Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 24

سورة الأنعام

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ کَذَبُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾

See how they will lie about themselves. And lost from them will be what they used to invent.

ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بولا اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وہ سب غائب ہوگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Look! How they lie against themselves! But the (lie) which they invented will disappear from them. which is similar to His other statement, ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ مِن دُونِ اللَّهِ قَـالُواْ ضَـلُّواْ عَنَّا بَل لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْياً كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَـفِرِينَ Then it will be said to them: "Where are (all) those whom you used to join in worship as partners, Besides Allah'!' They will say, "They have vanished from us: Nay, we did not invoke (worship) anything before." Thus Allah leads astray the disbelievers. (40:73-74) The Miserable Do Not Benefit from the Qur'an Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہونگے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یعنی اس دن کی دہشت اور اپنی بےبسی اور درماندگی کی بنا پر اپنے بچاؤ کی یہی راہ انہیں سجھائی دے گی کہ اس سے صاف مکر جائیں اور دنیا میں وہ جو کچھ کرتے رہے تھے دہشت کی وجہ سے سب بھول جائیں گے انہیں یہ یاد ہی نہ پڑے گا کہ وہ دنیا میں کس کس کو پوجتے اور کس کس قسم کا شرک کیا کرتے تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا۔۔ : یعنی وہاں ان کا شرک ان کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کے بنائے ہوئے حاجت روا اور مشکل کشا کہیں نظر آئیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 24, it was said: انظُرْ‌ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ ۚ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ (See how they lied about themselves - and lost to them was all that they used to coin). The address here is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who has been asked to see how these people have lied against their own selves, and whatever they used to forge and fabricate against Al¬lah (their idols and so-called partners to Allah) is lost to them. The ex¬pression translated as ` lied about themselves& means that the curse of this lie is going to fall on their own selves while the word, اِفتَرَاء translat¬ed as ` used to coin& may also mean that ascribing partners to Allah was a fabrication in the mortal world the reality of which was exposed on the day of Resurrection. And it is also possible that ` iftira& or fabrica¬tion could be referring to the false oath taken on the day of Resurrec¬tion following which the witness of the limbs of the body exposed their lie. Some commentators say that ` iftira& or fabrication refers to inter¬pretations they used to put on their false objects of worship in the mor¬tal world, for example: مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ which means that ` We do not worship them taking them to be God but only do it so that they would intercede on our behalf with Allah and bring us closer to Him - 39:3.& This fabrication of theirs got exposed on the day of Resurrection when no one interceded on their behalf in their hour of trial, nor any one did anything to bring about a reduction in their punishment. This bring us to a question, for the verse seems to indicate that at the time of trial featuring these questions and answers, all false ob¬jects of worship will not be present there, but a verse of the Qur&an says: احْشُرُ‌وا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ ﴿٢٢﴾ (gather (gather up those who have been un¬just, and their partners, and what they used to worship - 37:22). This seems to indicate that the false objects of worship will also be present on the day of Resurrection. The answer is that the sense of their being absent from the plains of Resurrection, as it emerges from this verse, is limited to their being unavailable as partners, sharers or intercessors. Thus, though they would be unable to help their clients in any way but, they would be present there. So, there remains no contradiction between the two verses. Then, it is also possible that all of them could be gathered to¬gether at one time and place, then be separated and the question is asked after the separation. In these two verses, it should be particularly borne in mind that the choice of free speech given to disbelievers on the day of Resurrec¬tion which they utilized by denying on false oath that they had any-thing to do with Shirk, is not without its implications. Perhaps, it car¬ries a hint that the habit of telling lies is an evil habit which is never easy to shake off. So much so that these people, who used to swear falsely before Muslims during their life in the mortal world, were un¬able to stop lying even on the fateful day of Resurrection which put them to disgrace before the entire creation of Allah. Therefore, lying has been strongly condemned in the Qur&an and Hadith which give se¬rious warning to those who tell lies. At many places in the Qur&an liars have been cursed. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Stay away from lying because a lie is the accomplice of sins, and a lie and a sin will both go to Jahannam. (Ibn Hibban in his Sahih) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked what deed could take one to Hell. He said: A lie [ the Musnad of Ahmad ]. And on the night of the Mi` raj (the Ascent to Heaven), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw a man having the corners of his mouth being slit apart which then fall back into their place and become as they were, and again they are slit apart ... something to keep happening to him throughout the day of Qiyamah. He asked the angel, Jibra&il al-Amin: |"Who is he?|" Angel Jibra&il said: |"He is a liar.|" And it appears in a narration from the Musnad of Ahmad that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: One cannot become a complete Muslim unless he gives up lying altogether, to the extent that he would not lie even by way of joke or fun. In addition to that, it appears in Al-Baihaqi and others, all on sound authority, that the character of a Muslim may have other bad traits - but, not breach of trust and lying. Yet another Hadith says that lying decreases one&s Rizq (sustenance).

آخر آیت میں ارشاد فرمایا : اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ، اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے کہ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر کیسا جھوٹ بولا ہے، اور جو کچھ وہ اللہ پر افتراء کیا کرتے تھے آج سب غائب ہوگیا، اپنی جانوں پر جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وبال اس جھوٹ کا انہی کی جانوں پر پڑنے والا ہے، اور افتراء سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ان کو اللہ کا سہیم و شریک ٹھہرانا ایک افتراء تھا، آج حقیقت سامنے آکر اس افتراء کی قلعی کھل گئی، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افتراء سے مراد جھوٹی قسم ہے جو محشر میں کھائی تھی، پھر ہاتھوں پیروں اور اعضاء کی گواہی سے وہ جھوٹ کھل گیا۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ افتراء سے مراد مشرکین کی وہ تاویلیں ہیں جو اپنے معبودات باطلہ کے بارے میں دنیا میں کیا کرتے تھے، مثلاً مانعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفی، ” یعنی ہم ان بتوں کو خدا سمجھ کر ان کی عبادات نہیں کرتے، بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے سفارش کرکے قریب کردیں گے “۔ محشر میں یہ افتراء اس طرح کھل گیا کہ ان کی سب سے بڑی مصیبت کے وقت کسی نے نہ ان کی سفارش کی، نہ ان کے عذاب میں کچھ کمی کا ذریعہ بنے۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سوال و جواب ہوں گے معبودات باطلہ سب غائب ہوں گے، کوئی سامنے نہ ہوگا، اور قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ ارشاد ہے (آیت) احشروا الذین ظلموا وازواجھم وما کانوا یعبدون، ” یعنی قیامت میں حق تعالیٰ کا حکم یہ ہوگا کہ جمع کردو ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو جن کی یہ لوگ عبادت کیا کرتے تھے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں معبودات باطلہ بھی حاضر و موجود ہوں گے۔ جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ان کے غائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ بحیثیت سہیم و شریک یا سفارش کرنے کے یہ غائب ہوں گے کہ ان لوگوں کو کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے ویسے حاضر و موجود ہوں گے، اس طرح دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہ رہا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں یہ سب ایک جگہ جمع کردیئے جائیں، پھر متفرق ہوجائیں، اور یہ سوال تفریق کے بعد کیا جائے۔ ان دونوں آیتوں میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ جل شانہ، نے مشرکین کو حشر کے ہولناک میدان میں جو یہ اختیار دیا کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہہ سکیں یہاں تک کہ جھوٹی قسم کھا کر انہوں نے شرک سے انکار کردیا، اس میں شاید اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ایک ایسی خبیث عادت ہے جو چھوٹتی نہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ جو دنیا میں مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھالیا کرتے تھے یہاں بھی باز نہ آئے اور پوری خلق خدا کے سامنے ان کی رسوائی ہوئی، اسی لئے قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے پر شدید وعید اور مذمت فرمائی گئی ہے، قرآن میں جا بجا کاذب پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کا ساتھی ہے، اور جھوٹ اور فجور دونوں جہنم میں جائیں گے (ابن حبان فی صحیحہ) اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ وہ عمل کیا ہے جس سے آدمی دوزخ میں جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ عمل جھوٹ ہے (مسند احمد) اور شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں۔ وہ پھر درست ہوجاتی ہیں، پھر چیر دی جاتی ہیں، اسی طرح یہ عمل اس کے ساتھ قیامت تک ہوتا رہے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جھوٹ بولنے والا ہے۔ اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی پورا مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جھوٹ کو بالکل نہ چھوڑ دے یہاں تک کہ مزاح و مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ نیز بیہقی وغیرہ میں بسند صحیح وارد ہے کہ مسلمان کی طبیعت میں اور بری خصلتیں تو ہو سکتی ہیں، مگر خیانت اور جھوٹ نہیں ہوسکتا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹ انسان کے رزق کو گھٹا دیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ٢٤ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا دیکھیے تو یا یہ کہ فرشتوں ان کی ڈھٹائی دیکھو تو سہی کس طرح ان لوگوں نے کھلم کھلا جھوٹ بول کر اپنے اوپر خود عذاب کو مسلط کرلیا۔ اور جن باطل چیزوں کی یہ پوجا کرتے تھے ان کے نفس خود ان سے متنفر ہوجائیں گے اور یا یہ کہ ان کے جھوٹ کا بالآخر خاتمہ ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (اُنْظُرْ کَیْفَ کَذَبُوْا عَلآی اَنْفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ۔ ان کے یہ دعوے کہ فلاں دیوی بچائے گی اور فلاں دیوتا سفارش کرے گا ‘ سب نسیاً منسیاً ہوجائیں گے۔ عذاب کو دیکھ کر اس وقت ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:24) ضل۔ گم ہوگیا۔ گمراہ ہوگیا۔ ہلاک ہوگیا۔ ما کانوا یفترون۔ جو بت وہ گھڑ کر پوجا کرتے تھے وہ سب بناوٹی معبود گم ہوجائیں گے۔ (یعنی وہ ان کو وہاں نہ پائیں گے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ان کے کوئی کام نہ آوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اُنْظُرْ کَیْفَ کَذَبُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ وَ ضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (دیکھو اپنی جانوں پر کیسا جھوٹ بولا اور وہ سب کچھ غائب ہوا جو وہ جھوٹ بنایا کرتے تھے) قیامت کے دن مشرکین کے اقوال مختلف اوقات میں مختلف ہوں گے۔ اوّلا تو صاف صریح جھوٹ بول دیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے کہ شاید اسی جھوٹ سے کام چل جائے اور عذاب میں داخل ہونے سے چھٹکارا ہوجائے، پھر جب ان کے خلاف گواہیاں ہوں گی اور خود ان کے اعضاء بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اپنے جرم کا اقرار کرلیں گے۔ (فَا عْتَرَ فْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ الیٰ خُرُوْجٍ مّنْ سَبِیْلٍ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 ا ے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ذرا دیکھو تو انہوں نے اپنی جانوں پر کیسا جھوٹ بولا اور وہ تمام افترا پردازیاں اور وہتمام باتیں جو یہ گھڑا کرتے تھے سب ان سے گم ہوگئیں اور کھوئی گئیں یعنی بالکل چوکڑی بھول جائیں گے اور سوائے جھوٹ بولنے کے کوئی بات بن نہ پڑے گی۔