Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 58

سورة الأنعام

قُلۡ لَّوۡ اَنَّ عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ لَقُضِیَ الۡاَمۡرُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۸﴾

Say, "If I had that for which you are impatient, the matter would have been decided between me and you, but Allah is most knowing of the wrongdoers."

آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہ فیصل ہو چکا ہوتا اور ظالموں کو اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الاَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ... Say: "If I had that which you are asking for impatiently (the torment), the matter would have been settled at once between you and I," means, if I have what you ask for, I will surely send down what you deserve of it, ... وَاللّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ but Allah knows best the wrongdoers. Someone might ask about the meaning of this Ayah compared to the Hadith in the Two Sahihs, from Aishah, may Allah be pleased with her, that; she said to the Messenger, "O Allah's Messenger ! Have you encountered a day harder than the day (of the battle) of Uhud?" The Prophet replied, لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِيَالِيلَ بْنِ عَبْدِكُلَلٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلاَّ بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَاَبَةٍ قَدْ ظَلَّلَتْنِي Your people have troubled me a lot and the worst trouble was on the day of Aqabah when I presented myself to Ibn Abd Yalil bin Abd Kulal, who did not respond to my call. So I departed, overwhelmed with severe sorrow, proceeded on and could not relax until I found myself at Qarn Ath-Tha`alib where I raised my head towards the sky to see a cloud unexpectedly shading me. فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَمُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ الله قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِيْتَ فِيهِمْ I looked up and saw Jibril in it and he called me saying, `Indeed Allah has heard what you said to the people and what they have responded to you. Therefore, Allah has sent the Angel of the Mountains to you so that you may order him to do whatever you wish to these people.' فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرِكَ فِيمَا شِيْتَ إِنْ شِيْتَ أَطْبَقْتُ عَلَيْهِمُ الاَْخْشَبَيْن The Angel of the Mountains called and greeted me, and then said, `O Muhammad! verily, Allah has heard how your people responded to you and He has sent me to you so that you could order me to do what you wish. If you like, I will let Al-Akhshabayn (two mountains to the north and south of Makkah) fall on them.' فَقَالَ رَسُولَُ اللهَ بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْيًا The Prophet said, No, but I hope that Allah will let them generate offspring who will worship Allah Alone, and will worship none besides Him. This is the wording of Muslim. Tormenting the disbelievers of Quraysh was offered to the Prophet, but he chose patience and asked Allah for respite for them, so that Allah might let them generate offspring who will not associate anything with Him in worship. Therefore, how can we combine the meaning of this Hadith and the honorable Ayah, قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الاَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ Say: "If I had that which you are asking for impatiently (the torment), the matter would have been settled at once between you and I, but Allah knows best the wrongdoers." The answer to this question is, Allah knows the best, that the Ayah states that if the punishment that they asked for was in the Prophet's hand at the time, he would have sent it on them as they asked. As for the Hadith, the disbelievers did not ask the Prophet to send the torment down on them. Rather, the angel responsible for the mountains offered him the choice to let the two mountains to the north and south of Makkah close in on the disbelievers and crush them. The Prophet did not wish that and asked for respite out of compassion for them. Only Allah Knows the Unseen Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ میرے اختیار یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلدی ہی یہ فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل ہو۔ ضروری وضاحت : حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ نے فرمایا ' نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا فرمائے گا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (صحیح مسلم) یہ حدیث آیت زیر وضاحت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جبکہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کیے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] اور اگر ایسا عذاب لانا میرے اختیار میں ہوتا تو وہ کب کا آچکا ہوتا اور یہ سارے جھگڑے ختم ہوچکے ہوتے مگر تم پر عذاب آنے کا ٹھیک وقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ کا علم، اس کا حلم اور اس کی حکمت بالغہ جب تم پر عذاب لانے کی مقتضی ہوگی اس وقت اس کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ : یعنی اگر عذاب کا لانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہارے جھٹلانے کی وجہ سے اب تک تمہیں ہلاک کرچکا ہوتا۔ (رازی) وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بالظّٰلِمِيْنَ : یعنی اللہ ہی جانتا ہے کہ کب عذاب لانا ہے اور کب تک انھیں مہلت دینی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْــنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝ ٠ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝ ٥٨ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اور یہ بھی فرما دیجیے کہ اگر عذاب میرے ہاتھ میں ہوتا تو تم اب تک ہلاک ہوجاتے، وہ ذات برحق نضر اور اس کے ساتھی مشرک لوگوں کی سزا سے بخوبی آگاہ ہے، چناچہ نضر جیسا کہ یہ عذاب چاہتا تھا اسی طریقہ پر غزوہ بدر میں مارا گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالظّٰلِمِیْنَ ۔ ) ۔ ان الفاظ سے ایک حد تک تلخی اور بیزاری ظاہر ہو رہی ہے کہ اگر یہ فیصلہ کرنا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں مزید مہلت نہ دیتا۔ اب میں بھی تمہارے رویے سے تنگ آچکا ہوں ‘ میرے بھی صبر کا پیمانہ آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:58) لقضی الامر۔ بات کا فیصلہ ہوگیا ہوتا القضاء کا معنی قولا یا عملاً کسی کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں۔ حکم کرنا ۔ خبردار کرنا۔ تمام کرنا کے معنی میں بھی آتا ہے ملاحظہ ہو (6:2) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اگر عذاب کا لانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہاری تکذیب کی وجہ سے اب تک تمہیں ہلاک کرچکا ہوتا، ) رازی ) 7 ۔ کہ کب ان پر عذاب بھیجا جائے اور کب تک انہیں مہلت دی جائے (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ان کے علم میں جب مناسب ہوگا نزول عذاب ہوجائے گا خواہ دنیا میں بھی جیسے بدر وغیرہ میں ہلاک کیے گئے اور خواہ آخرت میں کہ دوزخ میں جائیں گے غرض نہ مجھ کو اس کی قدرت ہے نہ اس کے مناسب ہونے کا وقت مجھ کو معلوم ہے اور نہ اس کی حاجت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” قُل لَّوْ أَنَّ عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الأَمْرُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58) ” کہو : اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ‘ صبر ‘ حلم ‘ بردباری ‘ اور مہلت دینے میں اس کی صلاحیت محدود ہے ۔ جب انسان انسان کے خلاف بغاوت اور سرکشی اختیار کرتا ہے تو انسان کی قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ انسان دوسرے زیردست انسان کی جانب سے سرکشی کو برداشت ہی نہیں کرتا لیکن اللہ حلیم ‘ بردبار اور قوی ہے ‘ وہ عظمت والا ہے ۔ ذراکلام الہی پر غور کرو ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے انسان بعض دوسرے انسانوں سے ایسے امور دیکھتا ہے کہ اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دیکھو کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرتا چلا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی اللہ کی زمین پر رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کھانا وپینا فراہم کرتا ہے ‘ ان پر بارش برساتا ہے ‘ انکے لئے ہر طرف سے فراوانی کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کے لئے اس کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بات کو دہرائے ۔ ایک بار وہ معرکہ جنگ میں تھے ۔ معرکہ اس قدر گرم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا اور کفار نے فیصلہ کن حملہ کیا ہوا تھا ۔ ہر طرف سے بزن کا عالم تھا ۔ آپ نے فرمایا :” اے اللہ آپ کس قدم حلیم اور بردبار ہیں ! اے اللہ آپ کس قدر حلیم و بردبار ہیں ۔ غرض یہ اللہ کا حلم اور بردباری ہی ہے کہ نافرمانوں کو مہلت دئیے جا رہی ہے ۔ (آیت) ” وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58) ” اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ وہ جانتے ہوئے مہلت دیتا ہے ۔ وہ حکمت کے ساتھ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور علیم بھی ہے اور قدرت بھی رکھتا ہے کہ ان کے مطالبے کو بھی پورا کردے اور انہیں سخت عذاب سے بھی دوچار کر دے ۔ “ بات یہ ہو رہی تھی کہ اللہ ظالموں کے بارے میں خوب جانتے ہیں ‘ اور یہ کہ حقیقت الوہیت اور شان کبریائی کیا ہے ‘ اس مناسبت سے یہاں شان کبریائی کے ایک وسیع تر میدان ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور یہ وسیع تر میدان عالم غیب ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا علم تمام خفیہ باتوں پر محیط ہے ۔ یہاں اللہ کے علم کی وسعت کی عجیب اور منفرد تصور کشی کی جاتی ہے اور اس میدان میں اللہ کے علم کی وسعتوں کی طرف دور تک را ہوار خیال کو گامزن کیا جاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65 یہ ساتواں طریق تبلیغ ہے نیز سوال مقدر کا جواب ہے یعنی جب ہم مانتے نہیں تو ہم پر عذاب لے آؤ تو اس کا جواب دیا گیا کہ کہہ دو یہ میرے قبضے میں نہیں غائبانہ حکم اور تصرف صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 آپ ان سے کہہ دیجیے اگر کہیں وہ چیز جس کی تم جلدی کیا کرتے ہو میرے اختیار میں ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور میرا تمہارا قصہ کبھی کا ختم ہوچکا ہوتا اور ظالموں کے احوال تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جاتا ہے ینی میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کو مہلت دینے میں اس کی کیا مصلحت ہے ۔