Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 137

سورة الأنعام

وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ قَتۡلَ اَوۡلَادِہِمۡ شُرَکَآؤُہُمۡ لِیُرۡدُوۡہُمۡ وَ لِیَلۡبِسُوۡا عَلَیۡہِمۡ دِیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۳۷﴾

And likewise, to many of the polytheists their partners have made [to seem] pleasing the killing of their children in order to bring about their destruction and to cover them with confusion in their religion. And if Allah had willed, they would not have done so. So leave them and that which they invent.

اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے تو آپ ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Shaytan Lured the Idolators to Kill Their Children Allah says, وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلاَدِهِمْ شُرَكَأوُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُواْ عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ... And so to many of the idolators, their "partners" have made fair seeming the killing of their children, in order to lead them to their own destruction and cause confusion in their religion. Allah says, just as the Shayatin lured the idolators to assign a share for Allah from what He created of agriculture and cattle - and a share for the idols, they also made it seem fair for them to kill their children, for fear of poverty, and burying their daughters alive, for fear of dishonor. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that he commented; وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلاَدِهِمْ شُرَكَأوُهُمْ (And so to many of the idolators, their "partners" have made fair seeming the killing of their children...). "They make killing their children attractive to them." Mujahid said, "Idolators' partners among the devils ordered them to bury their children for fear of poverty." As-Suddi said, "The devils commanded them to kill their daughters so that they, لِيُرْدُوهُمْ (lead them to their own destruction), and to, وَلِيَلْبِسُواْ عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ (cause confusion in their religion)." Allah said, ... وَلَوْ شَاء اللّهُ مَا فَعَلُوهُ ... And if Allah had willed, they would not have done so. meaning, all this occurred by Allah's leave, will and decree, but He dislikes these practices, and He has the perfect wisdom in every decree. He is never questioned about what He does, but they all will be questioned. ... فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ So leave them alone with their fabrications. meaning, avoid and abandon them and what they do, for Allah will judge between you and them.

شیطان کے چیلے جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بےوجہ قتل کر دیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ، قرآن نے فرمایا کہ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئیں پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔ لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

137۔ 1 یہ اشارہ ہے ان کی بچیوں کے زندہ درگور کردینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔ 137۔ 2 یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔ 137۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقینا یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے ہی لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٥] قتل اولاد کی تین وجوہ :۔ دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ سے قتل کیا جاتا تھا۔ (١) بیٹیوں کو اس عار کی وجہ سے زندہ درگور کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ان کا داماد بنے گا جس کے آگے ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی اور اس لیے بھی کہ اگر وہ کسی دوسرے قبیلے میں چلی گئی یا بیاہی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ ان میں رائج قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔ (٢) اللہ پر عدم توکل۔ بعض لوگ اپنی اولاد کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اس لیے مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ برداشت نہ کرسکیں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور اس جرم میں آج کی دنیا کا تقریباً پورا معاشرہ شریک ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر برتھ کنٹرول، اسقاط حمل اور عورتوں اور مردوں کو بانجھ بنانے کے طریقے دریافت کر کے اس جرم کا علانیہ ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ کام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں اور اس فعل کو بہت مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ (٣) بتوں کے نام پر منت۔ یعنی اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہوں تو میں ایک بیٹا فلاں بت کے حضور قربان کروں گا جیسا کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے بھی یہ منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بارہ بیٹے پیدا ہوئے تو ایک بیٹے کی قربانی دوں گا۔ پھر اس منت کا قرعہ آپ کے باپ عبداللہ کے نام نکلتا تھا جو بالآخر سو اونٹوں کی دیت کے مقابل ٹھہرایا مثلاً یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک بیٹا یا بیٹی فلاں بت کے حضور قربانی دوں گا۔ خ مبتدعین بھی دراصل اللہ کے شریک ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں شریکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی مندرجہ بالا صورتوں کو ایجاد کیا تھا اور جنہیں معاشرہ نے قبول کرلیا تھا۔ چونکہ شرعی نقطہ نظر سے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار اللہ کو ہے لہذا ان رسوم کے موجد اللہ کے شریک ٹھہرے۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ تھا کہ وہ ایسے کاموں کو جرم سمجھنے کی بجائے انہیں اچھے اور اپنی فلاح و بہبود کے کام سمجھتے تھے۔ [١٤٦] ہلاکت سے مراد دونوں طرح کی ہلاکت ہے اخلاقی بھی اور تمدنی بھی۔ اخلاقی اس لحاظ سے کہ قتل بذات خود ایسا شدید ترین جرم ہے جو انسان میں شقاوت اور سنگدلی پیدا کرتا ہے جس سے وہ مزید قتل پر دلیر ہوجاتا ہے اور قتل اولاد تو عام قتل سے بھی بڑا جرم ہوا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ قبائلی عرب میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اگر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو فوراً قتل و غارت شروع ہوجاتی۔ اس معاشرہ میں انتہا درجہ کی خون کی ارزانی واقع ہوچکی تھی اور اخلاقی انحطاط اس درجہ پیدا ہوگیا تھا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی تھی نہ مال اور نہ آبرو۔ اور تمدنی ہلاکت اس لحاظ سے کہ جو قوم اس طرح اپنی اولاد کو ختم کرنا شروع کر دے وہ اس دنیا میں کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ پھر ایسے کاموں کے نتیجہ میں آخرت میں ان کی ہلاکت ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ [١٤٧] مشرکین مکہ کی بعض اچھی صفات :۔ مشرکین مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم کا پیروکار قرار دیتے تھے۔ پھر ان میں کچھ اچھی باتیں بھی موجود تھیں جن سے اس بات کا شبہ ہوتا تھا۔ مثلاً عبادات میں بیت اللہ کا طواف، صفا ومروہ کی سعی اور حج وعمرہ کی عبادات بجا لانا اگرچہ ان میں بھی کئی غلط رسوم اور عقائد شامل ہوچکے تھے اور اخلاقیات اور معاملات میں مہمان نوازی، عہد کی پابندی اور صدق مقال جھوٹ سے اجتناب، کسی کو امان دینا تو پھر اسے پوری ذمہ داری سے نبھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دور نبوی تک ان کا مذہب شرک و بدعات کے ملغوبہ میں دب کر رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحف ابراہیم محفوظ نہیں رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کا کوئی معیار نہ تھا کہ فلاں کام یا فلاں رسم کب شروع ہوئی اور اس کا کوئی شرعی جواز ہے یا نہیں۔ دوسری وجہ امتداد زمانہ ہے یعنی سیدنا ابراہیم سے لے کر آپ کی بعثت تک تین ہزار سال کی مدت۔ اس دوران بیشمار شرک و بدعات کے موجد پیدا ہوتے رہے اور اپنی اختراعات اس دین میں شامل کرتے رہے اور کوئی حقیقی معیار موجود نہ ہونے کی وجہ سے قوم انہیں دین کا جزو سمجھتی اور اس پر عمل پیرا ہوتی رہی۔ خ مشرکین مکہ میں آخرت کے انکار کا عقیدہ کب رائج ہوا ؟ ان امور کی تو کسی نہ کسی حد تک سمجھ آتی ہے مگر جس بات کا سراغ لگانا مشکل ہے وہ یہ بات ہے کہ مشرکین مکہ میں سے اکثر اللہ کے خالق ومالک ہونے کے تو قائل تھے مگر حشر و نشر، قیامت اور اخروی جزا و سزا کے منکر تھے۔ کسی نبی کے پیروکاروں میں ایمان کے ایسے لازمی جز کا مفقود ہوجانا بڑی حیرانگی کی بات ہے۔ ان مشرکین میں آخرت کے انکار کے عقیدہ کا موجد کون تھا اور یہ عقیدہ کس زمانہ میں ایجاد ہوا تھا، اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۔۔ : یہ ان کی دوسری جہالت اور گمراہی تھی، اس کا عطف ” َجَعَلُوْا “ پر ہے، یعنی جیسے کھیتی اور جانوروں میں سے انھوں نے اپنے شرکاء کا حصہ مقرر کیا، اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے شرکاء نے اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی خوش نما بنادیا اور عام طور پر ان کے سامنے تین چیزیں جواز کے بہانے کے طور پر رکھ دیں، ایک یہ کہ انھیں کہاں سے کھلاؤ گے، یعنی : ( ْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ ) [ بنی إسرائیل : ٣١ ] ” مفلسی کے ڈر سے۔ “ جیسا کہ آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی منصوبہ بندی کے نام پر یہ کام کر رہے ہیں، کفار کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ دوسرا لڑکی کا باعث عار ہونا، جیسا کہ فرمایا : (يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ) [ النحل : ٥٩ ] ” وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ “ اور تیسرا اپنے شریکوں کو خوش کرنے کے لیے اولاد کو ان کے نام پر ذبح کردینا جسے ہندو بھینٹ چڑھانا کہتے ہیں اور ان پروہتوں اور بت خانوں کے پجاریوں کو شریک اس لیے کہا کہ وہ انھیں اپنے نفع و نقصان میں دخیل سمجھتے تھے اور انھی کی ترغیب پر بچوں کو بھینٹ چڑھاتے تھے، جیسا کہ آج کل کئی قبروں کے پجاری یہ کام کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں کسی اور کا حکم ماننا بھی اسے شریک بنانا ہے اور سب سے بڑا شریک تو شیطان ہے جس کے خوش نما بنانے پر وہ اللہ کے ساتھ شرک اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ لِيُرْدُوْهُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْهِمْ دِيْنَهُمْ ۭ ” لِيُرْدُوْهُمْ “ باب افعال سے ” اَرْدٰی یُرْدِیْ “ کا معنی ہے۔ ہلاک کرنا۔ ” لِيَلْبِسُوْا “ اگر ” لَبَسَ یَلْبِسُ (ض) “ ہو تو خلط ملط کرنا اور ” لَبِسَ یَلْبَسُ “ (س) ہو تو پہننا۔ اہل عرب اصل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے، لیکن شیطان نے آہستہ آہستہ بت پرستی، قتل اولاد اور بہت سی غلط باتیں ان کے دین میں داخل کردی تھیں۔ فرمایا کہ ان کے شرکاء نے یہ سب کچھ انھیں برباد کرنے اور ان کے دین کو خلط ملط کرنے کے لیے کیا۔ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ ۔۔ : مگر یہ جبر ہوتا اور اس اختیار کے خلاف ہوتا جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دے کر امتحان لے رہا تھا، اس لیے آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ان کی ان تمام حرکتوں کو افترا ( جھوٹ باندھنا ) قرار دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Linkage of Verses Described in the previous verses were false beliefs of the mushriks of Arabia while the present verses recount their practical errors and ignorant customs. The customs of Jahiliyyah mentioned in these vers¬es are: (1) They took out a portion in the name of Allah from grains and fruits, and some in the name of idols and Jinns. Then, if by chance, some part of what belonged to the portion of Allah got mixed up with the portion reserved for idols, they would let it stay mixed as it was. When the position was the reverse of it, they would take it out and make the portion set for idols even. The excuse was that Allah is need-free. A cut in His share does not harm Him while the partners need it - so, their share should not be decreased. This evil custom was mentioned earlier in verse 136. (2) The second custom was that they would release animals they called Bahirah and Sa&ibah in the name of idols and said that they were doing it for the pleasure of Allah. Here too, the portion allotted to idols was that the act of worship was intended for them - and the por¬tion allotted to Allah was that they aimed to please Allah. (3) The third custom was that of killing their female children. (4) The fourth custom was that they would endow some tillage in the name of idols saying that only men could use its produce. Giving or not giving a share from it to women depended on their will. Women had no right to demand. (5) They would do the same thing with cattle when they would restrict their use for men only. (6) They considered the quadruped animals they released in the name of idols as unlawful for purposes of riding or carrying loads. (7) There were quadruped animals they would specify. Using them at any time, they would not pronounce the name of Allah, neither when milking, nor when riding and nor when slaughtering. (8) The eighth custom was that they would release animals in the name of idols, naming them as Bahirah or Sa&ibah. When, at the time of slaughter, the calf came out alive, they would slaughter it as well - but, would take it as lawful for men only; for women, they took it to be unlawful - and if the calf was born still, it was supposed to be lawful for everyone. (9) Even milk from some animals was considered lawful for men and unlawful for women. (10) They took reverence for four kinds of animals: Bahirah, Sa&ibah, Wasilah and Hami, as an act of worship. [ All these narrations appear in Ad-Durr Al-Manthur and Ruh al-Mani from Sayyidna Ibn ` Abbas, Mujahid, Ibn Zayd and As-Suddiy with exegetic deductions of Ibn al-Mundhir, Ibn Abi Hatim, Ibn Abi Ash-Shaybah and Ibn Humayd) [ As in Bayn al-Qur&an of Maulana Thanavi ]

ربط آیات پچھلی آیتوں میں مشرکین کے عقائد باطلہ شرکیہ کفریہ کا بیان تھا، ان آیات میں ان کی عملی غلطیوں اور جاہلانہ رسموں کا ذکر ہے، جن رسوم جاہلیت کا ذکر ان آیات میں آیا ہے وہ یہ ہیں، اول غلہ اور پھل میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام کا نکالتے ہیں اور کچھ بتوں اور جنّات کے نام کا، پھر اگر اتفاق سے اللہ کے حصہ میں سے کچھ بتوں کے حصہ میں مل جاتا تو اس کو اسی طرح ملا رہنے دیتے تھے، اور معاملہ برعکس ہوتا تو اس کو نکال کر پھر بتوں کے حصہ کو پورا کردیتے تھے اور بہانہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کا حصہ کم ہوجانے سے اس کا کوئی ضرر نہیں، اور شرکاء محتاج ہیں، ان کا حصہ نہ گھٹنا چاہئے، اس رسم بد کا بیان آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں آچکا۔ دوسری رسم یہ تھی کہ بحیرہ، سائبہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑتے اور یہ کہتے تھے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہے، اس میں بھی بتوں کا حصہ یہ تھا کہ عبادت ان کی تھی، اور اللہ کا حصہ یہ ہوا کہ اس کو خوشنودی اللہ کی سمجھتے تھے۔ تیسری رسم، اپنی دختری اولاد کو قتل کر ڈالنے کی تھی، چوتھی رسم، کچھ کھیت بتوں کے نام وقف کردیتے اور کہتے کہ اس کا اصل مصرف فقط مرد ہیں، عورتوں کو اس میں سے کچھ دینا نہ دینا ہماری مرضی پر ہے، ان کو مطالبہ کا حق نہیں۔ پانچویں رسم، اسی طرح کا عمل مواشی جانوروں میں کرتے تھے کہ بعض کو مردوں کے لئے مخصوص قرار دیتے تھے۔ چھٹی رسم، جن چوپایہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تو ان پر سواری اور باربرداری کو حرام سمجھتے تھے۔ ساتویں رسم، بعض چوپایہ جانور مخصوص تھے جن پر کسی موقع میں بھی اللہ کا نام نہ لیتے تھے نہ دودھ نکالنے کے وقت، نہ سوار ہوتے وقت، نہ ذبح کرنے کے وقت۔ آٹھویں رسم، یہ تھی کہ جن جانوروں کا نام بحیرہ یا سائبہ رکھ کر بتوں کے نام پر چھوڑتے ان کے ذبح کے وقت اگر بچہ پیٹ سے زندہ نکلتا تو اس کو بھی ذبح کرلیتے، مگر اس کو صرف مردوں کے لئے حلال عورتوں کے لئے حرام سمجھتے تھے اور اگر بچہ مردہ نکلا تو وہ سب کے لئے حلال ہوتا تھا۔ نویں رسم، بعض جانوروں کا دودھ بھی مردوں کے لئے حلال عورتوں کے لئے حرام سمجھتے تھے۔ دسویں رسم، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی چار قسم کے جانوروں کی تعظیم کو عبادت سمجھتے تھے۔ (یہ سب روایات درمنثور اور روح المعانی میں حضرت ابن عباس، مجاہد، ابن زید اور سدی سے بتخریج ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن ابی شیبہ، ابن حمید منقول ہیں) (از بیان القرآن) خلاصہ تفسیر اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں (شیاطین) نے اپنی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (جیسا کہ جاہلیت میں لڑکیوں کو قتل یا زندہ درگور کردینے کی رسم تھی) تاکہ (اس فعل قبیح کے ارتکاب سے) وہ (شیاطین) ان (مشرکین) کو (بوجہ استحقاق عذاب کے) برباد کریں اور تاکہ ان کے طریقہ کو مخبوط کردیں (کہ ہمیشہ غلطی میں پھنسے رہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ان حرکات شنیعہ سے مغموم نہ ہوں، کیونکہ) اگر اللہ تعالیٰ کو (انکا بھلا) منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اور جو کچھ یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں (کہ ہمارا یہ فعل بہت اچھا ہے) یوں ہی رہنے دیجئے (کچھ فکر نہ کیجئے ہم آپ سمجھ لیں گے) اور وہ اپنے خیال (باطل) پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ (مخصوص) مواشی ہیں اور (مخصوص) کھیت ہیں، جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (جیسا رسم چہارم و پنجم میں مذکور ہوا) اور (یوں کہتے ہیں کہ یہ مخصوص) مواشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی ہے (جیسا رسم ششم میں مذکور ہوا) اور (یوں کہتے ہیں کہ یہ مخصوص) مواشی ہیں جن پر (اللہ کا نام نہیں لینا چاہئے، چناچہ اسی اعتقاد کی وجہ سے ان پر) یہ لوگ اللہ کا نام نہیں لیتے (جیسا رسم ہفتم میں مذکور ہوا، اور یہ سب باتیں) محض اللہ پر افتراء باندھنے کے طور پر (کہتے ہیں، افتراء اس لئے کہ وہ ان امور کو موجب خوشنودی حق تعالیٰ سمجھتے تھے) ابھی اللہ تعالیٰ کو ان کے افتراء کی سزا دیتا ہے (ابھی اس لئے کہا کہ قیامت جو کہ آنے والی ہے دور نہیں اور کچھ کچھ سزا تو مرتے ہی شروع ہوجائے گی) اور وہ (یوں بھی) کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں (سے نکلتی) ہے (مثلاً دودھ یا بچہ) مردہ ہو تو اس (سے منتفع ہونے کے جواز) میں (مرد و عورت) سب برابر ہیں (جیسا رسم ہشتم ونہم میں مذکور ہوا) ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کی (اس) غلط بیانی کی سزا دئے دیتا ہے (غلط بیانی کی وہ ہی تقریر ہے جو افتراء کی گزری، اور اب تک جو سزا نہیں دی تو وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ وہ حکمت والا ہے (بعض حکمتوں سے مہلت دے رکھی ہے، اور ابھی سزا نہ دینے سے کوئی یوں نہ سمجھے کہ ان کو خبر نہیں، کیونکہ) وہ بڑا علم والا ہے (اس کو سب خبر ہے، آگے بطور خلاصہ اور انجام کے فرماتے ہیں کہ) واقعی خرابی میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے (ان افعال مذکورہ کو طریقہ بنا لیا کہ) اپنی اولاد کو محض براہ حماقت بلا کسی (معقول و مقبول) سند کے قتل کر ڈالا اور جو (حلال) چیزیں ان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کو دی تھیں ان کو (اعتقاداً یا عملاً ) حرام کرلیا (جیسا اوپر کے رسوم و رسم دہم میں کہ منشاء سب کا متحد ہے مذکور ہوا اور یہ مجموعہ) محض اللہ پر افتراء باندھنے کے طور پر (ہوا، جیسا کہ اوپر قتل اولاد میں یفترون اور تحریم انعام میں افتراء جدا جدا بھی آچکا ہے) بیشک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور (یہ گمراہی جدید نہیں بلکہ قدیم ہے، کیونکہ پہلے بھی) کبھی راہ پر چلنے والے نہیں ہوئے (پس ضَلَّوا میں خلاصہ طریق کا اور ماکانُوا میں اس کی تاکید اور خَسِرُوا میں خلاصہ انجام بد کا کہ عذاب ہے ذکر کیا گیا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ۝ ١٣٧ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٧) اسی طرح شیاطین نے ان کی لڑکیوں کے قتل کرنے کو مستحسن بنادیا ہے تاکہ وہ ان کو برباد کرے اور ان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین کو مخلوط کردے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو اپنا یہ طریقہ مستحسن نہ معلوم ہوتا اور نہ اس طرح یہ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے (لیکن اللہ نے اپنی مشیت خاص کے تحت انہیں محدود اختیار دے رکھا ہے) اور جو کچھ یہ غلط باتیں بناتے ہیں کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے دفن کرنے کا حکم دیا ہے آپ انہیں ان کی حالت پر یوں ہی رہنے دیجیے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٧ (وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ ) اس میں اشارہ ہے مشرکین کے ان اعتقادات کی طرف جن کے تحت وہ اپنے بچوں کو جنوں یا مختلف بتوں کے نام پر قربان کردیتے تھے۔ آج بھی ہندوستان میں اس طرح کے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کسی نے اپنے بچے کو دیوی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ ) ۔ دین کو مشتبہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے عقائد اور ایسی چیزیں بھی دین میں شامل کردی جائیں جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قتل اولاد بھی اس کی مثال ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ وہ دین اور مذہب کے نام پر ہی کرتے تھے۔ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دیں کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107. The word 'partners' is now used in a different sense. In this verse the word 'partners' denotes those human beings and devils who had legitimized infanticide and even represented it as a commendable act. The reason for calling such people 'partners' is that just as God alone deserves to be worshipped, so He alone has the right to make laws for His creatures and to determine the limits of what is lawful and what is unlawful. Also, just as consecrating acts of devotion to anyone other than God amounts to setting up partners with Him, so to follow man-made laws in the belief that human beings have the right to be their own law-makers amounts to acknowledging others as partners of God. Both these acts amount to setting up partners with Him, irrespective of whether or not man applies the word 'God' to those before whom he makes ritual offerings, or to those whose laws he considers to be essentially right and binding for men. It is pertinent to recall that three forms of infanticide were practised among the Arabs, and the Qur'an alludes to each: (1) Girls were put to death either to forestall the intrusion of a son-in-law, to prevent them from falling into the hands of enemies in the event of an outbreak of tribal feuding or to stop them from becoming a source of disgrace for any other reason. (2) Both male and female children were killed if parents thought they would not be able to support them and that they would thus become an unendurable burden. (3) Children of both sexes were placed as sacrificial offerings on the altars of the deities in order to gratify them. 108. The use of the word 'ruin' in this verse is significant. It denotes, in the first place, the moral ruination of a people. A man whose callousness and cruelty reach the point where he begins to kill his offspring with his own hands not only becomes bereft of the essence of humanity, but has sunk even lower than the animals. Moreover, this signifies the ruin of a people and of the human race. This is because infanticide necessarily leads to loss of population which is detrimental to the interests of mankind and also of each nation, since it prevents those who could have carried the legacy of a nation from either being born or puts an end to their lives after ,they are born. This rule also signifies the ultimate ruin, i.e. in the Hereafter. For indeed anyone who treats innocent children with such high-handedness, who cold-bloodedly slaughters the essence of his humanity, who acts so sordidly towards the human species as such, and even towards his own people, deserves severe punishment from God. 109. In the Jahiliyah, the Age of Ignorance, the Arabs both identified themselves with Abraham and Ishmael and were quite convinced that they were indeed followers of Abraham and Ishmael. They therefore considered their religion to be one that had been prescribed by God. The fact, however, was that over the course of centuries a number of innovations had overgrown the religion preached by Abraham and Ishmael. These innovations, which had been introduced by their religious leaders, the tribal chiefs and the elders of noted families, had become hallowed with the passage of time, and were considered an integral part of their original religion. No authentic traces of this original religion, however, existed in the Arab traditions, nor in written sources nor in historical records as such. Hence, when innovations made their inroads into their religious life, they failed to perceive both the innovations and the innovators. This rendered the entire religious tradition of the Arabs unauthentic in the sight of the people of Arabia themselves. They could not assert with conviction which elements were part of the original God-given religion, and which were mere innovations. 110. Had God not so willed, they could never have kept to their false ways. But God willed that everybody should be allowed to pursue his own choice. Hence, if people do not believe in spite of the Prophet's admonition, and persist in their false ways, they must be allowed to do as they please. One need not hound such people and pester them into accepting the Truth.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :107 یہاں”شریکوں“ کا لفظ ایک دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اوپر کے معنی سے مختلف ہے ۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ”شریک“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسط کو یہ لوگ نعمت کے حصول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکر نعمت کے استحقاق میں انہیں خدا کے ساتھ حصہ دار بناتے تھے ۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ”شریک“ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتل اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا ۔ انہیں شریک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے ۔ لہٰذا جس طرح کسی دوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے ، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے ۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں ، خواہ ان کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور رب کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا جن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے ۔ قتل اولاد کی تین صورتیں اہل عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ( ۱ ) لڑکیوں کا قتل ، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے ، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں ۔ ( ۲ ) بچوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابل برداشت بوجھ بن جائیں گے ۔ ( ۳ ) بچوں کو اپنے معبودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :108 یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے ۔ اس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جو ہر انسانیت تو درکنار جوہر حیوانیت تک باقی نہیں رہتا ۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتل اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے ، جس سے نوع انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے ، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدن کے کارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی ، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں انہیں ختم کر ڈالتی ہے ۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصوم بچوں پر یہ ظلم کرتا ہے ، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں الٹی چھری سے ذبح کرتا ہے ، اور جو نوع انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دشمنی کرتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :109 زمانہ جاہلیت کے عرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کر رہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے ۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام سے سیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشوا ، قبائل کے سردار ، خاندانوں کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا اضافہ کرتے چلے گئے جنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزء سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی ۔ چونکہ روایات میں ، یا تاریخ میں ، یا کسی کتاب میں ایسا کوئی ریکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیز یں کس زمانہ میں کس نے کس طرح اضافہ کیں ، اس وجہ سے اہل عرب کے لیے ان کا پورا دین مشتبہ ہو کر رہ گیا تھا ۔ نہ کسی چیز کے متعلق یقین کے ساتھ یہی کہہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جزء ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا ، اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھا دیں ۔ اسی صورت حال کی ترجمانی اس فقرے میں کی گئی ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :110 یعنی اگر اللہ چاہتا کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ کی مشیت یہی تھی کہ جو شخص جس راہ پر جانا چاہتا ہے اسے جانے کا موقع دیا جائے ، اسی لیے یہ سب کچھ ہوا ۔ پس اگر یہ لوگ تمہارے سمجھانے سے نہیں مانتے اور ان افترا پردازیوں ہی پر انہیں اصرار ہے تو جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دو ، ان کے پیچھے پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

67: اس کی تشریح کے لئے دیکھئے اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۱۱۲ کا حاشیہ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیت میں مشرکین مکہ کی ایک نادانی کا جس طرح ذکر تھا اس میت میں اسی طرح ان کی ایک اور نادانی کا ذکر ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ قیس بن عاصم تمیمی (رض) صحابی کے اسلام لانے سے پہلے ان کے ایک دشمن نے ان پر حملہ کیا اور ان کی بیٹی کو چھین کرلے گیا اس دن سے انہوں نے قسم کھائی کہ آئندہ جو لڑکی ان کے گھر میں پیدا ہوگی وہ اس کو زندہ گاڑ دیا کریں گے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ رسم عرب میں نکالی پھر رفتہ رفتہ اکثر عرب میں یہ رسم پھیل گئی کہ یا تو پیدا ہوتے ہی لڑکی کو ایک گڑھا کھود کر اس میں دبا دیتے تھے یا جب لڑکی کچھ بڑی ہوجاتی تھی تو اس کی کو جنگل میں لے جاکر کسی کنویں میں ڈال دیتے تھے یہ رسم ایک نادانی کی بات تھی اس لئے مذمت کے طور پر اس کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔ اِذَ الشْمُس کُوِّرَتْ میں آویگا کہ قیامت کے دن اس جرم کی دریافت ہو کر قاتل کو سزادی جاوے گی۔ شرکآء سے مقصود شیاطین ہیں جنہوں نے لڑکیوں کے قاتلوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ لڑکیوں کے زندہ چھوڑ دینے سے اسی طرح کی ذلت کے پیش آنے کا اندیشہ ہے جس طرح کی ذلت قیس بن عاصم (رض) کو پیش آئی اس وسوسہ کے سبب سے ان لوگوں کو یہ برا کام اچھا معلوم ہونے لگا۔ شیطانی سب وسوسے ایسے ہی ہوتے ہیں جن سے برے کام اچھے نظر آنے لگتے ہیں ناحق قتل کے جرم میں شیاطین اور انسان دونوں شریک تھے اس واسطے شیاطینوں کو شُرَکَآء فرمایا ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح شیاطین نے ان لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے مال میں بتوں کا حصہ ٹھہرا دیں گے تو بت اللہ کے روبرو ان لوگوں کی شفارش کریں گے اسی طرح ان کے دلوں میں یہ وسوسہ بھی ڈال دیا ہے کہ لڑکیوں کے زندہ چھوڑ دینے میں طرح طرح کی ذلت کا اندیشہ ہے اور یہ کام شیاطینوں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ ملت ابراہمی سے بہک کر اس گناہ کی سزا درزخ میں بھگتیں جس سے شیطانی جماعت بڑھ جاوے پھر فرمایا اگر اللہ چاہے تو یہ لوگ ایسے کام چھوڑ دیویں لیکن دنیا کو اللہ تعالیٰ نے نیک وبد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے اس واسطے کسی برے کام سے مجبور کر کے کسی کو باز رکھنا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس لئے اے رسول اللہ کے ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے۔ ان لوگوں کے جھوٹ کا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ ان نادانی کی باتوں کو ملت ابراہیمی کے مسئلے اور اللہ کے حکم بتلاتے تھے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگوں اللہ تعالیٰ نے تم پر جیتی لڑکیوں کا گاڑ دینا حرام کیا ہے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں یہ جو فرمایا کہ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کا یہ کام سزا کے قابل نہیں ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کو اللہ نے حرام کیا ہے جو کوئی اس کے کرنے کی جرأت کریگا وہ عقبے میں اسی طرح سزا پاوے گا جس طرح اور مناہی کے کاموں کی سزا ہے۔ مسند بزارا اور طبرانی میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان ہی قیس بن عاصم (رض) نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ انہوں نے اسلام نے سے پہلے اپنی لڑکیوں کو جیتا گاڑا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قیس تمہیں ہر لڑکی کے معاوضہ میں ایک بردہ آزاد کرنا چاہئے قیس نے جواب دیا کہ حضرت میرا مال تو یہی ہے جو میرے پاس اونٹ ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو اس صورت میں تم کو ہر لڑکی کے معاوضہ میں ایک اونٹ کی قربانی ضرور ہے اس حدیث مسند برزار کی سند قوی ہے جس سے طبرانی کی سند کو بھی قوت ہوجاتی ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے لڑکی کا مار ڈالنا گناہ ہے جس کا کفارہ اسلام کے بعد بھی دینا آتا ہے فقط اسلام اس گناہ کے معاف ہوجانے کے لئے کافی نہیں یہ مسئلہ جو مشہور ہے کہ اسلام لانے سے اسلام کے پہلے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن حضرت عمر (رض) کی اس حدیث کے موافق لڑکیوں کے مار ڈالنے کا گناہ اس مسئلہ سے مستثنے رکھا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:137) زین۔ اس نے سنوارا۔ اس نے زینت دی۔ اس نے بھلا کرکے دکھایا۔ تزیین (تفعیل) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ اس کا فاعل شرکائہم۔ اور قتل اولادھم مفعول۔ یردوھم۔ مضارع جمع مذکر غائب ادراء (افعال) مصدر ردی۔ مادہ۔ کہ وہ ہلاکت میں ڈال دیں ان کو ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ کثیر من المشرکین کی طرف راجع ہے۔ ردی ہلاک ردی اور ردیان مصدر۔ لازم (باب ضرب) کو دکر چلنا۔ لڑھکنا۔ مقدی۔ ریزہ ریزہ ۔ چورا کردینا۔ کوٹنا۔ ردی مصدر (باب سمع) ہلاک ہونا ارداء (افعال) ہلاک کرنا۔ مشقت ڈال دینا۔ لیردوھم میں لام عاقبت۔ یا لام مآل ہے۔ جو کسی فعل پر مرتب ہونے والے نتیجہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یا لام علت ہے۔ لیلبسوا علیہم دینھم۔ تاکہ مشتبہ کردیں ان پر ان کا دین۔ یلبسوا۔ مضارع منصوب لبس مصدر (باب ضرب) تاکہ وہ خلط ملط کردیں۔ گڑ بڑ کردیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یہ مشرکین کی پہلی گمراہی اور جہالت کا بیان ہے کہ وہ اپنی کھتی اور جانوروں کی نسل میں جو نیاز اور خیرات نکالتے اور کے دو حصے کرلیتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور دوسرا اپنے بتوں اور کاہنوں کے لیے خرچ کرنے پر جب بتوں اور کاہنوں کے لیے خرچ کرنے پر جب بتوں اور کاہنوں کا حصہ کم پڑجاتا تو اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے لے کر اس میں ڈال دیتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے اس کو زیادہ مال کی کیا ضرورت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ کم پڑجاتا تو اس میں بتوں کے حصے کے میں سے کچھ نہ ڈالتے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اب جاننا چاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نیاز کہ اس کی راہ جن کی دلوا دیا ہے ان کو دینا اسکا فائدہ اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اس چیز سے فقیر کا فائدہ ہے اور ثواب ہے فائدہ دینے ولاے کو پھر اگر کسی بزرگ کے واسطے اس وضح پردے جیسے یہاں فرمایا تو شرک ہے ہاں اگر ایصال ثواب کے لیے دے تو صحیح ہے ( کذافی۔ المو ضح)5 یہ ان کی دوسری جہالت اور گمراہی تھی اور اس کا عطف جعلو پر ہے یعنی جیسا کہ کھیتی اور جانوروں میں بتوں کا حصہ مقرر کرنا ان کی جہالت تھی ایسے ہی یہ عقیدہ بھی ان کی انتہا ہی گمراہی تھی ْ (رازی) کہاں شرکا سے مراد یا تو شیاطان ہیں جن کے پیچھے لگ کر وہ اپنی اولاد کو زندہ درگو کردیتے تھے اور یا شرکا سے مراد نت خانوں کے خادم اور پجاری ہیں جن کی ترغیب پر مشرکین اپنی اولاد کو بت خانوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے، چناچہ بعض لو منت مال لیتے کہ اگر میرے یاں اتنے بیٹے پیدا ہوں تو ان ا میں سے ایک فلاں بت کے نام پر ذبح کروں گا۔ جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبدالمطلب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والد عبد اللہ کو ذبح کرنے کی مانت مانی تھی۔6 اہل عرب اصل میں حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے لیکن شیطان نے آہستہ آہستہ بت پر ستی قتل اولاد اور بہت سی غلط باتیں ان کے دین میں داخل کردی تھیں فرمایا کہ شیطان نے اس قسم کی گمرہیاں پیدا کر کے ان کے دین کو غلط ملط کر ڈالا تھا۔ (کذافی7 اس سے اشارہ فرمایا ہے کہ اس قسم کی سب باتیں دین میں افترا پر دازی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 137 تا 140 : لیردو (تاکہ وہ برباد کریں) لیلبسوا ( تاکہ وہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ کردیں) حجر ( ممنوع ہے) لایطعم ( نہیں کھاتا) حرمت (حرام کردی گئی) بطون ( بطن) پیٹ ‘ خالصۃ ( خالص۔ محض) لذکورنا (ہمارے مردوں کے لئے ہے) محرم ( حرام کردیا گیا) ازواجنا ( ہماری بیوں ( پر حرام ہے) ۔ میتۃ (مردار) وصفھم (ان کی باتیں بنانا) سفھا (بےوقوفی۔ نادانی) تشریح : آیت نمبر 137 تا 140 : انسانوں میں جو چالاک طبقہ ہے وہ بلامحنت امیر اور امیر تر بننے کے لئے پنڈت ‘ پروہت ‘ پادری ‘ مجاور ‘ آستانہ دار اور تکیہ دار بن جاتا ہے۔ وہ بتوں کو ‘ صلیبوں کو ‘ قبروں کو اور خلوتوں کو تقدس کا رنگ دے کر اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ اور یہ جاہل نادان عوام اس کا شکار بنتے ہیں۔ ان کو شکار بنانے کے لئے کھلم کھلا یا پوشیدہ معبود ان باطل گھڑے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے افسانے تراشے جاتے ہیں ان کے نام پر کتابیں لکھی جاتی ہیں یا تحریف کی جاتی ہیں ‘ ان کے نام پر قاعدے اور قوانین بنتے ہیں ‘ حلال و حرام طے کئے جاتے ہیں ‘ نذرنیاز ‘ چڑھاوا ‘ مستقل ٹیکس عائد ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ ان خود ساختہ معبودوں کے اجارہ داروں نے عرب کے جاہل احمق مشرکین کو جو اصول و آئین دیئے تھے ‘ ان میں سے چند یہ تھے : (1) جیسا کہ اس سے پہلی آیات میں گزر چکا ہے ‘ کھیت اور مویشی کی پیداوار میں سے اللہ کا اور بتوں کا حسب مرضی حصہ لگانا۔ آہستہ آہستہ مختلف بہانے سے اللہ کے حصہ میں سے کاٹ کاٹ کر بتوں یعنی پجاریوں کے حصہ میں اضافہ کرنا۔ (2) داماد بنانے کو بےعزتی سمجھنا اور اس لئے بیٹیوں کو شیر خوارگی میں ہی قتل کردینا۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو اس خطرے کے پیش نظر قتل کردینا کہ بڑی ہو کر کہیں آوار گی کرنے نہ لگ جائیں۔ یا کوئی دشمن قبیلہ لڑائی میں انہیں چھین کر نہ لے جائے۔ (3) بیٹوں اور بیٹیوں کو بچپن ہی میں اس لئے قتل کردینا کہ بڑے ہونے تک کون پالے پوسے گا۔ کون اپنی روٹی میں ان کو شریک کرے گا۔ کون ان کا علاج ‘ کپڑے وغیرہ کے چکر میں پڑے گا ( آج کل مغرب میں یہ عام ذہن اور عام رواج ہے۔ چناچہ اولادیں قتل کردی جاتی ہیں ‘ یا سڑک پر پھینک دی جاتی ہیں ‘ یا یتیم خانہ ‘ گرجا ‘ فوج وغیرہ کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ اور ان اولادوں کی کھیپ در کھیپ تیار ہوگئی ہے جن کو اپنے والدین اور گھر کا پتہ نہیں۔ آوار گی ‘ لاقانونیت اور جرائم میں ان ہی لاوارث جوانوں کا ہاتھ زیادہ ہے۔ اب تو نوکری کی درخواست میں یا ویسے بھی کسی سے ماں باپ کا نام و نشان پوچھنا خلاف تہذیب ہوگیا ہے۔ ضرورت پڑی تو باپ کا فرضی نام تصنیف کرلیا گیا جو ہر موسم میں بدلتا رہتا ہے) ۔ (4) کھیت کی پیداوار کو مخصوص کرنا۔ وہ کہتے تھے کہ اس کھیت کی پیداوار ہماری اجازت کے بغیر کوئی نہیں کھاسکتا۔ اس جانور کا گوشت صرف مرد کھا سکتے ہیں اور اس کا دودھ صرف مردپی سکتے ہیں۔ اگر ذبح کے وقت اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے تو اسے صرف مرد ہی کھا سکتے ہیں۔ اگر مردہ بچہ نکلے تو عورتیں بھی کھا سکتی ہیں۔ اس جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا جائے گا۔ نہ دودھ نکالتے وقت ‘ نہ سوار ہوتے وقت ‘ نہ ذبح کرنے کے وقت۔ اس جانور پر کوئی چڑھ نہیں سکتا۔ بحیرئہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام چار قسم کے جانوروں کی تعظیم کو عبادت سمجھا جاتا تھا اور یہ جانور بت خانہ کی خدمت کے لئے وقف ہوتے تھے۔ (5) بچوں کو قتل کر کے معبودوں پر بھینسٹ چڑھانا۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اگر چہ قتل اولاد کو مشرکین عبادت اور نیک کام سمجھ رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ خاندانی ‘ اخلاقی ‘ ذہنی ‘ قومی اور ہر طرح کی خود کشی ہے۔ اہل عرب تلوار سے قتل کرتے تھے لیکن جدید اہل مغرب برتھ کنٹرول سے قتل کرتے ہیں۔ گزشتہ جنگ عظیم کے دوران فرانس میں آبادی اتنی گھٹ گئی کہ فوج اور دوسرے شعبوں کے لئے مردان کار نہیں ملتے تھے ۔ مجبوراً حکومت نے انعام واکرام کے ذریعہ عورتوں کو اولاد پیدا کرنے اور پرورش کرنے کی ترغیب و تحریص دلائی اور اس سلسلہ کے سارے اخراجات حکومت نے اپنے ذمہ لے لئے۔ امریکہ کو ویت نام میں جو تلخ تجربہ ہوا اس کی وجہ یہی تھی کہ سفید فام سپاہیوں کا کال پڑگیا۔ اور جبری بھرتی کا قانون بھی اس کا ل کو دورنہ کرسکا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اصل چیز سپاہی اور اس کا ولولہ ہے ‘ بم اور راکٹ نہیں۔ ان آیات میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ان پجاریوں ‘ راہبوں ‘ مجاوروں اور اجارہ داروں نے اپنے کھانے کمانے کے لئے جو اس قسم کے اصول و آئین اور رسم و رواج بنا دئیے ہیں ‘ تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل دین کیا ہے اور شیطانی ملاوٹ کیا۔ ہر نسل تحریف در تحریف کرتی رہی ہے۔ شرک کے ان ٹھیکہ داروں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے پیش کردہ دین کا وہ حلیہ بگاڑا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ جب انہیں ضرورت ہوئی نئے عقیدے ‘ نئے اعمال ‘ نئے رسوم لے آئے۔ اس لئے ہر صاحب عقل پہچان لے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ تو وہ لوگ جو ان مذہبی ٹھیکہ داروں کے دام فریب میں آگئے ‘ جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اہل حق کا حق مارتے رہے۔ جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال من مانی ٹھہراتے رہے ‘ جو اولاد کشی کے ذریعہ خود کشی کرتے رہے ‘ اوندھے منہ ضلالت کے گڑھے میں گر پڑے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نفس کو اسقدر گرالیا ہے کہ راہ ہدایت کی کوئی تلقین ان کے کام نہیں آسکتی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ تاکہ وہ ہمیشہ غلطی میں پھنسے رہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک جس طرح مال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اس طرح اولاد میں بھی غیر اللہ کو شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کو غیر اللہ کے نام پر قربان کرتے تھے۔ مشرکوں کا شروع سے عقیدہ ہے کہ جب تک فلان بزرگ کی روح کو خوش نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارے مال اور اولاد میں برکت پیدا نہیں ہوسکتی اسی وجہ سے بےاولاد مشرک غیر اللہ کے نام پر چڑھاوے اور بزرگوں کے مزارات پر نذرانے پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی گود ہری ہوجائے۔ اولاد کی خواہش میں اس قدر آگے بڑھ کر منتیں مانتے ہیں اگر بزرگوں نے اولاد عنایت کر وا دی تو ایک بچے کو فلاں بت پر قربان کریں گے۔ اسی عقیدہ کی بنا پر اپنے بچوں کو بت خانوں پر ذبح کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں آج بھی بعض دیوتاؤں کے نام پر بچوں کو قربان کرنے کی خبریں اخبار میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کے دور میں قبروں اور بتوں پر اس کثرت کے ساتھ بیٹوں کو ذبح کرنے کا رواج تو نہیں رہا لیکن یہ رواج تو مشرکوں میں عام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بت خانوں اور مزارات کے لیے وقف کرتے ہیں جو آگے چل کر مجاور کا روپ دھار کر دولت اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ بدکاری کو رواج دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے جہلا کو مزارات اور بت خانوں پر بیٹیاں وقف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاید کوئی بت خانہ اور مزار ہو۔ جہاں دن رات عورتیں قیام نہ کرتی ہوں۔ اسی وجہ سے مزارات اور آستانوں کے آئے دن اخلاق باختہ واقعات سننے میں آتے ہیں۔ بچوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح یا وقف کرنا اس لیے ہے کہ عیسائیوں کے پادریوں، ہندوؤں کے پنڈتوں اور مسلمانوں کے غلط عقیدہ پیروں کی وجہ سے اصلی اور حقیقی دین کی جگہ من گھڑت دین کا غلبہ ہوگیا ہے جو عزت، مال اور اولاد کی بربادی کے ساتھ آخرت کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب شرک و رسومات سے منع کیا جائے تو وہ سمجھنے کے بجائے سمجھانے والوں کو بزرگوں کا گستاخ اور بےدین ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اس لیے فرمایا انھیں ان کے من گھڑت دین پر چھوڑ دیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں شرک و خرافات سے بچا لیتا کیونکہ یہ ہدایت کی چاہت نہیں رکھتے اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کی چاہت کے مطابق انھیں گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُہُمْ وَیَعْرِفُونِی ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَسَمِعَنِی النُّعْمَانُ بْنُ أَبِی عَیَّاشٍ فَقَالَ ہٰکَذَا سَمِعْتَ مِنْ سَہْلٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ أَشْہَدُ عَلٰی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) لَسَمِعْتُہُ وَہُوَ یَزِید فیہَا فَأَقُولُ إِنَّہُمْ مِنِّی فَیُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیِّرَ بَعْدِی) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا ابو حازم نے کہا نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سنا اور کہا کیا تم نے اسی طرح سہل سے سنا ہے میں نے کہا ہاں، پس اس نے کہا میں ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔ “ مسائل دنیا میں قتل اولاد کی ہر دور میں چار صورتیں رہی ہیں : ١ غیر اللہ کے نام پر بچوں کو قربان کرنا۔ ٢ رزق کی تنگی کی وجہ سے سے اولاد کو قتل کرنا۔ ٣ کسی کے داماد بننے کی عار سے بچیوں کو قتل کرنا۔ ٤ جنگ وجدال میں بچیوں کی گرفتاری کے پیش نظر انھیں قتل کرنا۔ تفسیر بالقرآن اولاد کا قتل کرنا جرم ہے : ١۔ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الاسراء : ٣١) ٢۔ غربت کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٣٧۔ جس طرح ان لوگوں کے لئے ان کے شرکاء اور ان کے شیاطین نے اپنے مالوں اور فصلوں میں یہ تصرفات خوبصورت بنادیئے ہیں ‘ اسی طرح انہوں نے ان کے لئے قتل اولاد کو بھی مزین بنا دیا ہے ۔ یوں کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو تنگدستی کے خوف سے زندہ درگور کردیتے تھے ‘ یا اس لئے کہ وہ جنگی قیدی بن جائیں گی اور ان کے لئے موجب طار ہوں گی ۔ بعض اوقات وہ اولاد کو بطور نذر بھی قتل کرتے تھے ۔ جس طرح حضرت عبدالمطلب سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے ان کو دس ایسے بیٹے بخشے جوان کے لئے دست وبازو ہوں تو وہ ان میں سے ایک کو قربان کریں گے ۔ یہ تمام باتیں ان کے دل و دماغ میں انکی جاہلی رسومات نے پختہ طور پر بٹھا دی تھیں ۔ یہ رسومات جاہلیت وہ تھیں جو لوگوں نے خود ہی اپنے لئے وضع کی تھیں ۔ اس آیت میں جن شرکاء کا ذکر ہے اس سے مراد شیاطین جن وانس ہیں انسانوں میں سے جو شیاطین تھے وہ کاہن ‘ مجاور اور سردار تھے ۔ جنوں میں سے وہ لوگ تھے جو بعض انسانوں کے دوست بن جاتے تھے اور وہ انسانوں کی مدد کرتے تھے ۔ اس آیت میں ان شیاطین کا جو واضح ہدف بتایا گیا ہے وہ یہ ہے ۔ آیت ” لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُواْ عَلَیْْہِمْ دِیْنَہُمْ “۔ (٦ : ١٣٧) ” تاکہ انکو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں ۔ “ یعنی وہ ان کو ہلاک کردیں ‘ ان پر ان کے دین کو گنجلک اور مشتبہ بنادیں ۔ اس طرح کہ وہ اسے واضح طور پر سمجھ نہ سکیں ۔ ہلاک کرنے کا مصداق ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں ۔ دوسرا مصداق یہ ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی اسلام کے خلاف ہوجاتی ہے اور وہ اپنے معاشرے میں ان مویشیوں کی طرح بن جاتے ہیں جن کو وہ شیاطین جس طرح چاہیں ہانک کرلے جائیں ‘ یعنی اپنے مقاصد اور مفادات کے مطابق یہاں تک کہ وہ لوگ ان حیوانوں کے اموال ‘ اولاد اور خود ان کی جان کے بارے میں قتل کرنے اور ہلاک کرنے کے اختیارات کے بھی ملک ہوجاتے ہیں۔ ان حیوانوں کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ پوری اطاعت کریں ۔ اس لئے کہ دین اور عقیدے کے ساتھ جو زائد تصورات وابستہ کردیئے گئے اور جو درحقیقت دین سے نہیں ہیں ‘ وہ نہایت ہی گہرے ہوگئے اور اب دیندار لوگوں پر ان کا بھاری دباؤ ہے ۔ یہ تصورات چونکہ سوسائٹی کے اندر موجود رسم و رواج کی وجہ سے دین سے وابستہ ہوئے ہیں اس لئے یہ عرف بھی ان کی پشت پر ہوتا ہے اور ان رسومات کا دباؤ معاشرے پر اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ عوام کالانعام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ الا یہ کہ یہ ان میں سے کوئی حقیقی دین کی بنیادون کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہو اور قرآن وسنت پر اس کی گرفت مضبوب ہو ۔ یہ دینی رنگ کے مبہم اور پیچیدہ تصورات جن کو لوگ دین سمجھتے ہیں ‘ یہ اجتماعی رسومات جن سے یہ تصورات پروان چڑھتے ہیں اور جو عوام الناس پر کمر توڑ بوجھ بنے ہوئے ہیں ‘ یہ ان صورتوں تک محدود نہیں ہیں جو قدیم زمانوں کی جاہلیتوں کے اندر پائی جاتی تھیں ‘ دور جدید کی تازہ ترین جاہلیت میں بھی یہ تصورات واضح طور پر موجود ہیں ۔ یہ رسم و رواج جو دور جدید میں بھی عوام الناس پر بارگراں بنے ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے ‘ لوگوں کے لئے لابدی بن گئے ہیں اور اب لوگوں کے لئے کوئی راہ نہیں رہی ہے کہ وہ ان کے چنگل سے نکل باگیں ۔ لوگوں نے اپنے اوپر مخصوص لباس فرض کرلئے ہیں اور بعض اوقات ان پر اس قدر روپیہ خرچ کرتے ہیں جو انکے پاس نہیں ہوتا ۔ یہ رسم و رواج لوگوں کی زندگی کو چاٹ جاتے ہیں ۔ ان کی تمام آرزوئیں خاک میں مل جاتی ہیں ‘ ان کے اخلاق ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہو ہر حال میں ان کی پابندی کرتے ہیں۔ صبح کا لباس ‘ دوپہر کا لباس ‘ شام کا لباس ‘ منی اسکرٹ ‘ ٹیڈی لباس اور مضحکہ خیز لباس ‘ قسم قسم کا میک اپ اور بناؤ سنگھار ۔ بعض لوگ یہ کام کرتے ہیں بعض ان سے کراتے ہیں ۔ کرانے والوں میں سے لباس کے بڑے بڑے تاجر ‘ بڑی بڑی کمپنیاں اور بینکوں اور مالی اداروں کے سود خور کارندے اور وہ تاجر شامل ہیں جو لوگوں سے یہ حرکات اس لئے کراتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں جو نفع ملے اسے وہ مزے لے لے کر کھائیں ۔ اس تمام صورت حال کی پشت پر یہودی سازش ہے اور یہودیوں نے یہ صورت حال اس لئے چلا رکھی ہے کہ اس طرح وہ لوگوں پر معاشی اور سیاسی حکمرانی کریں ۔ لیکن یہودی یہ کام اسلحہ اور فوج کے ذریعے نہیں کرتے بلکہ یہ کام وہ افکار وخیالات ‘ تصورات ونظریات کے ہتھیاروں کے ذریعے کرتے ہیں اور یہ حکومت وہ عرف عام کے دباؤ سے کرتے ہیں اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ نظریات کا اثر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ نظریات نظام حکومت کا روپ نہ دھاریں اور اجتماعی شکل اختیار نہ کرلیں اور سوسائٹی کے ڈھانچے کے اندر نہ گھس جائیں ۔ چناچہ سوسائٹی کے اندر ان جاہلی نظریات اور تصورات کو یہ یہودی بڑی اسکیم کے ساتھ پھیلاتے اور جاری کرتے ہیں ۔ یہ کام معاشرے کے تمام شیاطین کرتے ہیں ‘ یہ شیاطین جنوں میں بھی ہیں اور انسانوں میں بھی ۔ یہ تمام کام جاہلیت میں جس کی اشکال اور صورتیں مختلف ہیں ۔ لیکن اس کے اصول اور جڑیں اور بنیادیں ایک ہی ہوتی ہیں ۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ قرآن نے بعض ازمنہ قدیمہ کی جاہلیتوں ہی پر بحث وتقید کی ہے اور جدید دور کی جاہلیتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو ہم قرآن کریم کی شان کو گھٹا رہے ہوں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم تمام قدیم وجدید جاہلیتوں پر بحث کرتا ہے ۔ وہ ہر دور میں انحراف کرنے والے معاشرے کا مقابلہ کرتا ہے اور اسے واپس لا کر جادہ مستقیم پر ڈالتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک عظیم عمرانی بوجھ اور سازش ہے قرآن کریم مسئلہ جاہلیت کے حل کو آسان کرنے کے لئے اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ یہ تمام شیاطین اور ان کے دوست اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اپنی قوت اور قدرت سے نہیں کر رہے ۔ وہ یہ کام اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کو مہلت دے رکھی ہے ‘ اس دنیا کی مختصر زندگی کے لئے ۔ یہاں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کے دائرہ قدرت کے اندر اور اللہ کی مشیت کے ساتھ کر رہے ہیں اگر اللہ کی مشیت نہ ہوتی تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتے ۔ لہذا کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انہیں اپنی روش پر چلنے دیجئے ۔ آیت ” وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ (137) ” اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ “ یہ بات اپنی جانب سے کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ یہ تمام تصورات اور تصرفات من جانب اللہ ہیں اور ان کے لئے یہ شریعت ہیں ۔ اپنے زعم کے مطابق وہ کہتے تھے کہ یہ تصورات وتصرفات حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہیں۔ آج جاہلیت جدیدہ کے دور میں بھی شیاطین کا یہی رویہ ہے ۔ ان کی اکثریت میں اس قدر جرات تو نہیں ہے کہ وہ کمیونسٹوں کی طرح سرے سے وجود باری کا انکار ہی کردیں ۔ لیکن وہ دین کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو دور جاہلیت قدیمہ کے لوگ کرتے تھے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو دین اور مذہب کا سخت احترام کرتے ہیں اور وہ جو قانون بتاتے ہیں اس کی اساس بھی دین اسلام پر ہی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کا طریقہ ورادت خالص منکرین خدا اور کیمونسٹوں کے مقابلے میں زیادہ مکارانہ اور اذیت دہ ہے ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اس سوئے ہوئے جذبہ دین سے بہت ڈرتے ہیں جو ان کی رگ وروح میں جاری وساری ہے ۔ ا گرچہ وہ جذبہ اسلام کا حقیقی جذبہ نہ ہو ‘ کیونکہ مکمل اسلام تو پورا نظام حیات ہے ۔ وہ محض خفیہ جذبہ نہیں ہے اور نہ بجھی ہوئی چنگاری ہے ۔ اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے غیض وغضب سے بچنا چاہتے ہیں ۔ یہ نہایت ہی مکارانہ چال ہے اور اسلام کے خلاف ایک نہایت ہی تکلیف دہ صورت حالات ہے ۔ اب ذرا دین کے ان نادان حامیوں کے حالات کو دیکھئے ۔ یہ اسلامی نظام حیات کے اساسی مقاصد کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی باتوں پر اپنی قوتیں کھپاتے ہیں ۔ انہیں اس جاہلی صورت حالات کے اندر یہ بات نظر ہی نہیں آتی کہ اللہ کی حاکمیت پر دست درازی کرکے شرک کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور بےدانش جوش کی وجہ سے وہ موجودہ مشرکانہ نظام کو ایک اسلامی صورت حالات بناتے ہیں ۔ اپنی اس روش کی وجہ سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ موجودہ حالات گویا اسلامی حالات ہیں اور ان حالات اور عالم اسلام کی صورت حال میں صرف چند جزئیات کا اختلاف ہے ۔ اپنے اس رویے کی وجہ سے اسلام کے یہ نادان دوست ‘ مذہبی طبقے اور بظاہر اسلام کے پرجوش حامی اس غیر اسلامی صورت حالات کو طول دے رہے جو سراسر غیر اسلامی ہے اور اسلامی دنیا پرچھائی ہوئی ہے حالانکہ اس طرز عمل کی وجہ سے ان لوگوں کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں جو اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ خدمات وہ لوگ انجام دیتے ہیں جنہوں نے اسلام کا مخصوص مذہبی لباس پہن رکھا ہے حالانکہ اسلامی نظام نے کوئی ایسا مخصوص مذہبی طبقہ نہیں رکھا کہ اسلام کے بارے میں وہی بات کرسکے ۔ اسلام کا نہ کوئی کاہن ہے اور نہ اس میں کسی پادری کی گنجائش ہے کہ ان کے سوا کوئی اور اسلام کی بات ہی نہ کرسکے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کا اپنی اولاد کو قتل کرنا اور کھیتیوں اور جانوروں کے بارے میں اپنی طرف سے تحریم اور تحلیل کے قواعد بنانا اس دنیا میں ہادی عالم رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے پہلے پوری دنیا جہالت، ضلالت، سفاہت، کفر و شرک سے بھری ہوئی تھی۔ عرب کے لوگ مشرک بھی تھے اور جاہل بھی، ان میں جہالت اور جاہلیت دونوں پوری طرح جگہ پکڑے ہوئی تھی طرح طرح کی شرکیہ رسمیں نکال رکھی تھیں۔ جانوروں اور ان کے بچوں اور کھیتیوں کے بارے میں طرح طرح کے افعال قبیحہ میں مبتلا تھے اور یہ افعال اور رسوم انہیں شیاطین الجن اور شیاطین الانس نے سجھا رکھی تھیں جن میں بعض کا ذکر (فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ ) میں اور بعض کا ذکر (مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ ) میں اور بعض کا ذکر (مَاجَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآءِبَۃٍ ) (الآیۃ) میں اور بعض کا ذکر آیت (وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا) میں گزر چکا ہے ان آیات میں بھی ان کے چند افعال قبیحہ اور رسوم ذمیمہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اول تو یہ فرمایا کہ بہت سے مشرکین کو ان کے شرکاء یعنی شیاطین نے اس پر آمادہ کردیا کہ اپنی اولاد کو قتل کریں اور ان کے اس عمل کو ان کی نظر میں مزین اور مستحسن کردیا۔ اہل عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور رزق کی تنگی کے ڈر سے بھی اولاد کو قتل کردیتے تھے جیسا کہ دو رکوع کے بعد یہ مضمون آ رہا ہے۔ شیاطین نے ان کی نظروں میں اولاد کے قتل کرنے کو ایسا مزین کردیا تھا کہ وہ اس عمل میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے اور ذرا سی بھی مامتا ان کے دل میں نہیں آتی تھی جو قتل اولاد سے مانع ہو۔ شیاطین نے ان کو اس کام پر ڈالا تاکہ ان کو برباد کریں اس میں سب سے بڑی بربادی یہ ہے کہ آخرت کے عذاب کے مستحق ہوئے اور ایک طرح سے دنیاوی بربادی بھی ہے کیونکہ جب اولاد زندہ نہ چھوڑی جائے گی تو آئندہ نسلیں بھی نہ چلیں گی اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے اس میں نسل انسانی کی بربادی بھی ہے۔ لِیُرْدُوْھُمْ (تاکہ انہیں برباد کریں) کے ساتھ (وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ ) بھی فرمایا (تاکہ وہ ان پر ان کے دین کو رلا ملا دیں) معالم التنزیل ج ٢ ص ١٢٤ میں حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ لیدخلوا علیھم الشک فی دینھم و کانوا علیٰ دین اسماعیل (علیہ السلام) فرجعوا عنہ بلبس الشیاطین۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو شیاطین نے ان کے دین کے بارے میں شک میں ڈال دیا یہ لوگ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے۔ شیاطین کی تلبیس کی وجہ سے اس دین کو چھوڑ بیٹھے۔ اس کے بعد مشرکین عرب کی ایک اور مشرکانہ حرکت کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ انہوں نے مویشیوں اور کھیتیوں کے بارے میں پابندیاں لگا رکھی تھیں وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں مویشی اور فلاں کھیتی کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں، وہ کہتے تھے کہ ان کو صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جن کو ہم چاہیں۔ اپنے خیال باطل کے موافق انہوں نے حرام حلال کے کچھ قوانین بنا رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جو چیز سب کے لیے حلال فرمائی اس کو بعض کے لیے حرام قرار دے دینا ظلم اور تعدی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قوانین میں دخل دینا ہے اس لیے اس کی قباحت بیان فرمائی۔ مشرکین عرب نے یہ بھی کر رکھا تھا کہ بعض جانوروں کو سواری کے لیے استعمال کرنا حرام قرار دے رکھا تھا جس کی کچھ تفسیر آیت کریمہ (مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآءِبَۃٍ وَلاَ وَصِیْلَۃٍ ) کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ یہ لوگ ان جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور ان پر سوار ہونے اور باربرداری کرنے کو حرام سمجھتے تھے اسی کو (وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُھُوْرُھَا) میں بیان فرمایا۔ (وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْکُرُوْنَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا افْتِرَآءً عَلَیْہِ ) پھر ان کی سزا کے بارے میں ارشاد فرمایا (سَیَجْزِیْھِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (اللہ تعالیٰ ان کو عنقریب سزا دے گا اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ) مشرکین عرب نے جو حرام حلال کے خود ساختہ قوانین بنا رکھے تھے ان میں سے یہ بھی تھا کہ بعض جانوروں کے پیٹوں میں جو حمل ہوتا تھا اس کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب بچہ زندہ پیدا ہوجائے اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوجاتا تو کہتے کہ اس کو مرد و عورت سب کھا سکتے ہیں۔ یعنی دونوں فریق کو اس کے کھانے کی اجازت ہے اس تحلیل اور تحریم کا قانون بھی انہوں نے خود یہ تجویز کر کھا تھا جسے (وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ھٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا) میں بیان فرمایا۔ ان کے ان باطل خیالات کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (سَیَجْزِیْھِمْ وَصْفَھُمْ اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ) (وہ انہیں عنقریب اس بات کی سزا دے گا جو وہ بیان کرتے ہیں بیشک وہ حکمت والا ہے علم والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

151 یہ غیر اللہ کی نذر ونیاز کی ایک تیسری شق کا بیان ہے۔ جس طرح مشرکین پھلوں، غلوں اور چوپایوں سے غیر اللہ کا حصہ نکالتے تھے اسی طرح وہ اپنی اولاد میں سے بھی بعض کو اپنے معبودوں کی نذر کو طور پر ذبح کرتے تھے۔ وقیل انھم کانواینذاحدھم اذا بلغ بنوہ عشرۃ نحر واحد منھم (روح ج 8 ص 32) ۔ شُرَکَاءُھُمْ ۔ زَیَّنَ کا فاعل اور قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ اس کا مفعول ہے۔ چونکہ معبودوں سے محبت و عقیدت ان سے یہ کام کراتی تھی اور اسی وجہ سے وہ اس کام کو عبادت سمجھتے تھے اس لیے مجازاً فعل تزیین کو شرکاء کی طرف منسوب کیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

137 اور جس طرح یہ شرکیہ تقسیم ان مشرکوں کی نظر میں مستحسن ہے اسی طرح ان کے معبود ان باطلہ یعنی جنات و شیاطین نے ان منکروں کی نظر میں اولاد کو قتل کرنا اور بتوں کے نام پر چڑھانا ناخوش نما اور مستحسن و مزین بنا رکھا ہے تاکہ وہ جنات ان مشرکین کو عذاب کی ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو مخلوط و مشتبہ کردیں یعنی دین ابراہیمی جو ان کا اصل دین تھا اس کو بدعات و محرمات کے ساتھ ایسا گڈ مڈ کردیں کہ حق و باطل کا امتیاز باقی نہ رہے اور اگر خدا چاہتا اور اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ مشرکین ایسا نہ کرتے پس اے پیغمبر آپ ان کو اور ان کی افترا پردازیوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے۔