Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 146

سورة الأنعام

وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا کُلَّ ذِیۡ ظُفُرٍ ۚ وَ مِنَ الۡبَقَرِ وَ الۡغَنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ شُحُوۡمَہُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتۡ ظُہُوۡرُہُمَاۤ اَوِ الۡحَوَایَاۤ اَوۡ مَا اخۡتَلَطَ بِعَظۡمٍ ؕ ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِبَغۡیِہِمۡ ۫ ۖوَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ ﴿۱۴۶﴾

And to those who are Jews We prohibited every animal of uncloven hoof; and of the cattle and the sheep We prohibited to them their fat, except what adheres to their backs or the entrails or what is joined with bone. [By] that We repaid them for their injustice. And indeed, We are truthful.

اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کر دی تھیں مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Foods that were Prohibited for the Jews Because of their Transgression Allah says, وَعَلَى الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ... And unto those who are Jews, We forbade every (animal) with undivided hoof, Allah says, We forbade for the Jews every bird and animal with undivided hoof, such as the camel, ostrich, duck and goose. Allah said here, ... وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا ... and We forbade them the fat of the ox and the sheep..., The Jews used to forbid these types of foods saying that Israil, or Yaqub, used to forbid them for himself so they too forbid them. This was mentioned by As-Suddi. ... إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا ... except what adheres to their backs, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said that it, refers to the fat that clings to their backs. Allah said next, ... أَوِ الْحَوَايَا ... or their Hawaya, According to Abu Jafar bin Jarir, that is, the entrails. He also said, "The meaning here is, `And from ox and sheep, We forbade their fat for the Jews, except the fat on their backs and what the entrails carry." Ali bin Abi Talhah said that, Ibn Abbas said that the, Hawaya, are the entrails. Similar was reported from Mujahid, Sa`id bin Jubayr and Ad-Dahhak. Allah's statement, ... أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ... ....or is mixed up with a bone. means, We allowed the Jews the fat that is mixed with bones. Ibn Jurayj commented, "The fat on the rump that is mixed with the tailbone was allowed for them, and also the fat on the legs, head, eyes and what adheres to the bones." As-Suddi said similarly. Allah said, ... ذَلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ... Thus We recompensed them for their rebellion. meaning, We imposed this restriction on them as recompense for their rebellion and defying Our commandments. Allah said in another Ayah, فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَـتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً For the wrongdoing of the Jews, We made unlawful for them certain good foods which had been lawful for them -- and for their hindering many from Allah's way. (4:160) Allah's statement, ... وِإِنَّا لَصَادِقُونَ And verily, We are Truthful. means, We were justified in the penalty We gave them. Ibn Jarir commented, "We are Truthful in what We informed you of, O Muhammad; Our forbidding these foods for them, not as they claimed, that Israel merely forbade these things for himself (so they imitated him, they claimed)." The Tricks of the Jews, and Allah's Curse Abdullah bin Abbas narrated, "When Umar bin Al-Khattab was told that Samurah sold liquor, he commented, `May Allah fight Samurah! Did he not know that the Messenger of Allah said, لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا May Allah curse the Jews! The fats were forbidden for them, so they melted the fat and sold it." This Hadith is recorded in the Two Sahihs. Jabir bin Abdullah said, "In the year of the victory of Makkah, I heard Allah's Messenger saying; إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالاْاَصْنَام Allah and His Messenger have forbidden selling alcoholic drinks (intoxicants), dead animals, swine and idols. He was asked, `What about the fat of dead animal; they are used to dye skins, paint ships and are used as light by the people.' He said, لاَا هُوَ حَرَام No, it is still unlawful. He then said, قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ إِنَّ اللهَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ وَأَكَلُوا ثَمَنَه May Allah fight the Jews! When Allah forbade them the fats of animals, they melted the fat, sold it and ate its price." The Group recorded this Hadith.

مزید تفصیل متعلقہ حلال و حرام ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں ، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ ، شتر مرغ ، بطخ وغیرہ ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو ۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے ۔ قتادہ کا قول ہے جیسے اونٹ ، شتر مرغ اور بہت سے پرند ، مچھلیاں ، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں ۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا ۔ اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی ۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا ، اس لئے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو ، انتڑیوں کے ساتھ ، اوجھڑی کے ساتھ ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی ، یہ بھی ان کے ظلم ، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نافرمانی کا انجام ، جیسے فرمان ہے آیت ( فبظلم من الذین ھادوا ) یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اسے نبی دی ہے ، وہی سچ اور حق ہے ۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا ، اس لئے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ نے فرمایا اللہ اسے غارت کرے ، کیا یہ نہیں جانتا کہ حضور نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا ۔ حضرت جابر بن عبداللہ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب ، مردار ، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام فرمائی ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے آپ نے فرمایا وہ بھی حرام ہے ۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے ، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی ( بخاری مسلم ) ایک مرتبہ آپ خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا! اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی ۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ایک مرتبہ آپ مسجد حرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا ( ابوداؤد ابن مردویہ مسند احمد ) حضرت اسامہ بن زید وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ کی عیادت کے لئے گئے اس وقت آپ عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے ، آپ نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا ، اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں ۔ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ 146۔ 2 یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتریوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی مقدار حلال تھی۔ 146۔ 3 یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔ 146۔ 4 اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٩] بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیائ :۔ حیوانی غذاؤں میں سے بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء کا بیان سورة آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ اور سورة نساء کی آیت نمبر ١٦٠ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ان سب آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہی چیزیں، جو شریعت محمدی میں حرام ہیں بنی اسرائیل پر بھی حرام تھیں۔ سورة آل عمران میں فرمایا کہ ان بنیادی چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ مگر وہ چیزیں جنہیں اسرائیل (سیدنا یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اور تورات کے زمانہ نزول تک یہی صورت حال تھی۔ مگر بنی اسرائیل ان چیزوں کو بھی حرام ہی سمجھتے رہے جنہیں سیدنا یعقوب نے اپنی بیماری یا طبیعت کی کراہت کی بنا پر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ تورات میں ان کی حرمت کا حکم موجود نہ تھا اور نہ ہی قرآن کے زمانہ نزول تک ایسا حکم تورات میں درج تھا۔ کیونکہ قرآن نے چیلنج کیا تھا کہ اگر تورات میں ان اشیاء کی حرمت کا ذکر موجود ہے تو تورات لا کر دکھا دو ۔ لیکن یہود نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور کی متداول تورات میں اضافہ ہے جو زمانہ مابعد میں کسی وقت کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چار بنیادی چیزوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی یہود پر حرام کی گئیں یعنی ہر ناخن والا جانور یعنی جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ یا ہر کھر والا جانور جیسے گورخر وغیرہ۔ اور گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کی گئی تھی۔ اور یہ چیزیں گو بنیادی طور پر حرام نہ تھیں تاہم ان کی سرکشی کی پاداش میں حرام کی گئیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشیاء سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے بہت بعد کسی وقت حرام کی گئی تھیں۔ اور زمانہ نزول قرآن تک تو تورات میں ان چیزوں کی حرمت کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں ایسی حرام چیزیں بھی تورات میں شامل کردی گئیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ۔۔ : ہر ناخن والے جانور سے مراد وہ جانور یا پرندہ ہے جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی، یعنی الگ الگ نہ ہوں، مثلاً اونٹ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ، یعنی صرف وہ پرندے یا جانور حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ اَوِ الْحَوَايَآ : یہ ” حَوِیَّۃٌ“ کی جمع ہے جیسے ” عِطْیَۃٌ“ کی جمع ” عَطَایَا “ اور ” خِطْیَۃٌ“ کی جمع ” خَطَایَا “ ہے، یا یہ ” حَاوِیَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” ضَارِبَۃٌ“ کی جمع ” ضَوَارِبٌ“ مطلب وہ انتڑیاں جن میں مینگنیاں ہوتی ہیں۔ ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ : یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حرام نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں، البتہ یہودیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انھیں وقتی طور پر حرام کردیا تھا۔ (دیکھیے نساء : ١٦٠) مقصد یہودیوں کے اس دعوے کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی، سوائے ان چیزوں کے جو اسرائیل ( یعقوب (علیہ السلام ) نے خود اپنے آپ پر حرام کرلی تھیں۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) اور ” َاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ “ (بلاشبہ ہم یقیناً سچے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعویٰ غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے، نیز دیکھیے سورة آل عمران (٩٣) ۔ مگر یہودیوں نے حیلے سے چربی کی ایک صورت حلال کر ہی لی۔ جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتح مکہ کے سال مکہ میں سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ یہود کو برباد کرے، جب ان کے لیے چربیوں کو حرام کیا گیا تو انھوں نے انھیں پگھلایا اور پھر ان کی قیمت کھا گئے۔ “ [ بخاری، البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام : ٢٢٣٦ ] یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کل کئی مسلمان شراب خود نہیں پیتے اور خنزیر کا گوشت وغیرہ خود نہیں کھاتے، مگر کفار کے ہاتھوں بیچ کر قیمت کھا جاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَلَي الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ۝ ٠ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَــوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِبَغْيِہِمْ۝ ٠ ۡ ۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝ ١٤٦ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ ظفر الظُّفْرُ يقال في الإنسان وفي غيره، قال تعالی: وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، أي : ذي مخالب، ويعبّر عن السّلاح به تشبيها بِظُفُرِ الطائرِ ، إذ هو له بمنزلة السّلاح، ويقال : فلان كَلِيلُ الظُّفُرِ ، وظَفَرَهُ فلانٌ: نشب ظُفُرَهُ فيه، وهو أَظْفَرُ : طویلُ الظُّفُرِ ، والظَّفَرَةُ : جُلَيْدَةٌ يُغَشَّى البصرُ بها تشبيها بِالظُّفُرِ في الصّلابة، يقال : ظَفِرَتْ عينُهُ ، والظَّفَرُ : الفوزُ ، وأصله من : ظَفِرَ عليه . أي : نشب ظُفْرُهُ فيه . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح/ 24] . ( ظ ف ر ) الظفر ( ناخن ) یہ لفظ انسان اور دوسرے جانوروں کے ناخن پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] تمام ناخن دار جانور میں ذی ظفر سے ذی مخلب یعنی پختہ دار شکار ی جانور مراد ہیں اور پرندہ کا ناخن چونکہ اس کا اوزار ہوتا ہے اس منا سبت سے ظفر کا لفظ سلاح یعنی ہتھیار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان کلیل الظفر فلاں کند ہتھیار یعنی کمزور ہے ۔ ظفر ہ فلان فلاں نے اس میں اپنے ناخن گاڑ دیئے ۔ الاظفر لمبے ناخن والا ۔ الظفرۃ ( ناخنہ چشم ایک قسم کی جھلی جو آنکھ کو ڈھانپ لیتی ہے اور ماخن کی طرح سخت ہوتی ہے ۔ ظفرت عینہ اس کی آنکھ پر ناخنہ چھا گیا ۔ الظفر : کامیاب ہونا یہ مفہوم دراصل ظفرہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ناخن گاڑ دینے کے ہیں ۔ اطفرہ کامیاب کردینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح/ 24] اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح یاب کردیا ۔ غنم الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] . ( غ ن م ) الغنم بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔ شحم قال تعالی: حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما إِلَّا ما حَمَلَتْ ظُهُورُهُما[ الأنعام/ 146] . وشَحْمَةُ الأذن : معلّق القرط لتصوّره بصورة الشَّحْمِ ، وشَحْمَةُ الأرض لدودة بيضاء، ورجل مُشْحِمٌ: كثر عنده الشّحم، وشَحِمٌ: محبّ للشّحم، وشَاحِمٌ: يطعمه أصحابه «3» ، وشَحِيمٌ: كثر علی بدنه . ( ش ح م ) الشحم ( چربی ج شحوم ) قرآن میں ہے : حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما إِلَّا ما حَمَلَتْ ظُهُورُهُما[ الأنعام/ 146] ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ کان کا نرم حصہ جس میں بالیاں پہنی جاتی ہیں ۔ یہ نرم ہونے کے لحاظ سے چونکہ چربی جیسا ہوتا ہے اس لئے اسے شحمۃ کہا جاتا ہے اور شحمۃ الارض ( کیچوا) گرگٹ کی قسم کا ایک جانور جو زمین یا ریت میں گھس کر رہتا ہے ۔ رجل مشحم گھر میں بہت زیادہ چربی رکھنے والا ۔ شحم چربی کھانے کا حریص ۔ لیکن جو اپنے دوستوں کو بہت چربی کھلانے والا ہو اسے شاحم کہا جاتا ہے ۔ اور شحیم کے معنی موٹے تازے اور چربی دار کے ہیں ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ ظهر الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ( ظ ھ ر ) الظھر کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا حوایا الحَوَايَا : جمع حَوِيَّة، وهي الأمعاء ويقال للکساء الذي يلفّ به السّنام : حويّة، وأصله من : حَوَيْتُ كذا حَيّاً وحَوَايَةً «قال اللہ تعالی: أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام/ 146] قوله عزّ وجلّ : فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی/ 5] ، أي : شدید السّواد وذلک إشارة إلى الدّرين نحو : وطال حبس بالدّرين الأسود وقیل تقدیره : والّذي أخرج المرعی أحوی، فجعله غثاء، والحُوَّة : شدّة الخضرة، وقد احْوَوَى يَحْوَوِي احْوِوَاءً ، نحو ارعوی، وقیل ليس لهما نظیر، وحَوَى حُوَّةً ، ومنه : أَحْوَى وحَوَّاء ( ح و ی ) الحوایا ( انتڑیاں ) یہ حویۃ کی جمع ہے جس کے معنی آنت کے ہیں قرآن میں ہے ۔ أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام/ 146] یا انتڑیوں میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو ۔ اور حویۃ اس کمبل کو بھی کہتے ہیں جو اونٹ کی کوہان کے ارد گرد لپٹا جاتا ہے ۔ یہ اصل میں حویت ( ض ) حیا وحویۃ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ الاحویٰ کالا سیاہ مائل بہ سبزی یہ حوۃ سے مشتق ہے جس کے معنی سبزی مائل سیاہی ہیں اور اس کا باب احوویٰ یحوویٰ احوواء آتا ہے جیسے ادعویٰ بعض نے کہا ہے کہ اس وزن پر یہ دو باب ہی آتے ہیں ولا ثالث نھما حوی ہے جس کے معنی سخت سیاہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی/ 5] پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا ۔ یہاں احویٰ سے مراد وہ گھا س جو پرانی بوسیدہ ہوکر سیاہ پڑجائے ۔ جس کے متعلق شاعر نے کہا ہے ع محبوس ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت کی ترتیب اصل یہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ سبز چارہ اگاتا ہے ہے پھر اس کو کوڑا بنا دیتا ہے ۔ خلط الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی: فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] ، ( خ ل ط ) الخلط ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ناخن والے جانور قول باری ہے (وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی تھی ان پر ہم نے ناخن والے تمام جانور حرام کردیے تھے) تا آخر آیت۔ حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن حبیر، قتادہ ، سدی اور مجاہد کا قول ہے کہ اس سے ہر وہ جانور مراد ہے جس کی انگلیاں کھلی نہیں ہوتیں مثلاً اونٹ، شتر مرغ، بطخ اور مرغابی وغیرہ۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس میں درندوں کی تمام قسمیں نیز کتے، بلیاں اور وہ تمام پرندے شامل ہیں جو اپنے ناخنوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین کی زبان سے ان امتوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان چیزوں کی تحریم ثابت ہوچکی ہے۔ تحریم کا یہ حکم ہمارے لیے بھی بایں معنی ثابت ہے کہ یہ اب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا جزو بن گیا ہے الا یہ کہ اس حکم کا نسخ ثابت ہوجائے۔ جب کتوں اور درندوں وغیرہ کی تحریم کا نسخ ثابت نہیں ہوا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے شروع میں ان چیزوں کو جس طرح حرام قرار دیا تھا اسی طرح یہ اب بھی حرام رہیں اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا حصہ بن جائیں۔ چربی کا حکم قول باری ہے ( حرمنا علیھم شحو مھما الا ما حملت ظھورھما ہم نے گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کردی تھی بجز اس ک جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) اگر کوئی شخص چربی نہ کھانے کی قسم کھالے اور پھر وہ پرندے کی چربی کھالے تو مام ایوسف اور امام محمد کے نزدیک وہ حانث ہوجائے گا ان کا استدلال درج بالا آیت سے ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجموعی تحریم سے گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی ہوئی چربی کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک پیٹھ پر لگی ہوئی چربی کو عادۃً چربی نہیں کہا جاتا بلکہچربیدار گوشت کہا جاتا ہے۔ اس چربی کو چربی کا اسم علیٰ الاطلاق شامل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ اسے چربی کے نام سے پکارا ہے لیکن یہ چربی نہ کھانے کی قسم میں داخل نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کے لیے یہ نام متعارف نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو گوشت کا اور سورج کو چراغ کا نام دیا ہے لیکن گوشت نہ کھانے کی قسم کے تحت یہ دونوں چیزیں نہیں آتیں، آیت میں وارد لفظ الحوایا کے متعلق حضرب ابن عباس (رض) ، حس، سعید بن جبیر، قتادہ ، مجاہد اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے مینگنی نکلنے کا عضو مراد ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے نبات اللبن یعنی تھن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے آنتیں مراد ہیں جن پر چربی لگی ہوتی ہے۔ قول باری ہے ( اوما احتلط بعظم یا جو ہڈی سے لگی رہ جائے) سدی اور ابن جریج سے منقول ہے کہ اس سے پہلو میں لگی ہوئی چربی اور دنبے کی چکتی مراد ہے اس لیے کہ یہ دونوں ہڈی پر ہوتی ہیں۔ ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ حرف ” او “ جب نفی پر داخل ہوتا ہے تو اپنے مدخوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ نفی کا مقتضی ہوتا ہے۔ آیت میں اس کی دلیل موجود ہے اس لیے کہ قول باری ( الا ما حملت ظھورھما او الحوایا او ما اختلظ بعظم) میں سب کی تحریم کی نفی ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( ولا تطع منھم اثما او کفورا) اس میں گنہگار اور کافر میں سے ہر ایک کی پیروی کی نہی ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی اس شخص کے بارے میں جس نے یہ قسم کھائی ہو کہ میں فلاں سے فلاں سے بات نہیں کروں گا۔ یہی قول ہے کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی بات کرلے گا حانث ہوجائے گا اس لیے کہ اس نے ان میں سے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ بات نہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٦) اور یہود پر اس نے تمام شکاری پرندے اور درندے حرام کردیے تھے یا یہ کہ تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے جیسا کہ اونٹ بطخ، مرغابی خوگوش وغیرہ اور گائے، بکری کی چربی ان پر حرام کردی تھی بجز اس چربی کے جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں پر ہو یا ہڈی سے لگی ہو وہ ان پر حلال تھی ان کے گناہوں کی وجہ سے بطور سزا کے ہم نے ان پر یہ حرام کردی تھی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ج) ۔ کچھ جانوروں کے پاؤں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ جیسے گائے ‘ بکری وغیرہ ‘ جب کہ کچھ جانوروں کا ایک ہی پاؤں (کھر) ہوتا ہے۔ ایسے ایک کھر والے جانور مثلاً گھوڑا ‘ گدھا وغیرہ یہودیوں پر حرام کردیے گئے تھے۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں ‘ یہودیوں پر جو چیزیں حرام کی گئیں تھیں ‘ ان میں سے بعض تو اصلاً حرام تھیں مگر کچھ چیزیں ان کی شرارتوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے بطور سزا ان کے لیے حرام کردی گئی تھیں۔ (وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ط) ۔ (ذٰلِکَ جَزَیْنٰہُمْ بِبَغْیِہِ مْز) یعنی اس قسم کے جانوروں کی عام کھلی چربی ان کے لیے حرام تھی۔ لیکن یہ حکم آسمانی شریعت کا مستقل حصہ نہیں تھا ‘ بلکہ ان کی شرارتوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے یہ تنگی ان پر بطور سزا کی گئی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

122. This is discussed at three places in the Qur'an. (Surah AI 'Imran 3:93 ) states: 'All food was lawful to the Children of Israel except what Israel made unlawful to themselves before the revelation of the Torah. Tell them: "Bring the Torah and recite any passage of it if you are truthful".' (Surah al-Nisa' 4:160) mentions that because of the misdeeds of the Children of Israel: 'We forbade them many clean things which had earlier been made lawful to them.' And now the present verse says that because of the transgression of the Jews, God forbade unto them 'all beasts with claws; and the fat of oxen and the sheep except the fat which is either on their backs or their entrails or that which sticks to the bones'. If these three verses are taken together, it becomes clear that the differences between Islamic law and Jewish law with regard to what is lawful and what is unlawful in animal foods stem from two considerations. First, that several centuries before the revelation of the Torah, Isra'il (Jacob, peace be on him) had given up the use of certain things, which his descendants also abstained from consuming. The result was that Jewish jurists considered them to be absolutely unlawful and recorded their prohibition in the Torah. They included the camel, the hare and the rock-badger, the prohibition of which is mentioned in the fragments of the Torah embodied in the Bible. (See Leviticus ll: 4; Deuteronomy 14: 7) But the Our'an challenges the Jews to come forward with the Torah itself and show where any of those things had been declared unlawful. Their inability to do so shows that those interdictions must have been later interpolations into the Torah. Second, when the Jews rebelled against the Law revealed by God and set themselves up as their own law-givers, they made several things unlawful for themselves, and as a punishment God allowed them to remain a prey to that misunderstanding. These include birds with claws such as the ostrich, seagull and water-hen, and also the fat of oxen and sheep. In the Bible prohibitions of these kinds have been interpolated among the injunctions of the Torah. (See Leviticus 3:17; 7:22-3; ll:16-18; Deuteronomy 14:14-16.) But (Surah al-Nisa' 4:160) shows that those things had not been made unlawful by the Torah itself. They had rather been prohibited after the time of Jesus, and history bears witness to the fact that the present Jewish law was given a definitive formulation by the Jewish jurist, Yehudah, towards the end of the second century of the Christian calendar. It might be asked in view of what has been mentioned above, why the expression 'We forbade for them' is employed in (Surah al-Nisa' 4:160) The answer is that declaration through a Prophet or a heavenly Book is not God's only way of prohibiting. Another way is to allow fraudulent law-makers and sham jurists to gain predominating influence upon God's rebels. These in turn deprive them of many good, clean things of life by making them believe that they are prohibited. The first kind of prohibition is an act of His mercy, whereas the second kind is in the nature of a curse and punishment from God.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :122 یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سورہ آل عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں ( جو شریعت محمدی میں حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت اگر تم ( اپنے اعتراض میں ) سچے ہو“ ۔ ( آیت ۹۳ ) ۔ پھر سورہ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر” ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“ ۔ ( آیت ۱٦۰ ) ۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھہرا دی ۔ ان تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے : ایک یہ کہ نزول توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام ( اسرائیل ) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی ، حتٰی کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت توراۃ میں لکھ لی ۔ ان اشیاء میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں ۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ( احبار ٤:۱۱ – ٦ – استثناء ۷:۱٤ ) ۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے ۔ دوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا ۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مرغ ، قاز ، بط وغیرہ ۔ دوسرے گائے اور بکری کی چربی ۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے ۔ ( احبار ۱٦:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱٤:۱٤ – ۱۵ – ۱٦ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳ ) ۔ لیکن سورہ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دوسری صدی عیسوی کے آخر میں ربی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا ( ہم نے حرام کیا ) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے ۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں ۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر ذکر تھا کہ حرام وہی چیز ہے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے حرام کیا کسی انسان کو کسی چیز کے حرام ٹھہرانے کا اختیار نہیں ہے اس پر قریش نے یہ اعتراض کیا کہ جو چیزیں یہود اب تک نہیں کھاتے ان کے نہ کھانے کا یہ سبب بتلاتے ہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے وہ چزیں اپنے اوپر حرام ٹھہرائی تھیں اس لئے ہم لوگ بھی وہ چیزیں نہیں کھاتے پھر یہ بات کیونکر سچی ہوسکتی ہے کہ انسان کو کسی چیز کے حرام ٹھہرانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو چیزیں یہود نہیں کھاتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کا ذکر اس آیت میں فرما کر قریش کے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ یہود نے جب کوئی گناہ کیا تو وقت بوقت اس گناہ کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے نبی کی معرفت یہ چیزیں یہود پر حرام کی ہیں یہود کا یہ کہنا بالکل غلط کہ یعقوب (علیہ السلام) نے یہ چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں تھیں پھر فرمایا اللہ سچا ہے اور اللہ کے کلام کے برخلاف یہود نے جو بات مشہور کر رکھی ہے وہ سراپا جھوٹ ہے ذی ظفر وہ جانور ہیں جن کا انگلیاں الگ الگ نہ ہوں مثلا جیسے چرندوں میں اونٹ اور پرندوں میں بطخ اس طرح کے سب چرند پرند یہود پر حرام تھے علاوہ اس کے ان پر گائے ‘ بکر کی انتڑیوں اور گردوں پر کی چربی بھی حرام تھی انہی چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہے۔ صحیح بخاری مسلم اور ترمذی میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی بڑی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایمان دار آدمی کو جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ آدمی کو ایسے راستہ سے لگا دیتا ہے کہ جس کا انجام دوزخ ہے یہود کے جھوٹ کا جو اس آیت میں ذکر ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی جھوٹ کی عادت نے انہیں ایسے راستہ لگایا جس کے سبب سے انہوں نے تورات میں جھوٹی باتیں ملا کر عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان اور نبیوں کی نبوت کا انکار کیا جس سے اہل کتاب ہو کر وہ کا فربن گئے اور قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اس کا انجام دوزخ فرمایا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:146) ھادوا ماضی جمع مذکر غائب ھود مصدر (باب نصر) یہودی ہوئے یعنی جو یہودی ہیں ھود یہودیوں کی جماعت۔ ذی ظفر۔ جس کے نیچے ہوں۔ پنجہ والے شکار کرنے والے جانور۔ ظفر۔ ناخن۔ خواہ انسان کا ہو یا حیوان کا۔ لیکن آیۃ ہذا میں پنجہ والے شکاری جانور مرا د ہیں۔ الغنم۔ اسم جنس۔ بکری ۔ بکریاں۔ شحومھما۔ ان دونوں (گائے اور بکری) کی چربی۔ شخوم ۔ شحم کی جمع ہے۔ الحوایا۔ انتڑیاں۔ آنتیں۔ حویۃ کی جمع۔ اختلط بعظم۔ او اختلط بعظم۔ ای ما لصق بالعضام من الشحوم۔ وہ چربی جو ہڈیوں سے چمٹی ہوئی ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 امت محمد یہ پر جو چیزیں حرام ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد اب یہود پر حرام کی ہوئی چیزوں کو طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے مقصد ان کی تردید ہے (قرطبی) کل ذی ظفر سے مراد ہر وہ جانور اور پرند ہے جس کی انگلیاں بھٹی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ بطخ وغیرہ، (روح المعانی) اور بعض نے اس سے سم درا چوپائے جیسے گھو ڑا گدھا وغیرہ) اور شکاری پر ندے سے مراد لیے ہیں جو پنجہ سے شکار کرتے ہیں۔ ّقرطبی)6 او بمعنی الواؤ۔ یعنی ان چار چیزوں کے علاوہ یہود پر یہ چیزیں بھی حرام کردی گئی تھیں7 یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی میں حرام نہیں ہیں اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں البتہ یہود یوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انہیں وقتی طور پر حرام کردیا تھا، ( دیکھئے سورة نسا آیت 23) مقصد یہود یوں کے اس دعوی ٰ کی تر دید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی ماسوا ان چیزوں کے جو اسرائیل (یعقوب ( علیہ السلام) نے از خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، (قر طبی۔ ابن کثیر) اور انا لصادقون ( اور ہم سچ کہتے ہیں۔ ) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعوی غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ( نیز دیکھئے سورة آل عمران آیت 93)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 18 ۔ آیات نمبر 146 ۔ تا۔ 151 اسرار و معارف : آپ انہیں فرما دیجیے کہ مجھے تو اللہ کریم نے وحی سے مشرف فرمایا ہے جو علم کا سب سے اعلی ذریعہ ہے مگر اس میں تمہاری خرافات کی تائید نہیں ملتی بلکہ سیدھی سیدھی بات ہے کہ مردار حرام ہے یعنی وہ جانور جو مردار قرار دئیے گئے اور ذبح سے بھی حلال نہیں ہوتے یا وہ حلال جانور جو بغیر ذبح کے مر جائے یا پھر بہتا ہوا خون اور خنزیر حرام ہے کہ یہ سخت ناپاک ہے یا پھر اس جانور کا گوشت حرام ہے جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام پہ ذبح ہو اور حرام مرد عورت سب کے لیے برابر ہے سوائے اس کے کہ کوئی جان بچانے کے لیے اس قدر کھالے کہ موت سے بچ جائے پیٹ بھرنے یا لذت کے لیے نہ ہو تو اللہ کریم خطائیں معاف فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ یا پھر اس سے پہلے اللہ کریم کی اطلاع کے مطابق پہلی امتوں میں سے یہود پر بکری یا گائے وغیرہ کی چربی اس حال میں ھرام کردی گئی تھی کہ جانور درست ذبح کیا گیا ہو مگر وہ چربی جو پشت پر یا انتڑیوں پر لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہوئی ہو حرام نہ تھی اس کے علاوہ ہر طرح کی چربی حرام تھی یہ تنگی بھی ان کی اپنی لائی ہوئی تھی کہ احکام الہی پر عمل کرنے کی بجائے میں میخ نکالنے لگ جاتے تھے تو پابندیاں بڑھتی گئیں اور ان کی شرارتیں خود ان کے لیے وبال بن گئیں اور اللہ کریم ہی کی بات بلاشبہ سچی ہوتی ہے۔ اگر یہ مھض اس بات پر آپ کی تکذیب کریں کہ ہم مان تو رہے نہیں پھر ہم پر ہلاکت کا عذاب کیوں نہیں آتا تو کہہ دیجئے تمہارا پالنے والا بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے وہ کیسے کیسے گناہوں پر درگزر فرمتا ہے اور مہلت دیتا رہتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھو اگر تم باز نہ آئے تو جرم کا خاصہ ہے کہ اس پر عذاب مرتب ہوتا ہے کوئی طاقت اس قانون کو تبدیل نہیں کرسکتی کہ وہ مجرموں سے عذاب ہٹا دے۔ یہ تو ایسا بھی کہیں گے کہ اللہ کو منظور نہ ہوتا تو ہم کیسے شرک کرسکتے تھے یا ہمارے آباؤ اجداد کیسے یہ کام کرسکتے تھے کہ اپنی طرف سے چیزوں کو حرام و حلال قرار دیں یہ ایسا دھوکا ہے جو ان سے پہلے کافروں کو بھی لگا اور وہ بھی یہی کہتے تھے حتی کہ یہی کہتے کہتے تباہ ہوگئے اور عذاب الہی میں گرفتار ہوئے ان سے کہیے اس بات پہ کوئی علمی دلیل بھی ہے اگر ایسا ہے تو پیش کرو ورنہ یہ بات تو ظاہ رہے کہ مت محض گمان اور تخمینے پر گمراہ ہو رہے ہو اللہ کریم نے تو حجت تمام کردی ایسی کہ تم لاجواب ہوجاؤگے اس نے بتادیا کہ دنیادار عمل ہے نیکی اور بدی واضح ہے انبیاء نے ہر دور میں اور ہر قوم تک یہ وضاحت پہنچا دی اب اگر کوئی نیکی کا راستہ چھوڑ کر برائی پہ چلتا ہے تو یہ اس کا اپنا کام ہے اس بات پہ خوش نہ ہو کہ اللہ مجھ سے کروا رہا ہے ہاں اگر تم اللہ کریم سے تعلق پیدا کرتے اس کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ چاہتا تو یقیناً سب کو ہدایت نصیب ہوسکتی تھی مگر پیروی تو شیطان کی کرو اور الزام اللہ کریم کو دو یہ درست نہیں۔ ہاں اگر تمہارے پاس شہادت ہے تو میدان میں لاؤ کہ جو چیزیں تم حرام سمجھتے ہو یہ اللہ نے حرام کی ہیں کوئی ایسا گواہ جو چشم دید گواہ کی طرح ثابت کردے لیکن اے میرے حبیب اگر یہ اتنا بڑا جھوٹ بولنے پہ بھی تیار ہوجائیں تو آپ کے پاس اللہ کی وحی آتی ہے آپ کا علم یقینی ہے ان کی بات کا ہرگز اعتبار نہ کریں۔ رسومات بد کی قباحت : جو لوگ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں یعنی اپنی طرف سے رسومات ایجاد کرکے انہیں ثواب کا باعث جانتے اور عباد ت کا درجہ دیتے ہیں یہ کب اس قابل ہیں کہ آپ ان کی بات پر توجہ دیں ایسے لوگوں کی کسی بات کا اعتبار نہ کریں کہ انہیں نہ قیامت کا یقین ہے اور نہ توحید کی عظمت سے آشنا ہیں بلکہ اللہ کے برابر دوسروں کو بھی جانتے ہیں اپنی ضروریات ان سے طلب کرتے ہیں اور غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے رسومات ایجاد کرکے انہیں دین سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 146 تا 147 : ذی ظفر ( ناخن والا جانور) شحوم ( چربیاں) حملت (اٹھائے ہے) الحوایا ( حویۃ) انتڑیاں ‘ اختلط (مل گیا) عظم ( ہڈی) جزینا ( ہم نے بدلہ دیا) ‘ ببغیھم ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) ذورحمۃ ( رحمت والا) واسعۃ (وسعت والا۔ گنجائس والا) لا یرد باسہ ( اس کا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا) ۔ تشریح : آیت نمبر 146 تا 147 : جن کافروں اور مشرکوں نے وحی جلی یا وحی خفی کی سند کے بغیر چند غذائیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں ان کو نصیحت ہے کہ : یہ جو کچھ تم نے خود بخود کرلیا ( یعنی حلال کو حرام کربیٹھے یا اس کے برعکس) یہ بھی اللہ کا عذاب ہے۔ تم نے جو قرآن وحدیث سے بغاوت کی ہے اور آپ اپنے شارع بن گئے یہ اسی کی سزا ہے۔ اللہ کی سزا کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ تم سے اپنی کچھ نعمتیں چھین لے اور تم ہی اپنے آپ حلال کو حرام کر بیٹھو۔ سورة نساء آیت 160 میں آیا ہے بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں۔ حرام کا حکم اگر قرآن یا حدیث کے ذریعے آئے رحمت ہے۔ لیکن اگر کسی اور ذریعے سے آئے اور لوگ خود بخود اپنے شوق سے کچھ نعمتوں کا دروازہ اپنے آپ پر بند کرلیں تو یہ در پردہ سزائے الٰہی ہے۔ یہاں بتایا جارہا ہے کہ یہود پر جو پابندیاں لگی تھیں وہ ان کی بغاوت کی سزا تھی۔ آگے فرمایا ہے کہ اے مجرمو ! اب بھی اگر تم باغیانہ روش سے باز آجائو تو اللہ کی رحمت وسیع و بسیط ہے۔ لیکن اگر ضد پر اکڑے رہے تو عذاب تمہارا مقدر ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں پر ان کی بغاوت کی وجہ سے بعض چیزیں حرام کردی گئی تھیں : پھر بعض ان چیزوں کا تذکرہ فرمایا جو یہودیوں پر حرام کردی گئی تھیں جو امت محمدیہ کے لیے حلال ہیں۔ ان حرام کردہ چیزوں میں اول تو وہ جانور تھے جو ناخن والے ہیں۔ ناخن والے جانوروں سے وہ جانور مراد ہیں جن کا پنجہ یا کھر پھٹا ہوا نہ ہو۔ جیسے اونٹ اور شتر مرغ، مرغابی اور بطخ۔ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت قتادہ اور حضرت مجاہد نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ اونٹ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ ملت ابراہیمیہ میں یہ حلال تھا پھر حضرت اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کو اپنے نفس پر حرام قرار دیدیا تھا پھر روایتی طور پر ان کی اولاد میں اونٹ کی حرمت چلی آئی۔ پھر شریعت موسویہ میں بھی بنی اسرائیل پر اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام رہا (قال النسفی فی المدارک فلما نزلت التوراۃ علی موسیٰ حرم علیھم فیھا لحوم الابل و البانھا لتحریم اسرائیل ذالک علی نفسہ (راجع تفسیر قولہ تعالیٰ کُلُّ الطَّعَامِ کَان حلاًّ لِّبَنِیْْْٓ اِسْرَآءِیْلَ الآیۃ پھر فرمایا (وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ شُحُوْمَھُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُھُوْرُھُمَآ اَوِ الْحَوَایَآ ١ ؂ اَوْمَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ) گایوں اور بکریوں کا گوشت تو یہودیوں کے لیے حلال تھا البتہ ان کی چربیاں حلال نہ تھیں صرف وہ چربی حلال تھی جو ان کی پشت پر ہو یا ان کی آنتوں میں لگی ہوئی ہو یا جو ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ پھر فرمایا (ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ ) کہ ہم نے ان کو یہ سزا ان کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے دی۔ (وََ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ) اور بلاشبہ ہم سچے ہیں۔ یہ مضمون سورة نساء میں بھی گزر چکا ہے (انوار البیان جلد اول) وہاں ارشاد ہے۔ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیّْبٰتٍ اُحِلَّتْ لَھُمْ ) (سو ہم نے یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کردیں پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرنا اور گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنا پاکیزہ چیزوں سے محرومی کا سبب ہے۔ یہودیوں پر تو تشریعی طور پر پاکیزہ چیزیں حرام کردی تھیں لیکن خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہوجانے کی وجہ سے اب تشریعی طور پر کوئی حلال چیز حرام نہیں ہوسکتی۔ لعدم احتمال النسخ البتہ تکوینی طور پر طیبات سے محرومی ہوسکتی ہے۔ اور ہوتی رہتی ہے جس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اس کے اسباب مختلف بن جاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

163:۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر ان چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہیں تو ہر ذی ظفر (کھر والا) جانور جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں اور گائے اور بکری کے بعض حصے یہود پر کیوں حرام کیے گئے تو اس کا جواب دیا گیا کہ ان چیزوں کی حرمت نہ سب کے لیے تھی نہ ابدی تھی۔ بلکہ یہ چیزیں تو صرف یہود پر بطور سزا حرام کی گئیں جیسا کہ فرمایا :۔ ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ یعنی یہ چیزیں ہم نے ان پر ان کی سرکشی اور ان کے کفر وعناد کی سزا کے طور پر حرام کی تھیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

146 اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان یہود پر حرام کردی تھیں مگر ہاں وہ چربی اس حکم سے مستثنیٰ تھی جو ان دونوں کی پیٹھ پر یا ان دونوں کی آنتوں اور انتڑیوں میں لگی ہوئی ہو یا جو چربی ان کی ہڈی سے ملی ہوئی ہو یہ حرام کرنا ان یہود کو ان کی شرارت اور سرکشی کی وجہ سے سزا دی تھی اور یقینا ہم سچے اور راست گو ہیں یعنی ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہیں جن کے انگلیاں ہوں خواہ ان انگلیوں کے درمیان فرجہ ہو جیسے درندے مثلاً کتا بلی وغیرہ یا درمیان میں فرجہ نہ ہو جیسے شتر مرغ ، مرغابی اور ربط گائے اور بکری کی چربی بھی سوائے تین مقامات کے باقی جگہ کی حرام کردی گئی تھی یہ ان کی سرکشی کا نتیجہ اور بطور سزا کے حکم دیا گیا تھا اور حرمت کو عام کردیا گیا تھا اور یہ قاعدہ ہے کہ نعمتوں کی بےقدری کرنے والوں سے نعمت سلب کرلی جاتی ہے۔