Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 135

سورة الأنعام

قُلۡ یٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ تَکُوۡنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۳۵﴾

Say, "O my people, work according to your position; [for] indeed, I am working. And you are going to know who will have succession in the home. Indeed, the wrongdoers will not succeed.

آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لئے نافع ہوگا ۔ یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ... Say: "O my people! Work according to your way, surely, I too am working and you will come to know." This contains a stern warning and a sure promise, saying; remain on your way, if you think that you are rightly guided, for I will remain on mine. Allah said in another Ayah, وَقُل لِّلَّذِين... َ لاَ يُوْمِنُونَ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ وَانْتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ And say to those who do not believe: "Act according to Makanatikum, We are acting (in our way). And you wait! We (too) are waiting." (11:121-122) Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said that, عَلَى مَكَانَتِكُمْ (according to Makanatikum...), means, your way. قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ... فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدِّارِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ And you will come to know for which of us will be the (happy) end in the Hereafter. Certainly the wrongdoers will not be successful. You will come to know if the happy end will be mine (Muhammad's) or yours (the disbelievers). Allah has indeed kept His promise and allowed Muhammad to prevail in the land and rise above those who defied him. He conquered Makkah for him and made him triumphant over his people who rejected and showed enmity towards him. The Prophet's rule soon spread over the Arabian Peninsula, Yemen and Bahrain, and all this occurred during his lifetime. After his death, the various lands and provinces were conquered during the time of his successors, may Allah be pleased with them all. Allah also said, كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ Allah has decreed: "Verily, it is I and My Messengers who shall be the victorious." Verily, Allah is All-Powerful, Almighty. (58:21) إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاإٌّشْهَـدُ يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth. The Day when their excuses will be of no profit to the wrongdoers. Theirs will be the curse, and theirs will be the evil abode. (40:51-52) and, وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِى الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الاٌّرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّـلِحُونَ And indeed We have written in the Zabur after the Dhikr that My righteous servants shall inherit the land. (21:105)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (جو ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے ! کہ تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں) سورة ہود۔ 21۔ 221۔ 135۔ 2 جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے ب... عد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھا یا۔ 8 ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کی فتح کے بعد عرب قبائل جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٢] یعنی اگر تم اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو اس پر جمے رہو اور مجھے اپنی راہ پر چلنے دو ۔ عنقریب ہم سب کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ انجام ہمارا بہتر رہا یا تمہارا۔ بہرحال یہ بات تو یقینی ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ سیدنا لقمان نے ا... پنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ && بیٹے ! کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔ && اور یہاں ظلم سے شرک اس لیے مراد لیا گیا ہے کہ آئندہ مشرکوں کے بعض افعال و رسومات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ : مطلب یہ نہیں کہ تمہیں اجازت ہے کہ جو چاہو کرو، بلکہ ڈانٹنا مقصود ہے، جیسے کوئی شخص کہتا ہے کہ اچھا جو کچھ تم کر رہے ہو کرتے رہو، میں عنقریب تم سے نمٹ لوں گا۔ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ: ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول س... ے وعدہ پورا فرمایا اور انھیں تمام ملک پر قبضہ عطا فرمایا، مخالفین ان کے رحم و کرم پر رہ گئے، مکہ فتح کروا دیا اور یہ سب کچھ آپ کی زندگی میں ہوگیا، پھر آپ کی وفات کے بعد مشرق سے مغرب تک ملک فتح ہوگئے۔ آخرت میں اس سے بھی کہیں بڑھ کر اچھا انجام ہوگا۔ دیکھیے سورة مومن (٥١، ٥٢) اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ : ” بلاشبہ “ ( اِنَّ ) کا اور ” حقیقت یہ ہے “ ضمیر شان (ہٗ ) کا ترجمہ ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commenting on this verse, Tafsir authority, Ibn Kathir pointed out that the exact words of the text here are: مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ‌ (for whom is the ultimate abode) and not: عَاقِبَةُ الدَّارِاَلآخِرَۃِ‌ (the ultimate abode of Akhi¬rah), that is, the suffix of &Akhirah or Hereafter is not there. This tells us that, much earlier than the abode of Akhirah, the ultimate success fal... ls to the lot of the righteous servants of Allah alone even within the present abode of the world. This stands proved from the life and times of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his blessed Companions (رض) . Not much time passed when all wielders of power and authority found themselves disgraced before them. Their countries were conquered at their hands. Within the period of prophethood, the whole Arabia came under his authority which soon extended to Yaman, Bahrain and the borders of Syria. Then, it was at the hands of his Khulafa& and the Sa¬habah that a major part of the known world of the time came under their aegis. Fullfilled stood the promise of Allah Ta` a1a: كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُ‌سُلِي (Allah has written: I shall overcome, I, and My Messengers - 58:21). And again, it was said in another verse: إِنَّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ﴿٥١﴾ that is, ` We shall help Our Messengers, and those who have believed, in the present world, and on the Day of Qiyamah, when witnesses will stand to record their testimony on the reckoning of deeds - 40:51.&  Show more

تیسری آیت میں پھر ان کو غفلت سے چونکانے کا ایک دوسرا طریقہ اختیار کرکے ارشاد فرمایا : (آیت) قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو...  خطاب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اہل مکہ سے کہہ دیجئے کہ اے میری قوم اگر تم میری بات نہیں مانتے تو تمہیں اختیار ہے نہ مانو اور اپنی حالت پر اپنے عقیدہ اور عناد کے مطابق عمل کرتے رہو میں بھی اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرتا رہوں گا، میرا اس میں کوئی نقصان نہیں، مگر عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا، کہ دار آخرت کی نجات اور فلاح کس کو حاصل ہوتی ہے، یہ خوب سمجھ لو کہ ظالم یعنی حق تلفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔ اور امام تفسیر ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ اس جگہ آیت میں مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّار فرمایا ہے عاقبة الدار الاخرة نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دار آخرت سے پہلے دار دنیا میں بھی انجام کار فلاح و کامیابی اللہ کے نیک بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ تھوڑے عرصہ میں تمام قوت و اقتدار والے مخالف ان کے سامنے ذلیل ہوئے، ان کے ملک ان کے ہاتھوں پر فتح ہوئے، خود عہد رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تمام جزیرہ عرب آپ کے زیر نگین آگیا، یمن اور بحرین سے لے کر حدود شام تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکومت پھیل گئی، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء اور صحابہ کرام کے ہاتھوں تقریباً پوری دنیا اسلام کے جھنڈے تلے آگئی، اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا (آیت) کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی، یعنی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں غالب آؤں گا اور میرے رسول غالب آئیں گے اور دوسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) انا لننصر رسلنا تا الاشھاد۔ یعنی ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے، اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے، اس دنیا میں بھی اور اس دن میں بھی جب کہ اعمال کے حساب پر گواہی دینے والے گواہی پر کھڑے ہوں گے، یعنی قیامت کے دن۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ۝ ٠ ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝ ٠ ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ١٣٥ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد،...  وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٥) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ کے کافروں سے فرمادیجیے کہ تم اپنے گھروں میں اپنے دین پر رہ کر میری ہلاکت کی تدابیر کرتے رہو میں بھی عمل کررہا ہوں، عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ جنت کس کو ملے گی، مشرک تو عذاب الہی سے کسی بھی طرح نجات نہیں پاسکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٥ (قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ ج) ۔ یہ گویا چیلنج کرنے کا سا انداز ہے کہ مجھے تم لوگوں کو دعوت دیتے ہوئے بارہ برس ہوگئے ہیں۔ تم نے اس دعوت کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے ‘ ہر ہر طرح سے مجھے ستایا ہے ‘ تین سال تک شعب بنی ہاشم میں محصور رکھا ہے ‘ میرے ساتھیوں...  پر تم لوگوں نے تشدد کا ہر ممکن حربہ آزمایا ہے۔ غرض تم میرے خلاف جو کچھ کرسکتے تھے کرتے رہے ہو ‘ ابھی مزید بھی جو کچھ تم کرسکتے ہو کرلو ‘ جو میرا فرض منصبی ہے وہ میں ادا کر رہا ہوں ۔ (فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ لا مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدّارِط اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) ۔ عاقبت کی دائمی کامیابی کس کے لیے ہے ؟ کس کے لیے وہاں جنت ہے ‘ روح و ریحان ہے اور کس کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ؟ یہ عنقریب تم لوگوں کو معلوم ہوجائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

103. If people prefer to ignore the Prophet's admonition and do not recant their misconduct, they are at liberty to follow their chosen path, but they should let the Prophet (peace be on him) follow his. The ultimate results of their conduct will, in due time, become evident to all - to the Prophet (peace be on him) as well as to his opponents.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :103 یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو ، انجام کار جو کچھ ہوگا وہ تمہارے سامنے بھی آجائے گا اور میرے سامنے بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعض مفسروں نے اس میت کو درگذر کی آیتوں میں شمار کیا ہے اور جہاد کی آیت سے اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن درگذر کی آیتوں کی یہ شان نہیں ہے جس طرح اس میت کی شان ہے کیونکہ درگذر کی آیتوں میں اس طرح کی تنبیہ کہا ہے جیسے اس آیت میں کافروں کو خطاب کر کے آخر کو فرمایا ہے فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ اس لیے صحیح قول ... یہی ہے کہ آیت تنبیہ عذاب کی ہے جس کا دنیوی ظہور بدر کی لڑائی میں ہوا اور عقبے کے عذاب کا ظہور وقت مقررہ پر ہوگا غرض جہاد کی آیت سے یہ آیت منسوخ نہیں ہے اس کے اوپر گذر چکا ہے کہ جہاد کی آیت سے کوئی درگذر کی آیت منسوخ نہیں ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں پچھلی قوموں کی بربادی کا حال قریش کی مہلت کا حال ان سب باتوں کا حال ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ان سب باتوں کا حال سننے کے بعد بھی تم لوگوں اگر اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے تو اچھا تم اپنی حالت پر رہو میں اپنی حالت پر رہتا ہوں تھوڑے دنوں میں انجام ہر ایک کا تم کو معلوم ہوجاوے گا مگر اتنی بات یاد رہے کہ جس اللہ نے تم کو تمہاری سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس کی تعظیم میں تم دوسروں کو جو شریک کرتے ہو یہ بڑے ظلم اور بڑی ناانصانی کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے جب تک اپنی بردباری سے تم کو چھوڑ رکھا ہے اس مہلت کو غنیمت جانو آخر کار ایسے ناانصافوں کا کبھی کچھ بھلا نہ ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے آیت کے نازل ہونے کے تھوڑے عرصہ کے بعد بدر کی لڑائی کا موقعہ پیش آیا۔ بد کی لڑائی سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جتلا دیا تھا کہ اس لڑائی میں بڑے بڑے سرکش قریش میں کے مارے جاویں گے چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے شروع ہونے سے ایک رات پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش میں کے ان سرکشوں کے نام بتلائے تھے جو اس لڑائی میں مارے جانے والے تھے بلکہ مارے جانے کے بعد جہاں جہاں ان کی لاشیں پڑی تھیں وہ مقامات بھی بتلائے تھے۔ انس بن مالک (رض) قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے مارے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو انہیں مقامات پر ہم لوگوں نے پایا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ایک بڑے وبال کے ٹل جانے کی طرح یہ تو ان لوگوں کی دنیا کی موت کا حال ہے جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے پہلے سے اپنے رسول کو سنادی تھی عقبے کا حال ان لوگوں کا یہ ہوا کہ ان کے مرتے ہی سخت عذاب نے ان کو آن گھیرا اور وہ عذاب اللہ کے رسول کو نظر آگیا اسی واسطے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے عذاب کا وعدہ سچا پایا چناچہ مسند امام احمد ‘ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم میں انس بن مالک (رض) وغیرہ سے جو روایتیں ہیں ان میں اس قصہ کا ذکر ہے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے انہ لا یفلح الظلمون کی گویا تفسیر ہیں جن سے مکہ کے ناانصاف مشرکوں کا دین ودنیا کا انجام معلوم ہوتا ہے جو اور مشرکوں کے لیے عبرت کا مقام ہے :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:135) علی مکانتکم۔ علی غایۃ استطاعتکم جتنا تم سے ہوسکے۔ اعملوا علی مکانتکم۔ تم سے جو ہوسکتا ہے کہ گزرو۔ انی عامل۔ ای انی عامل ما امرنی بہ ربی۔ میں تو وہی کرتا رہوں گا جو میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے۔ یا یوں بھی ہوسکتا ہے انی عامل علی مکانتی۔ جو کچھ مجھ سے ہوسکتا ہے میں کرتا رہوں گا۔ عاقبۃ الدار۔ مضا... ف مضاف الیہ۔ عاقبۃ۔ عاقبت۔ انجام امر۔ عقب یعقب کا مصدر ہے جس کے معنی پیچھے آنے کے ہیں۔ لیکن اس کا استعمال ہر شے کے آخر اور انجام کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا استعمال ثواب کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے والعاقبۃ للمتقین (28:3) اور انجام نیک تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔ مگر اضافتہ کی صورت میں کبھی عقوبت کے معنی میں آتا ہے جیسے ثم کان عاقبۃ الذین اساء والسوء (30:10) پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہو۔ الدار (دور۔ مادہ) مکان کو کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے۔ اس کی جمع دیار ہے۔ پھر دار کا لفظ شہر۔ علاقہ۔ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے۔ اور الدار الدنیا اور الدار الاخرۃ (موصوف۔ صفت) نشأہ الولی۔ نشأۃ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے دار الدنیا۔ دار الاخرۃ کو مضاف مضاف الیہ بھی کہا ہے الدار دنیا کے گھر کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کے گھر کے لئے بھی۔ اسی طرح اس آیۃ کے مندرجہ ذیل معنی ہوسکتے ہیں۔ کسی کے لئے انجام اچھا ہوتا ہے اس دنیا کے گھر کا۔ یعنی کس کی دنیوی زندگی کا اچھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ (ضیاء القرآن) آخرت میں انجام اچھا کس کا ہوتا ہے۔ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔ (تفہیم القرآن) صاحب روح المعانی کے قول کے مطابق لفظ دار سے مراد دار دینا ہے نہ کہ دار آخرت الخازن یوں رقمطراز ہیں۔ فسوف تعلمون غداً فی یوم القیامۃ لمن تکون عاقبۃ الدار وہی الجنۃ۔ کل قیامت کے دن تم جان لو گے عاقبۃ الامرکس کا ہوگا۔ یعنی جنت کس کے نصیب میں ہوگی۔ ان تمام صورتوں میں من موصلہ ہوگا۔ علامہ زمخشری اور علامہ بیضاوی نے من کو استفہامیہ معنی میں لیا ہے۔ ان کے نزدیک تقدیر کلام یوں ہے : این تکون لہ العاقبۃ التی خلق اللہ تعالیٰ لہا ھذہ الدار۔ عام فہم ترجمہ وہ ہے جو ابن کثیر نے اختیار کیا ہے : قریب میں تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ کہ عاقبت کی بھلائی کس کے لئے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اس میں کفار کو زجر وتوبیخ ہے جو قیامت اور جزا اور سزا اکنکار کرتے تھے جیسے کوئی شخص کہتا ہے کہ اچھا جو کچھ تم کر رہے ہو کرتے رہو میں عبقریب تم سے نبٹ لوں گا۔ ای تفویض ال ھو الیھم علی ٰ سبیل التھدید۔ مطلب نہیں کہ ہماری طرف سے تمہیں کفر وشرک پر رہنے کی اجازت ہے۔ ( کبیر ) 1 لپ کیسے دنیا میں فتح من... دی اور آخرت میں جنت نصیب ہوتی ہے۔2 اس کا تعلق اس تہدید سے ہے کہ اعمو علی مکانتکم میں مذکور ہے یعنی تم لوگ چونکہ ظالم اور بدبخت ہو اس سے دینا وآخرت میں تمہیں کوئی بھلائی اور کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپرمشرکین کی جہالات اعتقادیہ شرکیہ وکفریہ کا بیان تھا آگے ان کے بعض جہالات عملیہ کا جس کا منشاء شرک وکفر تھا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سامنے انسان بےبس اور کمزور ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے احکام جبراً نہیں منواتا۔ میرے پیارے رسول ! کھلا اعلان کر دو کہ اے لوگو ! تم میری بات نہیں مانتے ہو تو تمہاری مرضی مجھ سے الجھنے اور میرا راستہ روکنے کے بجائے تم اپنے اپنے طریقہ پر عمل کرو۔...  میں اپنے طریقہ پر عمل پیرا رہوں گا۔ عنقریب تم جان جاؤ گے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے بہتر ہوگا۔ یقین رکھو کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ وعظ و نصیحت کے میدان میں داعی کو ایسے افراد کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے کہ نہایت خلوص اور سوز مندی کے ساتھ سمجھانے کے باوجودلوگ آباؤ اجداد کی تقلید، زمانے کی رسومات اور بری عادات سے باز نہیں آتے۔ ایسے افراد نہ صرف حق قبول نہیں کرتے بلکہ وہ حق کا راستہ روکنے اور داعی کو پریشان کرنے کے لیے ہر قسم کی زیادتی اور شرارت کرتے ہیں۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایسے افراد اور حالات سے بار بار واسطہ پڑا جس کے رد عمل میں آپ پر یشان ہو کر سوچتے کہ یہ کیسے ناہنجار لوگ ہیں جو حق کو قبول کرنے کے بجائے اس کے مقابلے میں بحث و تکرار، جنگ وجدال کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس پر آپ کو حکم ہوا کہ آپ ایسے لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر تم حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو میرے ساتھ مزید الجھنے کے بجائے تم اپنے طریقہ کے مطابق کام کرو اور میں اپنے طریقے پر گامزن رہوں گا لیکن یاد رکھو عنقریب تمہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ اس وقت تم کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنے ٹھکانے اور ہمارے مقام کو دیکھو گے۔ یاد رہے کہ دنیا میں تو بعض دفعہ ظالم کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن آخرت کے بارے میں دو ٹوک انداز میں واضح کیا گیا ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ بلکہ انہیں ان کے گناہوں اور جرائم کی ٹھیک ٹھیک سزا ملے گی۔ قرآن مجید میں یہ اصول کئی بار بیان ہوا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ اٹھائے گا اور نہ کسی کے عمل کے بدلے پکڑا جائے گا۔ ہر کسی نے اپنے اعمال اور عقیدہ کے مطابق جزا یا سزا پائے گا۔ (أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی۔ وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی۔ وَأَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی۔ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفٰی۔ وَأَنَّ إِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہَی)[ النجم : ٣٨ تا ٤٢] ” کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔ اور اس کی کوشش جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور بیشک سب کو آپ کے رب کے پاس ہی پہنچنا ہے۔ “ مسائل ١۔ ظالم عنقریب اپنے انجام کو دیکھ لیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن فلاح نہ پانے والے لوگ : ١۔ ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٣۔ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٦٩) ٥۔ جادوگر فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٧٧) ٦۔ اے کافرو تمہارے لیے تمہارا دین، ہمارے لیے ہمارا دین۔ (الکافرون : ١) ٧۔ اے ایمان والو ! اگر تم ہدایت پر رہو تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (المائدۃ : ١٠٥) ٨۔ پہلے لوگوں کے لیے ان کے عمل تمہارے لیے تمہارے عمل۔ (البقرۃ : ١٤١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٣٥۔ یہ نہایت ہی پختہ تہدید ہے ‘ حق پر مشتمل ہے اور اس کی پشت پر سچائی کی قوت ہے ۔ یہ تہدید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ہے کہ وہ ان کے معاملات سے ہاتھ نکال رہے ہیں ‘ انہیں یقین ہے کہ وہ سچائی پر ہیں ‘ انہیں یقین ہے کہ ان کا طریق کار اور نظام سچائی پر مشتمل ہے اور انہیں ... پختہ یقین ہے کہ ان کے مخالفین گمراہی پر ہیں اور ان کا انجام برا ہونے والا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ : (آیت) ” إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (135) ” کہ ظالم فلاح نہیں پاسکتے “۔ اس لئے کہ یہ غیر متبدل اصول ہے ‘ کہ مشرکین جو اللہ کے سوا کسی اور کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور انہیں اپنا دوست بتاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے کہ اللہ کے سوا کوئی اور کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا ‘ نہ اس کے سوا کوئی اور نصرت کرسکتا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی ہدایات سے منہ موڑتے ہیں ‘ وہ نہایت اعلی درجے کی گمراہی میں بہت دور تک چلے گئے ہیں اور وہ گھاٹے ہی گھاٹے میں ہیں ۔ اب اس سورة کے دوسرے حلقے میں کلام کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس سبق پر قدرے غور کیا جائے ۔ اس سبق سے پہلے ان ذبیحوں پر کلام تھا جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا تھا اور اس سبق کے بعد پھلوں ‘ مویشیوں اور اولاد کے بارے میں نذر ونیاز کی بحث ہے ۔ ان دوجزوی مسائل کے درمیان یہ سبق خالص نظریاتی اور عقائد کے مباحث پر مشتمل ہے اور ان میں ایمان وکفر کے مسائل اور مناظر بیان کئے گئے ۔ اس درمیانی سبق میں انسانوں اور جنوں انبیاء اور ان کے دشمنوں کے درمیان چلنے والی کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ تمام بڑے بڑے نظریاتی مسائل چھیڑے گئے ہیں جو اس سورة میں بالعموم بیان ہوئے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کریم زندگی کے ان جزوی مسائل کو کس طرح شریعت کے مطابق اسلام کی نظریاتی اساس پر منطبق کرتا ہے اور اس بات کو اہمیت دیتا ہے کہ ہر مسئلے کا نظریاتی پس منظر نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے ۔ وہ نظریاتی اساس یہ ہے کہ اس کائنات کا رب اور حاکم صرف اللہ ہے اور وہی ہے جو حلال و حرام کی حدود کا تعین کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے نظریہ اساسی کو کیوں بار بار دہراتا ہے اس لئے کہ قرآن کریم اصولا اس بات کو اسلام کا اساسی نظریہ قرار دیتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ اساسی کلمہ شہادت (لاالہ الا اللہ) پر قائم ہے ۔ اسی کلمہ کے ذریعے اسلام مسلمانوں کے دلوں سے تمام دوسری خدائیاں نکال کر ان کے دلوں میں صرف اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا عقیدہ جاگزیں کرتا ہے ۔ چناچہ اسلام تمام لوگوں سے حق حاکمیت چھین کر صرف اللہ کی حاکمیت قائم کرتا ہے ۔ قانون سازی ایک ایسا معاملہ ہے کہ کوئی چھوٹا قانون ہو یا بڑا دونوں میں اللہ کا حق حاکمیت استعمال ہوتا ہے ۔ یہی وہ حق ہے جسے ایک مسلمان صرف اللہ کے لئے مخصوص کردیتا ہے اور تمام دوسرے لوگوں کے لیے اس حق کی نفی کردیتا ہے ۔ اسلام میں دین کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں ‘ چاہے وہ عقائد ونظریات سے متعلق ہوں مثلا الوہیت وحاکمیت یا عملی معاملات ہوں سب میں صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کی جائے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ کو ہو۔ اس طرح قانون کا حق بھی صرف اللہ کے قانون کو حاصل ہو ۔ چناچہ ایک مسلمان کا دین یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام اطاعتوں اور قیادتوں کا انکار کرکے صرف اللہ کی اطاعت اور قیادت کو قبول کرلے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم ان اعتقادی امور کو بار بار دہراتا اور ان کو بہت ہی اہمیت دیتا ہے اور تمام امور کو ان نظریات پر مرتب کرتا ہے جس طرح اس مکمل سورة میں صاف نظر آتا ہے جیسا کہ آغاز سورة میں ہم نے کہا کہ یہ سورة پوری کی پوری مکی ہے اور مکی سورتوں میں امت مسلمہ کے سامنے قانون سازی کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا ۔ اس کے باوجود اس سورة میں نظریاتی اور اعتقادی طور پر اس بات کی صاف صاف نشاندہی کردی گئی ہے کہ قانون سازی کا حق صرف اللہ کو ہے اور یہ اسلام اور دین اسلام کا ایک عظیم اور اساسی نظریاتی اصول ہے جس پر یہ دین قائم ہے ۔ (١) (دیکھئے خصائص التصور الاسلامی کا فصل الوہیت اور عبودیت) درس نمبر ٧٠ ایک نمبر میں : یہ سبق جو قدرے طویل ہے اور اس سے پہلے کا سبق اور اس پر آنے والے تبصرے اسلام کے نظریہ حاکمیت سے متعلق ہیں ۔ یہ ایک ایسی سورة میں ہیں جو مکہ میں نازل ہوئی ‘ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ مکی سورتوں کا موضوع بالعموم نظریات اور عقائد سے متعلق ہوتا ہے ۔ مکی سورتوں میں قانون سازی کو نہیں چھیڑا گیا تھا ‘ قانون سازی کے بارے میں صرف وہ باتیں ان سورتوں میں ہوتی تھیں جن کا تعلق اصول قانون سے تھا ، مکہ مکرمہ میں کوئی اسلامی حکومت موجود نہ تھی جسے قانون سازی کی ضرورت پڑتی اور اللہ تعالیٰ شریعت کو محض داستان یا تاریخ کے طور پر ذکر کرنا نہ چاہتا تھا ۔ نہ اس وقت اسلامی شریعت بحث وتحقیق کا محض کوئی تدریسی موضوع تھا ۔ اسلام تو ایک ایسا معاشرہ چاہتا تھا جو عملا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوسکے ‘ جس کے اندر لوگ اپنے آپ کو ‘ اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور شریعت کی قیادت میں دینے کے لئے تیار ہوں ۔ لہذا اسلام میں قانون سازی اس وقت تک نہ ہو سکتی تھی جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوجائے اور وہ لوگوں کے درمیان اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرنا نہ شروع کردے ۔ صورت یہ نہ ہو کہ ادھر سے حکم آ رہا ہو اور ادھر انسانوں پر نافذ ہورہا ہو ‘ اس لئے کہ اسلام کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ ایک عملی نظام ہے اور اپنے قانون نظام کا نفاظ بھی سنجیدگی ‘ وقار اور متانت کے ساتھ کرتا ہے ۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سبق ایک مکی سورة میں ہونے کے باوجود قانون سازی کے مسئلے کے ساتھ متعلق ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام قانون سازی کو بہت ہی اہمیت دیتا ہے اور قانون سازی کو اس دین کے اساسی مسائل میں سے تصور کرتا ہے ۔ اس سے قبل کہ ہم اس سبق کی تفصیلا میں جائیں مناسب ہوگا کہ ظلال القرآن کی طرز پر ہم اس پورے سبق پر ایک اجمالی نگاہ دوڑائیں اور دیکھیں کہ اس سبق کی مراد کیا ہے اور اس میں کیا ہدایات دی گئی ہیں ؟ اس کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ پھلوں ‘ مویشیوں اور اولاد کے بارے میں کچھ تصورات اور ادہام رکھتے تھے ۔ ان کے کچھ مالی اور کچھ اجتماعی تصورات تھے جو دور جاہلیت میں عقیدے اور قانون کا درجہ رکھتے تھے ۔ یہ تصورات اور ادہام درج ذیل امور پر مشتمل تھے ۔ ١۔ اللہ نے انہیں فصلوں اور مویشیوں کی صورت میں جو رزق عطا کیا تھا وہ انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ ایک حصہ اللہ کے لئے تھا ‘ اور وہ یہ زعم رکھتے تھے کہ اللہ نے یہ حصہ اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے ۔ ایک دوسرا حصہ انہوں نے اپنے شرکاء کے ساتھ مخصوص کردیا تھا ۔ یہ شرکاء وہ الہ تھے جن کو وہ پکارتے تھے اور ان کو وہ اللہ کے ساتھ اپنے نفس کے معاملات ‘ اموال اور اولاد کے معاملات میں شریک کرتے تھے ۔ (آیت) ” وَجَعَلُواْ لِلّہِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالأَنْعَامِ نَصِیْباً فَقَالُواْ ہَـذَا لِلّہِ بِزَعْمِہِمْ وَہَـذَا لِشُرَکَآئِنَا (٦ : ١٣٦) ” انہوں نے اللہ کے لئے خود اس کی پیدا کی ہوئی کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے ‘ اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے بزعم خود ‘ اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے ۔ ٢۔ اس کے بعد وہ خود بزعم خود مقرر کردہ حصہ خدا پر دست درازی کرتے تھے اس حصے سے کچھ وہ لے لیتے تھے اور اسے اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیتے تھے لیکن وہ اپنے شرکاء کے حصے کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے تھے ۔ (آیت) ” فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمْ فَلاَ یَصِلُ إِلَی اللّہِ وَمَا کَانَ لِلّہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَآئِہِمْ (٦ : ١٣٦) ” پھر جو حصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے ۔ “ ٣۔ ان کے ان شرکاء نے ان کے لئے قتل اولاد کو خوشنما بنادیا تھا ۔ یہ کام ان کے معاشرے میں پائے جانے والے کاہنوں کا تھا جو ان کے قوانین بناتے تھے جو ان کے لئے از خود ایسی رسومات گھڑتے تھے کہ ان پر لوگ عمل کرنے پر مجبور ہوتے ۔ ان پر ایک طرف سے اجتماعی دباؤ ہوتا تھا اور دوسری جانب سے وہ دینی رسومات کے زاویہ سے از خود ایسا کرنا چاہتے تھے مثلا وہ فقر اور عار کی وجہ سے لڑکیوں کو قتل کرتے تھے اور بعض اوقات وہ بطور نذر بھی اولاد کو قتل کرتے تھے جس طرح عبدالمطلب نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کے دس بچے ہوئے اور جوان ہوئے تو وہ ایک کو الہوں کے نام پر قربان کرے گا ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ أَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُواْ عَلَیْْہِمْ دِیْنَہُمْ (٦ : ١٣٧) ” اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اولاد کے قتل کو خوشنما بنایا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ “ ٤۔ یہ لوگ بعض جانوروں اور بعض فصلوں پر پابندی عائد کردیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ ان کا کھانا محض اللہ کے اذن پر موقوف ہے اور یہ ان کا زعم تھا ۔ بعض سواری کے جانوروں کی پشت کا گوشت نہ کھاتے تھے ۔ بعض پر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا جائز نہ سمجھتے تھے یا حج کے موسم میں اگر ان پر سوار ہوتے تو اللہ کا نام نہ لیتے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ یہ حج کی سواریاں ہیں اور ان کے اندر اللہ کا ذکر موجود ہے ۔ وہ کہتے یہ تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ۔ (آیت) ” وَقَالُواْ ہَـذِہِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَّ یَطْعَمُہَا إِلاَّ مَن نّشَاء بِزَعْمِہِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُہُورُہَا وَأَنْعَامٌ لاَّ یَذْکُرُونَ اسْمَ اللّہِ عَلَیْْہَا افْتِرَاء عَلَیْْہِ “۔ (٦ : ١٣٨) ” کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ “ ٥۔ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں کا جو حمل ہے وہ صرف مردوں کے لئے ہے اور عورتوں پر وہ حرام ہے ۔ ہاں اگر وہ بچہ مردہ پیدا ہو تو مرد اور عورت دونوں مساویانہ طور پر حقدار ہوں گے اور اس مضحکہ خیز قانون کو بھی وہ منجانب اللہ سمجھتے تھے ۔ (آیت) ” وَقَالُواْ مَا فِیْ بُطُونِ ہَـذِہِ الأَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَی أَزْوَاجِنَا وَإِن یَکُن مَّیْْتَۃً فَہُمْ فِیْہِ شُرَکَاء سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْ إِنَّہُ حِکِیْمٌ عَلِیْمٌ(139) ” اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کیلئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ‘ لیکن اگر وہ مردہ ہوں تو دونوں اس کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ “ عربی سوسائٹی کے اسلام سے پہلے جو رنگ ڈھنگ تھے مذکور بالا تصورات ‘ مزعومات اور رسم و رواج سے ان کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے اور مکہ مکرمہ کے اندر اس سورة کی اصلاحات کے ذریعے قرآن کریم ان کا قلع قمع کرنے کے درپے ہے ۔ عربوں کے دل و دماغ کو ان غلط مزعومات سے پاک کر رہا ہے اور عرب کی جاہلی سوسائٹی سے ان کو محو کر رہا ہے ۔ قرآن کریم نہایت ہی دھیمی رفتار سے اپنے مخصوص منہاج اصلاح کے ذریعے غلط تصورات کے اس جنگل کو صاف کررہا ہے ۔ ٭ سب سے پہلے اس نے لوگوں کو یہ بتایا کہ جو لوگ اپنی اولاد کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کر رہے ہیں وہ بیوقوف ہیں ۔ وہ علم ومعرفت سے محروم ہیں اور اپنے آپ کو نعمت اولاد سے محروم کر رہے ہیں ۔ پھر یہ کام وہ یوں کرتے ہیں کہ اسے اللہ کی طرف منسوب کرکے اس کی ذات بےعیب پر افتراء باندھنے کے جرم کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔ قرآن نے اعلان کیا کہ یہ مطلق گمراہی ہے اور یہ مزعومات سب کے سب غلط ہیں ۔ ٭ اس کے بعد قرآن نے انہیں یہ سمجھایا کہ ان کے یہ تمام اموال جن میں وہ تصرف کرتے ہیں یہ دراصل اللہ کے پیدا کردہ ہیں ۔ اللہ ہی وہ ذات ہیں جس نے تمہارے لئے طرح طرح کے باغ ‘ تاکستان اور نخلستان پیدا کئے ۔ وہی ہے جس نے تمہارے تمام جانور پیدا کئے اور وہی ہے جو سب کو رزق دیتا ہے ۔ غرض وہی مالک ہے اور صرف وہی لوگوں کے لئے قانون بنانے کا حق رکھتا ہے ‘ ان تمام چیزوں میں جو اس نے اس دنیا میں بطور رزق پیدا کیں ۔ اس بیان کے دوران قرآن کریم ان مناظر کو کام میں لاتا ہے جو انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ پھلوں کے باغ اور لہلہاتے کھیت اور نخلستان اور تاکستان وغیرہ اور حیوانات جو بہترین اور خوبصورت سواری کا کام کرتے ہیں اور ان کی فر سے فرش کا کام لیا جاتا ہے ‘ ان کا گوشت کھایا جاتا ہے ‘ ان کی کھالوں سے متعدد مفادات لئے جاتے ہیں بلکہ اون اور بال بھی کام میں لائے جاتے ہیں ۔ اس مقام پر یہ تاثر بھی واضح طور پر دیا جاتا ہے کہ انسان اور شیطان کے درمیان روز اول سے دشمنی ہے لہذا انہیں ہر گز اپنے دشمنوں کے قدموں پر نہیں چلنا چاہیے اس لئے کہ ہو کھلا دشمن ہے ۔ ٭ اس کے بعد بعض حیوانات کے بارے میں ان کے بودے تصورات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ تصورات اور عقائد ادنی منطق سے بھی خالی ہیں ۔ ان تصورات کو ایسے انداز میں سامنے لایا گیا ہے کہ وہ بادی النظر میں حقیر بودے اور بےوقعت نظر آتے ہیں ۔ اس وضاحت کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان بےدلیل قوانین رواجات پر وہ کیوں عمل پیرا ہیں ؟ وہ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں ‘ حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ‘ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام کردی گئی ہے ۔ کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ تعالیٰ نے یہ قوانیں بنائے ؟ یا یہ کوئی راز کی بات تھی جو اللہ تعالیٰ نے صرف تمہیں بتائی تھی یا یہ حکم صرف تمہارے لئے تھا ۔ فرماتے ہیں یہ سب کچھ افتراء ہے اور لوگوں کو ناحق گمراہ کرنا ہے اور اس افتراء اور گمراہی کے نتیجے میں اللہ ان سے مواخذہ کرے گا ۔ ٭ اس مقام پر اللہ تعالیٰ واضح فرماتے ہیں کہ حرام کیا ہے اور حلال کیا ہے اور یہ کہ یہودیوں کے لئے کیا حرام کیا گیا تھا اور کیوں اور مسلمانوں کے لئے کیا حرام ہے اور وہ کیا چیزیں ہیں جو اگرچہ یہودیوں کے لئے قبلا حرام تھیں مگر اب حلال کردی گئی ہیں ۔ ٭ اس کے بعد ان کے اس استدلال کی تردید کی جاتی ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ اس جاہلیت میں مبتلا نہ ہوتے اور یوں اپنے لئے خود حلال و حرام کے اصول طے کر کے شرک کا ارتکاب نہ کرتے ۔ (آیت) ” لَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ٍ “۔ (٦ : ١٤٨) ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے آباء شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے ۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : کہ یہ بات اور یہ استدلال تمام کافر ہمیشہ سے پیش کرتے چلے آئے ہیں لیکن تاریخ میں جن اقوام نے یہ استدلال کیا ہے وہ ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکیں ۔ (آیت) ” کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم حَتَّی ذَاقُواْ بَأْسَنَا “۔ (٦ : ١٤٨) ” اسی طرح ان سے پہلے جو لوگ تھے انہیں نے تکذیب کی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کو چکھا ۔ “ ان آیات سے ثابت ہوا کہ شریعت کے بغیر از خود کسی چیز کو حرام سمجھنا شرک باللہ کے مترادف ہے ۔ جن لوگوں نے ہمیشہ آیات الہی کی تکذیب کی ہے وہ ایسا ہی کرتے آئے ہیں ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس قسم کے فیصلے اور استدلال کس منطق کی رو سے کرتے ہیں ۔ (آیت) ” قُلْ ہَلْ عِندَکُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ (148) ” ان سے کہو ’ ’ کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ ٭ اس کے بعد ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے موقف پر کوئی علمی ثبوت پیش کریں لیکن اگر وہ کوئی جھوٹے دلائل دیں تو ان کو یکسر رد کردیں ۔ اس سورة کے آغاز میں بھی اصل عقائد کے مضمون میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ رابطہ ہی ختم کردیا جائے ۔ دونوں مواقع پر مضمون کے الفاظ میں بہت کم تغیر پایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک باللہ (ذات میں) اور شرک باللہ (حاکمیت میں) ایک ہی درجہ رکھتا ہے ۔ جو شخص اللہ کے سوا قانون سازی کرتا ہے یا کسی کو قانون ساز تسلیم کرتا ہے وہ بھی شرک کرتا ہے ۔ (آیت) ” قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَاء کُمُ الَّذِیْنَ یَشْہَدُونَ أَنَّ اللّہَ حَرَّمَ ہَـذَا فَإِن شَہِدُواْ فَلاَ تَشْہَدْ مَعَہُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ وَہُم بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُونَ (150) ” ان سے کہو ” کہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ۔ “ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا اور ہر گز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ “ ان آیات اور سابقہ آیات کے مناظر ‘ عبارات اور الفاظ تک ایک ہیں ۔ جو لوگ قانون سازی از خود کرتے ہیں وہ ہوائے نفس کے متبع ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو آخرت پر ایمان ویقین نہیں رکھتے ۔ اگر وہ اللہ کی آیات کو سچا مانتے اور آخرت پر ایمان لاتے اور اللہ کی ہدایت کو تسلیم کرتے تو وہ اپنے لئے اور لوگوں کے لئے خود قانون نہ بناتے اور اللہ کے احکام کے سوا کسی کو حرام قرار نہ دیتے ۔ ٭ اور آخر میں اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو اس نے فی الحقیقت حرام کردی ہیں ۔ اس میں اجتماعی زندگی کے تمام اصول بتلا دیئے گئے ہیں یعنی اللہ کی توحید ‘ اللہ کے احکام اور حدود فرائض لیکن زیادہ تر وہ چیزیں گنوائی گئی ہیں جو حرام ہیں ۔۔۔۔۔۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے شرک کی ممانعت کی ‘ والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور فقر وفاقہ کے ڈر سے اولاد کے قتل کی ممانعت اور یہ کہ اللہ رازق ہے اور یہ کہ ممانعت اور یتیم کے مال کو کھانے کی ممانعت الا یہ کہ جائز طور پر اسے استعمال کیا جائے اور ناپ اور تول کے پیانوں کو درست رکھنے کا حکم ۔ بات اور معاملات میں عدل سے کام لیا جائے اگرچہ معاملہ رشتہ داروں کا ہو اور اللہ کے عہد سے وفا کی جائے اور ان سب امور کو منجانب اللہ وصیت قرار دیا گیا اور ان امور کے بارے وصیت کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ یہ تمام امور اسلامی نظریہ حیات کے اساسی اصول اور شریعت کے مبادی ہیں ۔ ان کو ایک ہی سلسلہ کلام میں جمع کیا گیا ہے اور بالکل ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر اور منظم کرکے بیان کیا گیا ہے ۔ یہ سب احکام ایک ہی جملے ‘ ایک ہی گروپ اور ایک ہی اجتماعی شکل میں لائے گئے ہیں ۔ اس سے قرآن کریم کی اجتماعی سوچ اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے اور اسلام کا منہاج بھی واضح ہوتا ہے چناچہ اس سبق کے آخر میں کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (153) ” اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے لہذا تم اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس راستے سے ہٹا کر تمہیں پر اگندہ کردیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں دی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو ۔ یہ آخری جملہ اس لئے کہا گیا تاکہ اس پورے سبق سے جو مقصود اصلی ہے وہ بالکل سامنے آجائے اور بات کھل کر ایک ہی فقرے میں سمیٹ لی جائے اور اس طرح دو ٹوک بن جائے ۔ دین اسلام میں عقائد اور قانون دونوں کا تعلق توحید اور شرک سے ہے ۔ بلکہ اسلامی قانون سازی میں بھی شرک کا ارتکاب ہو سکتا ہے جس طرح عقیدے میں شرک ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام میں قانون سازی عین عقیدہ ہے اس لئے کہ قانون اسلامی دراصل عقیدہ توحید کی تفصیل وتشریح ہوتا ہے ۔ یہ حقیقت قرآن کریم کے متعدد نصوص سے بالکل واضح ہے ۔ اور اسلام کے اسلوب بیان کے مطابق اسے جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ وہ حقیقی مقام ہے جس سے دین کا مفہوم طویل تاریخی عوامل کی وجہ سے دور ہوگیا اور یہ عمل طویل زمانے میں مکمل ہوا ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے خبیث اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ۔ آج حال یہ ہے کہ دین کے دشمن تو ہیں ہی دشمن ‘ خود دین کے لئے کام کرنے والوں اور اس کے پرجوش کارکنوں کے ذہنوں سے یہ حقیقت اوجھل ہوگئی ۔ خود حامیان دین بھی عقیدہ حاکمیت الہیہ کو اسلامی عقائد سے علیحدہ سمجھتے ہیں اور حامیان دین بھی مسئلہ حاکمیت الہیہ میں اس طرح پرجوش نہیں رہے جس طرح وہ معروف دینی عقائد کے لئے پرجوش ہیں ۔ وہ لوگ عقیدے حاکمیت الہیہ کے انکار کو دین کا انکار نہیں سجھتے جس طرح وہ عقیدہ توحید کے انکار اور اللہ کی عبادات کے انکار کو دین کا انکار سمجھتے ہیں حالانکہ دین اسلام نے کسی جگہ بھی عقیدے بندگی اور شریعت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے تصور کو طویل تاریخی اور تدریجی سازشوں کے تحت نکالا گیا ہے اور نہایت ہی ہوشیاری اور تجربہ کاری کے ساتھ یہ کام کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ حاکمیت الہیہ کے عقیدے نے موجودہ شکل اختیار کرلی ۔ اسلام کے برجوش حامی بھی اس کے حامی نہ رہے ‘ حالانکہ یہ حقیقت اس سورة میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے ‘ باوجود اس کے کہ یہ سورة مکی سورة ہے اور اس کا موضوع دستور و قانون نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع عقیدہ توحید اور اسلامی نظریہ حیات ہے لیکن اس کے باوجود اس نکتے کے تمام پہلو لئے گئے ہیں اور تمام تفصیلات دی گئی ہیں اور یہ بھی اس حوالے سے کہ بات اجتماعی زندگی کے اس جزوی مسئلے پر ہو رہی تھی لیکن اس جزوی مسئلے کا تعلق چونکہ ایک اصول سے تھا ‘ نظریاتی اور دستوری مسئلے سے تھا ۔ یہ اصول بھی ایسا تھا جو اساس دین ہے اس لئے یہاں اس پر زور دیا گیا ۔ لوگ بتوں کی پوجا کرنے والے پر تو شرک کا فتوی لگاتے ہیں لیکن ان لوگوں پر شرک کا فتوی نہیں لگاتے جو اپنے فیصلے طاغوتی عدالتوں سے کراتے ہیں ۔ وہ بت پرستی سے تو اجتناب کرتے ہیں لیکن طاغوتی حکام کی اطاعت سے اجتناب نہیں کرتے ۔ یہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن اس دین کے مزاج کو نہیں سمجھتے ۔ انہیں چاہیے کہ قرآن کو اس طرح پڑھیں جس طرح وہ نازل ہوا ہے ۔ انہیں اس آیت پر غور کرنا چاہیے ۔ (آیت) ” وان اطعتموھم انکم مشرکون “۔ اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک بن جاؤ گے ۔ “ اسلام کے یہ پرجوش حامی اپنے آپ کو اور دوسرے لوگوں کو صرف بعض جزوی امور کو زیر بحث لا کر مطمئن کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ فلاں فلاں قانون ‘ اسلام کے خلاف ہے یا فلاں فلاں قانون کا فلاں جزء اسلام کے خلاف ہے ۔ ان کا جوش بعض جزوی اصطلاحات تک موقوف ہے یا وہ بعض بدعملیوں کی اصلاح تک اپنے آپ محدود رکھتے ہیں اور ان کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ گو اسلام تو پورے کا پورا قائم ہے لیکن بعض جزوی امور میں نقص رہ گیا ہے بس صرف ان امور کی اصلاح ہی سے اس کی تکمیل ہوجائے گی ۔ دین اسلام کے بارے میں غیرت رکھنے والے اور اس کے پرجوش حامی درحقیقت اس دین کے لئے باعث اذیت ہیں لیکن سمجھتے نہیں بلکہ اس قسم کی جزوی اور غیر اہم باتوں کو اہمیت دے کر یہ لوگ دین کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں ۔ امت مسلمہ کے اندر اس وقت جو نظریاتی قوت اور جوش پایا جاتا ہے یہ لوگ اسے اس قسم کی غیر اہم باتوں پر صرف کرتے ہیں اور ضمنا وہ موجودہ دور کے جاہلی اجتماعی نظام اور جاہلی سوسائٹی کی تائید کرتے ہیں ۔ وہ عملا یہ شہادت دیتے ہیں کہ دین قائم ہے اور اگر کوئی کمی ہے تو وہ صرف یہ جزوی نقائص ہیں جنہیں وہ ختم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ دین مکمل طور پر معطل ہے اور اس وقت موجودہ سوسائٹی پوری طرح جاہلی سوسائٹی ہے ۔ اس میں اللہ کی حاکمیت جاری نہیں ہے ‘ ایسی حاکمیت جس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو ۔ دین اسلام تب قائم ہوگا جب زمین پر اللہ کی حاکمیت جاری ہوگی ۔ جب تک اللہ کی حاکمیت قائم نہ ہوگی دین پوری طرح قائم نہیں ہوسکتا ۔ آج اس کرہ ارض پر مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہاں ایسے طاغوتی نظام قائم ہیں جنہوں نے دست درازی کرکے اللہ کی حاکمیت کو چھین لیا ہے ۔ یہ اختیار خود انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کے لئے حلال و حرام متعین کرنا شروع کردیا ہے اور وہ لوگوں کے مال اور اولاد کے بارے میں قوانین بناتے ہیں۔ زیر بحث آیات اور بیانات میں اسی مشکل مسئلے کو نہایت ہی موثر انداز میں نہایت ہی تفصیل کے ساتھ لیا گیا ہے ۔ تمام باتوں کو اللہ کی حاکمیت اور بندگی کے نظریات کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے اور انہیں مسئلہ کفر واسلام اور مسئلہ اسلام وجاہلیت قرار دیا گیا ہے ۔ اسلام نے جس عظیم معرکے کے بعد اس دنیا مین اپنا وجود قائم کیا تھا وہ محض الحاد کے خلاف معرکہ نہ تھا ‘ کہ ایک شخص خدا کو مان لے اور چند دینی رسومات کا پابند ہو کر حامی دین بن جائے یہ معرکہ اجتماعی فساد اور اخلاقی فساد کے خلاف محض کوئی اصلاحی تحریک بھی نہ تھا یہ باتیں بھی اگرچہ اس معرکہ میں شامل تھیں لیکن یہ تحریکات دین کے قیام کے بعد بھی جاری رہیں ۔ اسلام نے اپنے وجود کے لئے جو معرکہ سر کیا وہ اس کرہ ارض پر حاکمیت الہیہ کے قیام کا معرکہ تھا مکہ میں لوگ سمجھتے تھے کہ لا الہ الا اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے ۔ اس وقت مکہ میں قرآن نے اس نظریہ کو مسلمانوں کے ذہن میں اچھی طرح بٹھا دیا تھا ۔ قرآن نے مسلمانوں کے ضمیر کے اندر اور ان کے دل و دماغ کے اندر یہ نظریہ اچھی طرح مرتسم کردیا تھا کہ حاکم صرف اللہ ہے اگرچہ مکہ میں نظام حاکمیت الہیہ اور نظام قانون اسلامی کا کوئی موقعہ نہ تھا ۔ کسی مسلمان کے ذہن میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور حاکم ہو سکتا ہے اور اگر کوئی یہ تصور کرتا تھا تو وہ مومن نہ ہوسکتا تھا ۔ جب یہ نظریہ مکہ میں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اچھی طرح بیٹھ گیا تو مدینہ میں اس نظریہ کی بنیاد پر حاکمیت الہیہ قائم ہوئی ۔ اگر ہمارے دور کے دین کے پرجوش حامیوں کے ذہن میں یہ بات سماجائے تو انہیں اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور انہیں کرنا کیا چاہیے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں اس سبق پر یہ تبصرہ کافی ہے ۔ اب آیات کی تشریح ملاحظہ فرمائیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اپنی اپنی جگہ عمل کرتے رہو انجام کا پتہ چل جائے گا : پھر فرمایا (قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ) (آپ فرما دیجیے کہ اے میری قوم ! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو میں بھی اپنے طور پر عمل کرتا ہوں) میں تمہیں بتارہا ہوں کہ کفر و شرک کا انجام برا ہے اس وقت تم نہیں مانتے۔ (فَسَوْف... َ تَعْلَمُوْنَ مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ) (سو عنقریب تم جان لوگے کہ اس عالم میں انجام کار کس کے لیے نفع مند ہوا) جب آنکھیں مچیں گی اس وقت آنکھیں کھلیں گی کہ نفع والا ہم اپنے کو سمجھ رہے تھے لیکن اب پتہ چلا کہ نفع والے ایمان اور اعمال صالحہ والے تھے لیکن وہاں سمجھ میں آنا بےفائدہ ہوگا اسی دنیا میں سمجھ لیں اور ایمان لے آئیں تو نفع والے ہوجائیں اور آخرت کے خسارہ سے بچ جائیں گے۔ ظالم کامیاب نہیں ہوتے : (اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) (بلاشبہ بات یہ ہے کہ ظلم کرنے والے کامیاب نہیں ہوتے) اس میں قاعدہ کلیہ کے طور پر بتادیا کہ ظالمین یعنی کافر و مشرک کامیاب نہ ہوں گے۔ کفرو شرک والے سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے فائدہ میں ہیں لیکن وہ حقیقت میں نقصان میں جا رہے اور خسارہ میں پڑ رہے ہیں قیامت کے دن جب تباہ حال ہوں گے اس وقت حال کا پتہ چلے گا۔ کیا جنات میں سے رسول آئے ہیں ؟ فائدہ : آیت شریفہ میں یہ جو فرمایا (اَلمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ) اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنات میں بھی رسول انہی میں سے آتے رہے کیونکہ یہ خطاب انسانوں اور جنوں دونوں جماعتوں کو فرمایا ہے۔ حضرات مفسرین نے اس بارے میں علماء سلف کے مختلف اقوال نقل کیے۔ مفسر ابن کثیر نے ج ٢ ص ١٧٧ بحوالہ ابن جریر، ضحاک بن مزاحم سے نقل کیا ہے کہ جنات میں بھی رسول گزرے ہیں اور لکھا ہے کہ ان کا استدلال اسی آیت کریمہ سے ہے پھر لکھا ہے کہ آیت اس معنی میں صریح نہیں ہے ہاں محتمل ہے۔ کیونکہ مِنْکُمْ کا معنی من جملتکم بھی ہوسکتا ہے۔ جس کا معنی ہوگا کہ مجموعہ انس وجن سے رسول بھیجے گئے جیسا کہ سورة رحمن میں فرمایا ہے۔ (یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ ) اس میں مِنْھُمَا کی ضمیر بحرین کی طرف راجع ہے۔ حالانکہ لؤ لؤ اور مرجان صرف شور سمندر سے نکلتے ہیں۔ اس اعتبار سے مِنْھُمَا بمعنی مِنْ جملتھما ہوا اور (رُسُلٌ مِّنْکُمْ ) سے بھی یہ معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ جنات میں رسول نہیں آئے اور اس قول کو مجاہد اور ابن جریج وغیر واحد من السلف و الخلف کی طرف منسوب کیا ہے اور روح المعانی میں بعض حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ (رُسُلٌ مِّنْکُمْ ) میں جو لفظ رُسُل آیا ہے یہ لفظ عام ہے یعنی حقیقی رسولوں کو اور رسولوں کے رسولوں کو شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو حضرات اللہ کے رسول تھے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ اپنے طور پر دین حق کے پہنچانے کے لیے جن افراد کو امتوں کے پاس بھیجا کرتے تھے ان کو بھی رسول فرمایا یعنی جنات کی طرف جنات میں سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) جو مبلغ بھیجا کرتے تھے ان پر یہ لفظ رسولوں کافرستادہ ہونے کے اعتبار سے صادق آتا ہے، رسول تو بنی آدم ہی سے تھے لیکن رسولوں کے ارسال فرمودہ نمائندے جنات میں سے بھی تھے۔ یہ تو معلوم ہے کہ بنی آدم سے پہلے اس دنیا میں جنات رہتے اور بستے تھے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ قوم بھی احکام خداوندی کی مکلف ہے۔ جب یہ قوم مکلف ہے تو تبلیغ احکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس رسول نہ بھیجے ہوں سمجھ میں نہیں آتا۔ بلکہ (اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ) کا عموم اس بات کو بتاتا ہے کہ بنی آدم سے پہلے جنات میں انہیں میں سے رسول آتے ہوں گے۔ بنی آدم کے زمین پر آباد ہوجانے کے بعد جنات کو انہیں انبیاء ورسل کے تابع فرما دیا ہو جو بنی آدم میں سے آتے رہے تو یہ ممکن تو ہے لیکن قطعی ثبوت کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ بہر حال جو بھی صورت ہو اس بات کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت خاتم النّبیین سروردو عالم رسول الثقلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور رہتی دنیا تک جس طرح انسانوں کی طرف مبعوث ہیں جنات کی طرف بھی مبعوث ہیں۔ سورۂ احقاف کے آخری رکوع میں حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جنات کی حاضری کا تذکرہ پھر ان کا اپنی قوم کی طرف جانا اور ان کو اسلام کی دعوت دینا (اَجِیْیُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوْا بِہٖ ) مذکور ہے۔ اور سورة الرحمن میں جنات سے بار بار خطاب ہونا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنات کو سورة الرحمن سنانا اور ان کی دعوت پر ان کی جائے سکونت پر تشریف لے جا کر تعلیم دینا اور تبلیغ فرمانا (جس کا احادیث شریف میں ذکر ہے) اس سے یہ بات خوب ظاہر اور بہت ہی واضح ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات کی طرف بھی مبعوث ہیں جن حضرات نے یہ فرمایا کہ بنی آدم کے دنیا میں آباد ہوجانے کے بعد جنات کی ہدایت کے لیے بھی وہی رسول مبعوث تھے جو بنی آدم کی طرف بھیجے گئے ان کے اس قول کی اس سے تائید ہوتی ہے کہ جب جنات کی جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری دے کر واپس ہوئی تو انہوں نے اپنی قوم سے جو باتیں کیں ان میں یہ بھی تھا۔ (یٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدیْہِ یَھْدِیْٓ اِلَی الْحَقَّ وَ اِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیمٍ ) ان کا اپنی قوم سے یہ کہنا کہ ہم نے ایسی کتاب سنی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی جو اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس کے سامنے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنات توریت شریف پر عمل کرتے تھے۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں خود ان میں سے کوئی رسول ہوتا تو وہ اسی کا اتباع کرتے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

148:۔ یہاں اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْن تک تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

135 اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اے میری قوم ! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو اور اپنی جگہ اپنا کام کئے جائو میں بھی اپنا کام کر رہا ہوں عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا اور تم جان لو گے کہ اس عالم کا انجام کس کے حق میں بہتر اور مفید و نافع ہوتا ہے ہاں یہ امر واقعی اور ایک سچی حقیقت ہے کہ ظالم اور بے... انصاف لوگوں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوتی۔ یعنی ان کے کاموں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔  Show more