Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 48

سورة الأنعام

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ فَمَنۡ اٰمَنَ وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۴۸﴾

And We send not the messengers except as bringers of good tidings and warners. So whoever believes and reforms - there will be no fear concerning them, nor will they grieve.

اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں ٰ اور ڈرائیں پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کر لے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ... And We send not the Messengers but as bearers of glad tidings and as warners. means, the Messengers bring good news to Allah's servants, as well as, command all that is good and righteous. They also warn those who disbelieve in Allah of His anger and of all types of torment. Allah said, ... فَمَنْ امَنَ وَأَصْلَحَ ... So whosoever believes and does righteous good deeds, meaning, whoever believes in his heart with what the Messengers were sent with and makes his works righteous by imitating them; ... فَلَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ... upon such shall come no fear, concerning the future, ... وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ nor shall they grieve. about what they missed in the past and left behind them in this world. Certainly, Allah will be the Wali and Protector over what they left behind. Allah said next, وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جلیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھی ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ 48۔ 2 مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انھیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں جہانوں کا رب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝ ٠ۚ فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٤٨ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور انبیاء کرام مومنین کو جنت کی بشارت دینے والے اور کافروں کو جہنم سے ڈرانے والے ہیں، لہٰذا جو شخص رسولوں اور کتابوں پر ایمان لایا اور حقوق اللہ کو ادا کیا تو جس وقت دوزخ والوں کو ڈرایا جائے گا اور اہل دوزخ غمگین ہوں گے تو ان کے مقابلے میں اہل ایمان پر کسی قسم کا خوف وحزن نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ الاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ج) (فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) یعنی تمام انبیاء و رسل اہل حق کے لیے بشارت دینے والے اور اہل باطل کے لیے خبردار کرنے والے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 48 تا 50 : مبشرین (خوش خبری دینے والے) منذرین (ڈرانے والے۔ آگاہ کرنے والے) ‘ یمسھم ( وہ ان کو چھوئے گی۔ پہنچے گی) لا اقول ( میں نہیں کہتا) اعلم الغیب ( میں غیبت جانتا ہوں) اتبع ( میں پیروی کرتا ہوں۔ پیچھے چلتا ہوں) یستوی (برابر ہے) ‘ الاعمی ( اندھا) البصیر ( دیکھنے والا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 48 تا 50 : ان آیات میں منصب رسالت کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے۔ پیغمبر کا کام اسی قدر ہے کہ ایمان لانے والوں کو جنت کی بشارت دیں اور دوسروں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں۔ ایمان کی سرحد محض دعوے پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے بڑ ھ کر وحی جلی اور وحی خفی کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ اب جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور وحیالٰہی کی پابندی کرتے ہیں۔ موت کے بعد انہیں کسی قسم کا خوف اور خطرہ نہیں ہے۔ نہ انہیں کوئی حسرت وافسوس ہوگا۔ لیکن جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلائیں گے وہ اپنا برا انجام اچھی طرح سوچ لیں۔ منصب رسالت کو واضح کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ نبی دولتوں اور خزانوں کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کی طرح ہرگز عالم الغیب نہیں ہوتا اگرچہ پیغام الٰہی میں کچھ پیشن گوئیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ وہ فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ سرتاپا انسان ہوتا ہے۔ ہاں اس پر اللہ کا پیغام نازل ہوتا ہے جس کی وہ خود بھی اطاعت کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اطاعت کی دعوت دیتا ہے۔ یہ بات کچھ اسی زمانے میں نہ تھی بلکہ آج بھی ہے کہ نادان عوام الناس نیک اور پارسا بزرگوں کی طرف سے طرح طرح کے خوش عقیدے رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بھلا وہ بھی کوئی نیک آدمی یا پیغمبر ہو سکتا ہے جو پریشان حال ہو۔ گھر والوں کو فاقے سے رکھے۔ اور ضرورت پڑنے پر دوسروں سے قرض بھی لے۔ بزرگ یا پیغمبر تو وہ ہونا چاہیے کہ جو مٹی کو چھوئے تو سونا بنادے جن کو حکم دے تو صحن میں نوٹوں کے پلندے لگ جائیں۔ بھلا وہ کیسا پیغمبر ہے جو یہ بھی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے ‘ کس تجارت میں فائدہ ہوگا کس میں نقصان۔ اور کون کب مرے گا۔ ان کے گمان مے مطابق جب کہ معمولی سے معمولی ‘ بخومی ‘ فال گیر اور کاہن یہ سب کچھ فوراً سکتے ہیں۔ بھلا وہ بھی کوئی پیغمبر ہے جو انسانوں کی طرح گوشت پوست اور ضروریات زندگی رکھتا ہے ‘ کھاتا ہے ‘ سوتا ہے ‘ بیوی بچے رکھتا ہے اور سڑکوں پر چلتا پھرتا ہے۔ اسے تو فرشتہ یا کم ازکم جادو والا جن ہونا چاہیے تھا۔ یہ اور اسی طر ح کی ہزاروں باتیں وہ کیا کرتے تھے ۔ ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہلوا دیا گیا ہے کہ مجھ سے غلط امیدیں نہ باندھی جائیں۔ میرا کام اللہ کا پیغام وصول کرنا ہے اور پہنچادینا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ہر ایک کو اپنے انجام کی خبر ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے۔ وحی سے اسے ایک خاص علم ‘ ایک خاص عقل ایک خاص روشنی ملتی ہے ‘ وہی آنکھ والا ہوتا ہے ‘ وہی دانا و بینا ہے۔ بقیہ سب اس کے مقابلے میں ان جیسی بصارت نہیں رکھتے۔ اس لئے فرمایا کہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا جس کو اللہ نے وحی کی روشنی اور علم عطا کیا ہے وہ اس کے برابر ہو سکتا ہے جو زندگی بھراندھیروں میں بھٹکتارہا ہو۔ ؟

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٤٨۔ ٤٩۔ دین اسلام کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ذہنی اور عقلی بلوغ تک پہنچائے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ اس عظیم قوت کو کام میں لا کر فائدہ اٹھائیں جو اللہ نے صرف انسان کو دی ہے اور اسے پوری طرح اس سچائی کے سمجھنے میں استعمال کریں جو اس کائنات کے صفحات میں موجود ہے ۔ خود زندگی کے طور طریقوں کے اندر موجود ہے اور انسان کی تخلیق کے رازوں میں پوشیدہ ہے ۔ یہ راز قرآن مجید نے سب سے پہلے انسانوں پر کھولے اور انسان کی قوت مدرکہ کو ان کی طرف متوجہ کیا ۔ یہ وجہ ہے کہ لوگوں کو حسی خارق عادت معجزات سے نکال کر عقلی میدان میں داخل کیا گیا ۔ حسی معجزات کے نتیجے میں انسان یقین کرنے پر مجبور تو ہوجاتا ہے لیکن اصل حقیقت اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ انسان کی گردن ظاہری خارق عادت واقعہ کے سامنے جھک جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دین اسلام نے عقل انسانی کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کاریگریوں کا مطالعہ کرے اور انہیں سمجھنے کی سعی کرے ۔ اس لئے کہ اس کائنات کی راز بذات خود معجزات ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ معجزات ہر وقت ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان کے صدور پر یہ کائنات قائم ہے اور اس کے عناصر ترکیبی انہیں قدرتی بوقلمونیوں پر مشتمل ہیں ۔ اسلام نے انسان کو یہ قوت مدرکہ اور یہ ملکہ بذریعہ کتاب الہی عطا کیا ۔ اپنے انداز بیان اور طرز تعبیر کے اعتبار سے یہ کتاب معجز ہے ۔ اس کا اسلوب بھی معجزے اور اس کی اجتماعی ساخت اور متحرک انداز بیاں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کی ساخت بےمثال ہے اور قرآن کے نزول کے بعد آج تک اس کی کوئی مثال نہیں لائی جاسکی ۔ انسان کو عقلی بلوغ کے مقام تک پہنچانے کے لئے طویل تربیت اور مسلسل ہدایت کی ضرورت تھی تاکہ انسان کی قوت مدرکہ کہ اندر یہ مطلوب عظیم انقلاب رویہ عمل لایا جاسکے ‘ اور انسانیت ترقی کے مقام بلند تک پہنچ سکے اور انسان خود اپنی قوت مدرکہ کے ساتھ اس کائنات اور موجودات کے اس مسلسل سفر کو سمجھ سکے ۔ لیکن قرآنی ہدایات کی روشنی میں قرآنی ضابطوں کے اندر رہتے ہوئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی روشنی میں انسان سفر کائنات کو مثبت واقعیت سے اور اچانک ایک مختصر عرصے میں سمجھ سکے اور اس کی یہ سمجھ اور اس کا یہ ادراک ان فلسفوں کے تصور اور ادراک سے بالکل مختلف ہو جو اس وقت رائج تھے ۔ مثلا یونانی اور مسیحی لاہوتی فلسفے یا محض حسی اور مادی تصور کائنات جو اس دور میں ہندی ‘ مصری ‘ مجوسی اور بودھ فلسفوں کی شکل میں رائج تھے اور انسانوں کو رنگ وبو کے اس محدود دائرے سے بھی نکال دے جو نزول قرآن کے وقت عربوں میں عام تھے ۔ یہ ہدایت وتربیت حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض میں سے تھی اور جس طرح ان دو آیات کے اندر اس کی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل کردار یہ تھا ۔ اس کی مزید تشریح اگلی لہر میں بھی آپ دیکھیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ رسول انسان ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دنیاوالوں کی طرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ انہیں اچھے انجام کی خوشخبری دے اور برے انجام سے ڈرائے ، ان امور پر اس کا فریضہ رسالت ختم ہوجاتا ہے ۔ اب آگے لوگوں کا فریضہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ رسول کی دعوت کو قبول کریں ۔ لوگوں کی جانب سے قبولیت اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر ہوتی ہے اور اس دعوت کے مقابلے میں جو شخص جو رویہ بھی اختیار کرے گا اس پر جزا ملے گی یا سزا ہوگی ۔ لہذا جو ایمان لے آئے اور ایسے نیک کام کرے جن سے اس کے ایمان کا اظہار ہو تو اس کا انجام اطمینان بخش ہوگا اور وہ کسی خوف سے دوچار نہ ہوگا نہ اسے بےاطمینانی ہوگی ۔ جن لوگوں نے ان آیات کو جھٹلایا جو رسول لے کر آتا ہے اور جن کے اشارات کتاب کائنات کے اندر موجود ہوتے ہیں تو وہ لوگ عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ اور یہ عذاب اور سزا ان کو ان کی اس تکذیب کیوجہ سے دی جائے گی اور اس کی تعبیریوں کی گئی بما کانوا یفسقون (اس وجہ سے کہ انہوں نے فسق اختیار کیا تھا جس سے مراد کفر ہے) ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر شرک پر ظلم کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور کفر پر فسق کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی واضح اور سیدھا سادا تصور ہے جس کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔ رسول کے مقام اور اس کے فرائض کے بارے میں یہ ایک واضح نشاندہی ہے کہ دین میں رسول کا کیا مقام وحیثیت ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں ؟ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مطابق مقام الوہیت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے ‘ اپنے تمام خصائص کے ساتھ اور تمام کاموں کو اللہ کی تقدیر اور فیصلوں پر موقوف کردیا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر اور مشیت کے دائرے کے اندر انسان کو سوچ اور فیصلے کی آزادی بھی دی گئی ہے اس وجہ سے انسان مسئول ہوجاتا ہے اور جزاء وسزا کے نتائج اس کے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اس واضح تصور سے ان پیچیدہ تصورات کی مکمل نفی ہوجاتی ہے جو بعض لوگوں میں رسولوں کی شخصیت اور طبیعت کے بارے میں غلط فلسفوں کے نتیجے میں رائج ہیں یا دور جاہلیت میں رائج تھے جو یہ توقع کرتے تھے کہ اگر رسول برحق ہے تو معجزے کیوں نہیں لاتا ؟ اور لوگ اس کے مطیع فرمان کیوں نہیں ہوتے ؟ یوں اسلام نے انسان کو عقلی بلوغ کے دور میں داخل کیا اور نہایت ہی سادہ انداز میں ‘ بغیر اس کے کہ وہ پیچیدہ ذہنی اور فلسفیانہ تصورات میں گم ہو ‘ یا لاہوتی جدلیات و مباحث میں پڑ کر اپنی قوت مدرکہ کو ضائع کرے جس طرح قرون مظلمہ میں ہوتا رہا ہے ۔ درس نمبر ٦١ ایک نظر میں : اس لہر میں حقیقت رسالت کے بیان کا باقی حصہ دیا گیا ہے ۔ مشرکین عرب کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ رسالت کی حقیقت کیا ہوتی ہے اور رسول کا مزاج کیا ہوتا ہے اور یہ حقیقت ان کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ سابقہ لہر میں ان کا تذکرہ ہوچکا ہے ۔ یہاں رسالت کے بارے میں ان کے جو جاہلانہ تصورات تھے ان کی مزید درستی کی جارہی ہے ۔ خصوصا یہ وضاحت کردی جاتی ہے کہ رسول بشر ہوتے ہیں اور تمام رسول بشر ہی گزرے ہیں اس لئے کہ عربوں اور انکے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیتوں کے اندر حقیقت رسالت کے بارے میں بہت کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ۔ ان تصورات کی وجہ سے یہ لوگ حقیقت رسالت حقیقت وحی اور حقیقت نبوت اور ذات رسل کے بارے میں جادہ حق سے بہت دور نکل چکے تھے اور تمام لوگ خرافات اور قصے کہانیوں کی دنیا میں داخل ہو کر گمراہ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے نبوت اور رسالت کو سحر اور جادوگری سے ملا دیا تھا ۔ وحی کو وہ جنون سے بھی تعبیر کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ رسول غیب کی خبریں دیا کرتا ہے ۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ سے خوارق اور معجزات صادر ہوتے ہیں اور اسے وہ کام کرنے چاہئیں جو جنات کے عامل اور جادوگر کیا کرتے ہیں ۔ جب اسلامی نظریہ حیات آیا تو اس نے باطل عقائد پر بمباری کرکے باطل کا سر پھوڑ کر رکھ دیا اور ایمان کو اس کی سادگی ‘ واقعیت ‘ سچائی اور اس کی وضاحت لوٹا کر دے دی ۔ یوں ایک نبی کی سچی تصویر سامنے آئی اور نبوت کا واضح تصور دنیا نے پایا اور تمام خرافات اور قصے کہانیوں اور وہمی دیومالائی تصورات سے انسان نے نجات پائی جو اس وقت دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے ۔ مشرکین کے ہاں رائج تصورات وہ تھے جو ان کے قرب و جوار میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر بالعموم پائے جاتے تھے ۔ ان دونوں ملتوں کے اندر بھی بہت سی شاخیں اور فرقے تھے ۔ لیکن تمام فرقوں کے اندر حقیقت نبوت کو بگاڑنا قدر مشترک تھی ۔ اس لہر میں حقیقت رسالت اور حقیقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باطل ادہام و خرافات سے پاک وصاف کر کے پیش کرنے کے بعد اب اسلامی نظریہ حیات کو بھی نہایت ہی سادہ انداز میں پیش کردیا جاتا ہے ۔ اسے بغیر کسی مبالغہ اور بغیر کسی بناوٹ کے اپنے سادہ اور حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس لئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس نظریہ کے پیش کرنے والے ہیں وہ بھی تو انسان ہیں ۔ ان کے پاس دنیا کے خزانے نہیں ہیں ۔ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے ‘ نہ ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ فرشتے ہیں ۔ وہ تو صرف اپنے رب کی طرف سے ہدایات اخذ کرتے ہیں اور صرف اسی کے حکم کا منبع ہیں ۔ ان کے پاس سارا علم بذریعہ وحی رب کی طرف سے ان کے پاس آجاتا ہے ۔ جو لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں وہ لوگوں کے نزدیک نہایت ہی مکرم ہیں ۔ اس لئے رسول کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھے اور ان کا خیر مقدم کرے ۔ انہیں یہ خوشخبری دے کہ اللہ نے اپنے اوپر یہ فرض کرلیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہایت ہی رحیمانہ سلوک کرے گا ۔ نیز رسول کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کے دلوں کے اندر خوف خدا موجود ہے اور جو آخرت کی جوابدہی کے قائل ہیں تاکہ وہ خدا خوفی کے اعلی مقام تک پہنچ جائیں ۔ بس یہی ہے رسول اللہ کا فریضہ اور اس کی ڈیوٹی اور اس کی حقیقت دو لفظوں کے اندر منحصر ہے ۔ ” بشریت “ اور ” اخذوحی “ ان دو لفظوں کے اندر رسول کی حقیقت بھی بیان کردی گئی اور رسول کے فرائض منصبی کے حدود کا بھی تعین کردیا گیا ۔ فکر کی اس درستی اور انجام بد کی نشاندہی کے ساتھ ہی مجرمین کی راہ میں بھی متعین ہوجاتی ہے اور مومنین اور مجرمین کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ حق و باطل ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور حقیقت رسول اور منصب رسالت کے بارے میں تمام ادہام و خرافات کا رد ہوجاتا ہے ۔ نہایت ہی واضح طور پر مومنین اور غیر مومنین کے درمیان لکیر کھینچ جاتی ہے ‘ کھلے طور پر ۔ ان حقائق کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مقام الوہیت کے بعد پہلو بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ رسول خدا اور خدا کے درمیان تعلق کی نوعیت بھی بتا دی جاتی ہے ۔ نیز رسول اور اس کے متبعین اور اس کے مخالفین کے ساتھ اس کے تعلق کی حدود اور نوعیت کا بھی تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ متبعین کا رنگ ڈھنگ کیا ہوتا ہے اور گمراہوں کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ہدایت پانے والے ہیں وہ آنکھوں والے ہوتے ہیں اور جو گمراہ ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے اوپر اپنے مومن بندوں کے لئے رحمت فرض کردی ہے اور اگر ان میں سے کوئی تائب ہوجائے تو اللہ اسے ضرور معاف فرماتے ہیں ‘ اگرچہ انہوں نے معاصی کا ارتکاب کیا ہو ‘ بشرطیکہ یہ ارتکاب انہوں نے جہالت کی وجہ سے کیا ہو اور توبہ کے بعد وہ اصلاح کی راہ اپنائیں ۔ نیز اللہ مجرموں کی روش کو اچھی طرح واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ لہذا جو بھی ایمان لاتا ہے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی علی وجہ البصیرت گمراہ ہو۔ ہر شخص جو موقف بھی اختیار کرے ، سوچ کر کرے ۔ کسی غلط فہمی اور کسی گمان وتخمین کی بنیاد نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55 یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال پہلے گزر چکا ہے کہ اگر یہ اللہ کا سچا رسول ہوتا تو ہمیں معجزات مطلوبہ دکھاتا وَ قَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلیہ ایۃ الخ۔ 56 ماننے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا یہ نہ ماننے والوں کیلئے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 اور ہم پیغمبروں کو محض اس لئے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ فرماں برداروں اور اطاعت گذاروں کو رضائے الٰہی کی بشارتدیں اور نافرمانوں اور منکرین دعوت حق کو غضب خداوندی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرائیں پھر اس کے بعد جو شخص ایمان لے آئے اور پیغمبر کی بات مان لے اور اپنے اعتقاد و عمل درست کرے اور سنوار لے تو ایسے لوگوں ک و قیامت کے دن نہ کسی قسم کا خوف و ہراس ہوگا اور نہ وہ مغموم ہوں گے اور نہ آزردہ ہوں گے۔