Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 159

سورة الأنعام

اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾

Indeed, those who have divided their religion and become sects - you, [O Muhammad], are not [associated] with them in anything. Their affair is only [left] to Allah ; then He will inform them about what they used to do.

بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Criticizing Division in the Religion Allah says; إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ... Verily, those who divide their religion and break up into sects, you have no concern with them in the least. Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and As-Suddi said that; this Ayah was revealed about the Jews and Christians. Al-Awfi said that Ibn Abbas commented, إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا (Verily, those who divide their religion and break up into sects...), "Before Muhammad was sent, the Jews and Christians disputed and divided into sects. When Muhammad was sent, Allah revealed to him, إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (Verily, those who divide their religion and break up into sects, you have no concern with them in the least). It is apparent that this Ayah refers to all those who defy the religion of Allah, or revert from it. Allah sent His Messenger with guidance and the religion of truth so that He makes it victorious and dominant above all religions. His Law is one and does not contain any contradiction or incongruity. Therefore, those who dispute in the religion, وَكَانُواْ شِيَعًا (...and break up into sects), religious sects, just like those who follow the various sects, desires and misguidance - then Allah has purified His Messenger from their ways. In a similar Ayah, Allah said, شَرَعَ لَكُم مِّنَ الِدِينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِى أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ He (Allah) has ordained for you the same religion which He ordained for Nuh, and that which We have revealed to you. (42:13) A Hadith reads, نَحْنُ مَعَاشِرُ الاَْنْبِيَاءِ أَوْلاَدُ عَلَّتٍ دِينُنَا وَاحِد We, the Prophets, are half brothers but have one religion. This, indeed, is the straight path which the Messengers have brought and which commands worshipping Allah alone without partners and adhering to the Law of the last Messenger whom Allah sent. All other paths are types of misguidance, ignorance, sheer opinion and desires; and as such, the Messengers are free from them. Allah said here, لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (You have no concern with them in the least...). Allah's statement, ... إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّيُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ Their affair is only with Allah, Who then will tell them what they used to do. is similar to His statement, إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّـبِيِينَ وَالنَّصَـرَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيـمَةِ Verily, those who believe, and those who are Jews, and the Sabians, and the Christians, and the Majus, and those who worship others besides Allah; truly, Allah will judge between them on the Day of Resurrection. (22:17)

اہل بدعت گمراہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے شیئی تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور نے فرمایا وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس امت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ حضرت ابو ہریرہ کا قول ہو ۔ ابو امامہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں مراد اس سے اہل بدعت ہے ۔ اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضور جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ ) 42- الشورى:13 ) ہے ایک حدیث میں بھی ہے کہ ہم جماعت انبیاء علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا جیسے اور آیت میں ہے کہ مومنوں ، یہودیوں ، صابیوں اور نصرانیوں میں مجوسیوں میں مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق وتخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔ شیعا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٢] تفرقہ بازی کی بنیاد حب جاہ ومال ہوتی ہے :۔ فرقہ بازی ایسی لعنت ہے کہ ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیتی ہے اور ایسی قوم کی ساکھ اور وقار دنیا کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو عذاب ہی کی ایک قسم بتایا ہے اور دوسرے مقام پر فرقہ بازوں کو مشرکین کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقہ کا آغاز کسی بدعی عقیدہ سے یا عمل سے ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نبی یا رسول یا بزرگ اور ولی کو اس کے اصل مقام سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک بنادینا یا کسی کی شان کو بڑھا کر بیان کرنا یا کسی سے بغض وعناد رکھنا وغیرہ۔ یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے شدت سے منع فرمایا اور بدعی اعمال کا زیادہ تر تعلق سنت رسول سے ہوتا ہے۔ کسی سنت رسول کو ترک کردینا یا کسی نئے کام کا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کردینا وغیرہ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین میں اس کام کی پہلے کمی رہ گئی تھی جو اب پوری کی جا رہی ہے۔ پھر یہ فرقہ بازیاں عموماً دو ہی قسم و کی ہوتی ہیں ایک مذہبی جیسے کسی مخصوص امام کی تقلید میں انتہا پسندی۔ یا کسی معمولی قسم کے اختلاف کو اہم اور اہم اختلاف کو معمولی بنادینا۔ اور دوسرے سیاسی۔ جیسے علاقائی، قومی، لسانی اور لونی بنیادوں پر فرقہ بنانا۔ غرض جتنے بھی فرقے بنائے جاتے ہیں ان کی تہہ میں آپ کو دو ہی باتیں کارفرما نظر آئیں گی ایک حب مال اور دوسرے حب جاہ۔ اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا && بھیڑوں کے کسی ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیئے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنا حب مال یا حب جاہ کسی کے ایمان کو برباد کرتے ہیں && (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الرقاق الفصل الثانی) نیز حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && جماعت المسلمین اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔ && میں نے عرض کیا کہ && اگر جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو تو کیا کروں ؟ && فرمایا && تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ رہنا خواہ تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ یہاں تک کہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے۔ && (بخاری۔ کتاب الفتن۔ باب کیف الا مر اذا لم تکن جماعۃ مسلم۔ کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ المسلمین عند ظھور الفتن) نیز آپ نے فرمایا کہ && میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ نجات پائے گا باقی سب جہنمی ہوں گے۔ && صحابہ نے پوچھا : وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا ؟ فرمایا && جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ && (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ ۔۔ : یعنی اصل دین شروع سے ایک ہی ہے جس کی بنیاد اللہ کی توحید، یوم آخرت اور انبیاء پر ایمان اور ان کی اطاعت پر ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (٥٢، ٥٣) ، سورة یونس (١٩) ، سورة انعام (١٥٣) اور سورة بقرہ (٢١٣) ۔ اپنے اپنے زمانے کے مطابق احکام میں کچھ فرق ہوسکتا ہے مگر اصل سب کا ایک اسلام ہی ہے۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہر شخص کے لیے آپ پر ایمان لانا اور آپ کے طریقے پر چلنا لازم قرار دے دیا۔ اب جو شخص بھی اپنا کوئی جدا راستہ اختیار کر کے الگ گروہ بنائے، خواہ وہ دہریہ ہو یا مشرک یا یہودی یا نصرانی، اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ ان سے بری ہیں اور آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح آپ کی امت میں سے اسلام قبول کرنے کے بعد جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام، یعنی قرآن و سنت کے علاوہ کوئی نیا طریقہ یعنی بدعت اختیار کر کے اپنا الگ گروہ بنالیں، آپ ان سے بری ہیں، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہود ٧١ یا ٧٢ فرقوں میں اور نصاریٰ بھی اتنے ہی فرقوں میں جدا جدا ہوگئے اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ٤٥٩٦۔ ترمذی : ٢٦٤٠۔ ابن ماجہ : ٣٩٩٢۔ ابن حبان : ٦٧٣١ ] معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : ” یاد رکھو، تم سے پہلے اہل کتاب ٧٢ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہوگئے اور یہ ملت ٧٣ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہوجائے گی، ٧٢ آگ میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور وہ جماعۃ ہے۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ٤٥٩٧۔ أحمد : ٤؍١٠٢، ح : ١٦٩٤٠ ] عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت میں ہے : ” وہ سب آگ میں ہوں گے مگر ایک ملت۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِیْ ) ” جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ “ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ہذہ الأمۃ : ٢٦٤١ ] اس حدیث کے مزید حوالوں اور صحت کے لیے دیکھیے ” السلسلۃ الصحیحۃ : ١؍٤٠٢ تا ٤١٤، ح : ٢٠٣، ٢٠٤“ یاد رہے کہ سوچ اور اجتہاد کا اختلاف یا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے اختلاف تو صحابہ اور تابعین میں بھی پایا جاتا تھا، مگر وہ سب ایک ہی جماعت تھے، انھوں نے کسی شخصیت کی تقلید کی خاطر فرقے نہیں بنائے تھے۔ مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنا اپنا الگ پیشوا بنا کر اس کی ہر صحیح اور غلط بات کو دین قرار دے کر الگ فرقہ بنا لیا۔ یہ چیز مسلمانوں کے تین بہترین زمانوں میں نہیں تھی، پہلے انبیاء کی امتوں کو اسی چیز نے برباد کیا اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بگاڑ کا باعث بھی یہی بات بنی کہ قرآن و حدیث کا واضح حکم آنے کے بعد بھی کچھ لوگ اپنے دھڑے کی وجہ سے اپنے امام یا مرشد کی غلط باتوں پر اڑ کر الگ الگ ہوگئے اور مسلمانوں کا شخصیتوں کی بنیاد پر بنے ہوئے فرقوں کو چھوڑ کر کتاب و سنت پر جمع ہونا ایک خواب ہی رہ گیا جس کی تعبیر کسی زبردست خلیفہ یا مہدی یا مسیح (علیہ السلام) ہی کے ذریعے سے پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary As pointed out earlier, a major portion of Surah Al-An&am is devot¬ed to addressing the disbelievers of Makkah and answering questions asked by them. They were told that the straight path to Allah was fol¬lowing the Qur&an and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Before him, dur¬ing the time of past prophets, salvation depended on following their books and code of laws. The same thing is true today. Today, salvation lies in following nothing but the Shari` ah brought by him. So, they were asked to become reasonable, take the straight path and avoid exchanging it with paths of error right and left. If they did that, they were warned, these ways of error will throw them far away from the way of Allah. The first (159) of the two verses carries a general address included wherein are the disbelievers of Arabia, the Jews and Christians and Muslims, all of them. Addressing them, stated there is the sad end of those who turn away from the straight path of Allah - and the instruc¬tion given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is that he should have nothing to do with those who take to the ways of error. Then, out of these, there are those ways of error which take one in a direction total¬ly opposite to what the straight path is, such as the ways of the disbelievers, polytheists and the people of the Book. Then, there are other ways too, which do not, though, take one all the way in the opposite di¬rection, but misguide them any way by pulling them away from the straight path and putting them on ways to the right and left. These are ways of &doubts& and &innovations& in the true and settled faith (Shubhat and Bid&at). They too lead one astray. So, it was said: إِنَّ الَّذِينَ فَرَّ‌قُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُ‌هُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿١٥٩﴾ (Surely, those who have made divisions in their religion and turned into factions, you have nothing to do with them. Their case rests with Allah alone; then He will tell them what they have been do¬ing). In this verse, made clear first was that the Messenger of Allah was free of any responsibility concerning those who land themselves into the ways of error. The noble Prophet, may the blessings of Allah, and peace be upon him, had nothing to do with them. Then, they were given the notice of warning that their case was, sufficient to say, in the hands of Allah Ta` ala, and it was He who would punish them on the day of Qiyamah. As for ` having made divisions in religion and turning into factions& mentioned in the verse is concerned, it refers to the practice of not fol¬lowing the basic principles of established religion, rather electing to follow personal whims and desires, or become willing victims of Satan¬ic instigations and deceptions, as an outcome of which, one would add something new to it, or leave some of that which is already there. Stern Warnings against Making Additions in Established Religion According to Tafsir Mazhari, included here are the peoples of the past communities as well, those who had abandoned their basic relig¬ion and had added to it things on their own - and with them, there are the deviators and innovators (the partisans of Bid&ah) of this Ummah too, who keep adding baseless things, on their own, into the Din of Islam. About this, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: ` My Ummah will face the same conditions faced by the Bani Isra&il. The kind of evil practices in which they got involved will also affect the people of my Ummah. The Bani Isra&il had split into seventy two sects. My Ummah will break up into seventy three sects - all of them will go to Hell, except one. The Sahabah asked about the group which would be so blessed with salvation. He said: مَا اَنَا عَلَیہِ اَصحَابِی (ma ana &alaihi wa ashabi : That on which am I and my Companions) & - that is, the collective body of people which follows my way and the way of my Sababah will be blessed with salvation. (This narration from Sayyidna ibn ` Umar (رض) عنہما has been reported by Tirmidhi and Abu Daud) Al-Tabarani has reported on sound authority from Sayyidna Faruq al-A&zam (رض) ، that he told Sayyidnah ` A&ishah (رض) that the sects mentioned in this verse are the people of Bid&ah (innovators in established religion) who, following their whims and desires, invent new ways in religion. The same view has been reported from Sayyidna Abu Hurairah (رض) with sound authority. Therefore, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has emphatically prohibited the invention and introduction of new methods in religion on one&s own. Based on a narration from Sayyidna Al-` Irbad ibn Sariyah, Imam Ahmad, Abu Dawud, Tirmidhi رحمۃ اللہ علیہم and others have reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ` Those who live after me will see many differences. Therefore, (I order you that) you should, abiding by my Sunnah (way) and the Sunnah of my rightly-guided successors (Khulafa& ar-Rashidin) strictly, keep doing what you do while adhering to nothing but these, avoid the temptation of falling for new methods because everything introduced anew into the religion is Bid&ah, and every Bid&ah is error and straying.& In another Hadith, he said: ` One who stood separated from the Jama` ah, even to the measure of a span between the extended thumb and the little finger, he has taken out the band of allegiance to Islam from around his neck. (Abu Dawud and Ahmad) According to Tafsir Mazhari, ` Jama` ah& in this Hadith means ` the Jama` ah of Sahabah,& that is, the collective body or group of the noble Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The reason is that Allah Ta` ala sent our master, Muhammad al-Mustafa صلی اللہ علیہ وسلم as His Rasul, and gave him the Qur&an, and blessed him with another (kind of) Wahy (revelation) - which is called the Hadith or Sunnah. Then, there are many difficult or brief or ambiguous verses in the Qur&an. For their Tafsir or explanation, Allah Ta` ala promised that He shall have these clarified through His Rasul. The statement: ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾ & (After that, to make it clear to you is on Us - 75:19) means exactly this. So, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) explained the difficulties and ambiguities of the Qur&an and groomed his direct disciples, that is, the Sababah into the many modes of his Sunnah through his word and deed. Therefore, the conduct of the Sahabah as a major collective enti¬ty (placed by Divine design into a trail-blazing role as mirrors of their blessed master) is in itself the statement and the explanation of the Divinely-ordained Shari&ah of Islam. Therefore, it is the good fortune of a Muslim that he or she should follow the Kitab of Allah and the Sunnah of the Rasul of Allah - and whenever one faces a doubt in the meaning of an &Ayah of the Qur&an or the sense of a Hadith, one should go by the meaning and sense preferred by the noble Sahabah. Unfortunately, as a result of people ignoring this sacrosanct rule of conduct, Islam had to see the emergence of different sects which would set aside the proven conduct and explanations of the Sahabah and take the liberty of saying what they wished and declare it to be the very meaning of the Qur&an and Sunnah. These are the ways of error the Holy Qur&an has repeatedly warned against and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has emphatically prohibited it throughout his blessed life, at times, even castigated those acting against this rule with la&nah. Sayyidah ` A&ishah As-Siddiqah (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that on six persons he casts his la&nah, and may the la&nah of Allah be upon them: (1) The person who has added something to the Book of Allah from his side (that is, whether added some words, or carried the meaning to such excessive limits as is con¬trary to the Tafsir of the Sahabah), (2) the person who has denied the Divinely-ordained destiny, (3) the person who hoists himself into a po¬sition of authority over the Muslim Ummah by force (or deceit) so that he would honour the person disgraced by Allah, and disgrace the person given honour by Allah, (4) the person who took as Halal what Al¬lah had made Haram, that is, indulged in killing at the sacred pre¬cincts of the Harm in Makkah, or, hunted there, (5) the person who dishonoured my family and children, and (6) the person who aban¬doned my Sunnah.

خلاصہ تفسیر بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو (جن کے وہ مکلف ہیں) جدا جدا کردیا (یعنی دین حق کو بتمامہ قبول نہ کیا، خواہ سب کو چھوڑ دیا یا بعض کو اور طریقے شرک و کفر و بدعت کے اختیار کر لئے) اور (مختلف) گروہ گروہ بن گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے کوئی تعلق نہیں (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی الزام نہیں) بس (وہ خود اپنے نیک و بد کے ذمہ دار ہیں، اور) ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے (وہ دیکھ بھال رہے ہیں) پھر (قیامت میں) ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (اور حجت قائم کرکے استحقاق عذاب ظاہر کردیں گے) جو شخص نیک کام کرے گا اس کو (اقل درجہ) اس کے دس حصے ملیں گے (یعنی ایسا سمجھا جاوے گا کہ گویا وہ نیکی دس بار کی اور نیز ایک نیکی پر جس قدر ثواب ملتا اب دس حصے ویسے ثواب کے ملیں گے) اور جو شخص برا کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی (زیادہ نہ ملے گی) اور ان لوگوں پر (ظاہراً بھی) ظلم نہ ہوگا (کہ کوئی نیکی درج نہ ہو یا کوئی بدی زیادہ کرکے لکھ لی جاوے) ۔ معارف و مسائل سورة انعام کا بیشتر حصہ مشرکین مکہ کے خطاب اور ان کے سوال و جواب کے متعلق آیا ہے، جس میں ان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ صرف قرآن اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع میں منحصر ہے، جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء کے زمانہ میں ان کا اور ان کی کتاب و شریعت کا اتباع مدار نجات تھا، آج صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ کی شریعت کی پیروی مدار نجات ہے، عقل سے کام لو اور اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں بائیں کے غلط راستوں کو اختیار نہ کرو، ورنہ وہ راستے تمہیں خدا تعالیٰ سے دور کردیں گے۔ مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ایک عام خطاب ہے جس میں مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب داخل ہیں، ان سب کو مخاطب کرکے اللہ کے سیدھے راستے سے منحرف ہونے والوں کا انجام بد بیان کیا گیا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان غلط راستوں پر چلنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ پھر ان میں غلط راستے وہ بھی ہیں جو صراط مستقیم سے بالکل مخالف جانب لے جانے والے ہیں، جیسے مشرکین اور اہل کتاب کے راستے، اور وہ راستے بھی ہیں جو مخالف جانب میں تو نہیں مگر سیدھے راستے سے ہٹا کر دائیں بائیں لے جانے والے ہیں، وہ شبہات اور بدعات کے راستے ہیں، وہ بھی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتے ہیں۔ (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ،” یعنی وہ لوگ جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے، تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ جتلائے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے “۔ اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا کوئی تعلق نہیں، پھر ان کو یہ وعید شدید سنائی کہ ان کا معاملہ بس خدا تعالیٰ کے حوالے ہے وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے۔ دین میں تفرق ڈالنا اور فرقے بن جانا جو اس آیت میں مذکور ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اصول دین کے اتباع کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور خواہشات کے مطابق یا شیطانی مکر وتلبیس میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا دے یا بعض چیزوں کو چھوڑ دے۔ دین میں بدعت ایجاد کرنے پر وعید شدید تفسیر مظہری میں ہے کہ اس میں پچھلی امتوں کے لوگ بھی داخل ہیں جنہوں نے اپنے اصول دین کو ترک کرکے اپنی طرف سے کچھ چیزیں ملا دی تھیں، اور اس امت کے اہل بدعت بھی جو دین میں اپنی طرف سے بےبنیاد چیزوں کو شامل کرتے رہتے ہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ : ” میری امت میں بھی وہی حالات پیش آویں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے، جس طرح کی بد اعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے، بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے، میری امت کے تہتر (73) فرقے ہوجاویں گے جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے، فرمایا ما انا علیہ و اصحابی، یعنی وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گی وہ نجات پائے گی، (اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد نے بروایت ابن عمر (رض) نقل کیا ہے) “۔ اور طبرانی نے بسند معتبر حضرت فاروق اعظم (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت اور اپنی خواہشات و خیالات کے تابع نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں، یہی مضمون حضرت ابوہریرہ (رض) سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین میں نئے نئے طریقے اپنی طرف سے ایجاد کرنے کو بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ امام احمد، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ نے بروایت عرباض بن ساریہ (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلافات دیکھیں گے، اس لئے (میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ) تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اس کے مطابق ہر کام میں عمل کرو، نئے نئے طریقوں سے بچتے رہو، کیونکہ دین میں نئی پیدا کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا (رواہ ابو داؤد و احمد) ۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ جماعت سے مراد اس حدیث میں جماعت صحابہ ہے، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن عطا فرمایا، اور قرآن کے علاوہ دوسری وحی عطا فرمائی، جس کو حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، پھر قرآن میں بہت سی آیات مشکل یا مجمل یا مبہم ہیں، ان کی تفسیر وبیان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ بیان کرنے کا وعدہ فرمایا، (آیت) ثم ان علینا بیانہ کا یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات اپنے بلا واسطہ شاگرودں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ سکھلائیں، اس لئے جمہور صحابہ کا عمل پوری شریعت الٓہیہ کا بیان و تفسیر ہے۔ اس لئے مسلمان کی سعادت اسی میں ہے کہ ہر کام میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرے، اور جس آیت یا حدیث کی مراد میں اشتباہ ہو اس میں اس کو اختیار کرے جس کو جمہور صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہو۔ اس مقدس اصول کو نظر انداز کردینے سے اسلام میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے کہ تعامل صحابہ اور تفسیرات صحابہ کو نظر انداز کرکے اپنی طرف سے جو جی میں آیا اس کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دیدیا، یہی وہ گمراہی کے راستے ہیں جن سے قرآن کریم نے بار بار روکا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر بھر بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا، اور اس کے خلاف کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چھ آدمیوں پر میں لعنت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت کرے، ایک وہ شخص جس نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا (یعنی خواہ کچھ الفاظ بڑھا دیئے یا معنی میں ایسی زیادتی کردی جو تفسیر صحابہ کے خلاف ہے) دوسرے وہ شخص جو تقدیر الٓہی کا منکر ہوگیا، تیسرے وہ شخص جو امت پر زبردستی مسلط ہوجائے تاکہ عزت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے ذلیل کیا ہے اور ذلت دیدے اس شخص کو جس کو اللہ نے عزت دی ہے، چوتھے وہ شخص جس نے اللہ کے حرام کو حلال سمجھا، یعنی حرم مکہ میں قتل و قتال کیا، یا شکار کھیلا، پانچویں وہ شخص جس نے میری عترت و اولاد کی بےحرمتی کی، چھٹے وہ شخص جس نے میری سنت کو چھوڑ دیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَى اللہِ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝ ١٥٩ تَّفْرِيقُ ( فرقان) أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] ، وقرئ : فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] ، أي : يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، قيل : أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] . والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين . التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے الفرق کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فرقہ پرستی قول باری ہے ( ان الذین فرقوا دینھم و کالو شیعا۔ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ درگروہ بن گئے) مجاہد کا قول ہے کہ اس سے یہود مراد ہیں اس لیے کہ یہی لوگ مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کی مدد کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں اس لیے کہ نصاریٰ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے۔ یہود کا بھی یہ حال تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے کہ اس سے امت مسلمہ کے گمراہ لوگ مراد ہیں اس طرح آیت میں مسلمانوں کو اہل اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہونے سے ڈرایا گیا ہے۔ اور انہیں دین کے نام پر اکٹھے ہوجانے اور یگانگت قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس سے تمام مشرکین مراد ہیں۔ اس لیے کہ یہی لوگ اس برائی میں ملوث ہیں۔ آیت میں وارد لفظ ( دینھم) سے ایک قول کے مطابق وہ دین مراد ہے جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا تھا اور جسے ان کے لیے بطور دین قمرر کیا تھا۔ ایک قول کے مطابق اس سے وہ دین مراد ہے جس پر یہ لوگ قائم تھے اس لیے کہ دین سے جہالت کی بنا پر یہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے۔ آیت میں لفظ (شیعا) سے ایسے فرقے مراد ہیں جو کسی ایک بات پر ایک دوسرے کی موافقت کریں اور اس کے سوا دوسری باتوں میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں۔ اس کے اصل معنی ظاہر ہونے کے ہیں۔ عربوں کا محاورہ ہے ” شاع الخیر “ یعنی بھلائی ظاہر ہوگئی۔ ایک قول کے مطابق اس کے اصل معنی اتباع اور پیروی کے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ” شایعہ “ یعین اس نے اس کی پیروی کی۔ قول باری ہے ( لست منھم فی شی یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں) یعنی ان سے مکمل علیحدگی اور مقاطعہ ہے۔ ان کے فاسد مذاہب کی کسی امر پر تمہارا ان کے ساتھ اشتراک نہیں ہوسکتا۔ البتہ آپس میں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ مقاطعہ نہیں ہے اس لیے کہ کسی نہ کسی امر باطل پر ان کا اجتماع ہوجاتا ہے اگرچہ دوسرے معاملات میں ان کا آپس میں اختلاف رہتا ہے اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ آپ ان سب سے بری اور علیحدہ ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٩) جن لوگوں نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا یا یوم المیثاق کو جو انہوں نے اقرار کیا تھا اس کو ترک کردیا اور اگر ” فرقوا “ تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ کہ دین میں اختلاف کیا اور اس کو جدا جدا کردیا اور مختلف فرقے مثلا یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت بن گئے، آپ کا ان کے قتال سے کوئی واسطہ نہیں پھر اس کے بعد ان سے قتال کرنے کا حکم دیا یا یہ کہ آپ کے قبضہ میں مان کی توبہ اور ان کا عذاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کی نیکی اور برائی جتلا دیاے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْءٍ ط) ۔ یہ وہی وحدت ادیان کا تصور ہے جو سورة البقرۃ کی آیت ٢١٣ میں دیا گیا ہے : (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) کہ پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہوتے گئے اور مختلف گروہوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خود ساختہ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی میں پڑے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان گمراہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

141. This is addressed to the Prophet (peace be on him) and through him to all followers of the true faith. The import of this statement is that true faith has always consisted, and still consists, in recognizing the One True God as one's God and Lord; in associating none with God in His divinity - neither in respect of His essence, nor of His attributes, nor of His claims upon His creatures; in believing in the Hereafter and hence considering oneself answerable before God; and in living according to those principles and values which have been communicated by God to mankind through His Prophets and Books. This was the religion entrusted to man at the beginning of human life. The religions which emerged later stemmed from the perverted ingenuity of man, from his baser lusts, and from an exaggerated sense of devotion to venerable personalities. Such factors corrupted the original religion and overlaid it with harmful innovations. Hence, people modified and distorted the original beliefs by mixing them with products of their conjecture and philosophical thinking. More and more innovations were added to the original laws of the true religion. Putting aside the Law of God, men set themselves up as their own law-makers, indulged in hair-splitting elaborations, and exaggerated the importance of disagreements in minor legal problems. They showed excessive veneration for some Prophets of God and some standard-bearers of the true religion, and directed their rancour and hatred against the others. Thus there emerged innumerable religions and sects, the birth of each leading to the fragmentation of humanity into an ever-increasing number of mutually hostile groups. Anyone who decides to follow the true religion must therefore cut himself off from all factions and chart an independent course.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :141 خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، اور آپ کے واسطہ سے دین حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور رب مانا جائے ۔ اللہ کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور ان وسیع اصول و کلیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے ۔ یہی دین تمام انسانوں کو اول یوم پیدائش سے دیا گیا تھا ۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشات نفس کے غلبہ سے ، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی ۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے ۔ خود ساختہ قوانین بنائے ۔ جزئیات میں موشگافیاں کیں ۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا ۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا ۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوع انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی ۔ اب جو شخص بھی اصل دین حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کرلے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعضے مفسروں نے گروہ درگروہ یہود نصارا اور مشرکین کو ٹھہرایا ہے اور آیت کو درگذر کی آیتوں میں شمار کر کے جہاد کی آیت سے منسوخ کہا ہے لیکن اوپر صحیح حدیث سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس امت کے اہل قبلہ میں سے بھی تہتر ٧٣ گروہ ہیں اس لئے صحیح مذہب یہی ہے کہ آیت عام ہے اور آیت جہاد سے منسوخ نہیں ہے کیونکہ اہل قبلہ سے جہاد نہیں ہے پھر انہیں آیت کے معنے میں جہاد کے حکم کا انتظار ہی نہیں تو وہ آیت آیات درگذر میں شمار ہو کر آیت جہاد سے منسوخ کیونکر ہوسکتی ہے علاوہ اس کے اوپر بیان ہوچکا ہے کہ آیت جہاد سے کوئی درگذر کی آیت منسوخ نہیں ہے عبادت الٰہی کے طریقہ کو دین کہتے ہیں حرام حلال کے احکام ہر ایک نبی کے عہد میں جو نازل ہوئے ان احکام کے مجموعہ کو شریعت کہتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مصلحت وقت کے لحاظ سے احکام شرعی ہر نبی کے زمانہ میں جدا جدا نازل ہوئے ہیں مگر عبادت الٰہی کا طریقہ جس کو دین کہتے ہیں سب انبیاء کا ایک ہے الٰہی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے جو احکام کی پوری پابندی کرے۔ کے معنے اللہ کو ایک جاننا۔ لیکن یہ اللہ کا ایک جاننا یا تو اللہ کے خالق نازل ہوئے ہیں ان اور رازق ہونے کے باب اور توحید ہیں ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین اور رزق کے سبب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہے ان چیزوں کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس توحید کا مشرکین یہود نصارا کسی کو انکار نہیں ہے اس لئے قرآن شریف میں اس توحید کے ثبوت کی بحث نہیں ہے بلکہ قرآن شریف میں جگہ جگہ اس توحید کی بحث ہے جو توحید عبادت کہتے ہیں اس توحید عبادت کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کا خالق و رازق اللہ تعالیٰ سے تو اسی کی خالص عبادت اور اسی کے احکام کی پابندی اور اسی کے رسولوں کی فرمانبرداری انسان پر لازم ہے۔ اس توحید عبادت میں لوگوں کے الگ الگ فرقے ہوگئے ہیں کوئی ستارہ پرست ہے کوئی آتش پر شت کوئی بتوں کو پوجتا ہے کوئی عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بتاتا ہے کسی نے احکام الٰہی کی پابندی چھوڑ کر ایسی ایجادی باتوں کو پکڑا ہے جس کو شرع میں بدعت کہتے ہیں ان مختلف فرقوں کو اس آیت میں فرمایا کہ شیطان کے بہکانے سے عبادت الٰہی کے طریقہ میں ان لوگوں نے اپنی طرف سے راہیں نکالی ہیں جو راہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے برخلاف ہیں اور ان راہوں پر چلنے والے یا وہ لوگ ہیں جو مشرک نجات کے راستہ سے بالکل دور ہیں یا وہ لوگ ہیں جو بدعتی قابل مواخذہ کے ہیں۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے جب تم نے ان لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تو تمہارا فرض ادا ہوگیا اب ان میں سے جو فرقہ اللہ کے حکم کو نہ مانے گا اس کا کچھ الزام تم پر نہیں کہ ایسے لوگوں کو تم اللہ کے حوالہ پر چھوڑ دو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بداعمالی کے مواخذہ کے ہیں۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے جب تم نے ان لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تو تمہارا فرض ادا ہوگیا اب ان میں سے جو فرقہ اللہ کے حکم کو نہ مانے گا اس کا کچھ الزام تم پر نہیں ہے ایسے لوگوں کو تم اللہ کے حوالہ پر چھوڑ دو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بداعمالی کے موافق ان کو سزادیوے گا۔ اس سزا کا مطلب یہ ہے کہ مشرک لوگ تو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور بدعتی فرقہ میں سے جن لوگوں کی بدعت حد شرک تک نہ پہنچے ہوگی وہ اللہ کے حکم کے موافق ایک وقت مقررہ تک دوزخ میں رہ کر پھر عذاب دوزخ سے نجات پائیں گے اور جنت میں داخل ہونے کا انہیں حکم مل جاوے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص شرک سے کم ورجہ کے گناہ کر کے بغیر توبہ کے مرجاویگا وہ آخر کو جنت میں داخل ہوگا اور جو شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرجاویگا وہ آخر کہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرجاوے گا وہ ہیمشہ دوزخ میں رہے گا۔ یہ حدیث آیت کو گویا تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملا کر حاصل مطلب یہ ہوا کہ ان مختلف فرقوں میں جن کا ذکر آیت میں ہے جو ایسے لوگ ہیں کہ عبادت الٰہی میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں بیرہ توبہ کے اور شرک سے باز آنے کے ان کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہاں جو لوگ شرک سے کم درجہ کے گناہ کر کے غیر توبہ کے مرجاویں گے ان کی مغفرت کی امید ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

6:159) فرقوا۔ فرق یفرق تفرق (تفعیل) انہوں نے ٹکڑے کر دئیے۔ یعنی انہوں نے مذہب کے کئی فرقے بنا دئیے۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وکانوا شیعا۔ اور ہوگئے کئی گروہ۔ اور گروہوں میں بٹ گئے۔ شیعا۔ جمع ہے شیعۃ کی۔ اصل میں شیاع کے معنی انتشار اور تقویت کے ہیں۔ اس کا اطلاق واحد تثنیہ جمع مذکر اور مؤنث سب پر ہوتا ہے۔ لست منھم فی شئی۔ تو کسی امر میں بھی ان میں سے نہیں ہے۔ یعنی آپ کا ان سے کوئی سروکار نہیں ہے آپ کا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ینبئہم۔ نبا ینبی تنبئۃ (تفعیل) وہ بتادے گا۔ وہ خبردار کر دے گا۔ مضارع جمع مذکر غائب ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 مراد یہود و نصاری ہیں جنہوں نے گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنے دین میں فر قہ بندیاں قائم کرلیں یا تفریق دین کے یہ معنی ہیں کہ کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لائے او بعض کے ساتھ کفر کیا اور خود مسلمانوں میں سے پیدا کر کے اس میں تفرقہ پیدا کر رہے ہیں، کذا المودی عن عائشتہ (رض) (ابن کثیر)4 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہیں اور ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی تعلق نہیں (کذافی الکبیر)5 اور پھر ان کو ان کے لیے سزادے گا یہ وعید ہے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 159 تا 160 : فرقوا (جنہوں نے فرقے بنادیئے) امرھم ( ان کا معاملہ) عشرامثال (دس کے برابر) تشریح : آیت نمبر 159 تا 160 : ” دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا “ تفرقہ اس کا نام ہے۔ تفرقہ اور اختلاف میں فرق ہے۔ تفرقہ بنیادی ایمانی عقیدوں اور اصولوں میں الگ راستہ نکال دینا اور اختلاف کے معنی ہیں علمی اور فقہی تفصیلات اور جزئیات میں اجتہاد کرنا۔ اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے ۔ اگر غلطی اور اختلاف کا دروازہ بند کردیا جائے تو عقل کی ترقی کا راستہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ مگر اجتہاد وہی کرسکتا ہے جس کے پاس قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ خلوص ہو ‘ علم ہو ‘ عقل ہو ‘ بصیرت ہو اور اعمال صالحہ ہوں۔ جس تفرقہ کی یہاں مذمت کی گئی ہے وہ عدم خلوص اور عدم علم و بصیرت کی بنا پر کوئی شخص اپنی مذہبی یا سیاسی لیڈر شپ کے لئے نئی اختراع کردے۔ عقیدت میں کمی کرے۔ کسی نبی یا صحابی کی شان میں بےادبی کرے۔ جیسا کہ یہودیوں نے کیا۔ یا عقیدت میں مبالغہ کرے۔ کسی کو اللہ کا بیٹا یا اوتار بنا ڈالے جیسا کہ عیسائیوں یا ہندؤں نے کیا۔ کسی غیر نبی کا درجہ نبی سے بڑھا دے یا شرک توحید یا شرک نبوت کرے۔ عقائد میں اوہام و قیاسات اور لادینی فلسفہ ملا کر بدعت طرازی کرے۔ خود ساختہ قوانین و آئین بنائے۔ اہم کو غیر اہم کردے اور غیر اہم کو اہم۔ اس طرح جدت بگھارے۔ برصغیر پاک وہند میں خصوصاً 1857 ء کے بعد اس قسم کے چند غلط فرقے ابھرے ہیں یا انگریزوں کی طرف سے ابھارے گئے ہیں جن میں سب کی کوشش بلیغ یہی رہی ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان نبوت کو گھٹایا جائے ملاوٹ ‘ بدعت یا جدت کے ذریعہ اور انگریزوں کی خاطر دین اسلام میں سے جہاد کی اہمیت کو پیچھے ہٹا کر کسی اور چیز کی اہمیت بڑھادی جائے۔ مسلمانوں کو جہاد سے دور رکھ کر کسی اور چیز میں ساری عمر پھنسا دیا جائے۔ ” شیخ بھی خوش رہے انگریز بھی بیزار نہ ہو “۔ یہاں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ تمہیں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا ہے جنہوں نے اپنے دین کو توڑپھوڑ کر فرقے فرقے کر ڈالا۔ ان الفاظ میں پہچان بتائی گئی ہے کہ کون سا فرقہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جن فرقوں سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واسطہ نہیں رکھا یہ وہ فرقے ہیں جنہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واسطہ نہیں رکھا۔ ان کی شان کو گھٹا کر یا بڑھا کر مسلمانوں کی توجہ کسی اور طرف موڑدی۔ حدیث اور جہاد کی قیمت گھٹادی۔ جسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے تھے۔ وہ تلوار کند کردی جس کی زد دشمنان اسلام پر پڑتی تھی۔ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ” میری امت کو بھی وہی حالات پیش آئیں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے۔ میری امت کے لوگ بھی ان ہی بد اعمالیوں میں مبتلا ہوں گے جن بداعمالیوں میں وہ مبتلا ہوگئے۔ جس طرح ان کے بہتر فرقے بن گئے ‘ اسی طرح میری امت میں بھی تہتر فرقے بن جائیں گے۔ جن میں سے ایک فرقے کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے “۔ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے۔ فرمایا ” ما انا علیہ و اصحابی “۔ یعنی وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اور میرے صحابہ (رض) کے طریقے پر چلے گی وہ نجات پائے گی۔ (ترمذی۔ ابودائود ابن عمر (رض) یہی مضمون حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی منقول ہے۔ امام احمد ‘ ابو دائود ‘ ترمذی وغیرہ نے بروایت عرباض بن ساریہ نقل کیا ہے۔ کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلافات دیکھیں گے۔ اس لئے تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑو اور اسی کے مطابق ہر کام میں عمل کرو۔ نئے نئے طریقوں سے بچتے رہو کیوں کہ دین میں پیدا کی ہوئی ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلا وہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ (رواہ ابو دائود۔ احمد) اس لئے مسلمانوں پر فرض ہے کہ ہر کام میں قرآن و حدیث اور اس کے بعد اجماع صحابہ (رض) اور اس کے بعد اجماع امت پر چلے۔ جدت اور بدعت والوں سے بچے۔ آگے چل کر قرآن نے فرمایا ’ جو اللہ کے حضور ایک نیکی لے کر آئے گا تو دس گنا اجر پائے گا۔ اور جو ایک برائی لے کر آئے گا وہ اس کی سزا برابر پائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ ایک حدیث قدسی میں بروایت حضرت ابو ذر (رض) ارشاد ہے۔ ” جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور ( ممکن ہے) اس سے بھی زیادہ۔ اور جو شخص ایک گناہ کرتا ہے تو اس کو سزا صرف ایک ہی گناہ کے برابر ملے گی یا میں اس کو بھی معاف کردوں گا۔ اور جو شخص اتنے گناہ کر کے میرے پاس آئے کہ ساری زمین بھر جائے اور مغفرت کا طالب ہو تو میں اتنی ہی مغفرت سے اس کے ساتھ معاملہ کروں گا۔ اور جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ اور جو شخص ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے میں اس کی طرف دونوں ہاتھوں کے پھیلائو تک بڑھاتا ہوں اور جو شخص میری طرف چل کر آتا ہے میں اسکی طرف دوڑ کر پہنچتا ہوں “۔ دوسری احادیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کی جزا سات سو گنا تک ہے۔ یہاں یہ الفاظ قابل غور ہیں ” جو شخص اللہ کے حضور ایک نیکی لے کر آئے گا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔” تفسیر بحر محیط میں ہے کہ نیکی کرنے کے عبد اس نیکی کو موت تک باقی رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیکی کو بدی باطل کرسکتی ہے۔ قرآن میں ہے ” تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر یا ایذا پہنچا کر ضائع نہ کرو “۔ بہت سے اعمال نیکیاں بط یعنی ضائع ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ظلم ‘ غیبت وغیرہ۔ کفر اور شرک تو معاذ اللہ تمام زندگی کی کمائی کو باطل اور بےاثر کردیتے ہیں۔ اسی طرح توبہ ۔ صدقہ۔ جہاد۔ مبارک راتوں کی عبادت وغیرہ سے گناہ صغیرہ دھل جاتے ہیں اور نامہ اعمال کی سلیٹ صاف ہوجاتی ہے۔ یہ کہہ کر کہ کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ نے یقین دہانی کی ہے کہ گناہ گار کو صرف اس کی کمائی کا معاوضہ ملے گا۔ ہرگز اس سے زیادہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی دین حق کو بتمامہ قبول نہ کیا خواہ سب کو چھوڑ دیا یا بعض کو اور طریقے شرک وکفر و بدعت کے اختیار کرلیے۔ 4۔ درمنثور میں ابن عباس سے ان گروہوں سے یہود و نصاری مراد ہونا اور ابوہریرہ سے مرفوعا اہل بدعات ہونا اور خاندان میں حسن سے جمیع مشرکین اس اعتبار سے کہ بعض بت پرست ہیں بعض ستارہ پرست ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مراد ہونامنقول ہے چونکہ لفظ فرقو سب کو شامل ہوسکتا ہے اس لیے عام مراد لیناانسب ہے۔ البتہ مراتب وعید کے معفاوت ہوں گے یعنی کفار کو عذاب مخلد ہوگا اور مبتدعین کو بوجہ وجود ایمان کے بعد سزائے عقائد فاسدہ کے نجات ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کی گمراہی کے اسباب میں ایک کا سبب دین میں اختلاف کرنا ہے۔ باہمی اختلاف کی صورت میں لوگ ٹھوس دلائل کے باوجود انکار کی روش پر قائم رہتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی دین حق ہے۔ جس کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ وہ توحید و رسالت کے بارے میں ہوں یا حلال و حرام اور اخلاق و معاملات کے متعلق۔ لہٰذا جو دین کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور اس کو لوگوں کی نظروں میں مختلف فیہ بناتے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی آپ کے ماننے والوں کا ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ ان کو بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ دین میں تفرقہ بازی کا ذکر کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہودی اپنے دین میں اختلاف کرنے کی وجہ سے اکہتر فرقے ہوئے، عیسائی اختلاف کی بنا پر بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت ایک قدم آگے بڑھتی ہوئی تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ) اختلاف اخلاق و اعمال اور باہمی محبت کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ اختلاف نیکی اور دین کے نام پر ہو تو اس کے نتائج بڑے ہولناک اور گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ دین انسانوں میں وحدت اور اکائی پیدا کرنے کے لیے آیا ہے اگر اسی کو ہی اختلاف کی بنیاد بنا لیا جائے تو قیامت تک لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے نہ صرف یہود و نصاریٰ الگ الگ امت کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے گروہ ایک دوسرے کو کافر گمراہ اور جہنمی قرار دیتے ہیں اس صورتحال سے بچنے کے لیے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے الٰہ ماننے اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہترین اسوہ قرار دیتے ہوئے آپ کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ تاکہ توحید اور نبی کو ماننے والے متحد و متفق رہیں۔ یہودی تحقیق کے نام پر دین میں غلو کرکے گمراہ ہوئے اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی عقیدت میں حد سے بڑھے اور صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلو سے بچنے کے لیے مسائل کی کھال اتارنے اور دین میں قیل و قال سے منع فرمایا اور عقیدت و محبت میں آکر کسی شخصیت کو اس کے مرتبہ و مقام سے بڑھانے سے روکا ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے دین دار لوگ گمراہ ہوا کرتے ہیں۔ (عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ (رض) قَالَ وَعَظَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا بَعْدَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ مَوْعِظَۃً بَلِیغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ ہٰذِہٖ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیرًا وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّہَا ضَلَالَۃٌ فَمَنْ أَدْرَکَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْہِ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ )[ رواہ الترمذی : کتاب العلم، باب ماجاء فی الأخذ بالسنۃ ] ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز فجر کے بعد بلیغ وعظ کیا۔ اس سے ہمارے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ایک شخص نے عرض کی یہ تو الوداعی وعظ و نصیحت لگتی ہے اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم سے کیا وعدہ لینا چاہیں گے ؟ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ سمع اور اطاعت کی بھی۔ اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام ہی ذمہ دار بنا دیا جائے۔ جو کوئی تم میں سے زندہ رہا میرے بعد وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نئے نئے کاموں سے بچو۔ بلاشبہ وہ گمراہی ہے جو کوئی تم میں سے ایسی صورت حال پائے تو وہ میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کے طریقے کو لازم پکڑے اور اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھے۔ “ (عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آیَۃً وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْرَأُ خِلَافَہَا فَجِءْتُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخْبَرْتُہٗ فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِہِ الْکَرَاہِیَۃَ وَقَالَ کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ وَّلَا تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فَہَلَکُوا) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ایک آدمی کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا جب کہ میں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہی آیت تلاوت کرتے سنا تھا۔ آپ اس سے مختلف انداز سے تلاوت کر رہے تھے۔ میں اس شخص کو لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی تلاوت کے بارے میں بتلایا۔ میں نے آپ کے چہرے پر کراہت کے آثار دیکھے آپ نے فرمایا دونوں طریقے ٹھیک ہیں اور تم اس طرح اختلاف نہ کیا کرو بلاشبہ جو لوگ تم سے پہلے تھے انھوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ “ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی)[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ فرقہ واریت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ٢۔ جو لوگ تفرقہ بازی کرتے ہیں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ٣۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو ضرور سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن دین میں تفریق کی ممانعت : ١۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ : ١٣) ٢۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمہیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران : ١٥٣) ٣۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے باہم اختلاف کیا۔ (آل عمران : ١٠٥) ٤۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٥۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام : ١٥٩) ٦۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٥٩۔ یہاں آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین ‘ آپ کی شریعت اور نظام حیات کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ دنیا میں قائم تمام ادیان ‘ تمام نظام ہائے قانونی کا آپ کے دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ نہ آپ کا تعلق مشرکین عرب سے ہے جنہیں ادہام جاہلیت ‘ جاہلی اعتقادات اور عادات ورسومات نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور وہ باہم جنگ وجدال میں مصروف ہیں ‘ گروہ فرقے اور شاخ در شاخ بٹے ہوئے ہیں نہ آپ کے دین ونظام کا تعلق اہل کتاب اور یہود ونصاری کے ساتھ ہے جن کو مذہبی اختلافات نے تکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور ان کے اندر کئی کئی فرقے اور گروہ بن گئے ہیں اور نہ آپ کا تعلق آئندہ آنے والے فرقوں اور مسلکوں سے ہوگا جو قیامت تک وجود میں آتے رہیں گے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان فرق و مذاہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آپ کا دین ‘ دین اسلام ہے اور آپ کی شریعت وہ ہے جو اس کتاب میں ہے ۔ اور آپ کا لایا ہوا نظام ایک منفرد نظام ہے جو سب سے جدا ہے ۔ اس دین کے تصورات اور اعتقادات دوسرے ادیان کے ساتھ خلط ملط نہیں ہو سکتے ۔ نہ آپ کی شریعت دوسرے قانونی نظاموں اور رسومات کے ساتھ خلط ملط ہوسکتی ہے ۔ کسی صورت حالات اور کسی نظام قانون پر یبک وقت اسلامی اور غیر اسلامی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ اسلام فقط اسلام ہے اور اسلام شریعت ہی اصل شریعت ہے ۔ اسلام کا اپنا سیاسی ‘ اجتماعی ‘ اقتصادی نظام ہی اسلامی نظام ہے ۔ اور قیامت تک رسول خدا اور ان کے لائے ہوئے نظام زندگی کا کوئی تعلق دوسرے لوگوں اور نظاموں سے نہیں ہوسکتا ۔ ان تمام ادیان اور تصورات کو جب کسی مسلم سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کا پہلا رد عمل مکمل انکار اور جدائی اور قطع تعلق کا ہونا چاہئے ۔ اسی طرح وہ تمام اجتماعی وسیاسی نظام جن میں اقتدار اعلی اور حاکمیت بالفاظ دیگر الوہیت و ربوبیت اللہ کی نہیں ہے ‘ ایک مسلمان کا پہلا فرض یہ ہے کہ سابقہ پیش آتے ہی انہیں رد کر دے اور ان سے اپنی برات کا اعلان کر دے ۔ نہ اسے ان نظاموں اور اسلام کے درمیان قدر مشترک ڈھونڈنا چاہئے اور نہ ان کے بارے میں موافقت اور مخالفت کی بحث میں شریک ہونا چاہئے ۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جن لوگوں نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا اور اسے اپنی زندگیوں پر جاری نہیں کیا ‘ ان لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جن لوگوں نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا اور اسے اپنی زندگیوں پر جاری نہیں کیا ‘ ان لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اللہ کے نزدیک دین اسلام ایک سیاسی قانونی نظام ہے اور جو لوگ اسے نہیں اپناتے ان کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی حقیقت ہے اور اس پر کسی بحث ومباحثے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی قیل وقال کی ضرورت ہے ۔ جن لوگوں نے دوسرے نظامہائے زندگی کو عملا اپنا رکھا ہے ان کا بھی رسول خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے بارے میں یہ فیصلہ اللہ نے کیا ہے اور قیامت میں بھی ان کے بارے میں فیصلہ اللہ نے کیا ہے اور قیامت میں بھی ان کے بارے میں فیصلہ اللہ کرے گا اور اللہ ہی ان سے حساب لینے والا ہے ‘ ان تمام امور کا جو وہ کرتے ہیں ۔ آیت ” ٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللّہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (159) ” ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے ‘ وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ۔ “ ایسے لوگوں کے حساب و کتاب کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حساب و کتاب میں اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ بندوں سے حساب لیتے وقت وہ رحیم وکریم ہوگا ۔ اس لئے جو شخص مومن ہے اور وہ کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اسے دس گناہ اجر ملے گا ۔ یاد رہے کہ اچھے کام کے لئے ایمان شرط ہے کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی کام اچھا نہیں ہو سکتا ‘ ہاں اگر ایمان ہو تو اچھے کام کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اگر برائی کی ہے تو صرف اس کے برابر کا بدلہ ہوگا ۔ اللہ کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتا ۔ آیت ” مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّئَۃِ فَلاَ یُجْزَی إِلاَّ مِثْلَہَا وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (160) ” جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے دس گناہ اجر ہے اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیاجائے گا جتنا اس نے قصور کیا اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ “ اس سورة کے خاتمے اور اسلام کے نظریہ حاکمیت اور قانون سازی پر اس طویل بحث کے خاتمے پر نہایت ہی تروتازہ عبارت ‘ نہایت ہی نرم اور حسین الفاظ میں ‘ نہایت ہی خوشگوار آواز میں ‘ لیکن نہایت ہی دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں آتی ہے ۔ بات کو اس طرح ختم کیا جاتا ہے کہ یہ مضمون دل کی گہرائیوں تک اتر جاتا ہے ۔ ہر بات کو لفظ (قل ‘ قل) اور (قل) سے دہرایا جاتا ہے اور ہمہ جہت نظریہ تو حید ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ رستے اور ملت کی وحدت ‘ سمت اور حرکت کی وحدت ‘ الہ اور رب کی وحدت ‘ بندگی اور اطاعت کی وحدت ‘ پوری کائنات اور اس کے اندر جاری وساری موامیس قدرت کی وحدت اور ان کے اندر پائے جانے والے عناصر ترکیبی کی وحدت ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دین میں تفریق کرنے والوں سے آپ بری ہیں انسان میں سب سے بڑی بیماری تو یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو نہ مانے یا مانے لیکن اس کے ساتھ شرک کرے اور اس نے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعہ اپنا دین بھیجا اس کی تکذیب کرے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور اس کے دین کو جھٹلائے۔ اور دوسری گمراہی یہ ہے کہ وہ اللہ کو بھی مانے اس کے بھیجے ہوئے دین کو ماننے کا دعویدار بھی ہو لیکن اللہ کے دین میں اپنی طرف سے ایسی باتیں داخل کر دے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں نہیں ہیں۔ شیطان کی یہ بہت بڑی چالاکی ہے۔ بہت سے وہ لوگ جو یوں کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے دین کو قبول کیا جو اس نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ بھیجا۔ ان میں بعض لوگوں پر شیطان اپنا یہ داؤ چلاتا ہے اور ان کو ایسے افکار و آراء اواوہام واہواء پر ڈال دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ خداوند قدوس کے بھیجے ہوئے دین کے دائرہ سے باہر ہوجاتے ہیں، وہ اپنے خیال میں دین کے دائرے میں ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دین سے خارج ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقبول بندے ہیں لیکن وہ بار گاہ خداوندی سے مردود ہوتے ہیں، اس امت سے پہلے جو امتیں گزری ہیں انہوں نے ایسی حرکتیں کیں۔ یہود و نصاریٰ کی گمراہی معروف ہی ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ تھا اور اب بھی ہے کہ ہم اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن اللہ کے دین کو چھوڑ کر جس کی بنیاد ہی توحید پر ہے مشرک ہوگئے اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتادیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔ پھر سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے نیز نصاریٰ بھی دین حق سے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنے دین میں شرک ملا دیا۔ انہیں میں سے کسی نے حضرت مسیح بن مریم کے بارے میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ ابن مریم اور اللہ ایک ذات کا نام ہے اور بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا بیٹا بتایا۔ اور بعض لوگوں نے یوں کہا معبود تین ہیں یعنی اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بھی معبود ہیں۔ پھر بعض یہود نے انہیں عقیدہ تکفیر پر ڈال دیا اب وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قتل (العیاذ باللہ) ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، ان کے نزدیک اتوار کے دن چرچ میں جانے سے اور بعض گناہ پوپ کے سامنے بیان کردینے سے اور بعض یوں ہی عام طور پر معاف ہوجاتے ہیں۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ ) مشرکین عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے سب کو معلوم ہے ان کا دین توحید خالص پر مبنی تھا۔ انہوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں آگ میں ڈالا جانا تک منظور کیا مگر توحید کی دعوت نہ چھوڑی۔ لیکن ان کے دین کے ماننے والوں نے (جن میں مشرکین عرب بھی تھے) بت پرستی شروع کردی اور عین کعبہ شریف میں بت رکھ دیئے۔ جب ان کے سامنے توحید کی دعوت رکھی گئی تو ان کو اچھوتا معلوم ہوا اور کہنے لگے۔ (اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ الھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ) اور جب ان پر بت پرستی کی نکیر کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ شرک ہے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے تو کہنے لگے کہ (مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ ) (کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرتے ہیں) ۔ کبھی کہتے تھے (ھٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ) (ہم نے جو یہ معبود بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے) یہ ساری باتیں خود تراشیں شرک کیا گمراہ ہوئے اور پھر بھی اسی خیال میں غرق کہ اللہ ہم سے راضی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں یعنی اس کے وجود کا یقین رکھتے ہیں ان میں بہت سے لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو نہیں مانا اور جنہوں نے مانا انہوں نے اللہ کے دین میں اللہ کی ناراضگی کی باتوں کو شامل کردیا اور دین حقیقی میں تفریق کی صورتیں نکال دیں اور بہت سی جماعتوں میں بٹ گئے۔ (صاحب روح المعانی ٨ ص ٦٨) نے سنن ترمذی اور حلیہ ابو نعیم اور شعب الایمان للبیہقی سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بیان فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ اے عائشہ (رض) جن لوگوں نے اپنے دین سے جدائی اختیار کی اور فرقے فرقے بن گئے یہ بدعتوں والے لوگ ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اپنی خواہشوں پر چلتے ہیں اور جو اس امت کے گمراہ لوگ ہیں ان کے لئے کوئی توبہ نہیں۔ اے عائشہ ! ہر گناہ والے کے لئے توبہ ہے سوائے اہل بدعت اور اصحاب اہواء کے۔ کیونکہ ان کے لئے توبہ نہیں میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس روایت کے پیش نظر اب یوں کہا جائے گا کہ مشرکین کا حال بیان کرنے کے بعد اہل بدعت کا حال بیان فرمایا کہ اہل بدعت کا حال اہل شرک سے بعید نہیں ہے۔ گمراہ فرقوں کا تذکرہ : شیطان اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ انسانوں کو کیسے گمراہی پر لگاؤں اول تو ایمان قبول کرنے نہیں دے گا۔ دوم جو لوگ مومن ہیں ان کے دلوں میں ایمان کی طرف سے شکوک ڈالتا ہے۔ پھر جو لوگ استقامت کے ساتھ ایمان پر رہیں اور شکوک و شبہات سے متاثر نہ ہوں ان کو ایسی ایسی باتیں سجھا دیتا ہے جو ایمان کے خلاف ہوتی ہیں۔ پہلی امتوں کے ساتھ جو اس نے حرکتیں کیں۔ اس امت کے ساتھ اس کا وہی طرز عمل ہے۔ اہل ایمان کے دلوں میں ایسی چیزیں ڈالتا ہے جو گمراہی کی چیزیں ہیں اور چیزوں کے اختیار کرنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ جتنے ملحد اور زندیق اس امت میں گزرے ہیں اور اب موجود ہیں ایمان کا نام لیتے ہوئے بھی کفر اختیار کیے ہوئے ہیں اور چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو صحیح راہ پر سمجھتے ہیں۔ اس لیے توبہ بھی نہیں کرتے، جو لوگ اپنے امام کے اندر اللہ تعالیٰ کا حلول مانتے ہیں اور جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور جو لوگ حضرت علی (رض) کو خدا بتاتے رہے اور جو لوگ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہونے کے منکر ہیں اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کو حجت نہیں مانتے اور جو لوگ عقیدہ بدا کے قائل ہیں یہ سب لوگ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے بری ہیں۔ اسلام سے خارج ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بیزار ہیں۔ پھر اگر کوئی شخص ایسی بدعت اعتقادیہ میں مبتلا نہ ہو جو اسلام سے نکال کر کفر میں داخل کر دے تو شیاطین اسے اعمال بدعت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل بدعت نے طرح طرح کی بدعتیں نکال رکھی ہیں۔ اور ان بدعات کی وجہ سے بہت سے فرقے بنے ہوئے ہیں جو لوگ بدعت کے اعمال میں مبتلا ہیں ان کو بھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ کیونکہ اعمال بدعت کو ثواب سمجھ کرتے ہیں اور جس عمل کو نیکی سمجھتے ہیں اس سے توبہ کیوں کرنے لگے۔ بدعت اعتقادی ہو یا عملی اس کے ایجاد کرنے والوں کو اور اس پر عمل کرنے والوں کو اصحاب الا ہواء کہا جاتا ہے۔ اَھْوَاء ھَوٰی کی جمع ہے ہر خواہش نفس کو عربی میں ہوٰی کہتے ہیں جو لوگ بدعتیں نکالتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے جو اپنی سمجھ میں آتا ہے اور جو اپنا نفس چاہتا ہے اسے دین میں داخل کرلیتے ہیں۔ انہیں لاکھ سمجھاؤ کہ یہ عمل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں لیکن وہ برابر اسی میں لگے رہتے ہیں۔ سنتوں پرچلنے سے ان کے دل خوش نہیں ہوتے۔ بدعتیں ان کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ ان بدعتوں کی وجہ سے بہت سے فرقے وجود میں آجاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جیسا بنی اسرائیل پر آیا تھا (پوری طرح ان کے مطابق عمل کریں گے) جیسا کہ ایک جوتا دوسرے جوتا کے موافق بنایا ہوا ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا کریں گے۔ (پھر فرمایا) کہ بنی اسرائیل کے ٧٢ فرقے ہوگئے تھے۔ اور میری امت ٧٣ فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ سب فرقے دوزخ میں ہوں گے۔ سوائے ایک ملت کے ! صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ملت کون سی ہے ہے جو جنت والی ہے ؟ آپ نے فرمایا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ (کہ جس ملت اور دین پر میں اور میرے صحابہ ہیں وہ جنت والی ہے) (رواہ الترمذی) اب سارے فرقے غور کریں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کس دین پر تھے ؟ اور جو لوگ اس طریقہ سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اپنا انجام سوچ لیں۔ اور خاص طور پر وہ لوگ غور کریں جو حضرات صحابہ (رض) کو مسلمان ہی نہیں مانتے اور جو لوگ ان میں کیڑے ڈالتے ہیں اور ان کی بشری کمزوریوں کو تاریخ کی کتابوں سے نکال کر اچھالتے ہیں (جبکہ تاریخی روایات بےسند ہوتی ہیں) ۔ (اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّءُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ) (ان کا معاملہ بس اللہ ہی کے حوالہ ہے وہ انہیں جتا دے گا جو کام وہ کرتے تھے) ۔ فائدہ : بعض لوگ جنہیں قرآن و حدیث کا علم نہیں۔ اور اجتہاد و استنباط کی شرعی ضرورت سے ناواقف ہیں وہ لوگ ائمہ اربعہ کے چاروں مذہبوں کو چار فرقے بتاتے ہیں اور اپنی جہالت سے ان مذاہب کے ماننے والوں کو انہیں بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتے ہیں جو گمراہ ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ کے مقلدین سب ایک ہی فرقہ ہیں اور ایک ہی جماعت ہیں اور اسی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کے امام کا ادب سے نام لیتے ہیں۔ اور ایک مذہب کے مقلدین دوسرے مذہب کے علماء کو (رح) کی دعا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ان میں اعتقادیات میں اختلاف نہیں۔ فروعی مسائل میں اختلاف ہے چونکہ یہ اختلاف حضرات صحابہ میں بھی تھا اس لیے نجات پانے والی جماعت (جس کے بارے میں ما انا علیہ و اصحابی فرمایا) اس سے خارج نہیں ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرنے والے اور حضرات صحابہ کرام (رض) کے طریق کو اپنانے والے عموماً مذاہب اربعہ ہی کے متبعین رہے ہیں اور ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

182 تخویف اخروی ہے اور اس سے مراد مشرکین کی جماعتیں میں جنہوں نے توحید کو چھوڑ کر مشرکانہ عقائد کی بنیادوں پر مختلف فرقے بنا لیے۔ جو شخص اس سے فقہاء اسلام اور ائمہ دی کا باہمی فروعی اختلاف مراد لیتا ہے وہ قرآن میں صریح تحریف کا مرتکب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

159 بلاشبہ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جدا جدا کردیا اور مختلف گروہ بن گئے۔ آپ کا ان سے کوئی تعلق اور آپ کو ان سے کوئی سروکار نہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے پھر جو کچھ وہ کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ ہی ان کو بتادے گا اور جتلا دے گا۔ یعنی جن لوگوں نے اس دین کو جوان کو دیا گیا تھا پوری طرح قبول نہ کیا اور پورے دین پر عمل نہیں کیا یا اس دین میں شرک و بدعت کی آمیزش کردی اور اس طرح اپنے دین کو ٹکڑے کردیا اور مختلف پارٹیوں میں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے تو ایسے لوگوں سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کاموں کی حقیقت سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔