Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 35

سورة الأنعام

وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۵﴾ النصف

And if their evasion is difficult for you, then if you are able to seek a tunnel into the earth or a stairway into the sky to bring them a sign, [then do so]. But if Allah had willed, He would have united them upon guidance. So never be of the ignorant.

اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ توکرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتاتو ان سب کو راہ راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہو جایئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ ... If their aversion is hard on you, and you cannot be patient because of their aversion, ... فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الاَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاء ... then if you were able to seek a tunnel in the ground or a ladder to the sky... Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented, "If you were able to seek a tun... nel and bring them an Ayah, or go up a ladder in the sky and bring a better Ayah than the one I (Allah) gave them, then do that." Similar was reported from Qatadah, As-Suddi and others. ... فَتَأْتِيَهُم بِأيَةٍ ... so that you may bring them a sign. Allah's statement, ... وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ And had Allah willed, He could have gathered them together upon true guidance, so be not you one of the ignorant. is similar to His statement, وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لاامَنَ مَن فِي الااَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا And had your Lord willed, those on earth would have believed, all of them together. (10:99) Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said about Allah's statement, وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى (And had Allah willed, He could have gathered them together upon true guidance), "The Messenger of Allah was eager that all people believe and be guided to follow him. Allah told him that only those whose happiness Allah has written in the first Dhikr will believe." Allah's statement,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاندین و کافرین کی تکذیب (جھٹلانا) سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ حتٰی کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آ... سمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشانی ان کو لا کردکھائیں، اول تو ایسا کرنا آپ کے لئے محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کرسکتے البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اس کے لیے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔ 35۔ 2 یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] کفار کا حسی معجزہ کا مطالبہ اور آپ کی خواہش :۔ رسول اللہ کو تبلیغ کرتے اور کفار کی سختیاں سہتے ایک طویل مدت گزر گئی اور کافروں کی اکثریت انکار ہی کرتی رہی تو اس سے آپ کو سخت گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ کبھی کبھار آپ کو یہ خیال بھی آجاتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کافروں کو کوئی حسی معجزہ دکھلاوے تو ام... ید ہے یہ لوگ ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آرزو کا جواب یہ دیا کہ کوئی حسی معجزہ دکھا کر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور بنادینا ہمارا طریقہ نہیں ہاں اگر آپ ایسا ہی چاہتے ہیں تو خود ہی اپنا زور لگا دیکھیں۔ زمین میں کوئی سرنگ لگا کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کا مطلوبہ معجزہ لاسکتے ہیں تو لے آئیں مگر یہ بات میری مشیئت کے خلاف ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو معجزہ کے بغیر بھی انہیں ایمان لانے اور سب لوگوں کو ایمان پر اکٹھا کردینے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر اس سے وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس کی خاطر انسان کو عقل اور قوت ارادہ و اختیار دے کر آزمائش کی خاطر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ [٤٠] یعنی اللہ کی مشیئت کے خلاف سوچنا یا تدبیر اختیار کرنا نادانی کی بات ہے کیونکہ اللہ کی مشیئت تو بہرحال پوری ہو کے رہے گی اور ایسا سوچنے والے کو شکست اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے جھٹلانے سے جو تکلیف اور دل شکنی ہوتی تھی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کی بےرخی اگر بہت زیادہ ہی آپ پر شاق گزر رہی ہے تو زمین میں سرنگ نکال کر یا آسمان پر سیڑھی کے ذریعے سے چڑھ کر آپ کوئی ... معجزہ لا کر ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں، تو آپ ایسا بھی کر کے دیکھ لیجیے، لیکن یہ چونکہ آپ سے ہو نہیں سکتا تو رنجیدہ ہونے سے کیا فائدہ، بہتر ہے کہ انجام کار ہم پر چھوڑتے ہوئے پورے اطمینان اور پورے سکون کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگے رہیں۔ کفار کس طرح کے معجزات کا تقاضا کرتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٧) ۔ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ ۔۔ : یعنی ایسا خیال مت کیجیے کہ کوئی نشانی ( معجزہ) لانے سے یہ راہ ہدایت پر ضرور ہی آجائیں گے، کیونکہ ہدایت سراسر اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر ہرگز کوئی غم یا افسوس نہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی کہ سب لوگ ایمان لے آئیں تو اسے یہ کام کچھ مشکل نہ تھا، اس نے صرف ” کُنْ “ کہنا تھا کہ سب لوگ ایمان لے آتے اور ہدایت پر جمع ہوجاتے۔ دیکھیے یونس (٩٩) مگر ایسا کرنا اس کی مشیت اور حکمت کے خلاف ہے، جو بظاہر یہ ہے کہ اس سے اختیار دے کر آزمانے کا سلسلہ ختم ہوجاتا۔ بہر حال اپنے کاموں کی حقیقی حکمت و مصلحت وہی جانتا ہے، لہٰذا اس قسم کے نظریے کو اپنے دل میں جگہ نہ دیجیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر اور اس کی مصلحتوں پر ایمان رکھ کر تسلی حاصل کریں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَہُمْ بِاٰيَۃٍ۝ ٠ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَي الْہُدٰي فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۝ ٣٥ كَبُرَ ( مشقت) وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : ... وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/ 45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ سُّلَّمُ سيڑهي والسُّلَّمُ : ما يتوصّل به إلى الأمكنة العالية، فيرجی به السّلامة، ثمّ جعل اسما لكلّ ما يتوصّل به إلى شيء رفیع کالسّبب، قال تعالی: أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ [ الطور/ 38] ، وقال : أَوْ سُلَّماً فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 35] ، وقال الشاعر : ولو نال أسباب السماء بسلّم والسَّلْمُ والسَّلَامُ : شجر عظیم، كأنه سمّي لاعتقادهم أنه سلیم من الآفات، والسِّلَامُ : الحجارة الصّلبة . السلم اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بلند مقامات پر چڑھا جاتا ہے ۔ تاکہ سلامتی حاصل ہو پھر سبب کی طرح ہر اس چیز کو مسلم کہا گیا ہے جو کسی بلند جگہ تک پہنچنے کا وسیلہ بنے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر ( چڑھ کر آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں أَوْ سُلَّماً فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 35] یا آسمان میں سیڑھی ( تلاش کرو ) اور شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 236 ) ولو نال أسباب السماء بسلّمگو سیڑھی لگا کر آسمان پر کیوں نہ چڑھ جائے ۔ اور سلم وسلام ایک قسم کے بڑے درخت کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی آفت سے محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ السلام ایک قسم کا سخت پتھر ( اس کا واحد سلمۃ ہے ) الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) اور اگر آپ میں یہ قدرت ہے کہ زمین کے اندر جانے کے لیے کوئی سرنگ یا آسمان پر چڑھنے کے لیے کوئی راستہ یا اور کوئی سبب تلاش کرکے پھر ایسا معجزہ لے کر آؤ، جس کا یہ لوگ مطالبہ کررہے ہیں تو پھر ایسا کرو مگر اللہ کی مشیت و ارادے میں ان کے غلط کاموں کی بدولت ان کے لیے کفر ہی لکھا ہوا ہے، ایمان تو صرف و... ہی حضرات لاتے ہیں جو امر حق کی تصدیق کرتے ہیں یا یہ کہ نصیحت والی باتوں کو سمجھتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط) ہمارا تو فیصلہ اٹل ہے کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ آپ لے آئیں جہاں سے لاسکتے ہیں۔ غور کریں کس انداز میں حضور (صلی اللہ علیہ...  وآلہ وسلم) سے گفتگو ہو رہی ہے۔ (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی) اگر اللہ چاہتا تو آن واحد میں سب کو صاحب ایمان بنا دیتا ‘ نیک بنا دیتا۔ (فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ ) اس معاملے میں آپ جذباتی نہ ہوں۔ یہی لفظ سورة ہود میں حضرت نوح (علیہ السلام) سے خطاب میں آیا ہے۔ جب حضرت نوح ( علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے اللہ میرا بیٹا میری نگاہوں کے سامنے غرق ہوگیا جب کہ تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل کو تو بچا لے گا : (اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ) (ھود : ٤٥) میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت سخت تھا : (اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ ) میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ذرا غور کریں ‘ یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس نے ساڑھے نوسو برس تک اللہ کی چاکری کی ‘ اللہ کے دین کی دعوت پھیلائی ‘ اس میں محنت کی ‘ مشقت کی اور ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں۔ لیکن اللہ کی شان بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ! اسی لیے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر سب کو ہدایت پر لانا مقصود ہو تو ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم آن واحد میں سب کو ابوبکر صدیق (رض) کی مانند بنا دیں ‘ اور اگر ہم سب کو بگاڑنا چاہیں تو آن واحد میں سب کے سب ابلیس بن جائیں۔ مگر اصل مقصود تو امتحان ہے ‘ آزمائش ہے۔ جو حق پر چلنا چاہتا ہے ‘ حق کا طالب ہے اس کو حق مل جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23. The Prophet (peace be on him) saw that even though he had spent a long time admonishing his people, they did not seem inclined to heed his call. As a result he sometimes wished for the appearance of some extraordinary sign of God that would undermine the stubbornness of his people and lead them to accept his guidance. This verse embodies God's response to the Prophet's desire. He is told not t... o be impatient. He must persist in his striving and continue to work. in conformity with God's directive. Had it been God's purpose to work miracles, He would have done so. But God did not consider that to be either the appropriate method for bringing to a successful completion the required intellectual and moral revolution or for the evolution of a sound, healthy civilization. Well, then, if the Prophet (peace be on him) could not bear patiently with the attitude of stubbornness and rejection prevalent among his people, and if he thought it necessary to make them witness a tangible sign of God, let him muster all his strength and try to cleave the earth, or climb a ladder to the heaven and bring forth a miracle powerful enough to change the unbelief of the unbelievers into belief. He is told, however, that in this regard he should not expect God to fulfil his wish, for such things have no place in God's scheme. 24. Had it been required that all people should be driven to the Truth, there would have been no need to send Prophets, to reveal heavenly Books, to direct believers to engage in struggles against unbelievers, and to make the message of Truth pass through the necessary stages until fulfilment is reached. The result could have been achieved by a single sign of God's creative will. God, however, did not want things to happen that way. He preferred the Truth to be set before people with its supporting arguments so that by a proper exercise of their rational judgement, they should recognize it for what it was and thereafter freely choose to embrace it as their faith. By moulding their lives in conformity with this Truth such people should demonstrate their moral superiority over the devotees of falsehood. They should continually attract men of sound morals by the force of their arguments, by the loftiness of their ideals, by the excellence of their principles and by the purity of their lives. They should thus reach their goal - the establishment of the hegemony of the true faith - by the natural and gradual escalation of strife against falsehood. God will guide them in the performance of this task and will provide them with whatever help they merit during the various stages of their struggle. But if anyone wishes to evade this natural course and wants God to obliterate corrupt ideas and to spread healthy ones in their stead, to root out a corrupt civilization and put a healthy one in its place by exercising His omnipotent will, let him know that this will not come about. The reason is that such is contrary to the scheme according to which God has created man as a responsible being, bestowed upon him a degree of power which he may exercise, granted him the freedom to choose between obedience and disobedience to God, awarded him a certain term of life in order to demonstrate his worth, and determined that at an appointed hour He will judge him for either reward or punishment in the light of his deeds.  Show more

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :23 نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے ان لوگوں کا کفر ٹوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کرلیں...  ۔ آپ کی اسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو ۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیت صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے ۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے کسی محسوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا ۔ مگر ہم سے امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :24 یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوت حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی ۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا ۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا ۔ اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکر صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اس پر ایمان لائیں ۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوق ثابت کریں ۔ انسانوں کے مجموعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین ، اپنے بہتر اصول زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں ۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامت دین حق کی منزل تک پہنچیں ۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا ۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت قاہرہ کے زور سے افکار فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکر صالح پھیلا دے اور تمدن فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیت صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے ، اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں ، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے ، امتحان کی مہلت عطا کی ہے ، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: آنحضرتﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے بہت سے معجزات عطا فرمائے تھے، جن میں سب سے بڑا معجزہ خود قرآنِ کریم تھا، کیونکہ آپ کے امی ہونے کے باوجود یہ فصیح وبلیغ کلام آپ پر نازل ہوا، جس کے آگے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے گھٹنے ٹیک دئیے، اور کسی نے وہ چیلنج قبول نہ کیا جو سورۂ بقرہ (۲۳:۲) وغیرہ میں کیا گیا تھا... ، اسی کی طرف سورۂ عنکبوت (۵۱:۲۹) میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تنہا یہی معجزہ ایک حق کے طلب گار کے لئے کافی ہونا چاہئے تھا، لیکن کفارِ مکہ اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے ہر روز نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں جس قسم کے بیہودہ مطالبات وہ کرتے تھے، ان کی ایک فہرست قرآنِ کریم نے سورۂ بنی اسرائیل (۹۳-۸۹:۱۷) میں بھی بیان فرمائی ہے۔ اس پر کبھی کبھی آنحضرتﷺ کو بھی یہ خیال ہوتا تھا کہ اگر ان کے فرمائشی معجزات میں سے کوئی معجزہ دکھادیا جائے توشاید یہ لوگ ایمان لاکر جہنم سے بچ جائیں۔ اس آیت میں آنحضرتﷺ سے مشفقانہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ درحقیقت ان کے یہ مطالبات محض ہٹ دھرمی پر مبنی ہیں اور جیسا کہ پیچھے آیت نمبر۲۵ میں کہا گیا ہے، یہ اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں گے تب بھی ایمان نہیں لائیں گے، اس لئے ان کے مطالبات کا پورا کرنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کی اس حکمت کے خلاف ہے جس کی طرف اشارہ آگے آیت نمبر : ۳۷ میں آرہا ہے، ہاں اگر آپ خود ان کے مطالبات پورے کرنے کے لئے ان کے کہنے کے مطابق زمین کے اندر جانے کے لئے کوئی سرنگ بناسکیں یا آسمان پر چڑھنے کے لئے سیڑھی ایجاد کرسکیں تو یہ بھی کر دیکھیں اور ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے، اس لئے یہ فکر چھوڑدیجئے کہ ان کے منہ مانگے معجزات انہیں دکھائے جائیں، پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اگر چاہتا توسارے اِنسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنادیتا، لیکن درحقیقت اِنسان کو دُنیا میں بھیجنے کا بنیادی مقصد امتحان ہے، اور اس امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ اِنسان زور زبردستی سے نہیں، بلکہ خود اپنی سمجھ سے کام لے کر ان دلائل پر غور کرے جو پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں، اور پھر اپنی مرضی سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لائے۔ انبیائے کرام لوگوں کی فرمائش پر نت نئے کرشمے دکھانے کے لئے نہیں، ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں، اور آسمانی کتابیں اس امتحان کو آسان کرنے کے لئے نازل کی جاتی ہیں، مگر ان سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں حق کی طلب ہو۔ اور جو لوگ اپنی ضد پر اڑے رہنے کی قسم کھاچکے ہوں، ان کے لئے نہ کوئی بڑی سے بڑی دلیل کار آمد ہوسکتی ہے، نہ کوئی بڑے سے بڑا معجزہ۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(35 ۔ 36) ۔ ابو صالح کی روایت سے ابن جوزی نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ آپ کی ہجرت سے پہلے مکہ میں تشریف رکھنے کے زمانہ میں ہی سب قریش ایمان لے آویں اس آرزو کے س... بب سے جو معجزے قریش چاہتے تھے آپ کا دل چاہتا تھا کہ فورًا اس معجزہ کا ظہور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاوے لیکن علم الٰہی میں ہر کام کا وقت مقرر ہے وقت سے پہلے کوئی کام نہیں ہوتا ازلی قرار دادیوں تھی کہ فتح مکہ کے بعد مکہ میں اسلام عام طور پر پھیلے اور اس بائیس برس کے عرصہ میں جو زمانہ آپ کی نبوت اور فتح مکہ کا ہے قریش میں سے جتنے آدمی علم ازلی میں شقی ٹھیر چکے ہیں وہ مکہ میں عام اسلام پھینلے سے پہلے بدر کی لڑائی میں کفر کی حالت میں مارے جاویں اس لئے بعض معجزوں کا ظہور اس وقت خلاف مصلحت الٰہی تھا چناچہ حارث بن عامر اور چند قریش نے ایک روز اکٹھے ہو کر آپ سے چند معجزوں کا ظہور چاہا اور آپ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فور ًا ان معجزوں کا ظہور ہوجاوے تو شاید یہ لوگ اسلام لے آویں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ وقت سے پہلے اگر تم سے ہو سکے تو تم ان کے ایمان لانے کے لئے زمین آسمان کو ایک کر دو اور زمدین کے اندر کی اور آسمان کے اوپر کی سب نشانیاں معجزہ کے طور پر لے آؤ تو ہوگا وہ ی کہ ازل میں جن لوگوں کا حق بات کی طرف کان لگانا اور اسلام لانا ٹھہر چکا ہے وہی اسلام لاویں گے اور جن کا حالت کفر میں مرنا ٹھہر چکا ہے وہ اس یحال میں مر کر قیامت کے دن وہ اسی حالت میں اللہ کے روبرو آویں گے ہاں اگر اللہ چاہے تو ان سب کو ابھی ہدایت آسکتی ہے مگر قرار داد ازلی کے موافق نہ اللہ چاہے گا نہ ایسا ہوگا صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے کے پچاس ہزر برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے وال ہے اس سب کا اندازہ کر کے اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے ٢ ؎ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے سب چیزوں کا اندازہ جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس کو علم الٰہی کا نتیجہ کہتے ہیں اور یہ علم الٰہی کے موافق دنیا کا حال لوح محفوظ میں جو لکھا گیا ہے اس کو قضاو قدر کہتے ہیں اسی قضا وقدر کے موافق دنیا بھر کے قیامت تک کے کام چلیت ہیں اور قیامت کے قائم ہونے پر اسی کے موافق جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جائیں گے اس کے مخالف اب کچھ نہیں ہوسکتا اسی واسطے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں حضرت نے فرمایا کہ جو لکھا جانا تھا وہ لکھا جا کر اب تو قلم خشک بھی ہوچکا ١ ؎ اس قضاوقدر کے مسئلہ میں صحابہ کو شبہ ہوابھی پڑا چناچہ موطا، ترمذدی اور ابوداؤد میں حضرت عمر (رض) کی روایت ہے کہ آنحضرت نے جب یوم میثاق کا ذکر فرما کر یہ فرمایا کہ اسی روز اہل جنت اور اہل دوزخ کی ارواحیں قضاوقدر کے موافق چھٹ چکی ہیں تو بعض صحابہ نے کہا کہ حضرت پھر ہم عمل کس لئے کریں قضاو قدر میں ہمارا جنت میں جانا لکھا ہوگا تو بغیر عمل کے ہم جنت میں جاسکتے ہیں آپ نے فرمایا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت پیدا کیا ہے ان سے خود اللہ تعالیٰ اسی طرح کے کام کرالیتا ہے ٢ ؎ اتنی بات اور جان لینے کے قابل ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے مثلاً ابو جہل کے کفر اور ابو سفیان کے اسلام کا اندازہ کیا ہے اس وقت ان دونوں روحوں کو کچھ مجبور کر کے انداز نہیں کیا بلکہ یہ اندازہ ہے کہ دنیا جب پیدا کی جاوے گی اجسام جسیں گے اور روحوں کا تعلق اجسام سے ہوگا اور ان کو ہر طرح کے کے نیک و بد عمل کرنے کا اختیار دیا جاوے گا تو ابو جہل سے کفر کے کام ہوں گے اور ابوسفیان سے کچھ دنوں کفر کے کام اور کچھ دنوں اسلام کے کام ہوں گے اسی کے موافق لوح محفوظ میں لرھا گیا ہے غرض لکھنے سے پہلے کچھ مجبور نہ تھی اور اب لکھنے کے مخالف کچھ ہو نہیں سکتا امور تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے چند روایتیں ہیں اور ان میں بعض ضعیف بھی ہیں اس لئے ابن جوزی سے یہ شان نزول کی روایت جو لی گئی ہے اس میں ابو صالح کا پتہ دے دیا ہے تاکہ ضعیف روایت کا شبہ نہ پڑے کیونکہ ابو صالح کے سلسلہ میں جب تک محمد بن مروان سدی صغیر شریک نہ ہو ابو صالح کی روایت مقول ہے اور اس میں محمد بن مروان شریک نہیں ہے۔{ وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الجْاَھِلِیْنَ } اس کا مطلب یہ ہے کہ ارادہ علم کا تابع ہے کیونکہ ہر کام کے کرنے نہ کرنے کا خیال پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے پھر اس کام کے کرنے نہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے اس لئے علم ازلی الٰہی میں جو لوگ دوزخ کے قابل قرار پاچکے ہیں ان کو مجبور کر کے راجہ راست پر لانے کا اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہیں ہے کس لئے کہ یہ بات اللہ کے علم ازلی کے برخلاف ہے اس واسطے اے رسو اللہ کے بعض اہل مکہ تمہاری نصیحت کو نہ مانیں تو نہ اس کا کچھ رنج کرنا نہ اسرے اہ لم کہ کو ان کی خواہش کے موافق معجزات دکھاکر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاوے یہ امر علم اور ارادہ الٰہی کے برخلاف ہے غرض اس طرح کی کوشش نادانوں کا کام ہے اس سے اے رسول اللہ کے تم کو بچنا چاہیے بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی دو قسمیں ٹھہرائی ہیں ایک ارادہ شرعی ہے دوسرا ارادہ تقدیری۔ ارادہ شرعی فقط خلقت کی فرمانبرداری اور نافرمانی سے متعلق ہے اور ارادہ تقدیری خلقت کی ہر حالت سے متعلق ہے۔ اس قول کے موافق معنی آیت کے یہ ہیں کہ علم ازلی کے موافق جو لوگ اللہ کے ارادہ تقدیر میں نیک نہیں قرار پائیں گے وہ ارادہ شرعی کی فرمانبرداری کے راستہ سے ہمیشہ دور بھاگتے رہیں گے ان کے حق میں راہ راست پر لانے کی کوشش بےسود ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نصیحت کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے ١ ؎۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بری زمین میں مینہ رائگاں ہے اس طرح ازلی بد لوگوں کے حق میں نصیحت رائگاں ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:35) کبر۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ باب کرم یکرم۔ اس باب میں اس کا مصدر۔ کبر کبر اور کبارۃ آتا ہے جس کے معنی بڑا ہونا۔ کبر شاق ہے۔ دشوار ہے۔ ناگوار ہے ۔ اعراضھم۔ ان کی روگردانی۔ فاعل ہے کبر کا۔ ان تبتغی۔ کہ تو ڈھونڈھے یا تلاش کرے۔ ابتغاء سے مضارع واحد مذکر حاضر۔ منصوب بوجہ عمل ان۔ نفقا۔ اسم منصوب مفعول... ۔ سرنف۔ نافقاء اور نفقۃ گوہ کا لیٹ جس کے کم از کم دو منہ ہوتے ہیں۔ ایک دہانے سے گوہ داخل ہوتی ہے اور جب شکاری اس سوراخ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ دوسرے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ نفاق اور منافقت اصطلاح قرآنی میں اسی دو رخی کا نام ہے۔ سلما۔ اسم منصوب مفعول ۔ سیٹھی ۔ زینہ۔ سلم کی جمع سلالم اور سلالیم ہے ۔ سلم ۔ السلام ۃ سے مشتق ہے۔ فتاتیہم۔ تو لے آئے ان کے پاس۔ فان استطعت جملہ شرط ہے جس کا جواب فافعل محذوف ہے۔ عبارت یوں ہوگی فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السماء فتاتیہم بایۃ فافعل (اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ ڈھونڈھ نکالے زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان تک جانے کے لئے کوئی سیڑھی کہ لے آئے ان کے پاس کوئی معجزہ تو کر دیکھ) ۔ یہ شرط ۔ اور ان کان کبر علیک اعراضھم جواب شرط ہے۔ بعض کے نزدیک آیت ہذا میں خطاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن نہی کا مدعا یہ نہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا کر رہے تھے اور آپ کو منع کیا گیا بلکہ یہ اسلوب کلام کسی چیز سے پرہیز اور اجتناب کی تاکید کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ خطاب امت کے ہر فرد کو ہے۔ علامہ ابو حیان نے اسی قول کو اختیار کیا ہے لیکن قرآن حکیم میں قریب قریب اسی حالت کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : (1) فلعلک باخع نفسک علی اثارہم ان لم یؤمنوا بحذا الحدیث اسفا (18:6) (اور آپ جو ان پر اتنا غم کھاتے ہیں) سو شاید آپ ان کے پیچھے غم کے مارے جان ہی دیدیں گے۔ اگر یہ لوگ اس مضمون قرآن پر ایمان نہ لائے (یعنی اتنا غم نہ کریں کہ قریب بہ ہلاکت کر دے) (2) لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مؤمنین (26:3) شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر (رنج پر رنج کرتے کرتے) اپنی جان دیدیں گے۔ (3) انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء وھو اعلم بالمھتدین (28:56) آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کا علم (بھی) اسی کو ہے۔ سو صریحاً آیت ہذا میں بھی خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم پر ان کا اعراض کرنا شاق گزرتا ہو تو تم اس کا علاج کر ہی کیا سکتے ہو۔ زمین میں سرنگ لگاؤ اور وہاں سے خدا کی نشانی نکال لاؤ یا آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھو اور اوپر سے کوئی نشانی ڈھونڈہ نکالا اور لاکر پیش کر دو ۔ اگر ہوسکتا ہے تو ایسا بھی کر دیکھو۔ یہ کبھی ایمان لائیں گے ہی نہیں۔ اگر خدا کو ان کا ایمان لانا منظور ہی ہوتا تو انہیں خود ہدایت پر جمع کرتا۔ (ابن کثیر)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 تو آپ ایسا بھی کر کے دیکھ لیجئے لیکن یہ چونکہ آپ سے کبھی نہیں ہوسکتا تو بلاوجہ کڑھنے سے کیا فائدہ بہتر ہے کہ آپ انجام کار کو ہم پر چھوڑ تے ہوئے پورے سکون و اطمینان سے اپنی دعوت کے کام میں لگے رہیں۔3 یعنی ایسا مت خیال کیجئے کہ کہ کسی نشانہ (معجزہ) لانے سے یہ راہ ہدایت پر ضروری آجائیں گے ہدایت الل... ہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے آپ کے ذمہ صرف پیغام پہنچادینے ہے اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر ہرگز کوئی غم یا افسوس نہ کریں اللہ تعالیٰ کو تکوینی طور پر اس سب کو مومن بنانا ہوتا تو یہ اس لیے سامنے کوئی مشکل بات نہ تھی مگر ایسا کرنا اس کی حکمت کے خلاف ہے لہذا اس قسم کے جاہلاہ نظریے کو پانے دل میں جگہ نہ دیجئے  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ فلاتکونن من الجاھلین وعظ و محبت کے طور پر ہے اور لفظ جہل یا جہالت سے ترجمہ کرنا بوجہ اس کے کہ ہمارے محاورے میں یہ الفاظ تحقیر وتحمیق وتوبیخ کے لیے مستعمل میں موہم بےادبی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ ایک حقیقت بتلائی گی ہے کہ تمام کے تمام انسان سچائی پر اکٹھے نہیں ہوا کرتے۔ لوگوں کی ہدایت کے بارے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جذبات کا جواب جس میں ایک طرح کی آپ کو تسلی دینے کے ساتھ تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ نب... ی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح وشام اس تڑپ اور کوشش میں تھے کہ کسی طرح یہ لوگ ہدایت سے ہم کنار ہوجائیں۔ اس کے لیے بحیثیت ایک انسان اور داعی کے یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ کاش اللہ تعالیٰ کفار کے مطالبات کو من و عن پورا فرما دے تاکہ کوئی شخص بھی ہدایت سے محروم نہ رہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل مکہ نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ زمین میں سرنگ لگا کر ہمارے لیے اس کے مدفون خزانے لائیں جیسا کہ انھوں نے نہروں اور باغات کا مطالبہ بھی کیا تھا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کوئی ایسا معجزہ لائیں جس کا انکار کرنا ہمارے لیے ناممکن ہو۔ اس ضمن میں وہ یہاں تک مطالبہ کرتے تھے کہ ایسی کتاب لائی جائے جسے ہم اپنے ہاتھوں کے ساتھ اچھی طرح ٹٹول کر یقین کرلیں کہ واقعی یہ آسمانوں سے لائی ہوئی کتاب ہے۔ (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِأَیْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوْٓ اْ إِنْ ہٰذَٓا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ)[ الأنعام : ٧] ” اور اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب آپ پر نازل کرتے، پھر یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ بھی لیتے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے یہی کہتے کہ یہ صاف جادو ہے۔ “ کفار کی ہٹ دھرمی بتلانے کے لیے آپ کو یوں خطاب فرمایا گیا ہے کہ اے رسول ! آپ پر ان لوگوں کا اعراض و انکار اس قدر گراں گزرتا ہے اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو آپ زمین میں اتر جائیں یا آسمان پر چڑھ جائیں اور ان کے سامنے ان کے حسب منشاء معجزات لے آئیں تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر اس طرح لوگوں کو منوانا مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور سب کو ہدایت پر جمع کردیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے طریقہ کے خلاف ہے۔ لہٰذا سب کو ہدایت پر جمع کرنے کی خواہش رکھنا جاہلوں کا شیوہ ہے۔ جس کی آپ سے توقع نہیں ہوسکتی، لہٰذا آپ کی سوچ کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے یہاں مضمر الفاظ میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا کام حق بات لوگوں تک پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ آپ جس قدر بھی کوشش کرلیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یہ سنتے ضرور ہیں لیکن ان کے دل مردہ ہونے کی وجہ سے مردوں جیسے ہوچکے ہیں۔ جس طرح مردے قیامت کو اٹھائے جائیں گے اس سے پہلے مردوں کا اٹھنا اور ان کا سننا مشکل ہے۔ اسی طرح کفار کا حق بات سننا اور اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔ البتہ جو آدمی حق بات کو دل کے کانوں سے سنتا ہے وہ ضرور اس کو قبول کرتا ہے۔ مسائل ١۔ منکرین حق کی باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے ٢۔ صاحب بصیرت لوگ ہی دعوت حق قبول کرتے ہیں۔ ٣۔ ہٹ دھرم لوگ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ تمام مردوں کو اللہ اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ : ٦ تا ١٨) ٥۔ موت کے بعد تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود : ٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٣٥ تا ٣٦۔ نہایت ہی شاہانہ انداز کے درمیان سے خوف کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔ کوئی ان الفاظ کی ہولناکی اور اس معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ نہ رکھے کہ یہ الفاظ رب العالمین کی طرف سے ہیں اور ان کیساتھ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو مخاطب کیا ہے جن کی ... صفات میں صابر ہونا اور اولوالعزم رسولوں میں سے ہونا اہم صفات ہیں ۔ جنہوں نے نہایت ہی صبر اور خلوص کے ساتھ اپنی قوم کی جانب سے پہنچنے والی ایذاؤں کو برداشت کیا ۔ آپ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح ان کو بددعا نہ دی حالانکہ ایک زمانہ ان کی تیش ذنیاں سہتے رہے ۔ اور نہایت ہی صبر اور حلم کا مظاہرہ فرماتے رہے ۔ اے محمد ! یہ تو ہماری سنت ہے ۔ اگر ان لوگوں کی بےرخی اور ان کی جانب سے مسلسل تکذیب آپ برداشت نہیں کرسکتے اور آپ بہرحال انہیں کوئی معجزہ ہی دکھانا چاہتے ہیں تو پھر اگر آپ کے اندر استطاعت ہے تو آپ زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈلیں یا آسمان تک پہنچنے کے لئے کوئی سیڑھی لگا لیں اور اس طرح ان لوگوں کے سامنے کوئی حیران کن معجزہ پیش کردیں ۔ ان کی ہدایت ‘ حقیقت یہ ہے کہ اس لئے موقوف نہیں ہے کہ تم ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کر دو ۔ صرف یہ کمی نہیں رہ گئی کہ بس کوئی معجزہ صادر ہوا اور وہ ہدایت کو قبول کرلیں ۔ جیسے وہ بالکل تیار بیٹھے ہوں ۔ اس طرح تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع کردیتا ۔ یا تو اللہ اس طرح کرتا کہ ابتداء ہی سے انہیں اس طرح پیدا کرتا کہ وہ ہدایت کے سوا کوئی اور راستہ قبول ہی نہ کرتے مثلا ملائکہ اور یا یوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اپنی قدرت کے ذریعے راہ ہدایت کی طرف موڑ دیتا اور وہ ہدایت کی قبولیت کے لئے آمادہ ہوجاتے اور یا اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ صادر کردے جس کی وجہ سے ان کی گردنیں جھک جائیں اور کسی وجہ سے یا بغیر کسی وسیلہ کے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت کی وجہ سے جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے ‘ اس مخلوق مکرم حضرت انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ۔ اس آسمانی منصوبے کے مطابق اس مقصد کی خاطر اس بات کی ضرورت تھی کہ اس مخلوق کو کچھ متعین صلاحتیں دی جاتیں اور یہ صلاحتیں ان صلاحیتوں سے جدا ہوں جو فرشتوں کو دی گئی تھیں ۔ ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ انسانوں کی صلاحیتوں کے درمیان تفاوت رکھی جائے ۔ یہ کہ لوگوں کے اندر ہدایت اور ایمان کی قبولیت کی استعداد بھی مختلف ہو اور لوگوں کے اندر قبولیت حق کے مادے کی مقدار بھی مختلف ہو ۔ یہ کام اللہ کے دائرہ قدرت کے مطابق اللہ کے قانون عدل کے مطابق اور اس کے قانون جزا وسزا کے عین مطابق ہو ۔ یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جبر کے ذریعے لوگوں کو راہ ہدایت پر جمع نہیں فرمایا ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہدایت کی راہ لیں اور ماننے نہ ماننے کا اختیار انہیں دے دیا اور آخرت میں اس پر عادلانہ جزاء وسزا کا اجراء فرمایا ۔ اس حقیقت کو جاننا چاہئے اور اس سے غافل نہ ہونا چاہئے ۔ (آیت) ” وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ (35) ” اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ “ شوکت کلام دیکھنے کے قابل ہے اور فیصلہ ہدایت بھی قابیل دید ہے ‘ لیکن بات کا موقع ومحل ہی ایسا تھا جس کے اندر اس زور دار بات اور دو ٹوک ہدایت کی ضرورت تھی ۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو کس مزاج اور کس فطرت پر پیدا کیا ہے اور یہ کہ وہ ہدایت کے مقابلے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں حالانکہ دعوت حق کے پاس ثبوت دلیل کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُھُمْ ) (الآیۃ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی بہت زیادہ حرص تھی کہ میری قوم اسلام قبول کرلے وہ لوگ ایمان قبول نہیں کرتے تھے اور بطور عناد طرح طرح کے معجزات کی فرمائش کرتے تھے کہ یہ معجزہ دکھاؤ اور یہ کام کر کے بتاؤ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی ف... رمائش کے معجزات ظاہر ہوجائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی فرمائش پوری نہ کی جاتی تھی۔ خود قرآن کریم ان کے پاس بہت بڑا معجزہ موجود تھا اور دوسرے بھی معجزات سامنے آتے رہتے تھے لیکن وہ کہتے رہے کہ ایسا ہوجائے تو ہم مان لیں گے جب فرمائشی معجزات کا ظہور نہ ہوتا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبیدہ خاطر ہوتے تھے یعنی طبعی طور پر آپ کو ملال ہوتا تھا، اللہ جل شانہٗ نے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو ان کا اعراض کرنا گراں گزر رہا ہے تو اگر آپ سے ہو سکے تو آپ زمین میں کوئی سرنگ یا کوئی زینہ آسمان میں جانے کو تلاش کرلیں پھر آپ ان کے پاس معجزہ لے آئیں تو آپ ایسا کر لیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ زمین میں نیچے اتر کر یا آسمان کے اوپر جا کر ان کا فرمائشی معجزہ لاسکتے ہیں تو آپ ایسا کر لیجیے۔ ان کی فرمائش کے مطابق معجزہ پیدا کرنا لازم نہیں ہے آپ کو اگر اصرار ہے تو آپ خود ہی فرمائشی معجزہ دکھا دیجیے لیکن اللہ کی مشیت کے بغیر تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے آپ صبر ہی سے کام لیں اور تکوینی طور پر سب کو مسلمان ہونا بھی نہیں اس لیے اس فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ سب مسلمان ہوجائیں۔ (وَ لَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی) (اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع فرما دیتا) (فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ ) (تو آپ نا دانوں میں سے نہ ہوجائیے) جو کچھ ہے اللہ کی حکمت کے مطابق ہے۔ آپ اللہ کی حکمت اور قضا و قدر پر راضی رہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40 یہ زجر ہے مشرکین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ مطالبات دکھا دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات ان کو دکھا دئیے جائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں اور اعراض نہ کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مش... رکین کا اعراض آپ سے اور قرآن سے محض معجزات نہ ملنے کی وجہ سے ہے اور ان کا اعراض آپ کو ناگوار ہے تو آپ ان کو معجزات دکھلا دیں اور اگر آپ میں طاقت ہے تو آپ زمین میں سوراخ کر کے یا آسمان پر سیڑھی لگا کردکھائیں کوئی معجزہ آپ کے قبضے میں نہیں جیسا کہ فرمایا۔ اِنَّمَا الْاٰ یٰتُ عِنْدَ اللہِ نیز فرمایا وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاتِیَ بِاٰیۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ (مومن ع 8) 41 ای ولکن لیبلوکم بقرینہ سورة مائدہ۔ یعنی آپ یہ خیال چھوڑ دیں کہ یہ سب لوگ ایمان لے آئیں۔ اگر یہ بات اللہ کو منظور ہوتی تو وہ جبراً تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کردیتا مگر اس نے ایسا اس لیے نہیں کیا تاکہ ہر شخص کی آزمائش ہوجائے اور ہر آدمی سوچ سمجھ کر راہ اختیار کرے  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 اے پیغمبر ! اگر آپ پر ان لوگوں کا اعراض اور روگردانی اور دین حق سے منہ پھیر ناگراں اور شاق گذرتا ہے تو اچھا اگر آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ زمین میں کوئی سرنگ لگا دیں یا آسمان کے لئے کوئی سیڑھی ڈھونڈ لائیں اور ان کو ان کے منہ مانگے معجزے اور ان کی حسب خواہش ان کو نشان لا دکھائیں تو کر لیجیے اور یہ بھی ... کر دیکھیے یعنی ہم تو ایسا کریں گے نہیں آپ کو ان کے اسلام کے ساتھ والہانہ شغفت ہے تو آپ کر لیجیے اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو وہ ان سب کو ہدایت اور سیدھی راہ پر جمع کردیتا اور جب ان کا ایمان لانا ہماری مشیت اور ان کی سعادت ازلی پر موقف ہے تو آپ خواہ مخاہ ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی فکر کرکے نادانوں میں سے نہ ہوں اور ہرگز نادان بن کر نادانوں میں شامل نہ ہوں۔  Show more