Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 155

سورة الأنعام

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَ اتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ

And this [Qur'an] is a Book We have revealed [which is] blessed, so follow it and fear Allah that you may receive mercy.

اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی ، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

...that they might believe in the meeting with their Lord. And this is a blessed Book (the Qur'an) which We have sent down, so follow it and have Taqwa so that you may receive mercy. This calls to following the Qur'an. Allah encourages His servants to follow His Book (the Qur'an) and orders them to understand it, adhere to it and call to it. He also describes it as being blessed, for those who follow and implement it in this life and the Hereafter, because it is the Firm Rope of Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

155۔ 1 اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٨] قرآن تورات سے یادہ بابرکت کیسے ہے ؟ تورات کے مقابلہ میں قرآن کے زیادہ بابرکت ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تورات صرف ایک قوم یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھی جبکہ قرآن سب لوگوں کے لئے ہے اور تمام اقوام عالم سے مخاطب ہے۔ دوسرے یہ کہ تورات ایک مخصوص زمانہ کے لئے تھی جبکہ قرآن قیامت تک کے لئے ہے۔ تیسرے وہ صرف قومی مسائل کا حل پیش کرنے والی تھی۔ یہ پوری انسانیت کے مسائل کا جواب دیتی ہے۔ پھر اس میں پہلی تمام آسمانی کتب و صحائف کے مضامین کو سمو دیا گیا ہے۔ لہذا اب تمہیں دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ کی رحمت سے حظ وافر لینا چاہتے ہو تو اس کی اتباع کرو۔ اور اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہو کہ اس کتاب کے کسی حصہ کی خلاف ورزی تم سے سرزد نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَھٰذَا كِتٰبٌ ۔۔ : اس سے مراد قرآن مجید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝ ١٥٥ ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اتباعِ قرآن حکیم قول باری ہے ( وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتبعوہ واتقوا، اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے۔ ایک برتک والی کتاب ، پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو) یہ کتاب یعنی قرآن مجید کی اس کے مقتضیات یعنی فرض یا نفل یا اباحت کے بموجب اتباع کا حکم ہے، نیز اس میں مندرج ہر چیز کا اس کے مقتضیٰ کے مطابق اعتقاد کا امر ہے۔ برکت خیر یعنی بھلائی کے ثبوت اور اس کے نمو کا نام ہے،۔ فقرہ ” تبارک اللہ “ ثبات کی صفت ہے جس کا نہ کوئی اول ہے نہ آخر۔ اس تعظیم کا استحقاق صرف اللہ وحدہ، لا شریک کو حاصل ہے۔ قول باری ہے ( ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی) حضرت ابن عباس (رض) ، حنس، مجاہد، قتادہ ، سدی اور ابن جریج کا قول ہے کہ ان گروہوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اہل کتاب صرف یہود و نصاریٰ ہیں۔ مجوس اہل کتاب نہیں ہیں۔ اس لیے کہ مجوس اگر اہل کتاب ہوتے تو پھر اہل کتاب دو گروہ نہ ہوتے تین گروہ ہوتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اہل کتاب دو گروہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دوگروہوں کی بات مشرکین کا قول نقل کرتے ہوئے فرمائی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ان کے قول کی نقل نہیں ہے بلکہ یہ ان پر بایں معنی حجت تام کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر بھی کتاب نازل کردی ہے تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی۔ اس طرح اللہ تعلایٰ نے کتاب نازل کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور ان کا یہ استدلال باطل کردیا کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل کی گئی تھی۔ ہم پر نازل نہیں کی گئی تھی۔ قول باری ہے ( ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملائکۃ او یاتی ربک کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آکھڑے ہوں یا تمہارا رب خود آ جائے) ایک قول کے مطابق ” یا تمہارا رب خود آ جائے “ کے معنی ” یا تمہارے رب کا حکم عذاب کے ساتھ آ جائے “ کے ہیں۔ حسن سے یہ قول مروی ہے۔ فقرے میں یہ الفاظ اسی طرح مخدوف ہیں جس طرح قلو باری ( ان الذین یوزون اللہ) میں مخدوف ہیں۔ اس کے معنی ہیں جو لوگ اللہ کے دوستوں کو ایذا پہنچاتے ہیں “ ایک قول کے مطابق آیت زیر بحث کے معنی ہیں ” یا تمہارا رب اپنی زبردست نشانیاں لے آئے “ ایک قول ہے ” فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آ جائیں “ یا ” تمہارے رب کا حکم قیامت کے دن آ جائے “ یا ” تمہارے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں یعنی سورج مغرب سے طلوع ہوجائے “۔ یہ اقوال مجاہد، قتادہ اور سدی سے منقول ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٥) اور یہ قرآن حکیم جس کو ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نازل کیا ہے یہ کتاب اس پر ایمان لانے والے کے لیے رحمت ومغفرت کا باعث ہے۔ لہذا اسی کی حلال و حرام چیزوں اور اسی کے اوامر ونواہی کی پیروی کرو اور دوسری غلط چیزوں سے بچو تاکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو جس کی وجہ سے تم پر عذاب نازل نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:155) وھذا کتب۔ یعنی قرآن حکیم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب سے خطاب تھا اور اب اہل مکہ کے حوالے سے پوری دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اہل مکہ اور باقی لوگوں کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہدایت کے لیے تو کتاب نازل کی گئی تھی۔ ہمیں کتاب سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے لیے تورات اور انجیل کا الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ” الکتاب “ فرما کر صرف ایک کتاب یعنی تورات کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس لیے کہ انجیل تورات ہی کے احکام کا تتمہ اور تفصیل ہے۔ اس بنا پر عیسائیوں، یہودیوں کے لیے ” الکتاب “ لا یا گیا ہے۔ پھر اہل مکہ اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی مفصل اور مبارک کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ تمہیں یہ بات کہنے کا جواز نہ مل سکے کہ ہمارے پاس براہ راست کوئی کتاب نہیں آئی۔ جس سے ہم ہدایت حاصل کرتے۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ تمہیں یہ کہنے کا موقع نہ مل پائے کہ اگر ہم پر اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم یہود و نصاریٰ کی طرح گمراہ ہونے کے بجائے ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ اس بہانے کو رفع کرنے اور اتمام حجت کے لیے تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سر چشمہ اور اس کی رحمت کا ذریعہ ہے جو شخص اس کتاب کی ہدایت، دلائل اور بینات کو جھٹلاتا اور ان سے منہ پھیرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا۔ ایسا شخص گمراہی میں پڑ کر اپنے آپ پر ہی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی نسل اور لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلائیں، ان سے انحراف کریں اور ہدایت کے راستہ میں رکاوٹ بنیں انھیں بد ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد زبان سے ان کی تکذیب کرنا یا جان بوجھ کر ان سے اعراض کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تاکہ لوگوں کو اپنی گمراہی کا بہانہ نہ رہے۔ ٢۔ قرآن مجید مفصل، جامع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور رحمت کا پیغام ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا یا اس سے انحراف کرنے والا ظالم انسان ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٥٥۔ بیشک یہ ایک مبارک کتاب ہے اور اس کی تشریح ہم نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس آیت کی تفسیر میں کردی ہے جہاں یہ لفظ پہلے آیا تھا : ۔ آیت ” وَہَـذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَہُمْ عَلَی صَلاَتِہِمْ یُحَافِظُونَ (92) ” یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ۔ بڑی خیر و برکت والی ہے ۔ اس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی ۔ اور اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو ۔ جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ “ یہاں لفظ مبارک اسلامی نظریہ حیات اور اس کی شمولیت اور ہمہ گیری کی بحث کے ضمن میں آیا ہے یعنی یہ کتاب ایک شرعی نظام پر مشتمل ہے۔ حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ تم اس شرعی نظام کی اطاعت کرو اور تم پر اللہ کی رحمت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ تم اس کتاب کا اتباع کرو ‘ کیونکہ یہاں کلام شرعی نظام کے بارے میں ہے جبکہ سورة کے آغاز میں بات اسلامی عقائد ونظریات کی تھی ۔ یعنی اب تمہارے لئے کوئی وجہ معذرت باقی نہیں ہے اور نہ کوئی حجت باقی ہے ۔ یہ کتاب نازل ہوئی اور اس نے تمام دلائل اور حجتوں کو منسوخ و باطل کردیا ہے ۔ اس کتاب میں زندگی کے تمام امور کی تفصیلات موجود ہیں زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں اس میں ہدایات موجود نہ ہوں کہ تم خود اپنے لئے قانون بنانے کے لئے محتاج ہوجاؤ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مبارک کتاب ہے اس کے بعد قرآن مجید کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے یہ کتاب نازل کی جو مبارک ہے یعنی دنیاو دین کے اعتبار سے اس میں خیر ہی خیر ہے لہٰذا تم اس کا اتباع کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

176 یہ سورت کے دونوں مضمونوں پر دلیل وحی ہے یعنی کتاب بھی تورات کے موافق تحریمات لغیر اللہ کو حلال اور نذور غیر اللہ کو حرام بتا رہی ہے۔ اس کی پیروی کرو اور اس کی مخالفت سے بچو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

155 اور توریت کی طرح یہ قرآن کریم بھی بڑی بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے لہٰذا تم اب اس کتاب کی پیروی کرو اور قرآن کریم کی مخالفت سے بچتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے یعنی قرآن کریم کی مخالفت سے یا قرآن کریم پر عمل کرنے کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو جو قرآن کریم پر عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہوگا۔