Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 57

سورة الأنعام

قُلۡ اِنِّیۡ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ کَذَّبۡتُمۡ بِہٖ ؕ مَا عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ یَقُصُّ الۡحَقَّ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡفٰصِلِیۡنَ ﴿۵۷﴾

Say, "Indeed, I am on clear evidence from my Lord, and you have denied it. I do not have that for which you are impatient. The decision is only for Allah . He relates the truth, and He is the best of deciders."

آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو ایک دلیل ہے میرے رب کی طرف سے اور تم اس کی تکذیب کرتے ہو ، جس چیز کی تم جلد بازی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالٰی کے اللہ تعالٰی واقعی بات کو بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ... Say: "I am on clear proof from my Lord..." means: I have a clear understanding of the Law of Allah that He has revealed to me, ... وَكَذَّبْتُم بِهِ ... but you deny it. meaning, but you disbelieve in the truth that came to me from Allah. ... مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ... I do not have what you are hastily seeking, meaning, the torment, ... إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ ... The decision is only for Allah, for the ruling of this is with Allah. If He wills, He will punish you soon in response to your wish! If He wills, He will give you respite, out of His great wisdom. This is why Allah said, ... يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ He declares the truth, and He is the best of judges. and the best in reckoning between His servants. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم (صحیح مسلم) 57۔ 2 تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلدی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ کر دے اور چاہے تو اس وقت تک مہلت دے دے جب تک اس کی حکمت اس کی متقضی ہو۔ 57۔ 3 یَقُصُّ قَصَصْ سے ہے یعنی یَقُصُّ قَصَصَ الْحَق حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے یا قص اثرہ (کسی کے پیچھے پیروی کرنا) سے ہے یعنی یتبع الحق فیما یحکم بہ اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ اس آیت میں ایسے مجرموں یا ہٹ دھرموں کی ایک اور صفت بیان کی گئی ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہوتے تو تم اور تمہارے ساتھی ایسی بےبسی اور درماندگی کی حالت میں کیوں ہوتے ؟ اور جس طرح ہم تم لوگوں پر سختیاں کر رہے ہیں اگر تم سچے ہوتے تو اب تک ہم پر وہ عذاب آجانا چاہیے تھا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ مجرموں کی اسی بات کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میرے اپنے اطمینان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ٹھیک ٹھیک اس راہ راست پر جا رہا ہوں جو اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ تم پر وہ عذاب اب تک کیوں نہیں آچکا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عذاب لے آنا میرے اختیار میں نہیں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے۔ جب وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا چاہے گا تمہیں ایسے عذاب سے دوچار کر دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَةٍ ۔۔ : کہہ دیجیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلیل، یعنی وحی الٰہی موجود ہے، جس کا اصل الاصول توحید ہے، اسے تم نے جھٹلایا۔ اب جس عذاب کے جلدی لانے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں۔ عذاب لانے یا نہ لانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ : معلوم ہوا کہ انبیاء کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، یہ اختیار صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَكَذَّبْتُمْ بِہٖ۝ ٠ۭ مَا عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ۝ ٠ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝ ٠ۭ يَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَخَيْرُ الْفٰصِلِيْنَ۝ ٥٧ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ فصل ( جدا) الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] وَهُوَ خَيْرُ الْفاصِلِينَ [ الأنعام/ 57] . ( ف ص ل ) الفصل کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ میرے رب کے پاس سے مجھے تو میرے اور میرے حکم پر ایک کافی دلیل ملی ہے اور تم بلاوجہ قرآن کریم اور توحید کی تکفیر کرتے ہو، نزول عذاب کا کسی بھی طرح کا حکم اللہ ہی کی قدرت میں ہے، وہی سب سے بڑھ کر عدل کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے اور حق کا حکم دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ ) یہ بیّنہ ہے کیا ؟ اس کی وضاحت سورة ھود میں آئے گی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے بَیِّنَہ دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے ‘ انسان کی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی۔ فطرت سلیمہ اور عقل سلیم انسان کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کردی گئی ہے جس کی بنا پر اس کو نیکی بدی اور اچھے برے کی تمیز فطری طور پر مل گئی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی انسان تک نبی یا رسول کے ذریعے سے اللہ کی وحی بھی پہنچ گئی اور اس وحی نے بھی ان حقائق کی تصدیق کردی جن تک وہ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں پہنچ چکا تھا ‘ تو اس پر حجت تمام ہوگئی۔ اس طرح یہ دونوں چیزیں یعنی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی مل کر اس شخص کے لیے بیّنہ بن گئیں۔ پھر اللہ کا رسول اور وحی الٰہی دونوں مل کر بھی لوگوں کے حق میں بَیِّنَہبن جاتے ہیں۔ خود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بَیِّنَہیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں جن حقائق تک پہنچ چکے تھے وحی الٰہی نے آکر ان حقائق کو اجاگر کردیا۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ آپ ان کو بتائیں کہ میں کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ‘ میں تو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہوں۔ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ بہت واضح اور روشن راستہ ہے ‘ اور مجھ پر اس کی باطنی حقیقت بھی منکشف ہے۔ (وَکَذَّبْتُمْ بِہٖط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ط) ۔ وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے کہ لے آئیے ہمارے اوپر عذاب۔ دس برس سے آپ ہمیں عذاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں ‘ اب جب کہ ہم نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا ہے تو وہ عذاب ہم پر آکیوں نہیں جاتا ؟ جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ انہیں صاف الفاظ میں بتادیں کہ عذاب کا فیصلہ میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ وہ عذاب جب آئے گا ‘ جیسا آئے گا ‘ اللہ کے فیصلے سے آئے گا اور جب وہ چاہے گا ضرور آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. This alludes to God's punishment. The adversaries questioned why it was that they had openly rejected a Prophet sent by God, but had not been struck down by God's wrarth? They said that the fact of his appointment by God meant that anyone who either disbelieved or insulted him would, at once, be either plunged into the earth or struck by lightning. And yet, they pointed out, the Messenger of God and his followers faced new sufferings and humiliations whereas those who abused and persecuted him enjoyed prosperity.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :39 اشارہ ہے عذاب الہٰی کی طرف ۔ مخالفین کہتے تھے کہ اگر تم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہو اور ہم کھلم کھلا تمہیں جھٹلا رہے ہیں تو کیوں نہیں خدا کا عذاب ہم پر ٹوٹ پڑتا ؟ تمہارے مامور من اللہ ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ ادھر کوئی تمہاری تکذیب یا توہین کرتا اور ادھر فوراً زمین دھنستی اور وہ اسمیں سما جاتا ، یا بجلی گرتی اور وہ بھسم ہو جاتا ۔ یہ کیا ہے کہ خدا کا فرستادہ اور اس پر ایمان لانے والے تو مصیبتوں پر مصیبتیں اور ذلتوں پر ذلتیں سہ رہے ہیں اور ان کو گالیاں دینے اور پتھر مارنے والے چین کیے جاتے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: یہ آیات کفار کے اس مطالبے کے جواب میں نازل ہوئی ہیں کہ جس عذاب سے آنحضرتﷺ ہمیں ڈرارہے ہیں وہ ہم پر فورا کیوں نازل نہیں ہوتا؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب نازل کرنے کا صحیح وقت اور مناسب طریقہ طے کرنے کا مکمل اختیار اﷲ تعالیٰ کو ہے، جس کا فیصلہ وہ اپنی حکمت سے کرتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:57) بینۃ۔ واحد۔ بینات۔ جمع ۔ روشن اور کھلی دلیلیں۔ ایسی دلیلیں جو حق اور باطل کے فرق کو واضح کردیں۔ کذبتم بہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب سے مراد اللہ تعالیٰ ہے (کشاف) یا اللہ کی جانب سے آئی ہوئی کلام۔ یعنی القران و معجزات الباھرہ وبراہین الواضحۃ (الخازن) ۔ تستعجلون۔ تم جلدی کرتے ہو۔ تم عجلت کرتے ہو۔ یعنی جس عذاب یا پاداش کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو۔ استعجال (استفعال) سے جمع مذکر حاضر۔ یقض۔ قص یقص (نصر) سے مضارع واحد مذکر غائب وہ بیان کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے۔ الفاصلین۔ اسم فاعل جمع مذکر فیصل مصدر۔ فیصلہ کرنے والے۔ حق کو باطل سے الگ کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 معلوم ہوا کہ انبیا کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے حاصل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی قرآن مجید جو کہ میرا معجزہ ہے جس سے میری تصدیق ہوتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” قُلْ إِنِّیْ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُم بِہِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) ۔ ” کہو ” میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے ۔ اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔ یہ ضرب اللہ کی جانب سے ہے ۔ اللہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کفار اور جھٹلانے والوں کے سامنے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کردیں کہ آپ کے دل میں اپنے پیغام کے بارے میں پختہ یقین ہے اور آپ کو اس سلسلے میں مکمل یکسوئی حاصل ہے ۔ آپ کے شعور میں اس پیغام کی سچائی پر بین دلائل موجود ہیں اور آپ کی ذات میں اس امر کا گہرا وجدانی احساس موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو پیغام دے رہے ہیں وہ حق ہے ۔ یہ ایک ایسا شعور ہے ‘ جو تمام نبیوں کے اندر پوری طرح پایا جاتا ہے اور تمام نبیوں نے اس احساس و شعور اور وجدانی راہنمائی کا اظہار ایسے ہی الفاظ میں کیا ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : (آیت) ” قال یقوم ارئیتم ان کنتم علی بینۃ من ربی واتنی رحمۃ من عندہ فعمیت علیکم انلزمکموھا وانتم لھا کرھون “۔ (١١ : ٢٨) ” نوح نے کہا اے بردران قوم ‘ ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا ‘ اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر پر چپکا دیں ۔ “ اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا : (آیت) ” (آیت) ” قال یقوم ارئیتم ان کنتم علی بینۃ من ربی واتنی رحمۃ فمن ینصرنی من اللہ ان عصیتہ فما تزیدوننی غیر تخسیر “۔ (١١ : ٦٣) ” صالح (علیہ السلام) نے کہا اے بردران قوم ‘ تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا ‘ اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو ؟ سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارہ میں ڈال دو ۔ “ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (آیت) ” وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ہَدَانِ (٦ : ٨٠) ” اس قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا : ” کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے ۔ “ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کہا : (آیت) ” فلما ان جآء البشیر القہ علی وجھہ فارتد بصیرا قال الم اقل لکم انی اعلم من اللہ مالا تعلمون “۔ (١٢ : ٩٦) ” پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف کا قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی ۔ تب اس نے کہا ” میں تم سے کہتا نہ تھا ؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ “ یہ ہے حقیقت خدائی ‘ جو اللہ والوں کے دل میں روشن چراغ کی طرح نمایاں ہوتی ہے ۔ لیکن صرف ان لوگوں کے دلوں میں یہ چراغ روشن ہوتا ہے جن کے دلوں میں اللہ روشن کرنا چاہے ۔ ایسے لوگ اللہ کو اپنے دل میں موجود پاتے ہیں اور ان کی شخصیت کی گہرائیوں میں یہ حقیقت بیٹھ جاتی ہے اور ان کے دلوں کو یقین سے بھر دیتی ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشرکین کے سامنے اس کا اعلان ببانگ دہل کردیں ۔ مشرکین دراصل دعوت الی اللہ کی تکذیب کرنا چاہتے ہیں اور وہ حیلے بہانے بنا کر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس حقیقت کو تسلیم کرانے کے لئے معجزات پیش کریں حالانکہ یہ حقیقت تو قلب رسول میں روشن چراغ کی طرح موجود ہے ۔ (آیت) ” قل انی علی بینۃ من ربی وکذبتم بہ “۔ (٦ : ٥٧) ” کہو میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے “۔ وہ ہمیشہ یہ مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ یا تو ان پر کوئی خارق عادت معجزہ نازل ہوجائے یا ان پر عذاب الہی نازل ہوجائے تاکہ وہ اس بات کو تسلیم کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا جاتا تھا کہ اس سوال کے جواب میں آپ ان کے سامنے رسول اور رسالت کی حقیقت کا اعلان کریں اور رسول اور رسالت اور اللہ اور اس کی الوہیت وحاکمیت کے درمیان مکمل فرق بیان کریں ۔ نیز یہ بھی اعلان کردیں کہ جس عذاب اور معجزے کی آمد کے لئے وہ عجلت کا اظہار کر رہے ہیں اس کے صدور میں ان کو بالکل اختیارات نہیں ہیں ۔ یہ کام تو صرف اللہ کے دست قدرت میں ہے ۔ وہ تو الہ نہیں وہ تو فقط پیغام بر ہیں ۔ (آیت) ” ِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) ” میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔ کسی معجزے کا آنا اور اس کے بعد نہ ماننے کی صورت میں ان پر عذاب الہی کا نزول ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق اللہ کے فیصلے اور حکم سے ہے اور اس معاملے میں جج اور فیصلہ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے ۔ اللہ ہی حق بیان کرنے والا ہے اور اطلاع دینے والا ہے ۔ اللہ ہی ہے جو کسی پیغمبر اور اس کی امت دعوت کے درمیان فیصلے کا اختیار رکھتا ہے ۔ کسی انسان کو اس باب میں کوئی اختیار اور حق مداخلت نہیں دیا گیا ہے ۔ اس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کردیتے ہیں کہ ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا انہیں کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ وہ قضا وقدر کے ان امور میں مداخلت کرسکتے ہیں ۔ یہ اللہ کے نظام الوہیت کے ساتھ مخصوص ہے اور خصائص الوہیت میں سے ہے جبکہ وہ خود ایک بشر ہیں ۔ ہاں امتیاز یہ ہے کہ ان کی طرف وحی آتی ہے ۔ ان کا فرض یہ ہے کہ وہ اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور انہیں انجام بد سے ڈرائیں ۔ ان کا یہ منصب نہیں ہے کہ فیصلے کریں اور ان کے مطابق لوگوں کو سزا دیں ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ حق بیان کرتا ہے اور ہمیں اس کی اطلاع دیتا ہے اسی طرح فیصلوں کا اختیار بھی اللہ کو ہے ۔ یہ وہ انداز ہے جس کے سوا ایک بشر اور ذات باری کے درمیان فرق و امتیاز کی کوئی اور سبیل نہیں ہے ۔ اس کے بعد حضرت کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کے قلب ونظر سے اپیل کریں اور ان کی توجہ ان قوی دلائل واشارات کی طرف مبذول کرائیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ پیغام اللہ کی جانب سے ہے اور اس کا فیصلہ بھی مشیت الہی پر موقوف ہے ۔ اگر معجزات کا صدور اور عذاب الہی کا نزول آپ کے قبضہ قدرت میں ہوتا تو تقاضائے انسانیت کے نتیجے میں آپ فورا ہی یہ چیلنج قبول کرلیتے اور اور اس معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے کیونکہ وہ تو اس امر کا بار بار باصرار مطالبہ کرتے تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ کے اختیار میں تھا اور اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کے مقابلے میں نہایت ہی حلیم ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کوئی خارق عادت معجزہ نہیں صادر فرماتے کیونکہ اس کے بعد ان پر عذاب آتا ہے ۔ وہ تو تکذیب پر تلے ہوئے تھے اور یہ وہ بات ہے جو تاریخ میں اس سے قبل اقوام وملل کو پیش آتی رہی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں تو اپنے رب کی بھیجی ہوئی ایک روشن دلیل اور حجت پر قائم ہوں یعنی قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور تم اس کی تکذیب کرتے ہو اور اس کو جھوٹا بتاتے ہو اور مجھ سے بار بار عذاب کا تقاضا کرتے ہو کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لائو جس چیز کی تم جلدی کرتے ہو اور مجھ پر تقاضا کرتے ہو وہ میرے بس اور میری قدرت میں نہیں ہے اصل حکم تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اس کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور جب تک اس کا حکم نہیں ہو میں عذاب کس طرح اور کہاں سے لاسکتا ہوں وہی حق بات اور امر واقعی کو بنا دیتا ہے اور وہی فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے الا ہے یعنی تمہارے عذاب کا فیصلہ بھی اسی کے اختیار میں ہے۔