Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 47

سورة الأنعام

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ بَغۡتَۃً اَوۡ جَہۡرَۃً ہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۷﴾

Say, "Have you considered: if the punishment of Allah should come to you unexpectedly or manifestly, will any be destroyed but the wrongdoing people?"

آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالٰی کا عذاب آپڑے خواہ اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ بَغْتَةً ... Say: "Tell me, if the punishment of Allah comes to you suddenly..." means, while you are unaware -- or during the night -- striking you all of a sudden, ... أَوْ جَهْرَةً ... or openly during the day, or publicly, ... هَلْ يُهْلَكُ إِلاَّ الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ will any be destroyed except the wrongdoing people. This torment only strikes those who commit injustice against themselves by associating others with Allah, while those who worship Allah alone without partners will be saved from it, and they will have no fear or sorrow. In another Ayah, Allah said; الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَـنَهُمْ بِظُلْمٍ It is those who believe and confuse not their belief with Zulm, (wrong or Shirk). (6:82) Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 بغتۃ بیخبر ی سے مراد رات اور جھرۃ خبر داری سے دن مراد ہے جسے سورة یونس میں بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آجائے یا رات کو یا پھر بغتۃ وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آجائے اور جھرۃ وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] یکدم سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے مطلقاً ظاہر نہ ہوں اور جہرۃ یا علانیہ سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہوجائیں۔ [٥١] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عذاب آنے کی اطلاع اللہ تعالیٰ انبیاء کو بذریعہ وحی دیتا ہے اور انہیں ہدایت کردی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو ساتھ لے کر اس مقام سے نکل جائیں جہاں عذاب آنے والا ہو۔ اس طرح عذاب کی زد میں صرف ظالم ہی آتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ عذاب ظالموں کے ظلم کی وجہ سے ہی آتا ہے۔ لہذا ظالموں کو چاہیے کہ بلاتاخیر توبہ کرلیں۔ اور عذاب الٰہی سے خود بھی بچ جائیں اور دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب نہ بنیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تباہی اور ہلاکت تو ظالموں کے لیے ہی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انہیں دوزخ کا عذاب بھگتنا ہوگا اور صالح افراد تو موت کے بعد اللہ کے فضل و کرم کے مزید حقدار بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ ۔۔ : ” بَغْتَةً “ اچانک، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، یعنی رات کو اور ” جَهْرَةً “ کھلم کھلا، سب کے دیکھتے ہوئے، یعنی دن کو، جیسا کہ سورة یونس کی آیت (٥٠) میں ہے : ( ٗ بَيَاتًا اَوْ نَهَارًا ) ” رات کو یا دن کو۔ “ پہلی آیت میں صرف ان کے کانوں، آنکھوں اور دلوں کو لے جانے یا مہر لگا کر بند کردینے کی بات کی تھی، اب اس آیت میں عام عذاب کے ساتھ ڈرایا جا رہا ہے، یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو تم کسی صورت بچ نہیں سکو گے۔ باقی رہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور بچائے گا، کیونکہ پہلے جتنی بھی قومیں تباہ کی گئیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا مستقل طریقہ یہی رہا ہے کہ پہلے رسول اور اس کے پیروکاروں کو ظالم قوم کی بستی سے نکل جانے کا حکم دیا گیا، جب وہ نکل گئے تو ظالم لوگوں کو تباہ کردیا گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ بَغْتَۃً اَوْ جَہْرَۃً ہَلْ يُہْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٤٧ بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ جهر جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع . أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( ج ھ ر ) الجھر ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) مکہ والو بتلاؤ تو کہ اگر بیخبر ی یا تمہاری خبرداری میں تم پر عذاب الہی آپڑے، تو کیا گناہگاروں یا مشرکوں کے علاوہ اور کوئی ہلاک ہوگا ؟

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَاب اللّٰہِ بَغْتَۃً اَوْ جَہْرَۃً ہَلْ یُہْلَکُ الاَّ الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ ) یہ عذاب اچانک آئے یا بتدریج ‘ پیشگی اطلاع کے بغیر وارد ہوجائے یا ڈنکے کی چوٹ اعلان کر کے آئے ‘ ہلاک تو ہر صورت میں وہی لوگ ہوں گے جو رسول ( علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا کر ‘ اپنی جانوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب انبیاء و رسل (علیہ السلام) کی بعثت کا وہی بنیادی مقصد بیان ہو رہا ہے جو اس سے پہلے ہم سورة النساء (آیت ١٦٥) میں پڑھ چکے ہیں : (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔۔ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: کفار مکہ آنحضرتﷺ سے یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ کے جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ شاید وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر عذاب آیا تو مومن کافر سبھی ہلاک ہوجائیں گے، اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ ہلاک تو وہ ہوں گے جنہوں نے شرک اور ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 پہیلی آیت میں صرف ام لہ سماعت بصارت اور دل سلب کرلینے پر تنبیہ تھی۔ اب اس آیت میں عام عذاب کے ذکر کے ساتھ تو بیخ کی ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو تم نجات نہیں پو سکو گے باقی رہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے پیرو تو انہیں اللہ ضرور بچالے گا کیونکہ پہلے جتنی قومیں تباہ کی گئیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت رہی ہے کہ پہلے رسول اور ان کے متبعین کو ظالم قوم کی بستی سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے جب وہ نکل گئے تو قومتباہ کردی گئی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی وہ عذاب ہوگا بوجہ ظلم کے جیسا امم سابقہ پر بھی اسی وجہ سے ہوا سولامحالہ ظالموں ہی کے ساتھ خاص ہوگا اور ظالم تم ہو پس خاص تم پر ہی پڑے گا اور مومنین بچے رہیں گے سو تم کو متنبہ کیا جاتا ہے اور مراگ نبوہ جشنے دارد کا سہارا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سلب شدہ نعمتوں کو بحال کرنا عذاب کو ٹالنا اور کفار کے مطالبے کو پورا کرنا عام شخص تو درکنار کسی رسول کے بس میں بھی نہیں۔ قرآن مجید نے ہر نبی کے بارے میں یہ حقیقت منکشف فرمائی ہے کہ وہ فرشتہ اور کوئی دوسری جنس ہونے کے بجائے بنی نوع انسان میں سے ہی ہوا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اہل کفر ان سے ایسے مطالبات کرتے جنھیں پورا کرنا یا ان چیزوں پر اختیار رکھنے کا دعویٰ کسی نبی نے نہیں کیا تھا۔ انبیائے عظام (علیہ السلام) تو صرف وہی بات کرتے تھے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ انھیں پریشان اور لاجواب کرنے کے لیے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا پاکباز ہستیوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ یہی وطیرہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں نے اختیار کر رکھا تھا چناچہ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی غریب اور کنگال ہیں ہمارے لیے نہ سہی کم ازکم تمہیں اپنے لیے تو رزق کی فراوانی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اس طرح کبھی وہ قدرت کے پوشیدہ امور یعنی غیب کی خبروں کے بارے میں آپ سے سوال کرتے اور کبھی یہ اعتراض اٹھاتے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح انسانی حاجات کا اہتمام کرنے پر مجبور ہے۔ اسے تو ان حاجات اور ضروریات سے مبرا ہونا چاہیے تھا۔ ان مطالبات اور اعتراضات کے جواب میں آپ کو فقط یہی بات کہنے کا حکم دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں نے کبھی ان باتوں کا دعویٰ نہیں کیا میرا دعویٰ تو صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں مجھ پر میرے رب کے پیغامات نازل ہوتے ہیں۔ میں ان کی اتباع اور ابلاغ کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا ہوں اس لیے میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق بات کرتا ہوں اس کی پیروی وہ ہی شخص کرے گا جو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا شخص ہی دانا اور بینا کہلانے کا حق دار ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور و فکر نہیں کرتا وہ حقیقتاً اندھا ہے۔ اندھا اور دیکھنے والا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بس تمہیں اس حقیقت پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ کا عذاب ظالموں کے لیے خاص ہوتا ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے اور جنت کی خوشخبری دینے والے تھے۔ ٣۔ فاسقین کو دنیا و آخرت میں رسوا کن عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ ٤۔ تمام رسول اللہ کی وحی کے پابند تھے۔ ٥۔ کافر و مومن کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن نبی غیب نہیں جانتے : ١۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٢۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٤۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ (ھود : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٤٧۔ ظالموں کو عذاب الہی ہر صورت میں پکڑتا ہے ۔ یہ اچانک بھی آتا ہے جبکہ وہ غفلت میں ہوتے ہیں اور انہیں کوئی توقع نہیں ہوتی اور کبھی ان پر یہ عذاب اعلانیہ آتا ہے اور وہ اس کے لئے پوری طرح تیار بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن ظالم اقوام پر تباہی آکر رہتی ہے ۔ (یہ بات یاد رہے کہ قرآن کریم کی تعبیرات کے مطابق ظالمین سے مراد مشرکین ہیں) جب یہ عذاب آتا ہے چاہے اچانک آئے یا اعلانیہ تو پھر اس کے مقابلے میں وہ کوئی بچاؤ نہیں کرسکتے اس لئے کہ عذاب الہی کے مقابلے میں وہ اس قدر ضعیف ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کے بنائے ہوئے شریک اس عذاب کو روک سکتے ہیں اس لئے کہ جن لوگوں کو یہ لوگ شریک بناتے ہیں وہ تو اللہ کے ضعیف بندے ہیں ۔ یہ ایک متوقع صورت حالات ہے جو قرآن کریم ان کے سامنے اس موثر انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ یہ لوگ اس صورت حال سے ڈر جائیں اور اپنا بچاؤ کرلیں اور اس صورت حالات کے وقوع کے اسباب فراہم کرنے سے باز رہیں ۔ یہ متوقع صورت حال اللہ نے ان لوگوں کے سامنے اس لئے پیش فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ خود انسانی فطرت کے اندر تقوی موجود ہے اور ایسی صورت حالات کے تصور ہی سے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔ اب جب یہ لہر ساحل کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کے اندر ایک دوسرے کے بعد اٹھنے والے مناظر دکھائے جاسکتے ہیں اور موثر ہدایات دی جا چکتی ہیں اور ان ہدایات کے تاثرات سامعین اور ناظرین کے قلوب کی تہہ تک اتر جاتے ہیں تو اب حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے رسولوں کے فرائض نبوت کا تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ تعین اس لئے کیا جاتا ہے کہ رسولوں سے انکی اقوام کے لوگ خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول تو صرف مبلغ ہوتے ہیں ‘ خوشخبری دیتے ہیں اور انجام بد سے ڈراتے ہیں ۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد اب لوگ خود مختار ہوتے ہیں کہ وہ جو راہ چاہیں اختیار کریں ۔ ان کے اس اختیار تمیزی کے اوپر پھر سزا وجزاء مرتب ہوگی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54 یہ علیحدہ دلیل نہیں بلکہ چھٹی عقلی دلیل کا اعادہ ہے۔ پہلے گذر چکا ہے کہ اَرَاَیْتَ کے بعد استفہام ضرور آتا ہے خواہ مذکور ہو خواہ مقدر۔ گذشتہ آیت کے قرینہ سے یہاں اَغَیْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ یا فَمن یدفعہ مقدر ہے اور ھَلْ یُھْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ علیحدہ جملہ ہے ظالمون یعنی مشرکین کیونکہ انہوں نے شرک کی وجہ سے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ یعنی المشرکین لانھم ظلموا انفسہم بالشرک (خازن ج 2 ص 111) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 آپ ان سے فرمائیے ذرا یہ تو بتائو اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے خواہ وہ عذاب غفلت اور بیخبر ی میں آجائے جیسا کہ رات کو آجائے یا کھلم کھلا باخبر کے ساتھ آجائے تو کیا سوائے ظالم اور منکروں سے کوئی اور بھی ہلاک کیا جائے گا یعنی ہلاک تو بہر حال منکر ہی ہوں گے لہٰذا کفر و انکار سے باز آ جائو۔