarly, there are the limbs of the hu¬man body which go in the creation of a living body - the eyes, ears, hands, feet, the heart and the brain. Were they asked for by any hu¬man being? Or, did one of them had the consciousness and etiquette to ask for them? Nothing of the sort is true. The truth is: we were not there, we did not ask - it was His mercy hearing the unsaid! Allah is All-Independent and His Creation is only a Mirror of His Mercy In this verse, the words: رَبُّکَ الغَنِیُّ describe how absolutely free from and independent of need the Lord of all lords is. But, by adding the needs none, words: ذُوالرَّحمَۃِ soon after, it was it was pointed out that, though He needs none, depends on none, is independent of everyone and everything in the universe, and the universe itself, yet, along with all that, He is also the one who has mercy and dispenses it at will. Allah, in His Wisdom, Made no Human Being Need-Free - If So, Man Turns To Tyranny It is certainly a great blessing of Allah, otherwise human beings have their own ways of neglect. When they become free from needs and independent of circumstancial compulsions they stop caring for the benefit or loss and the sorrow or comfort of others. In fact, what usually happens under such situations is that one becomes all the more adamant on inflicting injustice and oppression against others. Says a verse of the Holy Qur&an: إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ ﴿٦﴾ أَن رَّ‌آهُ اسْتَغْنَىٰ ﴿٧﴾ (96:6), that is, when human beings find themselves need-free and independent, they are ready to rebel and transgress. Therefore, Allah Almighty has made man so tied up with needs which cannot be fulfilled without the help of others. A king needs his retinue of liveries, the wealthy man needs his help, the industrialist depends on his labour. The driver of a passenger vehicle comes out on the streets to earn his living of the day while one who can afford to pay for the ride has to hail for one. Nature has chained them together. Each needs the other and no one is doing any favour. Without this arrangement, no rich man will pay a dime to any-one and no handyman or porter would care to carry someone else&s burden. So, all this is a manifestation of the most perfect attribute of Allah Ta ala who is All-Independent, yet the Master of Mercy. The text could have used a single word form such as Ar-Rahman (All-Merciful) or Ar-Rahim (Very-Merciful) and that would have served the purpose of describing the mercy of Allah. But, the choice of a compound form: ذُوالرَّحمۃِ (Dhur-Rahmah: The Master of Mercy) has been preferred because it shows the correlation between the two attributes of Allah Ta` ala de-scribed in the verse. He is All-Independent, yet He is the master-dispenser of mercy - an attribute which is the real cause of sending messengers and books for the good of human beings. After that, it was also made clear that the way His mercy is uni¬versal and perfect, in the same way His power holds control over everything. If He wills, He could undo everyone in a moment - and even this undoing of the entire creation would not cause the slightest difference to the working of His power. Then, if He wills to undo the present system of the entire universe and replace it with another set of creation in the same manner and at the same time - He can certainly do that. An evidence of this possible happening always remains before human beings of all ages. Think of the millions of human beings who inhabit the near and far corners of the earth and run the business of their lives, then think of the time a hundred years earlier. You shall realize that the earth was inhabited as it is now, and things were go¬ing on as usual, but none of the present inhabitants of the earth, the movers and shakers of things, were there. What was there was a dif¬ferent set of people - and that different set of people lies buried under the earth with no traces to be found today. The people on the earth to-day are the descendants of the earlier generation of people. Says the Qur&an: إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّ‌يَّةِ قَوْمٍ آخَرِ‌ينَ He wills, He shall take you away and shall bring after you whom He wills just as He has raised you from the progeny of other people -133). The sense of |" يُذْهِبْكُمْ |": yudhhibkum, translated as ` take you away,& is to undo or make absent with no traces left behind. This is why there is no refer¬ence to destroying, killing or exterminating. The statement in the text restricts itself to ` taking& which denotes a state of unmaking, unbeing, loss of name, identity and trace.

خلاصہ تفسیر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب (رسولوں کو کچھ اس لئے نہیں بھیجتا کہ نعوذ باللہ وہ محتاج عبادت ہے وہ تو) بالکل غنی ہے (بلکہ اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ) رحمت والا (بھی) ہے (اپنی رحمت سے رسولوں کو بھیجا تاکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو منافع و مضار (نقصان دینی والی چیزیں) معلوم ہوجائیں، پھر منافع سے منتفع اور مضار سے محفوظ رہیں، سو اس میں بندوں ہی کا فائدہ ہے، اور باقی ان کا گناہ تو ایسا ہے کہ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو (دنیا سے دفعةً ) اٹھالیوے اور تمہارے بعد جس (مخلوق) کو چاہے تمہاری جگہ (دنیا میں) آباد کر دے جیسا (اس کی نظیر پہلے سے موجود ہے کہ) تم کو (جو کہ اب موجود ہو) ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے (کہ ان کا کہیں پتہ نہیں اور تم ان کی جگہ موجود ہو، اور اسی طرح یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، لیکن یہ سلسلہ تدریجاً قائم ہے، اگر ہم چاہیں دفعةً بھی ایسا کردیں، کیونکہ کسی کے ہونے نہ ہونے سے ہمارا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا، پس ارسالِ رسل ہمارے احتیاج کی وجہ سے نہیں تمہارے احتیاج کی وجہ سے ہے، تم کو چاہئے کہ ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرکے سعادت حاصل کرو اور کفر و انکار کے ضرر سے بچو کیونکہ) جس چیز کا (رسولوں کی معرفت) تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت و عذاب) وہ بیشک آنے والی چیز ہے اور (اگر احتمال ہو کہ گو قیامت آوے مگر ہم کہیں بھاگ جائیں گے، ہاتھ نہ آئیں گے، جیسا دنیا میں حکام کا مجرم کبھی ایسا کرسکتا ہے تو خوب سمجھ لو کہ) تم (خدا تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے (کہ اس کے ہاتھ نہ آؤ، اور اگر باجود جو اقامت دلائل تعیین حق کے کسی کو اس میں کلام ہو کہ کفر ہی کا طریقہ اچھا ہے اسلام کا برا ہے، پھر قیامت سے کیا اندیشہ تو ایسے لوگوں کے جواب میں) آپ (آخری بات) یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم (تم جانو بہتر ہے) تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی (اپنے طور پر) عمل کر رہا ہوں، سو اب جلدی تم کو معلوم ہوا چاہتا ہے کہ اس عالم (کے اعمال) کا انجام کار کس کے لئے منافع ہوگا (ہمارے لئے یا تمہارے لئے اور) یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی (انجام میں) فلاح نہ ہوگی (اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حق تلفی ہے، اور یہ امر دلائل صحیحہ میں تھوڑا غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ طریقہ اسلام حق تلفی ہے یا طریقہ کفر، اور جو دلائل میں بھی غور نہ کرے اس سے اتنا کہہ دینا بس ہے فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی عنقریب تم اس عمل بد کا انجام جان لوگے) اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی (وغیرہ) اور مواشی پیدا کئے ہیں ان (مشرک) لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ (کے نام) کا مقرر کیا (اور کچھ بتوں کے نام کا مقرر کیا حالانکہ پیدا کرنے میں کوئی شریک نہیں) اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے (جو کہ مہمانوں اور مساکین اور مسافر وغیرہ عام مصارف میں صرف ہوتا ہے) اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (جس کے مصارف خاص ہیں) پھر جو چیز ان کے معبودوں (کے نام) کی ہوتی ہے وہ تو اللہ (نام کے حصہ) کی طرف نہیں پہنچتی (بلکہ اتفاقاً مل جانے سے بھی الگ نکال لی جاتی ہے) اور جو چیز اللہ (کے نام) کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں (کے نام کے حصہ) کی طرف پہنچ جاتی ہے، انہوں نے کیا بری تجویز نکال رکھی ہے (کیونکہ اول تو اللہ کا پیدا کیا ہوا دوسرے کے نام کیوں جائے، دوسرے پھر جتنا اللہ کا حصہ نکالا ہے اس میں سے بھی گھٹ جاوے، اور اگر غناء و احتیاج اس کا مبنیٰ ہے تو محتاج مان کر معبود سمجھنا اور زیادہ حماقت ہے) ۔ معارف و مسائل اس سے پہلی آیت میں مذکور تھا کہ اللہ جل شانہ، کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جن و بشر کی ہر قوم میں اپنے رسول اور اپنی ہدایات بھیجی ہیں، اور جب تک رسولوں کے ذریعہ ان کو پوری طرح متنبہ نہیں کردیا گیا اس وقت تک ان کے کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی پر ان کو کبھی سزا نہیں دی۔ مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ رسولوں اور آسمانی کتابوں کے تمام سلسلے کچھ اس لئے نہیں تھے کہ رب العالمین کو ہماری عبادت اور اطاعت کی حاجت تھی، یا اس کا کوئی کام ہماری اطاعت پر موقوف تھا، نہیں وہ بالکل بےنیاز اور غنی ہے، مگر اس کے کامل استغناء اور بےنیازی کے ساتھ اس میں ایک صفت رحمت بھی ہے اور سارے عالم کے وجود میں لانے پھر باقی رکھنے اور ان کی ظاہری اور باطنی موجودہ اور آئندہ تمام ضرورتوں کو بےمانگے پورا کرنے کا سبب بھی صفت رحمت ہے، ورنہ بیچارہ انسان اپنی ضروریات کو خود پیدا کرنے کے قابل تو کیا ہوتا اس کو تو اپنی تمام ضروریات کے مانگنے کا بھی سلیقہ نہیں، خصوصاً نعمت و جود جو عطا کی گئی ہے اس کا تو بےمانگے ملنا بالکل ہی واضح ہے کہ کسی انسان نے کہیں اپنے پیدا ہونے کی دعا نہیں مانگی، اور نہ وجود سے پہلے دعا مانگنے کا کوئی تصور ہوسکتا ہے، اسی طرح انسان کی تخلیق جن اعضاء سے کی گئی ہے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤ ں، دل و دماغ کیا یہ چیزیں کسی انسان نے مانگی تھیں، یا کہیں اس کو مانگنے کا شعور و سلیقہ تھا ؟ کچھ نہیں بلکہ مانبودیم و تقاضا ما نبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود اللہ تعالیٰ سب سے بےنیاز ہے تخلیق کائنات صرف اس کی رحمت کا نتیجہ ہے بہر حال اس آیت میں وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ کے الفاظ سے رب الارباب کی بےنیازی بیان کرنے کے ساتھ ذو الرَّحْمَةِ کا اضافہ کرکے یہ بتلا دیا کہ وہ اگرچہ تم سب سے بلکہ ساری کائنات سے بالکل مستغنی اور بےنیاز ہے، لیکن بےنیازی کے ساتھ وہ ذوالرحمة یعنی رحمت والا بھی ہے۔ کسی انسان کو اللہ نے بےنیاز نہیں بنایا اس میں بڑی حکمت ہے، انسان بےنیاز ہوجائے تو ظلم کرتا ہے اور یہ اسی ذات کا کمال ہے ورنہ انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر وہ دوسروں سے بےنیاز اور مستغنی ہوجائے تو اس کو دوسروں کے نفع نقصان اور رنج و راحت کی کوئی پروا نہیں رہتی، بلکہ اسی حالت میں وہ دوسروں پر ظلم وجور کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے، قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی۔ یعنی انسان جب اپنے آپ کو بےنیاز اور مستغنی پاتا ہے تو وہ سرکشی اور طغیانی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اسی لئے حق جل شانہ، نے انسان کو ایسی ضروریات میں جکڑ دیا ہے جو دوسروں کی امداد کے بغیر پوری ہی نہیں ہو سکتی، بڑے سے بڑا بادشاہ اور حاکم نوکروں چاکروں اور چپراسیوں کا محتاج ہے، بڑے سے بڑا مالدار اور مل آنر مزدوروں کا محتاج ہے، صبح کو جس طرح ایک مزدور اور رکشا چلانے والا کچھ پیسے حاصل کرکے محتاجی دور کرنے کے لئے تلاش روزگار میں نکلتا ہے ٹھیک اسی طرح بڑے مالدار جن کو اغنیاء کہا جاتا ہے وہ مزدور اور رکشا اور گاڑی، سواری کی تلاش میں نکلتے ہیں، قدرت نے اس کو محتاجی کی ایک زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے، کسی کا کسی پر احسان نہیں اور یہ نہ ہوتا تو نہ کوئی مالدار کسی کو ایک پیسہ دیتا اور نہ کوئی مزدور کسی کا ذرا سا بوجھ اٹھاتا، یہ تو صرف حق جل شانہ کی صفت کمال ہے کہ کامل استغناء اور بےنیازی کے باوجود و ذوالرحمة یعنی رحمت والا ہے، اس جگہ ذوالرحمة کے بجائے اگر رحمن یا رحیم کا لفظ لایا جاتا تب بھی مقصود کلام ادا ہوجاتا، لیکن غنی ہونے کے ساتھ صفت رحمت کے جوڑ کی خاص اہمیت ظاہر کرنے کے لئے عنوان ذو الرَّحْمَةِ کا اختیار فرمایا گیا کہ وہ غنی اور مکمل بےنیاز ہونے کے باوجود صفت رحمت بھی مکمل رکھتا ہے، اور یہی صفت رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا اصل سبب ہے۔ اس کے بعد یہ بھی بتلا دیا کہ جس طرح اس کی رحمت عام اور تام ہے اسی طرح اس کی قدرت ہر چیز اور ہر کام پر حاوی ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو ایک آن میں فناء کرسکتا ہے، اور ساری مخلوق کے فنا کردینے سے بھی اس کے کارخانہ قدرت میں ادنیٰ سا فرق نہیں آتا، پھر اگر وہ چاہے تو موجودہ ساری کائنات کو فناء کر کے ان کی جگہ دوسری مخلوق اسی طرح اسی آن میں پیدا کرکے کھڑی کر دے، جس کی ایک نظیر انسان کے ہر دور میں اس کے سامنے رہتی ہے، کہ آج جو کروڑوں انسان زمین کے چپہ چپہ پر آباد اور زندگی کے تمام شعبوں کے مختلف کاروبار کو چلا رہے ہیں، اگر اب سے ایک سو سال پہلے کی طرف غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی یہ دنیا اسی طرح آباد تھی، اور سب کام چل رہے تھے، مگر موجودہ آباد کرنے والوں اور کام چلانے والوں میں سے کوئی نہ تھا، ایک دوسری قوم تھی جو آج زیر زمین ہے، اور جس کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، اور موجودہ دنیا اسی پہلی قوم کی نسل سے پیدا کی گئی ہے، ارشاد ہے : (آیت) اۭاِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو تم سب کو لے جائیں، لے جانے سے مراد ایسا فنا کردینا ہے کہ نام و نشان تک گم ہوجائے، اور اسی لئے یہاں ہلاک کرنے یا مار دینے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ لے جانا ارشاد فرمایا، جس میں فناء محض اور بےنام و نشان کردینے کی طرف اشارہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَۃِ۝ ٠ ۭ اِنْ يَّشَاْ يُذْہِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَـمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ۝ ١٣٣ ۭ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٣) آپ کا پروردگار ان کے ایمان سے غنی (بےنیاز) ہے اور جو ایمان لائے اس سے عذاب کو موخر کرکے رحمت فرماتا ہے مکہ والو ! اگر وہ چاہیے تو تم سب کو ہلاک کردے اور تمہارے بعد دوسری قوم کو آباد کرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٣ (وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذو الرَّحْمَۃِ ط) ۔ اسے کسی کو عذاب دے کر کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور کسی کی بندگی اور اطاعت سے اس کا کوئی رکا ہوا کام چل نہیں پڑتا۔ وہ ان سب چیزوں سے بےنیاز ہے۔ (اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْم بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآءُ ) وہ اس پر قادر ہے کہ ایک نئی مخلوق کو تمہارا جانشین بنا دے ‘ کوئی نئی species لے آئے۔ اللہ کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ چاہے تو ایک نئی نسل آدم پیدا کر دے۔ (کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ) ۔ جیسے قوم عاد عرب کی بڑی زبردست اور طاقتور قوم تھی ‘ لیکن جب اس کو تباہ برباد کردیا گیا تو ان ہی میں سے کچھ اہل ایمان لوگ جو حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھی تھے وہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے اور ان کے ذریعے سے بعد میں قوم ثمودوجود میں آئی۔ پھر قوم ثمود کو بھی ہلاک کردیا گیا اور ان میں سے بچ رہنے والے اہل ایمان سے آگے نسل چلی اور مختلف علاقوں میں مختلف قومیں آباد ہوئیں۔ چناچہ جیسے تمہیں ہم نے اٹھایا ہے کسی دوسری قوم کی نسل سے ‘ اسی طریقے سے ہم تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. The Qur'anic statement: 'Your Lord is Self-Sufficient' signifies that God is in need of nothing from anyone, that none of His interests will be jeopardized by disobedience to Him, and that no benefit will accrue to Him from obedience. Even if all human beings became disobedient, God's dominion will not shrink. Nor will His dominion expand if everybody were to become obedient and serve and worship Him as they ought to. God is dependent neither upon their show of veneration nor upon their offerings. He lavishes His limitless treasures on human beings and seeks nothing in return. The other statement, namely that 'Your Lord is full of compassion', has been made here to emphasize two things. First, that when God urges human beings to follow the Right Way, and asks them not to do anything in conflict with Ultimate Reality, He does not do so because their good behaviour benefits Him or their misconduct harms Him. He does so because good conduct is beneficial to man himself, as evil conduct is harmful to him. Hence it is out of sheer benevolence that God urges man to develop righteous conduct, for it will raise him to great heights, and He urges him to avoid evil conduct because it will lead to his own degradation. Second, that God is not unduly stern in judging man. He gets no pleasure from punishing people. He is not on the look-out for slight lapses for which to convict and persecute people. God is highly compassionate towards all His creatures and governs with utmost mercy and benevolence, and the same characterizes His dealings with human beings as well. Hence, He constantly forgives the sins of people. Many disobey, indulge in sins, commit crimes, disregard God's commands, even though they are nourished by the sustenance He provides. God, nevertheless, continually treats them with forbearance and forgives them. Again and again, He grants them respite in order that they may take heed, understand things properly and reform themselves. Had He been excessively stern, He could even have obliterated them instantly and raised up another people. He could have put an end to humanity and brought into being an altogether different species of creation.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :101 ”تمہارا رب بے نیاز ہے“ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو ، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو ۔ تم سب مل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیع فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے ۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا ۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر اس کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے ۔ ”مہربانی اس کا شیوہ ہے“ ۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے ۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اس صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرز عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزل کرتے ہو ۔ دوسرے یہ کہ تمہارا رب سخت گیر نہیں ہے ، تم کو سزا دینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے ۔ درحقیقت وہ اپنی تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے ، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے ، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے ۔ اسی لیے وہ تمہارے قصور پر قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے ۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو ، گناہ کرتے ہو ، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو ، اس کے رزق سے پل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو ، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہے اور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے ۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا کھڑا کرتا ، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

63: یعنی اس نے رسولوں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری فرمایا اس کی وجہ معاذ اللہ یہ نہیں تھی کہ وہ تمہاری عبادت کا محتاج ہے وہ تو مخلوق کی عبادت سے بے نیاز ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ رحمت والا بھی ہے، اس لیے اس نے پیغمبر بھیجے ہیں جو بندوں کو اس صحیح راہ عمل کی طرف متوجہ کرتے رہیں جس میں ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہتری کا سامن ہو۔ 64: جس طرح آج کے تمام لوگ ان لوگوں کی نسل سے ہیں جن کا اب کوئی پتہ نشان باقی نہیں رہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت ہے کہ آج کے تمام لوگوں کو ایک ہی مرتبہ میں ختم کر کے دوسری قوم پیدا کردے، لیکن وہ اپنی رحمت کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:133) یستخلف۔ مضارع واحد مذکر غائب مجزوم ۔ بو کہ جواب شرط (تمہارا جانشین بنا دے تمہاری جگہ لے آئے۔ مایشائ۔ ما بیانہ ہے۔ جسے چاہے۔ جیسے چاہے۔ ذریۃ۔ اولاد۔ اصل میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا نام ذریت ہے۔ لیکن عرف عام میں چھوٹی اور بڑی سب اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اصل میں جمع ہے لیکن واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ ذریۃ کے بارے میں تین اقوال ہیں :۔ (1) یہ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی پیدا کرنے اور پھیلانے کے ہیں اور اس کی ہمزہ متروک ہوگئی ہے جیسے رویۃ اور بریۃ میں۔ (2) اس کی اصل ذرویۃ سے ہے۔ (3) ذر سے جس کے معنی بکھیرنے کے ہیں۔ فعلیۃ کے وزن پر جیسے قمریۃ۔ ذرای۔ وریات جمع۔ قوم اخرین۔ اخر کی جمع ہے۔ دوسری قوم۔ دوسرے لوگ۔ من ذریۃ قوم اخرین۔ ایک دوسری قوم کی نسل سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جس طرح تمہیں پہلے لوگوں کا جانشین، بنایا اسی طرح تمہیں تباہ کرکے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جن وانس کے پیدا کرنے پر ہی منحٖصر نہیں ہے بلکہ ان کی بجائے کوئی تیسری قسم کی مخلوق بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ، (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 133 تا 135 : الغنی (بےنیاز۔ بےپرواہ) یستخلف (وہ قائم مقام بنادیتا ہے) ذریۃ ( اولاد) توعدون ( وعدہ کئے گئے ہیں) مکانتکم ( اپنی جگہ) عاقبۃ ( انجام) ۔ تشریح آیت نمبر 133 تا 135 : اللہ رحمت والا ہے یعنی کسی کو سزا دینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا۔ اسے تو انعام و اکرام دینے میں لطف آتا ہے اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہے۔ تمہاری خوشی سے خوش ہے۔ تمہاری تکلیف سے ناخوش ہے۔ کیا تم اس کے بنائے ہوئے نہیں ہو ؟ جس جسم و جان کو اتنی محبتوں سے عنایت کیا اور اتنی محبتوں اور سفقتوں سے عمر کی مختلف منزلوں سے گذارا ۔ کیا وہ اسے دوزخ میں ڈال کر خوش ہو سکتا ہے ؟ مگر سزا۔ وہ بھی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ اس کے بغیر انصاف کہاں ممکن ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے لوگو ! یہ جو مال و دولت ‘ صحت و اقتدار اس نے دے رکھا ہے ‘ اس پر مت پھولو۔ فرد ہو یا جماعت ‘ بڑی سے بڑی ہستی اور بڑی سے بڑی قوم اس صفحہ دنیا سے ایسی ملیا میٹ ہوگئی کہ اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ وہ جگہ خالی نہ رہی۔ دوسری ہستیوں نے اور دوسری قوموں نے ان کی جگہ لے لی۔ کیا تم پیدائش اور موت کے نظام کو نہیں دیکھتے کہ تمہارے آبائو اجداد آج کہاں ہیں۔ کل وہ تھے۔ آج تم ہو۔ اسی طرح کل کوئی اور ہوگا۔ فرمایا ” جان رکھو کہ ظالموں کو کبھی فلاح حاصل نہ ہوگی “۔ قرآن پاک کی اصطلاح میں ظالم صرف وہ نہیں جو کسی اور پر ظلم کرے۔ ظالم وہ بھی ہے جو اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے ‘ جو کفر و شرک اور فسق و فجور کر کے اپنے آ پکو دوزخ کا مستحق بنادے۔ جو کوئی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے وہ لپیٹ میں بہت سارے دوسرے لوگوں کو بھی لے لیتا ہے۔ فلاح دنیاوی بھی ہے اور اخروی بھی۔ اخروی تو خیر ‘ ابھی پردہ غیب میں ہے۔ لنکک اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ظالم اپنے کیفر وکردار کو اسی زندگی میں پہنچ جاتا ہے۔ عذاب الہیٰ کی ایک قسم دنیا میں یہ بھی ہے کہ دولت ونعمت ‘ صحت و اقدار کی زیادتی کردی اور وہ مزید گناہوں میں غرق وہ گیا یا زوال میں آگیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ظالم کے لئے قیامت کے دن ظلم ‘ سخت اندھیرا بنے گا “ (متفق علیہ) اوس بن شرجیل (رض) کی روایت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جو شخص کسی ظالم کا ساتھ دے کر اس کو قوت پہنچائے گا یہ سمجھ کر کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ایک طویل حدیث ہے جس کا مطلب ہے کہ ظالم کی نیکیاں مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اگر اس کی نیکیوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو مظلوموں کی برائیاں اس کے سرپر دھردی جائیں گی۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم کے ظلم میں اسکی مدد کرتا ہے تو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اس مدد کرنیوالے کو ظالم کے اوپر مسلط کردیتا ہے تاکہ ظالم کو یہاں بھی سزا مل جائے۔ اور تاریخ بلکہ جدید تاریخ اس پر گواہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وہ رسولوں کو کچھ اس لیے نہیں بھیجتا کہ نعوذ باللہ وہ محتاج عبادت ہے وہ تو بالکل غنی ہے بلکہ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ رحمت والا بھی ہے اپنی رحمت سے رسولوں کو بھیجا تاکہ ان کے ذریعہ لوگوں کو منافع ومضار معلوم ہوجائیں پھر منافع سے منتفع اور مضار سے محفوظ رہیں اس میں بندوں کا ہی نفع ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٣٣۔ لوگوں کو یہ بات بھولنا چاہیے کہ وہ اس دنیا میں محض اللہ کی مہربانی کی وجہ سے زندہ ہیں ۔ ان کا یہاں رہنا اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔ ان کے پاس جو قوت اور حکمت ہے یہ انہیں اللہ کی عطا کی ہوئی ہے ۔ یہ اصل قوت نہیں ہے بلکہ عطائی ہے ۔ وہ خود مختار نہیں ہیں اس لئے کہ کوئی شخص اپنی پیدائش اپنے وجود اور اس جہان میں اپنی بقا میں کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔ انسان کو جو بھی قوت دی گئی ہے اس میں اس کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ان کو یہاں سے ہٹانا اور ان کی جگہ دوسری اقوام کو لانا اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہے ۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ خود اللہ نے دوسری اقوام کی جگہ انہیں یہاں وجود بخشا اور اپنی قدرت کے ذریعے ان دوسری اقوام کی جگہ یہاں انہیں اقتدار اور قوت دی ۔ یہ نہایت ہی شدید تنبیہات ہیں اور نہایت ہی سختی کے ساتھ انسانوں کے دل و دماغ کو جھنجوڑا جا رہا ہے ۔ خصوصا ان لوگوں کو جو ظالم اور مشرک ہیں اور وہ جنات جو مکرو فریب کا جال بچھاتے ہیں ‘ لوگوں پر دست درازیاں کرتے ہیں ‘ اقتدار کا تخت بچھاتے ہیں ۔ خود حلال و حرام قرار دیتے ہیں اور اللہ کی شریعت پر دست درازی کرتے اور خود قانون بناتے ہیں ۔ یہ سب لوگ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں جب تک وہ چاہے وہ رہیں گے اور جب چاہے ان کو اس دنیا سے رخصت کرکے ان کی جگہ دوسری اقوام کو لے آئے ان تنبیہات کے ذریعے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو تسلی بھی دیتا ہے کہ اگرچہ ان پر مظالم ہوتے ہیں ‘ ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں اور انہیں اذیت دی جاتی ہے لیکن ان کے دشمن اللہ پر غالب نہیں ہیں ۔ یہ امتحان ہے اور اللہ کسی بھی وقت ان کو اور ان کی مکاریوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور یہ آخری ضرب ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ غنی ہے رحمت والا ہے۔ پھر فرمایا (وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ) (تیرا رب غنی ہے بےنیاز ہے، رحمت والا ہے) اسے کسی چیز کی اور کسی کے عمل کی حاجت نہیں۔ ہاں ! ساری مخلوق اس کی محتاج ہے وہ اپنی مخلوق پر رحم کرتا ہے اس نے مخلوق کو وجودبھی بخشا، ان کو رزق بھی بخشتا ہے اور ان کی حاجتیں بھی پوری فرماتا ہے، دنیا میں تو سب ہی پر اس کی رحمت ہے اور آخرت میں اہل اطاعت کے لیے مخصوص ہے۔ اللہ چاہے تو تمہیں ختم کر کے دوسرے لوگوں کو لے آئے : (اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَّا یَّشَآءُ ) (اگر پروردگار عالم جل مجدہ چاہے تو تمہیں ختم کردے اور تمہارے بعد دوسروں کو اپنی زمین پر آباد فرما دے) ۔ (کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ) (جیسا کہ اس نے تمہیں ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا فرما دیا) آج وہ تمہارے دادے پردادے کہاں ہیں جن کی نسل سے تم ہو۔ جس طرح تدریجی طور پر پرانی ایک نسل کے بعد دوسری نسل لانے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے اس طرح سے وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ دفعتہ سب کو ختم کر دے پھر اس کی جگہ دوسروں کو آباد کر دے۔ وہ تو بےنیاز ہے تم تو بےنیاز نہیں ہو تم اپنی بقا میں اس کے محتاج ہو اور حاجات پوری کرنے کے لیے تمہیں اس کی رحمت کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بھی تم اس کے محتاج ہو اور موت کے بعد بھی۔ لہٰذا اپنی ضرورت سے ایمان قبول کرو اور اعمال صالحہ اختیار کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

147 یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہاں اگر کسی کے دل میں یہ اشکال پیدا ہو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور صفت عذاب دونوں کو کیوں جمع کردیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی دونوں صفتوں کو بیان کرنا مقصود ہے کہ بیشک اللہ رحیم اور مہربان ہے۔ لیکن نافرمانوں کو عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔ تائید وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ ذوْ الْعَرْشِ الْمَجِیْد فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ تم نہیں مانو گے تو وہ تمہیں ہلاک کردے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو آباد کردے گا جس طرح تم سے پہلے لوگوں کی جگہ تم کو دی۔ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ الخ تمہیں جس چیز (عذاب یا قیامت) کا وعدہ دیا جارہا ہے وہ آخر رہے گی۔ اللہ کے وعدے میں ہرگز تخلف نہیں ہوگا۔ اور نہ تم ہی اس کو روکنے کی قدرت اور طاقت رکھتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

133 اے پیغمبر ! آپ کا پروردگار غنی اور بےنیاز اور صاحب رحمت ہے یعنی خود کسی کا محتاج نہیں اور اس کا شیوہ مہربانی اور رحم و کرم ہے وہ اگر چاہے تو تم سب کو اس عالم سے اٹھا لے اور یہاں سے لے جائے اور تمہارے بعد جس مخلوق کو چاہے تمہارا جانشین کر دے اور جس کو چاہے تمہاری جگہ آباد کر دے جس طرح تم کو دوسرے لوگوں کی نسل سے اور اولاد سے پیدا کیا ہے۔ یعنی وہ تمہارے بڑے موجود نہیں اور تم ان کی جگہ موجود ہو اسی طرح ہم اگر چاہیں تو دفعتاً الٹ پلٹ کردیں جیسا کہ انقلاب کے وقت بھی ایسا ہوا کرتا ہے وہ اگر چاہے تو بڑے پیمانہ پر سارے عالم میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔