Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 66

سورة الأنعام

وَ کَذَّبَ بِہٖ قَوۡمُکَ وَ ہُوَ الۡحَقُّ ؕ قُلۡ لَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿ؕ۶۶﴾

But your people have denied it while it is the truth. Say, "I am not over you a manager."

اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Invitation to the Truth is Guidance Without Coercion Allah said, وَكَذَّبَ بِهِ ... But have denied it, denied the Qur'an, guidance and clear explanation that you (O Muhammad) have brought them, ... قَوْمُكَ ... your people, meaning, Quraysh, ... وَهُوَ الْحَقُّ ... though it is the truth. beyond which there is no other truth. ... قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ Say: "I am not responsible for your affairs." meaning, I have not been appointed a guardian or watcher over you. Allah also said; وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَأءَ فَلْيُوْمِن وَمَن شَأءَ فَلْيَكْفُرْ And say: "The truth is from your Lord." Then whosoever wills, let him believe, and whosoever wills, let him disbelieve. (18:29) This means, my duty is to convey the Message and your duty is to hear and obey. Those who follow me, will acquire happiness in this life and the Hereafter. Those who defy me will become miserable in this life and the Hereafter. So Allah said;

غلط تاویلیں کرنے والوں سے نہ ملو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ عالی کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھتلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے کہدے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے ، یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے ، ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ، پھر فرمایا جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ، اس آیت میں گو فرمان حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپ کی امت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بےجا تاویلیں کرتے ہوں ، اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبر دستی مجبور کر کے کرائے جائیں ۔ اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے آیت ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖٓ ) 4 ۔ النسآء:140 ) یعنی تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو ، پھر فرمان ہے کہ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ، دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بےگناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ) 4 ۔ النسآء:140 ) سے منسوخ ہے ۔ ان مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6  6 ۔ 1 بہ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب فتح القدیر 66۔ 1 یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکھف) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یہاں ھو سے مراد قرآن اور اس کی آیات بھی ہوسکتی ہیں، کفار سے عذاب کا وعدہ بھی اور روز آخرت بھی۔ کیونکہ یہ سب چیزیں اٹل حقائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتے ہیں کہ انہیں کہہ دیجئے کہ اگر تم ان حقائق پر ایمان نہیں لاتے اور تمہیں یہ یقین نہیں آتا تو میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں یہ باتیں ہر ممکن طریقہ سے تم سے منوا کر چھوڑوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ : تیری قوم نے اسے جھٹلا دیا۔ اس ” بہ “ کی ضمیر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور اوپر کی آیات میں مذکور عذاب بھی۔ (قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ ) یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ تمہارے جھٹلا دینے اور بد تمیزی کرنے پر خود عذاب نازل کر دوں، میرا کام تو صرف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں اور نہ ماننے والوں کو اس کی سزا بتادوں، اس کے بعد عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اور اس سے بچنے کی فکر کرنا تمہارا کام ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (66), after mentioning the anti-truth stand tak¬en by the Quraysh of Makkah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also from the same tribe, has been instructed that he should tell those peo¬ple asking about the precise time when the promised punishment will come that he has not been appointed to do that for them. The truth is that for everything there is a point of time as determined in Divine knowledge. It will come at its own time, and they will see for themselves what happens when it does.

دوسری آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برادری یعنی قریش مکہ کی مخالفت حق کا ذکر کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ یہ لوگ جو آپ سے وقوع عذاب کا معیّن وقت پوچھتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرما دیں کہ میں اس کام کے لئے مسلط نہیں کیا گیا، بلکہ ہر بات کا ایک وقت اللہ کے علم میں مقرر ہے، وہ اپنے وقت پر ہو کر رہے گی، اور اس کا نتیجہ تمہارے سامنے آجائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذَّبَ بِہٖ قَوْمُكَ وَہُوَالْحَقُّ۝ ٠ۭ قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝ ٦٦ۭ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) مگر قریش نے قرآن کریم کی تکذیب کی، آپ فرما دیجیے کہ میں تمہارے اوپر تعینات نہیں کیا گیا کہ تمہیں مسلمان ہی بنا کر چھوڑوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقُّ ط) ۔ یہاں بِہٖ سے مراد قرآن ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ‘ اس سورة کا عمود یہ مضمون ہے کہ مشرکین کے مطالبے پر کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل معجزہ یہ قرآن ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی تفصیل میں بِہٖکی تکرار کثرت سے ملے گی۔ (قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ) ۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ کب اللہ کے عذاب کا دروازہ کھل جائے اور عذاب ہلاکت تم پر ٹوٹ پڑے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. A Prophet is neither required to compel People to see what they are not prepared to see nor to force into their hearts what they fail to comprehend. It is not a Prophet's task to chastise people for failing to see and comprehend the Truth. His task is merely to proclaim Truth as distinct from falsehood. If people fail thereafter to accept it, they will be overwhelmed by the very misfortunes against which that Prophet had warned.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :43 یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں ۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں ۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس برے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یعنی یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ تمہارا ہر مطالبہ پورا کروں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس میں تم لوگوں کو عذاب دینا بھی داخل ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو تمہیں خود پتہ لگ جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(66 ۔ 67) ۔ اوپر کی آیت میں ذکر تھا کہ قرآنی آیتوں میں طرح طرح کی تنبیہ اس لیے ان لوگوں کو کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شرک سے بازآویں اور اپنے بھلے برے کو سمجھیں اس آیت میں ارشاد ہے کہ ان لوگوں کے سر پر تو وہ ازلی کم بختی سوار ہے کہ جن آیتوں میں ان کے خلاف مرضی کوئی مضمون ہوتا ہے تو یہ لوگ پھر ان آیتوں کے جھٹلانے پر مستعد ہوجاتے ہیں حالانکہ قرآن کی آیتوں میں وہ سیدھے سچے مضمون ہیں کہ کوئی صاحب عقل ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔ مثلا ان لوگوں کے شرک سے باز آنے کے لیے ان کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ جب آسمان زمین انسان اور اس کی سب ضرورت کی چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا تو پھر کسی دوسرے کو اللہ کی تعظیم اور عبادت میں شریک ٹھہرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا مثلا شرک کے وبال میں پچھلی قوموں پر جو عذاب آیا ہے شام اور یمن کے سفر میں ان لوگوں کو ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑنے کی فہمائش کی گئی ہے یہ باتیں ہر صاحب عقل کے ماننے کے قابل ہیں اس پر ازلی کم بختی کے سبب سے جب یہ لوگ کلام الٰہی کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس کے کھٹلانے کی سزا میں ہم پر کوئی عذاب کیوں نہیں آتا تو ان کی اس بات کے جواب میں اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری سزا کے لیے داروغہ مقرر ہو کر نہیں آیا بلکہ میں وقت مقررہ کی سزا سے تمہیں ڈرانے آیا ہوں اگر اس ڈر کو تم لوگ نہ مانو گے تو بہت جلد وقت مقررہ آنے پر خود تمہیں اس سزا کا حال معلوم ہوجاوے گا اور یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر کام کا وقت مقررہ ہے وقت مقررہ کے آنے پر پھر اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے وقت مقررہ آتے ہی بدر کی لڑائی کے زمانہ میں یہ بڑے بڑے آیات قرآنی کے جھٹلانے والے بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب میں گرفتار ہوگئے اس لیے اس عذاب کے جھٹلانے کی غرض سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پایا۔ صحیح بخاری ١ ؎ ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ بدر کا قصہ ہے۔ مشرکوں کی سزا کا وعدہ جو اس آیت میں ہے یہ حدیث اس وعدہ کے ظہور کی گویا تفسیر ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٦٦ باب قتل بی جہل و صحیح مسلم ح ٢ ص ٣٨٧ باب عرض مقعدالمیت من الجنۃ والسنار الخ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:66) کذب بہ میں ہ ضمیر قرآن حکیم کے لئے ہے۔ وکیل ذمہ دار۔ کار ساز ۔ نگران۔ نگہبان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 بہ کی ضمیر عذاب کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے قرآن یا تصریح آیات کی طرف بھی (رازی) یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ تمہاری تمہاری تکذیب اور بد تمیزی پور خود عذاب نازل کر دوں نہ میرا کام تو صف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں نہ ماننے کی وعید پر متنبہ کردو، اس کے بعد عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اور اسے بچنے کی فکر کرنا تمہارا کام ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٦٦ تا ٦٧۔ یہاں روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے ۔ اس خطاب کے ذریعے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے کاسہ دل کو ایمان ویقین سے بھر دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ایک داعی کی پوری قوم اور پورا معاشرہ حق کو جھٹلا دے تب بھی اسے یقین ہوتا ہے کہ حق غالب رہے گا اس لئے کہ سچائی کے بارے میں فیصلہ کرنا اہل جاہلیت کا کام نہیں ہے ‘ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ حق اور باطل کا فیصلہ کرے ۔ اللہ ہی ہے جو یہ اعلان کرسکتا ہے کہ فلاں چیز حق ہے اور فلاں چیز باطل ۔ لہذا جھٹلانے والوں کے کسی فیصلے کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے ۔ اس کے بعد حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے دامن جھاڑ دیں اور اعلان کردیں کہ وہ ان سے بری الذمہ ہیں اور یہ کہ اب ان کی اور ان کی قوم کی راہیں جدا ہوگئی ہیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ وہ ان کے معاملے میں کسی چیز کے مختار وحوالہ دار نہیں ہیں اور نہ ان کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں ۔ ان کا فریضہ اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب وہ پیغام پہنچا دیں اور سمجھا دیں کیونکہ ذمہ داری اور نگہبانی رسولوں کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے ۔ جب کوئی رسول پیغام پہنچا دے اور سمجھا دے تو اس کا فریضہ ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد رسول اقوام کو چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے فطری انجام تک پہنچ جائیں ‘ کیونکہ ہر بات اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوجاتی ہے اور جب بات سامنے آجاتی ہے تو سب اسے جان لیتے ہیں ۔ (آیت) ” لِّکُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (67) ” ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے ‘ عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہوجائے گا “۔ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا بات ہے جو ظاہر ہونے والی ہے ۔ ایسے مقامات پر بات کو مجمل رکھنا زیادہ خوفناک ہوتا ہے ۔ مارے ڈر کے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔ آیات میں حق پر ثابت قدمی کی تلقین ہے یقین دلایا گیا ہے کہ باطل کا ظاہری غلغلہ جس قدر بھی ہوں اس کا انجام بہرحال برا ہوگا اور ایک مقررہ وقت پر اللہ کی جانب سے اہل باطل کو پکڑا جاتا ہے اور یہ کہ ہر بات کے ظہور کا وقت مقرر ہے اور ہر حاضر صورت حال کا ایک انجام سامنے آنے والا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ داعیان حق کو اپنی قوم کی جانب سے جس تکذیب اور سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ ان پر اپنے خاندان کی جانب سے جو مظالم ہوتے ہیں ‘ جس طرح وہ اپنے اہل و عیال میں بیگانے بن جاتے ہیں ‘ انہیں جن اعصاب شکن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ‘ ایسے حالات میں فی الواقعہ وہ ایسی ہی تسلی کے محتاج ہوتے ہیں ‘ انہیں جن اعصاب شکن حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ‘ ایسے حالات میں فی الواقعہ وہ ایسی ہی تسلی کے محتاج ہوتے ہیں ‘ اس طرح ان کا کاسہ دل اطمینان اور یقین سے بھر جاتا ہے اور یہ اطمینان اور سکینت قرآن ہی ان کے دلوں میں پیدا کرسکتا ہے ۔ جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تک یہ پیغام دیا اور ان کی جانب سے ناروا تکذیب و انکار کا جواب ان کے ساتھ قطع تعلق کے ذریعے دے دیا گیا تو اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کی ہمنشینی اختیار نہ کریں ‘ یہاں تک کہ تبلیغی مقاصد کے لئے بھی ان کے پاس نہ جائیں اگر حالات ایسے ہوں کہ وہ اسلام پر تنقید اور نکتہ چینیاں کر رہے ہو اور عزت واحترام اور سنجیدگی سے اسلامی موضوعات پر بحث نہ کر رہے ہوں ۔ اسلام جس سنجیدہ عزت ووقار اور رعب وداب کا تقاضا کرتا ہے وہ اس کا لحاظ نہ کررہے ہوں بلکہ الٹا دین کے ساتھ مذاق کر رہے ہوں اور ہنسی مزاح کے ساتھ ریمارکس پاس کر رہے ہوں چاہے اپنی زبان سے وہ ایسا کر رہے ہوں یا عمل کے ساتھ ۔ ایسے حالات میں حکم دیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار نہ کی جائے کیونکہ اس طرح معنوی اعتبار سے ہم نشینی کرنے والا ان باتوں کا تائید کنندہ تصور ہوگا یا کم از کم یہ تصور ہوگا کہ ایسے شخص کے اندر کوئی دینی غیرت نہیں ہے ۔ اگر شیطان کسی مسلمان کو بہلاوے میں ڈال دے اور وہ ایسی محفل میں بیٹھ جائے تو یاد آتے ہیں اس کا فرض ہے کہ وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ کَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَ ھُوَ الْحَقُّ ) (اور آپ کی قوم نے اس عذاب کی تکذیب کی حالانکہ وہ حق ہے) (قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ) (یعنی اگر وہ یوں کہیں کہ عذاب کب آئے گا تو آپ جواب دیدیں کہ میں تمہارے اوپر داروغہ بنا کر مقرر نہیں کیا گیا۔ عذاب کا لانا میرے بس میں نہیں ہے اللہ جب چاہے گا لے آئے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71 یہ زجر ہے۔ لِکُلِّ نَبَاٍ مُسْتَقَرٍ نَبا کے معنی خبر یا امر (معاملہ) مستقر یعنی وقت استقرار اور وقوع کا مطلب یہ کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے جب اس کا وقت آجاتا ہے تو اس کے وقوع میں ہرگز تاخیر نہیں ہوتی مثلا جب معاندین کا انکار اور ضد انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اللہ کا عذاب آجاتا ہے وَ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ تخویف اخروی کی طرف اشارہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 اور آپ کی قوم اس عذاب کی یا اس قرآن کریم کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ یہ ایک غیر مشتبہ حقیقت اور ایک امر حق اور سچی بات ہے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تم پر کوئی مختار کار اور اجارہ دار بن کر نہیں آیا ہوں۔