Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 154

سورة الأنعام

ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾٪  6

Then We gave Moses the Scripture, making complete [Our favor] upon the one who did good and as a detailed explanation of all things and as guidance and mercy that perhaps in [the matter of] the meeting with their Lord they would believe.

پھر ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہوجائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو تاکہ وہ لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین لائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Praising the Tawrah and the Qur'an Allah says; ثُمَّ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ... Then, We gave Musa the Book (the Tawrah), After Allah described the Qur'an by saying, وَأَنَّ هَـذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ (And verily, this is My straight path, so follow it...), He then praised the Tawrah and its Messenger, ثُمَّ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ (Then, We gave Musa the Book...). Allah often mentions the Qur'an and the Tawrah together. Allah said, وَمِن قَبْلِهِ كِتَـبُ مُوسَى إِمَاماً وَرَحْمَةً وَهَـذَا كِتَـبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَاناً عَرَبِيّاً And before this was the Scripture of Musa as a guide and a mercy. And this is a confirming Book in the Arabic language. (46:12) Allah said in the this Surah, قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَـبَ الَّذِى جَأءَ بِهِ مُوسَى نُوراً وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيراً Say: "Who then sent down the Book which Musa brought, a light and a guidance to mankind which you have made into paper sheets, disclosing (some of it) and concealing (much)." (6:91) and وَهَـذَا كِتَـبٌ أَنزَلْنَـهُ مُبَارَكٌ And this is a blessed Book which we have sent down... (6:92) Allah said about the idolators, فَلَمَّا جَأءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ لَوْلا أُوتِىَ مِثْلَ مَأ أُوتِىَ مُوسَى But when the truth has come to them from Us, they say: "Why is he not given the like of what was given to Musa!" (28:48) Allah replied, أَوَلَمْ يَكْفُرُواْ بِمَأ أُوتِىَ مُوسَى مِن قَبْلُ قَالُواْ سِحْرَانِ تَظَـهَرَا وَقَالُواْ إِنَّا بِكُلٍّ كَـفِرُونَ "Did they not disbelieve in that which was given to Musa of old!" They say: "Two kinds of magic (the Tawrah and the Qur'an), each helping the other!" And they say: "Verily, in both we are disbelievers." (28:48) Allah said about the Jinns that they said, يقَوْمَنَأ إِنَّا سَمِعْنَا كِتَـباً أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ "O our people! Verily, we have heard a Book sent down after Musa, confirming what came before it, it guides to the truth." (46:30) Allah's statement, ... تَمَامًا عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلً ... ...complete for that which is best, and explaining all things in detail..." means; `We made the Book that We revealed to Musa, a complete and comprehensive Book, sufficient for what he needs to complete his Law.' Similarly, Allah said in another Ayah, وَكَتَبْنَا لَهُ فِى الاٌّلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْءٍ And We wrote for him on the Tablets the lesson to be drawn from all things. (7:145) Allah's statement, عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ (for that which is best), means: `as a reward for his doing right and obeying Our commands and orders.' Allah said in other Ayat, هَلْ جَزَاءُ الاِحْسَـنِ إِلاَّ الاِحْسَـنُ Is there any reward for good other than what is best! (55:60) وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَـتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّى جَـعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا And (remember) when the Lord of Ibrahim tried him with (certain) commands, which he fulfilled. He (Allah) said (to him), "Verily, I am going to make you an Imam for mankind." (2:124) and, وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَيِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُواْ وَكَانُواْ بِـَايَـتِنَا يُوقِنُونَ And We made from among them (Children of Israel), leaders, giving guidance under Our command, when they were patient and believed with certainty in Our Ayat. (32:24) Allah said; ... وَتَفْصِيلً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً ... and explaining all things in detail and a guidance and a mercy, praising the Book that Allah sent down to Musa, while, ... لَّعَلَّهُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ يُوْمِنُونَ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

جنوں نے قرآن حکیم سنا امام ابن جریر نے تو لفظ ثم کو ترتیب کے لئے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں ثم کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت ( ان ھذا صراطی مستقیما ) میں گذری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما و رحمتہ و ھذا کتاب مصدق لسانا عربیا ) یعنی اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت ( قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ) 6- الانعام:91 ) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہے ، کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت ( فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ) 10- یونس:76 ) ، جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ کو ملا تھا جس کے جواب میں فرمایا گیا کیا انہوں نے موسیٰ کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں ۔ وہ کتاب جامع اور کامل تھی ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جیسے فرمان ہے کہ نبی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کی نیکیوں کا صلہ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر الذی کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت ( خفتم کالذی خاصوا ) میں ابن رواحہ کا شعر ہے ۔ وثبت اللہ ما اتاک من حسن فی المرسلین و نصر کالذی نصروا اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں الذی معنی میں الذین کا ہے عبداللہ بن مسعود کی قرأت ( لما ما علی الذین احسنوا ) ہے ۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے ۔ بغوی کہتے ہیں مراد اس سے انبیاء اور عام مومن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی جیسے فرمان ہے آیت ( قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ) 7- الاعراف:144 ) ، یعنی اے موسیٰ میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی ۔ ہاں حضرت موسیٰ کی اس بزرگی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر احسن ھو کو مخذوف مان کر احسن پڑھتے تھے ہو سکتا ہے؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں ۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کرلیں ۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

154۔ 1 قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٦۔ الف ] اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج کل بائیبل میں جو عہد نامہ عتیق پایا جاتا ہے اور جسے تورات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تورات نہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی۔ کیونکہ وہ تورات تو دو بار گم ہوئی اور از سر نو لکھی جاتی رہی پھر اس میں الحاقی مضامین شامل ہوئے اور تحریف بھی ہوئی۔ اور جو تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اس میں نیک لوگوں کی ہدایت کے لیے کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اور معاشی احکام کے ہر لحاظ سے مکمل تھی اور اس کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس سے آخرت پر ایمان پختہ ہوتا تھا۔ [١٧٧] آخرت پر ایمان رکنے اور نہ رکھنے اور نہ رکھنے والے کی زندگی کا تقابل :۔ پروردگار سے ملاقات سے مراد اللہ کے حضور اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔ ایک آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے انسان کی زندگی نہایت آزادانہ، غیر ذمہ دار بلکہ وحشیانہ قسم کی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ آخرت کی عنداللہ مسؤلیت ہی کا تصور ہے جو انسان کو اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا پابند بناتا اور دنیا میں انتہائی محتاط ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا پابند بناتا ہے یعنی بنی اسرائیل کو یہ کتاب اس لیے دی گئی تھی کہ اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کی زندگیوں کا مشاہدہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ : ” پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی “ میں ” پھر “ کا لفظ زمانے کی ترتیب کے لیے نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب بعد میں ملی، بلکہ بعد میں ذکر کی وجہ سے ہے، اسے ترتیب ذکری کہتے ہیں، مثلاً دیکھیے سورة بلد کی آیت (١٧) ۔ متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور تورات کا ذکر اکٹھا کیا ہے۔ (ابن کثیر) تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ ۔۔ : ” تَمَامًا “ یہاں ” اِتْمَامًا “ ( پورا کرنے) کے معنی میں ہے، یعنی ہم نے تورات ہر اس شخص پر نعمت پوری کرنے کے لیے جو نیکی کرے اور ہر چیز کی تفصیل، رہنمائی اور رحمت کے لیے نازل فرمائی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ یعنی بنی اسرائیل اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The reason of being ` ignorant of (or heedless to) what they studied - 156& was not that the Torah and the Injil were non-existent in the Ara¬bic language because it is possible to become informed of the contents through a translation, in fact, this happens. Instead, this is because the people of the Book never took steps to educate and inform the peo¬ple of Arabia in the mores of monotheism. That something falls within hearing distance casually is customarily ineffective as a meaningful warning - though, this much note of warning makes search and consid¬eration obligatory, and on this basis, the coming of Divine punishment against the abandonment of Tauhid (the belief in the Oneness of Allah) was possible. However, this raises no doubts about the universal na¬ture of the prophetic mission of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) because the particularization of this universality of message is with our master, may the blessing of Allah be upon him, and peace - and this particularization is in terms of the totality of fundamentals and subsidiaries, otherwise, in fundamentals, following all prophets is obligatory on all peoples. So, the punishment would have been proper on this basis. But, this would have been an excuse advanced initially. Now that too is no more valid. The argument of Allah is already estab¬lished. As for their second saying: لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَىٰ مِنْهُمْ (If the Book had been sent down to us, we would have been more adhering to the right path than they& ), a question and its answer has already appeared under the commentary on verse 19 of Surah A-Ma&idah earlier in this volume. This concerns the hope of salvation during the period of Fa¬trah or gap between prophets.

خلاصہ تفسیر پھر (مضمون ابطال شرک کے بعد ہم مسئلہ نبوت میں کلام کرتے ہیں کہ ہم نے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکیلا ہی نہیں بنایا، جس پر یہ لوگ اس قدر شور و غل مچا رہے ہیں، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) کتاب (تورات) دی تھی، جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر (ہماری) نعمت پوری ہو (کہ عمل کرکے ثواب کامل حاصل کریں) اور سب (ضروری) احکام کی (اس کے ذریعہ سے) تفصیل ہوجاوے اور (اس کے ذریعہ سے سب کو) رہنمائی ہو اور (ماننے والوں کیلئے) رحمت ہو (ہم نے اس صفت کی کتاب اس لئے دی) تاکہ وہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل) اپنے رب کے ملنے پر یقین لاویں (اور اعتقاد لقاء سے اب احکام کو بجا لاویں) اور (جب اس کا اور اس کے تتمہ انجیل کا دور ختم ہوچکا اس کے بعد) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے (آپ کے پاس) بھیجا بڑی خیر و برکت والی سو (اب) اس کا اتباع کرو، اور (اس سے خلاف کرنے کے باب میں خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر (اللہ تعالیٰ کی) رحمت ہو (اور ہم نے یہ قرآن اس لئے بھی نازل کیا کہ) کبھی تم لوگ (قیامت میں درصورت اس کے نازل نہ ہونے کے کفر و شرک پر عذاب کے وقت) یوں کہنے لگتے کہ کتاب (آسمانی) تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے (یہودی عیسائی) تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر تھے (اس لئے ہم کو توحید کی تحقیق نہ ہوئی) یا (اور مؤمنین سابقین کو ثواب ملنے کے وقت) یوں کہتے کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان (مؤ منین سابقین) سے بھی زیادہ راہ پر ہوتے (اور عقائد و اعمال میں ان سے زیادہ کمال حاصل کرکے ثواب کے مستحق ہوتے) سو (یاد رکھو کہ) اب (تمھارے پاس کوئی عذر نہیں) تمہارے پاس (بھی) تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب (جس کے احکام) واضح (ہیں) اور (جو) رہنمائی کا ذریعہ (ہے) اور (خدا کی) رحمت (ہے) آچکی ہے سو (ایسی کافی شافی کتاب آنے کے بعد) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتلا دے (اور دوسروں کو بھی) اس سے روکے ہم ابھی (آخرت میں) ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کو اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے (یہ سختی اس روکنے سے بڑھی ورنہ صرف تکذیب بھی موجب سزا ہے) ۔ معارف و مسائل وجہ غفلت یہ نہیں کہ تورات و انجیل لغت عرب میں نہ تھی کیونکہ ترجمہ کے ذریعہ سے مضامین کی اطلاع ممکن ہے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب نے اہل عرب کی تعلیم و توحید کا کبھی اہتمام نہیں کیا، اور اتفاقاً کان میں کوئی مضمون پڑجانا عادةً تنبیہ میں کم مؤ ثر ہے، گو اس قدر تنبیہ پر طلب اور تامل واجب ہوجاتا ہے، اور اسی بناء پر ترک توحید پر عذاب ممکن تھا، اور اس سے عموم بعثت موسویہ و عیسویہ کا اشکال لازم نہیں آتا، کیونکہ اختصاص اس عموم کا ہمارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باعتبار مجموعہ اصول و فروع کے ہے، ورنہ اصول میں سب انبیاء کا اتباع سب خلائق پر واجب ہے، پس اس بناء پر عذاب صحیح ہوتا، لیکن یہ عذر بادی النظر میں پیش کیا جاسکتا تھا، اب اس کی بھی گنجائش نہ رہی اور حجة اللہ تام ہوگئی۔ اور دوسرا قول (آیت) لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ کے متعلق ایک سوال و جواب باعتبار ناجین اہل فترت کے سورة مائدہ کے رکوع سوم کے آخر میں گزر چکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٥٤ ۧ ثمَ ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و : ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] فهو في موضع المفعول ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

توریت قول باری ہے ( ثم اتینا موسیٰ الکتاب تماما علی الذین احسن، پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل تھی) آیت میں وارد حرف ثم کے متعلق ایک قول ہے کہ اس کے معنی ہیں۔ ثم قل اتینا موسیٰ الکتاب ( پھر کہہ دو کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی) اس لیے کہ یہ قول باری تعالیٰ ( قل تعالوا تل ما نوم ربکم علیکم۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہہ دو کہ پئو میں تمہیں سنائوں، تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں) پر عطف ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ” و اتینا موسیٰ الکتاب ( اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی) جس طرح یہ قول باری ہے ( ثم اللہ شھید) اس کے معنی ہیں ” اور اللہ گواہ ہے “ یا جس طرح یہ قول باری ہے ( ثم کان من الذین امنو) اس کے معنی ہیں ” اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لے آئے “۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ لکام ساقب کا صلہ بن کر یہ مفہوم ادا کرتا ہے۔ ثم بعد ماذکرت لکم اخبر تکم انا اتینا موسیٰ الکتب “ ( جو کچھ میں نے تم سے ذکر کردیا اس کے بعد پھر میں نے تمہیں یہ بتایا کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی) وغیرہ ذلک۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٤) ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی جس میں اوامر نواہی، وعدہ وعید، ثواب و عقاب سب باتیں احسن طریقہ پر موجود تھیں، یا یہ کہ جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان اور ان کے پروردگار کی رسالت کی تبلیغ تھی اور حلال و حرام میں سے ہر ایک چیز کا اس میں بیان موجود تھا اور مومن کے لیے عذاب الہی سے رحمت کا باعث تھی، تاکہ یہ لوگ بعث بعدالموت کی تصدیق کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٤ (ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً ) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے نزدیک سورة بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں جو احکام ہیں وہ تورات کے احکام عشرہ) (Ten Commandments کا ہی خلاصہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

136. To believe in 'meeting with the Lord' signifies the conviction that one is answerable to God, and which leads one to adopt responsible behaviour in life. The statement made here could mean two things. It might mean that the teachings of the heavenly Book vouchsafed to Moses could itself create a sense of responsibility among the Israelites. Alternatively, it might mean that when ordinary people observe the wonderful way of life prescribed by God, and note the beneficial effects of its merciful dispensation in the lives of righteous people, they will come to realize that belief in the After-life is, in all respects, a better basis for human life than its denial. In this way, their observation and study might turn them from rejection to true faith.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :136 رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے ۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمہ داری کا احساس بیدار ہو جائے ۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظام زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اس نعمت ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسوس کرلیں کہ انکار آخرت کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرار آخرت کی بنیاد پر ذمہ دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے ، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مطالعہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(154 ۔ 155) ۔ اوپر کی آیتوں میں فرمایا تھا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ جن چیزوں کو تم لوگوں نے اپنی اٹکل سے حرام ٹھہرا رکھا ہے اصل میں وہ چیزیں حرام نہیں ہیں بلکہ پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) سے لیکر اب تک حرام وہ چیزیں ہیں جو ان آیتوں میں تم لوگوں کو جتلائی گئی ہیں اب ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے پہلی آیتوں میں جو پیغام الٰہی ہے اس کے پہنچانے کے بعد پھر یہ پیغام بھی ان لوگوں کو پہنچا دیا جاوے کہ شریعت موسوی سے پہلے کہ شریعتوں کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی تو اس میں بھی علاوہ اور تفصیلی احکام کے ان چیزوں کے حرام ہونے کا حکم موجود ہے جن کا ذکر پچھلی سب شریعتوں میں تھا اور وہی حکم اوپر کی آیتوں میں ہے سورة قصص میں آوے گا وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتَابَ مِنْ بَعْدِ مَا اَھْلَکْنَا الْقُُرَونَ الْاَ ْولٰی بَصَائِرَ لِلنَّاسِ (٢٨: ٤٣) جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نوح سے لے کر فرعون تک پچھلے لوگوں کے عام عذابوں سے ہلاک ہوجانے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی ہے جس کے سبب سے تورات میں تفصیلی احکام شرعی کے علاوہ پچھلے لوگوں کی ہلاکت کے قصے ایسے ہیں جن سے نبی اسرائیل کے دل میں ایک عبرت پیدا ہوسکتی ہے ان آیتوں میں تماما علی الذی احسن تفصیلا لکل شیء جو فرمایا سورة قصص کی آیت گویا اس کی پوری تفسیر ہے حاصل مطلب ہے یہ کہ تفصیلی احکام شرعی اور پورے پچھلے لوگوں کی ہلاکت کے قصے ملا کر تو بات کو ایسی حسن ترتیب سے نازل کیا گیا ہے جس کی ہدایت کا اثر بنی اسرائیل کے دلوں پر پورا پڑیگا اور تورات کو نازل ہونے کے بعد عام نافرمانی اور عام عذاب کی نوبت نہ آوے گی اسی واسطے فرمایا کہ تورات کا نازل ہونا بنی اسرائیل کے حق میں ایک رحمت الٰہی ہے آخر کو یہ جو فرمایا کہ شاید اس قدر رحمت کے بعد یہود کے دلوں میں ایک دن اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے وقت پوری سرخروئی حاصل کریں اس لفظ شاید کے فرمانے میں بڑی پیشین گوئی ہے جس کا ظہور مابعد میں یہ ہوا کہ عبداللہ بن شاید کے فرمانے میں بڑی پیشین گوئی ہے جس کا ظہور مابعد میں یہ ہوا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے دل میں تو یہ یقین پیدا ہوگیا لیکن باقی کے یہود نے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کے یقین کو اپنے دلوں سے بالکل نکال ڈالا جس سے اصلی تورات کے احکام کی پابندی ان میں سے اٹھ گئی پہلے تو انہوں نے اصلی تورات کی آیتوں میں تبدل تغیر کیا اور پھر ایک تورات کے یہ تین نسخے۔ عبرانی یونانی۔ سامری بن گئے۔ اب ان میں باہمی یہ اختلاف ہے کہ سامری فرقے کے لوگ اپنے نسخے کو صحیح بتلاتے ہیں اور ان کے مقابل کے لوگ اپنے نسخوں کو صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر وبن العاض (رض) کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے مطلب پر دو صحابیوں کا جھگڑا ہوا اس جھگڑے میں غل شور تک کی نوبت آئی اس غل کی آواز سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے سے باہر آئے اور بڑے غصے سے آپ نے فرمایا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ تم سے پہلے لوگ کتاب آسمانی کے مطلب میں اسی طرح کا جھگڑا اور اختلاف ڈال کر خراب اور برباد ہوگئے اس مکی آیت میں یہود کی آیندہ کی حالت کی جو پشین گوئی ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا کہ اس قرآن یپیشین گوئی کے موافق یہود نے تورات کے معنے اور لفظوں میں تک اختلاف ڈالا کہ اس اختلاف نے ان کی عقبے کو برباد کردیا اب آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی اسی طرح نبی آخر الزمان محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بابرکت کتاب نازل فرمائی جس کا نام قرآن ہے اہل مکہ اگر اس قرآن کی مخالفت کو چھوڑ کر اس کے احکام کی پوری پابندی کریں گے تو شاید ان کو اللہ کے رحم کی امید کا موقعہ مل سکے گا۔ اس لفظ شاید کے فرمانے میں یہ پیشین گوئی ہے کہ اگرچہ ظاہر میں بعضے لوگوں کا شمار قرآن کی پیروی کرنے والوں میں ہوجاویگا لیکن قیامت کے دن ان کو اللہ کے رحم سے اس لئے محرومی ہوجاوے گی کہ ان کا خاتمہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر سے چند آدمیوں کو فرشتے کھینچ کر دوزخ کی طرف جب لیجانے لگیں گے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان فرشتوں سے کہیں گے یہ تو میرے اصحاب میں سے ہیں وہ فرشتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیں گے کہ آپ کی وفات کے بعد یہ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آیت کی پیشین گوئی کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علاوہ اور معجزوں کے قرآن ہی مجھ کو ایک ایسا معجزہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جس کے سبب سے بڑی امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے قیامت کے دن زیادہ ہوگی آیت ہیں قرآن کو برکت کی کتاب جو فرمایا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:154) ثم اتینا موسیٰ الکتب۔ یہاں ثم کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ ثم پھر ۔ التراخی فی الوقت کے لئے بولا جاتا ہے ۔ یعنی ماقبل سے مابعد کے وقت کے لحاظ سے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن بعض دفعہ التراخی فی الزنیہ کے لئے بھی بولتے ہیں۔ ایسے موقع پر اس کے معنی ہوں گے مزید برآں۔ اس سے بڑھ کر۔ ان معنوں میں یہ آیۃ 2:29 میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموت وہی ذات ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے واسطے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان مکمل کر دئیے۔ یہاں تراخی فی الوقت تو ہو نہیں سکتا کیونکہ سورة والنزعات 79:28 میں آسمان کے پیدا کرنے کے بعد آیۃ 30 میں فرمایا والارض بعد ذلک وجھا (79:30) اس کے بعد اس نے زمین کو بجھایا۔ لیکن یہ محض لغوی بحث ہے درحقیقت قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا پہلے ذکر ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں اور کہیں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم کیا گیا ہے کیونکہ کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ نہیں ہے کہ کس کو پہلے بنایا گیا اور کس کو بعد میں۔ بلکہ موقع محل کے مطابق ہر ایک کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو بیضاوی 6:164 ۔ تفہیم القرآن 79:20) ثم عاطفہ ہے۔ اور اس کا عطف وصکم پر ہے۔ اور یہ عطف ایک خبر کے بعد دوسری خبر بتانے کے لئے ہے کہ جب اللہ پاک اپنے قول وان ھذا صراطی مستقیما کے ذریعہ قرآن سے متعلق خبر دے چکا تو مدح توریت پر ثم کے ذریعہ عطف فرمایا۔ کہ اب تمہیں یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کتاب دی تھی جو کہ تماما علی الذی ۔۔ الخ تھی۔ تماما۔ پورا کرنا۔ پورا ہونا۔ تمام کرنا۔ تمام ہونا۔ کسی شے کے تمام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس حد تک پہنچ چکی کہ اب کسی خارجی شے کی اس کو احتیاج نہیں رہی۔ مکمل ۔ ناقص کی ضد ہے ناقص وہ ہے جو کسی خارجی شے کا محتاج ہو (یہاں پورا ہونا بطور نعمتوں اور نصانح کے ہے) ۔ علی الذین احسن۔ علی کل من احسن۔ ہر وہ شخص جو نیک عمل کرے۔ بھلائی کی روش اختیار کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی بنی اسرائیل کو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 154 : 158 : تماما ( مکمل) طائفتین (طائفۃ) ۔ دو جماعتیں۔ دوفرقے) صدف ( اس نے انکار کیا) انتظروا (تم انتظار کرو) ۔ تشریح : آیت نمبر 154 تا 158 : فرمان الٰہی کا رخ اہل عرب کفار و مشرکین کی طرف ہے۔ فرمایا کہ تمہیں جو بہانہ ڈھونڈنے ‘ بھاگنے کا چور دروازہ تلاش کرنے اور کسی نہ کسی طرح چھوٹ نکلنے کی عادت ہے۔ تو ممکن تھا تم یہ بہانہ کرتے۔ کہ توریت اور انجلش تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے نازل کی گئی تھیں۔ ہمیں کیا خبر وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔ ہم تو کلام الٰہی سے بےبہرہ رہے۔ اس لئے ہم بےقصور ہیں۔ تمہیں جو بڑھ بڑھ کے جھوٹے دعوے کرنے کی عادت ہے ‘ بعید نہ تھا تم یہ کہتے ۔ اگر ہم لوگوں کے لئے کلام الٰہی اترتا تو ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں سے بھی بڑھ کر تعمیل حکم کرتے۔ لواب یہ کلام الٰہی (قرآن پاک) تم ہی لوگوں کے درمیان نازل ہو رہا ہے۔ تمہاری ہی زبان میں ‘ تم ہی میں سے ایک شخص کے اوپر۔ اب تو تمام ممکن بہانوں کے رخنے بند ہوگئے۔ اب تمہارے پاس کوئی حجت نہیں رہی جسے تم قیامت کے دن پیش کرسکو ‘ یہ قرآن برکتوں والی کتاب ہے۔ اس کی دلیلیں روشن ہیں۔ ( اتمام حجت میں ‘ اتمام نعمت میں) اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی راہ پر چل نکلو۔ جس طرح بنی اسرائیل کو کتاب مقدس دی گئی تھی تاکہ لوگ اپنے رب کے سامنے پیشی پر ایمان لائیں۔ اسی طرح یہ کتاب مقدس تم کو دی جارہی ہے۔ کہ رب کے سامنے اپنی پیشی پر ایمان لائو۔ یقین کا مل کرلو کہ قیامت آئے گی ‘ تمہیں اپنے رب کے سامنے حساب و کتاب کے لئے حاضر ہونا ہی ہے اور جزا و سزا پانا ہی ہے۔ اے انکار کرنے والو اور راہ حق سے کترانے والو ! تمہارے سامنے اب دونوں راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ مطالعہ کی بھی کہ خود قرآن پڑھ کے سمجھو۔ اور مشاہدہ کی بھی۔ کہ ان کی زندگیوں کو دیکھو جو ایمان لا کر بالکل پلٹ گئے ہیں۔ کیا تم یہ اصرار کررہے ہو کہ غیب کی نشانیاں تمہارے سامنے آجائیں ‘ یا کوئی فرشتہ یا خود حق تعالیٰ تمہاری نظروں کے سامنے آموجود ہوں تو سن لو جب موت آئے گی غیب کی نشانیاں بھی سامنے آجائیں گی فرشتہ بھی آموجود ہوگا۔ اور تم قیامت کے دن حق تعالیٰ کو بھی دیکھ لو گے۔ مگر جب موت کا فرشتہ نظر آجائے گا تو ہزار چیخوپکار و دہائی دو کہ ہم ایمان لائے۔ ایمان لائے مگر سب بےکار۔ اس وقت کوئی شنوائی نہ ہوگی۔ اب بھی وقت ہے۔ جب تک سانس تب تک آس ۔ اب بھی ایمان لے آئو۔ اب بھی اپنے دعویٰ ایمان کی تصدیق اعمال خیر سے کرلو۔ نہیں کرتے ؟ تو وقت کا انتظار کرو۔ وقت خود ہی اس کا فیصلہ کر دے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صراط مستقیم کے نو سنگ میلوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اشارہ دیا ہے کہ یہ نصیحتیں تورات میں بھی موجود ہیں۔ یہاں لفظ ” ثُمَّ “ لا کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس کتاب کی دعوت اور جس راستے کی طرف بلاتے تھے اس کے بنیادی اصول بھی یہی تھے تورات میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا احکام کی تفصیلات نازل فرمائی تھیں۔ تاکہ اس شخص کے لیے ہدایت اور رحمت کے دروازے کھل جائیں جو اپنے رب کی ملاقات پر ایمان رکھتا ہے۔ اور یہی صفات اس کتاب یعنی قرآن مجید میں ہیں جو ہدایت کا سرچشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پیش خیمہ ہے جس میں انسان کی ہدایت کے لیے مکمل اور جامع رہنمائی کی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھتے ہوئے کتاب مبین کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے جس کی سب کو دعوت دی جاتی ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچ کر اس کی شفقت و رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ قرآن مجید سے ہدایت پانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حق دار ہونے کے لیے قیامت کے دن حساب و کتاب کا خوف دلانے کی بجائے رب کی ملاقات کی یاد دلائی گئی ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملاقات دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور محبوب ترین نعمت ہے۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) قَالَ کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ قَالَ إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ہَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِی رُؤْیَتِہٖ فَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَّ تُغْلَبُوا عَلٰی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوع الشَّمْسِ وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوب الشَّمْسِ فَافْعَلُوا) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ وجوہ یومئذ ناضرۃ ] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا عنقریب تم اپنے رب کو ایسے ہی دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تمہیں چاند دیکھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی ؟ اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ تم سست نہ ہوجاؤ فجر اور عصر کی نماز کا خیال رکھو۔ “ مسائل ١۔ تورات اپنے دور میں مکمل ہدایت تھی لیکن اب قرآن مجید ہدایت کا مل کا ذریعہ اور سرچشمہ ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رحمت، برکت اور ہدایت کا سبب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا عقیدہ انسان کو اپنے رب کی ہدایت پر گامزن رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ١) ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٥٤۔ یہ کلام لفظ ثم کے ذریعہ کلام ماقبل پر عطف ہے ۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ پہلے یہ آیت آئی تھی ۔ آیت ” قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً “۔ (٦ : ١٥١) جہاں یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ تمہارا حرام کردہ حرام نہیں بلکہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کیا ۔ پھر کہا آیت ” وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً “۔ (٦ : ١٥٣) کہ یہی میرا سیدھا راستہ اور دین ہے ۔ اس جملے کا عطف پہلے پر ہوا تھا ۔ یعنی آیت ” الا تشرکوا بہ “۔ پر اس کے بعد یہ آیت آئی آیت ” ثم اتینا موسیٰ الکتب “۔ (٦ : ١٥٤) جس کا عطف مذکورہ بالا دونوں جملوں پر ہوا ۔ اس طرح یہ پورا کلام مسلسل ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔ (تماما علی الذی احسن “۔ (٦ : ١٥٤) کا مفہوم یہ ہے ‘ جیسا کہ ابن جریر نے لکھا ہے ’ پھر ہم نے موسیٰ کو تورات دی اور یہ ان پر ہماری جانب سے تکمیل نعمت تھی ۔ ہماری جانب سے ان کے لئے اعزاز وشرف تھا اسی وجہ سے کہ انہوں نے احسان کا رویہ اختیار کیا اور اپنے رب کی اطاعت کی ۔ رب کی جانب سے جو فرائض بھی عائد کئے گئے ہیں اس پر وہ عمل پیرا ہوئے اور اس کتاب میں وہ تمام امور درج ہیں جن کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو ضرورت تھی ۔ آیت ” تفصیلاللکل شی (٦ : ١٥٤) ” قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد حلال و حرام ہیں ۔ آیت ” وھدی ورحمۃ “۔ (٦ : ١٥٤) کے معنی یہ ہیں کہ ان کی قوم ہدایت پائے اور آخرت کی جوابدہی پر ایمان لے آئے اور اس طرح اللہ کی رحمت کی مستحق ہو کر اللہ عذاب کے عذاب سے بچ جائے ۔ یہ تھے مقاصد جن کے لئے ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی تھی ‘ انہیں مقاصد کی خاطر اللہ نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ تم بھی ہدایت پاؤ اور پھر رحمت کے مستحق قرار پاؤ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توریت شریف کامل کتاب تھی رحمت اور ہدایت تھی ثُمَّ ترتیب ذکری کے لیے ہے مطلب یہ ہے کہ مذکورہ باتوں کے بعد یہ بات جان لو کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی تھی اور اس میں ان لوگوں کے لیے نعمت کی تکمیل ہے جو نیکوکار ہیں جو اس کتاب پر اچھی طرح عمل کریں۔ اور یہ کتاب ایسی تھی جس میں ہر چیز تفصیل سے بیان کی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت سے متعلق تھی۔ اور وہ کتاب ہدایت بھی تھی اور رحمت بھی۔ اس کتاب سے توریت شریف مراد ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تاکہ بنی اسرائیل اس کتاب پر ایمان لائیں اور آخرت کی تصدیق کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

175 سورت کے دونوں مضمونوں یعنی نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک فعلی کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں دونوں مضمونوں پر ایک دلیل نقلی اور ایک دلیل وحی ذکر کی گئی۔ اس آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دلیل نقلی پیش کی گئی ہے ثُمَّ یہاں تعقیب ذکری کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مذکور بیان کے بعد یہ بھی سن لو یہ مطلب نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اس کے بعد دی گئی۔ تَمَامًا بمعنی اتماماً ۔ اٰتَیْنَا کا مفعول لہ ہے یعنی نعمت دین کے اتمام کے لیے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی یا تماماً بمعنی تاما الکتاب سے حال ہے۔ یعنی وہ کتاب (تورات) کامل و مکمل تھی اور اس میں یہ دونوں مضمون مذکور تھے۔ نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی (تحریمات غیر اللہ ناجائز اور نذر و غیر اللہ حرام ہیں) عَلَی الَّذِیْ اَحْسَنَ یعنی اس شخص کے لیے جو نیک روی اختیار کرے۔ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ اور اس (تورات) میں وہ تمام ضروری احکام و مسائل مذکور تھے جن کی دین میں ضرورت تھی۔ فائدہ : ایک حدیث میں آتا ہے فتجلی لی کل شیء یعنی میرے لیے ہر چیز روشن ہوگئی اہل بدعت اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کلی پر استدلال کرتے ہیں۔ ان کے استدلال کی بنیاد اس پر ہے کہ یہاں لفظ کل استغراق حقیقی کے لیے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف اور ساقط الاعتبار ہے۔ دوم اگر بالغرض اسے مان لیا جائے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہاں کل استغراق حقیقی کے لیے ہے بلکہ یہاں استغراق اضافی مراد ہے۔ اگر اس کو استغراق حقیقی پر محمول کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تمام ماکان ومایکون اور تمام شرائع اور احکام کا علم آپ پر منکشف ہوگیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن مجید کا نازل کرنا عبث اور بےفائدہ ہے۔ عیاذا باللہ العظیم قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ چناچہ زیر تفسیر آیت میں بھی لفظ کل استغراق اضافی کے لیے ہے اور اس سے مراد وہ احکام ہیں جن کی دین میں ضرورت تھی علامہ آلوسی لکھتے ہیں ای بیانا مفصلا لکل ما یحتاج الیہ فی الدین (روح ج 8 ص 60) امام نفسی فرماتے ہیں بیانا مفصلا لکل ما یحتاجون الیہ فی دینھم (مدارک ج 2 ص 32) امام بغوی اور خازن رقمطراز ہیں یعنی وفیہ بیان لکل شیء یحتاج الیہ من شرائع الدین واحکامہ (معالم و خازن واللفظ لہ ج 2 ص 166) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

154 پھر ہم نے موسیٰ کو بھی آپ سے پہلے ایک کتاب دی تھی تاکہ بھلے اور نیک کام کرنے والوں پر ہم اپنی نعمت اور اپنا احسان پورا کردیں اور ہر ضروری چیز کی تفصیل بیان ہوجائے اور لوگوں کے لئے وہ کتاب سراسر ہدایت و رحمت ہو نیز اس لئے یہ کتاب دی کہ وہ بنی اسرائیل اپنے رب کے ملنے اور اپنے پروردگار کی ملاقات پر ایمان لائیں اور اس کی ملاقات کا یقین رکھیں۔ یعنی آپ کوئی پہلے اور نئے رسول نہیں ہیں جن پر کتاب اتری ہو بلکہ آپ سے پہلے حضرت موسیٰ کو بھی ہم نے کتاب دی تھی جو تمام نعمت اور تفصیل ضروریہ اور رہنمائی اور رحمت الٰہی کا سبب تھی اور بڑی غرض یہ تھی کہ توریت کی رہنمائی میں وہ آخرت پر ایمان لائیں اور ملاقات خدا وندی پر یقین رکھیں۔