Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 148

سورة الأنعام

سَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ شَیۡءٍ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ حَتّٰی ذَاقُوۡا بَاۡسَنَا ؕ قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ فَتُخۡرِجُوۡہُ لَنَا ؕ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَخۡرُصُوۡنَ ﴿۱۴۸﴾

Those who associated with Allah will say, "If Allah had willed, we would not have associated [anything] and neither would our fathers, nor would we have prohibited anything." Likewise did those before deny until they tasted Our punishment. Say, "Do you have any knowledge that you can produce for us? You follow not except assumption, and you are not but falsifying."

یہ مشرکین ( یوں ) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا کہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A False Notion and its Rebuttal Allah tells; سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ ... Those who committed Shirk say: Here Allah mentioned a debate with the idolators, refuting a false notion they have over their Shirk and the things that they prohibited. They said, surely, Allah has full knowledge of the Shirk we indulge in, and that we forbid some kinds of wealth. Allah is able to change this Shirk by directing us to the faith, - they claimed - and prevent us from falling into disbelief, but He did not do that. Therefore - they said Allah indicated that He willed, decided and agreed that we do all this. They said, ... لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ ابَاوُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ... "If Allah had willed, we would not have taken partners (in worship) with Him, nor would our fathers, and we would not have forbidden anything." Allah said in another Ayah, وَقَالُواْ لَوْ شَأءَ الرَّحْمَـنُ مَا عَبَدْنَـهُمْ And they said: "If it had been the will of the Most Gracious (Allah), we should not have worshipped them (false deities)." (43:20) Similar is mentioned in Surah An-Nahl. Allah said next, ... كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم ... Likewise belied those who were before them, for by using and relying on this understanding, the misguided ones before them were led astray. This notion is false and ungrounded, for had it been true, Allah would not have harmed them, destroyed them, aided His honorable Messengers over them, and made them taste His painful punishment. ... حَتَّى ذَاقُواْ بَأْسَنَا ... till they tasted Our wrath. ... قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ ... Say: "Have you any knowledge..." that Allah is pleased with you and with your ways, ... فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ... that you can produce before us. and make it plain, apparent and clear for us. However, ... إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ ... Verily, you only follow the Zann, doubts and wishful thinking, ... وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ and you do nothing but lie. about Allah in the false claims that you utter. Allah said next, قُلْ فَلِلّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

غلط سوچ سے باز رہو مشرک لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ کو معلوم ہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے ۔ اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے یا کفر کے کاموں کی ہمیں قدرت ہی نہ دے پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ جاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے ، جیسے ان کا یہی قول آیت ( لوشاء الرحمن ) میں اور سورۃ نحل میں ہے ۔ اللہ فرماتا ہے اسی شبہ نے ان سے پہلی قوموں کو تباہ کر دیا اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان کے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے؟ رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ یوں ہٹا دیئے جاتے ؟ اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضامندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو ۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکل پچو باتیں اللہ کے ذمے گھڑ لیتے ہو ۔ وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے ، ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے ، ہدایت و گمراہی کی تقسیم میں بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے ، سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مومنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے ، فرمان ہے آیت ( وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَي الْهُدٰي فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) 35- الانعام:6 ) اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو راہ حق پر جمع کر دیتا اور آیت میں ہے اگر تیرے رب کی چاہت ہوتی تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دیتا ، یہ تو اختلاف سے نہیں ہٹیں گے سوائے ان لوگوں کے جن پر تیرا رب رحم کرے بلکہ انہیں اللہ نے اسی لئے پیدا کیا ہے تیرے رب کی یہ بات حق ہے کہ میں جنات اور انسان سے جہنم کو پر کر دونگا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نافرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے ، تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو ۔ اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا ۔ ان منکرین قیامت ، منکرین کلام اللہ شریف کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے۔ 148۔ 2 اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا، عذاب الٰہی سے اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔ 148۔ 3 یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو لیکن ان کے پاس دلیل کہاں ؟ وہاں تو صرف اوہام و ظنون ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٠] مشیت الہٰی اور رضائے الہٰی کا فرق :۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور قصور کا اعتراف کرلینے کی بجائے اسے کسی دوسرے کے سر تھوپنے اور خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی کوئی اور ایسی وجہ تلاش کرتا ہے جس سے اس کے ذمہ کوئی الزام نہ آئے اور یہ صرف یہود ہی کی بات نہیں بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسا ہی جواب دیتے رہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے ذکر ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا جواب دیتے رہیں گے۔ اور اس غرض کے لیے سب سے عمدہ بہانہ مشیت الٰہی کا ہوتا ہے حالانکہ مشیئت الٰہی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے مشیئت الٰہی میں یہ بات ہو کہ یہ مشرکین اسی طرح شرک میں پھنس کر اور اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کر کے دنیا میں بھی عذاب کے مستحق قرار پائیں اور آخرت میں بھی۔ مشیئت الٰہی کو اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال بنانے والے عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بہت فرق ہے۔ مثلاً اللہ کی رضا اس بات میں ہے کہ سب لوگ اس کے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی شخص کفر و شرک یا ظلم و زیادتی کی راہ اختیار نہ کرے مگر اس کی مشیئت یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا امتحان لیا جائے۔ اسی لیے اللہ نے انسان کو قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار عطا کی، پھر اسے اسلام اور کفر و شرک اور نیکی اور بدی کی راہیں الگ الگ سمجھا دیں۔ پھر جو شخص اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ کا فرمانبردار ہو اسے اس کا اچھا بدلہ ملے اور جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرے اسے اس کی سزا ملے۔ پھر ان دونوں گروہوں میں حق و باطل کا معرکہ بھی مشیئت الٰہی ہے کسی کا ہدایت قبول کرنا مشیئت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی۔ اور کفر و شرک اختیار کرنا مشیئت الٰہی تو ہے مگر رضائے الٰہی ہرگز نہیں ہے۔ خ مشیت کو بہانہ بنانے والے :۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انسان کو مشیئت الٰہی کی بات اس وقت یاد آتی ہے جب وہ اللہ کے حقوق کو پامال کر رہا ہو۔ لیکن جب اس کے اپنے حقوق تلف ہو رہے ہوں تو وہ کبھی مشیئت الٰہی کے عذر کو قبول نہیں کرتا مثلاً کسی کے گھر چوری ہو یا ڈاکہ پڑے تو وہ یہ کبھی نہ کہے گا کہ چونکہ مشیئت الٰہی ہی یہ تھی اس لیے چور یا ڈاکو کا کیا قصور ہے ؟ لہذا اسے کچھ نہ کہنا چاہیے اسے اس وقت وہ اختیار یاد آجاتا ہے جو مجرم نے جرم کرتے وقت استعمال کیا لہذا اسے مجرم اور خود اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ حالانکہ مشیئت الٰہی کے اسی ضابطہ کے مطابق اسے اپنے آپ کو مظلوم بھی نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ مشیئت الٰہی ہی ایسی تھی۔ خ مشیت ٨ الہی کا بہانہ اس وقت نہیں ہے جب جرم اپنا ہو :۔ مشیئت الٰہی کو بہانہ بنانے کی مثال اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ سیدنا علی کے گھر تشریف لائے اور سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ کے درمیان بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ اس گفتگو کے دوران آپ نے سیدنا علی سے پوچھا && کیا تم تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے ہو ؟ && سیدنا علی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ ! ہماری روحیں تو اللہ کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ اگر وہ واپس بھیج دے تو ہم نماز پڑھ لیں گے۔ اس جواب پر رسول اللہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے (وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 54؀) 18 ۔ الكهف :54) یعنی انسان اپنی اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) غور فرمائیے سیدنا علی نے مشیئت الٰہی کا سہارا لیا تو آپ نے سیدنا علی کے اس قول کو غلط قرار نہیں دیا۔ بلکہ آپ کو افسوس اس بات پر ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے۔ اسے وہ کیوں بھول گئے ؟ [١٦١] یعنی انہیں مشرکانہ رسوم و رواج کے لیے تمہارے پاس کتاب الٰہی سے کوئی دلیل ہے۔ جن کا ذکر سابقہ آیات میں ہوچکا اور ظاہر ہے کہ جب کوئی علمی دلیل نہ ہو تو باقی صرف ظن و گمان ہی رہ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۔۔ : یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود اللہ کی مرضی اور ارادہ یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انھیں حرام ٹھہرائیں، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے یہ کام ہو ہی نہیں سکتے تھے، یہ دلیل ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ خوش ہے، لہٰذا یہ صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انھوں نے اللہ کی مشیت، مرضی اور ارادے کو شرک کے اور بعض حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لینے کے صحیح اور حق ہونے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا، گویا ان کے کہنے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں پر خوش ہے اور انھیں پسند کرتا ہے اور وہ درست ہیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ ) [ الزمر : ٧ ]” اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بےپروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا۔ “ یعنی کفر اور ناشکری اللہ کے ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتی مگر وہ نہ اس پر راضی ہے نہ اسے پسند کرتا ہے۔ مشیت و ارادہ اور رضا و محبت ایک دوسرے کو لازم نہیں، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے تحت ہو رہا ہے لیکن وہ ہر چیز پر راضی نہیں ہے رضا اس کی شریعت کی پابندی کا نام ہے اور ارادہ و مشیت اس کی تکوین ہے یعنی اس کا کائنات کو چلانے کا نظام ہے۔ تکوینی طور پر وہ کیا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں جانتا اور نہ جان سکتا ہے، تشریعی طور پر وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے یہ بتانے کے لیے اس نے پیغمبر بھیجے اور ہر شخص اسے جان سکتا ہے اس لیے ہم شریعت پر عمل کے پابند ہیں۔ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی در حقیقت یہ بات کہنا اور اللہ کی تقدیر اور مشیت کو اس کے خوش ہونے کی دلیل قرار دینا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب (جھٹلانا) ہے۔ ان سے پہلے لوگ بھی اسی بہانے کو بنیاد بنا کر رسولوں کو جھٹلاتے آئے ہیں۔ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا : یعنی ان کا یہ عذر قطعی غلط اور بےبنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان سے پہلے لوگوں پر ان کے جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا ؟ (ابن کثیر) ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ ۔۔ : یعنی تم جو یہ عذر پیش کر رہے ہو وہ کسی عقلی یا علمی بنیاد پر قائم نہیں ہے، اگر تمہارے پاس علم کی کوئی بات ہے تو لاؤ اور پیش کرو۔ کبھی دنیا کی کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے بھی تم نے تقدیر کو بہانہ بنا کر جدوجہد کو ترک کیا ہے، یا اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے بتادیا ہے کہ میں نے آئندہ اس طرح کرنا ہے۔ جب تمہیں معلوم ہی نہیں کہ تقدیر میں کیا ہے تو یہ بہانہ یا شبہ محض تمہارا وہم و گمان ہے اور تم لوگ صرف اٹکل لگا کر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہو، جب کہ حقیقت کی دنیا میں وہم و گمان کی کچھ حیثیت نہیں۔ دیکھیے سورة نجم (٢٣ اور ٢٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر یہ مشرکین یوں کہنے کو ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو (بطور رضا کے یہ امر) منظور ہوتا (کہ ہم شرک اور تحریم نہ کریں، یعنی اللہ تعالیٰ عدم شرک و عدم تحریم کو پسند کرتے اور شرک و تحریم کو ناپسند کرتے) تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم (اور نہ ہمارے بزرگ) کسی چیز کو (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) حرام کہہ سکتے (اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس شرک و تحریم سے ناراض نہیں، اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ یہ استدلال اس لئے باطل ہے کہ مستلزم تکذیب رسل کو ہے، پس یہ لوگ رسول کی تکذیب کر رہے ہیں، اور جس طرح یہ کر رہے ہیں) اسی طرح جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی (رسولوں کی) تکذیب کی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا (خواہ دنیا میں، جیسا اکثر کفار سابقین پر نزول عذاب ہوا ہے، یا مرنے کے بعد تو ظاہر ہی ہے، اور یہ اشارہ ہے اس طرف کہ ان لوگوں کے کفریات کے مقابلہ میں صرف قولی جواب اور مناظرہ پر اکتفاء نہ کیا جاوے گا، بلکہ مثل کفار سابقین عملی سزا بھی دی جاوے گی، خواہ دنیا میں بھی یا صرف آخرت میں، آگے دوسرے جواب دینے کے لئے ارشاد ہے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ کیا تمہارے پاس (اس مقدمہ پر کہ صدور کی قدرت دینا مستلزم رضا ہے) کوئی دلیل ہے (اگر ہے) تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو (اصل یہ ہے کہ دلیل وغیرہ کچھ بھی نہیں) تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں کرتے ہو (اور دونوں جواب دے کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ پس (دونوں جوابوں سے معلوم ہوا کہ) پوری حجت اللہ ہی کی رہی (اور تمہاری حجت باطل ہوگئی) پھر (اس کا مقتضا تو یہ تھا کہ تم سب راہ پر آجاتے مگر اس کی توفیق خدا ہی کی طرف سے ہے) اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ (راست) پر لے آتا (مگر حق تعالیٰ کی بہت سے حکمتیں ہیں، کسی کو توفیق دی کسی کو نہیں دی، البتہ اظہار حق اور اعطاء اختیار ارادہ سب کے لئے عام ہے، آگے دلیل نقلی کے مطالبہ کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ (اپنی دلیل عقلی کا حال تو تم کو معلوم ہوا اچھا اب کوئی صحیح دلیل نقلی پیش کرو مثلاً ) اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر (باقاعدہ) شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان (مذکورہ) چیزوں کو حرام کردیا ہے، (باقاعدہ شہادت وہ ہے جو مبنی ہو مشایدہ پر یا ایسی دلیل قطعی پر جو افادہ یقین میں برابر ہو مشاہدہ کے، جیسا کہ (آیت) اَم کُنتُم شھداء اذ وصکم۔ اس طرف مشیر ہے) پھر اگر (اتفاق سے کسی کو فرضی جھوٹے گواہ بنا کرلے آویں اور) وہ (گواہ اس کی) گواہی (بھی) دیدیں تو (چونکہ وہ شہادت یقینا بےقاعدہ اور محض سخن سازی ہوگی، کیونکہ مشاہدہ بھی مفقود اور مشاہدہ کا مماثل بھی مفقود، اس لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شہادت کی سماعت نہ فرمائیے اور (جب ان کا مکذب ہونا جیسا کہ ولاَحَرَّمنَا اور کَذٰلِکَ کَذب الخ دال ہے، ثابت ہوگیا تو اے مخاطب) ایسے لوگوں کے باطل خیالات کا (جن کا بطلان ابھی ثابت ہوچکا) اتباع مت کرنا جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (اور اسی سبب سے نڈر ہو کر حق کی تلاش نہیں کرتے) اور وہ (استحقاق معبودیت میں) اپنے رب کے برابر دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں (یعنی شرک کرتے ہیں) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا۝ ٠ ۭ قُلْ ہَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا۝ ٠ ۭ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ۝ ١٤٨ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ خرص الخَرْص : حرز الثّمرة، والخَرْص : المحروز، کالنّقض للمنقوض، وقیل : الخَرْص الکذب في قوله تعالی: إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الزخرف/ 20] ، قيل : معناه يکذبون . وقوله تعالی: قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] ، قيل : لعن الکذّابون، وحقیقة ذلك : أنّ كلّ قول مقول عن ظنّ وتخمین يقال : خَرْصٌ ، سواء کان مطابقا للشیء أو مخالفا له، من حيث إنّ صاحبه لم يقله عن علم ولا غلبة ظنّ ولا سماع، بل اعتمد فيه علی الظّنّ والتّخمین، کفعل الخارص في خرصه، وكلّ من قال قولا علی هذا النحو قد يسمّى کاذبا۔ وإن کان قوله مطابقا للمقول المخبر عنه۔ كما حكي عن المنافقین في قوله عزّ وجلّ : إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1] . ( خ ر ص ) الخرض پھلوں کا اندازہ کرنا اور اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہا جاتا ہے یہ بمعنی مخروص ہے ۔ جیسے نقض بمعنی منقوض بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب آجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑار ہے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں ۔ کے معنی بقول بعض یہ ہیں کہ جھولوں پر خدا کی لعنت ہو ، اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ انداز غلط ہو یا صحیح ۔ کیونکہ تخمینہ کرنے والا نہ تو علم یا غلبہ ظن سے بات کرتا ہے اور نہ سماع کی بنا پر کہتا ہے ۔ بلکہ اس کا اعتماد محض گمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تخمینہ کرنیوالا پھلوں کا تخمینہ کرتا ہے اور اس قسم کی بات کہنے والے کو بھی جھوٹا کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ واقع کے مطابق ہی کیوں نہ بات کرے جیسا کہ منافقین کے بارے میں فرمایا :۔ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ( ازراہ انفاق ) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں ۔ اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق ( دل سے نہ اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مشرکین کا غلط استدلال قول باری ہے ( سیقول الذین اشرکوا لو شآء اللہ ما اشرکنا ولا ابائونا یہ مشرک لوگ ( تمہاری ان باتوں کے جواب میں) ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ) تا قول باری ( کذلک کذب الذین من قبلھم ۔ ایسی ہی باتیں بنا بنا کر ان سے پہلے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا) اس میں مشرکین کو ان کے اس قول میں جھوٹا قرار دیا گیا ہے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا “ اس لیے کہ قول باری ہے ( کذلک کذب الذین من قبلھم) جو شخص حق کو جھٹلائے گا وہ اس کے جھٹلانے میں خود جھوٹا ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ کفار اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ شرک چاہتا تو یہ لوگ اپنے اس قول میں جھوٹے نہ قرار دیے جاتے۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک نہیں چاہتا۔ اس کی مزید تاکید اپنے اس قول سے فرمائی ہے ( ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو) یعنی تم جھوٹ بکتے ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ان سے شرک نہیں چاہتا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ چاہا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے ایمان لے آئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان سے زبردستی ایمان چاہتا تو وہ اس پر بھی قادر تھا لیکن اس صورت میں وہ ثواب اور مدح کے مستحق قرار نہ پاتے۔ انسانی عقول کی بھی اس امر پر دلالت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منصوص طریقے سے بیان فرما دیا ہے کہ شرک اور قبائح کا ارادہ کرنے والا سفید اور بیوقوف ہوتا ہے جس طرح شرک کا حکم دینے والا سفیہ اور بیوقوف ہوتا ہے۔ یہ اس لیے کہ شرک کا ارادہ کرنا شرک کی دعوت دینے کے مترادف ہے جس طرح شرک کا حکم دینا شرک کی دعوت دینے کے برابر ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جو باتیں پسند کی ہیں ان کی اس نے انہیں دعوت دی ہے اور انہیں ان کی ترغیب بھی دی ہے۔ اسی بناء پر یہ باتیں طاعت کہلاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پانے بندوں کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان کی انہیں دعوت بھی دی ہے اور اگر بندے ان پر عمل کرلیں تو یہ طاعت شمار ہوتی ہے۔ البتہ شرک کے علم کی یہ حیثیت نہیں ہے اس لیے کہ کسی چیز کا علم اس بات کا موجب نہیں ہوتا کہ اس کا جانے والا دوسروں کو اس کی دعوت بھی دے ، نہ ہی یہ بات اس چیز کو مستلزم ہوتی ہے کسی دوسرے کا وہ فعل جو علم میں آجائے اسے طاعت قرار دیا جائے جبکہ علم رکھنے والے نے اس کا ارادہ ہی نہ کیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مشرکین کے اس استدلال کی تردید کی ہے جو وہ اپنے شرک کے حق میں یہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے شرک چاہا حالانکہ یہ کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ اگر انہیں ان کے اس قول میں جھوٹا قرار دینا مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ کذلک کذب الذین من قبلھم ہوتے یعنی لفظ کذب تخفیف کے ساتھ ہوتا۔ تشدید کے ساتھ نہ ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے کفر چاہتا تو نہ صرف ان کا استدلال درست ہوتا بلکہ ان کے کفرو شرک کا یہ فعل طاعت کہلاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے ذریعے ان کا استدلال باطل کردیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان کے استدلال کے بطلان کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نہیں چاہا تھا نیز اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قول میں دو وجوہ کی بناپر جھوٹا قرار دیا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ بتایا کہ وہ حق کی تکذیب کرتے ہں اور حق کی تکذیب کرنے والا اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ خود جھوٹا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری ( وان انتم الا تخرصون) کے معنی ہیں ” تم جھوٹ بولتے ہو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٨) یہ تو اس بات کے مدعی ہیں کہ کھیتی اور مویشی کی حرمت کا ہمیں حکم دیا گیا اور ہم پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔ جیسا کہ آپ کی قوم نے آپ کی تکذیب کی اسی طرح اور رسولوں کی تکذیب کی گئی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمائیے کہ اس تحریم کے تم جو دعویدار ہو اس پر ہی کوئی دلیل ہو تو ہمارے سامنے ظاہر کرو تم لوگ تو کھیتی اور مویشی کی حرمت میں محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم جھوٹ ہی بولتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ (سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآء اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلآَ اٰبَآؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ ط) ۔ یعنی مشرکین مکہ اس طرح کے دلائل دیتے تھے کہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ حرام نہیں ہیں اور ہم نے خواہ مخواہ ان کو حرام ٹھہرا دیا ہے ‘ ایسا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ آخر اللہ تو عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرہے ‘ اس کا تو ہمارے ارادے اور عمل پر کلی اختیار تھا۔ لہٰذا یہ سب کام اگر غلط تھے تو وہ ہمیں یہ کام نہ کرنے دیتا اور غلط رستہ اختیار کرنے سے ہمیں روک دیتا۔ اس طرح کی کٹ حجتیاں کرنا انسان کی فطرت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

124. Their apology for their crimes and misdeeds would be that which has always been advanced by criminals and wrong-doers - an apology based on the assumption of absolute determinism. They would plead that when they associated others with God in His divinity, or unwarrantedly regarded certain things as prohibited, they did so because those acts had been willed for them by God. Had He not so willed, they would not have been able to do what they did. Hence, since they were doing everything according to the will of God, everything was proper. If anyone was to blame, it was God and not they. They were under compulsion to do what they did, for the ability to do otherwise lay beyond their power.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :124 یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں ۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھہرا رکھا ہے انہیں حرام ٹھیرائیں ۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں ، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے ۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

79: یہ پھر وہی بے ہودہ دلیل ہے جس کا جواب بار بار دیا جاچکا ہے یعنی یہ کہ اگر اللہ کو شرک ناگوار ہے تو وہ ہمیں شرک پر قدرت ہی کیوں دیتا ہے ؟ جواب بار بار دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اپنی قدرت کے ذریعے زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا؟ دنیا تواسی امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ کون شخص اپنی سمجھ اور اپنے اختیار سے وہ صحیح راستہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں بھی رکھ دیا ہے اور جس کی طرف رہنمائی کے لئے اتنے سارے پیغمبر بھیجے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(148 ۔ 150) ۔ شروع سورة سے یہاں تک مشرکین مکہ کو شرک کے چھوڑنے اور حرام حلال کے احکام الٰہی میں داخل نہ دینے کی تنبیہ فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ اس تنبیہ کا اور کوئی جواب تو یہ لوگ دے نہیں سکتے اگر آئندہ کچھ کہویں گے تو یہی کہیں گے کہ جس ڈھنگ پر ان کے بڑے بوڑھے تھے اسی ڈھنگ پر یہ لوگ بھی ہیں یہ ڈھنگ اگر اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوتا تو وہ ان کو اور ان کے بڑے بوڑھوں کو اس ڈھنگ پر قائم نہ رکھتا پھر مشرکین کی اس بات کا یہ جواب فرمایا کہ ان لوگوں کی یہ حجت کچھ نئی نہیں ہے ان سے پہلے قوموں کے لوگ بھی اللہ کے رسولوں کو اسی طرح کی حجتوں سے یہاں تک جھٹلاتے رہے کہ آخر کو طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئے۔ ملک شام اور ملک یمن کے سفر میں انہوں نے ان پچھلے لوگوں کی اجڑ ی ہوئی بستیاں دیکھی ہیں اس سے ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر وہ پچھلا ڈھنگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند نہ ہوتا تو ان لوگوں کا یہ انجام کیوں ہوتا کیونکہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے انصاف کے بالکل برخلاف ہے کہ کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق کام کرے اور وہ اس قوم کو اس طرح کے عذاب سے ہلاک کر دیوے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق کام کرے اور وہ اس قوم کو اس طرح کے عذاب سے ہلاک کر دیوے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل سیدھی سی ایک بات ان لوگوں کو بتلادی اے رسول اللہ کے اب تم ان لوگوں سے کہو کہ ان کے ڈھنگوں کے اچھے اور اللہ کی مرضی کے موافق ہونے کی کوئی سند ان کے پاس ہو تو اس کو نکال کر پیش کریں لیکن اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ کوئی سند پیش نہ کرسکیں گے کس لئے کہ یہ لوگ تو بغیر سند کے فقط اپنے وہم و گمان اور اپنی اٹکل پر چلتے ہیں اس لیے ایسی اٹکل پر چلنے والوں پر آسمانی کتاب اور رسول بھیج کر اللہ تعالیٰ نے جو ان کی اٹکل کے غلط ہونے کا الزام قائم کیا ہے اس الزام سے یہ لوگ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نیک وبد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے ان لوگوں کی اٹکل کے موافق ان کو یا ان کے بڑوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے آگے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ آسمانی کتاب کی سند یہ لوگ اپنے ڈھنگوں کے اچھے ہونے پر نہیں پیش کرسکتے تو اپنے کلام کی تائید میں کوئی گواہ لاویں جو آن کر یہ کہدے کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کے نام کے جانوروں کو حرام یا مردہ جانور کو حلال کیا ہے پھر فرمایا اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس طرح کا کوئی قابل اعتبار گواہ یہ لوگ پیش نہ کرسکیں گے اس لئے ان کے جھوٹے گو اہوں پر کچھ التفات نہ کرنا چاہئے کیونکہ ایسے کلام الٰہی کے جھٹلانے والے اور اپنی دلی خواہشوں کے پابند لوگوں کی گواہی کا کیا اعتبار ہے کہ وہ سچے گواہ بنے گے پھر فرمایا کہ ان لوگوں کو مر کر پھر جینے اور اللہ کے روبرو کھڑے ہونے اور مشرک کی جواب دہی کرنے کا پورا یقین نہیں ہے اس واسطے یہ اپنے شرک پر اڑے ہوئے ہیں اور بتوں کو اللہ کے برابر گنتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا پورا یقین ہے وہ ایسے شرک کی باتوں سے گھبراتے ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں لوگوں کو جھولی بھر کر انہیں دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہوں اور لوگ اس میں گرنے کی ایسی جرأت کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے روشنی پر گرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں کتابوں کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمینی فرمائی ہے۔ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں آیتوں اور حدیثوں کو ملا کر حاصل مطلب یہ ٹھہرایا ہے کہ قرآن شریف کی آیتوں میں ہر طرح کی نصیحت نازل ہوئی اور اللہ کے رسول نے اس نصیحت کے ذریعہ سے لوگوں کو راہ راست کی پوری کوشش کی لیکن علم الٰہی میں جو لوگ دوزخی ٹھہر چکے تھے ان کے دل اس نصیحت کے اثر سے اسی طرح محروم رہے جس طرح بری زمین مینہ کے پانی کے اثر سے محروم رہ جاتی ہے اور باوجود اللہ کے رسول کی پوری روک تھام کے فتح مکہ تک روشنی پر گرنے والے کیڑے پتنگوں کی طرح آخر کو وہ لوگ مر کر دوزخ کی آگ میں جاپڑے :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:148) تخرصون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم اٹکلیں مارتے ہو۔ تم جھوٹ بولتے ہو۔ خرص سے باب نصر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارالے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود للہ کی مرضی یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انہیں حرام ٹھہرائیں کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے ان اعمال کا صدور ممکن نہ تھا لہذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں لہذا صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو شرک اور محرمات کی صیحت پر بطور دلیل پیش کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ اس کی رضا اور مشروعیت کو مستلزم ہے۔ یہی ان کی سب سے بری غلطی تھی کیونکہ یہ پیغمبروں کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ تنبیہ معتزلہ کے نزدیک مشیت اور ارادہ رضا اور امر کو مستلزم ہیں اور اہل سنت کے نزدیک ان میں استلزام نہیں ہے۔ ( روح المعانی)10 یعنی ان کا یہ عذر قطعی اور بےبنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان کے اسلاف پر ان جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا ،۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 148 تا 150 : ذاقوا ( انہوں نے چکھ لیا) الحجۃ البالغۃ ( حد کو پہنچی ہوئی بات جس میں شک نہ ہو) ھلم (لائو) یعدلون ( وہ برابر کرتے ہیں (شرک کرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 148 تا 150 : ہر طرف سے مجبور ہو کر ‘ اپنے حق میں ہر دلیل کی راہ بند پاکر ‘ پھر بھی ضد اور ہٹ دھرمی پر اکڑ کر ‘ یہ مشرکین بحث کا آخری حربہ استعمال کریں گے۔ کہ ہم اور ہمارے آبائو اجداد جو کچھ کر رہے ہیں یا کرچکے ہیں وہ جبر و تقدیر کے تحت ہے۔ یعنی اللہ کی مرضی یہی ہے۔ وہی اگر چاہتاتو ہم نہ شرک کرتے نہ حرام کھاتے۔ اس لئے الزام ہم پر نہیں کاتب تقدیر پر ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے ان سے کہہ دیئے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ کفر و ایمان ‘ ضلالت اور ہدایت کے درمیان کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا تمہارے اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ جبر کا نہیں ‘ اختیار کا معاملہ ہے۔ تمہیں پوری آزادی دی گئی ہے کہ شرک و کفر کی طرف جائو یا اسلام و ایمان کی طرف۔ تم چور کو سزادیتے ہو۔ کیوں ؟ اگر وہ کہے کہ صاحب۔ میں مجبور تھا۔ چوری کرنا تو میری تقدیر میں لکھا تھا۔ میں چوری نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔ کیا تم اسے چھوڑ دو گے ؟ نہیں۔ تم جانتے ہو کہ چوری کرنا سراسر اس کے اختیار میں ہے۔ فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ وہ بہانہ ہے جو تم سے پہلے تمہارے مشرک باپ دادبھی کرتے رہے۔ لیکن ایسا بہانے سے ان کی گردن عذاب سے نہ بچ سکی۔ اور تمہاری گردن بھی اس بہانے عذاب سے نہ بچ سکے گی۔ کہہ دیجئے بیشک اگر اللہ چاہتا تو کوئی کافر منافق مشرک گناہ گارنہ ہوتا۔ سب فرشتوں کی طرح نسیان و عصیان سے دھلے دھلائے صاف و شفاف ہوتے۔ مگر اللہ کی یہ مشیت نہ تھی۔ بیشک جبر و تقدیر اپنی جگہ ہے مگر مصلحت الٰہی نے اس کی ایک حد مقرر کردی ہے۔ اس کے آگے ذاتی اختیار و فیصلہ کا مقام آتا ہے او تم سے اسی کا حساب ہوگا۔ جو تمہارے ذاتی اختیار اور فیصلہ کے اندر ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کیا تمہارے پاس کوئی علم حقیقت ہے ؟ یا دلیل وحجت ہے ؟ یا کوئی گواہ ہے۔ آ پکی للکار کے جواب میں ان مشرکین سے بعید نہیں کہ چند جھوٹے گواہ محض بات بنانے کے لیئے کھڑے کردیں۔ اگر کوئی اتنا ڈھیٹ اور اڑیل نکل بھی آئے تو آپ ان کے رعب میں نہ آئیں۔ اس ڈھٹائی اور جھوٹ پر اصرار محض اس لئے ہوگا کہ وہ آ پکو اپنی طرف ڈھلکا لیں۔ یہ للکار اور یہ بحث اس لئے ہے کہ بات پوری ہوجائے اور شاید کوئی متلاشی حقیقت نکل آئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ خواہ دنیا میں جیسا اکثر کفار سابقین پر نزول عذاب ہوا ہے یا مرنے کے بعد تو ظاہر ہی ہے اور یہ اشارہ ہے اس طرف کہ ان لوگون کے ان کفریات کے مقابل میں صرف قولی جواب اور مناظرہ پر اکتفا نہ کیا جائے گا بلکہ کفار سابقین عملی سزا بھی دی جائے گی خواہ دنیا میں بھی یا صرف آخرت میں۔ 7۔ یعنی اس مقدمہ پر کہ صدور کی قدرت دینا مستلزم رضاء ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور اللہ کے نافرمان لوگوں کے خود ساختہ بہانے۔ مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گناہ کو چھوڑنے کے بجائے اس کا جواز اور بہانہ تلاش کرتے ہیں۔ جس کے لیے یہ لوگ جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی رسومات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ عادت ہر دور کے مشرک اور نافرمانوں کی رہی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ حرام و حلال کے متعلق عقلی اور نقلی دلائل نہ رکھنے والے لوگ عنقریب یہ دلیل دیں گے کہ اگر واقعی اللہ تعالیٰ شرک اور حرام خوری کو ناپسند کرتا تو پھر ہم اور ہمارے آباؤ اجداد شرک کرنے اور کسی چیز کو حرام قرار دینے کی کس طرح جرأت کرسکتے تھے ؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ قرآن مجید میں یہ بات کئی مقامات پر سمجھائی گئی ہے کہ کسی کو جبراً ہدایت کے راستے پر چلانا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے منافی ہے۔ اس لیے یہاں ایسے لوگوں کو تفصیلی جواب دینے کے بجائے فقط اتنا ہی جواب دینا مناسب سمجھا گیا ہے کہ اسی طرح کے بہانے بنا کر تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ اگر تمہارے پاس علم کی بنیاد پر کوئی دلیل ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ لیکن تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تم محض اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہوئے بےبنیاد باتیں بنا تے ہو۔ یہ کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کرسکتے لہٰذا انھیں فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کی دلیل تمہیں پہنچ چکی ہے جو عقل و فکر اور ہر اعتبار سے کا مل اور اکمل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ جبراً چاہتاتو سب لوگوں کو ہدایت پر اکٹھا کرسکتا تھا لیکن ہدایت واضح کرنے کے بعد اس نے انسان کو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جبراً ہدایت قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ اب پھر اتمام حجت کے لیے انہی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس علم کی کوئی سند نہیں تو تم ایسے گواہ پیش کرو۔ جو علمی اور فکری دلائل سے ثابت کریں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے تمہاری حرام کردہ چیزوں کو حرام کیا اور شرک کا کوئی جواز پیش کیا ہے۔ یہاں گواہوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق اور سچ کی گواہی دینے والے ہوں۔ ظاہر ہے جس طرح ان کے پاس شرک اور حرام خوری کے لیے علمی اور شرعی دلائل نہیں اسی طرح ایسے گواہوں کا ملنا مشکل ہے جو تورات اور انجیل سے ان کی حرام خوری اور شرک کا ثبوت پیش کرسکیں۔ اسی بنا پر فرمایا کہ اگر علم و عقل سے عاری لوگ شہادت دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ساتھ ہرگز گواہی نہیں دینا چاہیے۔ اور ایسے لوگوں کے جذبات و خیالات کا ہرگز خیال نہیں کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب، آخرت کا انکار اور اپنے خالق ومالک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ شرک اور حرام خوری کا انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں بھی یہ کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔ “ مسائل ١۔ مشرک اور حرام خور، شرک اور حرام خوری کے لیے بہانے بناتے ہیں۔ ٢۔ آدمی کو قرآن و سنت کے علم کے مقابلہ میں اپنے خیالات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت پر گامزن نہیں کرتا۔ ٤۔ جھوٹے گواہ کی تائید نہیں کرنی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا، آخرت کا انکار ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا پرلے درجے کے گناہ ہیں۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگوں کی پیروی سے اجتناب : ١۔ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار اور مذاق اڑاتے ہیں تم ان کے ساتھ مت بیٹھو۔ (النساء : ١٤٠) ٢۔ یہودی مسلمانوں کو اپنی طرح کافر بنا دینا چاہتے ہیں ان کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ٨٩) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں۔ (البقرۃ : ١٤٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کفار اور منافقین کی پیروی سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ (الاحزاب : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٤٨ تا ١٤٩۔ افکار اسلامی کی تاریخ میں مسئلہ جبروقدر پر طویل مباحث رہے ہیں۔ اہل سنت اور معتزلہ اور مرجیہ اس میں باہم دست و گریبان رہے ہیں ۔ یونانی فلسفہ اور یونانی منطق جب عالم اسلام میں آئی تو اس نے بھی ان مباحث کو متاثر کیا ۔ پھر عیسائیوں کے فلسفہ لاہوت نے بھی اثرات ڈالے ۔ اور اس کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا کہ یہ اسلام کے واضح اور حقیقت پسندانہ تصور کے لئے ناقابل فہم بنا گیا ۔ اگر اس مسئلے پر قرآن کے سنجیدہ ‘ حقیقت پسندانہ اور ڈائرکٹ انداز میں غور کیا جاتا تو یہ جدل وجدال نہ ہوتا اور یہ بحث وہ رخ اختیار نہ کرتی جو اس نے اختیار کیا ۔ جب ہم مشرکین کے قول کو پڑھتے ہیں اور اس کو قرآن کریم نے جس سادہ اور واضح انداز میں رد کیا اسے دیکھتے ہیں تو یہ بہت ہی سادہ اور قابل فہم نظر آتا ہے ۔ آیت ” سَیَقُولُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ لَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ٍ “۔ (٦ : ١٤٨) ” یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ان کا مقصد یہ تھا کہ انہوں نے جو شرک کیا ‘ ان کے آبا نے جو شرک کیا یا انہوں نے از خود جن چیزوں کو حرام قرار دیا اللہ نے انہیں حرام قرار دیا تھا اور ان کا یہ دعوی کرنا کہ یہ اللہ کی جانب سے مقرر کردہ شریعت ہے اور بلادلیل یہ دعوی کرنا کہ یہ سب امور اللہ کی مشیت کے مطابق چل رہے ہیں۔ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ۔ اور نہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ۔ یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ اب دیکھئے کہ قرآن کریم ان کے اس فلسفے کی تردید کس طرح کرتا ہے ۔ قرآن کریم صرف یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ بعینہ اسی طرح جھوٹ بول رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے لوگوں نے جھوٹ بولا ۔ اور اس سے پہلے جن لوگوں نے جھوٹ بولا انہوں نے تو اپنے جھوٹ کا مزہ چکھ لیا ہے اور اب یہ نئے مکذبین آگئے ہیں اور اللہ کا عذاب ان کے انتظار اور استقبال میں ہے ۔ آیت ” ٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم حَتَّی ذَاقُواْ بَأْسَنَا “۔ (٦ : ١٤٨) ” ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ “ یہ وہ تنبیہ ہے جو سوچنے والے کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ غافل سے غافل انسان بھی ہوش میں آجاتا ہے اور انجام کو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ اب ایک دوسری تنبیہ ہے جس کے ذریعے ان کی فکری اصلاح مطلوب ہے ۔ یہ کہ اللہ نے کچھ احکامات واوامر دیئے ہیں اور بعض چیزوں سے منع کیا ہے اور انہیں حرام قرار دیا ہے ۔ ان چیزوں کے بارے میں وہ یقینی اور ناقابل شک علم حاصل کرسکتے ہیں ۔ رہی اللہ کی مشیت اور اس کا نظام تو وہ ایک پوشیدہ نظام ہے اور اس کی اصل حقیقت تک پہنچنا انسان کی قوت مدرکہ کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ وہ کس طرح جان سکتے ہیں کہ اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ اور جب انسان اللہ کے نظام قضا وقدر کا ادراک ہی نہیں کرسکتا تو وہ کسی کے فعل کو کس طرح نظام قضا وقدر کی طرف منسوب کرسکتا ہے ۔ آیت ” قُلْ ہَلْ عِندَکُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إَلاَّ تَخْرُصُونَ (148) ” ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ اللہ نے جو احکام دیئے یا اس کی جانب سے جو منہیات ہیں ‘ وہ معلوم ہیں اور ان کے بارے میں قطعی علم ہمارے پاس قرآن میں موجود ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ان قطعی معلومات کو چھوڑ کر محض ظن وتخمین کے سراب کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں اور اس وادی میں کیوں قدم رکھتے ہیں جس کے نشیب و فراز سے وہ واقف نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مسئلہ جبروقدر میں یہ ایک فیصلہ کن بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کا مکلف نہیں بناتا کہ وہ اللہ کے نظام قضا وقدر کا علم حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں ۔ اللہ کی جانب سے لوگوں پر صرف یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے اوامر اور منہیات کا علم حاصل کریں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں ۔ جب وہ اس سلسلے میں سعی شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ انہیں راہ ہدایت پر ڈال دیں گے اور ان کے دل اسلام کے لئے کھل جائیں گے ۔ مسئلہ قضا وقدر میں یہ ایک حقیقت پسندانہ اور عملی سوچ ہے اور انسان کے مسائل کے حل کے لئے کافی ہے یہ آسان بھی ہے ‘ واضح بھی ہے اور اس میں کوئی بحث و مباحثہ اور جدل وجدال نہیں ہے ۔ نہ تحکم اور سینہ زوری ہے ۔ اگر اللہ چاہتا تو آغاز ہی سے انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ وہ ہدایت کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ پر چل ہی نہ سکتا یا اللہ انہیں مجبور کردیتا کہ وہ ہدایت اختیار کریں یا اللہ ان کے دلوں میں از خود ہدایت ڈال دیتا اور ان پر ہدایت کے لئے جبری ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن اللہ جل شانہ یہ نہیں چاہتے تھے ۔ اللہ کی مشیت یہ تھی کہ آدم کو قدرت واختیار دے کر اسے آزمائے اور یہ اختیار اس قدر ہو کہ وہ ہدایت وضلالت میں سے جس راہ پر چاہے اختیار کرے ۔ انسان جب کسی راہ کا آزادانہ ارادہ کرے تو اللہ پھر اس کی مدد کرے ‘ ہدایت کی طرف یا ضلالت کی طرف ‘ یعنی جو ضلالت کی طرف اشارہ کرے اس کے لئے وہ راہ بھی آسان ہو ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اس کی سنت جاری رہتی ہے ۔ آیت ” قُلْ فَلِلّہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْ شَاء لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِیْنَ (149) ” پھر کہو (تمہاری حجت کے مقابلے میں) ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “ اب یہ مسئلہ واضح ہوجاتا ہے اور قرآن اسے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ہر انسان اسے بسہولت سمجھ سکتا ہے ۔ رہی وہ علمی کشتیاں جو اس مسئلے پر ہوتی رہی اور وہ طویل جدل وجدال جو ہماری تاریخ کا حصہ ہے تو وہ اسلامی احساس اور اسلامی منہاج کے ساتھ لگا نہیں کھاتا ۔ نہ صرف یہ کہ اسلامی سوچ اسے قبول نہیں کرتی بلکہ یونانی فلسفے اور عیسائیوں کے ہاں لاہوتی مباحث بھی آج تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ۔ اس لئے کہ یہ مباحث جس انداز سے چلے وہ اس مسئلے کے مزاج کے خلاف تھا ۔ ہر حقیقت کی جو نوعیت ہوتی ہے اس کے مطابق ہی اسے لیا جاتا ہے اور اس پر بحث کے لئے اس کے حسب حال اسلوب اپنایا جاتا ہے ۔ جہاں تک مادی حقائق کا تعلق ہے ان کو بذریعہ تجربہ معلوم کیا جاسکتا ہے اور ریاضی حقائق کو ذہنی معروضات کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے لیکن جو حقائق مادی دنیا سے وراء ہیں ان کا اپنا منہاج بحث ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کہا یہ حقائق عملی نوعیت رکھتے ہیں اور انہیں عملی انداز میں اور حقیقت پسندانہ منہاج بحث کے ساتھ لینا چاہتے ۔ ان کو محض دینی مفروضوں کے انداز میں نہیں لینا چاہیے جس طرح ان کو پہلے بھی لیا گیا اور آج بھی لیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام میں اس دنیا میں اس لئے آیا تھا کہ یہاں ایک عملی صورت حالات پیدا کر دے ۔ وہ احکام اور منہیات پر مشتمل ہے اور یہ احکام اور منہیات واضح ہیں ۔ ان کے بارے میں نامعلوم مشیت الہیہ کو زیر بحث لانے کا مقصد یہ ہوگا کہ ہم کسی بےکنار صحرا میں بلا دلیل پڑجائیں اور اپنی قوتوں کو لاحاصل جدل وجدال اور بادیہ پیمائی میں صرف کردیں ۔ اب اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کرتے ہیں ۔ کہ آپ اس قانون سازی میں اللہ کو بطور گواہ پیش فرمائیں ۔ اس طرح جس طرح اس سے پہلے حضور کو ہدایت ہوئی تھی کہ آپ اللہ کے اقتدار اعلی اور حاکمیت کے مسئلے میں بھی اللہ کی ذات کو بطور شہادت پیش فرمائیں ۔ اس سورة کے آغاز میں یہ فرمایا گیا تھا ۔ آیت ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19) ” ان سے پوچھو کس کی شہادت بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “ اور یہاں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی کٹ حجتی انسان کا کچھ ایسا مزاج ہے کہ گناہ بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ حجت بازی بھی، اور وہ چاہتا ہے کہ اپنی رائے اور اپنی طبیعت کے مطابق کام بھی کرتا رہوں اور جو شخص سفاری پر تنبیہ کرے جواب دے کر اس کا منہ بھی بند کر دوں، اور اس کے لیے طرح طرح کی دلیلیں تراشتا ہے اور حجتیں نکالتا ہے۔ مشرکین کو جب بتایا گیا کہ تم خالق ومالک جل مجدہٗ کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ حالانکہ وہی خالق ومالک اور رازق ہے اور تم اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں تحریم کی رسمیں جاری کرتے ہو اور حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہو تو اس کے جواب میں مشرکین نے یہ حجت نکالی کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ ہم نے اور ہمارے باپ دادوں نے جو شرک کیا اور جو حلال چیزوں کو حرام قرار دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہوا، اگر وہ ہمارے اس عقیدہ و عمل سے ناراض ہوتا تو ہمیں کیوں کرنے دیتا۔ ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ان عقائد اور اعمال سے ناراض ہے تو ہمیں ان کاموں کو کرنے ہی نہ دیتا۔ اس کے جواب میں فرمایا۔ (کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَنَا) جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے حجت نکالی اور رسولوں کی تکذیب کی یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھ لیا اسی طرح یہ لوگ بھی تکذیب کر رہے ہیں ان کو بھی عذاب کا منتظر رہنا چاہئے۔ ان لوگوں نے جو اپنے عمل اور عقیدہ کے بارے میں دلیل دی ہے کہ اللہ راضی نہ ہوتا تو ہمیں شرک پر کیوں قائم رہنے دیتا اس کے جواب میں فرمایا۔ (قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا) (آپ فرما دیجیے کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے تم ہمارے لیے ظاہر کرو) یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس کوئی علم نہیں ہے جس پر تمہاری حجت کی بنیاد ہو۔ (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ الاَّ الظَّنَّ ) تم صرف گمان کے پیچھے چلتے ہو۔ (وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ) اور اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ تم اٹکل سے بات کرتے ہو۔ یہ جو تم نے دلیل دی ہے کہ اللہ راضی نہ ہوتا تو ہمیں دین شرک پر کیوں قائم رہنے دیتا اور ہم اپنی طرف سے چیزوں کو کیوں حرام قرار دیتے یہ دلیل جاہلانہ ہے محض تمہارا ایک خیال ہے اور محض ایک اٹکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں ابتلاء اور امتحان کے لیے بھیجا اور امتحان اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ عمل کرنے والوں کو احکام دے دیئے جائیں اور اوامرو نواہی پہنچا دیئے جائیں ان کو عمل کرنے کا اختیار بھی ہو اور نہ کرنے کا بھی۔ اگر انسان کو تکوینی طور پر مجبور کردیا جاتا کہ خواہی نخواہی فلاں عمل ضرور ہی کرے اور عمل کرنے نہ کرنے کا اختیار نہ ہوتا۔ بلکہ عمل کرنے پر مجبور ہوتا تو ابتلاء اور امتحان کیسے ہوتا ؟ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ اس نے عقل اور ہوش دیدیا عمل کرنے کی قوت دیدی اور کرنے نہ کرنے کا اختیار بھی دیدیا۔ اب جو شخص شرک اختیار کرتا ہے اور اپنے پاس سے تحلیل و تحریم کرتا ہے وہ اپنے اختیار سے کرنے کی وجہ سے ماخوذ ہے۔ یہ ہوتا تو سب کچھ اللہ کی مشیت و ارادہ سے ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ وجود میں آئے اللہ اس سے راضی بھی ہے۔ راضی ان اعمال سے ہے جن کے بارے میں اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ صاف صاف بتادیا کہ یہ عقائد اور اعمال میری رضا کے ہیں جو عقائد غلط ہیں اور جو افعال ممنوع ہیں وہ ان سے راضی نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

165 یہ شکوی ہے اور شرک پر مشرکین کی سب سے بڑی دلیل کا تذکرہ ہے۔ یعنی مشرکین عنقریب اپنے مشرکانہ افعال کے جواز میں یہ دلیل پیش کریں گے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں تو ہم اور ہمارے باپ دادا کبھی شرک فی التصرف نہ کرتے اور نہ غیر اللہ کے لیے تحری میں کرتے تو اس سے معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں اللہ اس پر راضی ہے۔ سبحان اللہ ہذا بہتان عظیم۔ 166 جواب شکوی ہے۔ یعنی ان سے پہلے لوگوں نے بھی حق کی تکذیب کی اور اسی طرح کی بےسرو پا دلیلیں پیش کیں۔ یہاں تک کہ ہمارے عذاب نے انہیں آگھیرا۔ قُلْ ھَلْ عِندَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ ۔ یعنی پہلی دلیل تو بالکل واہی اور لغو ہے آپ ان سے فرمائیں اگر تمہارے پاس گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی نقلی دلیل ہے تو وہ پیش کرو۔ دلیل تماہرے پاس کیا ہوگی تم تو ہر بات ظن وتخمین سے کہتے اور دین کے معاملے میں بھی محض ظن فاسد کی پیروی کرتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

148 جو لوگ شرک میں مبتلا ہیں وہ بہت جلد یہ کہیں گے یعنی اپنے پر سے الزام اتارنے کو یوں کہنے والے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا اور اس کو منظور ہوتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور اس فعل قبیح کے مرتکب نہ ہوتے اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھہرا رکھا ہے نہ ان میں سے ہم کسی چیز کو حرام کرتے یعنی ہمارے اس ارتکاب شرک و کفر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے ان حرکات قبیحہ کو پسند کرتا ہے اور ہماری ان باتوں سے راضی ہے گویا ان افعال کے صدرور پر قدرت دنیا اس کی رضا کو مستلزم ہے آگے نقلی اور عقلی جواب ہے۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوگذرے ہیں وہ بھی پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ ان سے فرمائیے کیا تمہارے پاس کوئی سند اور دلیل ہے ؟ تو تم اس کو ہمارے روبرو پیش کرو لوگو تم تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہو اور تم تو محض تخمینی اور قیاسی باتیں کرتے ہو یعنی تم لوگوں نے ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی تکذیب کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے تمہارے پاس نہ تو کوئی سند ہے نہ تم کو صحیح علم ہے محض وہم و گمان میں مبتلا ہو اور اٹکل پچو باتیں کرتے ہو ان ہی باتوں کی وجہ سے تمہارے پہلوں نے عذاب کا مزہ چکھا اور انہی معاندانہ باتوں کی وجہ سے تم کو ایک دن عذاب کا منہ دیکھنا ہوگا۔