Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 17

سورة الأنعام

وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷﴾

And if Allah should touch you with adversity, there is no remover of it except Him. And if He touches you with good - then He is over all things competent.

اور اگر تجھ کو اللہ تعالٰی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوا اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اللہ تعالٰی کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is the Irresistible, Able to Bring Benefit and Protect from Harm Allah states that He Alone brings benefit or harm, and that He does what He wills with His creatures, none can resist His judgment or prevent what He decrees, وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدُيرٌ And if Allah tou... ches you with harm, none can remove it but He, and if He touches you with good, then He is able to do all things. Similarly, Allah said, مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَ مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَ مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ Whatever mercy, Allah may grant to mankind, none can withhold it, and whatever He may withhold, none can grant it thereafter. (35:2) It is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah used to supplicate, اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَد O Allah, there is none Who can avert what You grant or give what You deprive, and no fortune ever helps the fortunate against You. This is why Allah said,   Show more

قرآن حکیم کا باغی جہنم کا ایندھن اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک وہی ہے اپنی مخلوق میں جیسی وہ چاہے تبدیلیاں کرتا ہے اس کے احکام کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس کے فیصلوں کو کوئی رد نہیں کر سکتا اسی آیت جیسی آیت ( مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَ... ا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 35 ۔ فاطر:2 ) ہے یعنی اللہ مقتدر اعلی جسے جو رحمت دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ، اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، اس آیت میں خاص اپنے نبی کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اے اللہ جسے تو دے اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، اس کے بعد فرماتا ہے وہ اپنے بندوں پر قاہر و غالب ہے ، سب کی گردنین اس کے سامنے پست ہیں ، سب بڑے اس کے سامنے چھوٹے ہیں ، ہر چیز اس کے قبضے اور قدرت میں ہے تمام مخلوق اس کی تابعدار ہے اس کے جلال اسکی کبریائی اس کی عظمت اسکی بلندی اس کی قدرت تمام چیزوں پر غالب ہے ہر ایک کا مالک وہی ہے ، حکم اسی کا چلتا ہے ، حقیقی شہنشاہ اور کامل قدرت والا وہی ہے ، اپنے تمام کاموں میں وہ باحکمت ہے ، وہ ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز سے با خبر ہے ، وہ جسے جو دے وہ بھی حکمت سے اور جس سے جو روک لے وہ بھی حکمت سے ، پھر فرماتا ہے پوچھو تو سب سے بڑا اور زبردست اور بالکل سچا گواہ کون ہے؟ جواب دے کر مجھ میں تم میں اللہ ہی گواہ ہے ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں اور جو تم مجھ سے کر رہے ہو اسے وہ خوب دیکھ بھال رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے ، میری جانب اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں تم سب حاضرین کو بھی اس سے آگاہ کر دوں اور جسے بھی یہ پہنچی اس تک میرا پیغام پہنچ جائے ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ) 11 ۔ ہود:17 ) یعنی دنیا کے تمام لوگوں میں سے جو بھی اس قرآن سے انکار کرے اس کا ٹھکانا جہم ہی ہے ۔ حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں جسے قرآن پہنچ گیا اس نے گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا بلکہ گویا آپ سے باتیں کرلیں اور اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دین پیش کر دیا ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے اللہ کا پیغام اس کے بندوں کو پہنچاؤ جسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا ۔ حضرت ربیع بن انس کا قول ہے اللہ کے نبی کے تمام تابعی لوگوں پر حق ہے کہ وہ مثل دعوت رسول کے لوگوں کو دعوت خیر دیں اور جن چیزوں اور کاموں سے آپ نے ڈرا دیا ہے یہ بھی اس سے ڈراتے رہیں مشرکو تم چاہے اللہ کے ساتھ اور معبود بھی بتاؤ لیکن میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:150 ) یہ گو شہادت دیں لیکن تو ان کا ہمنوا نہ بن ۔ یہاں فرمایا تم صاف کہدو کہ اللہ تو ایک ہی ہے اور تمہارے تمام معبودان باطل سے میں الگ تھلگ ہوں ۔ میں ان سب سے بیزار ہوں کسی کا بھی روادار نہیں پھر فرماتا ہے یہ اہل کتاب اس قرآن کو اور اس نبی کو خوب جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولاد سے واقف ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ آپ سے اور آپ کے دین سے واقف اور با خبر ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں یہ سب خبریں موجود ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی آپ کی نبوت کی خبریں ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں آپ کی صفتیں ، آپ کا وطن ، آپ کی ہجرت ، آپ کی امت کی صفت ، ان تمام چیزوں سے یہ لوگ آگاہ ہیں اور ایسے صاف طور پر کہ جس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ، پھر ایسے ظاہر باہر صاف شفاف کھلم کھلا امر سے بے ایمانی کرنا انہی کا حصہ ہے جو خود اپنا برا چاہنے والے ہوں اور اپنی جانوں کو ہلاک کرنے والے ہوں ، حضور کی آمد سے پہلے ہی نشان ظاہر ہو چکے جو نبی آپ سے پہلے آپ کی بشارتیں دیتا ہوا آیا ، پھر انکار کرنا سورج چاند کے وجود سے انکار کرنا ہے ، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھ لے ؟ اور فی الواقع اس سے بھی زیادہ ظالم کوئی نہیں جو سچ کو جھوٹ کہے اور اپنے رب کی باتوں اور اس کی اٹل حجتوں اور روشن دلیلوں سے انکار کرے ، ایسے لوگ فلاح سے ، کامیابی سے ، اپنا مقصد پانے سے اور نجات و آرام سے محروم محض ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (صحیح بخاری، مسلم) جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہی... ں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی ' نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ درد کو دور کرنے والا اور فائدہ پہنچانے والا صرف اللہ ہی ہے تو وہ کسی دوسرے کو کیوں پکارے گا یا اس کی نذر و نیاز کیوں دے گا ؟ یا اس کے آگے سر تسلیم خم کیوں کرے گا ؟ کیونکہ انسان جب بھی شرک کرتا ہے تو انہی دو باتوں کی ... خاطر کرتا ہے ایک فائدہ کے حصول کی خاطر دوسرے دفع مضرت۔ اگر ان دونوں باتوں کا مالک و مختار اللہ کو ہی سمجھ لے گا تو اسے شرک کی ضرورت پیش آ ہی نہیں سکتی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ ۔۔ : اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی۔ کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ اور تکلیف کو دور کرنے والا اور ہر قسم کی خیر کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر وہ دوسروں کے آگے سجدے کرنا اور ان کی قبروں پر نذرانے چڑھانا اور سمجھنا کہ وہ حاجتیں پوری کرسکتے ہیں، بہت ب... ڑی حماقت سمجھے گا۔ قرآن نے اس بات پر خصوصی زور دیا ہے کہ ہر قسم کا نفع و ضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس پر عقیدہ پختہ ہوجائے تو انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٨٨) ، یونس (١٠٤ تا ١٠٧) ، فاطر (٢) ، سورة زمر (٣٨) اور سورة جن (٢١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

All Gain and Loss Comes from Allah: A Cardinal Muslim Belief In the third verse (17), a basic article of faith in Islam has been described - that it is Allah, in reality, who is the Master-Dispenser of all gain and loss. No one can ` really& bring the least benefit to anyone, nor cause the least harm. As for the outward manifestation of gain or loss, benefit or harm, seen coming from one perso... n to the other, is no more than a matter of appearances. Seen in the full flash of reality, this does not hold out any more than a ready-to-vanish curtain. So suc¬cinctly the idea was put in a Persian couplet: کار زلفِ تست مشک افشانی امّا عاشقاں مصلِحت راتھمتے برآ ھوۓ چیں بستہ اند Spraying Musk is the work of your tresses, but those who love you Have found it expedient to ascribe the blame to the Chinese deer! This belief too is one of the revolutionary beliefs of Islam, a belief which made Muslims shed the dependence on the created and rely on their Creator alone. It was this belief which put together a large group of unprecedented charmers of the soul on the map of the world, who were, despite their meager means and haunting hunger, weighti¬er and worthier than a whole world - for they would not bow their heads before anyone. The Holy Qur&an has taken up this subject at many places with different approaches, out of which, quoted here is a verse from Surah Fatir: مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّ‌حْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْ‌سِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ What Allah, out of His mercy, does make open to people, there is no one to withhold it; and what He does withhold, there is no one to release it after that - 35:2. It appears in Sahih Ahadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to say this in his prayers very often: اَللَّھُمَّ لَا مَانعَ لِمَا اَعطَیتَ ولَا مُعطِیَ لِمَا مَنَعتَ ولَا یَنفَعُ ذَا الجَدِّ مِنکِ الجِدُّ |"0 Allah, there is no withholder of what You have bestowed and there is no giver of what You have withheld and no status of a man of status can be of use to him against You. Under his comments on this verse, Imam al-Baghawi has reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) that there was an occasion when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) mounted a ride, he asked me to sit behind him. After having covered some distance, he turned towards me and said, ` You young man.& I said: ` Here I am, Ya Rasul Allah. Can I do something?& He said: ` You remember Allah. Allah will remember you. If you will remember Allah, you will find Him before you under all cir¬cumstances. You recognize Allah when you are in peace and comfort, Allah will recognize you when you are in trouble. When you have to ask, only ask Allah. When you need help, seek help only from Allah. Whatever is going to happen in this world has already been written by the writer of destiny. If all those created were to combine and try to bring a benefit to you in which Allah has kept no share for you, they would never be able to do that. And if they all come together and try to inflict a harm on you which is not in your lot, they would never become capable of doing that. If you are sure of being able to act patient¬ly, then, do just that, by all means. If you do not have the strength and ability to do so, observe patience - because there is great good and barakah in remaining patient against what does not go well with your temperament. And understand it very clearly that the help of Allah is with patience, and comfort with hardship, and prosperity with adversity.& (This Hadkh also appears in Tirmidhi and the Musnad of Ahmad with sound chains of au¬thority) Alas, despite this clear declaration of the Qur&an and the age long teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، this Ummah has started going off course in this critical matter when they have handed out what lies in the exclusive domain of Allah to His created beings. To-day, there is a very large number of Muslims who would, rather than call upon Allah and pray to Him in their hour of distress, cry for help in all sorts of names, but do not seem to remember the name of Allah. As for praying to Allah through the spiritual mediation of prophets and men of Allah, that is a different matter, and that is permissible. Evidences of which are available within the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself. But, calling on or praying to a created being directly for the removal of one&s need or solution of problem is an open rebellion against this Qur&anic injunction. May Allah keep all Muslims on the straight path.  Show more

دوسری آیت میں اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر نفع اور نقصان کا مالک در حقیقت صرف اللہ جل شانہ ہے، کوئی شخص کسی کو حقیقت کے اعتبار سے نہ ادنیٰ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ادنیٰ نقصان، اور ظاہر میں جو کسی کو کسی کے ہاتھ سے نفع یا نقصان پہنچتا نظر آتا ہے وہ صرف ایک ظاہری صورت اور حقیقت کے سام... نے ایک نقاب سے زائد کوئی حقیقت نہیں رکھتا کار زلف تست مشک اثسائی امّا عاشقاں مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند ؛ یہ عقیدہ بھی اسلام کے ان انقلابی عقائد میں سے ہے جس نے مسلمانوں کو ساری مخلوق سے بےنیاز اور صرف خالق کا نیاز مند بنا کر ان کی ایک ایسی بےمثال البیلی جماعت تیار کردی جو فقر و فاقہ اور تنگدستی میں بھی سارے جہان پر بھاری ہے، کسی کے سامنے سر جھکانا نہیں جانتی فقر میں بھی میں سربسر فخر و غرور و ناز ہوں کسی کا نیاز مند ہوں سب سے جو بےنیاز ہوں قرآن مجید میں جا بجا یہ مضمون مختلف عنوانات کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، ایک آیت میں ارشاد ہے : (آیت) ما یفتح اللہ للناس ” یعنی اللہ تعالیٰ نے جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دی اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک دے اس کو کوئی کھولنے والا نہیں “۔ صحیح احادیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعاؤں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے : اللہم لا مانع لما اعطیت۔ الخ۔ (ترجمہ) ” یعنی اے اللہ ! جو آپ نے دیا اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ نے روک دیا اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی “۔ امام بغوی رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سواری پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے ردیف بنا لیا، کچھ دور چلنے کے بعد میری طرف منوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لڑکے ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اللہ کو یاد رکھو ! اللہ تم کو یاد رکھے گا، تم اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو ہر حال میں اپنے سامنے پاؤ گے، تم امن و عافیت اور خوش عیشی کے وقت اللہ تعالیٰ کو پہچانو تو تمہاری مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ تم کر پہچانے گا، جب تم کو سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے سوال کرو، اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو، جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے قلم تقدیر کا اس کو لکھ چکا ہے، اگر ساری مخلوقات مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نفع پہنچا دیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں نہیں رکھا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے، اور اگر وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نقصان پہنچاویں جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے تو ہرگز اس پر قدرت نہ پائیں گے، اگر تم کرسکتے ہو کہ یقین کے ساتھ صبر پر عمل کرو تو ایسا ضرور کرلو، اگر اس پر قدرت نہیں تو صبر کرو، کیونکہ اپنی خلاف طبع چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیروبرکت ہے، اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کے ساتھ ہے، اور مصیبت کے ساتھ راحت اور تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ (یہ حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی بسند صحیح مذکور ہے) ۔ افسوس ہے کہ قرآن کے اس واضح اعلان اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر بھر کی تعلیمات کے باوجود یہ امت پھر اس معاملہ میں بھٹکنے لگی، سارے خدائی اختیارات مخلوقات کو بانٹ دیئے، آج ایسے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو مصیبت کے وقت بجائے خدا تعالیٰ کے پکارنے کے اور اس سے دعا مانگنے کے مختلف ناموں کی دہائی دیتے اور انہی سے مانگتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف دھیان تک نہیں ہوتا، انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنا دوسری بات ہے وہ جائز ہے، اور خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات میں اس کے شواہد موجود ہیں، لیکن براہ راست کسی مخلوق کو حاجت روائی کے لئے پکارنا، اس سے اپنی حاجتیں مانگنا، اس قرآنی حکم کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٧ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاما... ً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) اور اے لوگو ! تمہیں اگر اللہ تعالیٰ کسی سختی یا تنگی میں مبتلا کردیں تو ان کے علاوہ کوئی اور اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ کوئی نعمت عطا کریں تو وہ سختی اور تنگی نعمت ومالداری پر قدرت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہیں اور ان کے امور وقضا میں بڑی حکمت والے اور مخلوق اور ان...  کے اعمال سے پوری طرح آگاہ ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ الاَّ ہُوَ ط) اب یہ توحید کا بیان ہے۔ تکلیف میں پکارو تو اسی کو پکارو ‘ کسی اور کو نہ پکارو۔ (وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ) (القصص : ٨٨) ۔ وہی مشکل کشا ہے ‘ وہی حاجت روا ہے اور وہی تمہاری تکلیفوں کو رفع کرنے والا ہے۔ (وَاِ... نْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ۔ کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ اسے اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کرنے کے لیے کسی اور سے منظوری لینے کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ تو عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:17) یمسک۔ مضارع مجزوم بوجہ عمل ان۔ واحد مذکر غائب مس سے (باب سمع) لگائے۔ پہنچائے۔ المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہے لیکن مس کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب حاسۂ لمس کے ساتھ اس کا ادراک بھی ہو۔ ۔۔ عورت سے مجامعت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر (... 3:47) میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا حالانکہ کسی انسان نے ہاتھ تو لگایا نہیں (یعنی میرے ساتھ مجامعت نہیں کی) آیت ہذا کے معنوں میں مستھم الباساء والضراء (2:214) ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ کاشف۔ اسم فاعل مفرد۔ کاشفون اور کاشفین جمع قیاسی۔ کشف کھولنا۔ ظاہر کرنا۔ برہنہ کرنا۔ ضرر کو دفع کرنا۔ باب ضرب سے۔ متعدی اور باب سمع سے لازم آتا ہے یعنی شکست کھانا۔ کاشف ضرر کو دفع کرنے والا۔ تکلیف سے رہائی دلانے والا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 پھر دوسروں کے آگے سجدے کرنا اور ان کی قبروں پر نذرانے چڑھانا اور سمجھنا کہ وہ حاجات پوری کرسکتے ہیں بہت بڑی حماقت ہے قرآن نے اس بات پر خصوصیت کے ساتھ زوردیا ہے کہ ہر قسم کا نفع وضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر عقیدے پختہ ہو تو انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ آخرت کے دن ہی جزا و سزا اور رحم و کرم کا مالک نہیں بلکہ دنیا میں بھی خیر و شر کا اختیار رکھنے والا ہے۔ خیر و شر کے اختیار کا ذکر کرتے ہوئے براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو زمین و آسمان م... یں کوئی ہستی نہیں جو نقصان سے آپ کو بچا سکے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بھلائی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو زمین و آسمان میں کوئی طاقت نہیں جو اس میں رکاوٹ ڈال سکے آپ کو براہ راست مخاطب کرنے کا معنی یہ ہے کہ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تو دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا سکے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے جو مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی سے بےنیاز کردیتا ہے اسی عقیدہ کی بنیاد پر مجاہد میدان کار زار میں اترتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ نے میری حفظ وامان کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ اس وقت تک دشمن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یہی عقیدہ اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے پر خلوص محبت کا ناتہ جوڑتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خیر و شر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی اللہ اپنے بندوں کو نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے فیصلے کے سامنے کسی جابر کا جبر اور کسی صالح کی صالحیت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ کسی کو خیر پہنچانے اور عذاب دینے کی حکمت سے خوب واقف ہے۔ (عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ (رض) إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللہ ] ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیں معاویہ (رض) نے مغیرہ کی جانب لکھا کہ مجھے لکھ کر بھیجئے۔ جو آپ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے بعد سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی نہیں دینے والا۔ اور تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مصیبت دور کرنے والا نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب حکمت ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ ٥۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھلائی عطا نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی مشکل کشا، حاجت روا ہے : ١۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٢۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہوجائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ (یونس : ١٠٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (الاسراء : ٥٦) ٤۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے۔ (النمل : ٦٢) ٥۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا کوئی نقصان دور کرسکتا ہے۔ (الفتح : ١١) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یَمْسَسْکَ بِخَیْْرٍ فَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدُیْرٌ(17) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ (18) ” اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا...  سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیار رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔ “ وہ نفس انسانی کے ہر خیال اور اس کے سینے کے ہر وسوسے کا پیچھا کرتا ہے ۔ وہ دلی خواہشات اور اندرونی اندیشوں سے بھی باخبر ہے ۔ وہ شکوک و شبہات کی تمام شکلوں کو جانتا ہے اور ان تمام باتوں کو نظریاتی روشنی سے حل کرتا ہے ۔ برہاں و دلیل سے انسانی تصور کو واضح کرتا ہے اور اپنی خدائی کی صحیح معرفت عطا کرتا ہے ۔ چونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے قرآن کریم دوسرے مقامات کی طرح یہاں بھی اس کی وضاحت کردیتا ہے ۔ اب یہ لہر اپنے عروج پر ہے اور اس سے نہایت ہی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بات شہادت ‘ ثبوت اور سرزنشن تک آپہنچتی ہے ۔ اب جدائی اور برات کا اعلان کردیا جاتا ہے کہ بس ہم تمہارے ساتھ شرکیہ امور میں شریک نہیں ہو سکتے ۔ نہایت ہی بلند آواز میں اور نہایت ہی رعب دار اور فیصلہ کن اعلان میں :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ضرر اور خیر صرف اللہ تعالیٰ ہی پہنچا سکتا ہے : اس کے بعد فرمایا (وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ ) (الآیۃ) کہ اے مخاطب ! اگر اللہ تجھے کوئی ضرر دکھ یا تکلیف پہنچا دے تو اسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی دور کرنے والا نہیں۔ اور اگر وہ کوئی خیر (صحت و غناء وغیرہ) پہنچا دے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں (فَل... َا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسے چھوڑ کر جو غیروں کی عبادت کرتے ہو۔ انہیں تو خیر و شر پہنچانے کی کچھ بھی قدرت نہیں ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع سے سر اٹھا کر جو اللہ کی حمد ثنا بیان کرتے تھے اس میں یہ بھی تھا۔ (اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعًا لِمَآ اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیً لَمَا مَنَعْتَ وَ لَا یَنْفَعُ ذَاالْجَدُّ مِنْکَ الْجَدُّ ) (مشکوٰۃ المصابیح ج ١ ص : ٨٢) (اے اللہ ! جو کچھ آپ عطا فرمائیں اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ آپ روک لیں اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی مالدار کو اس کی مالداری آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان فرمایا کہ میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا آپ نے فرمایا اے لڑکے ! تو اللہ کا دھیان رکھ اللہ تیری حفاظت فرمائے گا۔ تو اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے آگے پائے گا۔ اور جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر ! اور جب تو مدد مانگے تو اللہ ہی سے مدد مانگ اور اس کا یقین رکھ کہ اگر ساری امت اس مقصد سے جمع ہوجائے کہ تجھے کچھ نفع پہنچا دے تو اس کے سوا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ساری امت اس مقصد کے لیے جمع ہوجائے کہ تجھے کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ (رواہ الترمذی قبیل ابواب صفۃ الجنۃ۔ ١٢) نفع اور ضرر مقدر ہے اور سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے محروم کر دے اسے کوئی کچھ نہیں دے سکتا اور وہ جسے دکھ تکلیف اور نقصان پہنچائے اسے اس کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19 یہ مسئلہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے ضُرٌّ سے مراد ہر تکلیف ہے۔ مثلاً بیماری، تنگدستی، مصیبت وغیرہ اسی طرح خیر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جس سے انسان کو خوشی اور سرور حاصل ہو۔ مثلاً تندرستی، دولت، آرام و راحت وغیرہ۔ آیت میں خطاب اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد ہر مخاطب ہے۔ یعن... ی اگر اللہ کی طرف سے کوئی مصیبت یا تکلیف آجائے تو اللہ کے سوا کوئی اسے دور نہیں کرسکتا نہ کوئی پیغمبر، نہ ولی اور نہ کوئی فرد اور جن اور اگر اللہ تعالیٰ آرام و راحت پہنچانا چاہے تو اسے بھی کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تکلیف پہنچانے پر بھی اور خیر پہنچانے پر بھی۔ فَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ ما قبل کی علت ہے اور وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍکی جزاء محذوف ہے۔ ای فَلاَ رَادَّ لِفَضْلِہٖ بقرینۃ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِہٖ (یونس ع 11) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 اور اے انسان اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کوئی سختی اور تکلیف پہونچائے تو اس کو سوائے اس کے کوئی اور دور کرنے والا اور کھولنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تجھ کو کوئی بھلائی پہونچائے اور کس فائدے سے تجھ کو نوازے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے یعنی کوئی اس کے فضل کو رد نہیں کرسکتا۔