Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 4

سورة الأنعام

وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴﴾

And no sign comes to them from the signs of their Lord except that they turn away therefrom.

اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آتی مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Threatening the Idolators for their Stubbornness Allah says; وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ ايَةٍ مِّنْ ايَاتِ رَبِّهِمْ إِلاَّ كَانُواْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ And never an Ayah comes to them from the Ayat of their Lord, but that they have been turning away from it. Allah states that the rebellious, stubborn polytheists will turn away from every Ayah, meaning, sign, miracle and proof that is evidence of Allah's Uniqueness and the truth of His honorable Messengers. They will not contemplate about these Ayat or care about them. Allah said, فَقَدْ كَذَّبُواْ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنبَاء مَا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِوُونَ

کفار کو نافرمانی پر سخت انتباہ کفار کی سرکشی کی انتہا بیان ہو رہی ہے کہ ہر امر کی تکذیب پر گویا انہوں نے کمر باندھ لی ہے ، نیت کر کے بیٹھے ہیں کہ جو نشانی دیکھیں گے ، اسی کا انکار کریں گے ، ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل کرے گی اور وہ ذائقہ آئے گا کہ ہونٹ کاٹتے رہیں ، یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے نہیں بلکہ عنقریب انہیں اللہ کی پکڑ ہو گی ، کیا ان سے پہلے کے ایسے سرکشوں کے حالات ان کے کان میں نہیں پڑے؟ کیا ان کے عبرتناک انجام ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں؟ وہ تو قوت طاقت میں اور زور میں ان سے بہت بڑھے چڑھے ہوئے تھے ، وہ اپنی رہائش میں اور زمین کو بسانے میں ان سے کہیں زیادہ آگے تھے ، ان کے لاؤ لشکر ، ان کی جاہ و عزت ، غرور و تمکنت ان سے کہیں زیادہ تھی ، ہم نے انہیں خوب مست بنا رکھا تھا ، بارشیں پے درپے حسن ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں ، زمین ہر وقت ترو تازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے ۔ جب وہ تکبر میں آ گئے ، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کر دیئے گئے ۔ تہس نہس ہو گئے ، بھوسی اڑ گئی ۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا ۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلا تو یہی سلوک ان کے ساتھی بھی ہوتا ، اتنی نظریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے ، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ ۔ اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں ۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے ، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یہاں آیت سے مراد قرآن کی کوئی آیت بھی ہوسکتی ہے کوئی معجزہ اور کوئی واضح دلیل بھی۔ یعنی جو کافر انکار کرنے کا ہی تہیہ کیے بیٹھے ہیں ان کے لیے نہ کوئی دلیل کارگر ہوسکتی ہے، نہ معجزہ اور نہ پند و نصیحت۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ ۔۔ : ان آیات سے مراد وہ احکام بھی ہیں جو آیات کی صورت میں انبیاء پر اترتے رہے اور وہ معجزات بھی جو نبوت کی دلیل کے طور پر اترتے رہے۔ اس کے علاوہ زمین و آسمان میں موجود وہ بیشمار نشانیاں بھی جو اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہیں، مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤) ، یوسف (١٠٥) اور ذاریات (٢٠ تا ٢٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse carries a complaint against the anti-truth dogged¬ness and obstinacy of the chronically heedless human race by saying: وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِ‌ضِينَ ﴿٤﴾ that is, despite the many clear proofs and open signs of the Oneness of Allah, the dissenters and re¬jectionists among human beings have taken to a way of their own, us¬ing which, they would turn their faces away from whatever sign is shown to them for their guidance, without ever paying the least atten¬tion to it.

چوتھی آیت میں غفلت شعار انسان کی ہٹ دھرمی اور خلاف حق ضد کی شکایت اس طرح فرمائی گئی ہے کہ : وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کے واضح دلائل اور کھلی نشانیوں کے باوجود منکر انسانوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی نشانی ان کو ہدایت کے لئے بھیجی جاتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، اس میں ذرا غور نہیں کرتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَاْتِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّہِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِيْنَ۝ ٤ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور ان اہل مکہ کے پاس جو بھی نشانیاں ان کے پروردگار کی طرف سے آتی ہیں مثلا سورج گرہن ہونا، چاند کے دو ٹکرے ہونا اور تاروں کا ٹوٹ کر بکھرنا مگر یہ ان سب باتوں کی تکذیب ہی کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ الاَّ کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ ) ۔ ہم نئی سے نئی سورتیں بھیج رہے ہیں ‘ نئی سے نئی آیات نازل کر رہے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعراض پر تلے ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(4 ۔ْ 6) ۔ اوپر ذکر تھا کہ عقل مند وہی شخص ہے جو قیامت کے دن کے فیصلہ اخیر کے لئے کچھ اچھی روداد جمع کر لیوے اب ان آیتوں میں اہل مکہ کی نادانی اور کم عقلی کا ذکر ہے جس پر وہ لوگ اڑے ہوئے تھے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قیامت کے دن کے فیصلہ اخیر کے لئے اچھی روداد کا جمع کرنا تو درکنار اپنی ازلی کم بختی کے سبب سے یہ لوگ تو اسے پر اڑے ہوئے ہیں کہ اس فیصلہ اخیر کی یادہانی کے باب میں جو آیات قرانی نازل ہوتی ہیں ان ہی کو یہ لوگ جھٹلا کر ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں لیکن اس میں کسی کا کچھ نہیں بگڑتا وقت مقررہ پر یہ لوگ اپنے کئے کا برا نتیجہ دیکھ لیویں گے کہ شام اور یمن کے سفر میں جس طرح پچھلی قوموں کی اجڑی ہوئی بستیاں ان کو نظر آتی ہیں وہ حال ان کا ہوگا کہ یا تو دنیا میں کوئی عذاب ان پر آجائے گا اور اگر مصلحت الٰہی کے موافق دنیوی عذاب سے یہ لوگ بچ بھی گئے تو عقبیٰ کی خرابی سے نہیں بچ سکتے یہ ان کو معلوم ہے کہ پچھلی قومیں طاقت، ثروت، درازی عمر سب باتوں میں ان سے بڑھ کر تھیں۔ پھر ان باتوں میں سے ان کی کوئی بات جب عذاب الٰہی سے ان کو نہ بچا سکی تو ان کے پاس عذاب الٰہی سے بچنے کا ایسا کون سا سامان ہے جس کے بھروسہ پر یہ لوگ آیات قرآنی کے جھٹلانے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ قریش میں جو لوگ آیات قرآنی کے زیادہ منکر تھے بدر کی لڑائی میں ان پر دنیاوی آفات بھی آئی اور دنیا سے اٹھے ہی عذاب آخرت میں جا پھنسے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے شروع ہونے سے ایک رات پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش میں کے ان سب سرکش لوگوں کے نام بتلادئیے تھے جو بدر کی لڑائی میں قتل ہونے والے تھے اور قتل ہونے کے بعد جہاں ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں وہ مقامات بھی آپ نے پہلے سے صحابہ کو دکھلاوے تھے ١ ؎ صحیح بخاری و مسلم میں انس (رض) ابو طلحہ (رض) وغیرہ کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے اس سرکش لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اے لوگو تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا ٢ ؎ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے آیات قرآنی کے جھٹلانے والے قریش کی دین و دنیا کی بد انجامی کا نتیجہ معلوم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:4) معرضین۔ اعراض کرنے والے۔ منہ موڑنے والے۔ اجتناب کرنے والے۔ اعراض (افعال) سے۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ کذبوا بالحق۔ انہوں نے حق کو جھٹلایا۔ الحق مفعول یہ ہے کذبوا کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اللہ کی آیات سے مراد وہ آیات بھی ہوسکتی ہیں جو انبیا پر اترقی رہی ہیں جیسے معجزات اور قدرت کی نشانیاں بھی جیسے زلزلہ قحط وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 4 تا 6 : ماتاتی (نہیں آتی) ‘ معرضین (اعراض کرنے والے۔ منہ پھیرنے والے) ‘ کذبوا ( انہوں نے جھٹلایا) انبوا (سچی خبریں) ‘ یستھزء ون ( وہ مذاق کرتے ہیں) ‘ الم یروا (کیا انہوں نے نہیں دیکھا) ‘ اھلکنا ( ہم نے ہلا کردیا) ‘ قرن (امتیں۔ جماعتیں) ‘ مکنا ( ہم نے جمایا۔ قوت دی) ‘ لم نمکن (ہم نے قوت نہیں دی) ‘ ارسلنا (ہم نے بھیجا) ‘ مدرار (لگاتار برسنا۔ مسلسل) ‘ انشانا ( ہم نے پیدا کیا) ‘ اخرین (دوسرے) ۔ تشریح : آیت نمبر 4 تا 6 : ہر شخص اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے اور دوسروں کی نگاہوں میں مہا عاقل دکھانے کے لیے پریشان رہتا ہے۔ اللہ کی طرف سے بڑے بڑے پیغمبر آئے ‘ انہوں نے بڑے بڑے معجزے دکھائے ‘ توحید اور اسلام کے حق میں بڑے بڑے دلائل پیش کئے گئے مگر ان خود ساختہ عقل مندوں نے ان پر کوئی نہ کوئی اعتراض جڑ دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ اسلام کے اندر آنا ایک فرماں برداری ‘ ایک تنظیم ‘ ایک اور امرو نواہی کے اندر آنا ہے۔ وہ لگو جنہوں نے عقل مندی اور سرداری کی پوزیشن حاصل کرلی تھی کس طرح اس نظم و ضبط کو مان سکتے تھے۔ اب اس وقت مکہ کے کفار و مشرکین کے سامنے قرآن ہے جس نے چیلنج کررکھا ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی ایک سورت بنا لائو۔ بڑے سے بڑے نثر اور نظم والے اس چیلنج کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ ان کے سامنے خود پیغمبر اسلام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہستی ہے جنہوں نے ساری زندگی ان ہی کے درمیان گزاری ہے۔ جن کے سارے شب و روز ان کو معلو م ہیں اور انہیں اب تک کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آئی۔ جنہیں سب لوگ صادق اور امین کہتے ہیں۔ مگر نہ ماننے والے طرح طرح کے بہانے بنا رہے ہیں۔ ناماننے والوں کے لئے فرمایا گیا کہ بہت جلد قیامت تمہارے سامنے آئی جاتی ہے۔ اگر آج علم و عقل کے ذریعہ یقین نہیں کرتے توکل آنکھوں سے دیکھ کر یقین کر لوگے۔ اور اس وقت یقین سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان آیات کے معنی بعض مفسرین نے یہ بھی لئے ہیں کہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اے اہل مکہ تم اس وقت اسلام اور پیغمبر اسلام کو کمزور اور بےطاقت سمجھ رہے ہو۔ بہت جلد مدنی دور آرہا ہے جب اسلام ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا نہ صرف یہ کہ مکہ فتح ہوجائے گا بلکہ تم سیاسی اور مذہبی طور پر ناچیز بن کر رہ جائو گے۔ قرآن تاریخ کے واقعات کو عبرت اور نصیحت بنا کر پیش کرتا ہے کہ اے مشرکو اور کافرو ! آج اپنی سیاسی اور مالی طاقت پر نہ اترائو۔ تم سے پہلے بھی بڑی بڑی طاقتیں دنیا میں آئیں اور جب وہ پیغمبر وقت کے سمجھانے کے باوجود گناہوں میں غرق ہوتی چلی گئیں تو آنا فانا خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ ایک فرعون ہی کو دیکھ لو۔ فراعنہ کے انسا خاندان یکے بعد دیگرے آئے سب نے ملاکر تین ہزار سال سے زیادہ مصر پر حکومت کی۔ اس حکومت مصر کے ذریعہ وہ ایشیا افریقہ اور یورپ پر اثر انداز رہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ ایک ہی دن میں یہ عظیم الشان طاقت دریائے نیل میں یوں غرق ہو کر ہمیشہ کے لئے ملیا میٹ ہوجائے گی کہ کوئی ان کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ فرمایا جارہا ہے کہ پھر تمہاری کیا حیثیت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قرآن نے یہ بھی تہدید کردی کہ تم مٹ جائو گے تو سرزمین عرب بےرونق نہیں ہوجائے گی۔ عادو ثمود اور اہل فرعون آئے اور گئے۔ کیا دنیا ویران ہوگئی ؟ نہیں۔ ان کی جگہ لینے کے لئے نئی قومیں وجود میں آگئیں۔ اللہ نے انہیں آزمائش کا موقع دیا۔ جس طرح ایک انسان مرتا ہے تو جگہ خالی نہیں رہتی۔ وہاں دوسرا انسان آجاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک قوم مٹادی جاتی ہے تو دوسری نئی قوم اس کی جگہ پکڑ لیتی ہے۔ دنیا کی رونق میں کبھی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ اس نظام کائنات کو چلانے والی ایسی ذات ہے کہ جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ ہے اور سارے نظام کائنا ت کو سنبھالنے والی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٤ تا ٦۔ ان لوگوں نے عناد اور باطل پہ اصرار کرنے کے موقف کو اپنایا ‘ حالانکہ ایسے دلائل اور نشانیوں کی کمی نہ تھی جن کو دیکھ کر وہ ایمان لاتے اور نہ ایسے دلائل اور نشانات کی کمی تھی جن سے معلوم ہوتا کہ پیغمبروں کی دعوت نہایت ہی سچی دعوت ہے ‘ نہ یہ بات تھی کہ اس دعوت اور داعی کی سچائی پہ دلائل کی کوئی کمی تھی ۔ وجود باری پر دلائل وبراہین بھی موجود تھے ۔ غرض ان چیزوں کی ان کے ہاں کوئی کمی نہ تھی بلکہ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مان کر نہ دیتے تھے ۔ وہ باطل پر مصر تھے ‘ تحریک سے عناد رکھتے تھے اور اس روگردانی کی وجہ ان کے لئے اس دین اور تحریک میں غور وفکر کرنے کے مواقع جاتے رہے ۔ (آیت) ” وَمَا تَأْتِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ مِّنْ آیَاتِ رَبِّہِمْ إِلاَّ کَانُواْ عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ (4) ” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ “ جب صورت حالات یہ ہوجائے کہ لوگ جان بوجھ کر حق سے روگردانی اختیار کریں ‘ جب کہ ان کے پاس آیات و دلائل موجود ہوں ‘ حقائق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہوں تو پھر بعض اوقات ڈر اوا اور تہدید ان کی آنکھیں کھول دیتی ہے ۔ ایک جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی ہے اور فطرت کے دریچے کھل جاتے ہیں ‘ بشرطیکہ غرور اور عناد کے پردے حائل نہ ہوں ۔ (آیت) ” فَقَدْ کَذَّبُواْ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُمْ فَسَوْفَ یَأْتِیْہِمْ أَنبَاء مَا کَانُواْ بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ (5) ” چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ “ زمین وآسمانوں کے خالق کی طرف سے جو ہدایت آئی وہ سچائی تھی ۔ روشنی اور تاریکی پیدا کرنے والے کی طرف سے سچائی تھی ‘ جس نے انسان کو کیچڑ سے پیدا کیا ۔ جو آسمانوں کا بھی حاکم ہے اور زمین کا بھی حاکم ہے جو ان کے کھلے اور پوشیدہ سب امور سے واقف ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں ان سے واقف ہے ۔ وہ سچائی ہے اور انہوں نے سچائی کو جھٹلایا ہے ۔ اب وہ اس تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں ‘ آیات الہی سے روگردانی کرتے ہیں ‘ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اب اس بات کے انجام اور آخری خبر کا انتظار کریں۔ اب یہ ایک نہایت ہی اجمالی تہدید اور ڈراوا ہے جس کی نہ تفصیلات دی گئی ہیں اور نہ اس انجام بد کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ انہیں صرف یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اس انجام کا انتظار کریں ۔ ان پر عذاب الہی کس بھی وقت آسکتا ہے ۔ ان پر سچائی کھل جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے ۔ اس تہدید اور ڈراوے کے مقام پر انہیں یاد دلایا جاتا ہے ‘ انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں اور ذرا نگاہ ڈالیں کہ انسانی تاریخ میں جھٹلانے والوں کا انجام کیا رہا ہے ؟ ان میں سے بعض لوگوں کے انجام سے وہ واقف بھی تھے ۔ احقاف میں قوم عاد کا جو انجام ہوا اور حجر میں قوم ثمود کا جو انجام ہوا ‘ اس کی داستانیں ان کے ہاں مشہور تھیں ۔ جب عرب گرمیوں میں شمال کی طرف جاتے اور سردیوں میں جنوب کی طرف سفر کرتے تو ان اقوام کے کھنڈرات کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ۔ قوم لوط پر جہاں تباہی آئی وہ مقامات بھی انہیں معلوم تھے اور ان کے اردگرد رہنے والے لوگ ان مقامات سے واقف تھے لہذا یہاں ان کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے ۔ (آیت) ” أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْنَ (6) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ “ کیا یہ لوگ گزری ہوئی اقوام کے انجام بد سے عبرت نہیں لیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو اس کرہ ارض پر بہت ہی بڑا قتدار عطا کیا تھا ۔ انہیں قوت اور سلطنت کے اسباب فراہم کئے تھے ۔ اور وہ اس قدر ترقی یافتہ اور قوی تھی کہ قرآن کے مخاطبین اہل قریش اور ان کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہ تھی ان پر پے در پے بارشیں ہوتی تھیں ‘ ان کی سرزمین تروتازہ تھی اور ہر قسم کی پیداوار کی فراوانی تھی ۔ پھر کیا ہوا ؟ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی شروع کردی ۔ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑا ۔ ان کو تباہ کر کے ان کی جگہ دوسری اقوام کو منصہ شہود پر لایا گیا اور زمین کا اقتدار ان کے حوالے کردیا گیا ۔ اس زمین نے جانے والوں پر کوئی ماتم نہ کیا اس لئے کہ زمین کے وارث اب دوسرے لوگ تھے ۔ ذرادیکھئے کہ ان مکذبین اور روگردانی کرنے والوں کی حیثیت ہی کیا رہی ہے ۔ اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں اور اس زمین پر وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ وہ ہلاک کردیئے گئے ‘ نیست ونابود ہوگئے اور اس زمین کو کوئی احساس ہی نہ ہوا ۔ اور نہ یہ زمین خالی رہ گئی ‘ اس خلا کو دوسری اقوام نے پر کردیا اور یہ زمین اس طرح گردش کرتی رہی کہ گویا یہ مٹنے والی اقوام کبھی اس پر بسی ہی نہ تھیں اور زندگی اس طرح چلتی رہی کہ گویا سابقہ لوگ کبھی زندہ ہی نہ تھے ۔ جب اللہ کسی کو اس کرہ ارض پر تمکن عطا کرتا ہے تو صاحبان اقتدار سب سے پہلے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ کی مرضی سے نصیب ہوا ہے اور یہ ان کے لئے ایک بڑی آزمائش ہے ۔ آزمائش یہ کہ آیا وہ اس اقتدار کو اللہ کے عہد اور شرط کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اسی سے ہدایات لیتے ہیں اس لئے کہ وہی تو اس اقتدار کا اصل مالک ہے اور انسان تو اس کا خلیفہ ہے یا وہ اپنے آپ کو طاغوت کا منصب دیتے ہیں اور اپنے لئے اللہ کے اختیارات حاصل کرتے ہیں اور وہ ان اختیارات کو بطور خلیفہ استعمال نہیں کرتے بلکہ بطور مالک خود مختار استعمال کرتے ہیں ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے انسان بھول جاتے ہیں ‘ الا یہ کہ کوئی اللہ کی جانب سے محفوظ کردیا گیا ہو ۔ جب انسان اس حقیقت کو بھول جائیں تو وہ اللہ کے عہد اور اس کے خلیفہ فی الارض ہونے کی شرائط سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں اور سنت الہیہ کے خلاف جاتے ہیں ۔ پہلے پہل انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اس انحراف کے نتائج کیا ہوں گے ‘ چناچہ ان کے اندر آہستہ آہستہ فساد رونما ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ انہیں اس کا شعور بالکل نہیں ہوتا ‘ یہاں تک کہ وقت مقررہ تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کا وعدہ آجاتا ہے ۔ ان کے انجام پھر مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض اوقات ان پر ایسا عذاب آتا ہے کہ انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہ عذاب کبھی آسمان سے آتا ہے اور کبھی نیچے زمین سے آتا ہے ۔ دنیا کی کئی اقوام کو اس عذاب کے ذریعے تباہ کیا گیا اور بعض اوقات یہ عذاب قحط سالی اور خشک سالی کی صورت میں آتا ہے ۔ پھل اور پیداوار ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں ۔ کئی اقوام عالم اس عذاب سے دو چار ہوئیں ۔ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جاتا ہے بعض دوسروں کو مبتلائے عذاب کرتے ہیں ‘ بعض اقوام دوسروں کو نیست ونابود کردیتی ہیں ۔ بعض دوسروں کو اذیت دیتی ہیں اور کئی دوسروں کو امن نہیں دیتے ۔ اس طرح انکی قوت اور شوکت ختم ہوجاتی ہے ‘ اور اللہ ان پر پھر اپنے دوسرے بندوں کو مسلط کردیتا ہے جو یا تو اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور یا نافرمان ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی قوت کو توڑ کر انہیں اس اقتدار اعلی سے محروم کردیتے ہیں جس پر ان کو متمکن کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اللہ کچھ نئے لوگوں کو تمکین فی الارض عطا کرتا ہے تاکہ اب ان کی آزمائش کا دور شروع ہو ۔ یوں سنت الہیہ کا دور چلتا ہے اور دنیا میں نیک بخت اقوام وہ ہوتی ہیں جو سنت الہیہ کا ادراک رکھتی ہیں ۔ جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک آزمائش ہے ۔ وہ اللہ کے عہد کا پاس رکھتی ہیں ۔ بدبخت اقوام دہ ہوتی جو اس حقیقت سے غافل ہوتی ہیں اور یہ گمان کرنے لگتی ہیں کہ یہ اقتدار انہیں خود ان کے علم و کمال کی وجہ سے ملا ہے یا کسی حیلے اور تدبیر سے ملا یا اتفاقا بغیر کسی منصوبے کے انہیں مل گیا ہے ۔ لوگوں کو یہ امر دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ ایک باغی و سرکش ‘ ایک بدکار اور مفسد اور ایک ملحد اور کافر کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مقتدر اعلی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے کوئی مواخذہ نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں ‘ لیکن ایسے لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ راستہ کا ابتدائی حصہ دیکھتے ہیں ‘ درمیانی حصہ بھی دیکھتے ہیں لیکن ان کی جب ایسے سرکشوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور انکے بارے میں محض قصے اور کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں ‘ تب حقیقت نظر آتی ہے ۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے ہونے والے انجام کے کچھ مظاہر پیش کرتا ہے تاکہ ایسے غافل سرکشوں کو ہوش آجائے ‘ کیونکہ ایسے لوگ اپنے انفرادی حالات میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ انہیں منزل مقصود اور اپنا آخری انجام نظر نہیں آتا ۔ یہ لوگ بس اس مختصر زندگی کو دیکھ سکتے ہیں اور اسے ہی آخری منزل سمجھتے ہیں ۔ قرآن کریم کی یہ آیت (فاھلکنھم بذنوبھم (٦ : ٦) اور اس جیسی دوسری آیات بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ ایسی آیات میں اللہ کی ایک ناقابل تبدیل سنت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ان میں اسلام کے نظریہ تاریخ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنت الہیہ یہ ہے کہ بدکار لوگوں کو آخر کار ان کی اس بدکاری کی وجہ سے ہلاک اور برباد کردیا جاتا ہے ۔ ان پر یہ ہلاکت اور بربادی اللہ کی جانب سے آتی ہے اور یہ سنت اس کائنات میں ہمیشہ کے لئے جاری وساری ہے ۔ اگرچہ ایک فرد اپنی مختصر زندگی میں اسے نہ سمجھ سکے ۔ یا ایک محدود اور متعین نسل کی زندگی میں یہ ہلاکت نہ آئے ۔ لیکن یہ ایک ایسی سنت الہیہ ہے کہ جب کسی قوم میں جرائم اور بدکاریاں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں اور پوری زندگی کا نظام بدکاری اور جرائم پر قائم ہو ‘ تو پھر اللہ کی جانب سے عذاب ضرور آتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ تاریخ یہ ہے کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصل اور موثر عالم (FActor) یہ ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں جب بدکاری اور جرائم سرایت کر جاتی ہیں تو یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ یہ تباہی یا تو آفات سماویہ کے ذریعے سے ہوتی ہے جیسا کہ قدیم تاریخ میں یہ واقعات رونما ہوئے یا نہایت ہی تدریجی تباہی کے ذریعے طبعی طور پر ‘ جس طرح کسی جسم پر عارضی طور پر زوال آتا ہے جب وہ بدکاری اور جرائم میں کانوں تک ڈوب جاتے ۔ انسان کی جدید تاریخ میں ہمارے سامنے اس زوال کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اقوام پر اخلاقی بےراہ روی ‘ بدکرداری اور فحاشی ‘ عیاشی اور اسراف اور لہو ولعب کی وجہ سے تباہی آئی ۔ مثلا یونان کی تباہی کے یہی عوامل تھے ۔ اس کے بعد رومیوں کی تباہی اور زوال کے یہی اسباب تھے ۔ یہ اقوام اپنے عروج کے باوجود اس طرح مٹ گئیں کہ اب انکے صرف قصے کہانیاں ہی رہ گئیں ۔ جدید ترقی یافتہ اقوام کے اندر بھی اس عظیم تباہی اور زوال کے اسباب نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں مثلا فرانس اور برطانیہ کا زوال شروع ہوچکا ہے حالانکہ مادی جنگی اور تکنیکی قوت کے اعتبار سے وہ عروج پر ہیں اور نہایت ہی ترقی یافتہ اور دولتمند ہیں ۔ تاریخ کی مادی تفسیر لکھنے والوں اور اقوام کے عروج وزوال کی داستانیں لکھنے والوں کی نظر سے تاریخ کا یہ اخلاقی پہلو غائب ہے ‘ اس لئے کہ مادی نقطہ نظر رکھنے والے کی گناہوں سے شروع ہی سے اخلاقی عناصر اوجھل رہتے ہیں ۔ اصل الاصول یعنی سنت الہیہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے ۔ جو لوگ تاریخ کی تفسیر اور اس پر تبصرہ صرف مادی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اور اقوام کے عروج وزوال کے سلسے میں نہایت ہی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ اقوام کے عروج وزوال کے بعد واقعات کی معقول تفسیر صرف اعتقادی اور اخلاقی زاوے ہی سے کی جاسکتی ہے ۔ اسلام کا تاریخی نقطہ نظر نہایت جامع ‘ حقیقت پسندانہ اور سچا ہے اور وہ اپنی اس جامعیت کی وجہ سے مادی عنصر کو اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے ‘ وہ زوال اقوام میں مادی زوال کو بھی اہمیت دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ اس کے بعد اسلام لوگوں کی عام اخلاقی اور عملی زندگی کو بھی اس میں اہمیت دیتا ہے اور وہ ان اسباب وعلل میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کرتا جو کسی قوم کے عروج وزوال کا سبب بنتی ہیں۔ (تفیصلات کے لئے دیکھئے الا سلام ومشکلات الحضارۃ ۔ النطور والنبات فی حیات البیرہ ۔ خصائص التصور الاسلامی وھو مائہ التصویر الفنی فی القرآن) اب اگلی آیات میں ان لوگوں کے اس عناد کی تصویر کشی کی جاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے ۔ اس تصویر کشی میں انسانوں کی ایک عجیب قسم پیش کی جاتی ہے ۔ انسانوں کی یہ قسم صرف ماضی یا کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہے ‘ اس قسم کے لوگ تاریخ میں بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ ہر زمانے میں ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ہر نسل اور ہر خاندان میں نمونے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سچائی ان کی آنکھوں کو پھاڑتی ہے لیکن یہ اسے دیکھ نہیں پاتے ۔ یہ لوگ ایسے امور کا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے امور جو اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کے انکار کی وجہ سے منکر کو کم از کم شرم آتی ہے ۔ قرآن کریم اس قسم کے نمونے کا بڑی وضاحت سے ذکر کرتا ہے ۔ مختصر کلمات میں عجیب انداز میں جو انوکھا بھی ہے اور معجزانہ بھی ہے جس طرح قرآن کریم کا انداز تعبیر بالعموم اعجاز کا حامل ہوتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ مَا تَاْتِیْھِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّھِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ ) (جو بھی کوئی آیت اللہ کی آیات میں سے ان کے سامنے آتی ہے تو اس سے اعراض کرتے ہیں) اس سے آیات قرآنیہ مراد ہوسکتی ہیں۔ اور آیات تکوینیہ بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔ یعنی قرآنی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور جو آیات تکونیہ سامنے آتی ہیں جن میں دلائل توحید ہیں ان سے بھی اعراض کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6 و َ مَا تَاتِیْھِمْ سے یَسْتَھْزِء وْنَ تک منکرین پر زجر و شکوہ ہے اور آیات سے دلائل توحید مراد ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں بقرینہ مَا یَا تِیْھِمْ مّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ تا فَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ (انبیاء ع 1، 2) ۔ فَقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ حق کے تین معنی ہیں۔ اولَ اظہار حق، دوم سچی بات، سوم ظاہر اور واضح بات۔ یہاں تیسرا معنی مراد ہے۔ جب انہوں نے ایک ایسی حقیقت کا انکار کردیا جو بالکل واضح اور ظاہر ہے تو وہ عذاب کے مستحق ہیں جیسا کہ فَسَوْفَ یَاتِیْھِمْ کی فا فصحیہ ہے اس پر دال ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 اور کوئی دلیل اور کوئی نشانی ان کے پروردگار کی نشانیوں میں ان تک نہیں پہونچتی اور ان کو نہیں دکھائی جاتی مگر یہ کہ یہ اس سے روگردانی ، اعراض اور تعافل کا برتائو کرتے ہیں یعنی کوئی دلیل بتائو یا کوئی نشانی دکھائو یہ کسی بات سے متاثر نہیں ہوتے۔