Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 25

سورة الأنعام

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ یُجَادِلُوۡنَکَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۲۵﴾

And among them are those who listen to you, but We have placed over their hearts coverings, lest they understand it, and in their ears deafness. And if they should see every sign, they will not believe in it. Even when they come to you arguing with you, those who disbelieve say, "This is not but legends of the former peoples."

اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ ... And of them there are some who listen to you; but We have set veils on their hearts, so they understand it not, means, they come to you, (O Muhammad ), so that they hear you recite the Qur'an, but its recitation does not benefit them, because Allah has set veils on their hearts, and so they do not understand the Qur'an, ... وَفِي اذَانِهِمْ وَقْرًا ... and (set) deafness in their ears; that prevents them from hearing what benefits them. In another Ayah, Allah said; وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَأءً وَنِدَاءً And the example of those who disbelieve, is as that of him who shouts at one who hears nothing but calls and cries. (2:171) Allah said next, ... وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ ايَةٍ لاَّ يُوْمِنُواْ بِهَا ... if they see every one of the Ayat they will not believe therein; meaning, they will not believe in any of the Ayat, proofs, clear evidences and signs they witness because they do not have sound comprehension or fair judgment. In another Ayah, Allah said, وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen. (8:23) Allah said, ... حَتَّى إِذَا جَأوُوكَ يُجَادِلُونَكَ ... to the point that when they come to you to argue with you... using falsehood against truth, ... يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الاَوَّلِينَ those who disbelieve say: "These are nothing but tales of the men of old." The disbelievers say, what you (O Muhammad) brought us was taken from the books of those who were before us, meaning plagiarized,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔ 25۔ 2 علاوہ ازیں مجازاۃ علی کفرھم ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔ 25۔ 3 اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بےسند کہانیاں کہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] صفات کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ وہ باتیں اس لیے دھیان سے سنتے ہیں کہ دیکھیں وہ کون کونسی بات پر اعتراض کرسکتے ہیں اور کون سی بات کا مذاق اڑا سکتے ہیں ان کی نیت کبھی بخیر نہیں ہوسکتی کہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے آئیں۔ لہذا ہدایت کی باتوں کو وہ ایسے سنی ان سنی کردیتے ہیں جیسے ثقل سماعت کی وجہ سے وہ سن ہی نہیں سکے اور جب سنتے ہی نہیں تو اسے سمجھنے کی خاک کوشش کریں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی بات کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے مسببات یا ان اسباب سے نتائج پیدا کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ اب لوگ اس کی دعوت کو قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں یا کتنے قبول کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے۔ یہ نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ لیکن اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنے سے متوقع نتائج حاصل ہوجاتے ہیں ایسے نتائج کی نسبت بھی اللہ ہی کی طرف ہوگی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے نتائج کی نسبت اپنی طرف کر کے فرمایا کہ ( وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا 46؀) 17 ۔ الإسراء :46) ورنہ حقیقی مجرم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے جن سے اس قسم کے نتائج برآمد ہوئے۔ [٢٩] حق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور پرانا ہے لہذا محض پرانا ہونا غلط ہونے کی دلیل نہیں : انبیاء جتنے بھی دنیا میں آتے رہے سب دعوت حق ہی پیش کرتے رہے اور ان کے منکر اور ہٹ دھرم بھی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ دین کے معاملہ میں کوئی نئی بات وہی پیش کرسکتا ہے جسے حق سے دشمنی ہو اور وہ اپنے ذہن سے کوئی نئی بات گھڑ کر اسے حق کے نام سے پیش کر دے کسی نئے فرقہ کی بنیاد ڈال دے۔ اس طرح اسے اس دنیا میں تو شاید بعض لوگوں کی پیشوائی کا مقام حاصل ہوجائے لیکن حقیقتاً وہ خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا شخص ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ۚ ۔۔ : یعنی کان لگا لگا کر سنتے ہیں، جب قیامت کے دن گزشتہ کافروں پر گزرنے والے کچھ احوال بیان فرمائے تو موجودہ کافروں کا بھی کچھ حال بیان فرمایا۔ ( رازی) فرمایا کہ مشرکین آپ کے پاس آکر بڑے غور سے قرآن سنتے ہیں، لیکن ضد اور عناد کی وجہ سے ہدایت حاصل کرنا ان کا مقصد ہی نہیں ہوتا، اس لیے انھیں سننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے حق کو پہچان کر نہ ماننے اور ان کی بدنیتی کی وجہ سے ہم نے انھیں یہ سزا دی ہے کہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ کان لگا کر سننے کے باوجود نہ سمجھتے ہیں، نہ سنتے ہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اب قرآن جیسا عظیم معجزہ دیکھ کر وہ ایمان نہیں لائے تو یہ امید مت رکھیں کہ وہ کوئی بھی معجزہ دیکھ کر ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو برحق جاننے کے باوجود ان کی ضد اور عناد یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آپ کے پاس آکر جب وہ آپ سے جھگڑتے ہیں اور ان انکار کرنے والوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح دلائل کا کوئی جواب نہیں سوجھتا تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیاں ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں اخلاق، حکمت اور شریعت کی باتیں ہیں اور اس میں جو قصے بیان کیے گئے ہیں، وہ سب سچے واقعات ہیں اور صرف عبرت و نصیحت کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّسْتَمِــعُ اِلَيْكَ۝ ٠ۚ وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝ ٠ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۝ ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْكَ يُجَادِلُوْنَكَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٢٥ اسْتِمَاعُ والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب اسمانع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ وقر الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] والوَقْرُ : الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] قيل : هو من الوَقَارِ. وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها . ( و ق ر ) الوقر ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطراوأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) اور ان کفار مکہ میں سے بعض لوگ آپ کی طرف سے قرآن کریم کی تلاوت کو سننے کے لیے آپ کی طرف کان لگاتے ہیں جن میں سے ابوسفیان بن حرب، ولید بن صغیرہ، نضربن حارث، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف، ابی بن خلف اور حارث بن عامر ہیں، مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے تاکہ آپ کے کلام کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کان بند کردیے ہیں تاکہ حق اور ہدایت کی بات کو نہ سمجھ سکیں اور ایک معنی یہ بھی بیان کیے ہیں کہ سیدھے راستے کو سمجھنے سے ان کے کان عاری ہوگئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ج) ۔ مکہ میں قریش کے سرداروں کے لیے جب عوام کو ایمان لانے سے روکنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے بھی علماء یہود کی طرح ایک ترکیب نکالی۔ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھتے اور بڑے انہماک سے کان لگا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سنتے۔ وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم سب کچھ بڑی توجہ سے سن رہے ہیں ‘ تاکہ عام لوگ دیکھ کر یہ سمجھیں کہ واقعی ہمارے ذی فہم سردار یہ باتیں سننے ‘ سمجھنے اور ماننے میں سنجیدہ ہیں ‘ مگر پھر بعد میں عوام میں آکر ان باتوں کو ردّ کردیتے۔ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ ان کی ایک چال تھی ‘ تاکہ عوام یہ سمجھیں کہ ہمارے یہ سردار سمجھدار اور ذہین ہیں ‘ یہ لوگ شوق سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں جاتے ہیں اور پورے انہماک سے ان کی باتیں سنتے ہیں ‘ پھر اگر یہ لوگ اس دعوت کو سننے اور سمجھنے کے بعد ردّ کرر ہے ہیں تو آخراس کی کوئی علمی اور عقلی وجوہات تو ہوں گی۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں ان کی اس سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کی باتیں بظاہر بڑی توجہ سے کان لگا کر سنتے ہیں۔ (وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًاط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا ط) ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور دماغوں پر یہ پردے کیوں ڈال دیے ؟ یہ سب کچھ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جب نبی کے مخاطبین اس کی دعوت کے مقابلے میں حسد ‘ تکبر اور تعصب دکھاتے ہوئے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں تو ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ (آیت ٧) میں فرمایا گیا : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌز) ۔ لہٰذا ان کا بظاہرتوجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو سننا ان کے لیے مفید نہیں ہوگا۔ (حَتّٰیٓ اِذَا جَآءُ وْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ ) یہ جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سنا رہے ہیں یہ پرانی باتیں اور پرانے قصے ہیں ‘ جو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہودیوں اور نصرانیوں سے سن رکھے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. It is noteworthy that God attributes to Himself all that happens in the world as a result of the laws of nature. Since these laws were made by God Himself, the effects which result from their operation are also ultimately due to the will and permission of God. The refusal on the part of unbelievers to heed the call of the Truth even when it is clear and audible stems from their obstinacy, prejudice, mental rigidity and inertia. It is a law of nature that when a man is not prepared to rise above prejudice in his quest for the Truth, his heart closes to every truth which is opposed to his desires. We can describe this condition by saying that the heart of that person has become sealed and when God describes it He does so by saying that He had sealed the heart of the person concerned. The explanation of this Paradox is that whereas we describe merely an incident, God describes its ultimate cause. 18. Whenever ignorant people are called to the Truth they are liable to say that there is nothing novel about it, that it is merely a repetition of things that have come down from the past, as if in their view every truth must be new, and whatever is old must of necessity be false, although Truth has always been one and the same and will remain so. All those who have come forward to lead people in the light of God-given knowledge have been preaching one and the same Truth from time immemorial, and all those who will benefit from this valuable source of human knowledge in the future are bound to repeat the same old truths. Novelties can be invented only by those who, being bereft of the light of Divine guidance, are incapable of perceiving the eternal Truth, preferring to weave altogether new ideas out of their imagination and to put them forward as truth.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :17 یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قانون فطرت کے تحت جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرماتا ہے ، کیونکہ دراصل اس قانون کا بنانے والا اللہ ہی ہے اور جو نتائج اس قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں وہ سب حقیقت میں اللہ کے اذن و ارادہ کے تحت ہی رونما ہوا کرتے ہیں ۔ ہٹ دھرم منکرین حق کا سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہ سننا اور داعی حق کی کسی بات کا ان کےدل میں نہ اترنا ان کی ہٹ دھرمی اور تعصب اور جمود کا فطری نتیجہ ہے ۔ قانون فطرت یہی ہے کہ جو شخص ضد پر اتر آتا ہے اور بے تعصبی کے ساتھ صداقت پسند انسان کا سا رویہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہوتا ، اس کے دل کے دروازے ہر اس صداقت کے لیے بند ہوجاتے ہیں جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو ۔ اس بات کو جب ہم بیان کریں گے تو یوں کہیں گے کہ فلاں شخص کے دل کے دروازے بند ہیں ۔ اور اسی بات کو جب اللہ بیان فرمائے گا تو یوں فرمائے گا کہ اس کے دل کے دروازے ہم نے بند کر دیے ہیں ۔ کیونکہ ہم صرف واقعہ بیان کرتے ہیں اور اللہ حقیقت واقعہ کا اظہار فرماتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :18 نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی ، یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے ۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا ۔ خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امر حق کر پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبع علم سے فائدہ اٹھا کر کچھ پیش کرے گا وہ اسی پرانی بات کو دہرائے گا ۔ البتہ نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو خدا کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن کی اپچ سے کچھ نظریات گھڑ کر انہیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہو سکتے ہیں کہ وہ بات کہیں جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

کلبی نے اور ابن جریر نے مجاہد کے قول کے موافق اپنی تفسیر میں جو شان نزول اس آیت کی بیان کی اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو سفیان ابو جہل ولید بن مغیرہ نضر بن حارث عتبہ بن شیبہ ایک دن ان سب نے اکٹھے ہو کر چند آیتیں قرآن مجید کی سنیں ان میں نضر بن حارث پچھلے زمانہ کے قصے بہت جانتا تھا اس لئے ان سب نے نضر بن حارث سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے سنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا پڑھا نضر بن حارث نے کہا جس طرح میں تم کو پچھلی کہانیاں سناتا رہتا ہوں اسی طرح یہ بھی ایک کہانی ہے ابو سفیان نے کہا باتیں تو اس کلام کی حق معلوم ہوتی ہیں ابو جہل نے کہا ایسی باتوں کے ماننے سے ہم کو موت بہتر ہے اس سب قصہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢ ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اپنے علم ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ کو جس کی ہدایت منظور ہوتی ہے اس کے دل پر حق بات کی طرف سے پردہ پڑجاتا ہے چناچہ ان لوگوں میں سے ابو جہل کے دل پر پردہ پڑجانے کے سب جو بات اس نے اپنے منہ سے نکالی تھی کہ ایسی حق باتوں سے موت بہتر ہے شقاوت ازلی نے اس کے حق میں وہی کیا کہ حالت کفر میں بدر کی لڑائی کے دن مارا گیا اور ابوسفیان نے سعادت ازلی کے سبب سے جو بات نکلی تھی آخر کو انہیں اسلام نصیب ہوا حاصل کلام یہ ہے کہ ابو جہل اور نضر بن غارث جیسے لوگوں کی شان میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ہزارہا معجزے دکھلائے جائیں گے سارے قرآن کی آیتیں ان کو سنائی جاویں گی جب بھی یہ سخت دل اور بہرے بنے رہیں گے نہ کسی معجزہ کی دیکھنے سے ان کے دل پر غفلت کا پردہ اٹھے گا نہ کسی آیت قرآنی کو کان کھول کر سنیں گے بلکہ بجائے راہ راست پر آنے کے ایسے لوگ جب بات کریں گے تو ایسی جاہلوں کی سی جس طرح نضر بن حارث نے ایک بےٹھکانے بات کہہ دی کہ اس قرآن میں اگلے لوگوں کی نقلیں اور کہانیاں ہیں اور ابوجہل نے یہ بات کہہ دی کہ ایسی باتوں کے مان لینے سے ہم کو موت بہتر ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عمران بن حصین (رض) کی حدیث جو اوپر گذری ١ ؎ وہی حدیث اس آیت کی بھی تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسی ایک کم بختی کے سبب سے ایسی باتیں کرتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:25) یستمع الی۔ کان لگا کر سنتے ہیں۔ اکنۃ۔ کنان کی جمع ۔ پردے۔ غلاف۔ وقرا۔ اسم مصدر۔ منصوب۔ ثقل ۔ گرانی۔ بہرہ پن۔ مطلب یہ ہے کہ ان مشرکین و کفار میں سے بعض تیری باتوں کو کان لگا کر سنتے ہیں لیکن ان کی ہٹ دھرمی۔ ضد۔ تعصب اور جمود کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردے اور ان کے کانوں میں بہرہ پن ہوگیا ہے کہ سننے کے باوجود نہ وہ کچھ سمجھ پاتے ہیں اور نہ کچھ ان کے پلے پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کرنے کہ وجہ یہ ہے کہ گو اصل سبب ان کی محرومی کا تو ان کا متواتر اعراض و انکار ہے لیکن سبب پر مسبب کا مترتب ہونا یا مؤخر پر اثر کا مترتب ہونا اس قانون فطرت کے تحت ہے جو خدا نے بنایا ہے اس لئے سبب اور مؤثر کی بجائے ان کو خود ذات باری کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ اکنۃ اور وقرا دونوں جعلنا کے مفعول ہیں۔ حتی۔ جب تک۔ جہاں تک۔ لیکن یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلغ تکذیبھم الی انہم ان کا اعراض و تکذیب اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جب بھی وہ تیرے پاس آتے ہیں جھگڑا کرتے ہیں۔ یجادلونک مضارع جمع مذکر غائب مجادلۃ سے جدل مادہ۔ باب مفاعلۃ۔ وہ تم سے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان۔ نافیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کفار کے بڑے بڑے سردار جن میں ابو سفیان، ولید بن مغیرہ اور ابو جہل وغیرہ بھی شریک تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر ہو کی قرآن سننے اور پھر آپس میں اس قسم کا تبصرہ کرنے لگے چناچہ آیت میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ ( قرطبی) چونکہ یہ قرآن اور آنحضرت کی رسالت کو برحق جاننے کے باوجود کفر کی روش پر جمے ہوئے ہیں اسی لیے ہم نے ان کو یہ سزا دی۔7 حالا ن کہ قرآن میں تمام اخلاق حکمت اور زشریعت کی باتیں بھری ہوئی ہیں اور اس میں جو قصے بیان کئے گئے ہیں وہ سب سچے واقعات ہیں او صرف عبرت و نصیحیت کے لیے بیان کئے گئے ہیں۔ ، (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی مشرکین میں سے۔ 5۔ یہ جو فرمایا کہ ہم نے حجاب ڈال رکھے ہیں تو یہ تمثیل ہے گومتعارف حجاب وغیرہ نہ ہوں اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ہونے سے نہ یہ معذور ہوسکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ پر کوئی الزام آسکتا ہے کیونکہ اس حجاب وغیرہ کا سبب ان کا عراض اختیاری ہے اور نسبت کرنا باعتبار تخلیق کے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفارکا شہادت حق سے انکار، مشرکوں کے شرک اور منافقوں کی منافقت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھنے اور ہدایت کے لیے سننے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ ہماری سماعت پر ایک بوجھ ہیں۔ اور ہم انہیں پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہدایت پانے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سننے والا پوری توجہ دل کی حاضری اور ہدایت پانے کے لیے بات سنے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے۔ (إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیدٌ)[ قٓ : ٣٧] ” اس میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو دل رکھتا ہو اور حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر بات سنے۔ “ لیکن منکرین حق کی شروع سے ہی یہ عادت خبیثہ ہے کہ وہ سچی بات قبول کرنا تو درکنار اس کا سننا ہی ان کے لیے گرانی کا باعث ہوا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کفار نے یہاں تک معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) توحید کی دعوت دیتے تو کفار اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے چہرے چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگ جاتے۔ کفار کے دلوں پر مہریں ثبت ہونا : (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ )[ البقرۃ : ١٨] ” ایسے لوگ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں یہ لوٹنے والے نہیں۔ “ (قَالَ رَبِّ إِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآءِ یْ إِلَّا فِرَارًا۔ وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْا أَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔ ) [ نوح : ٥ تا ٧] ” نوح نے عرض کیا اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی۔ مگر میری دعوت سے ان کے فرار میں اضافہ ہوا۔ میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ اور اپنے کپڑے اپنے منہ پر ڈال لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور تکبر کی انتہا کردی۔ “ یہی رویہ منکرین حق نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کیا جب انھیں غور کے ساتھ قرآن سننے کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ بظاہر غور کے ساتھ سنتے لیکن حقیقت میں عدم توجہ اختیار کیے رکھتے اور آخر میں کہتے یہ باتیں ہمارے فہم و ادراک سے باہر اور ہماری قوت سماعت پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح جو حکم بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مسلسل انکار کیے رکھتے۔ جس کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا کہ ان کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر نشانی پیش کی جائے یہ لوگ ایمان لانے کی بجائے آپ کے ساتھ بحث و تکرار میں آگے ہی بڑھتے جائیں گے کیونکہ یہ غور و فکر کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں زیب داستاں کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف ہدایت سے دور ہیں بلکہ دوسروں کی ہدایت کے لیے بھی رکاوٹ بن چکے ہیں یہی ان کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ حقیقتاً یہ ہدایت یافتہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال رہے ہیں جس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک قرآن مجید پر قصہ، کہانیاں بیان کرنے کا الزام ہے اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں کیونکہ دو تین واقعات کو چھوڑ کر کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے قرآن مجید نے ابتدا سے آخر تک ایک ہی موقعہ اور مقام پر ذکر کیا ہو۔ قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب نہیں کہ جس میں رطب و یا بس اور داستان گوئی کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ اس میں سب سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر پایا جاتا ہے۔ جسے ایک ہی جگہ بیان کرنے کے بجائے موقع اور اس کے محل کے مطابق مختلف مقامات اور الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اسے قصہ کہانی سمجھنے کے بجائے نصیحت و عبرت کے طور پر پڑھے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کا اہتمام ہو سکے۔ مسائل ١۔ کافر لوگ قرآن مجید پر طعن وتشنیع کرتے ہیں۔ ٢۔ کافر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑتے تھے۔ ٣۔ کافر اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٤۔ دین اسلام کے بارے میں ہر زہ سرائی کرنے والے اپنے آپ کو ہی ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار نے قرآن مجید کو پہلے لوگوں کے قصّے قرار دیا : ١۔ کفار قرآن کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ (الانعام : ٢٥) ٢۔ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (المطففین : ١٣) ٣۔ جب کفار سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (النحل : ٢٤) ٤۔ جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (القلم : ١٥) ٥۔ انہوں نے کہا یہ تو سراسر پہلے لوگوں کی قصے کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ (الفرقان : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢٥ تا ٢٨۔ اس کی تصویر کے یہ دو رخ ہیں ۔ ایک رخ دنیا سے متعلق ہے جس میں عناد ‘ بغض اور سرکشی کے رنگ بھرے ہوئے ہیں اور دوسرا رخ آخرت سے متعلق ہے اور اس میں حسرت اور ندامت کے رنگ ہیں ۔ قرآن کریم ان دونوں حالتوں کی تصویر کشی نہایت ہی موثر اور اشاراتی انداز میں کرتا ہے ۔ جامد فطرت پگھل جاتی ہے اور اس میں حرکت اور جوش پیدا ہوجاتا ہے ‘ شاید کہ اس کے اوپر جہالت کی جو تہیں چڑھی ہوئی ہیں وہ دور ہوجائیں اور فطرت کے بند دریچے وا ہوجائیں اور قبل اس کے کہ وقت ختم ہو وہ راہ راست پر آجائے ۔ (آیت) ” وَمِنْہُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْْکَ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّۃً أَن یَفْقَہُوہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِن یَرَوْاْ کُلَّ آیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُواْ بِہَا (٦ : ٢٥) ” ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۔ (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے) وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ‘ اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ انسانیت کے یہ ایسے نمونے ہیں کہ بظاہر سنتے ہیں لیکن ان کے دلوں پر پردے ہیں ۔ اکنہ کے معنی ہیں غلاف ۔ اور یہ غلاف قوت مدرکہ کو بند کردیتے ہیں ۔ الوقر کا مفہوم ہے بوجھ یعنی ان کے کان بھاری ہیں ‘ اس لئے اس بھارے پن کی وجہ سے وہ سننے کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے ۔ اس قسم کے لوگ انسانیت کا حصہ ہیں اور ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے میں ایسے لوگ ہوتے ہی ہیں ۔ یہ ٹھیک ٹھیک انسان ہوتے ہیں۔ بظاہر وہ بات سنتے ہیں لیکن سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ ان کے کان گویا بہرے ہیں ۔ اپنا فریضہ منصب فطری ادا نہیں کرتے ۔ ان کی قوت مدرکہ گویا غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے اور اس تک قرآنی مدلولات نہیں پہنچے ۔ (آیت) ” حَتَّی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأَوَّلِیْنَ (25) ” حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ (ساری بات سننے کے بعد) کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ “ ان کی آنکھیں بھی دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ کچھ نہیں دیکھ رہی ہوتیں ۔ جو منظر وہ دیکھتی ہیں ان کا ان کے دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور کیا بات ہے جو انہیں سمجھنے اور قبول کرنے سے روک رہی ہے ؟ حالانکہ وہ سننے والے کان ‘ بینا آنکھیں اور تیز علق کے مالک ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں جن کی وجہ سے وہ کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ہے ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ “ یوں ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا ادراک اس حقیقت تک نہ پہنچ سکے گا اور نہ ہی اسے سمجھ سکے گا ان کی قوت شنوائی کام چھوڑ دے گی ۔ وہ ان کی قوت مدرکہ تک ان کی رہنمائی ہی نہ کرے گی کہ وہ اسے سمجھ سکیں اور قبول کریں چاہے وہ اپنی آنکھوں سے حقائق کو دیکھ رہے ہوں اور دلائل ایمان ان کے سامنے ہوں ۔ ہاں ‘ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس فیصلے میں سنت الہیہ کو پڑھنے کی سعی کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ ” جو لوگ ہمارے بارے میں سعی کریں گے ہم انہیں ضرور اپنی راہوں کی طرف لے جائیں گے ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا (7) فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا (9) وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا (10) ” اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا ‘ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی ‘ یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ۔ “ (الشمس) اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت پانے کی جدوجہد کر رہا ہو اور ہر اس شخص کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جو اپنے نفس کو پاک اور مطہر کرلے ۔ مذکورہ بالا لوگوں کا رویہ یہ رہا کہ انہوں نے قبول ہدایت کے لئے کوئی سعی نہ کی اور انہوں نے قبولیت حق کی فطری قوتوں کو اس طرف متوجہ ہی نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت حق کی توفیق دے دیتا ۔ انہوں نے قبولیت حق کی فطری قوتوں کو اس طرح متوجہ ہی نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت حق کی توفیق دے دیتا ۔ انہوں نے دراصل اپنی فطری قوتوں کو معطل کردیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے اور سچائی کے درمیان حجاب ڈال دیا ۔ ان کے بارے میں سنت الہیہ کے مطابق فیصلہ یہ ہوا کہ انہیں ان کے پہلے فعل اور ان کی نیت اور ارادے پر چھوڑ دیا جائے ۔ ہر کام اللہ کے حکم اور امر الہی سے ہوتا ہے اور اللہ کا امر اور حکم یہ ہے کہ جو بھی جدوجہد کرے اسے راہنمائی فراہم کی جائے اور جو بھی تزکیہ نفس کرے کامیاب ہو ۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ اعراض کرنے والوں کے دلوں پر پردے ڈال دے اور وہ سمجھ ہی نہ سکیں ۔ ان کے کان بہرے ہوجائیں اور وہ سن ہی نہ سکیں ۔ اپنی آنکھوں سے آیات و دلائل دیکھیں اور ہدایت نہ پاسکیں ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی گواہی ‘ ان کی جانب سے شرک کا ارتکاب اور انکی تمام خطاکاریاں اللہ کے ارادے کے نتیجے میں ہیں اور یہ کہ ان کے بارے میں تو اللہ نے پہلے ہی فیصلے کردیئے ہیں ۔ وہ اپنی اس سوچ میں مغالطے کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے حقیقت پیش فرماتے ہیں۔ ان کے یہ اقوال نقل کر کے ان کا سقم ظاہر فرماتے ہیں ۔ ذرا اس آیت پر غور کریں : (آیت) ” وقال الذین اشرکوا لو شآء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن ولا ابآؤنا ولا حرمنا من دونہ من شیء کذلک فعل الذین من قبلھم فھل علی الرسل الا البلغ المبین ۔ (٣٥) ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت فمنھم من ھدی اللہ ومنھم من حق علیہ الضللۃ فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ (٣٦) (١٦ : ٣٥۔ ٣٦) ” یہ مشرکین کہتے ہیں ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ۔ اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسے ہی بہانے ان سے لوگ بھی بناتے رہے ہیں ۔ تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے ؟ ۔ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ‘ اور اس کے ذریعے سے سب خبر دار کردیا کہ ” اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ “ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی ۔ پھر ذرا چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے ؟ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول پر ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ کہ ان کی گمراہی کا فیصلہ اس لئے کردیا گیا کہ ان پرفریضہ تبلیغ ادا ہوگیا ۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا ۔ جو لوگ قضا وقدر اور صبر اور اختیار کے مسائل میں اور بندے کے ارادے اور اس کے عمل کے بارے میں فضول مباحث کرتے ہیں اور ان سادہ سے مسائل کو پیچیدہ لاہوتی مباحث بنا دیتے ہیں وہ ان باتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو ان کی عقل میں آتی ہیں ۔ یہ لوگ فرضی وتقدیر کے انداز میں بحثیں کرتے چلے جاتے ہیں ‘ مگر قرآن کریم کے مثبت ‘ سادہ اور حقیقت پسندانہ طرز فکر کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ سادہ حقیقت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ تقدیر الہی کے مطابق ہوتا ہے اور یہ کہ انسان کا ایک طرف مائل ہونا یا دوسری طرف مائل ہونا اس کی اس فطرت میں داخل ہے ‘ جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے ۔ یہ فطرت بھی تقدیر الہی کے مطابق ہے ‘ اور وہ اسی طرح ہے جس طرح تقدیر الہی ہے ۔ انسان کا کسی طرف مائل ہونا اور اس پر دنیا اور آخرت کے نتائج کا مرتب ہونا بھی تقدیر الہی کے حدود کے اندر ہے ۔ تمام امور اللہ کی تقدیر کی طرف لوٹتے ہیں لیکن یہ تمام نتائج انسان کے ادارے پر مرتب ہوتے ہیں اور انسان کا یہ ارادہ بھی تقدیر الہی کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ ہے اصل حقیقت اور اس سے آگے اگر کوئی بحث کرتا ہے تو ماسوائے اس کے کہ وہ مزید پیچیدگیوں میں مبتلا ہو اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ مشرکین کی صورت حال یہ تھی کہ ان کے سامنے ہدایت کی علامات پیش کردی گئی تھیں ۔ سچائی کے دلائل واضح کردیئے گئے تھے اور ایمان کے اشارات ان پر واضح کردیئے گئے تھے ۔ قرآن کریم میں ان پر انفس وآفاق میں بکھرے ہوئے دلائل جمع کردیئے گئے تھے ۔ اگر ان کے دل اس طرف متوجہ ہوتے تو صرف قرآنی دلائل ہی اس بات کے لئے کافی وشافی تھے کہ وہ مشرکین کے قلوب کی تاروں کو زمزمہ خیز بنا دیتے اور ان کے خفیہ گوشہائے ادراک کو جگاتے ‘ ان کو زندگی بخشتے اور اس طرح ان کے دل ہدایت کو قبول کرکے لبیک کہتے ۔ لیکن انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے کوئی زحمت گوارا نہ کی جس سے وہ راہ ہدایت پا لیتے بلکہ انہوں نے اپنی فطرت اور اس کے صحیح رجحانات کو معطل کردیا ۔ اس طرح ان کے اور اشارات ہدایت کے درمیان پردے حائل ہوگئے ۔ جب وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ نہ آتے ۔ ان کے کان بھی سننے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔ ان کے دل سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوتے اور وہ قرآن پر اس طرح تدبر نہ کرتے جس طرح حق اور سچائی کے متلاشی اس پر غور کرتے ہیں بلکہ وہ قرآن کا مطالعہ ہی اس لئے کرتے کہ مجادلہ کریں اور اس کی تکذیب اور اس کے رد کے مواقع تلاش کریں ۔ (آیت) ” حَتَّی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأَوَّلِیْنَ (25) ” حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ اساطیر اسطورہ کی جمع ہے ۔ اور اسطورہ کا اطلاق ان کہانیوں پر ہوتا تھا ‘ جن میں خداؤں کے بارے میں خارق عادت کہانیوں کا ذکر ہوتا تھا یا بڑے بڑے لیڈروں بہادروں اور بت پرستی کے واقعات کا تذکرہ ہوتا تھا عربوں میں زیادہ ترایرانی بت پرستی کے قصے مشہور تھے کیونکہ وہ عربوں کے قریب تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین اچھی طرح جانتے تھے کہ قرآن کریم کا ان پرانی داستانوں کے ساتھ تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ محض انکی جانب سے مجادلہ تھا اور وہ قرآن کریم کو رد کرنے اور اس کو جھٹلانے کے لئے حیلے بہانے تلاش کر رہے تھے اور قرآن سے دور دراز کی باتیں تلاش کرکے ان کے ذریعے قرآن کو رد کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں چونکہ رسولوں اور ان کی اقوام کے واقعات وقصص مذکور تھے ‘ نیز اس میں ان اقوام کا بھی ذکر تھا جن کو اللہ نے ہلاک فرمایا تھا تو محض فریب کاری اور نہایت ہی بودے اعتراض اور دور کی کوڑی ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ لاتے تھے ۔ چناچہ ان نصوص بلکہ پورے قرآن کے بارے میں وہ یہ تبصرہ کرتے ” کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “ لوگوں کو اس قرآن کریم سے دور رکھنے کی سازش کو مزید گہرا کرنے کے لئے اور اسے نہایت ہی پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھانے کی خاطر کہ قرآن کریم ایک داستان پارینہ ہے ‘ مکہ کا ایک دانشور نضر بن حارث اہل فارس کے رستم واسفندیار کی داستانیں حفظ کرتا اور اس طرح اہل فارس کے دوسرے لیڈروں اور بہادروں کے قصے اور کہانیاں جمع کرتا ۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہی اپنی مجلس قائم کرتا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے قرآن مجید پڑھتے ۔ وہ لوگوں سے کہتا اگر محمد تم پر لوگوں کے افسانے پڑھتا ہے تو میرے پاس اس کے مقابلے میں زیادہ ادبی مواد ہے ۔ اس کے بعد وہ رستم واسفند یار کے قصے شروع کردیتا اور یہ تدبیر وہ اس لئے کرتا تھا کہ لوگ قرآن کو نہ سنیں۔ یہ لوگ عوام الناس کو قرآن سننے سے بھی منع کرتے تھے اس لئے کہ اس وقت کی سوسائٹی کے وہ لوگ لیڈر تھے ۔ وہ لوگوں کو ایسے مواقع سے دور رکھتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں وہ قرآن کریم کی تلاوت سن کر اس سے متاثر نہ ہوجائیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کا قرآن سے منتفع نہ ہونا اور یوں کہنا کہ یہ پرانے لوگوں کی باتیں ہیں اس کے بعد فرمایا (وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ) (اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کی طرف کان لگاتے ہیں) (وَ جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ ) (اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے کردیئے کہ وہ اس کو سمجھیں، یعنی یہ پردے انہیں قرآن سمجھنے نہ دیں گے) (وَ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا) (اور ان کے کانوں میں بھاری پن کردیا) (جس کی وجہ سے ٹھیک طرح سے سن بھی نہیں سکتے) اور اس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو کان لگاتے ہیں تو سننے اور سمجھنے کے لیے نہیں لگاتے بلکہ بطور تمسخر اور استہزاء کے کان لگاتے ہیں۔ (وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا) (اور اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے) کیونکہ ضد پر اترے ہوئے ہیں اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ (حَتّٰٓی اِذَا جَآءُ وْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) (یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں قرآن مجید جو کتاب مبین ہے دلائل سے بھری ہوئی ہے فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ مرتبہ کو پہنچی ہوئی ہے اس کے بارے میں کافر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں) دلائل کے سامنے عاجز ہیں لیکن ماننے کا ارادہ نہیں ہے بات نہیں بن پڑتی تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں بتا دیتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28 یہ زجر ہے یعنی ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے دلوں پر اس کا کس کا کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دئیے ہیں اور ان سے سمجھنے کی قوت سلب کرلی گئی ہے۔ یعنی ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا دی گئی ہے اور ان کے کانوں کو ہم نے بہرہ کردیا ہے اور وہ حق بات نہیں سن سکتے وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ الخ مہر جباریت کی وجہ سے ان کی آنکھیں بند ہوچکی ہیں۔ اس لیے اگر ان کو تمام معجزات دکھا دئیے جائیں تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ 29 حتّٰی انتہائے غایت کے لیے ہے یعنی ماننا تو درکنار وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جب وہ پیغمبر (علیہ السلام) کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیتے ہیں اور کہتے کیا ہیں۔ اِنْ ھٰذَا اِلَّا اَسَاطِیْرُ الْاوَّلِیْن یعنی یہ پیغمبر جو کچھ بیان کرتا ہے یہ تو محض اگلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں ہیں یہ کافروں کی انتہائی بد قسمتی اور کور چشمی تھی کہ وہ سچے واقعات کو جھوٹا کہتے تھے۔ یہ گذشتہ قوموں کے سچے واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عبرت اور نصیحت کے لیے بیان کیے ہیں تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کریں۔ تائید فَاْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (الاعراف ع 22) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب مشرکین اپنے انکار پر پختہ ہوجاتے ہیں تو کسی دلیل کو نہیں مانتے تو پھر اہل توحید سے جھگڑا شروع کردیتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 اور ان منکرین میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف جب آپ قرآن کریم پڑھتے ہیں تو کان لگا کر سنتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں تاکہ وہ اس کلام کو سمجھ نہ سکیں اور ہم نے ان کے کانوں میں ثقل اور گرانی پیدا کردی ہے یعنی ان کی بد اعمالی کے باعث صحیح فہوم اور سننے کی صحیح صلاحیت ہی سلب کرلی گئی ہے۔ اب اگر یہ لوگ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان نشانیوں پر ایمان نہ لائیں گے ان کی مخالفت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ جب یہ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ سے جھگڑا کرنے لگتے ہیں تو قرآن کریم کے متعلق یوں کہتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کچھ نہیں صرف پہلے لوگوں کے قصے اور گزشتہ لوگوں کی کہانیاں ہیں۔