Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 43

سورة الأنعام

فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۴۳﴾

Then why, when Our punishment came to them, did they not humble themselves? But their hearts became hardened, and Satan made attractive to them that which they were doing.

سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار نہیں کی ، لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَوْلا إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ ... When Our torment reached them, why then did they not believe with humility, Meaning: Why do they not believe and humble themselves before Us when We test them with disaster!' ... وَلَـكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ ... But their hearts became hardened, for their hearts are not soft or humble, ... وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ and Shaytan made fair-seeming to them that which they used to do. That is, Shirk, defiance and rebellion.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ہیں دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھگتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنادیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٤٣ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قسو القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر : صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (فَلَوْلَآ اِذْ جَآءَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔ یعنی اللہ کی طرف سے بار بار کی تنبیہات کے باوجود سوچنے ‘ سمجھنے اور اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:43) لولا۔ اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں : (1) امتناعیہ (اگر نہ) لو حرف شرط اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ لفظاً کوئی تغیر پیدا نہیں کرتا ۔ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے۔ جملہ اسمیہ۔ جملہ فعلیہ۔ پہلے جملہ کا ایک جزو ضرور محذوف ہوتا ہے خواہ خبر ہو یا فعل۔ ابن مالک کا قول ہے کہ لولا کے پہلے جملہ کی خبر اگر عام ہو جیسے کائن ثابت وغیرہ تو واجب الحذف ہے۔ اور اگر عمومی خبر نہ ہو بلکہ کسی مادہ کے ساتھ مقید ہو مثلاً اکل۔ شارب۔ قائم۔ قاعد۔ ذاھب۔ ماشی وغیرہ اور بغیر ذکر کے معلوم نہ ہوسکے تو ذکر واجب ہے۔ جیسے حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان مبارک ہے لولاقومک حدیث عھد بالاسلام لھدمت الکعبۃ۔ اگر تیری قوم نئی نئی السلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبہ کو ڈھا دیتا۔ (اور ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرتا) اور ذکر کے بغیر اگر خبر معلوم ہوسکتی ہو تو ذکر و حذف دونوں جائز ہیں۔ مثلاً لولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ (4:83) اگر علیکم۔ فضل اللہ کے متعلق ہو تو خبر محذوف ہوگی۔ ورنہ نازل کے متعلق ہو کر فضل اللہ کی خبر ہوگی۔ اور اگر لولا ضمیر پر داخل ہو تو ضمیر مرفوع ہونی ضروری ہے جیسے لولا انتم لکنا مؤمنین (34:31) مبرد کے نزدیک ضمیر کا مرفوع ہونا ضروری نہیں۔ (2) تحضیض اور عرض کے لئے بھی لالا آتا ہے یعنی فعل پر سختی کے ساتھ ابھارنا (تحضیض) نرمی سے کسی کام کی طلب کرنا (عرض) اس وقت لولا کے بعد مضارع آنا چاہیے۔ خواہ لفظاً ہو یا معنی۔ لولا تستغفرون اللہ (27:46) تحضیض اور لولا اخرتنی الی اجل قریب (63: 10) عرض۔ (3) زجرو توبیخ کے لئے۔ اس وقت یہ ماضی پر داخل ہوگا۔ لولا جاء وا علیہ باربعۃ شھداء (24:13) اور فلولا اذجاء ھم باسنا تضرعوا (6:43) (4) استفہام کے لئے لولا انزل علیہ ملک (6:8) اور لولا اخرتنی الی اجل قریب (63:10) لیکن جمہور اہل ادب کے نزدیک اول آیت میں توبیح اور دوسری آیت میں عرض کے لئے ہے۔ فلولا اذجاء ھم باسنا تضرعوا۔ فلولا تضرعوا اذجاء ھم باسنا۔ پھر جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو کیوں نہ انہوں نے زاری کی اور تو نہ کی۔ قست ماضی واحد مؤنث غائب قسوۃ مصدر۔ قسو مادہ ناقص وادی قسا یقسوا (نصر) اصل میں قسوت تھا واؤ ساقط ہو کر قست ہوگیا۔ (دل) سخت پڑگئے۔ خشک ہوگئے حق کو قبول نہیں کرتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کیا آج ہم مسلمانوں کا یہی حال ہو نہیں گیا ہے جب کوئی جنگ سیلاب قحط یا زلزلہ یا کوئی دوسری اجتماعی آفت ہم پر نازل ہوتی ہے تو کیا ہم میں وہ افراد نہیں پائے جاتے جو اسے محض مادی اسباب کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور سزا سمجھنے کو جہالت اور بےوقوفی قرار دیتے ہیں تفسیر احمدی جو ایک نیچری نے لکھی ہے وہ معجزات وغیرہ کے انکار کے سلسلہ میں اس قسم کی تاویلوں سے پر ہے ، (م، ع )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50 جب دنیا میں ان پر ہمارا عذاب آیا تو بجائے اس کے کہ وہ گڑگڑا کر ہم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ و استغفار کرتے لیکن انہوں نے انتہائی سنگدلی سے کام لیا اور اپنے کفر و انکار پر اڑے رہے کیونکہ شیطان کی تسلی اور وسوسہ اندازی سے وہ اپنے مشرکانہ اعمال و اقوال کو اعمال صالحہ سمجھنے لگے۔ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ میں مَا سے مشرکانہ اعمال مراد ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 سو جب ان کو ہمارا عذاب پہونچا تو وہ کیوں نہی جھکے اور انہوں نے عاجزی اور نیاز مندی کی روش کیوں نہ اختیار کی لیکن بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل سخت ہوچکے تھے اور وہ اپنی سختی پر قائم رہے اور شیطان ان کے سابقہ برے اعمال کو ان کے سامنے بنا سنوار کر دکھلاتا رہا یعنی عاجزی اور نیاز مندی کی راہ اختیار کرنے اور پیغمبروں پر ایمان لانے سے ان کے دلوں کی خشکی اور سختی مانع ہوئی نیز یہ کہ ان کے برے اعمال شیطان نے خوش منظر بناکر ان کو دکھلائے اور اپنے کافرانہ طریقہ کو اچھا سمجھ کر اسی پر قائم رہے۔