Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 134

سورة الأنعام

اِنَّ مَا تُوۡعَدُوۡنَ لَاٰتٍ ۙ وَّ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾

Indeed, what you are promised is coming, and you will not cause failure [to Allah ].

جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ بیشک آنے والی چیز ہے اور تم عاجز نہیں کر سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Surely, that which you are promised, will verily, come to pass and you cannot escape. means, tell them, O Muhammad, that what they have been promised of Resurrection will surely occur, وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ (and you cannot escape) from Allah. Rather, He is able to resurrect you even after you become dust and bones. Certainly, Allah is able to do all things and nothing ever escapes His power. Allah said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

134۔ 1 اس سے مراد قیامت ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤١] یعنی اللہ نے جس قیامت کے دن کا تم سے وعدہ کر رکھا ہے وہ بہرحال آ کے رہے گا۔ تم اپنی سر توڑ کوششیں کر دیکھو تم اس دن کو ٹالنے پر کبھی قادر نہیں ہوسکتے۔ پھر اس دن تمہارا پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیز یہاں وعدہ سے مراد عذاب کا وعدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا عذاب بھی جیسا کافروں پر آیا تو پھر انہیں نجات کی کوئی راہ نہ ملی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ : باء تاکید کی وجہ سے ترجمہ میں ” کسی صورت “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ تم اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے کہ وہ تمہیں پکڑنے سے عاجز رہ جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having established in the first verse that Allah is All-Independent (Ghaniyy), Master of Mercy (Dhur-Rahmah) and All-Powerful too, the text carries a warning given to disobedient people: إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴿١٣٤﴾: Surely what you are promised [ that is, the Divine punishment ] is bound to come, and you cannot frustrate [ it ].& Another method to awaken them from their heedlessness was adopted in the third verse (135) where it was said: قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ‌ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿١٣٥﴾ (Say, |"0 my people, do at your place (whatever you do) I am to do (in my way). So, you will know for whom is the ultimate abode. Surely, the unjust shall not be successful). This is addressed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He is being asked to tell those people of his in Makkah that the choice of not ac¬cepting what he is saying is theirs. Let them not accept it, stay as they are and keep on doing what their belief and hostility tell them to do - and he too will keep on doing what his belief tells him to do. In that, there was no loss for him. But, very soon, they will be the ones to find out who will be blessed with the ultimate salvation and success of the Hereafter. And, in this, let them not forget that the Zalim, the unjust, the usurpers of rights, never succeed.

اس آیت میں اللہ جل شانہ کے غنی اور بےنیاز ہونے کا، پھر صاحب رحمت ہونے کا، اور پھر قدرت کاملہ کے مالک ہونے کا بیان کرنے کے بعد دوسری آیت میں نافرمانوں اور حکم نہ ماننے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ : (آیت) اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ ۙ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو جس عذاب سے ڈرایا ہے وہ ضرور آنے والا ہے، اور تم سب مل کر بھی خدائی عذاب کو نہیں ٹال سکتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ۝ ٠ ۙ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۝ ١٣٤ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰم و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٤) عذاب یقیناً آنے والا ہے اللہ کے اس عذاب سے تم بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے جہاں بھی تم ہوگے وہ تمہیں پکڑ لے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٤ (اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍلا وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) تم اپنی سازشوں سے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ‘ اس کے قابو سے باہر نہیں جاسکتے۔ اللہ کے تمام وعدے پورے ہو کر رہیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102. This refers to the Resurrection, when human beings of every epoch will be raised anew and made to stand before God for final judgement.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :102 یعنی قیامت ، جس کے بعد تمام اگلے پچھلے انسان ازسرنو زندہ کیے جائیں گے اور اپنے رب کے سامنے آخری فیصلے کے لیے پیش ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

65: اس سے مراد آخرت اور جنت اور جہنم ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:134) لات۔ ات۔ آنے والا۔ ایتان سے جس کے معنی آنے کے ہیں۔ لام تاکید کے لئے آیا ہے۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ معجزین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ عاجز کردینے والے۔ ہرا دینے والے۔ اعجاز (افعال) سے دوسرے کو عاجز بنادینا۔ عاجز کردینا۔ معاحزۃ (مفاعلۃ) مقابلہ کرکے اپنے حریف کو ہرا دینا۔ یعنی تم اس کو ایسا کرنے سے ہرگز روک نہیں سکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یا اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی قیامت و عذاب۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٣٤۔ تم اللہ کے قبضہ قدرت میں ہو ‘ اور تم اس کی مشیت کے مر ہوں منت ہو۔ تم اللہ کی مشیت کے دائرے سے نہ باہر نکل سکتے ہو اور نہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی کرسکتے ہو ۔ اس سے قبل مناظر قیامت جن کی ایک جھلک تم دیکھ چکے ہو ‘ تمہارے انتظار میں ہیں ۔ یہ مناظر عملا تمہارے سامنے آنے والے ہیں ۔ تم ان سے بچ کر نہیں نکل سکو گے کیونکہ اللہ کا نظام نہایت ہی قوی اور متین ہے ۔ اب یہ تبصرے اور نتائج ایک نہایت ہی سخت تہدید پر ختم ہوتے ہیں جس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت ضرور آنے والی ہے : پھر فرمایا (اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ ) (بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آنے والی چیز ہے) یعنی قیامت اور حساب و کتاب اور عذاب وثواب اور جنت و دوزخ کی جو خبریں تمہیں دی جا رہی ہیں اور تمہیں جو یہ بتایا جا رہا ہے کہ مومنین کی یہ جزا ہے اور کافروں کی یہ سزا ہے یہ سب کچھ ہونے والا ہے سامنے آجانے والا ہے۔ دیر لگنے کی وجہ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ یونہی باتیں ہیں۔ (وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) ( اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے) اور موت سے اور قیامت کے دن پیش آنے والے حالات سے جان چھڑا کر کہیں جا نہیں سکتے۔ سورة مریم میں فرمایا۔ (لَقَدْ اَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّا وَ کُلُّھُمْ اٰتِیْہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَہِ فَرْدًا) (اللہ تعالیٰ نے سب کو خوب اچھی طرح شمار میں رکھا ہے اور سب اس کے پاس ایک ایک ہو کر حاضر ہوں گے) بہت سے جاہل قیامت کا انکار کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ہزاروں سال ہوگئے اب تک تو قیامت آئی نہیں یہ احمقانہ بات ہے خالق ومالک جل مجدہٗ کا وعدہ سچا ہے اس کے علم میں اس کا وقت مقرر ہے وہ اپنے وقت مقررہ پر آئے گی۔ کسی چیز کے وجود میں آنے میں دیر لگنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کا وجود نہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

134 جس چیز کا تم سے رسولوں کی معرفت وعدہ کیا جاتا ہے یعنی عذاب یا قیامت وہ چیز یقینا آنیوالی ہے اور تم کہیں بھاگ کر اس کو ہرا نہیں سکتے اور نہ خدا تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہو۔ یعنی قیامت ضرور آ کر رہے گی اور اگر تم چاہو کہ کہیں بھاگ کر روپوش ہو جائو اور چھپ جائوتو یہ بھی نہیں ہوسکتا اور خدا کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے۔