Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 33

سورة الأنعام

قَدۡ نَعۡلَمُ اِنَّہٗ لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ لَا یُکَذِّبُوۡنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۳۳﴾

We know that you, [O Muhammad], are saddened by what they say. And indeed, they do not call you untruthful, but it is the verses of Allah that the wrongdoers reject.

ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں ، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Comforting the Prophet Allah comforts the Prophet in his grief over his people's denial and defiance of him, قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ... We know indeed the grief which their words cause you; meaning, We know about their denial of you and your sadness and sorrow for them. Allah said in other Ayat, فَلَ تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَتٍ So destroy not yourself in sorrow for them. (35:8) and, لَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ أَلاَّ يَكُونُواْ مُوْمِنِينَ It may be that you are going to kill yourself with grief, that they do not become believers. (26:3) and, فَلَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى ءَاثَـرِهِمْ إِن لَّمْ يُوْمِنُواْ بِهَـذَا الْحَدِيثِ أَسَفاً Perhaps, you, would kill yourself in grief, over their footsteps (for their turning away from you), because they believe not in this narration. (18:6) Allah's statement, ... فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِأيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ it is not you that they deny, but it is the verses of Allah that the wrongdoers deny. means, they do not accuse you of being a liar, وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِأيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ (but it is the Verses of Allah that the wrongdoers deny). It is only the truth that they reject and refuse. Muhammad bin Ishaq mentioned that Az-Zuhri said that; Abu Jahl, Abu Sufyan Sakhr bin Harb and Al-Akhnas bin Shurayq once came to listen to the Prophet reciting the Qur'an at night, but these three men were not aware of the presence of each other. So they listened to the Prophet's recitation until the morning, and then left. They met each other on their way back and each one of them asked the others, "What brought you!" So they mentioned to each other the reason why they came. They vowed not to repeat this incident so that the young men of Quraysh would not hear of what they did and imitate them. On the second night, each one of the three came back thinking that the other two would not come because of the vows they made to each other. In the morning, they again met each other on their way back and criticized each other, vowing not to repeat what they did. On the third night, they again went to listen to the Prophet and in the morning they again vowed not to repeat this incident. During that day, Al-Akhnas bin Shurayq took his staff and went to Abu Sufyan bin Harb in his house saying, "O Abu Hanzalah! What is your opinion concerning what you heard from Muhammad." Abu Sufyan said, "O Abu Thalabah! By Allah, I have heard some things that I recognize and know their implications. I also heard some things whose meaning and implications were unknown to me." Al-Akhnas said, "And I the same, by He Whom you swore by!" Al-Akhnas left Abu Sufyan and went to Abu Jahl and asked him, "O Abu Al-Hakam! What is your opinion about what you heard from Muhammad." Abu Jahl said, "We competed with Bani Abd Manaf (the Prophet's sub tribe) and so we fed as they fed and gave away as they gave away. So, when we were neck and neck with them, just as two horses in a race, they said, `There is a Prophet from among us, to whom revelation from the heaven comes.' So how can we ever beat them at that! By Allah we will never believe in him or accept what he says.' This is when Al-Akhnas left Abu Jahl and went away." Allah's statement,

حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں ، فرماتا ہے کہ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے ، آپ ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو ، کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لئے حسرت و افسوس کریں گے؟ سمجھا دیجئے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے ۔ یہ لوگ دراصل آپ کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ چنانجہ ابو جہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے ، حکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بےدین سے تو مصافحہ کرتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں ۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے ۔ ہم نے آج تک نبی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی ۔ الغرض حضور کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے ، امام محمد بن اسحق رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابو جہل ، ابو سفیان ، صحر بن حرب ، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بےخبری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی قرآن سننا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے ۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور سے قرآن سننے کے لئے چپ چاپ آ گئے تھے ۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہو جائیں گے ۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کر کے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں؟ میرے جانے کی کسے خبر ہو گی؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا ۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہو گیا ۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہو سکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہو گیا ، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے ۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابو سفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابو حنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں ۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے ، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابو جہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ یہ کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کسی ہو رہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے ، اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے ، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے ۔ اخنس مایوس ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا ۔ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو ، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے ، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم ( یعنی ابو جہل ) سے بھی ملتا ہوں سنو! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آ گئی تو ان میں تو تم ہی ہو ، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا ، اب خنس تنہائی میں ابو جہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا ، اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بالکل سچے اور یقینا صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ نے جھوٹ نہیں بولا ۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھر یرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہو گئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لئے کون سی فضیلت باقی رہ گئی؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، پس آیات اللہ سے مراد ذات حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کرے گا اور آپ کے مخالفین مغلوب ہوں گے ۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ کی ہی ہو گی ۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ) 37 ۔ الصافات:171 ) یعنی ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں فرماتا ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ) 58 ۔ المجادلہ:21 ) اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے ، ان نبیوں کے اکثر قصے آپ کے سامنے بیان ہو چکے ہیں ان کے حالات آپ کو پہنچ چکے ہیں ، آپ خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ، پھر فرماتا ہے اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھو دلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے ۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھتا پھرے ، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو غم کر کے رہو ، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا ، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیے جیسے اور روایت میں ہے کہ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا ، آپ کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی رفیق ہو گئی ۔ پھر فرمایا کہ آپ کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہو گی جو کان لگا کر آپ کے کام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے ، جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو ، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے ۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی ۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کی یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو جہل نے ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے آج بھی جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ و قیاس اوراقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] کفار مکہ آپ کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے تھے :۔ نبوت سے پہلے مشرکین مکہ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے نبوت کے اعلان کے بعد بھی آپ کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی دنیوی معاملات میں آپ کو کبھی جھوٹا نہیں کہا۔ البتہ دین کے متعلق آپ جو کچھ کہتے تھے کافر اسے جھٹلاتے تھے۔ چناچہ ایک دفعہ خود ابو جہل نے رسول اللہ سے یہ بات کہی تھی کہ محمد ! ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو کچھ تم لائے ہو ہم اسے جھٹلاتے ہیں۔ && اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس جھٹلانے کی ایک بڑی وجہ قریش کی قبائلی عصبیت تھی۔ ابو جہل جو قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا ایک بار کہنے لگا && ہم اور بنو عبد مناف (آل ہاشم) ہمیشہ حریف مقابل کی حیثیت سے رہے۔ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے بھی کیں۔ انہوں نے خون بہا دیئے تو ہم نے بھی دیئے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے بھی کیں یہاں تک کہ ہم نے ان کے کندھے سے کندھا ملا دیا۔ اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار بن بیٹھے ہیں۔ واللہ ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لاسکتے۔ نہ ہی ہم اس کی تصدیق کریں گے۔ && (ابن ہشام ص ١٠٨) گویا شخصی حیثیت سے قریش مکہ کو آپ سے کوئی شکایت نہ تھی۔ آپ سے مخالفت اور عداوت محض دین کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ تمہاری تکذیب نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ظالم ہماری اور ہماری آیات کی تکذیب کر رہے ہیں۔ آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ہم ان سے خود نمٹ لیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے، لیکن جونہی آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انھیں اللہ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ کو ( نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے۔ ابو سفیان جو بدر، احد اور خندق کی جنگ کا باعث تھا، اس سے رومی بادشاہ ہرقل نے پوچھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ بولا ہے، تو اس نے کافر ہونے کے باوجود جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں، وہ حقیقت میں آپ کو نہیں بلکہ ہماری آیات کو جھٹلا رہے ہیں، کیونکہ شخصی لحاظ سے تو آپ کو جھٹلا ہی نہیں سکتے، آپ کے نبوت سے پہلے کے چالیس سال اس کا ثبوت ہیں۔ ان سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کو محال سمجھتے تھے۔ (ابن کثیر، رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary About the statement: فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ (it is not you they are belying, rather, it is the signs of Allah they are denying) in the first verse (33), there is a related event, reported in Tafsir Mazhari on the authority of a narration by As-Suddiy, according to which, once Akhnas ibn Shu¬raiq and Abu Jahl, two chiefs of the Quraysh tribe met together. Akhnas asked Abu Jahl: 0 Abul-Hikam, (In Arabia, Abu Jahl was called Abul-Hikam - &man of wisdom& - but because of his hostility to Islam, he became known as Abu-Jahl - &man of ignorance& ), you and me are alone here. There is no third person listening to us. Tell me about Muhammad ibn ` Abdulluh. Tell me what you really think about him. Is he telling the truth or is he not? Swearing by Allah, Abu Jahl said: No doubt, Muhammad is true. He has never lied all his life. But, the problem is that the thought, that only a single branch of the tribe of Quraysh, the Banu Qusayy, is going to become the repository of all sorts of virtues and perfections while the rest of the tribe remains totally deprived, is something that we cannot take. It is too much. They have the flag in their hands. They have the important duty of providing water for the Hajj pilgrims in their hands. They are the custodians of the Ka&bah; its keys are in their hands. Now, if we are to accept that the station of prophethood also belongs to them, what the rest of the Quraysh will be left with? According to another narration reported from Najiyah ibn Ka&b, once Abu Jahl himself told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . We do not suspect you of lying nor do we belie you, but we do belie the Book or Religion which you have come up with. (Mazhari) Based on these narrations of Hadith, the verse can be taken in its real sense, that is, &these disbelievers do not belie you, rather, they be-lie the signs of Allah.& And this verse could also be taken in the sense that these disbelievers, though belie you obviously but, in reality, the outcome of belying you is itself the belying of Allah and His signs - as it appears in Hadith, that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Whoever causes pain to me is liable to be judged as causing pain to Allah.

خلاصہ تفسیر کفار کے بیہودہ کلمات پر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ( کفار) کے اقوال مغموم کرتے ہیں سو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم میں نہ پڑئیے بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیجئے کیونکہ) یہ لوگ (براہ راست) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا نہیں کہتے، لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا (قصداً ) اکار کرتے ہیں، (گو اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب بھی لازم آتی ہے مگر ان کا اصل مقصود آیات اللہ کی تکذیب ہے، جیسا کہ ان میں بعض مثلاً ابو جہل اس کے اقراری بھی ہیں، اور جب ان کا اصل مقصد آیات اللہ کی تکذیب ہے تو ان کا یہ معاملہ خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوا، وہ خود ہی ان کو سمجھ لیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں غم میں مبتلا ہوں) اور (کفار کی یہ تکذیب کوئی نئی نہیں، بلکہ) بہت سے پیغمبر جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے، جس پر انہوں نے صبر ہی کیا کہ ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو (طرح طرح) کی ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچ گئی (جس سے مخالف مغلوب ہوگئے، اس وقت تک وہ صبر ہی کرتے رہے) اور (اسی طرح صبر کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی امداد الٓہی پہنچے گی، کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی باتوں (یعنی وعدوں) کو کوئی بدلنے والا نہیں (اور امداد کا وعدہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوچکا ہے، جیسا فرمایا لا غلبن انا ورسلی) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیغمبروں کے بعض قصص (قرآن میں) پہنچ چکے ہیں (جن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، کہ ابتدائی چند روزہ صبر کے بعد وہ اپنے رسولوں کو امداد بھیج دیتے ہیں، جس سے دنیا میں بھی حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوجاتا ہے، اور آخرت میں بھی ان کو عزت و فلاح ملتی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہونے والا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغموم نہ ہوں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ تمام انسانوں کے ساتھ شفقت و محبت انتہا کہ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اس تسلی کے یہ چاہتے تھے کہ یہ مشرکین اگر موجودہ معجزات اور نبوت کے دلائل پر مطمئن ہو کر ایمان نہیں لاتے تو جس قسم کے معجزات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں وہی معجزات واقع ہوجائیں۔ شاید ایمان لے آویں، اور اس اعتبار سے ان کا کفر دیکھ کر صبر نہ آتا تھا، اس لئے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ بمقتضائے حکمت الٓہیہ ان کے فرمائشی معجزات واقع نہ کئے جاویں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاچندے صبر کریں، ان کے وقوع کی فکر میں نہ پڑیں، چناچہ فرمایا وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ اور اگر آپ کو (منکرین) کا اعراض (و انکار) گراں گزرتا ہے (اور اس لئے جی چاہتا ہے کہ ان کے فرمائشی معجزات ظاہر ہوجاویں) تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں (جانے کو) کوئی سرنگ یا آسمان میں (جانے کو) کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو (پھر اس کے ذریعہ زمین یا آسمان میں جاکر وہاں سے) معجزہ (فرمائشی معجزوں میں سے) لے آؤ تو (بہتر ہے آپ ایسا) کرلو (یعنی ہم تو ان کی یہ فرمائشیں بوجہ عدم ضرور اور بمقتضائے حکمت کے پوری نہیں کرتے، اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ مسلمان ہی ہوجاویں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اس کا انتظام کیجئے) اور اللہ کو (تکویناً ) منظور ہوتا تو ان سب کو راہ (راست) پر جمع کردیتا (لیکن چونکہ یہ خود ہی اپنا بھلا نہیں چاہتے اس لئے تکوینا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہوا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے) سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس فکر کو چھوڑئیے اور) نادانوں میں سے نہ ہوجائیں (امر حق و ہدایت کو تو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو (حق بات کو طلب حق کے ارادہ سے) سنتے ہیں اور (اگر اس انکار و اعراض کی پوری سزا ان کو دنیا میں نہ ملی تو کیا ہوا آخر ایک دن) مردوں کو اللہ تعالیٰ قبروں سے زندہ کرکے اٹھاویں گے، پھر وہ سب اللہ ہی کی طرف (حساب کے لئے) لائے جاویں گے اور یہ (منکر) لوگ (براہ عناد) کہتے ہیں کہ اگر یہ نبی ہیں تو ان پر (ہمارے معجزات میں سے) کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں، لیکن ان میں اکثر (اس کے انجام سے) بیخبر ہیں، (اس لئے ایسی درخواست کر رہے ہیں، اور وہ انجام یہ ہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لاویں گے تو سب فوراً ہلاک کردیئے جاویں گے۔ لقولہ تعالیٰ (آیت) ولو انزلنا ملکا لقضی الامر، حاصل یہ ہے کہ ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر کرنے کی ضرورت تو اس لئے نہیں کہ پہلے معجزات کافی ہیں، لقولہ تعالیٰ (آیت) اولم یکفہم الخ اور ہم جانتے ہی کہ فرمائشی معجزہ پر بھی ایمان نہ لاویں گے۔ جس سے فوری عذاب کے مستحق ہوجاویں گے اس لئے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر نہ کیا جائے، اور آیت کے آخر میں فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ فرمانا محبت و شفقت کے طور پر ہے، لفظ جہالت عربی زبان میں اس معنی عام کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بخلاف اردو زبان کے، اس لئے اس کا ترجمہ لفظ جہل یا جہالت سے کرنا ادب کے خلاف ہے، اگلی آیات میں تنبیہ کے لئے قیامت اور تمام خلائق کے حشر کا ذکر ہے) اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر (خواہ خشکی میں یا پانی میں) چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ (قیامت کے دن زندہ ہو کر اٹھنے میں) تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں اور (گو یہ سب اپنی کثرت کی وجہ سے عرفاً بےانتہا ہوں، لیکن ہمارے حساب میں سب منضبط ہیں کیونکہ) ہم نے (اپنے) دفتر (لوح محفوظ) میں کوئی چیز (جو قیامت تک ہونے والی ہے بےلکھے) نہیں چھوڑی (اگرچہ اللہ تعالیٰ کو لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ان کا علم ازلی اور محیط ہی کافی ہے لیکن لکھنے کے ذریعے منضبط کرلینا افہام عامہ کے قریب تر ہے) پھر (اس کے بعد اپنے وقت معین پر) سب (انسان اور جانور) اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جاویں گے (آگے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کا مضمون ہے) اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو (حق سننے سے) بہرے (جیسے) اور (حق کہنے سے) گونگے (جیسے) ہو رہے ہیں (اور اس کی وجہ سے) طرح طرح کی ظلمتوں میں (گرفتار) ہیں (کیونکہ ہر کفر ایک ظلمت ہے اور ان میں مختلف قسم کے کفر جمع ہیں پھر ان اقسام کفر کا بار بار تکرار الگ الگ ظلمتیں ہیں) اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں (بوجہ اعراض عن الحق کے) بےراہ کردیں اور وہ جس کو چاہیں (اپنے فضل سے) سیدھی راہ پر لگا دیں، آپ (ان مشرکین سے) کہئے کہ (اچھا) یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر خدا کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا (اس عذاب اور ہول قیامت کو ہٹانے کے واسطے) خدا کے سوا کسی اور کو پکاروگے اگر تم (شرک کے دعوے میں) سچے ہو (تو چاہئے اس وقت بھی غیر اللہ ہی کو پکارو لیکن ایسا ہرگز نہ ہوگا) بلکہ (اس وقت تو) خاص اسی کو پکارنے لگو پھر جس (آفت) کے (ہٹانے) کے لئے تم (اس کو) پکارو اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے (اور نہ چاہے تو نہ بھی ہٹاوے) اور جن کو تم (اب اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان سب کو بھول بھال جاؤ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت جو یہ فرمایا ہے فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ ، یعنی یہ کفار درحقیقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے ہیں، اس کا واقعہ تفسہر مظہری میں بروایت سُدّی یہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش کے دو سردار اخنس بن شریق اور ابوجہل کی ملاقات ہوئی تو اخنس نے ابوجہل سے پوچھا کہ اے ابو الحکم (عرب میں ابوجہل ابو الحکم کے نام سے پکارا جاتا تھا اسلام میں اس کے کفر وعناد کے سبب ابوجہل کا لقب دیا گیا) یہ تنہائی کا موقع ہے میرے اور تمہارے کلام کو کوئی تیسرا نہیں سن رہا ہے، مجھے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اپنا خیال صحیح صحیح بتلاؤ کہ ان کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا۔ ابوجہل نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، لیکن بات یہ ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو قصی میں ساری خوبیاں اور کمالات جمع ہوجائیں باقی قریش خالی رہ جائیں اس کو ہم کیسے برداشت کریں ؟ جھنڈا بنی قصی کے ہاتھ میں ہے حرم میں حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمت ان کے ہاتھ میں ہے۔ بیت اللہ کی دربانی اور اس کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے، اب اگر نبوت بھی ہم انہی کے اندر تسلیم کرلیں تو باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا۔ ایک دوسری روایت ناجیہ ابن کعب سے منقول ہے کہ ابوجہل نے ایک مرتبہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ کا کوئی گمان نہیں، اور نہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے ہیں، ہاں ہم اس کتاب یا دین کی تکذیب کرتے ہیں جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے ہیں (مظہری) ۔ ان روایات کی بناء پر آیت کو اپنے حقیقی مفہوم میں بھی لیا جاسکتا ہے کہ یہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور اس آیت کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کفار اگرچہ ظاہر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی تکذیب کرتے ہیں، مگر در حقیقت آپ کی تکذیب کا انجام خود اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کی تکذیب ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” جو شخص مجھے ایذاء پہنچاتا ہے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچانے کے حکم میں ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْنَعْلَمُ اِنَّہٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّہُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ يَجْحَدُوْنَ۝ ٣٣ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) اور حارث بن عامر اور اس کے ساتھیوں کی طعن وتکذیب اور دلائل نبوت کا مطالبہ آپ کو مغموم کرتا ہے اور یہ براہ راست آپ کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن یہ مشرکین آیات خداوندی کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” قد نعلم انہ “۔ (الخ) امام ترمذی (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ ابوجہل نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اس چیز کی تکذیب کرتے ہیں جو آپ لے کر آئے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ ظالم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ) ہم جانتے ہیں کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں ‘ آپ سے جو معجزات کا تقاضاکر رہے ہیں اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے : (فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ) ۔ یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ‘ ہمارا انکار کر رہے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار انہوں نے کب کیا ہے ؟ یہاں سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے ! کیا انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کہا ؟ نہیں کہا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی تہمت انہوں نے لگائی ؟ نہیں لگائی ! لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں ‘ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب تو نہیں ہو رہی ‘ تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے ‘ غصہ تو ہمیں آنا چاہیے ‘ ناراض تو ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔ یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے ‘ جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں ضرور رکھئے کہ الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اب اس ضمن میں دوسرا جواب ملاحظہ ہو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. The fact is that before the Prophet Muhammad (peace be on him) began to preach the message of God, all his people regarded him as truthful and trustworthy and had full confidence in his veracity. Only after he had begun to preach the message of God did they call him a liar. Even during this period none dared to say that the Prophet (peace be on him) had ever been guilty of untruthfullness in personal matters. Even his worst enemies never accused him of lying in any worldly affairs. When they did accuse him of falsehood, they did so in respect of his prophetic mission. Abu Jahl for instance, was one of his staunchest enemies. According to a tradition from 'Ali, Abu Jahl once said to the Prophet (peace be on him): 'We do not disbelieve you. We disbelieve your message.' On the occasion of the Battle of Badr, Akhnas b. Shariq asked Abu Jahl, when they were alone, to confide whether he considered Muhammad to be truthful or not. He replied: ' By God, Muhammad is a veracious person. He has never lied in all his life. But if every honorable office-liwa' (standard-bearing in war), siqayah ( provision of water to the pilgrims), hijabah (gaurdian ship of the ka'bah ) and nubuwah ( prophethood ) - were to fall to the share of the decendents of Qusayy, what would be left for the rest of the Quraysh?' (Ibn Kathir,vol.3, pp.17-18-Ed.) Here God consoled the Prophet(peace be on him) by telling him that by charging him with falsehood the unbelievers were calling God untruthful. Since God has endured this accusation with mild forbearance, leaving them free to persist in their blasphemy, the Prophet ( peace be on him ) need not feel undue disquiet.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :21 واقعہ یہ ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں ، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کامل اعتماد رکھتے تھے ۔ انہوں نے آپ کو جھٹلایا اس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا ۔ اور اس دوسرے دور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو ۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی ۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انا لا نکذبک ولکن نکذبُ ما جئت بہ ” ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں“ ۔ جنگ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابو جہل سے پوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ اس نے جواب دیا کہ ”خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا ، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا ؟“ اسی بنا پر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی ذات کے جھٹلانے سے اتنا زیادہ رنج نہ ہوتا، لیکن زیادہ رنج کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ آیت کے یہ معنی الفاظ قرآن کے بھی زیادہ مطابق ہیں، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج سے بھی زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(33 ۔ 34) ۔ ترمذی اور حاکم نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس روایت کو صحیح بتلایا ہے اور حاکم نے اس کو شرط شیخین پر صحیح کہا ہے کہ ابوجہل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ معاملات دنیا میں ہم تم کو سچا اور امانت دار جانتے ہیں لکن جس کلام کو تم اپنے اوپر خدا کی طرف سے اترنا بتلاتے ہو اس کی تصدیق ہم نہیں کرسکتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎ اور آنحضرت جو مشرکین کے جھٹلانے پر رنجیدہ ہوتے تھے اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یوں تسکین دی کہ تمہاری ذات خاص سے ان مشرکین کو کچھ بحث نہیں ہے بلکہ وہ ذات سے تم کو اچھا گنتے ہیں وہ تو اس سبب سے تم کو جھٹلاتے ہیں کہ تم ان کو خد کے احکام سنا کر انکا قدیم کا رواج بت پرستی چھڑانا چاہتے ہو سو اس طرح کا جھٹلانا کچھ رنج کرنے کے اور غم کھانے کے لائق نہیں ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یہ تسلی فرمائی کہ اے رسول اللہ کے قرآن میں تم کو پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کے حالات جو سنائے گئے ان سے تم کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان لوگوں کا تمہیں جھٹلانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پچھلی امتیں بھی اسی طرح رسولوں کو جھٹلاتی اور طرح طرح کی ایذا دیتی رہی ہیں جس پر انہوں نے صبر کیا اور اس صبر کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اپنے رسولوں کی مدد کی جس سے وہ سرکش قومیں غارت ہوگئیں اور آخری غلبہ اللہ کے رسولوں کو ہی ہوا تم بھی ذرا صبر کرو یہی انجام تمہارا ہونے والا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے ہجرت کے بعد رفتہ رفتہ اس وعدہ کا کچھ ظہور ہوا اس کے ثبوت کے لئے فقط ایک مکہ کی نظیر کافی ہے کہ ان آیتوں کے نازل ہونے کے وقت مکہ کا کیا حال تھا اور اب کیا ہے۔ صحیح بخاری میں خباب بن الارت (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک دن صحابہ نے مشرکین مکہ کے ظلم و زیادتی کی شکایت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش کی جس پر آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایماندار لوگ اس سے زیادہ ظلم و زیادتی اٹھا چکے ہیں ان سے بعضوں کو جتنازمین میں گاڑ دیا گیا ہے اور بعضوں کو آرے سے چیرا گیا ہے اور پھر بھی وہ الگ اپنے دین پر قائم رہے جلدی نہ کرو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو پورا کرے گا اس ظلم اور زیادتی کا نام باقی نہ رہے گا ٢ ؎۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی تسلی کی آیتوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی کامل تسلی ہجرت سے پہلے ہی ہوگئیں تھی کہ جس سے آپ صحابہ کی بھی تسلی فرمایا کرتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:33) لیحزنک۔ لام تاکید۔ یحزن مضارع واحد مذکر غائب۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر مفعول ۔ تم کو رنجیدہ کرتی ہے (یہ بات) اس کا فاعل الذین یقولون ہے یعنی وہ بات جو یہ کہہ رہے ہیں۔ یجحدون ۔ جحد جحود۔ مصدر۔ باب فتح۔ وہ انکار کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 33 تا 36 : لیحزنک (البتہ وہ تجھے رنجیدہ کرتے ہیں) ‘ یجحدون ( وہ انکار کرتے ہیں) ‘ کذبت (جھٹلائی گئی۔ (جھٹلائے گئے) اوذوا ( تکلیف دیئے گئے) لامبدل (بدلنے والا نہیں ہے) ‘ کلمت اللہ ( اللہ کی باتیں) ‘ کبر (ناگوار گزرنا) ۔ بڑا ہے) ‘ استطعت (تیری طاقت ہے) ‘ تبتغی (تو تلاش کرتا ہے) ‘ نفق (کوئی سرنگ) ‘ سلم (سیڑھی) یستجیب ( وہ جواب دیتا ہے۔ قبول کرتا ہے) یسمعون ( وہ سنتے ہیں) الموتی (مردے) یبعث (وہ اٹھاتا ہے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 36 : یہ آیات وہ تصویر پیش کررہی ہیں جو اہل کفر کی ہٹ دھرمی اور کج بحثی سے خود رسول اللہ کے دل پر گزر رہی تھی۔ یہ بھی پیش کررہی ہیں کہ آپ کیا چاہتے تھے۔ مگر اللہ کی تکوینی اسکیم کیا تھی۔ اور وہ کس طرح اپنی مصلحت سمجھا رہا تھا۔ آپ تو یہ چاہتے تھے کہ ہر کافر ایمان لے آئے اور اللہ کے عذاب سے بچ جائے۔ آپ اس کے فائدے کے متلاشی تھے مگر وہ بد بخت آپ کو اور قرآن کو جھٹلاتے تھے اور طرح طرح کی کٹھ حجتی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ کی تمام کوششوں کے باوجود وہ جہنم جانے پر تلے ہوئے تھے۔ آپ کے قلب مبارک کو سخت اذیت اور تکلیف پہنچ رہی تھی۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ یہ ظالم نادان آپ کو نہیں جھٹلا رہے ہیں۔ یہ تو اللہ کو جھٹلا رہے ہیں۔ ابو جہل نے میدان بدر میں اخنس بن شریق سے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں جھٹلاتا وہ تو سچے آدمی ہیں۔ آج تک ایک جھوٹ نہیں بولا۔ میں تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتا کہ سارے عہدے بنی قصی میں جمع ہوگئے ہیں۔ سقایہ بھی بیت اللہ کی حفاظت بھی اور اب نبوت بھی اسی خاندان کے حصے میں آگئی ہے۔ ایک روایت ناجیہ ابن کعب سے منقول ہے کہ ابو جہل نے خود ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ ہمیں آپ پر جھوٹ کا کوئی گمان نہیں اور ہ ہم آپ کی تکذیب کرتے ہیں۔ ہاں ہم اس دین کو جھٹلاتے ہیں جسے آپ لے کر آئے ہیں۔ کفار اسی منطقی تضاد کا شکار تھے۔ اگر رسول اللہ سچے تھے تو جو کچھ آپ پیش فرما رہے تھے اسے بھی سچ ہونا چاہیے تھا۔ اگر سب کچھ جو آپ پیش فرما رہے تھے وہ غلط تھا تو پھر آپ سچے نہ تھے۔ (نعوذ باللہ) ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دو نصیحتیں کی ہیں۔ اول یہ کہ کفار کی حرکتوں پر صبر کیجئے جس طرح آپ سے پہلے پیغمبروں نے صبر کیا جن کے کچھ حالات سے آپ وحی کے ذریعہ واقف ہوچکے ہیں۔ وہ ہلا ہلا مارے گئے۔ وہ چیخ اٹھے کہ اللہ کی نصرت کب آئے گی ؟ ۔ وہ آکر رہی کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ تھا جو سچ ہو کررہا۔ دوسری نصیحت جو فرمائی ہے وہ یہ کہ مشرکین اور کفار آپ سے نئے نئے معجزات طلب کررہے ہیں۔ اور آپ کی دلی خواہش ہے کہ کاش یہ معجزات آجائیں تاکہ وہ دین کی سچائیوں کو مان لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ پر ان کفار کی بےرخی ایسی ہی ناگوار گذررہی ہے تو جائیے زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کے لئے کوئی معجزہ لے آیئے۔ جو ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہماری مصلحت کیا ہے ؟ جو نہیں مانتا نہ مانے۔ وہ قیامت کے دن اپنا حشر دیکھ لے گا۔ اگر ہم چاہتے تو نبی اور کتاب کے بغیر ہی سب کو راہ ہدایت پر لے آتے۔ مگر ہم نے جو اتنے پیغمبر بھیجے اور اتنی کتابیں نازل کیں کس لئے ؟ کفار کے مقابلے میں مومنوں کی ایک تحریک برباد کرنے کے لئے ؟ مومنوں کو آزمائش میں ڈالنے کے لئے ؟ ان کی ہمتوں ‘ صلاحیتوں اور سیرتوں کو مانجھنے کے لئے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم نے جو آزادی فکر اور آزادی عقیدہ و عمل عطا کیا ہے تو اسی لئے کہ دیکھیں کون ادھر آتا ہے اور کو ن ادھر جاتا ہے۔ اللہ کی مدد یوں نہیں آجاتی اس کی چند شرطیں ہیں یعنی جب (1) تبلیغ کا پورا حق ادا ہوجائے ۔ (2 ض نیک اور صالح طبعتیں کھنچ کر ادھر آجائیں اور ان کی تنظیم بن جائے۔ (3) تحریک کے ذریعہ مومنین صالحین کی کڑی آزمائش کی جائے۔ چنانچہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمار مدد بھی اپنے وقت پر آئے گی۔ حیرت میں ڈال دینے والے معجزات دکھا کر کچی اور پھیلنے والی طبیعتوں کو ذرا اوپر کے لئے مائل کرلینا آسان ہے لیکن یہ ہماری مصلحت اور منشا نہیں ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اللہ کے نبی کی سیرت اور زندگی دیکھ کر غیب پر ایمان لائیں۔ ان ہی لوگوں کے لئے آخرت کی نجات ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ دنیا عارضی اور اس کے مقابلے میں آخرت دائمی اور اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں یہاں متقین کو ان کی نیکیوں سے بڑھ کر اجر ملنے والا ہے لہٰذا آپ کو مکذّبین کی باتوں پر دل گرفتہ اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےحساب صبر و تحمل اور عظیم حوصلہ عطا فرمایا تھا اس کے باوجود کفار کے ظلم و ستم، یہود و نصاریٰ کی سازشیں اور منافقین کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے کبھی کبھار آپ پر یشان ہوجایا کرتے تھے۔ پریشانی کا بنیادی سبب لوگوں کی ہدایت اور ان کی خیر خواہی کا جذبہ ہوا کرتا تھا۔ جس پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے نبی ! ہم آپ کی فکر مندی، لوگوں کی خیر خواہی اور شب و روز کی مشقت کو جانتے ہیں اور یہ حقیقت بھی اللہ علیم وخبیر کے علم میں ہے کہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی وجہ سے آپ کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ نبوت عطا ہونے سے پہلے یہ لوگ آپ کو صادق و امین کے نام سے جانتے تھے۔ جونہی آپ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر قَوْلُوْالَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا آوازہ بلند کیا تو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر یہ لوگ آپ کے مخالف ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے چچا ابو لہب نے بھرے مجمع میں آپ کو ان الفاظ سے مخاطب کیا : کہ کفار کے جھٹلانے کا معاملہ صرف آپ سے پیش نہیں آیا بلکہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان سب کی تکذیب کی جاتی رہی ہے لیکن وہ کفار کی ایذا رسانی اور تکذیب پر صبر و حوصلہ سے کام لیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ کی نصرت و حمایت آن پہنچتی۔ نصرت و حمایت سے مراد انبیاء ( علیہ السلام) کی اخلاقی کامیابی اور ان کے مقابلے میں دشمن کی ذلت و رسوائی ہے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء (علیہ السلام) کے مخالفین کو مختلف قسم کے عذاب اور ذلت ور سوائی سے دو چار ہونا پڑا۔ اے نبی ! آپ کو عزم و حوصلہ سے کام لینا چاہیے اور یاد رکھیے حالات کوئی بھی صورت اختیار کرلیں اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات اپنی جگہ پر اٹل اور قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی ارشادات تبدیل نہ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اللہ کا وعدہ پورا ہوا اسی طرح سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نصرت و ہدایت کا وعدہ پورا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں آپ کامیاب اور آپ کے دشمن ناکام اور نامراد ہوں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ )[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا ] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں کے بوڑھا کردینے کے بعد۔ “ مسائل ١۔ داعی حق کو مخالفین سے دل آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ کفار اللہ تعالیٰ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں۔ ٣۔ تمام انبیاء و رسل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٤۔ دین حق میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن نبی کو جھٹلانے والے لوگ : ١۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران : ١٨٤) ٢۔ آپ کو اگر انھوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں۔ (یونس : ٤١) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح اور دوسرے انبیاء۔ (الحج : ٤٢) ٥۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا ہے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ (الفاطر : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٣٣۔ مشرکین عرب عموما اور قریش کا وہ طبقہ خصوصا جو دعوت اسلامی کے مقابلے میں ڈٹا ہوا تھا اور جاہلیت میں گرفتار تھا ‘ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں شک نہ کرتا تھا ۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ کہ آپ صادق اور امین ہیں ۔ ان کے علم میں کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی نہ تھا جس میں آپ نے جھوٹ بولا ہو کیونکہ آپ رسالت سے قبل ان میں ایک طویل زمانہ رہ چکے تھے ۔ اسی طرح جو طبقات آپ کی دعوت کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے انہیں اس بات میں بھی شک نہ تھا کہ آپ بالکل سچے رسول ہیں ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے اور یہ کہ انسان اس قسم کا کلام پیش نہیں کرسکتا ۔ لیکن اس کے باوجود اپنے اس علم اور یقین کے اظہار سے انکار کر رہے تھے اور اس دین جدید میں داخل ہونے سے مسلسل انکار کرتے چلے جاتے تھے ۔ وہ یہ انکار اس لئے نہ کرتے تھے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے تھے بلکہ وہ اس لئے یہ انکار کرتے تھے کہ اس طرح ان کے اپنے اثر ورسوخ اور ان کی معاشرتی پوزیشن پر زد پڑتی تھی ۔ یہ تھی وہ اصل بات جس کی وجہ سے انہوں نے انکار اور کفر کی راہ کو اپنا لیا تھا اور اپنے باطل شرکیہ انکار پر جمے ہوئے تھے ۔ اسلامی تاریخ اور ذخیرہ احادیث میں متعدد ایسی روایات موجود ہیں جن سے قریش اور دوسرے عربوں کی اس پالیسی کا اچھی طرح اظہار ہوتا ہے ۔ وہ لوگ قرآن کے بارے میں اپنی حقیقی رائے کو چھپاتے تھے ۔ ابن اسحاق نے ابن شہاب زہری سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو سفیان ابن حرب ‘ ابو جہل ابن ہشام اور بنی زہرہ کے حلیف اخنس ابن شریق ابن عمر ابن وہب ثقفی ایک رات خفیہ طور پر نکلے تاکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سنیں ۔ آپ رات کو اپنے گھر میں نماز میں قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ہر ایک کسی خفیہ جگہ بیٹھ گیا اور تلاوت سنتا رہا ۔ ان تین افراد میں سے کوئی شخص دوسرے کے بارے میں نہ جاننا تھا ۔ یہ لوگ ساری رات قرآن کریم سنتے رہے جب صبح ہوئی تو بکھر گئے ۔ راستے میں اتفاقا ایک دوسرے کو انہوں نے دیکھ لیا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ دوبارہ کوئی یہ حرکت نہ کرے کیونکہ اگر ہمیں عام نادان لوگوں نے دیکھ لیا تو ان کے دل میں تم اچھا تاثر نہ چھوڑو گے ۔ اس قرار داد کے بعد یہ لوگ چلے گئے ۔ جب دوسری رات آئی تو ان میں سے ہر ایک پھر آکر اپنی جگہ چھپ گیا ساری رات سنتے رہے ۔ جب صبح ہوئی تو یہ لوگ پھر بکھر گئے ۔ اتفاقا راستے میں پھر ان کی ملاقات ہوگئی ۔ انہوں نے پھر پہلی رات کی طرح ایک دوسرے کو سخت وسست کہا اور چلے گئے ۔ جب تیسری رات ہوئی تو یہ پھر اپنی اپنی جگہ آکر بیٹھ گئے اور ساری رات کلام الہی سنتے رہے ۔ جب صبح ہوئی تو پھرجانے لگے اور راستے میں انہوں نے پھر ایک دوسرے کو دیکھ لیا ۔ انہوں نے کہا ‘ ہم ایک دوسرے کو نہ چھوڑیں گے جب تک کہ ہم پختہ عہد نہ کرلیں کہ پھر اس طرف نہ آئیں گے ۔ چناچہ انہوں نے پھر نہ آنے کا باقاعدہ معاہدہ کرلیا اور چلے گئے دوسرے دن صبح ہوتے ہیں اخنس ابن شریق نے اپنا عصا لیا اور ابو سفیان ابن حرب سے ان کے گھر آ کر ملا ۔ اس نے ابو سفیان سے کہا : بتاؤ ابو حنظلہ رات کو تم نے محمد سے جو کلام سنا اس کے بارے میں تمہاری حقیقی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا : ” ابو ثعلبہ ! خدا کی قسم میں نے اس سے بعض ایسی باتیں سنیں جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھتا ہوں اور بعض باتیں میں نے ایسی بھی سنی ہیں کہ جن کے معنی و مراد کو میں نہیں سمجھا ہوں ۔ “ اخنس نے کہا : ” اس خدا کی قسم جس کے نام پر میں نے حلف لیا ۔ میرا بھی یہی حال ہے ۔ اب اخنس ان کے ہاں سے نکلا اور ابوجہل کے پاس آیا ‘ اس کے گھر گیا ۔ اور اسے کہا ابو الحکم ! تم بتاؤ محمد سے تم نے جو کلام سنا اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابو جہل نے کہا : ” میں نے کہا سنا ؟ “ اور پھر کہا : ” ہمارا اور عبد مناف کا ہمیشہ مقابلہ رہا ۔ انہوں نے لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ ہم نے بھی لوگوں کو مقابلے میں خوب کھلایا ‘ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی سواریاں دینا شروع کردیں۔ انہوں نے عطیے دیئے تو ہم نے بھی عطایا کی بارش کردی یہاں تک کہ ہم گھوڑوں کے اوپر بیٹھ کر بھی گھٹنے سے گھٹنا ملا کر چلے اور ہم ایک دوسرے سے اس طرح آگے بڑھے جس طرح مقابلے کے دو گھوڑے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوگیا ہے اور اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے ۔ ہم ان کے مقابلے میں نبی کہاں سے لائیں گے ؟ خدا کی قسم ہم کبھی بھی اس پر ایمان نہ لائیں گے ۔ اور کبھی بھی اس کی تصدیق نہ کریں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ اخنس اسے چھوڑ کر اٹھ گیا ۔ ابن جریر نے آیت (قد نعلم ۔۔۔۔۔ (٦ : ٣٣) الخ کے بارے میں سدی سے بواسطہ اسباط یہ روایت نقل کی ہے کہ بدر کے موقعہ پر اخنس ابن شریق نے بنی زہرہ سے کہا : اے بنی زہرہ ‘ محمد تمہارا بھانجا ہے ‘ تمہارا حق تو یہ ہے کہ تم اپنے بھانجے کی مدافعت کرو۔ اگر وہ فی الحقیقت نبی ہے تو تم ایک نبی کے ساتھ مقاتلہ کرنے کے گناہ سے بچ جاؤ گے ۔ اگر وہ جھوٹا ہوا تو تمہارا حق تو یہ ہے کہ تم اپنے بھانجے پر دست درازی نہ کرو۔ تم رک جاؤ حتی کہ اس کی مڈبھیڑ ابوجہل سے ہوجائے ۔ اگر محمد غالب ہوا تو تم صحیح و سلامت واپس ہوجاؤ گے اور اگر محمد مغلوب ہوگیا تو بھی تمہاری قوم تم سے کوئی مواخذہ نہ کرے گی ۔ چناچہ بدر کے واقعہ کے بعد اس کا نام اخنس (علیحدہ ہونے والا ‘ چھپنے والا) پڑگیا حالانکہ پہلے اس کا نام ابی تھا ۔ اس کے بعد اخنس نے ابوجہل سے ملاقات کی ۔ یہ ملاقات تنہائی میں ہوئی ۔ اخنس نے کہا : ” ابو الحکم ‘ مجھے محمد کے بارے میں بتاؤ کہ وہ سچے ہیں یا جھوٹے ؟ یہاں قریش کا میرے اور تمہارے سوا کوئی نہیں ہے جو ہماری بات سنتا ہو ‘ ابو جہل نے کہا : ” تم برباد ہوجاؤ ‘ وہ تو سچے ہیں خدا کی قسم ۔ “ محمد نے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر قصی کی اولاد لواء ‘ سقایہ اور حجابہ کے مناصب کے ساتھ ساتھ نبوت کا مرتبہ بھی لے جائے تو قریش کے باقی قبائل کے پاس کیا رہ جائے گا ۔ “ یہی مفہوم ہے اس آیت کا ” یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ “ یہاں یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ یہ سورة مکی ہے اور یہ آیت بھی بیشک مکی ہے لیکن بدر کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا ‘ لیکن جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کسی آیت میں یہ کہتے (ذلک قولہ) اور اس کے بعد کسی واقعہ کا ذکر کرتے تو مطلب یہ نہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ کی بابت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ پر یہ آیت صادق آتی ہے اور اس واقعہ پر اس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ چاہے یہ آیت اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں نازل ہوئی ہو لہذا یہ روایت اس لحاظ سے غریب نہ ہوگی ۔ ابن اسحاق (رح) نے یزید ابن زیادہ سے روایت کی ہے ‘ انہوں نے محمد ابن کعب قرظی سے روایت کی ہے ۔ محمد نے کہا کہ مجھے یہ بتا گیا ہے عتبہ ابن ربیعہ سرداران قریش سے تھا ‘ ایک دن قریش کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مسجد حرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ۔ عتبہ نے قریش سے کہا کیا یہ مناسب ہے کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر ان کے سامنے کچھ تجاویز پیش کروں ؟ اور جو مطالبے کرے ہم انہیں پورا کردیں اور وہ ہم پر تنقید بند کر دے ‘ شاید کہ وہ مان جائے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حضرت حمزہ مسلمان ہوگئے تھے اور آپ کے ساتھی روز بروز بڑھ رہے تھے ۔ مجلس نے بالاتفاق کہا کہ تجویز بالکل درست ہے ۔ ابو الولید اٹھو اور ان سے بات کرو ۔ عتبہ اٹھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اور بولا : ” بھتیجے ! تم جانتے ہو کہ ہم میں تمہارا بلند مقام ہے ‘ افراد قبیلہ بھی کافی ہیں اور آپ کا نسب بھی بلند مرتبت ہے لیکن تم نے اپنی قوم کو ایک عظیم مصیبت میں ڈال دیا ہے ۔ قوم کا اتحاد واتفاق ختم ہوگیا ہے ‘ تم نے قوم کے افکار و عقائد کی تضحیک کی ۔ ان کے دین اور الہوں کو برا بھلا کہا اور قوم کے آباؤ اجداد جو فوت ہوگئے ہیں ان کو تم کافر اور جہنمی قرار دیتے ہو ۔ میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں تم انہیں ذرا غور سے سنو ۔ ممکن ہے کہ یہ تمہارے لئے قابل قبول ہوں ۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا : ” ابو الولید کہو ‘ میں سنتا ہوں ۔ “ اس پر عتبہ نے کہا : ” بھتیجے ! تم نے جو تحریک برپا کر رکھی ہے اگر اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ تم مال و دولت جمع کرلو تو ہم تمہارے لئے اس قدرمال جمع کردیتے ہیں کہ ہم میں تم سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ گے ۔ اگر تم لیڈر شپ چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا اتنا بڑا لیڈر بنا دیتے ہیں کہ تمہارے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہ کریں گے ۔ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں اور اگر صورت حال یہ ہے کہ جو خیالات تم پر نازل ہوتے ہیں یہ کوئی ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں تم مجبور ہو اور تم ان خیالات کو نرک نہیں کرسکتے تو ہم تمہارے لئے بڑے بڑے اطباء کا انتظام کرتے ہیں اور اس قدر خرچ کرتے ہیں کہ تم صحیح اور تندرست ہوجاؤ اس لئے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا تابع اس پر غالب آجاتا ہے اور اس کا علاج کرنا پڑتا ہے ۔ (یہ تھے تقریبا اس کے الفاظ) عتبہ نے یہ بات کی اور فارغ ہوگیا ۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی باتوں کو اچھی طرح سنتے رہے ۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا ابو الولید تمہاری بات ختم ہوگئی ۔ “ تو اس نے کہا ‘ ہاں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا ” اب تم میری بات توجہ سے سنو ‘ تو عتبہ نے کہا فرمائیے ! آپ نے پڑھنا شروع کیا ۔ (آیت) ” حم (١) تنزیل من الرحمن الرحیم (٢) کتب فصلت ایتہ قرانا عربیا لقوم یعلمون (٣) بشیرا ونذیرا فاعرض اکثرھم فھم لا یسمعون (٤) (٤١ : ١ تا ٤) ” آپ نے سورة حم السجدہ کی یہ آیات ‘ آیت سجدہ تک تلاوت کیں اور پھر سجدہ فرمایا ۔ عتبہ خاموشی سے سنتا رہا ۔ اپنے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے زمین پر رکھے اور ان پر ٹیک لگائی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ابولولید تم نے سن لیا ‘ یہ ہے میرا جواب ۔ “ عتبہ اٹھا اور اپنی محفل میں گیا ۔ انہوں نے جب عتبہ کو آتے دیکھا تو ایک دوسرے سے کہا :” خدا کی قسم ابو الولید جو چہرہ لے کر گیا تھا اب اس کا وہ چہرہ نہیں ہے ۔ “ لیکن جب وہ ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے پوچھا ابو الولید تم کیا لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس یہ بات ہے کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے کہ خدا کی قسم میں نے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا ۔ خدا کی قسم نہ وہ جادو ہے ‘ نہ شعر ہے ‘ نہ کہانت ہے ۔ اے اہل قریش ! تمہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ تم میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس شخص سے تعرض نہ کرو اور اس کی راہ نہ روکو ‘ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ‘ خدا کی قسم میں نے اس کی جو بات سنی ہے اس کے بارے میں ایک دن تم کوئی عظیم خبر سنو گے ۔ اگر اس کو عربوں نے ختم کردیا تو وہ تمہارا یہ مسئلہ حل کردیں گے ۔ اور اگر یہ شخص عربوں پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی ۔ اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور تم اس کی وجہ سے نہایت ہی خوشحال قوم بن جاؤ گے ۔ “ اس پر اہل محفل نے یک زبان ہو کر کہا : ” ابو الولید خدا کی قسم اس نے اپنی باتوں سے تم اپنی باتوں سے تم پر جادو کردیا ہے ۔ “ علامہ بغوی نے اپنی تفسیر میں حضرت جابر (رض) کی روایت نقل فرمائی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة حم السجدہ پڑھتے پڑھتے اس آیت تک پہنچے (آیت) ” فان اعرضوا فقل انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود “۔ (٤١ : ١٣) تو عتبہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلہ رحمی کا واسطہ دیا کہ ایسا نہ کہیں ‘ اس کے بعد عتبہ اپنے خاندان کے پاس چلا گیا اور قریش کی طرف نہ آیا اور اس نے اپنے آپ کو بند کرلیا ۔ اس کے بعد جب عتبہ سے اس بارے میں گفتگو کی جاتی تو وہ کہتا : ” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلہ رحمی کا واسطہ دیا کہ وہ آگے نہ بڑھیں اور کیا تمہیں علم نہیں ہے جب محمد کوئی بات کہتا ہے تو وہ ہو کر رہتی ہے ‘ اس لئے میں ڈر گیا تھا کہ کہیں تم پر بھی عذاب نازل نہ ہوجائے ۔ ابن اسحاق نے یہ روایت کی ہے ولید ابن مغیرہ کے پاس قریش کے کچھ زعماء جمع ہوئے ۔ ولید ابن مغیرہ ان میں ایک معمر دانشور تھا ۔ زمانہ حج کا تھا ۔ اس نے ان زعماء سے کہا ‘ اہل قریش موسم حج آرہا ہے اور تمام عرب وفود کی شکل میں آئیں گے اور انہوں نے تمہارے ساتھی کے بارے میں سن رکھا ہے ‘ لہذا اس کے بارے میں تم ایک رائے پر متفق ہوجاؤ اور اگر تم مختلف باتیں کرو گے تو اس طرح تم خود ایک دوسرے کی تکذیب کرو گے ۔ خود تمہاری اپنی باتیں تمہاری تردید کردیں گی ۔ انہوں نے کہا ‘ ابو شمس ! تم ہی خود تجاویز دو ‘ میں سنتا ہوں۔ انہوں نے کہا : ” ہم اسے کاہن کہیں گے ۔ “ اس نے کہا : ” یہ بات بالکل غلط ہے ‘ اس لئے کہ وہ ہر گزکاہن نہیں ہے ۔ ہم نے کاہن بہت دیکھے ہیں ‘ نہ وہ کاہنوں کی طرح گاتا گنگناتا ہے ہے اور نہ سجع ملاتا ہے ۔ “ پھر انہوں نے یہ تجویز دی کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں نہ اس کا گلا گھونٹا ہوا ہے ‘ نہ اس کے دل میں وسوسے آتے ہیں ‘ نہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر انہوں نے تجویز کیا کہ اسے شاعر کہنا چاہئے تو اس نے کہا : کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر بھی نہیں ہیں ۔ ہم اشعار کو اچھی جانتے ہیں ‘ رجز ‘ ہزج ‘ قریضہ ‘ مقبوضہ اور مبسوطہ اس کی اقسام ہیں لہذا قرآن شعر کے زمرے میں نہیں آتا ۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں انہیں ساحر کہنا چاہیے ۔ اس پر اس نے کہا : کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر بھی نہیں ہیں ۔ ہم نے جادوگروں اور ان کے جادوگرانہ کرتبوں کو دیکھا ہے ۔ وہ نہ پھونک جھاڑ کا کام کرتا ہے اور نہ تعویذ گنڈوں کا ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ابو شمس پھر تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کہیں ۔ انہوں نے کہا : خدا کی قسم ‘ ان کی باتوں میں بڑی مٹھاس ہے اس کا اصل پھل دار ہے اور اس کی شاخیں بار آور ہیں اور ان باتوں میں سے جس کا بھی تم اظہار کرو گے لوگ انہیں غلط سمجھیں گے ۔ میرے خیال میں اگر اس کلام کے بارے میں کوئی معقول بات کہی جاسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ تم محمد پر ساحر ہونے کا الزام عائد کرو کہ وہ ایسی جادو بھری باتیں کرتا ہے جن کی وجہ سے باپ اور بیٹے کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ بھائی اور بھائی کے درمیان دشمنی پیدا ہوجاتی ہے ۔ میاں اور بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور ایک شخص اپنے خاندان سے کٹ جاتا ہے ۔ چناچہ یہ لوگ یہ بات لے کر پھیل گئے اور موسم حج میں تمام راستوں پر بیٹھ گئے ‘ جو شخص بھی آتا یہ لوگ اسے ڈراتے اور خبردار کرتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام سے لوگوں کو باخبر کرتے ۔ ابن جریر نے عبدالاعلی ‘ محمد ابن ثورہ ‘ معمر عبادہ ابن منصور کے واسطوں سے عکرمہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ولید ابن مغیرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ۔ آپ نے اسے قرآن کریم سنایا ۔ اس پر قرآن کریم کا بہت ہی اثر ہوا ۔ اس واقعہ سے جب ابو جہل ابن ہشام خبردار ہوا تو وہ ولید کے پاس آیا اور اسے کہا کہ تمہاری قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ تمہارے لئے دولت جمع کرے تو ولید نے کہا یہ کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ آپ کے لئے بطور چندہ وہ جمع کر رہے ہیں اس لئے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے تھے اور اس کی جانب سے عطیے کے خواہاں تھے ۔ (یہ خبیث اس کی عزت نفس پر چوٹ لگانا چاہتا تھا کیونکہ یہ شخص اپنے آپ کو مالدار سمجھتا تھا اور اپنے مال پر فخر کرتا تھا) اس نے کہا کہ آیا قریش کو معلوم نہیں ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ؟ تو اس پر ابو جہل نے کہا ‘ پھر آپ کے لئے مناسب ہے کہ محمد کے بارے میں کوئی ایسی بات کہیں جس سے معلوم ہو کہ تم اسے سخت ناپسند کرتے ہو اور اس کے خلاف ہو ۔ تو ولید نے کہا : کہ ” تم بتاؤ میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ خدا کی قسم تم میں کوئی ایک بھی میرے مقابلے میں اصناف شعر سے زیادہ واقف نہیں ہے ‘ نہ مجھ سے زیادہ رجزیہ اشعار کو جانتا ہے ‘ نہ قصائد کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔ نہ کوئی جنات کے اشعار کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ خدا کی قسم محمد کی کوئی بات شعر کے زمرے میں نہیں آتی ۔ خدا کی قسم وہ جو بات کرتا ہے وہ بہت ہی میٹھی بات ہے ‘ اس کی ظاہری شکل نہایت ہی پالش شدہ ہے ۔ اس کے سامنے جو چیز آتی ہے وہ اسے توڑ دیتی ہے ۔ الغرض اس کی بات برتر اور بلند رہتی ہے اور اس پر کوئی بات بلندی حاصل نہیں کرسکتی ۔ ابو جہل نے کہا ‘ خدا کی قسم لوگ تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے ۔ تمہیں بہرحال کچھ کہنا ہی پڑے گا ۔ اس نے کہا ” پھر مجھے سوچنے دیجئے جب اس نے اچھی طرح سوچا تو پھر کہا : ” یہ ایک جادو ہے جو پر اثر ہے اور کسی اور ذریعے سے آتا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” ذرنی ومن خلقت وحیدا۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علیھا تسعۃ عشر) ایک دوسری روایت میں ہے کہ قریش نے کہا کہ اگر ولید صابی بن گیا تو تمام قریش صابی بن جائیں گے ۔ ابو جہل نے کہا : ” اس کا بندوبست میں کرلوں گا ۔ فکر مت کرو “۔ اس کے بعد وہ اس سے ملا اور اس نے بڑے غور وفکر کے بعد یہ بات کہی کہ ” یہ جادو بھرا کلام ہے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کی اولاد اور اس کے ملازمین کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ “ ان تمام باتوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ آپ ان تک جو پیغام پہنچا رہے ہیں اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کوئی جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ وہ ان روایات کے مطابق بعض دوسری وجوہات واسباب کی وجہ سے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے ۔ ان اسباب میں سے سب سے بڑا سبب یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس دعوت وتحریک کے نتیجے میں ان سے ان کی موجود سیادت و قیادت چھن جائے گی ‘ جس پر وہ غاصبانہ طور پر فائز تھے ۔ حالانکہ سیادت و قیادت اور حاکمیت کا مقام خاصہ خدا تھا اور یہی مفہوم ہے ۔ (لا الہ الا اللہ) کا جو دعوت اسلامی کی اساس ہے ۔ یہ لوگ بہرحال عربی زبان اور اس کے مفہومات سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ کلمہ شہادت کے اس مفہوم کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ اس لئے کہ کلمہ شہادت تمام حاکمیتوں اور قیادتوں کے خلاف ایک انقلابی دعوت تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کی زندگی سے غیر اللہ کی بندگی کا قلع قمع کردیا جائے ۔ (آیت) ” قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُولُونَ فَإِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجْحَدُونَ (33) وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ فَصَبَرُواْ عَلَی مَا کُذِّبُواْ وَأُوذُوا (34) (٦ : ٣٣ : ٣٤) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا۔ “ یہاں الظالمون سے مراد المشرکون ہے اور قرآن کریم کے بیشتر مقامات میں الظالمون سے مراد المشرکون ہی ہوتا ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طیب خاطر کے لئے بات آگے بڑھتی ہے اور وہ حقیقی اسباب بیان کردیئے جاتے ہیں جن کی بناء پر جھٹلانے والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں۔ حالانکہ آیات الہیہ کی صداقت اور سچائی بالکل بدیہی ہے ۔ پھر اس سے آگے یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہم منصب رسولوں کے ساتھ پوری انسانی تاریخ میں مکذبین نے یہی رویہ اختیار کیا ہے ‘ جن کے کچھ حالات قرآن نے بھی بیان کیے ہیں کہ رسولوں نے کن کن مشکل حالات میں اپنا کام جاری رکھا ۔ انہوں نے مشکلات پر صبر کیا یہاں تک کہ اللہ کی مدد آپہنچی ۔ یہ اشارہ اس لئے کیا گیا کہ سنت الہیہ کی یہی شان ہے ۔ سنت الہیہ کبھی نہیں بدلتی اور کسی کی تجاویز اور کسی کی خواہشات کے بدلے اللہ کی سنت نہیں بدلتی ۔ نیز کسی کے جھٹلانے کی وجہ سے ‘ کسی کی تکالیف کی وجہ سے اور کسی کی ذاتی مشکلات کی وجہ سے سنت الہیہ میں کبھی فیصلے قبل بر وقت نہیں کیے جاتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین مکہ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں معالم التنزیل ج ٢ ص ٩٣ میں لکھا ہے کہ اخنس بن شریق کی ابو جہل سے ملاقات ہوگئی۔ اخنس نے ابو جہل سے کہا کہ اس وقت یہاں تیرے اور میرے سوا کوئی نہیں تو مجھے سچی بات بتادے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعوے میں سچے ہیں یا جھوٹے ؟ ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ! اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن ہمارے جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ جب بنو قصی (جو قریش کا ایک قبیلہ تھا جس میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے) کے پاس علمبر داری بھی چلی جائے اور سقایہ (یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت) بھی چلی جائے اور کعبہ شریف کی کلید برادری بھی چلی جائے اور مجلس شوریٰ کی سرداری بھی انہی کو پہنچ جائے اور نبی بھی انہیں میں سے ہوجائے تو باقی قریش کے لیے کیا بچے گا ؟ اور بعض روایات میں ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر تہمت نہیں دھرتے اور نہ آپ کو جھٹلاتے ہیں ہم تو اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کی دعوت لے کر آپ تشریف لائے اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ ان کو آپ کی نبوت و رسالت میں اور آپ کے دعوے کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں یہ آپ کو سچا سمجھتے ہیں لیکن ان کو اللہ کی آیات سے ضد ہے۔ اللہ کی آیات ان کے اعتقادات اور ان کے شرک کے خلاف کھول کھول کر بیان کر رہی ہیں اس لیے ان کے مخالف ہیں اور ان کو جھٹلاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38 یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نہایت محبت آمیز انداز میں تسلی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں پر نہایت شفیق اور مہربان تھے۔ اور آپ کی آرزو تھی کہ سب لوگ ایمان لے ئ آئیں اور جہنم کی آگ سے بچ جائیں مگر معاندین ماننے کے بجائے الٹے نہ صرف آپ کی تکذیب کرتے بلکہ آپ سے استہزاء کرتے اور تکلیفیں دینے کی کوششیں کرتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ مشرکین کی تکذیب اور ایذا کی باتیں آپ کو غم میں ڈال رہی ہیں لیکن آپ غم نہ کریں یہ ظالم آپ کو نہیں جھوٹا کہتے آپ کو تو اب بھی صادق و امین سمجھتے ہیں لیکن محض ضد وعناد کی وجہ سے اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ ایک دفعہ اخنس بن شریق اور ابو جہل کہیں تنہائی میں ملے تو اخنس نے ابو جہل سے کہا کہ اس وقت ہم دونوں کے سوا یہاں اور کوئی نہیں، سچ بتاؤ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے یا جھوٹا۔ ابو جہل نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ محمد نے کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ سچا ہے لیکن بات یہ ہے کہ جب تمام اعزازات تو اس کا خاندان لے گیا تو باقی ہمارے حصہ میں پھر کیا رہ گیا اس لیے ہم اس کی نبوت کو کس طرح مان لیں فقال ابو جھل ویحک واللہ ان محمدا لصادق و ما کذب محمد قط و لکن اذا ذھبت بنو قصی باللواء والسقایۃ والحجابۃ والنبوۃ فماذا یکون لسائر قریش (ابن کثیر ج 2 ص 130) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33 اے پیغمبر ہم کو خوب معلوم ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ منکر جو کچھ کہتے ہیں اور جو دل آزار باتیں یہ کرتے ہیں وہ باتیں آپ کے لئے رنجیدہ ہوتی ہیں اور وہ باتیں آپ کو آزردہ خاطر کرتی ہیں سو وہ منکر درحقیقت آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم تو براہ راست آیات الٰہی کا انکار کرتے ہیں یعنی ان کا مقصد ا صلی اللہ کی آیتوں کی تکذیب اور ان کا انکار ہے۔