Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 20

سورة الأنعام

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ۘ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۲۰﴾  8

Those to whom We have given the Scripture recognize it as they recognize their [own] sons. Those who will lose themselves [in the Hereafter] do not believe.

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ اتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمُ ... Those to whom We have given the Scripture recognize him, as they recognize their own children. Allah says, the People of the Book know what you brought them, O Muhammad, as they know their own children. This is because they received good news from the previous Messengers and Prophets about the coming of Muhammad, his attributes, homeland, his migration, and the description of his Ummah. Allah said next, ... الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ ... Those who have lost (destroyed) themselves, and thus incurred the ultimate loss, ... فَهُمْ لاَ يُوْمِنُونَ will not believe. in this clear matter. A matter about which the previous Prophets gave good news, and a matter extolled about in ancient and modern times. Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعرفونہ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اہل کتاب کا آپ کو پہچانا :۔ عرب میں یہ الفاظ بطور محاورہ بولے جاتے ہیں یعنی اگر کسی شخص کو کسی چیز کے متعلق پختہ یقین ہوتا تو کہتے کہ وہ اسے ایسے پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو۔ یعنی جس طرح ایک باپ بچوں کے اجتماع میں اپنے بیٹے کو فوراً پہچان لیتا ہے بالکل اسی طرح اہل کتاب، اپنی کتاب میں مذکور نشانیوں کے مطابق نبی آخر الزماں کو پہچان چکے تھے کہ وہ فی الواقع وہی نبی ہے جس کی بشارات دی گئی ہیں پھر بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجوہ دوسری ہیں مثلاً قومی عصبیت، اپنی اپنی سرداریوں اور گدیوں کا خاتمہ، حسد اور بغض وغیرہ یا یہ عقیدہ کہ موسوی شریعت قیامت تک کے لیے غیر متبدل ہے یا یہ کہ کوئی نبی بنی اسرائیل کے علاوہ آ ہی نہیں سکتا۔ جو کچھ بھی ہو یہ بہرحال اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ ۔۔ : یعنی یہود و نصاریٰ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ ان کی اپنی کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر موجود ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٤٦) ، سورة اعراف (١٥٧) اور سورة صف (٦) ۔ کفار مکہ نے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے آپ کی نبوت سے انکار کیا اور کہا کہ تورات و انجیل میں آپ کا کوئی ذکر نہیں۔ اس پر کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ اہل کتاب تو آپ کی نبوت کا انکار کر رہے ہیں، پھر آپ کی نبوت کی شہادت کون دیتا ہے ؟ اس کا جواب اس سے پہلی آیت میں دیا گیا ہے، اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر تورات و انجیل میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سچا ہونے کو پورے یقین سے جانتے ہیں مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کر کے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رہے ہیں، ایسے لوگوں سے ایمان کی امید نہیں، ہاں جن لوگوں کے دلوں میں اخلاص ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 20, there is a refutation of the saying of those who had said that they had checked with the Jews and the Christians and none of them were ready to attest to his truth as a Messenger of Allah. About that it was said: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِ‌فُونَهُ كَمَا يَعْرِ‌فُونَ أَبْنَاءَهُمُ ; (That is, as for the Jews and Christians, they recognize Muhammad al-Mustafa as they would recognize their sons. The reason is that there is, in the Torah and Injil, a full description of the physical features of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، of his home city and then his post-emigration place of residence, and of his habits and morals and achievements - all this in such details that it leaves no room for doubt in the recognition of his identity. In fact, this is not limited to the mention of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the Torah and the Injil carry even the detailed description of his noble Sahabah as well. Therefore, there was no possibility that anyone who recited the Torah and the Injil and believed in them would be unable to recognize the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . At this point, the simile given in the text is that of children - ` as they would recognize their sons.& Not said here is: as children recog¬nize their parents. The reason is that the recognition of children by parents is most detailed and certain. Children remain before parents day and night under all conditions. From infancy to younger years, they are raised in the hands and laps of parents. So, the extent to which parents can recognize their children, their children cannot rec¬ognize them. Sayyidna ` Abdullah ibn Salam (رض) عنہ belonged to the Jewish faith, then he became a Muslim. Sayyidna Faruq al-A&zam (رض) asked him: Allah Ta` ala says in the Qur&an that you recognize our Ra¬sul as you would recognize your sons. What is the reason for it? Sayy¬idna ` Abdullah ibn Salam said: Yes, we know the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from his qualities and features revealed by Allah Almighty through the Torah. Therefore, this knowledge of ours is certain and absolute. This is contrary to our offspring about whom one could doubt whether or not they were their children. Sayyidna Zayd ibn Sa&nah who first belonged to the people of the Book had recognized the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through the description of his qualities and features stated in the Torah and the Injil. There was only one quality which could not be confirmed from earlier information. So, this he confirmed by testing. That quality was : ` His forbearance will dominate his anger.& Then, he went to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، made his test and found him a true bearer of this quality. He instantly became a Muslim. In the last verse (21), it was said that these people of the Book who, despite knowing the true identity of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) do not accept Islam were simply ruining themselves at their own hands: الَّذِينَ خَسِرُ‌وا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (Those, who have brought loss on themselves, they are not going to believe).

آخری آیت میں ان لوگوں کے اس قول کی تردید ہے کہ ہم نے یہود و نصاریٰ سے سب سے تحقیق کرلی، کوئی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی اور نبوت کی گواہی نہیں دیتا، اس کے متعلق ارشاد فرمایا : اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ یعنی یہود و نصاریٰ تو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہنچاتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تورات و انجیل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورا حلیہ شریف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وطن اصلی پھر وطن ہجرت کا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عادات و اخلاق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کارناموں کا ایسا تفصیلی ذکر ہے کہ اس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، بلکہ صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ذکر نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے حالات کا مفصل تذکرہ تک تورات و انجیل میں موجود ہے، اس لئے اس کا کوئی امکان نہیں کہ جو شخص تورات و انجیل کو پڑھتا اور ان پر ایمان رکھتا ہو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پہچانے۔ اس جگہ حق تعالیٰ نے تشبیہ کے موقع پر یہ ارشاد فرمایا کہ جیسے لوگ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ جیسے بچے اپنے ماں باپ کو پہچانتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ماں باپ کی پہچان اپنے بچوں کے لئے سب سے زیادہ تفصیلی اور یقینی ہوتی ہے، بچوں کے بدن کا ہر حصہ ماں باپ کے سامنے آتا رہتا ہے، وہ بچپن سے لے کر جوانی تک ان کے ہاتھوں اور گود میں پرورش پاتے ہیں، اس لئے وہ جتنا اپنی اولاد کو پہچان سکتے ہیں اتنا اولاد ان کو نہیں پہچان سکتی۔ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو پہلے یہود میں داخل تھے، پھر مسلمان ہوگئے، حضرت فاروق اعظم (رض) نے ان سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی ہے کہ تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہچانتے ہو جیسے اپنی اولاد کو اس کی کیا وجہ ہے ؟ عبداللہ ابن سلام (رض) نے فرمایا کہ ہاں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اوصاف کے ساتھ جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں نازل فرمائے، اس لئے اس کا علم ہمیں یقینی اور قطعی طور پر ہے، بخلاف اپنی اولاد کے کہ اس میں شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری اولاد ہے بھی یا نہیں۔ حضرت زید بن سعنہ جو اہل کتاب میں سے ہیں انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تورات و انجیل کے بیان کردہ اوصاف ہی کے ذریعہ پہچانا تھا، صرف ایک وصف ایسا تھا جس کی ان کو پہلے تصدیق نہیں ہوسکی تھی، امتحان کے بعد تصدیق ہوئی، وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصہ پر غالب ہوگا، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر تجربہ کیا تو یہ صفت بھی پوری طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پائی اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ یہ اہل کتاب جو پوری طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتے، یہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو برباد کر رہے اور خسارہ میں پڑ رہے ہیں، َالَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَہُمْ۝ ٠ۘ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٢٠ۧ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) جن حضرات کو ہم نے توریت کا علم دیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے اوصاف اور تعریف کے ساتھ اپنے بیٹوں کی طرح جانتے ہیں اور جنہوں نے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کردیا ہے جیسا کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی وہ قرآن حکیم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ ٧) یَعْرِفُوْنَہٗ کی ضمیر مفعولی دونوں طرف جاسکتی ہے ‘ قرآن کی طرف بھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی۔ البتہ اس سے قبل یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل کر ہی بیّنہ بنتے ہیں ‘ یہ دونوں ایک وحدت اور ایک ہی حقیقت ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود قرآن مجسم ہیں۔ قرآن ایک انسانی شخصیت اور سیرت و کردار کا جامہ پہن لے تو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جیسا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا : کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنَ (١) یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت قرآن ہی تو ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. Those who have knowledge of the Scriptures know for sure that God is One alone and that no one shares His godhead with Him. It is true that one can spot one's own child even in the midst of a large crowd of children. The same can be said about those well-versed in the Scriptures. Even if the true concept of godhead were interspersed among numerous false beliefs and concepts about God, those well-versed in the scriptural lore would be able to recognize without doubt which doctrine was true.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :14 یعنی کتب آسمانی کا علم رکھنے والے اس حقیقت کو غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور خدائی میں کسی کا کچھ حصہ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی کا بچہ بہت سے بچوں میں ملا جلا کھڑا ہو تو وہ الگ پہچان لے گا کہ اس کا بچہ کونسا ہے ، اسی طرح جو شخص کتاب الہٰی کا علم رکھتا ہو وہ الوہیت کے متعلق لوگوں کے بے شمار مختلف عقیدوں اور نظریوں کے درمیان بلا کسی شک و اشتباہ کے یہ پہچان لیتا ہے کہ ان میں سے امر حق کونسا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:20) یعرفونہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں ۔ کہ آپ کا حلیہ مبارک ۔ شمائل۔ صفات تورات اور انجیل میں مذکور ہیں۔ خسروا انفسھم۔ اہلکوا انفسھم۔ او بقوا انفسھم۔ (جنہوں نے) اپنے نفسوں کو ہلاکت اور گھاٹے میں ڈال دیا۔ بانکارھم نبوۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے انکار کرکے۔ فھم لا یؤمنون۔ ای لا یؤمنون بہ۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی اسکے سچے رسول ہونے میں انہیں کوئی شبہ نہیں (دیکھئے بقرہ آیت 146) 1 وپر گزر چکا ہے کہ کفار نے یہود و نصاریٰ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جب اتاستفسار کیا تو انہوں نے آپ کی نبوت سے انکار کیا چناچہ ان کے جواب میں قل ای شئی ل الخ۔ نازل ہوئی آپ کو اس آیت میں بتایا گیا کہ اہل کتاب جھوٹ بولتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ذکر تورات میں نہیں ہے یہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت کو پورے یقین سے جانتے ہیں مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کر رہے ہیں ایسے لوگوں سے ایمان کی امید نہیں ہاں جن لوگوں کے دلوں میں اخلاص ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اپنی عقل کو وجود دلالت شہادت مذکورہ پر نظر صحیح کرنے سے معطل کرلیا ہے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید و رسالت پر آفاقی دلائل دینے اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کبریٰ کے بعد اہل کتاب کے زندہ ضمیر اور مصنف مزاج لوگوں کی شہادت کا تذکرہ۔ اہل کتاب کے اس اعتراف کے بارے میں مفسرین نے دو مفہوم لیے ہیں۔ امام رازی (رض) اور ان کے ہمنوا مفسرین کا خیال ہے کہ ” ہ “ کی ضمیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والاصفات اور آپ کی رسالت کے متعلق ہے۔ جیسا کہ سورة البقرۃ آیت ٤٦ میں رسالت کے بارے میں اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی (رض) اور کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں ” ھو “ کی ضمیر توحید کے متعلق ہے کہ جس طرح اہل کتاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر جانتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے ضمیر میں اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ قرآن مجید کے سیاق وسباق سے دونوں مفاہیم کی تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا جس نے توحید و رسالت میں سے کسی ایک کا اعتقاداً یا عملاً انکار کیا، وہ لوگ نقصان پائیں گے۔ حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتاً آپ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں : أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے ؟ “ والد : کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ ابو یاسر : أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے ؟ “ والد : ہاں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ ابویاسر : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ “ والد : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم ! جب تک زندہ ہوں عداوت کا اظہار کرتا رہوں گا “۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ ] امام رازی نے اس ضمن میں عجب واقعہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے ابو جہل کو لوگوں سے الگ کرکے پوچھا کہ اے ابو الحکم ! یہ بتائیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے یا سچا ؟ ابو جہل نے کہا کہ ابن شریق تجھ پر نہایت ہی افسوس کہ اس میں کیا شک ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا سچا رسول ہے۔ اس لیے کہ اس نے آج تک کسی فرد کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی بڑے بڑے مناصب اور اعزاز۔ ان کے خاندان کے پاس ہیں۔ جنگ کے موقع پر پرچم اٹھانا، کعبہ کی دربانی اور نگہبانی، لوگوں کو زم زم پلانا اور یہ سب اعزازات ان کے پاس ہیں۔ اگر ہم نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا۔ مسائل ١۔ اہل کتاب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ توحید و رسالت کا انکار کرنا اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں : ١۔ اہل کتاب آپ کو پہچانتے تھے۔ (البقرۃ : ١٤٦) ٢۔ انھوں نے نبی کو پہچان لیا ہے۔ (المؤمنون : ٦٩) ٣۔ اہل کتاب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٤٦) ٤۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ آپ کو پہچانتے ہیں۔ (الانعام : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢٠۔ قرآن کریم میں اس بات کا ذکر بار بار آتا ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاری ‘ قرآن کریم کو بعینہ اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول برحق ہیں اور یہ قرآن کریم ان پر اللہ کی جانب سے نازل ہو رہا ہے ۔ یہ حقیقت اہل کتاب کے ساتھ کلام کرتے ہوئے بھی بیان کی گئی ہے اور مشرکین عرب کے مقابلے میں بھی یہ دلیل دی گئی ۔ اہل کتاب بالمعوم مدینہ میں تحریک اسلامی کے خلاف دشمنی ‘ عناد اور مقابلے کا موقف اختیار کئے ہوئے تھے اور اہل شرک ہر جگہ پر تھے ۔ یہ حقیقت اس لئے لائی گئی کہ مشرکین عرب مانتے تھے کہ اہل کتاب ان کے مقابلے میں زیادہ اہل علم ہیں اور وہ کتب سماویہ اور وحی کے مزاج سے زیادہ باخبر ہیں ۔ لہذا یہ بات لائی گئی کہ اہل کتاب قرآن کریم کو اچھی طرح بغیر کسی اشتباہ کے پہچانتے ہیں اور یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی اسی رب کی وحی آرہی ہے جس نے پہلے رسولوں پر وحی بھیجی تھی ۔ جس طرح ہم نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت مکی ہے ‘ اور اس میں اس انداز سے اہل کتاب کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں خطاب مشرکین مکہ سے تھا کہ جس کتاب کا تم انکار کر رہے ہو اہل کتاب اسے اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں اور اگر اہل کتاب کی ایک بڑی اکثریت ایمان نہیں لائی تو اس نے درحقیقت اپنے آپ کو ایک بہت ہی بڑے خسارے میں ڈال لیا ہے ۔ اس معاملے میں علم کے باوجود وہ مشرکین کے ہم پلہ ہوگئے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالتے ہوئے ایمان کی دولت سے محروم کرلیا ہے ۔ اس آیت سے قبل اور بعد کی بات بہرحال مشرکین مکی کی بابت ہے ۔ اس لئے جس طرح ہم نے اس سورة کے تعارف کے وقت بتایا ‘ ہم ترجیح اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ آیات بھی مکی ہیں ۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ‘ (آیت) ” الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمُ ۔ (٦ : ٢٠) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں آتا ۔ “ کا حوالہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ یہ کلام منزل من اللہ اور سچا ہے یا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے نبی ہیں اور ان پر بذریعہ وحی یہ قرآن نازل ہو رہا ہے ۔ یہ تفسیر بھی بہرحال اس آیت کے مدلول اور مفہوم میں داخل ہے لیکن تاریخی واقعات کی روشنی میں اور اہل کتاب کے رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ‘ جو انہوں نے دین اسلام کے مقابلے میں اختیار کیا ‘ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے مفہوم کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔ اللہ کا منشا یہ تھا کہ جماعت مسلمہ کے ذہن میں یہ پہلو بھی آجائے تاکہ وہ آئندہ کے ادوار میں اہل کتاب کے حوالے سے اپنا اپنا رویہ متعین کرلے اور یہ جان لے کہ ان کا رویہ اسلام کی بابت کیا ہوگا ۔ اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی کہ یہ کتاب از جانب اللہ برحق ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس کتاب کی قوت تاثیر سے واقف تھے ۔ اس میں جو بھلائی اور اصلاح تھی اس سے بھی وہ واقف تھے ۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر تھے کہ اس کتاب کے اندر پائے جانے والے نظریات کو جو قوم سینے سے لگاتی ہے اس کے اندر پھیلاؤ کی کس قدر عظیم قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کتاب کے نتیجے میں کسی قوم کے اندر جو اخلاقی قوت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے اثرات کس قدر دور رس ہوتے ہیں ۔ یہ کتاب جو نظام حیات پیش کرتی ہے وہ کس قدر مستحکم نظام ہے ۔ اہل کتاب اس کتاب اور اس کے ماننے والوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ اس کتاب میں ان کے لئے نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کسی دوسرے دین کے لئے کوئی گنجائش ہے ۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اس کتاب میں کس قدر عظیم سچائی ہے اور وہ خود کس عظیم باطل کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اس نظام جاہلیت سے بھی واقف تھے جس تک وہ آپہنچے اور جس تک ان کی قوم ‘ ان کے اوضاع واطوار اور ان کے اخلاق اور ان کا اجتماعی نظم پہنچ گئے ہیں ۔ اب صورت یہ ہوگئی کہ یہ دین برحق ان کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں کرسکتا ۔ نہ ان کے درمیان بقائے باہمی ممکن ہے ۔ اس لئے جو معرکہ درپیش ہے وہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس کرہ ارض کے اوپر سے جاہلیت ختم ہوجاتی ‘ جب تک ہر جگہ یہ دین غالب نہیں ہوجاتا اور پوری دنیا کا دین خدا پرستی پر قائم نہیں ہوجاتا اور اس کرہ ارض پر اللہ کی بادشاہت قائم نہیں ہوجاتی ۔ جب تک اللہ کے حقوق سلطنت اور حقوق اقتدار اعلی پر دست درازی کرنے والوں کو اس کرہ ارض کے اوپر سے بھگا نہیں دیا جاتا اس وقت تک دونوں گروہوں کے درمیان مصالحت نہیں ہو سکتی اس لئے کہ صرف اسی طریقے سے خدا کی بادشاہ قائم ہو سکتی ہے ۔ اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دین میں یہ حقیقت موجود ہے اور اس حقیقت کو وہ بعینہ اس طرح بغیر کسی اشتباہ کے جانتے تھے جس طرح وہ اپنے بچوں کو جانتے تھے ۔ اہل کتاب نسلا بعد نسل اس دین کا مطالعہ کرتے چلے آئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس دین کے اندر قوت اور شوکت کے سرچشمے پنہاں ہیں اور یہ کہ یہ دین نفس انسانی کے اندر کن کن راہوں پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ۔ اسی لئے وہ ہر وقت ان تحقیقات میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اس دین کی ان قوتوں کے اثرات کو کس طرح زائل کردیں ۔ کس طرح وہ اہل اسلام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرسکتے ہیں ؟ کس طرح وہ دین اسلام کے نصوص میں لفظی اور معنوی تحریف کرسکتے ہیں ؟ کس طرح وہ اس دین کو باطل اور جاہلیت کے مقابلے میں تحریک نفاذ اسلام اور تحریک قیام حکومت الٰہیہ کے مقام سے گرا کر ایک مجرد ثقافتی اور علمی تحریک میں بدل سکتے ہیں اور اس کی زندہ نصوص کو محض الہیاتی نظریاتی مباحث میں بدل کر انہیں بےجان کرسکتے ہیں ۔ چناچہ انکی یہی سعی رہی کہ اس دین کو محض لاہوتی ‘ فقہی اور فرقہ وارانہ اختلافات کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا جائے ۔ وہ دین اسلام کے مطالب اور مفہومات کو ایسے تصورات اور ایسی اشکال میں ڈھالتے ہیں جن کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اس دین کے لئے مہلک ہیں ۔ لیکن ان سازشوں کے باوجود وہ اہل اسلام کو یہ باور کراتے ہیں کہ تمہارا عقیدہ محفوظ ہے اور قابل احترام ہے ۔ اس طرح جو خلا وہ پیدا کرتے ہیں اس کی جگہ وہ نئے تصورات ‘ نئے طور طریقے اور نئی ترجیحات سامنے لاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلامی سوچ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں ۔ اہل کتاب دین اسلام کا بہت ہی گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور نہایت ہی سنجیدگی اور گہرائی سے اسلام کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے وہ کسی حقیقت کی تلاش میں نہیں ہیں ۔ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں حقیقت کی تلاش ہے یا وہ اس دین کے ساتھ کوئی انصاف کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ ایسا سمجھتے ہیں جب مستشرقین میں سے کوئی اسلام کے بعض پہلوؤں کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کرے ۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ سچائی کی تلاش میں ہیں یا یہ کہ وہ دین اسلام پر کوئی منصفانہ تبصرہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ان تحقیقات سے اس امر کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کس مقام سے وہ دین اسلام پر حملہ آور ہوں ۔ یہ لوگ دین اسلام کے ان تمام سرچشموں کو بند کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے انسانی فطرت کو سیرابی حاصل ہو سکتی ہے یا فطرت انسانی ان پہلوؤں سے متاثر ہو سکتی ہے ۔ وہ ایسے تمام سرچشموں کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس دین کی قوتوں کے راز معلوم کرتے ہیں تاکہ وہ ان قوتوں کا اچھی طرح دفاع کرسکیں ۔ یہ لوگ یہ جاننا چاہتے کہ یہ دین اپنے آپ کو انسانی نفسیات کے اندر کس طرح نشوونما دیتا ہے تاکہ یہ لوگ اہل اسلام کو غافل پا کر کچھ اپنے تصورات اس کے اندر داخل کردیں اور لوگوں کے نفوس کے اندر جو بھی خلا باقی ہو اسے وہ دین کے ساتھ متضاد تصورات کے ذریعے بھر دیں ۔ چناچہ ان مقاصد کے حصول کے لئے یہ لوگ دین اسلام کو اسی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بچوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ ہمیں ان حقائق کے بارے میں علم ہونا چاہئے ۔ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں بھی پورا پورا علم ہونا چاہئے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں اسی طرح پہچان ہو جس طرح ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں پہچان ہوتی ہے ۔ گزشتہ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ کی عملی صورت حال اس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے پہلے سے بتا دیا تھا ۔ (آیت) ” الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمُ ۔ (٦ : ٢٠) وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کے پہچانتے ہیں ۔ “ میں کوئی اشتباہ نہیں آتا ۔ “ ماضی قریب کے تاریخی دور میں یہ صورت حال بہت ہی اچھی طرح واضح ہوگئی ہے ۔ آج اسلام کے بارے میں جو بحثیں ہو رہی ہیں وہ اس قدر وسیع ہیں کہ ہر ہفتے کی تحریروں کو جمع کرکے ایک کتاب شائع کی جاسکتی ہے ۔ یہ صورت تمام غیر ملکی زبانوں کی ہے ۔ ان مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب اس دین کی ہر چھوٹی بڑی بات سے واقف ہیں ۔ وہ اس کے مزاج اور اس کی تاریخ سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ انہیں اس دین کی قوت کے سرچشمے بھی معلوم ہیں اور اس کی قوت مدافعت سے بھی وہ پوری طرح باخبر ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس دین کے بگاڑنے کے طریقے کیا ہیں ‘ لیکن اہل کتاب کی اکثریت اپنی اس نیت کو چھپائے رکھتی ہے ۔ وہ اپنے مقاصد کو اس لئے خفیہ رکھتے ہیں کہ اگر دین اسلام پر براہ راست حملہ کیا جائے تو لوگ اس کی مدافعت کے لئے اٹھتے ہیں اور طرفداری کرتے ہیں ۔ وہ تحریکات جو اس دین پر مسلح حملوں کے دفاع کے لئے برپا کی گئیں ‘ مثلا استعماری قوتوں کے خلاف تو یہ تحریکات ایک دینی فہم اور دینی جذبے کے اوپر قائم تھیں ۔ انہوں نے اپنے وقت میں دین کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیا ‘ لیکن آج دین کے خلاف فکری جنگ شروع ہے اس فکری ونظریاتی جنگ کی مدافعت کے لئے بھی اسلامی تحریکات اٹھتی رہی ہیں اور اہل کتاب کو اس کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے ۔ اس لئے وہ نہایت ہی مذموم طریقے اختیار کرتے ہیں اور وہ یوں کہ وہ پہلے دین اسلام کی کسی قدر تعریف کرتے ہیں اور اسلام کی مدافعت اور حمایت کے جذبات کی جذبات کو سلا دیتے ہیں تاکہ اسلام کی حمایت کا جذبہ بےحس کردیا جائے ‘ اور پڑھنے والے کے دل میں اطمینان پیدا ہوجائے اور اس طرح ایسے مصنفین پیالے میں زہر ڈالتے جائیں اور پڑھنے والا ایک ایک گھونٹ پیتا رہے ۔ اب ایسے لوگوں کی بات کچھ اس طرح کی ہوتی ہے ۔ ” بیشک اسلام ایک عظیم دین ہے لیکن اس کے معانی اور تصورات کو ترقی یافتہ شکل میں جدید تہذیب کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے تاکہ وہ جدید دور کی ضروریات کو پورا کرے ۔ دور جدید میں معاشروں کے اندر جو جدت اور ترقی کا عمل جاری ہے ‘ مناسب نہیں ہے کہ یہ دین اس کی راہ میں رکاوٹ بنے بلکہ مناسب یہ ہے کہ یہ دین جدید اخلاقی قدریں اپنا لے اور جدید نظامہائے حکومت اور اجتماعی امور کو نہ چھیڑے ۔ اس طرح کہ جو چاہے اسلامی عقائد کو اپنے دلوں میں بٹھائے رکھے لیکن انسان کی عملی زندگی میں جدید نظریات اور تہذیب مغرب کے رنگ ڈھنگ اس کے دائرے سے باہر نکل آئیں ۔ وہ اپنے اجتماعی معاملات بھی اس ان لوگوں کے حوالے کر دے جو اس کرہ ارض پر الہ اور رب بنے ہوئے ہیں اور خود اپنا دین چلا رہے ہیں ‘ اس طرح اسلام ایک ہمہ گیر دین قرار پائے گا “۔ اس انداز گفتگو کے دوران یہ مصنفین اپنی اقوام کو یہ راز سمجھاتے ہیں کہ دین اسلام کی قوت اور صلابت کا راز کیا ہے ؟ بظاہر یہ تعریف کر رہے ہوتے ہیں لیکن بباطن اپنی اقوام کو تاثر دیتے ہیں کہ یہ دین نہایت ہی خطرناک ہے ۔ یوں تعریف کے لباس میں یہ اپنی اقوام کو اس دین کی قوت کے راز سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ ان انکشافات کے ذریعے تخریبی قوتیں دین کے نازک مقامات پر حملہ آور ہوں اور ان کے وار اور بمباری ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگے اور ان کو اس بارے میں اس قدر علم ومعرفت حاصل ہوتی رہے جس طرح وہ اپنے بچوں کے بارے میں جانتے ہیں ۔ قرآن کریم کے اسرار و رموز اس کے جاننے والوں پر کھلتے ہی رہیں گے ۔ یہ کتاب ہمیشہ جدید اور نئی رہے گی ۔ گزشتہ چودہ سو سال میں یہ ہمیشہ جدید رہی ہے ۔ مسلمان اس کی روشنی میں معرکے لڑتے رہے ہیں اور اپنی تاریخ پر اس کی روشنی میں غور کرتے رہے ہیں ۔ وہ اپنے ماضی اور حال کا جائزہ اس کی روشنی میں لیتے رہے ہیں اور اپنے معاملات کو اللہ کے نور میں دیکھتے رہے ہیں جس کے ذریعے سچائی کے راستے واضح ہوجاتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود و نصاریٰ کی ہٹ دھرمی : اس کے بعد یہود و نصاریٰ کی ضد اور ہٹ دھرمی بیان فرمائی اور فرمایا (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ھُمْ ) (کہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ ان کو پہنچانتے ہیں کہ وہ واقعی اللہ کے نبی ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہنچاتے ہیں) کیونکہ توریت اور انجیل میں آپ کی آمد کی خبر اور بشارت پڑھ چکے ہیں اور جو صفات و علامات آپ کے بارے میں بتائے گئے تھے انہیں دیکھ چکے ہیں۔ پہچاننے کے باو جود منکر ہو رہے ہیں۔ (اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (جن لوگوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کیا اور آپ کی نبوت کو نہ مانا یہ لوگ اپنی جانوں ہی کو تباہ کر بیٹھے یہ ایمان نہ لائیں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24 الکتاب سے تورات اور انجیل اور موصول سے یہود و نصاری دونوں فریق مراد ہیں اور یَعْرِفُونَہ میں ضمیر منصوب سے قول مذکور یعنی کلمہ توحید کی حقانیت مراد ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” می شناسد حقیقت ایں قول یعنی کلمہ توحید (فتح الرحمن) اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے۔ یَتْلُونَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ۔ اس معنی کے اعتبار سے اس آیت کا ربط ماقبل کے ساتھ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ عام مفسرین نے ضمیر کا مرجع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو قرار دیا ہے لیکن اس صورت میں یہ آیت ماقبل سے الگ ہوجاتی ہے۔ اس مضمون میں ایک حدیث بھی وارد ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس پر موقوف نہیں جیسا کہ سیاق وسباق اس پر شاہد ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ علماء یہود و نصاریٰ کو کلمہ توحید کے مضمون کی سچائی اور حقانیت کا اس طرح یقین ہے جس طرح انہیں اپنی اولاد کی پہچان کا یقین ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے یعنی یہود و نصاریٰ جن کو تم سے پہلے کتابیں دی تھیں وہ اس پیغمبر کو غیر مشتبہ طور پر ایسا جانتے اور پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے اور نقصان میں ڈال رکھا وہ کبھی ایمان لانے والے نہیں۔