Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 7

سورة الأنعام

وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ فَلَمَسُوۡہُ بِاَیۡدِیۡہِمۡ لَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾

And even if We had sent down to you, [O Muhammad], a written scripture on a page and they touched it with their hands, the disbelievers would say, "This is not but obvious magic."

اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Censuring the Rebellious and their Refusal to Accept Human Messengers Allah describes the rebellion and stubbornness of the idolators in defying the truth and arguing against it, وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ ... And even if We had sent down unto you a Message written on paper so that they could touch it with their hands, meaning... , if they saw this Message's descent and were eye-witnesses to that, ... لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ the disbelievers would have said: "This is nothing but obvious magic!" This is similar to Allah's description of the disbelievers' defiance of facts and truth, وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَاباً مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَ لَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَـرُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ And even if We opened to them a gate from the heaven and they were to continue ascending thereto. They would surely say: "Our eyes have been (as if) dazzled. Nay, we are a people bewitched." (15:14-15) and, وَإِن يَرَوْاْ كِسْفاً مِّنَ السَّمَأءِ سَـقِطاً يَقُولُواْ سَحَـبٌ مَّرْكُومٌ And if they were to see a piece of the heaven falling down, they would say, "Clouds gathered in heaps!" (52:44)   Show more

انسانوں میں سے ہی رسول اللہ کا عظیم احسان کفار کی ضد اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ بالفرض یہ کتاب اللہ کو آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں دیکھ لیتے اور اپنے ہاتھ لگا کر اسے اچھی طرح معلوم کر لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ، محسوسات ک... ا انکار بھی ان سے بعید نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ ) 15 ۔ الحجر:14 ) یعنی اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول دیتے اور یہ خود اوپر چڑھ جاتے ، جب یہ بھی یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے اور ایک آیت میں ہے آیت ( وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ ) 52 ۔ الطور:44 ) غرض کہ جن باتوں کے ماننے کے عادی نہیں انہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہونے کا ، یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور سچے رسول ہیں تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی؟ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ ان کی اس بے ایمانی پر اگر فرشتے آ جاتے تو پھر تو کام ہی ختم کر دیا جاتا ، چنانچہ اور آیت میں ہے آیت ( مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) 15 ۔ الحجر:8 ) یعنی فرشتوں کو ہم حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔ اگر یہ آ جائیں تو پھر مہلت و تاخیر ناممکن ہے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:22 ) جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن گہنگار کو کوئی بشارت نہیں ہو گی ، پھر فرماتا ہے بالفرض رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ ہم اتارتے یا خود فرشتے ہی کو اپنا رسول بنا کر انسانوں میں بھیجتے تو لا محالہ اسے بصورت انسانی ہی بھیجتے تاکہ یہ لوگ اس کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں ، بات چیت کر سکیں اس سے حکم احکام سیکھ سکیں ۔ یکجہتی کی وجہ سے طبیت مانوس ہو جائے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر انہیں اسی شک کا موقعہ ملتا کہ نہ جانیں یہ سچ مچ فرشتہ ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ وہ بھی انسان جیسا ہے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا ) 17 ۔ الاسراء:95 ) یعنی اگر زمین میں فرشتوں کی آبادی ہوتی تو ہم ان کی طرف فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل فرماتے ، پس درحقیقت اس رب محسن کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ انسانوں کی طرف انہی کی جنس میں سے انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ اس کے پاس اٹھ بیٹھ سکیں اس سے پوچھ گچھ لیں اور ہم جنسی کی وجہ سے خلط ملط ہو کر فائدہ اٹھا سکیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ) 3 ۔ آل عمران:164 ) یعنی یقینا اللہ تعالیٰ محسن حقیقی کا ایک زبردست احسان مسلمانوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو آیات الہیہ ان کے سامنے تلاوت کرتا رہتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر فرشتہ ہی اترتا تو چونکہ اس نور محض کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے اس لئے اے انسانی صورت میں ہی بھیجتے تو پھر بھی ان پر شبہ ہی رہتا ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دیتا ہے کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں آپ سے پہلے بھی جتنے انبیاء آئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا لیکن بالاخر مذاق اڑانے والے تو برباد ہو گئے اسی طرح آپ کے ساتھ بھی جو لوگ بے ادبی سے پیش آتے ہیں ایک رو پیس دیئے جائیں گے ، لوگو! ادھر ادھر پھر پھرا کر عبرت کی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھو جنہوں نے تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بد سلوکی کی ، ان کی نہ مانی اور ان پر پھبتیاں کسیں دنیا میں بھی وہ خراب و خستہ ہوئے اور آخرت کی مار ابھی باقی ہے ، رسولوں کو اور ان کے ماننے والوں کو ہم نے یہاں بھی ترقی دی اور وہاں بھی انہیں بلند درجے عطا فرمائے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) ا... گر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ) 052:044 اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کو‏ئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کو‏ئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کا‏ئنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] کفار کے اعراضات اور ان کے جواب :۔ یہ کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ ہم تو تب ہی ایمان لائیں گے جب ہمارے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل ہو اور ساتھ چار فرشتے بھی ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ... کا یہ جواب دیا کہ یہ کافر اس قدر ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ہم ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیں، وہ کتاب کو چھو کر دیکھ بھی لیں کہ یہ محض نظر بندی کا چکر نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے تب بھی وہ یہ کہہ دیں گے کہ یہ سب کچھ جادو ہے اور تم جادوگر ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا۔۔ : اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو انبیاء کے معجزات کی کوئی الٹی سیدھی تاویل کر کے انھیں جھٹلا دیتے تھے۔ ( رازی) اس آیت میں کفار مکہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کے لیے پیش کردہ فرمائشوں میں سے ایک فرمائش (بنی اسرائیل : ٩٣) کا جواب ہے کہ ہم اس وقت تک ... تمہارے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل نہیں کرتے جسے ہم خود پڑھیں۔ یہ لوگ اپنی سرکشی اور کفر کی روش میں اس قدر پختہ ہیں کہ اگر ہم ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے، جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر صاف معلوم کرلیتے کہ یہ کوئی خیالی اور نظر بندی جیسی چیز نہیں، بلکہ حقیقت ہے، تب بھی یہ لوگ اسے کھلا جادو قرار دیتے، پھر اگر یہ بدبخت قرآن کو جادو قرار دیتے ہیں تو کیا تعجب ہے ؟ (قرطبی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس کی قسمت میں ہدایت نہیں اس کا شبہ نہیں مٹتا۔ “ (موضح) مزید دیکھیے سورة حجر (١٤، ١٥) اور طور (٤٤) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (7) was revealed in the background of a particular event when ` Abdullah ibn Umaiyyah came up with a hostile demand before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by saying: ` I cannot believe in you until such time that I see you climbing all the way to the heavens and bringing a book from there before our eyes, in which it should be written in my name that I should attest to ... your prophethood.& And, on top of saying all this, he went on to even declare that he would still not be impressed enough by his accomplishing all that for he does not seem to be likely to convert to Islam anyway. Strange are the ways of fate, for this very gentleman embraced Islam later on, and embraced it with such fervor and class that he became a winning warrior in the cause of Islam and received his Shaha¬dah (martyrdom) in the Battle of Ta&if. Such were the uncalled-for and hostile demands made and mock¬ing and insulting dialogues inflicted on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) especially when he himself was more affectionate for his people, more than their own parents could ever be to them. What effect these caus¬tic bad manners would have made on his heart is something we cannot fathom. It can only be sensed by one who is consumed with the good of his people in the same manner as the blessed Prophet himself was. Therefore, to comfort him, it was said that such demands from his antagonists were not being put forward for any useful purpose, nor did they want to follow it. They were a kind of people who would not stop at what they were demanding. Even if they were presented with far more clear proofs of their Prophet&s veracity, they would still not believe. For example, if Allah were to send down, as they demanded, a written book from the heavens - and not only that they see it for them-selves that there is no sleight of hand or sight or magic, they may even physically touch it with their hands to make sure that they were not day-dreaming and that it was a reality - still, after all that, they would say nothing but: اَن ھٰذآ اِلَّا سِحرُ مُّبِینُ (This is nothing but sheer magic): This is because what they are saying comes from malice and hostility.  Show more

دوسری آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی، کہ عبداللہ بن ابی امیہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک معاندانہ مطالبہ پیش کیا اور کہا کہ میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت تک ایمان نہیں لاسکتا جب تک کہ میں یہ واقعہ نہ دیکھ لوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان میں چڑھ جائ... یں، اور وہاں سے ہمارے سامنے ایک کتاب لے کر آئیں، جس میں میرا نام لے کر یہ ہو کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کروں، اور یہ سب کہہ کر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب کچھ کر بھی دکھائیں میں تو جب بھی مسلمان ہوتا نظر نہیں آتا۔ اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ پھر یہی صاحب مسلمان ہوئے اور ایسے ہوئے کہ اسلام کے غازی بن کر غزوہ طائف میں شہید ہوئے۔ قوم کے ایسے بیجا معاندانہ مطالبات اور استہزاء کے رنگ میں مکالمات نے ماں باپ سے زیادہ شفیق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر کیا اثر کیا ہوگا، اس کا صحیح اندازہ ہم نہیں کرسکتے، صرف وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جس کو قوم کی صلاح و فلاح کی فکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح لگی ہو۔ اسی لئے اس آیت میں آپ کو تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے یہ مطالبات کسی غرض اور مقصد کے لئے نہیں، نہ ان کو عمل کرنا مقصود ہے، ان کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ یہ طلب کر رہے ہیں اگر اس سے بھی زیادہ واضح صورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کی ان کے سامنے آجائیں، جب بھی قبول نہ کریں، مثلاً ہم ان کی فرمائش کے مطابق آسمان سے کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب اتاردیں اور صرف یہی نہیں کہ وہ آنکھوں سے دیکھ لیں جس میں نظر بندی یا جادو وغیرہ کا احتمال نہ رہے، بلکہ وہ اس کتاب کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیں کہ محض خیال نہیں، حقیقت ہے، مگر چونکہ ان کی ساری باتیں محض عناد کی وجہ سے ہیں تو پھر بھی یہی کہیں گے کہ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ ” یعنی یہ تو کھلا ہوا جادو ہے “۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَيْدِيْہِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) ... بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قرطس القِرْطَاسُ : ما يكتب فيه . قال اللہ تعالی: وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام/ 7] ، قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام/ 91] . ( ق ر ط س ) القرطاس ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام/ 7] اور اگر ہم تم پر کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب نازل کرتے قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام/ 91] کہو کہ جو کتاب موسیٰ لیکر آئے تھے اسے کسی نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحہ ہ علیحہ ہ اوراق ( میں نقل ) کر رکھا ہے ۔ لمس اللَّمْسُ : إدراک بظاهر البشرة، کالمسّ ، ويعبّر به عن الطّلب، کقول الشاعر : وأَلْمِسُهُ فلا أجده وقال تعالی: وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً [ الجن/ 8] ، ويكنّى به وبِالْمِلَامَسَةِ عن الجماع، وقرئ : لامَسْتُمُ [ المائدة/ 6] ولَمَسْتُمُ النّساء حملا علی المسّ ، وعلی الجماع، «ونهى عليه الصلاة والسلام عن بيع الملامسة»وهو أن يقول : إذا لَمَسْتَ ثوبي، أو لَمَسْتُ ثوبک فقد وجب البیع بيننا، واللُّمَاسَةُ : الحاجة المقاربة . ( ل م س ) اللمس ( ن ) مس کی طرح اس کے معنی بھی اعضاٰ کی بلائی کھال کے ساتھ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مطلق کسی چیز کی طلب کرنے کے معنی میں آتا ہے شاعر نے کہا ہے ( مجزوالوافر ) ( 400) المسہ فلا اجدہ میں اسے تلاش کرتا ہوں مگر وہ ملتا نہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً [ الجن/ 8] اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا۔ اور لمساور ملامسۃ کے معنی کنایتۃ جماع کے بھی آتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : لامَسْتُمُ [ المائدة/ 6] یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو ۔ میں ایک قراءت لمستم النساء بھی ہے اس لئے مجامعت کرنا مراد لیا ہے اور حدیث میں ہے (112) انہ نھی عن الملامسۃ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع ملامسۃ سے منع فرمایا : اور بیع ملامسۃ کی صورت یہ ہے کہ بائع یا مشتری دوسری سے کہہ کہ جب ہم سے کوئی دوسرے کپڑا چھوٹے گا تو بیع واجب ہوجائے گی ۔ اللماسۃ ۔ معمولی حاجت ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اگر ہم جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سارا قرآن کریم کا غذ پر لکھا ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردیتے جیسا کہ عبد اللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں نے کہا تھا اور پھر یہ اپنے ہاتھوں میں اسے لے کر پڑھ بھی لیتے مگر پھر بھی یہ عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھ اپنی ہٹ دھرمی ... کے سبب یہی کہتے کہ یہ صریح جادو ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَیْدِیْہِمْ ) (لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ ) وہ ایسے معجزات کو دیکھ کر بھی یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر جادو کا اثر ہوگیا ہے ‘ ہماری نظر بند کردی گئی ہے۔ جس نے نہیں ماننا اس نے صریح معج... زات دیکھ کر بھی نہیں ماننا۔ البتہ اگر ہم ایسا معجزہ دکھا دیں گے تو ان کی مہلت ختم ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد فوراً عذاب آجائے گا۔ ابھی ہماری رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں مزیدمہلت دی جائے۔ ابھی اس دودھ کو مزید بلویا جانا مقصود ہے کہ شاید اس میں سے کچھ مزید مکھن نکل آئے۔ اس لیے حسی معجزہ نہیں دکھایا جا رہا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(7 ۔ 11) ۔ مقاتل بن سلیمان اور کلبی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ نضر بن حارث اور عبد اللہ بن امیہ مشرکین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روز کہا کہ ہم اس صورت میں ایمان لاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے لکھا ہوا ایک کاغذ اس مضمون کا ہمارے پاس آوے کہ بلا شک آپ رسول برحق ہیں اور چار فرشتے ... اس کاغذ کے ساتھ آن کر اس کاغذ کی تصدیق کریں کہ یہ اللہ کی طرف کا نوشتہ ہے اور اس کا مضمون برحق ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٣ ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جسم نوری ہونے کے سب سے اصل فرشتوں کو تو کوئی انسان دیکھ نہیں سکتا حضرت داؤد ( علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس جو فرشتے آئے آخر وہ انسان کی صورت میں آئے اس لئے اگر ان کے کہنے کے موافق ان کی آنکھوں کے سامنے کوئی فرشتہ بھیجا جاوے تو وہ ضرور بصورت بشر ہوگا پھر جس طرح اب نبی برحق کی نبوت پر انسان ہونے کے سبب سے یہ لوگ طرح طرح کے اعتراض اور مسخرا پن کی باتیں کر رہے ہیں وہی حال باقی رہے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ ہلاک ہوجاویں گے کیونکہ یہ عادت الٰہی ہے کہ کس امت کی فرمائش کے موافق نبی کو معجزہ دیا جاوے اور وہ معجزہ دیکھ کر بھی اوہ امت نبی کو نہ مانے تو پھر وہ امت ہلاک ہوجاتی ہے جس طرح ثمود کی اونٹنی کا حال یہ لوگ سن چکے ہیں اب آخر آیت میں حضرت کی تسکین فرمائی کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے اور اسی طرح مسخرا پن کی باتیں کرتے رہیں گے تو انبیاء سے ٹھٹھا کرنے والوں کا حال جو آگے ہوا ہے وہی ان کا ہوگا اور قریش کو ہدایت فرمائی کہ ملک شام اور ملک یمن کے سفر میں پچھلی قوموں کی اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر ذرا عبرت پکڑیں روایت حدیث میں اگرچہ مقاتل بن سلیمان اور کلبی دونوں کو ضعیف ٹھہرایا گیا ہے مگر تفسیر میں ان دونوں کو مسلم اور معتبر قرار دیا ہے چناچہ ابن عدی نے کلبی کی نسبت کہا ہے کہ سفیان بن عینیہ اور شعبہ اور بہت سے لوگوں نے کلبی سے تفسیر کے باب میں روایت کی ہے اور اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے ١ ؎ اور مقاتل بن سلیمانی کی نسبت امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے کہ فن تفسیر میں مفسر لوگ مقاتل کے بچوں کے برابر ہیں ٢ ؎ بدر کی لڑائی کی حدیثیں جو اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں گزریں وہی حدیثیں ان آیتوں کی بھی تفسیر ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:7) فی قرطاس۔ کاغذ پر لکھی ہوئی صحیفہ کی صورت میں ۔ قرطاس کی جمع قراطیس۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

یعنی یہ لوگ اپنی سرکشی اور کفر کی روش میں اس قدر پختہ ہیں کہ اگر ہم ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر صاف معلوم کرلی کہ یہ کوئی خیالی اور نظری چیز نہیں بلکہ حقیقت س تب بھی اسے کھلا جادو قراردیتے پھر اگر یہ بدبخت قرآن کو جادو قرار دیتے ہیں تو کیا تعجب ہے حضر... ت شاہ صاحب لکھتے ہیں جس کی قسمت میں ہدایت نہیں اس کا شبہ کبھی نہیں مٹتا (کذافی القرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 11 : قرطاس (کاغذ) ‘ لمسوا ( انہوں نے چھو کر دیکھا) ‘ ملک (فرشتہ) ‘ قضی الامر (معاملہ کا فیصلہ کردیا گیا) ‘ لاینظرون (وہ مہلت نہ دئیے جائیں گے) ‘ لبسنا (ہم نے پہنا دیا۔ ڈال دیا) ‘ یلبسون ( وہ شبہ کررہے ہیں) ‘ حاق (گھیرلیا) ‘ سخروا (انہوں نے مذاق کیا) سیروا (چلو پھرو) ‘ انظ... روا (دیکھو) ‘ عاقبۃ (انجام) ‘ المکذبین (جھٹلانے والے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 7 تا 11 : فرمایا گیا کہ یہ ضدی ‘ ہٹ دھرم قسم کے لوگ کیسے کیسے مطالبات اٹھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ عبد اللہ بن ابی امیہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ لوں کہ آپ آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔ آپ وہاں سے ایک اییم کتاب لے کر آگئے ہیں جسے ہم لوگ دیکھ سکیں اور چھو سکیں جس کتاب میں میرا نام لے کر یہ خط ہو کہ اس رسول کی تصدیق کرو۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد اس شخص نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں پھر بھی ایمان نہیں لاؤں گا۔ دوسری مرتبہ یہی عبد اللہ بن ابی امیہ اور نضر بن حارث اور نوفل بن خالد مل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا ہم تو آپ پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گیے جب تک آپ آسمان سے ایک کتاب لیکر نہ آجائیں۔ اس کے ساتھ چار فرشتے اتریں جو کہیں کہ واقعی یہ کتاب اللہ کی طرف سے آئی ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہی عبد اللہ بن ابی امیہ خود بخود ایمان لائے۔ جہاد میں حصہ لیا اور غزوہ طائف میں شہید ہوگئے۔ ان مطالبات کا جواب ان آیا ت میں دیا گیا ہے۔ فرمایا ہے کہ اگر ان کا مطالبہ مان لیا جائے۔ کوئی ایسی کتاب آسمان سے اترے جسے یہ چھو سکیں اور پڑھ سکیں تب بھی یہ ایمان لاکر نہ دیں گے۔ ان کے اندر جو نفس پرستی کا بت بیٹھا ہے وہ پھر کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لے گا۔ اب رہا فرشتہ۔ اگر وہ انسان کی صورت میں بھیجا جائے تو ان کا شک و شبہ اپنی جگہ قائم رہ جائے گا۔ وہ کیسے فرق کرسکیں گے کہ یہ انسان ہے اور یہ فرشتہ۔ اگر فرشتہ کو فرشتہ کی شکل میں بھیجا جائے تو اول کوئی انسان فرشتہ کی شکل میں اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ ما رہے ہیبت کے اس کا دم نکل جائے گا۔ فرشتہ تو فرشتہ کی صورت میں اسی وقت نظر آتا ہے جب دم کا نکالنا ہی مقصود ہو۔ اور جب عالم سکرات میں تسلیم کیا تو وہ ایمان کہاں ؟ ایمان کی مہلت وہیں تک ہے جب ماننے یا نہ ماننے کی دونوں طاقتیں موجود ہوں۔ جب غیب پر یقین کیا جائے جب کہ وہ ابھی غیب ہی ہے۔ جب جان نرخرہ تک پہنچ چکی اس وقت فرشتہ موت کو سامنے دیکھ کر یقین کیا تو وہ ایمان نہیں ہے۔ جب غیب حضور بن گیا پھر کون ہے جو مان کر نہ دے۔ بڑے سے بڑا کافر بھی ماننے پر مجبور ہے۔ فرعون اور موجودہ زمانے میں اسٹالن نے بھی موت کے وقت اللہ کو مانا تھا۔ مگر اس وقت ماننے سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان بددماغوں کو بکنے دیجئے اور مذاق اڑرانے دیجئے۔ آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو یہی تجربہ ہوچکا ہے۔ آپ بےفکر ہو کر اپنے کام میں لگے رہیے۔ ہاں بطور نصیحت و عبرت ان سے کہیئے کہ زمین کے مختلف علاقوں میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان قوموں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو جھٹلایا اور پیغمبروں کی باتوں پر یقین نہیں کیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے انتباہ اور پہلی اقوام کے انجام بیان کرنے کے باوجود کفار کے بےجا مطالبات اور ان کا جواب۔ اہل کفر انبیاء ( علیہ السلام) سے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا دعویٰ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کیا تھا اس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والے لوگوں نے موسیٰ...  (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اس وقت تک تیری تائید نہیں کرسکتے۔ جب تک تختیوں کی شکل میں ہمارے پاس تورات نہ لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تختیوں کی شکل میں آسمان سے تورات نازل فرمائی۔ مطالبہ پورا ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کی اکثریت نے تورات پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ یہی حال اہل مکہ کا تھا۔ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم تب ایمان لائیں گے کہ جب ہم پر قرطاس یعنی اوراق کی شکل میں کتاب نازل کی جائے اور ہم اس کو اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹول کر یقین کرلیں۔ تب جا کر ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اہل کفر کا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب ان کا مطالبہ پورا ہوجاتا تو وہ اسے جادو قرار دیتے تھے۔ یہی اہل مکہ نے کردار پیش کیا َ ۔ جب نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ کے اشارہ کرنے پر اللہ کے حکم سے چاند دو ٹکڑے ہوا تو کہنے لگے یہ شخص تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ ایسا ہی ان کا رد عمل آپ پر نازل کیے گئے دوسرے معجزات کے بارے میں سامنے آیا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اس نبی کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی گئی جو جگہ جگہ اس کی تائید کرتا اور اس کا انکار کرنے والوں کو موقع پر سزا دیتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اگر ہم فرشتے کو نازل کرتے تو پھر مہلت دیے بغیر موقع پر ہی مجرموں کو سزا دے دی جاتی۔ جس طرح کہ قوم لوط کے پاس فرشتے آئے اور انھوں نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو بستی سے نکل جانے کا موقع فراہم کرنے کے بعد منکروں کو تہس نہس کردیا۔ (قَالُوْا یَا لُوْطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا إِلَیْکَ فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَکَ إِنَّہُ مُصِیبُہَا مَا أَصَابَہُمْ إِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیلٍ مَّنْضُوْدٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) [ ہود : ٨١ تا ٨٣] ” کہنے لگے : اے لوط ! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے تم رات کا کچھ حصہ باقی ہو تو اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی بھی مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمہاری بیوی پر وہی کچھ گزرنا ہے جو ان پر گزرے گا۔ ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ کیا اب صبح قریب ہی نہیں ؟ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ نچلا حصہ بنا دیا پھر ان پر کھنگر قسم کے تہ بہ تہ پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں سے نشان زدہ تھے اور یہ خطہ ان ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں۔ “ مسائل ١۔ اہل کفر انبیاء کرام (علیہ السلام) سے نت نئے مطالبے کیا کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔ ٣۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پر کفار کے جادو کا الزام : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرکا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف : ٦) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٧۔ کیا قرآن جادو ہے یا تم نہیں دیکھتے۔ (الطور : ١٥) ٨۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعراء : ١٥٣۔ ١٨٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧۔ یہ لوگ آیات الٰہی کا انکار اس لئے نہیں کرتے کہ ان آیات کی صداقت کی دلیل میں کوئی کمزوری ہے یا اس کے ادراک میں کوئی پیچیدگی ہے یا یہ کہ مختلف دماغ اس کے بارے میں ایک طرح نہیں سوچتے بلکہ وہ ہٹ دھرمی اور مکابرہ کی وجہ سے اور کھلے عناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ۔ انہوں نے دلیل وبرہان پر ... غور کرنے سے پہلے ہی اس حقیقت کے انکار کی ٹھان لی ہے ۔ اگر نزول قرآن کی صورت یہ ہوتی کہ وہ آسمان سے پرچوں کی شکل میں اترتا اور وہ اپنے ہاتھوں سے اسے چھوتے اور آنکھوں سے دیکھتے اور یہ نہ ہوتا کہ بذریعہ وحی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آتا اور آپ اسے سناتے تو اس صورت میں بھی وہ اس محسوس اور مشاہد حقیقت کے بارے میں یوں کہتے : (آیت) ’‘’ ان ھذا لا سحر مبین (٦ : ٧) ” یہ تو صریح جادو ہے ۔ “ یہ ان لوگوں کی ایسی مکروہ تصویر ہے کہ انسانی فطرت کو اس سے گھن آتی ہے ۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جسے دیکھتے ہی ہر انسان ان کے مٹانے کے لئے آگے بڑھتا ہے ‘ اس لئے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث و تکرار اور دلیل و استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس انداز میں اس تصویر کشی کے دو فائدے ہیں بلکہ کئی فائدے ہیں (تصویر کشی کا یہ انداز اس طرح ہے کہ قرآن کریم عام طور پر دیکھے جانے والے نمونے کو سامنے لاتا ہے) ایک تو یہ فائدہ ہے کہ قرآن کریم خود ان لوگوں کے سامنے ان کا یہ کریہہ اور ناپسندیدہ موقف پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ دیکھیں تو سہی ان کی تصویر کس قدر بھدی ہے ۔ مثلا کوئی کسی کریہہ المنظر شخص کے ہاتھ میں آئینہ پکڑا دے اور کہہ دے کہ دیکھو یہ ہو تم ۔ اور وہ شخص اپنی شکل دیکھ کر شرمندہ ہوجائے ۔ اس کے ساتھ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس تصویر کشی کے ذریعہ اہل اہل ایمان کے دلوں میں جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مشرکین کے مقاصد کو ناکام بنا دیتے ہیں وہ منکرین کے انکار کا مقابلہ کرتے ہیں اور خود ان کے دل حق پر جم جاتے ہیں ۔ وہ اس فضا سے متاثر نہیں ہوتے جس میں ہر طرف سے انکار ‘ استہزاء فتنہ اور ایذا ہوتی ہے ۔ اس سے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلیم ہے اور وہ ان جھٹلانے والوں اور تکذیب کرنے والوں کو جلدی نہیں پکڑتا حالانکہ وہ بہت قابل نفرت انداز میں انکار کرتے ہیں اور کھلے عناد میں مبتلا ہیں ۔ یہ تمام امور جماعت مسلمہ اور مشرکین کے درمیان برپا کشمکش میں مسلمانوں کے لئے اسلحہ اور زاد راہ ہیں ۔ اس کے بعد قرآن مجید اہل شرک کی جانب سے آنے والی بعض تجاویز کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بغض وعناد میں کس قدر عیار ہیں اور ان کی سوچ کس قدر پوچ ہے ۔ تجویز یہ لاتے ہیں کہ اگر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول برحق ہیں تو آپ کے ساتھ تبلیغ کے وقت ایک فرشتہ ہو جو ساتھ ساتھ آپ کی تصدیق کرتا جائے ۔ اس تجویز کے ذکر کے بعد اس پر تنقید بھی کی جاگی ہے کہ اس میں کیا نقص ہے ؟ ایک تو یہ کہ یہ لوگ ملائکہ کی ماہیت سے بھی واقف نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ فرشتوں کو بھیجنے کے سلسلے میں اللہ کی جو سنت ہے اس سے بھی یہ لوگ واقف نہیں ہیں ۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ وہ فرشتے نہیں بھیج رہا ہے اور ان کی تجویز کو تسلیم نہیں کرتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت کریمہ (وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ الخ) نازل فرمائی یعنی اگر ہم ان پر کاغذ میں لکھی ہوئی کتاب نازل کردیں پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھولیں تب بھی ایمان لانے والے نہیں۔ کتاب کو دیکھ کر ہاتھ لگا کر بھی منکر ہی رہیں گے اور یوں کہہ دیں گے کہ یہ کھلا ہو... ا جادو ہے یہ جو کہہ رہے ہیں کہ کتاب آجائے اور فرشتے آجائیں تو ہم ایمان لے آئیں گے یہ ضد اور عناد ہے ایمان لانا مقصود نہیں ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9 یہ مشرکین کے ساتھ شبہات میں سے پہلے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ جب تک آپ آسمانوں پر جا کر وہاں سے لکھی لکھائی کتاب نہ لے آئیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے جیسا کہ سورة بنی اسرائیل رکوع 10 میں ہے وَلَنْ نُّوْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَء ہٗ تو اس کا جواب دی... ا کہ اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب ان پر نازل کردیں جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیں لیکن پھر بھی یہ مشرکین اور کفار وہی کچھ کہیں گے جو اب کہتے ہیں کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادو ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 اور اے پیغمبر ! اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب آپ پر نازل بھی کردیتے پھر یہ اس کتاب کو اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے اور کوئی گنجائش انکار کی باقی نہ رہتی تب بھی جن لوگوں نے منکرانہ روش اختیار کر رکھی ہے وہ یہی کہتے کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر کھلا ہوا جادو ہے یعنی جادو سے ہم کو کتاب معلوم ہو رہی ہے۔