Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 28

سورة الأنعام

بَلۡ بَدَا لَہُمۡ مَّا کَانُوۡا یُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۲۸﴾

But what they concealed before has [now] appeared to them. And even if they were returned, they would return to that which they were forbidden; and indeed, they are liars.

بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے اُن کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ... Nay, what they had been concealing before has become manifest to them. meaning, the disbelief, denial and rebellion that they used to hide in their hearts will then be uncovered, even though they will try to hide this fact in this life and the Hereafter. Earlier, Allah said, ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ انظُرْ كَيْفَ كَذَبُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ There will then be (left) no trial for them but to say: "By Allah, our Lord, we were not those who joined others in worship with Allah." Look! How they lie against themselves! But the (lie) which they invented will disappear from them. (6:23-24) It is also possible that the meaning here is that the disbelievers will realize the truth that they knew all along in their hearts, that is, that what the Messengers brought them in this life is true, although they used to deny his Message before their followers. Allah said that Musa said to Fir`awn, لَقَدْ عَلِمْتَ مَأ أَنزَلَ هَـوُلاءِ إِلاَّ رَبُّ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ بَصَأيِرَ "Verily, you know that these signs have clearly been sent down by none but the Lord of the heavens and the earth as eye-opening evidence." (17:102) Allah said about Fir`awn and his people, وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَأ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً And they belied them (those Ayat) wrongfully and arrogantly, though they were themselves convinced thereof. (27:14) بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ... Nay, it has become manifest to them what they had been concealing before. When this occurs, and the disbelievers ask to be returned to this life, they will not do so because they truly wish to embrace the faith. Rather, they ask to be returned to this life for fear of the torment that they are witnessing before them, as punishment for the disbelief they committed, and to try and avoid the Fire that they see before their eyes. ... وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ But if they were returned, they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. meaning, they lie when they say they wish to go back to this life so that they can embrace the faith. Allah states that even if they were sent back to the life of this world, they will again commit the disbelief and defiance that they were prohibited. وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (And indeed they are liars), in their statement that, ... فَقَالُواْ يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِأيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord, and we would be of the believers!" Nay, what they had been concealing before has become manifest to them. But if they were returned, they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. Therefore, they will revert to their old behavior,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 بَلْ جو إِضْرَاب (یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں (1) ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ما کنا مشرکین (ہم تو مشرک ہی نہ تھے (2) یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا (3) یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے (تفسیر ابن کثیر) ۔ 28۔ 2 یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یعنی ایسے دلائل جن سے حق واضح ہوتا تھا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوئی ان دلائل کو سن بھی نہ سکے اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے۔ وہ حق آج ظاہری صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو اور فرماں بردار بن کر رہنے کا جو وعدہ کریں گے وہ وعدہ چونکہ شوق ورغبت کی بنا پر نہ ہوگا بلکہ جہنم کے عذاب کو دیکھ کر اضطراری وعدہ ہوگا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کم بخت اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت پھر بھی وہی کچھ کریں گے جو پہلے دنیا میں کرتے رہے۔ پھر یہ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہو کر اللہ کی نافرمانیوں پر اتر آئیں گے اور اپنا وعدہ بھول جائیں گے جیسا کہ بسا اوقات مصائب اور بیماریوں میں پھنس کر انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا اور توبہ تائب کرتا ہے مگر اس مصیبت سے نجات پانے کے بعد جب چند دن عیش و آرام میں گزارتا ہے تو اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کیے تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا۔۔ : اس سے پہلے ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) جس کفر و شرک اور نفاق کو وہ جھوٹی قسمیں کھا کر چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، اس کی حقیقت کھل جائے گی۔ بعض نے ” مِنْ قَبْلُ “ سے دنیا میں چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، یا پھر اس سے کفار کے سردار مراد ہیں، یعنی وہ قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سچا ہونا جانتے تھے، مگر اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے پیروکاروں پر کھل جائے گی اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہمیں دھوکا دیتے رہے ہیں۔ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ : یعنی پھر کفر و شرک اور نفاق کی راہ اختیار کریں گے، کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان لے آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی طرح جہنم سے بچنے کے لیے ہے۔ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ : اس لیے آخرت میں اس آرزو کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (28), Almighty Allah, who is All-Knowing and All-Aware, exposes the reality of their wish, which would be nothing but the compulsion of circumstances, by making it clear that these people have always been addicted to lying and that they were liars even in their present wish under trial. The root of the problem with them was that they did not relish the realities brought before them by the prophets of Allah. They knew that the prophets were true, yet they raised dust to keep such realities unmanifested either because of their chronic obstinacy or worldly greed. But, in the Hereafter, every-thing came out in the open. They saw the power of Allah with their own eyes. They realized that the prophets had told the truth. Even, the life after death, something they had denied all along was before them, really and physically. Then, they became direct witnesses to reward and punishment and Hell. After that, they were left with no ar¬gument to continue their attitude of denial and opposition. So, when they wished to be returned to the mortal world, that was mere absence of choice. Then, their All-Knowing, All-Aware Master said that this was what they were saying for now, but if they were to be sent back into the mortal world once again, they would simply forget all about their promises and resolutions and will revert to doing what they have been doing before, and would start getting involved once again with the un¬lawful from which they were stopped. Therefore, what they were saying now was also a lie and a ploy for deception. That their present statement has been called a lie could also be based on their ultimate deed, that is, their promising not to lie if returned to the world was not true, for this would never happen because they would still do nothing but keep lying when they go there. This lie could also mean that whatever they were saying at that time was not prompted by true intention. They were doing so simply to buy time and avoid punishment while in the heart of their hearts, they still have no intention of doing it.

دوسری آیت میں علیم وخبیر احکم الحاکمین نے ان کی اس گھبرائی ہوئی تمنا کا پول اس طرح کھولا کہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ جیسے ہمیشہ سے جھوٹ کے عادی تھے وہ اپنے اس قول اور تمنا میں بھی جھوٹے ہیں، اور بات اس کے سوا نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ جو حقائق ان کے سامنے لائے گئے تھے اور یہ لوگ ان کو جاننے پہچاننے کے باوجود محض ہٹ دھرمی سے یا دنیا کی طمع خام کی وجہ سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیا کرتے تھے آج وہ سب ایک ایک کرکے ان کے سامنے آگئے، اللہ جل شانہ، کی یکتائی اور قدرت کاملہ کے مظاہر آنکھوں سے دیکھے، انبیاء (علیہم السلام) کی سچائی کا مشاہدہ کیا۔ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے کا مسئلہ جس کا ہمیشہ انکار رہتا تھا اب حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ جزاء و سزاء کا مظاہرہ دیکھا، دوزخ کا مشاہدہ کیا تو اب ان کے پاس کوئی حجت مخالفت کی باقی نہ رہی۔ اس لئے یوں ہی کہنے لگے کہ کاش ہم پھر دنیا میں واپس ہوجاتے، تو مومن ہو کر لوٹتے۔ لیکن ان کے پیدا کرنے والے علیم وخبیر مالک نے فرمایا کہ اب تو یہ ایسا کہہ رہے ہیں، لیکن بالفرض ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہ پھر اپنے اس قول وقرار کو بھول جائیں گے اور پھر سب کچھ وہی کریں گے جو پہلے کیا تھا، اور جن حرام چیزوں سے ان کو روکا گیا تھا یہ پھر ان میں مبتلا ہوجائیں گے، اس لئے ان کا یہ کہنا بھی ایک جھوٹ اور فریب ہے۔ ان کے اس قول کو جھوٹ فرمانا مآل کار کے لحاظ سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو اب وعدہ کر رہے ہیں کہ اگر دوبارہ دنیا میں لوٹائے جائیں تو تکذیب نہ کریں گے، مگر ایسا ہوگا نہیں، یہ وہاں جاکر پھر بھی تکذیب ہی کریں گے، اور اس کذب کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں سچے ارادہ سے نہیں بلکہ محض دفع الوقتی کے طور پر عذاب سے بچنے کے لئے کہہ رہے ہیں، دل میں اب بھی ان کا ارادہ نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝ ٢٨ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) بلکہ دنیا میں جو کفر وشرک کو چھپایا کرتے تھے، اس کا انجام اب ظاہر ہوگیا اور اگر ان کی خواہش کے مطابق ان کو دنیا میں بھیج دیا جائے تب بھی یہ کفر وشرک نہیں چھوڑیں گے اور ہرگز ایمان قبول نہیں کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط) ۔ ایسا نہیں تھا کہ انہیں حقیقت کا علم نہیں تھا۔ حق پہلے ہی ان پر واضح تھا ‘ بات ان پر پوری طرح کھل چکی تھی ‘ لیکن اس وقت ان پر حسد ‘ بغض اور تکبر کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) ۔ دنیا میں جا کر پھر وہاں کے تقاضے سامنے آجائیں گے ‘ دنیا کے مال و دولت اور اولاد کی محبت اور دوسری نفسیاتی خواہشات پھر انہیں اسی راستے پر ڈال دیں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. At that moment such a statement on their part would not be indicative of either any true change of heart or of any genuinely revised judgement based on serious reflection and reasoning. It would rather be the result of direct observation of reality at a time when even the staunchest unbeliever would find it impossible to deny it.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :19 یعنی ان کا یہ قول درحقیقت عقل و فکر کے کسی صحیح فیصلے اور کسی حقیقی تبدیلی رائے کا نتیجہ نہ ہوگا بلکہ محض مشاہدہ حق کا نتیجہ ہوگا جس کے بعد ظاہر ہے کہ کوئی کٹے سے کٹا کافر بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

بل۔ للاضراب عن الوفاء بما تمنوا۔ ان کے ایفائے تمنا کے رد میں آیا ہے یعنی ان کی یہ تمنا یا آرزو کہ اگر وہ واپس دنیا میں لوٹائے جائیں تو وہ تکذیب قرآن سے باز رہیں گے اور ومن بن جائیں گے۔ بالکل غلط اور جھوٹ ہے بلکہ وہ یہ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اب بدالہم ما کانوا یخفون من قبل۔ ان کے راز افشا ہوگئے ہیں۔ ان کی جھوٹی قسموں کی حقیقت کھل گئی ہے۔ اور سوائے یہ کہنے کے انہیں کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ بدا۔ ظاہر ہوگیا (باب نصر) بدو اور بداء سے جس کے معنی کھلم کھلا ظاہر ہوجانے کے ہیں۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ کانوا یخفون۔ ماضی استمراری۔ یخفون مضارع جمع مذکر غائب۔ اخفاء سے وہ چھپایا کرتے تھے۔ لعادوا۔ لام جو اب لو میں واقع ہے وہ پھر کریں۔ وہ پھر کرتے ہیں۔ عود مصدر۔ نھوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ نیز ملاحظہ ہو (4:161)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس سے قبل (یعنی آخرت میں ہی) جس شرک وکفر اور نفاق کو رہ جھوٹی قسمیں کھاکر چھپانے کی کوشش کریں گے اس کی حقیقت کھل جائے گی اور ان کے اپنے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دیں گے اس وقت وہ محض ندامت کر مارے یہ آرزو کریں گے بعض نے من قبل سے دنیا چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے یا اس سے روسا کفار مراد ہیں۔ یعنی وہ قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدقت کو جانتے تھے مگر اپنے اتباع سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے اتباع پر کھل جائے اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہمیں دھوکہ دیتے رہے ہیں۔ (ابن کثیر۔ کبیر ) 2 یعنی پھر شرک اور کفر ونفاق کی روش اختیار کریں گے کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان کی محبت کی سبب نہیں بلکہ محض ندامت کی وجہ سے ہوگی۔ ؟ (کبیر)3 اس لیے آخرت میں اپنی اس آرزوے سے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مراد اس چیز سے عذاب ہے جس کی وعید کفر و تکذیب پر ان کو کی جاتی تھی اور دبانے سے مراد انکار ہے۔ 7۔ اوپر توحید و رسالت و قرآن کے انکار پر سزاوں کا بیان تھا آگے انکار بعث اور اس کی سزا کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُواْ یُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَادُواْ لِمَا نُہُواْ عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ (28) ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی ‘ ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ‘ وہ تو ہیں ہی جھوٹے ۔ یہاں اب ان کے بارے میں بات ختم ہوجاتی ہے اور وہ اس بری حالت میں ایک جھوٹے انسان کے طور پر حقارت کے ساتھ پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔ اب ایسے لوگوں کے بارے میں ان کے کچھ مزید رخ سامنے آتے ہیں اور ان کے اس آخروی منظر کے مقابلے میں دو مزید منظر پیش کئے جاتے ہیں ۔ ایک تو دنیا کا منظر ہے جس میں وہ عزم بالجزم کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور اللہ کسی کو دوبارہ نہ اٹھائے گا اور کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔ اور دوسرا منظر آخرت سے متعلق ہے ۔ ایک جھلکی جس میں وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ رب العالمین ان سے باز پرس فرماتے ہیں ۔ (الیس ھذا بالحق) (٦ : ٣٠) کیا یہ قیامت حق نہ تھی اور حقیقت نہیں ہے ؟ یہا یک ایسا سوال ہے جس سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ پگھل جاتے ہیں اور ایک نہایت ہی بدحال اور ذلیل آدمی کی طرح جواب دیتے ہیں ۔ (آیت) ” بلی وربنا “۔ (٦ : ٣٠) ” ہمارے رب تیری قسم یہ حقیقت ہے ۔ “ اور اب وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب الیم سے دوچار ہوتے ہیں ۔ ایک دوسری جھلکی بھی سامنے آتی ہے ۔ اچانک وہ گھڑی آپہنچتی ہے جس کے بارے میں وہ اللہ کے اس ” آمنے سامنے “ سے بالکل منکر تھے ۔ اب وہ یاس و حسرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔ اپنے کاندھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور آخرت میں یہ بتایا جاتا ہے ۔ کہ اللہ کے ترازو میں دنیا کی حقیقت کیا ہے اور آخرت کا مقام کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو پھر بغاوت کریں گے : مزید ارشاد ہوگا (وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُھُوْا) اور اگر ان کو دنیا میں دو بارہ بھیج دیا جائے تو پھر وہی کریں گے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (بلاشبہ وہ اپنی اسی بات میں جھوٹے ہیں کہ ہم آیات کی تکذیب نہ کریں گے۔ اور مومن بن جائیں گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32 بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں یُخْفُوْنَ سے مراد یہ ہے کہ ان کے وہ گندے عقیدے جنہیں وہ دنیا میں چھپاتے پھرتے تھے لیکن اس پر یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ وہ تو اپنے عقیدے کو اعلانیہ ظاہر کرتے تھے۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ یہاں باب افعال وجدان کے لیے ہے۔ اور یخفون کے معنی ہیں یجدونہ مخفیا یعنی جس چیز کو دنیا میں وہ نہیں دیکھ سکتے تھے بلکہ اسے پوشیدہ پاتے تھے وہ چیز قیامت کے دن ظاہر ہو کر ان کے سامنے آجائے گی اور اس سے مراد جہنم کی آگ ہے۔ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ ۔ قیامت کے دن مشرکین خواہش کریں گے کہ انہیں واپس دنیا میں لوٹا دیا جائے تو وہ سچے مومن بن جائیں گے اور شرک وکفر کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ فرمایا یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ اگر انہیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے تب بھی وہ نہیں مانیں گے۔ اور اس عذاب کو بھول جائیں گے۔33 یہ شکوی ہے اور لَعَادُوْا پر معطوف ہے یعنی اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو یہ حسب سابق توحید کے ساتھ بعث بعد الموت کا بھی انکار کریں گے اور کہیں کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی قیامت اور حشر و نشر وغیرہ نہیں۔ یا اِنَّ ھُمْ لَکَاذِبُونَ پر عطف ہے یا استیناف ہے یعنی یہ لوگ دنیا میں ایسا کہا کرتے تھے عطف علی لعادوا یعنی لو ردوا قالوا وعلی انھم لکاذبون یعنی وھم الذین قالوا ذلک فی الدنیا او استیناف بذکر ما قالوہ فی الدنیا (مظھری ص 256 ج 3) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 درحقیقت یہ تمنا محض الئے کریں گے کہ جن حقائق کو وہ اب سے پہلے چھپایا کرتے تھے اور جن باتوں کا انکار کیا کرتے تھے وہ سب باتیں ان پر کھل گئیں اور ظاہر ہوگئیں اور اگر ان لوگوں کو دوبارہ دنیا میں واپس بھی بھیج دیا جائے تو یہ پھر وہی کام کریں گے جس سے ان کو روکا گیا تھا اور منع کیا گیا تھا اور یقین جانو یہ بالکل جھوٹے ہیں۔