Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 56

سورة الأنعام

قُلۡ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَتَّبِعُ اَہۡوَآءَکُمۡ ۙ قَدۡ ضَلَلۡتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾

Say, "Indeed, I have been forbidden to worship those you invoke besides Allah ." Say, "I will not follow your desires, for I would then have gone astray, and I would not be of the [rightly] guided."

آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر پکارتے ہو ۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہ کروں گا کیونکہ اس حالت میں تو میں بے راہ ہو جاؤں گا اور راہ راست پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "I have been forbidden to worship those whom you invoke (worship) besides Allah." Say: "I will not follow your vain desires. If I did, I would go astray, and I would not be one of the rightly guided." Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کردوں تو یقینا میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی عام ہے۔ حتٰی کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] مجرموں کی خواہش کیا تھی :۔ مشرکین مکہ یا مجرمین یہ چاہتے تھے کہ کوئی سمجھوتہ کی راہ نکل آئے۔ رسول اللہ ہمارے معبودوں یا دیوی دیوتاؤں کی توہین نہ کریں اور ہم انہیں کچھ نہ کہیں۔ آپ کی تعلیم یہ تھی کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اس تعلیم سے صرف ان کے بتوں کی توہین نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے آباؤ اجداد کی بھی ہوتی تھی اور ان کی بھی۔ اسی لیے وہ سٹپٹاتے تھے۔ اسی بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ نہ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرسکتا ہوں نہ ہی ان دیوی دیوتاؤں کی تعظیم کرسکتا ہوں میں تو مامور ہی اس بات پر ہوں کہ لوگوں کا رشتہ ان معبودوں سے توڑ کر اللہ سے جوڑ دوں۔ پھر اگر میں نے خود ہی وحی الٰہی کے خلاف کیا تو میں تو خود بھی ہدایت پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔ دوسرے کیسے ہدایت پاسکیں گے اور چونکہ یہ حکم مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے لہذا میں کسی قیمت پر بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ ۔۔ : اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، تاکہ حق واضح ہو اور مجرموں کا راستہ ظاہر ہوجائے، اب اس آیت میں مجرموں کے راستے پر چلنے سے منع فرمایا، جس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ مجرموں کا راستہ کیا ہے، جس پر چلنے سے تمہیں منع کیا گیا ہے ؟ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چلوں گا، اگر میں ایسا کروں تو میں گمراہوں میں شامل ہوجاؤں گا اور میں ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا۔ اللہ کی ہدایت کے مخالف قول کو کتنا ہی حکیمانہ اور دانشمندانہ سمجھا جائے وہ محض خواہش پر مبنی ہے اور سراسر ضلالت و گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی کے پاس حکم کا اختیار سمجھنا اس کی عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اللہ کے سوا ان تمام چیزوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم پکارتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Linkage of Verses In the verses cited above, the answer to disbelievers who were demanding that the Divine punishment should come to them posthaste was given in: وَهُوَ خَيْرُ‌ الْفَاصِلِينَ (He is the best decision-maker) while the mention of the perfect power of Almighty Allah was made in: وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ (Allah knows the unjust best). Next from here, there is a description of the encompassment of the Knowledge and Power of Allah Ta` ala on all conceivable data and destiny.

خلاصہ تفسیر آپ (ان معاندین سے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان (معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم لوگ اللہ (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (اور ان کے طریقہ کی گمراہی ظاہر کرنے کے لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے (باطل) خیالات کا اتباع نہ کروں گا، کیونکہ (اگر نعوذ باللہ میں ایسا کروں تو) اس حالت میں بےراہ ہوجاؤں گا اور راہ (راست) پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا، آپ (ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو (اس دین اسلام کے حق ہونے پر) ایک دلیل (کافی موجود) ہے جو میرے رب کی طرف سے (مجھ کو ملی ہے، یعنی قرآن مجید جو کہ میرا معجزہ ہے، جس سے میری تصدیق ہوتی ہے) اور تم (بلاوجہ) اس کی تکذیب کرتے ہو (اور تم جو یہ کہتے ہو کہ اگر دین اسلام حق ہے تو ہمارے انکار پر آسمان سے پتھر برسیں یا کوئی اور عذاب سخت آئے، جیسا کہ دوسری جگہ ان الفاظ سے مذکور ہے، (آیت) ان کان ھذا ھو الحق من عندک۔ الخ۔ ، تو اس کا جواب یہ ہے) جس چیز کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب الیم) وہ میرے پاس (یعنی میری قدرت میں نہیں) حکم کسی کا نہیں (چلتا) بجز اللہ کے (اور اللہ کا حکم نزول عذاب کا ہوا نہیں تو میں کیسے عذاب دکھلا دوں) اللہ تعالیٰ حق بات کو (دلیل سے) بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے (چنانچہ اس نے میری رسالت کی واضح اور قوی دلیل قرآن کریم بھیج دیا، اور دوسرے واضح معجزات ظاہر فرما دئیے، اور دلیل صحیح ایک بھی کافی ہوتی ہے تو تمہاری فرمائشی دلیلیں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے اس وقت نزول عذاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں فرمایا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس (یعنی میری قدرت میں) وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب) تو (اب تک) میرا اور تمہارا باہمی قضیہ (کبھی کا) فیصل ہوچکا ہوتا اور ظالموں کا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کس وقت کیا جائے) ربط آیات آیات مذکورہ میں کفار کی طرف سے نزول عذاب کی عاجلانہ فرمائش اور اس کا جواب خیر الفاصلین میں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ تامہ کا ذکر اعلم بالظالمین میں مذکور تھا۔ آگے تمام معلومات و مقدرات پر اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کا احاطہ بیان کیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ۭ قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَہْوَاۗءَكُمْ۝ ٠ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ۝ ٥٦ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ ضَلل وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان . جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ عینیہ اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ قرآن حکیم میں مجھے بتوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے، آپ ان سے یہ بھی فرما دیجیے کہ بتوں کی عبادت اور مسلمان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پاس سے ہٹا دینے میں، میں تمہاری پیروی نہیں کروں گا کیونخہ اگر میں نے ایسا کیا تو اپنے عمل میں صحیح راہ پر نہ رہوں گا ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (قُلْ اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط) ۔ یہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ جن کو تم لوگ اللہ کے علاوہ معبود مانتے ہو ‘ ان کو میں نہیں پکار سکتا۔ مجھے اس سے منع کردیا گیا ہے۔ مجھے تو حکم دیا گیا ہے : (لَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ) ( الجن ) کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 یعنی نزول عذاب کا جو مطالبہ کررہے ہو یہ میرے اختیار میں نہیں ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 7 ۔ آیات 56 ۔ تا 60 ۔ اسرار و معارف : آپ انہیں صاف طریقہ سے بتا دیجئے کہ اللہ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو مجھے ان کی اطاعت سے روک دیا گیا ہے اس لی کہ اللہ کریم کو کبھی یہ بات گوارہ نہیں ہوسکتی کہ بندہ تو اس کا ہو اور اپنی ضروریات کسی اور کے دروازے پر لے جائے پھر حال یہ ہے کہ ہر ضرورت پوری بھی اللہ ہی کرتا ہے یہ انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ اس کے صلے میں احساس تشکر دوسروں کے در پہ نچھاور کرے اور یہ محض تمہارے نفس کا فریب ہے اگر خدانخواستہ تمہاری تائید کروں تو میں غلطی کرنے والوں میں سے ہوجاؤں گا اور سیدھی راہ چھوٹ جائے گی یہ بات پھر بھی درست ثابت نہ ہوسکے گی لہذا میں ایسی بات کیوں کروں۔ اور پھر میرے پاس تو میرے پروردگار کی طرف سے واضح دلائل موجود ہیں نزول وحی سے کلام ، اللہ کی کتاب اور علوم الہیات کا بہت بڑا خزانہ جس کو تم پہچان ہی نہیں سکے بلکہ محض انکار کیے جا رہے ہو اور اس پر مزید ناشکری کے مرتکب ہوتے ہو جب کہتے ہو کہ اگر اس کے انکار کا نتیجہ عذاب ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا میں نے یہ دعوی تو نہیں کیا کہ عذاب وثواب میرے پاس ہے میں تمہیں یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کر رہا ہوں کہ فیصلہ صادر فرمانا خود اللہ کا کام ہے اس میں کسی کو مجال دم زدن نہیں یہ اس کی مرضٰ تمہیں کتنی مہلت دیتا ہے یا کس کو توبہ کی توفیق ارزاں ہوتی ہے کون کب اور کس عذاب میں گرفتار ہوتا ہے کہ اللہ کریم ہمیشہ کھری کھری بات کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے آپ انہیں فرما دیجئے کہ اگر عذاب وثواب میرے پاس ہوتے اور تم یوں نقد طلب کرتے تو میں دیر نہ کرتا بلکہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا لیکن یہ سرے سے میری ذمہ داری ہے نہ میرے فرائض میں داخل میرا کام اللہ کی بات اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہے کس نے کیا جواب دیا مجھے بتانے کی ضرورت بھی نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ کس نے کتنی زیادتی کی اس کی ذات سے ہرگز چھپا ہوا نہیں۔ اوصاف باری : مذہب باطلہ نے انسانی ضروریات کے مطابق مختلف چیزوں میں مختلف اوصاف کا یقین کرکے متعدد ایسے وجود قبول کرلیے جن میں سے ہر ایک عبادت کا مستحق ٹھہرا مگر مذہب حقہ اسلام نے اس بات کو صاف کردیا کہ ہر طرح کا کمال اور تمام اوصاف مثلاً پیدا کرنا رزق دینا۔ ضروریات سے واقف ہونا۔ علم یعنی ہر ایک کے ہر حال کی خبر اور قدرت یعنی ہر کام کو ذاتی طور پر کرسکنا بغیر کسی احتیاج کے یہ صرف ایک ہستی میں ہیں اور وہی اکیلا معبود برحق ہے کوئی نبی ، کوئی فرشتہ تک ان اوصاف میں اس کا شریک نہیں سب اس کی مخلوق ہے اور جس کے پاس کوئی کمال بھی ہے وہ اسی کا عطا کیا ہوا ہے لیکن اس کی ساری صفات بھی ذاتی ہیں مخلوق نہ تھی اس نے پیدا کی مگر وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا جیسے اس کی ذات ازلی و ابدی ہے ویسے ہی اس کی ساری صفات بھی ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گی مگر سب اوصاف کو یہاں دو صفات میں سمو دیا گیا ہے غالبا اس لیے کہ انسان اگر اصلاح پذیر ہونا چاہے تو ان دو کا یقین اسے پوری زندگی کے لیے رہنمائی مہیا فرما دیتا ہے اول علم اور دوسرے قدرت۔ تو پہلے علم کے بارے ارشاد ہوتا ہے کہ اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ یعنی علوم غیبیہ میں مکلوق کو اصلاً دخل نہیں۔ یہاں کچھ الجھاؤ پیدا ہوتا ہے کہ بعض باتیں جن کو لوگ سن کر غیب کا علم یقین کرلیتے ہیں وہ تو مخلوق میں بھی ثابت ہیں جیسے حکیم ، ڈاکٹر ، یا سائنسدان بعض پیشگوئیاں کردیتے ہیں جو سچ ثابت ہوتی ہیں اس کی اصل یہ ہے کہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی اثر سے اندازہ لگاتے ہیں جو کبھی غلط بھی ہوسکتا ہے اور ٹھیک بھی مگر وہ اثر اتنا خفیف ہوتا ہے کہ عام آدمی محسوس نہیں کرپاتا لہذا یہ غیب کا علم تو نہ رہا اس کے جاننے کا سبب تو موجود ہوتا ہے دوسری قسم کا علم کہانت یا رملی نجومی وغیرہ کا علم ہے جس کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ بعض کا سبب شیطان سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے بتانے سے کئی باتیں کاہن جان لیتے ہیں جو یہاں سے دور واقع ہوئی ہوتی ہیں یا پھر نجومیوں یا ہاتھ دیکھنے والوں کا فن ہے جس کے اندازے ہوتے ہیں جو غلط بھی ہوسکتے ہیں اور ٹھیک بھی بہرحال ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ضرور موجود ہوتا ہے سب سب سے مضبوط علم انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اور اہل اللہ کا ہوتا ہے نبی دو جہان کی خبر دیتا ہے حقائق اخرویہ سے آگاہ فرماتا ہے اور واقعی غیب کی باتیں بتاتا بھی ہے اور غیب ہی پر ایمان لانا شرط بھی ہے مگر اصطلاح قرآن میں اسے بھی علم غیب اس لیے نہیں کہا جاتا کہ نبی کو غیب پر اطلاع دی جاتی ہے اور جو علم اطلاع پانے سے حاصل ہوا اطلاع عن الغیب کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا علم ایسا ہے کہ نہ کسی اثر کا محتاج ہے نہ اطلاع کا جو ہوچکا ہورہا ہے یا ہوگا سب کچھ اس کے علم میں حاضر و موجود ہے حتی کہ کش کی و تری صحراؤں کی وسعتوں میں ریت کے کتنے ذرے ہیں اور سمندر میں کتنے قطرے سب جانتا ہے کوئی پتہ خشک ہو کر جھڑتا ہے تو اس کے علم میں ہے زمین کی اندھیری تہوں میں کوئی دانہ اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں بلکہ کوئی چھوٹی بڑی خشک و تر ایسی چیز نہیں جو لوح محفوظ تک میں موجود نہ ہو کائنات تو اس میں لکھی پڑی ہے اور اللہ کا علم اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ رہی قدرت کی بات تو انسان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بغیر نیند زندہ نہیں رہ سکتا نیند جو موت کی بہن ہے اللہ ہی ایسا قادر ہے جو نیند میں انسان پر موت ایسی حالت وارد کردیتا ہے اور اسے بھلے برے سیاہ سفید کی کوئی خبر نہیں رہتی اور دن بھر کی ہر حرکت کو وہ دیکھتا ہے یعنی جو کچھ کرکے تم سوئے تھے اس کے علم میں ہے تم اس کے قبضہ قدرت میں ہو پھر تمہیں زندہ کردیتا ہے کہ جو مہلت حیات دی تھی پوری کرلو تمہاری راہنمائی کے اسباب موجود ہیں اگر واپس آنا چاہو تو باب توبہ کھلا ہے ورنہ بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں پلٹ کر میرے حجور ہی پیش ہونا ہے تمہیں تمہارے اعمال کا ایک ایک حرف بتا دوں گا ایک ایک حرکت سے آگاہ کردوں گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 56 تا 58 : نیھت (میں روکا گیا ہوں) ان اعبد (یہ کہ میں عبادت و بندگی کروں) لا اتبع ( میں پیروی نہ کروں گا) ‘ قد ضللت ( یقیناً میں بہک جاؤں گا) عندی (میرے پاس) تستعجلون (تم جلدی مچاتے ہو۔ جلدی کرتے ہو) الحکم (حکم ۔ فیصلہ) یقص ( وہ بیان کرتا ہے) ‘ الفصلین (فیصلہ کرنے والے۔ جدا کرنے والے) ‘ لو ان عندی ( اگر بیشک میرے پاس ہوتا) لقضی الامر (البتہ معاملے کا فیصلہ کردیا جاتا) ۔ تشریح : 56 تا 58 : آیت 56 میں بتایا گیا ہے کہ شرک کیا ہے ؟ (1) اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی اور پرستش کرنا۔ (2) شیطانی ہوا و ہوس کے پیچھے بھاگنا۔ (3) ہدایت کی راہ چھوڑ کر گمراہی کے گڑھے میں گر پڑنا۔ آیت 57 میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کیا ہے ؟ (1) اللہ کی طرف سے روشن دلیل یعنی وحی جل اور وحی خفی (2) اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ (3) حق یعنی سچی بات ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی (4) قیامت کے دن صرف اللہ ہی فیصلہ فرمائیں گے۔ آیت نمبر 58 میں کفر اور نبوت کے مقامات کا فرق واضح کیا گیا ہے کفر کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو ابھی فوراً عذاب لے آئو۔ نبوت کا جواب ہے ” عذاب لے آنا ابھی ایا کبھی میرے اختیار میں نہیں ہے مگر ایک دن عذاب آئے گا۔ اللہ ایک ایک گنہ گار کو پہچانتا ہے۔ توحید اور شرک کے درمیان کوئی مفاہمت کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔ گرو نانک کے سکھ مذہب نے سمجھوتہ کی بڑی کوشش کی ہے۔ گرنتھ صاحب اور ان کی دوسری کتابوں میں معبود کہیں ایک ہے اور کہیں ایک سے زیادہ اور کہیں ایک سے بہت زیادہ۔ یہ تو ذات کا معاملہ ہوا۔ رہیں صافت ‘ تو ان میں اس سے بھی زیادہ پیچیدگی اور معمہ ہے۔ اللہ کی شان ہے کہ دین بددین اور لادین سب کے ماننے والے موجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس مضمون کا توزیادہ تعلق توحید سے تھا آگے کا مضمون زیادہ متعلق رسالت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین نہ صرف خودگمراہ ہوتے ہیں بلکہ وہ دوسروں سے بھی اپنا عقیدہ اپنانے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا کفر و شرک واضح کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کرایا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مشرکین اور منکرین کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہ توحید پرستوں کو ان کے راستے سے ہٹا کر شرک اور نافرمانی کے راستہ پر لگائیں۔ جس کے لیے قرآن مجید نے متعدد بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یہ اظہار اور اعلان کروایا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں لوگوں کو بتلائیں کہ مجھے غیر اللہ کی عبادت اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ اگر میں ہدایت کے خلاف لوگوں کی خواہش کی پیروی اور غیر اللہ کی عبادت کروں تو اللہ کا رسول ہونے کے باوجود میں بھی ہدایت سے تہی دامن اور گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ آپ کی زبان اطہر سے یہ اعلان سن کر کفار انتہائی مایوس ہو کر یہ مطالبہ کرتے کہ اگر آپ وا قعتا اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہیں تو پھر ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ اس حماقت کا جواب دیتے ہوئے آپ سے یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ بلاشبہ میں اپنے رب کی دلیل پر ہوں جس کو تم مسلسل جھٹلاتے ہو۔ جہاں تک تمہارے مطالبے کا تعلق ہے جس پر تم آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہو یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کب اور کس طرح تم پر عذاب نازل کرے گا میں اس پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ کیونکہ کسی کی ہدایت یا گرفت کا فیصلہ کرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی حاکم مطلق ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ ٢۔ خود ساختہ خداؤں کی عبادت کرنے والے گمراہ ہیں۔ ٣۔ جزاء و سزا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٤۔ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ٥۔ ظالموں کو دنیا و آخرت میں عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن حکم اللہ ہی کا چلتا ہے : ١۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ (المائدۃ : ١) ٢۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔ اس کا حکم ہے کہ نہ عبادت کرو مگر صرف اسی کی۔ (یوسف : ٤٠) ٣۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور فیصلہ کرتا ہے ان کے درمیان اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (الممتحنۃ : ١٠) ٤۔ اللہ فیصلے کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن جس بات میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١١٣) ٥۔ قیامت کے دن آپ کا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٦ تا ٥٨۔ یہ لہر ہدایت اور اشارات سے بھری پڑی ہے ۔ اس میں قلب انسانی پر اثر انداز ہونے والے مختلف عوامل کے ذریعے حقیقت الوہیت کو نظروں کے سامنے لایا گیا ہے ۔ ان مؤثرات اور ضربات میں سے اہم اور گہرا موثر اس میں لفظ قل کا تکرار ہے ‘ کہہ دو ‘ کہہ دو ‘ کہہ دو ‘ اس میں خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی طرف سے آنے والے ہر پیغام کو پہنچا دیں ۔ یہ وہ پیغام ہے جو کسی اور گروہ کے پاس نہیں ہے ‘ کوئی اور اس پیغام کا حامل نہیں ہے ۔ اور نہ یہ پیغام کسی اور پر القا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَہْوَاء کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (56) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو ” تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ “ کہو : ” میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا ‘ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا ‘ راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اعلان فرما دیں کہ آپ کو ان لوگوں کی بندگی کرنے اور انکی پیروی کرنے سے خدا نے منع کردیا ہے جن کی بندگی اور پیروی تم مشرکین کرتے ہو ۔ میں تمہارے معبودوں کو کسی صورت میں اپنے رب کا ہمسر نہیں بنا سکتا ۔ اس لئے کہ مجھے اس بات سے روک دیا گیا کہ میں لوگوں کی خواہشات کی پیروی کروں اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہیں وہ محض اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے ان لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اللہ کا ہمسر بناتے ہیں ۔ وہ کسی علم یا دلیل کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہے ۔ اور نہ اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ انکے نزدیک یہ کوئی حق بات ہے ۔ نیز یہ کہ اگر میں ان لوگوں کی پیروی کروں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ نہ رہوں گا کیونکہ جن لوگوں پر ان کی خواہشات مسلط ہوتی ہیں وہ لازما گمراہی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپ مشرکین کے ساتھ اس انداز میں ہمکلام ہوں ۔ ان کے ساتھ اس انداز میں دو ٹوک بات کریں ۔ اس سورة میں اس سے پہلے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا چکا ہے ۔ (آیت) ” أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19) ۔ ” کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسراخدا بھی ہے ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “ مشرکین مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پیشکش کرتے رہے تھے کہ آپ انکے دین کو مان لیں اور وہ آپ کے دین کو تسلیم کریں گے ۔ آپ ان کے خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور وہ آپ کے الہ واحد کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ شاید اس قسم کی مصالحت مسالت کا امکان ہے اور یہ کہ ایک ہی دل میں شرک اور توحید جمع ہو سکتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ غیر اللہ کی بندگی اور پیروی کے ساتھ ساتھ اللہ کی بندگی اور پیروی بھی ممکن ہے حالانکہ یہ اجتماع ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے ساتھ دوسرے شریکوں کو تسلیم کرے ۔ وہ تو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے بندے صرف اور صرف اس کی بندگی کریں ۔ اللہ کو وہ بندگی سرے سے قبول ہی نہیں ہے جس میں شرک کا کوئی شائبہ تک موجود ہو ‘ چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ۔ آیت کا مقصد تو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یوں مخاطب ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی بندگی سے منع کردیا گیا ہے جن کی یہ لوگ بندگی کرتے ہیں یا جنہیں وہ الہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہاں انداز تعبیر یوں ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے ” الذین “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو قابل غور ہے اس لئے کہ الذین کا لفظ ذوالعقول کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اگر مراد صرف بتوں سے ہوتی یا دوسرے بےجان معبود مراد ہوتے تو یہاں لفظ (ما) استعمال ہوتا (الذین) استعمال نہ ہوتا ۔ لہذا یہاں بتوں اور دوسرے حجر وشجر سے کوئی اور مخلوق مراد ہے جنکے لئے لفظ الذین استعمال ہوا ہے ۔ ان معبودوں کے لئے الذین کی ضمیر استعمال بتاتا ہے کہ معبود ذوالعقول تھے ۔ اس تعبیر کی تائید دو باتوں سے ہوتی ہے ایک تو واقعی تاریخی حائق سے اور دوسری اسلامی اصطلاحات سے ۔ تاریخی واقعہ یہ ہے کہ مشرک صرف پتھر کے بتوں اور درختوں کی پوجا نہ کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ جنوں ‘ فرشتوں اور انسانوں کو بھی پوجتے تھے ۔ انسانوں کی پوجا اس طرح کرتے تھے کہ وہ انسانوں کو قانون سازی اور افراد کے لئے راہنمائی کا حق دیتے تھے یہ انسان ان کے لئے رسم و رواج قوانین اور ضابطے بناتے تھے جن کے مطابق ان کے ہاں اجتماعی عمل ہوتا اور تنازعات کے فیصلے ہوتے ۔ ان انسانوں کی رائے اور دوسرے انسانوں کے رواج کے مطابق ۔ اب ہم اسلامی اصطلاحات کی طرف آتے ہیں۔ اسلام اسے شرک تصور کرتا ہے ۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسانوں کے امور زندگی میں کچھ دوسرے انسانوں کو حاکم بنانا اس طرح ہے جس طرح انہیں کوئی اپنا الہ بنا لے اور انہیں اللہ کا شریک اور ہمسر بنا دے ۔ اسلام میں اس حرکت سے اسی طرح منع کرتا ہے جس طرح اسلام بتوں اور پتھروں کی پوجا سے منع کرتا ہے ۔ یہ دونوں کام اسلام کے عرف میں برابر اور مساوی درجے کے منکرات ہیں ۔ یہ صریح شرک ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو ہمسر بنانا ہے ۔ اب پہلی چوٹ کے ساتھ متصلا دوسری چوٹ لگتی ہے ۔ یہ دوسری ضرب پہلی ضرب کی تکمیل ہے اور اس سے متصل ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گمراہوں کا اتباع کرنے کی ممانعت ان آیات میں چند امور مذکور ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند باتوں کا اعلان کروایا ہے اولا تو یہ فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیں کہ میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں۔ میں معبود ان باطلہ کی عبادت نہیں کرسکتا جنہیں تم پکارتے ہو، مجھ سے یہ امید نہ رکھنا کہ میں کبھی تمہارے باطل کا ساتھ دے دوں اور تمہاری خواہشوں کا اتباع کروں (العیاذ باللہ) خدا نخواستہ میں ایسا کروں تو تمہاری طرح میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔ یہ وہی مضمون ہے جس کا سورة کافرون میں اعلان فرمایا۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آپ اعلان فرما دیجیے کہ میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں مجھے پورا یقین ہے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور رسول اللہ ہوں اور میں جس بات کی دعوت دے رہا ہوں وہ صحیح ہے دلائل واضحہ میرے دعویٰ کی سچائی پر قائم ہیں جس پر مجھے مکمل یقین ہے اور کسی طرح کا شک و شبہ نہیں۔ میں تمہاری باتوں کا کیسے ساتھ دے سکتا ہوں ؟ مجھے تو اپنے دعوے کی صحت پر دلیل کے ساتھ یقین ہے اور تم اس کی تکذیب کر رہے ہو۔ تکذیب ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہو کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر کوئی عذاب لا کر دکھاؤ۔ ہمارے انکار و تکذیب کی وجہ سے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ عذاب بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں نہیں۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ تکوینی اور تشریعی حکم کا صرف وہی مالک ہے۔ وہ عذاب بھیجے نہ بھیجے میرے اختیار میں کچھ نہیں اور یہ ضد کرنا کہ عذاب آجائے تب ہی آپ کے دعوے کو سچا مانا جائے جہالت و حماقت کی بات ہے حق دلائل سے واضح ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے حق کو بیان فرما دیا۔ دلائل سے واضح کردیا۔ دلائل ہوتے ہوئے حق کو نہ ماننا اور عذاب آجانے ہی کو ثبوت حق کا ذریعہ سمجھنا یہ تمہاری اپنی اپچ ہے۔ اور تمہارا خیال غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ہوا و ہوس کا پابند نہیں کہ تم جو کہو وہ کرے، جسے حق قبول کرنا ہو اس کے لیے واضح طور پر حق کا بیان ہوجانا کافی ہے۔ (یَقُصُّ الْحَقَّ وَ ھُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ ) ثالثاً یہ فرمایا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ جس چیز کی تم جلدی مچاتے ہو یعنی عذاب لانے کی تو یہ میرے پاس نہیں اگر میرے پاس ہوتا تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی عذاب آگیا ہوتا۔ وہ تو اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے تم واضح حق کو نہیں جانتے عذاب چاہتے ہو اور ظلم کر رہے ہو حق قبول نہ کرنا ظلم ہے اور اللہ کو ظالموں کا پتہ ہے اور وہ دنیا میں عذاب نہیں بھیجتا تو یہ نہ سمجھ لینا کہ آخرت میں بھی عذاب نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64 چوتھا طریق تعلیم یعنی مجھے اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ میں ان باطل معبودوں کو پکاروں جن کو تم پکارتے ہو۔ قُلْ لَّا اَتَّبِعُ الخ یہ پانچواں طریق تعلیم ہے یعنی مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں تمہاری خواہشات اور تمہارے خود ساختہ دین کی پیروی کروں اگر میں ایسا کروں گا تو ہدایت کی راہ سے بھٹک کر گمراہ ہوجاؤں۔ قُلْ اِنِّیْ عَلیٰ بَیِّنَۃٍ یہ چھٹا طریق تعلیم ہے۔ یعنی میرے پاس تو اللہ کی طرف سے دلائل موجود ہیں جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ باقی رہا وہ عذاب جس کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے اختیار و تصرف میں نہیں وہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ للہ وحدہ من غیر ان یکون لغیرہ سبحانہ دخل مافیہ بوجہ من الوجوہ (روح ج 7 ص 169)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اے پیغمبر آپ کفار سے کہہ دیجیے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان معبود ان باطلہ کی عبادت کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ اے پیغمبر ! آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں تمہاری اس قسم کی خواہشات فاسدہ کی اور تمہارے باطل خیالات کی پیروی اور اتباع نہیں کروں گا کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو میں بےراہ اور گم کردہ راہ ہو جائوں گا اور میں ہدایت یافتہ اور صحیح راہ چلنے والے لوگوں میں شامل نہ رہوں گا۔