Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 22

سورة الأنعام

وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَیۡنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ ﴿۲۲﴾

And [mention, O Muhammad], the Day We will gather them all together; then We will say to those who associated others with Allah , "Where are your 'partners' that you used to claim [with Him]?"

اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے ، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکا ، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Polytheists Shall be Questioned About the Shirk They Committed About the polytheists, Allah said: وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ... And on the Day when We shall gather them all together, This is on the Day of Resurrection, ... ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ ... We shall say to those who joined partners in worship (with Us): when He will ask them about the idols and rivals that they worshipped instead of Him. Allah will say to them, ... أَيْنَ شُرَكَأوُكُمُ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ Where are your partners (false deities) whom you used to assert (as partners in worship with Allah)! Allah said in Surah Al-Qasas, وَيَوْمَ يُنَـدِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَأيِىَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ And (remember) the Day when He will call to them, and say, "Where are My (so-called) partners whom you used to assert!" (28:62) Allah's statement,

قیامت کے دن مشرکوں کا حشر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا حشر اپنے سامنے کرے گا پھر جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی پرستش کرتے تھے انہیں لا جواب شرمندہ اور بےدلیل کرنے کے لئے ان سے فرمائے گا کہ جن جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے رہے آج وہ کہاں ہیں؟ سورۃ قصص کی آیت ( وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) 28 ۔ القصص:62 ) میں بھی یہ موجود ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں جو لفظ فتنتھم ہے اس کا مطلب فتنہ سے مراد حجت و دلیل ، عذرو معذرت ، ابتلا اور جواب ہے ۔ حضرت ابن عباس سے کسی نے مشرکین کے اس انکار شرک کی بابت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ ایک وقت یہ ہو گا کہ اور ایک اور وقت ہو گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ۔ پس ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحد نمازی جنت میں جانے لگے تو کہیں گے آؤ ہم بھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کر دیں ، اس انکار کے بعد ان کی زبانیں بند کر دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہیاں دینے لگیں گے تو اب کوئی بات اللہ سے نہ چھپائیں گے ۔ یہ توجہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ نے فرمایا اب تو تیرے دل میں کوئی شک نہیں رہا ؟ سنو بات یہ ہے کہ قرآن میں ایسی چیزوں کا دوسری جگہ بیان و توجیہ موجود ہے لیکن بےعلمی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچتیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ آیت مکی ہے اور منافقوں کا وجود مکہ شریف میں تھا ہی نہیں ۔ ہاں منافقوں کے بارے میں آیت ( يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ:18 ) ہے ۔ دیکھ لو کہ کس طرح انہوں نے خود اپنے اوپر جھوٹ بولا ؟ اور جن جھوٹے معبودوں کا افترا انہوں نے کر رکھا تھا کیسے ان سے خالی ہاتھ ہو گئے؟ چنانچہ دوسری جگہ ہے کہ جب ان سے یہ سوال ہو گا خود یہ کہیں گے ضلو عنا وہ سب آج ہم سے دور ہو گئے ، پھر فرماتا ہے بعض ان میں وہ بھی ہیں جو قرآن سننے کو تیرے پاس آتے ہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ان کے دلوں پر پردے ہیں وہ سمجھتے ہی نہیں ان کے کان انہیں یہ مبارک آوازیں اس طرح سناتے ہی نہیں کہ یہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور احکام قرآنی کو قبول کریں ، جیسے اور جگہ ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی جو اپنے چروا ہے کی آواز تو سنتے ہیں لیکن مطلب خاک نہیں سمجھتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت دلائل و براہن اور معجزات اور نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان قبول نہیں کرتے ، ان ازلی بد قسمتوں کے نصیب میں ایمان ہے ہی نہیں ، یہ بے انصاف ہونے کے ساتھ ہی بےسمجھ بھی ہیں ، اگر اب ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں سننے کی توفیق کے ساتھ ہی توفیق عمل و قبول بھی مرحمت فرماتا ، ہاں انہیں اگر سوجھتی ہے تو یہ کہ اپنے باطل کے ساتھ تیرے حق کو دبا دیں تجھ سے جھگڑتے ہیں اور صاف کہہ جاتے ہیں کہ یہ تو اگلوں کے فسانے ہیں جو پہلی کتابوں سے نقل کر لئے گئے ہیں اس کے بعد کی آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے ہیں حضور کی حمایت کرتے ہیں آپ کو برحق جانتے ہیں اور خود حق کو قبول نہیں کرتے ، جیسے کہ ابو طالب کہ حضور کا بڑا ہی حمایتی تھا لیکن ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ آپ کے دس چچا تھے جو علانیہ تو آپ کے ساتھی تھے لیکن خفیہ مخالف تھے ۔ لوگوں کو آپ کے قتل وغیرہ سے روکتے تھے لیکن خود آپ سے اور آپ کے دین سے دور ہوتے جاتے تھے ۔ افسوس اس اپنے فعل سے خود اپنے ہی تئیں غارت کرتے تھے لیکن جانتے ہی نہ تھے کہ اس کرتوت کا وبال ہمیں ہی یڑ رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا۔۔ : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جب ان سے ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے متعلق باز پرس ہوگی تو ان کے پاس کوئی بہانہ یا فریب اس کے سوا نہ ہوگا کہ وہ قسم کھا کر اپنے شرک کرنے ہی سے انکار کردیں گے۔ دیکھیے سورة مجادلہ (١٨) ۔ دوسری آیت میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ دیکھیے سورة نساء (٤٢) دونوں باتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے وہ اہل توحید کو جنت میں داخل ہوتا دیکھیں گے تو اپنے شرک کا انکار کریں گے، پھر جب ان کے مونہوں پر مہر لگے گی اور ان کے ہاتھ، پاؤں اور جسم کا ہر حصہ بول کر گواہی دے گا تو پھر ان کی کوئی بات چھپ نہیں سکے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verse (21) was that the unjust and the deniers of truth will not receive salvation. Details appear in the present verses. The first (22) and the second (23) verses talk about the great trial to be held on the day of Resurrection before the Lord of all. It was said: وَيَوْمَ نَحْشُرُ‌هُمْ جَمِيعًا (And [ forget not ] the Day We shall gather them together), that is, ` gather all disbelievers and their self-made objects of worship together.& After that, it is said: ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا أَيْنَ شُرَ‌كَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ (then We shall say to those who associated partners with Allah, |"Where are those you claimed to be partners of Allah?|" ), that is, ` ask them about the objects of worship they had taken to as partners of Allah, and resolvers of their problems, and why would they not come to help them in their hour of trial.& The word, ثُمَّ :&thumma& (then, after that), used here denotes delay, which tells us that the trial of answering fateful questions will not start soon after having been gathered on the Day of Resurrection. Instead, they shall keep standing in that state of wonder and perplexity for a long period of time. It will be a passage of time in between when the reckoning will commence. In a Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: What would happen to you when Allah Ta’ ala will gather you on the plains of Resurrection as arrows are gathered in the quiver - and you shall be in that state for fifty thousand years. And it ap-pears in another narration that everyone will tarry in the dark on that Day for one thousand years - not being able to even talk to each other. (This narration has been reported by Hakim in Al-Mustadrak, and by Al-Baihaqi) The difference of fifty thousand and ten thousand in this narration also appears in two verses of the Holy Qur&an as well. In Surah Al-Ma` arij, it is said: كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ A Day ] the measure whereof is [ as ] fifty thousand years 70:4.& In Surah Al-Hajj, it is said: وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ :A Day in the sight of thy Lord is like a thousand years of your reckoning - 22:47.& The reason for this difference is that this day will be long in terms of the severity of pain and the levels of pain will be dif¬ferent. Therefore, this day will seem to be that of fifty thousand years for some and that of one thousand years for others.

خلاصہ تفسیر کیفیت عدم فلاح مشرکین اور وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جس روز ہم تمام خلائق کو (میدان حشر میں) جمع کریں گے، پھر مشرکین سے (بواسطہ یا بلا واسطہ بطور زجر و توبیخ کے) کہیں گے کہ (بتلاؤ) تمہارے وہ شرکاء جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے (کہ تمہاری سفارش نہیں کرتے جس پر تم کو بھروسہ تھا) پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی (ظاہر) نہ ہوگا کہ وہ (اس شرک سے خود بیزاری اور نفرت کا اظہار کریں گے اور بدحواسی کے عالم میں) یوں کہیں گے قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی کہ ہم مشرک نہیں تھے (حق تعالیٰ نے فرمایا تعجب کی نظر سے) ذرا دیکھو تو کس طرح ( صریح) جھوٹ بولا اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے (یعنی ان کے بت اور جن کو وہ خدا کا شریک ٹھہراتے تھے) وہ سب غائب ہوگئے (تشنیع بر انکار قرآن وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ) اور ان (مشرکین) میں بعضے ایسے ہیں کہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن پڑھنے کے وقت اس کے سننے کے لئے) آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (چونکہ یہ سننا طلب حق کیلئے نہیں محض تماشے یا تمسخر کی نیت سے ہوتا ہے اس لئے اس سے ان کو کچھ نفع نہیں ہوتا، چنانچہ) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اس سے کہ وہ اس (قرآن کے مقصود) کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ بھر دیا ہے (کہ وہ اس کو ہدایت کے لئے نہیں سنتے، یہ تو ان کے دلوں اور کانوں کی حالت تھی، اب ان کی بصارت اور نگاہ کو دیکھو) اگر وہ لوگ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کے) تمام دلائل کو (بھی) دیکھ لیں ان پر بھی ایمان نہ لاویں (ان کے عناد کی نوبت) یہاں تک (پہنچی ہے) کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں (اس طور پر کہ) یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پچھلے لوگوں سے (منقول) چلی آرہی ہیں (یعنی مذہب والے پہلے سے ایسی باتیں کرتے چلے آئے ہیں کہ معبود ایک ہی ہے اور یہ کہ انسان خدا کا پیغمبر ہوسکتا ہے، قیامت میں پھر زندہ ہونا ہے، جس کا حاصل عناد اور تکذیب ہے آگے اس سے ترقی کرکے جدال اور دوسروں کو بھی ہدایت سے روکنے کا کام شروع کیا) اور پھر یہ لوگ اس (قرآن) سے اوروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی (اس سے نفرت ظاہر کرنے کے لئے) دور دور رہتے ہیں اور (ان حرکتوں سے) یہ لوگ اپنے ہی کو تباہ کر رہے ہیں اور (حماقت اور غایت بغض سے) کچھ خبر نہیں رکھتے (کہ ہم کس کا نقصان کر رہے ہیں، ہمارے اس فعل سے رسول اور قرآن کا تو اس سے کچھ بگڑتا نہیں) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیت میں یہ مذکور تھا کہ ظالموں کافروں کو فلاح نصیب نہ ہوگی، متذکرہ آیات میں اس کی تفصیل و تشریح ہے، پہلی اور دوسری آیت میں اس سب سے بڑے امتحان کا ذکر ہے جو محشر میں رب الارباب کے سامنے ہونے والا ہے، ارشاد فرمایا (آیت) وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا، یعنی وہ دن یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہم ان سب کو یعنی ان مشرکین کو اور ان کے بنائے ہوئے معبودوں کو جمع کریں گے۔ ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤ ُ كُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ، یعنی پھر ہم ان سے یہ سوال کریں گے کہ تم جن معبودوں کو ہمارا سہیم و شریک اور اپنا حاجت روا مشکل کشا سمجھا کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ اس میں لفظ ثم اختیار فرمایا گیا ہے جو تراخی اور دیر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ محشر میں جمع ہونے کے بعد فوراً ہی سوال جواب نہیں ہوگا، بلکہ عرصہ دراز تک حیرت و تذبذب کے عالم میں کھڑے رہیں گے، مدّت کے بعد حساب کتاب اور سوالات شروع ہوں گے۔ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ اللہ تعالیٰ تم کو میدان حشر میں ایسی طرح جمع کردیں گے جیسے تیروں کو ترکش میں جمع کردیا جاتا ہے، اور پچاس ہزار سال اسی طرح رہو گے، اور ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے روز ایک ہزار سال سب اندھیرے میں رہیں گے۔ آپس میں بات چیت بھی نہ کرسکیں گے (یہ روایت حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے ذکر کی ہے) اس روایت میں جو پچاس ہزار اور ایک ہزار کا فرق ہے یہی فرق قرآن کی دو آیتوں میں بھی مذکور ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ان کان مقدارہ خمسین الف سنة، ” یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی “ اور دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) ان یوما عند ربک کالف سنة، ” یعنی ایک دن تمہارے رب کے پاس ایک ہزار سال کا ہوگا “۔ اور وجہ اس فرق کی یہ ہے کہ یہ روز شدت تکلیف و مشقت کے اعتبار سے دراز ہوگا، اور درجات محنت و مشقت کے مختلف ہوں گے، اس لئے بعضوں کے لئے یہ دن پچاس ہزار سال کا اور بعض کے لئے ایک ہزار سال کا محسوس ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝ ٢٢ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٣) او قیامت کے دن ہم تمام لوگوں کو جمع کرلیں گے، پھر ان معبودان باطل کے بچاریوں سے کہیں گے کہ جن معبودوں کی تم عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں انہیں لے کر آؤ وہ آج کدھر ہیں۔ پھر ان کا عذر اور جواب اپنی بےگناہی کے عذر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) تمہارا گمان تھا کہ وہ تمہیں ہماری پکڑ سے بچا لیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(22 ۔ 24) ۔ اوپر جن لوگوں کے حق میں یہ فرمایا کہ لوگ کبھی فلاح کو نہ پہنچیں گے ان لوگوں کی تنبیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے بتوں کو خدا کا شریک جو ٹھہرا رکھا ہے اس آیت کا مضمون سمجھ کر اس سے یہ لوگ باز آویں حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ سب خلائق کو اپنے سامنے سوال جواب اور حساب کتاب کے لئے کھڑا کرے گا تو مشرکوں سے پوچھے گا کہ وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تم نے اپنے گمان میں اللہ کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا رکھا تھا ان کو بلاؤ تاکہ جس طرح موحدوں کی توحید اور نماز، روزہ نے انکا چھٹکارہ کرایا ہے وہ تمہارے معبود بھی تمہارے چھٹکارے کی کوئی صورت نکالیں، اس سوال کے وقت جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید کا چھٹکارہ معمولی حساب و کتاب کے بعد جھٹ پٹ ہوتا چلا جاتا ہے تو یہ جھوٹا بہانہ قسمیں کھا کر کریں گے کہ ہمارے گمان میں نہ اللہ کا کوئی شریک تھا نہ ہم مشرک تھے بلکہ ہم بھی دنیا میں اہل توحید میں سے تھے جن کا چھٹکارہ ہو رہا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دیوے گا اور ان کے ہاتھ پیروں کو بولنے کا حکم دیوے گا ان کے ہاتھ پیر سارا اصلی حال ظاہر کردیں گے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذرچ کی ہے جس میں ہاتھ پیروں کی گواہی کا ذکر ہے ١ ؎ یہ آیت بھی ان آیتوں میں کی ایک آیت ہے جن آیتوں کا مطلب دوسری اور آیتوں کے مخالف لوگوں نے احسن المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس سے سوالات کئے ہیں اور آپ نے جوابات دیے ہیں جو سوال جواب اتقاق ٢ ؎ اور اور تفسیروں میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ چناچہ اس آیت کا مضمون آیت { وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا } کے مخالف ٹھہرا کر ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے یہ سوال کیا کہ ایک آیت سے توبہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے شرک کو اللہ تعالیٰ سے چھپا کر اپنے آپ کو اہل توحید بتلاویں گے اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپاویں گے اس آیت کا اختلاف کا رفع کیونکر ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے جواب دیا ہے کہ ایک حالت مشرکوں کے منہ پر مہر لگنے سے پہلے کی ہے اس وقت ان کو جھوٹے بہانہ کا موقع حاصل رہے گا اور دوسری حالت منہ پر مہر لگ جانے اور ہاتھ پیروں کے بولنے کی ہے اس وقت وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے ٣ ؎ فتنہ کے معنی جانچ اور آزمائش کے ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ جب ان مشرک لوگوں کی جانچ اس سوال سے ہوگی جس کا ذکر آیت میں ہے تو وہ لوگ سو اس کے اور کچھ جواب نہ دیویں گے کہ وہ لوگ دنیا میں مشرک نہیں تھے جب یہ لوگ قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو شرک کا انکار کریں گے اس وقت کا ان لوگوں کا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یوں جتلایا ہے کہ اے رسول اللہ کے ذرا ان لوگوں کا حال تو دیکھو کہ اب یہ لوگ شرک کی باتوں پر کیسے اڑے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن سب شرک کی باتیں بھول کر شرک سے کس طرح صاف انکار کریں گے اور اس جھوٹے انکار پر کیسی جھوٹی قسمیں کھاویں گے یہ تو ان لوگوں کے عقبیٰ میں فلاح کو نہ پہنچنے کا حال ہوا دنیا کا یہی حال مکہ کے قحط کے وقت کا اوپر گذرچکا ہے کہ رفع قحط اور مینہ کے برسنے کی التجا رات دن ان لوگوں نے بتوں سے کی اور کچھ نہ ہوا آخر اللہ کے رسول سے دعا کی خواہش کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا پر جب رحم فرمایا تو مینہ برسا صحیح بخاری کے حوالہ سے عمران بن حصین (رض) کی حدیث جو اوپر ابھی گذری ١ ؎ وہی حدیث ان آیتوں کی بھی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود دنیا کے تجربہ اور عقبیٰ کے حال کی تنبیہ کے جو یہ لوگ اپنی شرک کی باتوں پر اڑے ہوئے ہیں اس کا سبب وہ ان کی ازلی کم بختی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:22) یوم۔ مفعول بہٖ ۔ تقدیر کلام ہے اذا کر یوم نحشرھم جمیعا۔ تزعمون۔ تم دعویٰ کرتے تھے (باب نصر) زعم سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ زعم کا استعمال زیادہ تر دعویٰ باطل اور ایسے قول کے بیان کرنے کے متعلق ہوتا ہے جو مظنۂ کذب ہو۔ متحقق نہ ہو۔ بلکہ مشکوک ہو۔ اس لئے قرآن مجید میں جہاں بھی زعم کا استعمال ہوا ہے مذمت کے لئے ہوا ہے۔ کنتم تزعمون۔ ای کنتم تزعمون انھا تشفع لکم عند ربکم۔ جن کے متعلق تمہارا یہ زعم تھا کہ وہ خدا کے ہاں تمہاری سفارش کریں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین قیامت کے دن اپنے شر کا انکار کریں گے اور دوسری آیت میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے (نسا 43) اس کی توضیح میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پہلے تو وہ انکار کرینگے لیکن پھر جب ان کے ہات پاوں بولنے لگے گے تو اس وقت سب حقیقت واضح ہوجائے گی۔ (یٰس :65)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 22 تا 26 : این (کہاں ؟ ) ‘ تزعمون (تم گھمنڈرکھتے ہو۔ دعویٰ رکھتے ہو) ‘ ماکنا ( ہم نہ تھے) ‘ یستمع (وہ کان لگاتا ہے۔ وہ غو سے سنتا ہے) ‘ اکنۃ (پردہ) ان یفقھو ہ ( یہ کہ وہ اس کو سمجھیں) ‘ وقر (ڈاٹ۔ بوجھ) ‘ ان یروا (اگر وہ دیکھیں) ‘ یجادلون ( وہ جھگڑتے ہیں) ‘ اساطیر (کہانیاں) ‘ ینھون ( وہ روکتے ہیں) ینئون ( وہ خود رکتے ہیں۔ دور بھاگتے ہیں) ‘ یھلکون (وہ ہلاک کرتے ہیں) ‘ مایشعرون ( وہ سمجھتے نہیں ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 26 : میدان حشر میں سب کو اکٹھا کرنے اور مشرکوں سے پوچھنے کے درمیان ایک کشمکش وقفہ ہوگا۔ یہ وقفہ سینکڑوں ہزاروں سال بلکہ زیادہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ مجرموں کے لئے کشمکش کا عالم نفسیاتی طور پر اصلی سزا سے بدتر ہو سکتا ہے وہ بوکھلا کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے شرک نہیں کیا ہے۔ وہ اس اللہ کے سامنے جھوٹ بولیں گے جس کو ذرہ ذرہ کی نفسیات کا علم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ آزادی عطا کرے گا تاکہ اہل محشر خود دیکھ لیں کہ دیکھو مجرم اپیس جان بچانے کے لئے کتنا دلیرانہ جھوٹ گھڑ سکتے ہیں۔ آپس میں مشورہ کر کے طے کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ سارا کھیل عظیم ترین مجمع کے سامنے ہوگا ۔ اس طرح یہ سارا تما شا ان کے خلاف کھلم کھلا شہادت بن جائیگا۔ یہ مشرکین اور کفار۔ ان کے سامنے تلاش حق نہیں۔ تلاش مفاد ہے۔ تلاش جنت نہیں ‘ تلاش مال و اقتدار ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ کی محفل میں ایمان حاصل کرنے نہیں آتے بلکہ لوگوں کو بھڑکانے آتے ہیں کہ ان پر انے قصے کہانیوں میں کیا رکھا ہے (نعوذ باللہ) اللہ نے ان کو بہرا اندھا اور ان کے دلوں مردہ بنا ڈالا ہے ان کو شعور نہیں کہ ان حرکتوں کی سزا کیا ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہ کہ جھوٹ اور قسم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قسم کی ضرورت جھوٹے ہی کو ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنا فطرت ثانیہ ہے۔ ایک جھوٹ کے لئے بہت سارے جھوٹے تراشنے پڑتے ہیں۔ اور کامیاب جھوٹ تراشنا تقریباً ناممکن ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا وہ عمل کون سے ہے جس سے آدمی دوزخ میں جاتا ہے آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا ہے۔ (مسند احمد) اور معراج میں رسول اللہ نے دیکھا کہ ایک شخص کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں۔ وہ پھر درست ہوجاتی ہیں ۔ پھر چیر دی جاتی ہیں آپ نے جبرائیل امین (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ شخص کس قصور کی سزا بھگت رہا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جھوٹ انسان کے رزق کو گھٹا دیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے آپ نے فرمایا کہ آدمی اس وقت تک مومن کامل نہیں بن سکتا جب تک جھوٹ بالکل نہ چھوڑ دے۔ یہاں تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ اگلی چند آیات بھی جھوٹ کی مذمت ہی سے متعلق ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، منکرین حق کا قیامت کے دن اپنا انجام دیکھ کر جھوٹی قسمیں اٹھانا۔ جو گواہی کی بد ترین قسم ہے۔ ” قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ “ (المعارج، آیت : ٤) اس میں مختلف مراحل ہوں گے اور ہر مرحلہ ہزاروں سال پر محیط ہوگا۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ معبودان باطل اور ان کے عابدوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تاکہ دنیا میں ایک دوسرے سے امیدیں رکھنے والے لوگوں کے عقیدہ کی قلعی کھل جائے۔ البقرہ آیت ١٦٥ تا ١٦٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب یہ لوگ جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ ہر قسم کی قوت وسطوت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس یقین کے بعد طالب اپنے مطلوب، تابع اپنے متبوع، مقتدیٰ اپنے مقتدی اور پیر اپنے مریدوں سے بیزاری، کارکن اپنے لیڈروں سے نفرت کا اظہار کریں گے، ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہوئے مطالبہ کریں گے کہ اے خدا ہمارے پیروں اور سرداروں کو دوگنا عذاب دیجیے۔ (الاحزاب : ٦٧۔ ٦٨) جھوٹے رہنماؤں کے پیچھے لگنے والے اس خواہش کا بھی اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں واپس جانے کی اجازت مل جائے تو ہم ان لوگوں سے اسی طرح بیزاری اور نفرت کا اظہار کریں جیسے آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ (البقرہ : ١٦٧) جب ان کی یہ حسرت پوری نہیں ہو سکے گی تو پھر وہ اپنے گناہوں اور شرک کا انکار کرتے ہوئے قسمیں اٹھائیں گے۔ اے اللہ ! تیری ذات کی قسم ! ہم نے کبھی شرک نہیں کیا۔ ان کے انکار کی دو وجوہات ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلالت اور گرفت۔ دنیا میں جھوٹی قسمیں کھانے کی عادت کی وجہ سے وہ رب کی بارگاہ میں جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے کہ شاید دنیا کی طرح آج بھی ہم بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ ضرور جھوٹ بولیں گے اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ دیکھیے ! یہ ظالم کس طرح اللہ کے حضور جھوٹی قسمیں کھانے کے ساتھ اپنے آپ پر جھوٹ بولیں گے اور وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو دنیا میں مکر و فریب اور افتراء پر دازی کیا کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ اأمَّا قُوْلُہٗ وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ فَإِنَّہُمْ رَأَوْا أَنْہٗ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا أَہْلُ الصَّلَاۃَ ، فَقَالُوْا تَعَالُوْا فَلْنَجْحَدْ ، فَیَجْحَدُوْنَ ، فَیَخْتِمُ اللّٰہُ عَلٰی أَفْوَاہِہِمْ ، وَتَشْہَدُ أَیْدَیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہ حَدِیْثًا) [ ابن کثیر ] ” مفسّرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس کی یوں تفسیر کیا کرتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور اس کے لیے کسی کے گناہ معاف کرنا مشکل نہیں۔ مشرکین یہ صورت حال دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک کے علاوہ باقی گناہ بخش رہا ہے آؤ ہم بھی یہ کہیں کہ ہم گناہ گار تو ہیں لیکن مشرک نہیں۔ جب اپنے شرک کو چھپائیں گے تو ان کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس وقت مشرکین یہ جان لیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔ “ (ابن کثیر) اس کے بعد ان کی زبانوں پر مہریں لگا دی جائیں گی : (اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی أَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا أَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ أَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ ) [ یسٓ: ٦٥] ” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں سے ان کے شرک کے بارے میں پوچھے گا۔ ٢۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کو کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ ٣۔ مشرکین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنائے گئے شریکوں سے برأت کا اعلان کریں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن معبودان باطل کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور ان کے معبودوں کا اکٹھا کیا جانا : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا۔ (الفرقان : ١٧) ٢۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اکٹھا کرے گا اور کہے گا یہ ہیں تمہارے معبود۔ (السباء : ٤٠) ٣۔ اس دن اکٹھا کیا جائے گا ظالموں کو اور جن کی یہ عبادت کرتے تھے۔ (الصافات : ٢٢) ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اکٹھا کریں گے اور مشرکوں کو کہیں گے کہاں ہیں تمہارے معبود۔ (الانعام : ٢٢) ٥۔ مشرک اپنے معبودوں کے دشمن بن جائیں گے۔ (الاحقاف : ٦) جھوٹوں کا انجام : ١۔ ان سے کہا جائے گا چکھو، آگ کا عذاب جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (السجدۃ : ٢٠) ٢۔ یہ آگ ہے جس کو تم جھٹلا تے تھے۔ (الطور : ١٤) ٣۔ دوزخ کا عذاب ہے جھٹلانے والوں کے لیے ہے۔ (المطففین : ١١) ٤۔ تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کیا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔ (آل عمران : ١٣٧) ٥۔ میری آیات کا انکار کرنے اور جھٹلانے والے دوزخی ہیں۔ (التغابن : ١٠) ٦۔ کافر اور اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے جہنمی ہیں۔ (الحدید : ١٩) ٧۔ جب ان کے پاس رسول آئے تو انھوں نے ان کو جھٹلایا عذاب نے ان کو پکڑ لیا۔ (النحل : ١١٣) ٨۔ انھوں نے انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (المؤمنون : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اور ارشاد فرمایا (وَ یَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) (اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کے بارے میں تم دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بھی معبود ہیں) یہ سن کر وہ شرک سے منکر ہوجائیں گے اور وہاں بھی فریب کاری سے کام لیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26 یہ مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ شُرَکَاءُکُمْ اس سے وہ نیک پیر اور بزرگ مراد ہیں جن کو مشرکین دنیا میں حاجت روا اور سفارشی سمجھ کر پکارا کرتے تھے، یعنی قیامت کے دن جب ہم سب کو میدانِ محشر میں جمع کریں گے تو مشرکین سے کہیں گے کہ آج تمہارے وہ کارساز اور سفارشی کہاں ہیں جن کے معلق تمہارا خیال تھا کہ وہ ہر مشکل اور ہر مصیبت میں تمہارے کام آئیں گے۔ آج تم پر بہت بڑی مصیبت آپڑی ہے آج وہ تمہاری مدد کے لیے کیوں نہیں آئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جو شرک کے مرتکب ہوئے تھے تمہارے وہ معبود اور وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم بزعم خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے مدعی تھے اور یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ یہ معبود خدا کے شریک ہیں۔