Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 70

سورة الأنعام

وَ ذَرِ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَعِبًا وَّ لَہۡوًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ اَنۡ تُبۡسَلَ نَفۡسٌۢ بِمَا کَسَبَتۡ ٭ۖ لَیۡسَ لَہَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ ۚ وَ اِنۡ تَعۡدِلۡ کُلَّ عَدۡلٍ لَّا یُؤۡخَذۡ مِنۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اُبۡسِلُوۡا بِمَا کَسَبُوۡا ۚ لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ ﴿٪۷۰﴾  14

And leave those who take their religion as amusement and diversion and whom the worldly life has deluded. But remind with the Qur'an, lest a soul be given up to destruction for what it earned; it will have other than Allah no protector and no intercessor. And if it should offer every compensation, it would not be taken from it. Those are the ones who are given to destruction for what they have earned. For them will be a drink of scalding water and a painful punishment because they used to disbelieve.

اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت بھی کرتے رہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب ( اس طرح ) نہ پھنس جائے کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے ، ان کے لئے نہایت تیز گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ... And leave alone those who take their religion as play and amusement, and are deceived by the life of this world. The Ayah commands to leave such people, ignore them and give them respite, for soon, they will taste a tremendous torment. This is why Allah said, ... وَذَكِّرْ بِهِ ... But remind with it, meaning, remind the people with this Qur'an and warn them against Allah's revenge and painful torment on the Day of Resurrection. Allah said; ... أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ ... lest a soul Tubsal for that which one has earned, meaning, so that it is not Tubsal. Ad-Dahhak from Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan and As-Suddi said that; Tubsal means, be submissive. Al-Walibi said that Ibn Abbas said that; Tubsal means, `be exposed'. Qatadah said that; Tubsal means, `be prevented'. Murrah and Ibn Zayd said that; it means, `be recompensed'. Al-Kalbi said, `be reckoned'. All these statements and expressions are similar, for they all mean exposure to destruction, being kept away from all that is good, and being restrained from attaining what is desired. Allah also said; كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ إِلاَّ أَصْحَـبَ الْيَمِينِ Every person is restrained by what he has earned. Except those on the Right. (74:38-39) and, ... لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ ... when he will find for himself no protector or intercessor besides Allah. and, ... وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لاَّ يُوْخَذْ مِنْهَا ... and even if he offers every ransom, it will not be accepted from him. meaning, whatever the ransom such people offer, it will not be accepted from them. Allah said in a similar statement, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الاٌّرْضِ ذَهَبًا Verily, those who disbelieved, and died while they were disbelievers, the (whole) earth full of gold will not be accepted from anyone of them. (3:91) Allah said here, ... أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُواْ بِمَا كَسَبُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ Such are they who are given up to destruction because of that which they have earned. For them will be a drink of boiling water and a painful torment because they used to disbelieve.

یعنی بےدینوں سے منہ پھیر لو ان کا انجام نہایت برا ہے اس قرآن کو پڑھ کر سنا کر لوگوں کو ہوشیار کر دو اللہ کی ناراضگی سے اور اس کے عذابوں سے انہیں ڈرا دو تاکہ کوئی شخص اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک نہ ہو پکڑا نہ جائے رسوا نہ کیا جائے اپنے مطلوب سے محروم نہ رہ جائے ، جیسے فرمان ہے آیت ( كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ ) 74 ۔ المدثر:38 ) ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہوا ہے مگر داہنے ہاتھ والے ، یاد رکھو کسی کا کوئی والی اور سفارشی نہیں جیسے ارشاد فرمایا آیت ( مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:154 ) اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہے نہ دوستی اور محبت سفارش اور شفاعت کافر پورے طالم ہیں اگر یہ لوگ قیامت کے دن تمام دنیا کی چیزیں فدئیے یا بدلے میں دے دینا چاہیں تو بھی ان سے نہ فدیہ لیا جائے گا نہ بدلہ ۔ کسی چیز کے بدلے وہ عذابوں سے نجات نہیں پا سکتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:91 ) جو لوگ کفر پر جئے اور کفر پر ہی مرے یہ اگر زمین بھر کر سونا بھی دیں تو ناممکن ہے کہ قبول کیا جائے اور انہیں چھوڑا جائے پس فرما دیا گیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے رسوا کر دیئے گئے انہیں گرم کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور انہیں سخت المناک عذاب ہو گا کیونکہ یہ کافر تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 تُبْسَلَ ، ای : لئلا تبسل بسل کے اصل معنی تو منع کے ہیں اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔ 1: تُسَلَّمُ سونپ دیئے جائیں۔ 2: تُفْضَحُ رسوا کردیا جا‏ئے۔ 3: تُؤَاخَذُ مواخذہ کیا جائے۔ 4: تُجَازی بدلہ دیا جائے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ہیں۔ خلاصہ (امام ابن کثیر (فرماتے ہیں کہ انھیں اس قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کما یا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیا جائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے " پھنس نہ جائے " سے تعبیر کیا ہے۔ 70۔ 2 دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی کی سفارش سے مالی معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے، وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لے نہ کوئی سفارشی ہوگا جو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ ہوگا اگر بالفرض محال ہو بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے، یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] دین کو کھیل تماشا سمجھنے والے :۔ یعنی وہ لوگ جو پیروی تو اپنی خواہشات کی کرتے ہیں مگر خول مذہب کا چڑھا رکھا ہے۔ وہ اگر اپنے اپنے قبیلے کے الگ الگ خدا مقرر کرلیں تو بھی ان کے دین میں کچھ خلل نہیں آتا اور اگر دوسروں پر ظلم روا رکھیں ناجائز طریقوں اور لوٹ مار سے دوسروں کا مال ہتھیا لیں تو بھی جائز اور ہر طرح کے بےحیائی کے کام بھی ان کے لیے جائز۔ ان کے علاوہ اللہ کی آیات، اسلام، پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں کا مذاق اڑانا بھی انہوں نے اپنا دینی فریضہ سمجھ رکھا ہے اور چونکہ ان کی معاشی حالت اچھی ہے اور معاشرہ میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہذا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں بروقت اس بات سے متنبہ کر دیجئے کہ تم میں سے ہر ایک کا اور اس کے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا اور پھر اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ خ اخروی عذاب سے نجات کی صورتیں :۔ سزا سے بچنے کی ممکنہ صورتیں تو یہی ہوسکتی ہیں کہ کوئی اس کا ایسا حمایتی اٹھ کھڑا ہو جو سزا دینے والے پر اثر انداز ہوسکتا ہو یا سزا دینے والے کا مقرب ہو اور وہ اس کی سفارش کرے تاکہ اسے سزا سے معاف رکھا جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے، وہاں یہ تینوں صورتیں ناممکن ہوں گی اور انہیں اپنے کرتوتوں کی سزا بہرحال بھگتنا ہی پڑے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا۔۔ : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ جو لوگ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے، آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے برے اعمال کی وجہ سے جو اس نے کمائے، ہلاک کردیا جائے، پھر آخرت میں اس کے چھوٹنے کی کوئی صورت ہی نہ رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا اور وہ کوئی بھی فدیہ دیں ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کمائی اور بد اعمال کی وجہ سے ہلاک کردیے گئے۔ ان کے پینے کے لیے سخت گرم پانی ہوگا اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse (70), nearly the same subject has been stressed upon in the following words: وَذَرِ‌ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا (And avoid those who have taken their faith as game and play ...). The word: ذر (dhar) here is a derivation from: وَذَرِ‌ (wadhara) which means being displeased with something and leaving it. Thus, the verse can be taken either in the sense of leaving people who have turned the true religion, that is, Islam which has been sent for them, into a plaything and a laughing stock; or in the sense that they have left their real faith and taken to fun and play as their very own religion and purpose of life. The outcome of both meanings is nearly the same. After that, it was said: وَغَرَّ‌تْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا that is, the transitory life of the present world has deceived them. This is a true diagnosis of their real problem. They are so disobedient and wicked because they are be-witched by the glamour of their mortal life totally forgetting that they have another state of life ahead of them. If they had believed in the &Akhirah (Hereafter) and Qiyamah (The Last Day), they would have never acted so recklessly. In this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Muslims at large have been given two orders that they should not only avoid the people identified, but that they should also act positively and continue preaching through the Qur&an and keep putting the fear of Allah&s punishment in their hearts. The detail of this punishment was pointed out at the end of the verse by saying that, should they continue doing what they were do¬ing, they are bound to fall a victim to their own evil conduct. The word used at this place is: تُبسَلَ which means to be detained or be entrapped. Since man in this world is accustomed to rely on three kinds of sources to escape the punishment of his own error or injustice inflicted on someone. When convenient, he would use the power and influence of his party or group to stay safe against the consequences of his injus¬tice. Then, should he become helpless, he would use recommendations from the influential people. When that too does not work, he would try to secure his freedom from punishment by spending money. Allah Ta` ala says in this verse that His criminal cannot be saved from punishment by any friend or relative, nor can an intercession by anyone succeed without the permission of Allah, nor can wealth of any kind be accepted - even if the criminal were to possess the wealth of the whole world and wished to give it all in exchange for his freedom from punishment, even then this fidyah will not be accepted from him. Finally, at the close of the verse, it was said: أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَ‌ابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُ‌ونَ ﴿٧٠﴾ that is, these are the people who have been detained in the punishment of their evil deeds. They will have boiling water to drink in the Jahannam about which it has been said in an-other verse that it will shatter their entrails apart (47:15) and that there will be painful punishments other than that of the boiling water in return for their disbelief and denial. This verse also tells us that the very company of people who are heedless to the &Akhirah and are content with their life in the mortal world is fatal for everyone. Its ultimate consequence is that whoever sits in their company shall be subject to the same punishment in which they have been caught up. The essential objective in these three verses (68-70) is to save Mus¬lims from evil environment and bad company which can be as deadly as poison. Many clear, definite and conclusive statements (Nusus) of the Qur&an and Hadith as well as repeated observation and experience prove that the root of all evils and crimes in which human beings get involved is the evil society and environment in which they grow up. Once snared into it, one slides into evils against personal grain and conscience. Then, comes the stage when, once habituated, the sense of evil dies away - reaching the limit when one starts taking evil as good and good as evil. In al Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ is report¬ed to have said: When a person gets involved in a sin for the first time, there appears a dot on his heart. This is like a black dot on a white dress which everyone dislikes and gets disturbed with. So, this person too feels the distaste in his heart. But when he, after having done the first one, goes on doing the second and the third sin - and does not re-pent from the past sin - black dots, one after the other, keep appearing on the heart, so much so that the radiant tablet of the heart turns jet black. The outcome is that this person is deprived of the very ability to distinguish between good and bad. The Holy Qur&an identifies it with the word: |"ra&n|" (rust, stain) when it says: كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَ‌انَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٤﴾(83:14), that is, there is rust on their hearts because of their evil deeds (which has taken away their ability to receive good). When you come to think of it, wrong environment and bad compa¬ny really hurt all human beings. They push people into the abyss. May Allah keep all of us protected from them. Therefore, everyone who is responsible for raising children must do their best to keep children safe from such society and environment. As for the next three verses (71-73), they too deal with the refuta¬tion of Shirk (the attribution of partners to Allah) and the affirmation of Tauhid (the Oneness of Allah) and &Akhirah (the Hereafter, the life to come) as fairly evident from the translation itself.

تیسری آیت میں بھی تقریباً اسی مضمون کی مزید تاکید اس طرح ارشاد فرمائی گئی ہے : وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ ، اس میں لفظ ذَر وَذرَ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز سے ناراض ہو کر اس کو چھوڑ دینا، معنی آیت کے یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے جنہوں نے اپنے دین کو لہو ولعب یعنی مشغلہ اور کھیل بنا رکھا ہے، اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جو دین حق یعنی اسلام ان کے لئے بھیجا گیا ہے، اس کو لہو ولعب بنا رکھا ہے، اس کا استہزاء و تمسخر کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ انہوں نے اصلی دین کو چھوڑ کر اپنا دین و مذہب ہی لہو و لعب کو بنا لیا ہے، دونوں معنی کا حاصل تقریباً ایک ہی ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا یعنی ان کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے غرور اور دھوکہ میں ڈالا ہوا ہے، یہ ان کے مرض کا اصلی سبب بیان فرما دیا کہ ان کی اس ساری سرکشی اور نافرمانی کا اصلی سبب یہ ہے کہ دنیا ہی کی چند روزہ زندگی پر مفتون ہیں، اور آخرت کو بھلائے بیٹھے ہیں، اگر آخرت اور قیامت کا اعتقاد ہوتا تو ہرگز وہ یہ حرکتیں نہ کرتے۔ اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں کو دو حکم دیئے گئے ہیں، اول یہ کہ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں جس کا بیان مذکورہ جملہ میں آچکا ہے، دوسرے یہ کہ صرف ان لوگوں سے کنارہ کشی اور اعراض بھی کافی نہیں، بلکہ ایجابی طور پر یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کے ذریعہ ان کو نصیحت بھی کرتے رہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے بھی رہیں۔ آخر آیت میں اس عذاب کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی، کہ اگر ان کی یہی حالت رہی تو یہ اپنے کردارِ بد کے جال میں خود پھنس جائیں گے، آیت میں اس جگہ اَنْ تُبْسَلَ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کے معنی قید ہوجانے اور پھنس جانے کے ہیں۔ چونکہ دنیا میں انسان اس کا خوگر ہے کہ اگر کبھی کوئی غلطی یا ظلم کسی پر کر بیٹھا ہے اور اس کی سزا اس کے سامنے آگئی تو سزا سے بچنے کے لئے تین قسم کے ذرائع اختیار کرتا ہے، کبھی اپنی جماعت اور جتھے کا زور اس کے خلاف استعمال کرکے اپنے ظلم کی پاداش سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اور اگر اس سے عاجز ہوگیا تو بڑے لوگوں کی سفارش سے کام لیتا ہے، اور یہ بھی نہ چلی تو پھر یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لئے کچھ مال خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتلا دیا کہ خدا کے مجرم کے لئے سزا سے بچانے والا نہ کوئی دوست عزیز ہوسکتا ہے، نہ کسی کی سفارش بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے چل سکتی ہے، اور نہ کوئی مال قبول کیا جاسکتا ہے، بلکہ اگر سارے جہان کا مال بھی اس کے قبضہ میں ہو اور وہ اس سب مال کو سزا سے بچنے کا فدیہ بنانا چاہئے تب بھی یہ فدیہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔ آخر آیت میں فرمایا :ۭاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال بد کی سزا میں پکڑے گئے ہیں، ان کو پینے کے لئے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ملے گا، جس کے متعلق دوسری آیت میں ہے کہ وہ ان کی انتڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دے گا، اور اس پانی کے علاوہ دوسرے بھی دردناک قسم کے عذاب ہوں گے ان کے کفر و انکار کے بدلے میں۔ اس آخری آیت میں یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ آخرت سے غافل صرف دنیا کی زندگی پر مگن ہیں، ان کی صحبت و مجالست بھی انسان کے لئے مہلک ہے، اس کا انجام یہ ہے کہ ان کی صحبت میں رہنے والا بھی اس عذاب کا شکار ہوگا، جس میں وہ مبتلا ہیں۔ ان تینوں آیتوں کا حاصل مسلمان کو برے ماحول اور بری صحبت سے بچانا ہے جو انسان کے لئے ستم قاتل ہے، قرآن و حدیث کی بیشمار نصوص کے علاوہ مشاہدہ اور تجربہ اس کا گواہ ہے کہ انسان کو تمام برائیوں اور جرائم میں مبتلا کرنے والی چیز اس کی بری سوسائٹی اور برا ماحول ہے جس میں پھنسنے کے بعد انسان اول تو خلاف ضمیر اور خلاف طبع برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور پھر جب عادت پڑجاتی ہے تو یہ برائی کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے، بلکہ برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جیسے سفید کپڑے میں ایک سیاہ نقطہ ہر شخص کو ناگوار ہوتا ہے اس کو بھی گناہ سے دل میں ناگواری پیدا ہوتی ہے، لیکن جب ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا گناہ کرتا چلا جاتا ہے اور پچھلے گناہ سے توبہ نہیں کرتا تو یکے بعد دیگرے سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ دل کی نورانی لوح بالکل سیاہ ہوجاتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی، قرآن مجید میں اسی کو لفظ ران سے تعبیر فرمایا ہے، (آیت) کلا بل ران علی، ” یعنی ان کے دلوں میں ان کے اعمال بد کی وجہ سے زنگ لگ گیا کہ اب صلاحیت ہی مفقود ہوگئی “۔ اور جہاں تک غور کیا جائے انسان کو اس حالت پر پہنچانے والی چیز اکثر اس کا غلط ماحول اور بری صحبت ہوتی ہے، نعوذ باللہ مہنما، اسی لئے بچوں کے مربّیوں کا فرض ہے کہ بچوں کو ایسے ماحول اور سوسائٹی سے بچانے میں پوری کوشش کریں۔ اگلی تین آیتوں میں بھی شرک کے ابطال اور توحید اور آخرت کے اثبات کا مضمون ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَہْوًا وَّغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ۝ ٠ۤۖ لَيْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ۝ ٠ۚ وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْہَا۝ ٠ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۝ ٠ۚ لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۝ ٧٠ۧ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] لهو [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا . ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم . ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ بسل البَسْلُ : ضم الشیء ومنعه، ولتضمّنه لمعنی الضّم استعیر لتقطیب الوجه، فقیل : هو بَاسِل ومُبْتَسِل الوجه، ولتضمنه لمعنی المنع قيل للمحرّم والمرتهن : بَسْلٌ ، وقوله تعالی: وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] أي : تحرم الثواب، والفرق بين الحرام والبسْل أنّ الحرام عامّ فيما کان ممنوعا منه بالحکم والقهر، والبسل هو الممنوع منه بالقهر، قال عزّ وجل : أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] أي : حرموا الثواب، وفسّر بالارتهان لقوله : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ( ب س ل ) الیسل کے معنی کسی چیز کو اکٹھا کرنا اور روکنا کے ہیں ۔ اکٹھا کرنا کے مفہوم کے پیش نظر استعارۃ تر شروئی کے معنی کے پیش نظر حرام اور گروی چیز کو بسل کہا جاتا ہے قران میں ہے : وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] یعنی اس ( قرآن ) کے ذریعے نصیحت کرتے رہو تاکہ ( قیامت کے دن ) کوئی نفس اپنے اعمال کے ثواب سے محروم نہ رہ جائے بلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ بسل اور حرام میں فرق یہ ہے کہ حرام عام ہے جو ممنوع عنہ حکمی اور قہری دونوں کو شامل ہے اور بسل کا لفظ صرف جبرا کسی چیز سے محروم کردینے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یعنی یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے سبب ثواب سے محروم کردیئے گئے ۔ بعض نے آیت کریمہ : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروي ہے کے پیش نظر اس کی تفسیر ارتھان سے بھی کی ہے ۔ یعنی یہ لوگ اپنے اعمال کے بدلے گروي ہوں گے۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» وسمي العَرَق حمیماعلی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ) كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تشریح تبسل قول باری ( تُبسل) کے معنی فراء کے قول کے مطابق ” ترتھن “ ( گروی لے لی جائے) ہے حسن مجاہد اور سدی کے قول کے مطابق ” تسلم “ حوالے ہوجائے، اور قتادہ کے قول کے مطابق ” تجس “ پھنس جائے) جبکہ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطاق ” تفضح “ ( ذلیل ہوجائے) ہے۔ ایک قول ہے کہ اس کے اصل معنی ارتہان یعنی گروی لینے کے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ اصل معنی تحریم کے ہیں۔ محاورہ میں ” اسد باسل “ ( بہادر شیر) اس لیے کہا جاتا ہے کہ شیر کا کیا ہوا شکار اس کے پاس گروی ہوجاتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا۔ ایک اور محاورہ ہے ” ھذا بسل علیک یعنی یہ چیز تم پر حرام ہے۔ اس لیے کہ اس چیز کو اسی طرح کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے۔ ایک محاورہ یہ بھی ہے ” اعطی الراقی سلتہ “ یعنی اس نے جھاڑ پھونک کرنے والے کو اس کی اجرت دے دی۔ اس لیے کہ اس کا یہ عمل اجرت کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ مستبسل کے معنی مستسلم کے ہیں۔ یعنی فرمانبردر اس لیے کہ اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوتی ہے جو فرمانبرداری کے اظہار کے ذریعے اپنے آپ کو مقید اور پابند بنا لیتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) آپ عینیہ اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کا حکم دیتے ہو جو دنیا و آخرت میں کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہم ان باطل معبودوں کی عبادت نہ کریں تو وہ دنیا وآخرت میں ہمیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور کیا ہم پھر بھی شرک اختیار کرلیں، باوجودیکہ اس ذات الہی نے ہمیں اپنی عبادت کا شرف عطا کیا ہے۔ تو پھر ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوجائے جو صحیح راستہ سے بھٹک گیا، اصحاب رسول اکرم (رض) عینیہ کو دین اسلام اور اطاعت خداوندی کی طرف بلاتے ہیں اور وہ انھیں شرک کی دعوت دیتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے لڑکے عبدالرحمن کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ ابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، اپنے والدین کو اپنے دین کی طرف دعوت دیتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَہْوًا) آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دین کے معاملے میں کبھی سنجیدہ ہوتے ہی نہیں۔ وہ دین کی ہر بات کو استہزا اور تمسخر میں اڑانے کے عادی ہوتے ہیں۔ (وَّغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا ) ان کی ساری توجہ ‘ تمام بھاگ دوڑ دنیا کے لیے ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمانا ‘ مال جمع کرنا اور جائیدادیں بنانا ہی ان کا مقصد حیات ہے ‘ خواہ حلال سے ہو یا حرام سے ‘ اس کی کوئی پروا ان کو نہیں ہوتی۔ (وَذَکِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْق) ۔ سورۂ قٓ کی آخری آیت میں حکم دیا گیا ہے : (فَذَکِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ) کہ آپ قرآن کے ذریعے سے تذکیر کیجیے اس شخص کو جس کے اندر اللہ کی وعید کا کچھ خوف ہے۔ اسی طرح یہاں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان دنیا کے پرستاروں کو چھوڑیے ‘ البتہ اس قرآن کے ذریعے سے انہیں تذکیر کرتے رہیے ‘ انہیں یاد دہانی کراتے رہیے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے کرتوتوں اور بد اعمالیوں کے وبال میں گرفتار ہوجائے۔ (لَیْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌ ج) شفاعت کے بارے میں دو ٹوک انکار (categorical denial) یہاں دوسری دفعہ آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ٥١ میں بھی یہ مضمون آچکا ہے۔ سورة البقرۃ (آیت ٢٥٤) میں (یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ط) کے دو ٹوک الفاظ کے بعد اگلی آیت (آیت الکرسی) میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : (مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ الاَّ بِاِذْنِہٖ ط) چناچہ شفاعت حقہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شفاعت کی کچھ شرائط اور کچھ حدود (limits) ہیں۔ ان شرائط اور حدود وقیود کے بغیر مطلق شفاعت کا تصور گویا ایمان بالآخرت کی نفی کے مترادف ہے۔ یعنی جب آپ کو چھڑانے والے موجود ہیں تو پھر ڈر کا ہے کا ؟ جو چاہو کرو ! شرابی ہیں ‘ زانی ہیں ‘ چور ہیں ‘ ڈاکو ہیں ‘ حرام خور ہیں ‘ غبن کرتے ہیں ‘ جو بھی کچھ ہیں ‘ لیکن اے اللہ تیرے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں ہیں ! تو اگر اسی طرح سے کوئی معاملہ طے ہونا ہے تو خواہ مخواہ کا ہے کو کوئی اپنا ہاتھ روکے ‘ جی بھر کر عیش کیوں نہ کرے ؟ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ! (وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَّ یُؤْخَذْ مِنْہَا ط) یہ مضمون بھی سورة البقرۃ میں دو مرتبہ (آیت ٤٨ و ١٢٣) آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس دین کو انہیں اپنانا چاہئے تھا، (یعنی اسلام) اس کو قبول کرنے کے بجائے وہ اس کا مذاق بناتے ہیں۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ جو دین انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ کھیل تماشے جیسی بے بنیاد رسموں پر مشتمل ہے اور دونوں صورتوں میں ان لوگوں کو چھوڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب وہی ہے کہ ان کی اس قسم کی گفتگو میں ان کے ساتھ مٹ بیٹو جس میں وہ اللہ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہوں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر ذکر تھا کہ اہل مکہ کو آیات قرآنی کے مضمون کے موافق جس قدر سمجھایا جاتا تھا وہ اس قدر ان آیتوں کو مسخراپن میں اڑاتے اور جھٹلاتے تھے اس آیت میں ارشاد ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کھانے پینے شراب خوری گانا اور باجا سننے کو اپنا دین ٹھہرا رکھا ہے اور اصل دین کی باتوں کے اور ان باتوں کی سزا وجزا کے لیے دوبارہ زندگی کے یہ لوگ منکر ہیں۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ جس کے دل میں عقبے کا یقین نہیں وہ عقبے کی باتوں کو جلدی سے کیوں کر مان سکتا ہے اس لیے اے رسول اللہ کے ان منکر قیامت لوگوں کو چند روز ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے مگر اتنی بات ان کو سمجھا دی جاوے کہ جس طرح کے مسخرا پن اور کھیل تماشے کو ان لوگوں نے اپنا دین ٹھہرا رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے کھیل تماشے کے طور پر دنیا کو نہیں پیدا کیا بلکہ دنیا کے پیدا کرنے کا نتیجہ وہی ہے جو گھڑی گھڑی ان لوگوں کو جتلایا جاتا ہے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد دنیا کے نیک وبد کی جز اوسزا کے لیے دوسرا جہان ضرور قائم ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے سے لگے وہ دوسرا جہان ایسا ہوگا کہ جہاں ہر شخص اپنے عمل کے نتیجہ کا پابند کرایا جاوے گا۔ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کا وہاں کوئی حامی و مددگار نہیں ہے تمام دنیا کا مال ومتاع یہ لوگ سزا کے معاوضہ میں دینا چاہیں گے تو یہ معاوضہ ہرگز قبول نہ ہوگا۔ کھولتا ہوا پانی پینا۔ سینڈھ کھانا ہمیشہ آگ میں جلنا یہی ایسے لوگوں کی سزا ہے۔ مسند امام احمد ترمذی مستدرک حاکم میں ابو امامہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کا وہ پانی ایسا کھولتا ہوگا کہ جب وہ پانی دوزخیوں کو پلایا جاوے گا تو اس کی گرمی سے پیتے وقت ان کے منہ کی کھال جل کر گر پڑے گی اور پینے کے بعد ان کی انتڑیاں کٹ کر نکل پڑیں گی حاکم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ١ ؎ ہے ترمذی نسائی ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کے دوزخیوں کے کھانے کا تھوڑا ساسینڈھ زمین پر آن پڑے تو اہل دنیا کی زندگی مشکل ہوجاوے ترمذی اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٢ ؎ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے نعمان بن بشیر (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے ١ ؎ و ٢ ؎ جامع ترمذی ج ٢ ص ٨٤ باب ماجاء فی صنقہ شراب اھل النار والترغیب والترہیب ج ٢ ص ٣٢٠ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اونی درجہ کا دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخیوں کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہناوی جاوینگی جس کی گرمی سے ان کے سر کا بھیجاپگھل کر نکل پڑیگا ٣ ؎۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٧١ باب صفۃ الجنۃ والنار و صحیح مسلم ج ١ ص ١١٥ باب شفاعۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لابی طالب الخ یہ تو دوزخ کا ادنی درجہ کا عذاب ہوا رہا دوزخ کے اعلیٰ درجہ کے عذاب کا حال وہ دنیا کا کا روبار قائم رہنے کے لیے اللہ کے رسول نے نہ صحابہ کو بتلایا نہ اس کی روایت ہم لوگوں تک آئی چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر دوزخ کے عذاب کی پوری تفصیل تم کو معلوم ہوجاوے تو سو رات دن کے رونے کے اور تم سے کچھ بھی نہ ہو سکے گا ١ ؎ یہ حدیثیں دوزخ کے کھانے پینے اور اس کے عذا اب کی گویا مختصر تفسیر ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٠ِ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوتعلمون ما اعلم الخ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:70) ذر۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر وذر سے (باب سمع و فتح) تو چھوڑ دے۔ غرتھم۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ دنیاوی زندگی نے ان کو بہکا رکھا ہے۔ وذکر بہ۔ اور نصیحت کے ذریعہ سے ۔ یعنی ان مشرکوں کو قرآن کی روشنی میں نصیحت کرو۔ ذکر۔ فعل امر واحد مذکر حاضر بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب قرآن کی طرف راجع ہے۔ ان کہ ۔ یہ کہ ۔ ان مبادا کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسے ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم ندمین ۔ (49:6) اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو۔ اور پھر اپنے کئے پر پشیمان ہو۔ اکثر مفسرین نے یہاں ان کو انہیں معنوں میں لیا ہے۔ لیکن اگر اسے ” کہ “ کے معنی میں لیا جائے جیسا کہ علامہ عبد اللہ یوسف علی نے لیا ہے تو عبارت کے معنی زیادہ واضح ہوجاتے ہیں اس صورت میں ان کے بعد جملہ ذکر کا مفعول بہٖ ہوگا۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : ۔ ومنھم من جعلہ (ای تبسل نفس بما کسبت) مفعولا بہ لذکر۔ ان میں سے بعض نے تبسل نفس بما کسبت کو ذکر کا مفعول بہٖ لیا ہے۔ تبسل۔ وہ گرفتار ہوجائے۔ وہ ہلاکت کے سپرد کی جائے۔ ابسال سے مضارع مجہول واحد مؤنث غائب بسل بمعنی تھلک (ابن عباس) ۔ تحبس۔ (قتادہ) ای فی نار جھنم۔ تحرق بالنار (الضحاک) ۔ تعدل۔ وہ بدلہ دیوے (ضرب) عدل سے جس کے معنی اصل میں مساوی اور برابر کرنے کے ہیں۔ چونکہ بدلہ کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے کہ جس چیز کا بدلہ ہے اس کے برابر ہے۔ اس لئے بدلہ کرنے کے معنی بھی آتے ہیں۔ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ وذکر بہ ان تبسل نفس ۔۔ الخ۔ اور نصیحت کر قرآن کے ذریعہ سے کہ :۔ پکڑا جائیگا آدمی اپنے عملوں کی وجہ سے اور انہیں ہوگا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی سفارشی۔ اور اگر وہ ہر چیز فدیہ میں دے کرچھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔ اولئک۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل اور دل لگی سمجھتے ہیں اور جنہیں دنیوی زندگی نے دھوکہ میں رکھا ہوا ہے۔ ابسلوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب ، وہ ہلاک کئے گئے وہ ہلاک ہوئے۔ وہ گرفتار کئے گئے۔ وہ پکڑے گئے۔ وہ ثواب سے محروم کئے گئے۔ (اوپر تبسل ملاحظۃ کیا جائے) حمیم۔ نہایت گرم پانی۔ اس سے حمان مشتق ہے جہاں گرم پانی مل سکتا ہے۔ حمیم قریبی دوست کو بھی کہتے ہیں حم سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 کھیل کود اور تماشے ہی کو اپنا دین بنالیا ہے ان کے حال پر چھوڑ دے یعنی ان کی کوئی پر انہ کرو۔ (وحیدی) یا کہ کہ تھو ڑی دیر کے لیے دنیا میں ان کو مہلت دیجئے آخر کار یہ عذاب الیم میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ (ابن کثیر)4 یعنی قیامت کے روز اپنے اعمال کی سزا میں گرفتار ہو یا ذلیل ہو۔ (وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ چھوڑ دے یا صحبت نہ رکھ ان سے مگر نصیحت کردی کہ کوئی بیخبر نہ پکڑا جاوے ( موضح) 5 یعنی جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے دین کے معاملہ میں کسی احتیاط سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق حلال حرام کو مسئلے بنارکھے ہیں اور اپنے آبا و اجداد کی تقلید کو ہی ذریعہ نجات سمجھ رکھا ہے اور پھر دنیا کی محبت کا ان کے دلوں پر اس قدر تسلط ہے کہ اصل حقیقت کو چھوڑ بیٹھے ہیں ایسے لوگوں پر آخرت میں نجات کے تمام ذرائع مسدود کردئے جائیں گے یعنی نہ ان کا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ سفارشی اور نہ ان سے فدیہ قبول کیا جائے گ الغرض ان کی ہلاکت کے سپرد کردیا جائے گا اور کوئی چیز بھی ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں کرسکے گی، (رازی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بعض روایات میں آیا کہ مشرکین نے مسلمانوں سے ترک اسلام کی درخواست بھی کی تھی اگلی آیت میں اس کا جواب ہے اوپر ذکری اور ذکر میں حکم تھا کہ مشرکین کو اسلام کی طرف بلادیں یہاں ان کے ترک اسلام کی طرف بلانے کا جواب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧٠۔ اس میں ہم درج ذیل حقائق کے سامنے کھڑے ہیں : ایک یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں سے قطع تعلق کرلیں جو آپ کے دین اور اسلامی نظام کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرتے ہیں اور آپ کے بعد اہل ایمان کے لئے بھی یہی ہدایت آتی ہے اور یہ قطع تعلق اور جدائی بات چیت میں بھی ہوتی ہے اور عمل میں بھی ۔ جو لوگ دین اسلام کو اپنی زندگی کا ضابطہ بنا کر ‘ اپنے لئے ماخذ نظریات قرار دے کر ‘ اپنے لئے نظام عمل بنا کر ‘ اپنے لئے نظام اخلاق اور اپنے لئے نظام قانون قرار دے کر اس کا صحیح مقام نہیں دیتے اور اسے پروقار نہیں بناتے وہ بھی دراصل اس دین کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ جو لوگ اس دین کے موضوعات پر بحث کرتے ہیں ‘ اسلامی شریعت پر کلام کرتے ہیں اور اس دین کی طرف قابل تضحیک اوضاف کی نسبت کرتے ہیں وہ بھی دین کے ساتھ مذاق کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ مثلا وہ لوگ جو غیب کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اور عالم غیب کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں حالانکہ ایمان بالغیب اصول عقائد میں سے ہے اور جو لوگ زکوۃ کے ساتھ مزاح کرتے ہیں حالانکہ وہ دین کے بنیادوں میں سے ہے ۔ اور جو لوگ شرم وحیاء اور عفت و پاکیزگی کے ساتھ مزاح کرتے ہیں حالانکہ یہ اصول دین میں سے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی تقریروں اور تحرروں میں انہیں قرون اولی کے زرعی اور جاگیردارنہ اخلاق میں سے قرار دیتے ہیں یا انہیں بورژوا اخلاق قرار دیتے ہیں اور جو لوگ حقوق الزوجین کے بارے میں تحقیر آمیز ریمارکس پاس کرتے ہیں اور جو لوگ عورت کے لئے مقرر اصول عفت و پاکیزگی کو عورت کی پسماندگی اور اس کا استحصال قرار دیتے ہیں اور سب سے آخر میں اور تمام باتوں سے پہلے وہ انسانوں کی پوری زندگی میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتے اور انسان کی سیاسی ‘ اجتماعی ‘ اقتصادی اور قانونی زندگی میں اللہ کی حاکمیت کے قائل نہیں ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ ان شعبوں میں لوگ اللہ کی شریعت سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں ۔ یہ سب لوگ اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اللہ کے دین کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرنے والے سمجھے جائیں گے ۔ اس لئے ہر مسلمان کو حکم ہے کہ وہ ماسوائے تبلیغی مقاصد کے ان لوگوں سے دور رہے اس لئے کہ یہ لوگ ظالم اور مشرک ہیں اور ان کافروں میں سے ہیں جو اپنے کفریہ اعمال میں گرفتار ہونے والے ہیں اور قیامت میں ان کی تواضع کھولتے ہوئے پانی سے کی جائے گی اور وہ دردناک عذاب میں رہیں گے ‘ اس لئے کہ یہ لوگ مذکورہ کفریہ روش میں مبتلا تھے ۔ دوسری حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ایک طرف چھوڑ دیں اور یہی حکم آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لئے بھی باقی ہے ۔ لیکن حضور کو اس مقاطعہ کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی دی گئی کہ وہ لوگ جنہوں نے اس دین کے ساتھ ہنسی مذاق کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے اور انہیں دنیا کی اس عارضی زندگی نے فریب میں ڈال دیا ہے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے بھی انہیں یاد دہانی کراتے جائیں ۔ انہیں ڈراتے رہیں کہ وہ جو کچھ برائیاں سمیٹ رہے ہیں ان کا وبال ان کی جان پر ہوگا اور ایک وقت آنے والا ہے جس میں وہ اللہ سے ملیں گے اور اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا جو کچھ بھی تعاون کرسکے ۔ نہ کوئی ان کا سفارشی ہوگا ‘ نہ ان سے کوئی مالی تاوان قابل قبول ہوگا جس کے ذریعے وہ اپنی جان کو ان باتوں سے چھڑا سکیں جن کا انہوں نے دنیا میں ارتکاب کیا ۔ یہ مفہوم قرآن کریم نے جن الفاظ میں ادا کیا ہے ‘ ان کی خوبصورتی اور معنوی گہرائی قابل غور ہے ۔ ذرا دوبارہ تلاوت کیجئے ۔ (آیت) ” وَذَکِّرْ بِہِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَیْْسَ لَہَا مِن دُونِ اللّہِ وَلِیٌّ وَلاَ شَفِیْعٌ وَإِن تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَّ یُؤْخَذْ مِنْہَا (٦ : ٧٠) ” ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور متنبہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کئے ہوئے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہوجائے ‘ اور اگر گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی ومدد گار اور کوئی سفارشی اس کے لئے نہ ہو ‘ اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے ۔ “ ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں ماخوذ ہوگا ‘ ذمہ داری انفرادی ہوگی اور اپنے اعمال کی بنیاد پر ہوگی اور ایسے حالات میں ہوگی کہ جہاں اللہ کے سوا کوئی ولی اور سفارش کرنے والا نہ ہوگا اور اگر کوئی ممکن حد تک زیادہ معاوضہ وتاوان دینا چاہے تو بھی قبول نہ ہوگا اور یوں وہ کسی صورت میں بھی گردن نہ چھڑا سکے گا ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو مذاق کا نشانہ بنایا اور دنیا کی چند روزہ حیات سے دھوکہ کھا گئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو گروی رکھ دیا اپنی بداعمالیوں کے ہاتھ ‘ اور اس وجہ سے ان پر وہ عذاب ثابت ہوگیا جس کا تذکرہ اس آیت میں ہوا اور ان کا انجام یہ قرار پایا ۔ (آیت) ” أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ أُبْسِلُواْ بِمَا کَسَبُواْ لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَعَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُواْ یَکْفُرُونَ (70) ” کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے ‘ ان کو تو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا “۔ گویا وہ اپنے افعال بد کی وجہ سے پکڑے گئے اور یہ ان کے لئے مناسب سزا تھی ‘ کیسی جزاء ؟ ایسا گرم پانی جو ان کے حلق اور پیٹ کو بھون ڈالے گا ۔ ان کے کفریہ اعمال کی وجہ سے یہ ان کے لئے ایک دردناک عذاب ہوگا اور یہ عذاب اس بات کی دلیل ہوگا کہ وہ دین کے ساتھ مذاق کرتے رہے ۔ تیسری بات اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا للہ کا سچا دین فی الحقیقت ان کا دین ہے ۔ (دینھم) سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین میں داخل ہوگئے ہیں اور داخل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے ۔ مدینہ طیبہ میں اس قسم کے لوگ موجود تھے اور عرف عام میں انہیں منافقین کہا جاتا تھا ۔ مدینہ طیبہ میں تو بات ایسی ہی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس آیت کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوگا مثلا مشرکین جو دین اسلام میں داخل نہیں ہوئے ۔ ہاں ان پر بھی ہوگا اس لئے کہ حقیقی دین ‘ دین اسلام ہی ہے ۔ یہ پوری بشریت کا دین ہے چاہے کوئی اس پر ایمان لائے یا نہ لائے ۔ اس لئے کہ جو شخص اس دین کا انکار کرتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ درحقیقت خود اپنے دین کو چھوڑتا ہے ۔ اس لئے کہ یہی تو دین ہے جو اللہ کے نزدیک دین ہے اور خاتم النبین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اللہ کی جانب سے صرف یہی دین مقبول ہے ۔ یہی مفہوم ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دین کی نسبت ان کی طرف کی ہے کہ یہ ان کا دین ہے ۔ (آیت) ” وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَہُمْ لَعِباً وَلَہْواً وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا (٦ : ٧٠) ” چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشابنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا ہوئے ہے ۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کی اس آیت میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے کہ دین اسلام تمام انسانوں کا دین ہے ۔ لہذا جو شخص دین اسلام کو کھیل اور تماشا بناتا ہے گویا وہ خود اپنے دین کے ساتھ مذاق کرتا ہے ۔ اگرچہ ایسا کرنے والا شخص مشرک ہو۔ چہارم یہ کہ ظالموں اور مشرکوں کی ہم نشینی کس قدر جائز ہے ؟ اور جو لوگ دین اسلام کو کھیل تماشا بناتے ہیں ان کے ساتھ مجالس کی حدود کیا ہیں ؟ یہ مجالست صرف وعظ ونصیحت کی خاطر جائز ہے اور اس کے سوا ایسے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق جائز نہیں ہے ۔ یعنی ایسے حالات میں جب وہ آیات الہی کے ساتھ مذاق کررہے ہیں اور نکتہ چینی کر رہے ہوں اور یہ نکتہ چینی اور مذاق مختلف انداز میں ہو سکتا ہے ۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر جامع الاحکام میں اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ” اس آیت میں بصراحت اس نظرئیے کی تردید آجاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ راہنمایان دین اور ان کے متبعین بطور تقیہ فاسقین کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرسکتے ہیں اور ان کی غلط آرا کی تصدیق بطور تقیہ کرسکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ فاسقین اور مفسدین کی مجالس میں وعظ وتذکیر کی مجالس میں وعظ وتذکیر کی خاطر بھی ان حدود وقیود کے ساتھ ہم بیٹھ سکتے ہی جن کا تذکرہ اس آیت میں ہوچکا ہے ۔ رہی یہ بات کہ فساق وفجار کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کی بری اور مفسدانہ باتوں پر سکوت اختیار کرنا اور بطور تقیہ ایسا کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تو کھلے طور پر باطل کا اقرار ہے اور حق کے خلاف شہادت ہے اور لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا ہے ۔ نیز اس طرز عمل میں دین کی بھی توہین ہے اور جو لوگ دین کا کام کرتے ہیں ان کی بھی توہین ہے ۔ لہذا ایسے حالات میں بیٹھنا منع ہوگا اور ایسی مجالس میں چھوڑنا فرض ہوگا ۔ امام قرطبی نے بعض دوسرے اقوال بھی نقل کئے ہیں :” ابن خویز مقداد کہتے ہیں کہ جو شخص آیات الہی کے بارے میں گستاخانہ کلام کرے اس کی مجلس سے فورا واک آوٹ کرنا چاہئے خواہ یہ شخص مومن ہو یا کافر ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ائمہ نے دشمن کی سرزمین میں جانے سے منع کیا ہے ۔ اسی طرح گرجوں اور مندروں میں جانے سے بھی منع کیا گیا ہے اور کفار اور بدعتیوں کے ساتھ ہم نشینی کی بھی ممانعت کی گئی ہے ۔ نیز یہ بات بھی منع ہے کہ کوئی ان سے محبت ودوستی کرے ‘ ان کی باتیں سنے اور ان کے ساتھ مناظرے کرے ۔ روایات میں آیا ہے کہ بعض بدعتی لوگوں کے ابو عمران نخعی سے کہا کہ میری بات سنو تو انہوں نے ان سے منہ پھیرلیا اور کہا میں تمہاری آدھی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں “۔ اسی قسم کی بات ایوب سختیانی سے بھی منقول ہے اور فضیل ابن عباس نے کہا ہے : جو شخص کسی صاحب بدعت کے ساتھ دوستی رکھے گا ‘ اس کے اعمال تباہ ہوجائیں گے اور یوں اس کے دل سے اسلام خارج ہوجائے گا ۔ جس شخص نے کسی مبتدع شخص کو رشتہ دیا تو اس نے قطع رحم کیا اور جو شخص بدعتی لوگوں کے ساتھ بیٹھے گا وہ دانشمندی سے محروم کردیا جائے گا ۔ اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ فلاں بندہ بدعتی کو بری نظروں سے دیکھتا ہے تو مجھے امید ہے کہ ایسے شخص کو اللہ بخش دے گا ۔ ابو عبداللہ حاکم نے حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص نے بدعتی کی عزت افزائی کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے کے کام میں معاونت کی “۔ یہ باتیں تو اس شخص کے بارے میں ہیں جو بدعتی ہو ‘ البتہ دین اسلام کا پیروکار ہو ‘ رہا وہ شخص جو اپنے لئے اللہ کی خصوصیات میں سے ایک صفت کا دعوی کرتا ہو ‘ مثلا صفت حاکمیت تو وہ بدعتی سے بھی بڑا مجرم ہے اور جو شخص ایسے شخص کو اس صفت کے ساتھ متصف کرتے ہیں وہ اس سے بھی بڑے مجرم ہیں ۔ یہ جرم محض ارتکاب بدعت جیسا جرم نہیں ہے بلکہ کفر اور شرک جیسا بڑا جرم ہے ۔ کسی شخص کو صفت حاکمیت سے متصف کرنا سلف صالحین کے دور میں نہ تھا ۔ اس لئے انہوں نے اس نکتے پر بحث نہیں کی ۔ تاریخ اسلام میں کسی وقت بھی کسی نے اپنے آپ کو اللہ کے بالمقابل حاکم نہیں سمجھا اور نہ حاکمیت خود یا حاکمیت عوام کا دعوی کیا ہے اور ساتھ ہی وہ مسلمان ہونے کا بھی مدعی ہو۔ شرق اوسط پر فرانسیسی حملے سے پہلے عالم اسلام میں اللہ کی حاکمیت کا نظام قائم تھا ۔ فرانسیسی حملے کے بعد ہی لوگ اللہ کی حاکمیت کے دائرے سے خارج ہوئے ہیں ۔ ہاں بعض لوگ ایسے تھے جو اس سے بچے رہے ۔ لہذا اقوال سلف میں سے ایسے اقوال کم ملتے ہیں جن کا انطباق ہم اس جدید صورت حالات پر کرسکیں اس لئے کہ یہ جدید صور حال ایسی ہے کہ اس میں مسلمان شرعی حدود کو دور پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔ درس نمبر ٦٤ ایک نظر میں : یہ لہر حقیقت الوہیت اور خصوصیات ذات کبریائی کے بیان میں ایک نہایت ہی موزوں زمزمہ ہے ۔ اس میں ایسے شخص کے بارے میں بڑی شدت کے ساتھ سمجھایا گیا ہے جو راہ ہدایت پانے کے بعد دوبارہ شرک کے اندھیروں میں داخل ہوجائے اور آگے بڑھنے کے بعد رجعت قہقہری اختیار کرلے یا دین اسلام کو ترک کرکے مرتد ہوجائے ۔ ایسے شخص کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے جیسے وہ ایک صحرا میں کھڑا ہے اور اسے اپنی منزل مقصود کی طرف جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ اس فیصلے اور قرار داد پر کہ ہدایت دی ہے جو اللہ کی راہنمائی پر مبنی ہو ‘ اس لہر کا میٹھا نغمہ اپنے طویل ترنم کے ساتھ اس بات پر ختم ہوجاتا ہے کہ تخلیق اور نظام حکومت (امر) کے بارے صرف اللہ وحدہ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ اس اختیار کلی کا اظہار اس وقت ہوگا جب نفخ صور کے دن مومن و کافر سب کو اپنی اپنی قبر سے اٹھایا جائے گا سب کے سب اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو اس وقت جس کا عقیدہ نہیں تھا وہ بھی یقین سے جان لے گا کہ اب تو تمام اختیارات اللہ وحدہ کے ہاتھ مین ہیں اور اب تمام معاملات اسی کی طرف لوٹ آئے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لہو و لعب والوں کو چھوڑ دیجیے جنہیں دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈالا : اس کے بعد فرمایا (وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَّ لَھْوًا) (الآیۃ) پہلی آیت میں اس بات کا ذکر تھا کہ جو لوگ آیات کا تمسخر و استہزاء کر رہے ہیں ان سے اعراض کرو اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ ان سے اعراض کرنا کوئی مجلسوں کی شرکت کرنے پر ہی منحصر نہیں ہے۔ بلکہ مستقل یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو (یعنی ترک کرنے اس دین اسلام کو جو ان کے لیے اللہ پاک نے بھیجا ہے) لہو و لعب بنا لیا ہے۔ ان کو چھوڑے رکھو ان کو دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ اسی کی لذتوں میں مشغول ہیں اور آخرت سے غافل ہیں لیکن اس اعراض اور ترک تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو تبلیغ نہ کی جائے۔ اس قرآن کے ذریعہ ان کو تبلیغ کرتے رہو۔ تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کی وجہ سے عذاب میں نہ پھنس جائے اور ہلاک نہ ہوجائے۔ دنیا میں جو لوگ ہدایت سے دور ہیں حق قبول نہیں کرتے آخرت میں ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست و سفارش کرنے والا نہ ہوگا۔ رسول کا کام تو دعوت دینا اور واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔ تاکہ اس کی دعوت قبول کر کے آخرت کی پکڑا اور عذاب سے محفوظ ہوجائیں لیکن اگر کوئی شخص اس ہدایت کو نہیں مانتا تو وہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ میدان قیامت میں نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا ہوگا۔ اور اس وقت جو لوگ عذاب کی مصیبت میں گرفتار ہوں گے وہ چاہیں گے کہ کچھ دے دلا کر چھوٹ جائیں اول تو وہاں فدیہ یعنی جان کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہوگا اور بالفرض ہو بھی اور ہر طرح کا عوض دے کر جان چھڑانا چاہے تو کوئی عوض اور بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِے الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) اور بھی کئی جگہ قرآن مجید میں اس مضمون کو بالتصریح بیان فرمایا ہے۔ پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا) (کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں پھنس گئے) (لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ) (ان کے لیے پینا ہے گرم پانی سے) جو بہت گرم ہوگا۔ سورة محمد میں فرمایا (وَ سُقُوْا مَآءً حَمِیْماً فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ھُمْ ) (اور کھولتا ہوا پانی ان کو پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا) ۔ فائدہ : مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کو ایسی مجلسوں اور محفلوں میں جانا اور شریک ہونا ممنوع ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یا کتاب اللہ کی یا دین خدا وندی کی یعنی اسلام کی تکذیب کی جاتی ہو یا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ جن ملکوں میں مسلمان رہتے اور بستے ہیں ان میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور دشمنان اسلام اپنی اسلام دشمنی میں دین اسلام کا مذاق اڑانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب اللہ کا تمسخر کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس کے لیے مجلسیں منعقد کرتے ہیں۔ ڈرامے تیار کرتے ہیں، مسلمانوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمان جہالت اور حماقت سے ان میں شریک ہوجاتے ہیں اور ملنساری سمجھ کر گوارا کرلیتے ہیں اسی طرح بعض دشمنان اسلام ایسے مضامین اور ایسی کتابیں شائع کردیتے ہیں جن میں اسلام اور قرآن کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے بےعلم سٹوڈنٹس ریسرچ وغیرہ کے عنوان سے ان کو پڑھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے اجتماعات میں شرکت اور ایسے رسائل کا پڑھنا حرام ہے۔ اپنے دین کا مذاق اپنے کانوں سے سننا یا اپنی آنکھوں سے ایسے رسائل پڑھنا نہایت بےغیرتی کی بات ہے اگر کہیں غلطی سے کسی ایسے اجتماع میں شرکت کرلی جس میں دین اسلام کی کسی بھی چیز کا استہزاء کیا جا رہا ہو تو علم ہوجانے پر اسی وقت وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں اور (فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ) پر عمل کریں۔ البتہ بعض ایسی صورتیں سامنے آجاتی ہیں کہ دشمنوں کی باتوں کا توڑ کرنا ضروری ہوتا ہے اور ان کو منہ توڑ جواب دینا لازم ہوتا ہے ایسی نیت سے وہاں پہنچنا جائز ہے مگر اسی شخص کے لیے جو ان کا جواب دے سکے۔ آج کل مصیبت یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو تو پڑھتے ہی نہیں۔ بیس بیس سال دنیاوی علوم کی ڈگریاں حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں لیکن اسلام کے عقائد اور ارکان سے اور قرآن و حدیث اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس لیے دشمن کے اعتراضوں کو پیتے چلے جاتے ہیں ان کے جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں۔ اور بعض تو ان کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات جگہ پکڑ لیتے ہیں اور جہالت کی وجہ سے احساس کمتری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دشمنوں کے اعتراض سنتے رہتے ہیں۔ اور کافروں پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کے لیے بالکل اختلاط اور میل ملاپ حرام ہے۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ اسلامیات کی ڈگری لینے مستشرقین کے پاس جاتے ہیں اور وہ ان کے سامنے اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اعتراضات ہی کا سبق دیتے ہیں اور انہوں نے جو کچھ پڑھایا ہے اس کے مطابق جواب ملنے سے ڈگری ملتی ہے پھر مسلمان طلباء آکر اپنی باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں جو دشمنان دین سے سیکھ کر آتے ہیں۔ ایسی یونیورسٹیوں میں داخل ہونا بالکل حرام ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73 یہ زجر ہے یعنی ان لوگوں کو چھوڑئیے جنہوں نے لہو ولعب کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔ مثلاً غیر اللہ کو پکارتے ہیں اور غیر اللہ کے لیے تحری میں کرتے ہیں ایسے لوگوں سے آپ تعلقات منقطع کرلیں۔ البتہ تذکیر وتبلیغ کرتے رہیں۔ (الثانی) اِتَّخَذُوْا ما ھو لعب و لھو من عبادۃ الاصنام وغیرھا دینا لھم (الثالث) ان الکفار کانوا یحکمون فی دین اللہ بمجرد التشھی والتمنی مثل تحریم السوائب والبحائر۔ فعبر اللہ تعالیٰ عنہم بانہم اتخذوا دینھم لعبا ولھو (کبیر ص 94 ج 4) جیسا کہ آج کل مشرک پیر سارنگی، و کڑا اور دوسرے ساز بجوا کر معرفت الٰہی حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 74 یہ تخویف اخروی ہے اَنْ تُبْسَلَ یہ ابسال سے مضارع مجہول ہے۔ ابسال کے معنی روکنے یا محروم کرنے کے ہیں۔ ان تبسل ای تحبس (روح) او تحرم الثواب (راغب) اَنْ سے پہلے لام اور اِنْ کے بعد لا مقدر ہے ای لئلا تبسل یا ان تبسل سے پہلے مضاف محذوف ہے ای مخافۃ ان تبسل او کراھۃ ان تبسل (روح) یعنی آپ ایسے لوگوں سے تعلقات معاشرت قطع کرلیں لیکن ان کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہیں شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں اور اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ثواب سے محروم ہو کر ہلاک نہ ہوجائیں کیونکہ جس نے دنیا میں حق کو قبول نہ کیا آخرت میں اس کے لیے جہنم کے سوا کچھ نہیں وہاں کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ہوگا۔ 75 عَدْلٌ کے معنی فِدْیَۃٌ کے ہیں۔ اگر بالفرض) کیونکہ واقعہ میں تو ایسا نہیں ہوسکے گا) کوئی مجرم شخص قیامت کے دن فدیہ دے کر عذاب سے بچنا چاہے گا تو اس سے فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنی بد عملی اور کفر وشرک کی وجہ سے ثواب اور اجر سے محروم ہوں گے اس لیے انہیں کفر و انکار کی وجہ سے آخرت میں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 اور اے مخاطب تو ایسے لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا اور لہو و لعب بنا رکھا ہے یعنی ان کا دین ہی یہ ہے کہ امر حق کا مذاقاڑائیں اور اپنی تفریح کا مشعلہ بنائیں اور ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے یعنی دنیوی زندگی کو اصلی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں اور اس کے بعد دوسری زندگی پر ایمان نہیں رکھتے ایسے لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دے مگر ہاں ان کو اس قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتا رہ اور حتی الامکان ان کو سمجھاتا رہ تاکہ کوئی شخص اپنے کردار اور اپنی کمائی اور اپنے اعمال کے باعث ہلاکت و تباہی میں نہ پھنس جائے اور اس طرح ہلاکت کا تابع اور فرمانبردار نہ بن جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا نہ کوئی حمایتی ہو اور نہ اس کے لئے کوء سفارش کرنے والا ہو اور اس کی یہ حالت ہوجائے کہ اگر وہ ہر چیز اپنے فدیہ میں دے کر عذاب اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے رہائی حاصل کرنا چاہے تب بھی اس کی جانب سے کوئی فدیہ اور کو ئیم عاوضہ قبول نہ کیا جائے یعنی فی الجملہ قرآنی نصیحت اور تذکیر کچھ نہ کچھ مفید ہی ہوگی اگر نصیحت سے بھی محروم ہوجائیں گے تو بالکل ہی ہلاکت کے تابع فرمان ہوجائیں گے اور پھر یہ صورت پیش آئے گی کہ نہ کوئی حمایتی نہ کوئی سفارشی ہوگا اور نہ ہی کوئی معاوضہ اور فدیہ قبول کیا جائے گا یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال اور اپنی کمائی کے باعث ہلاکت میں پڑگئے ایسے لوگوں کے لئے سخت کھولتا ہوا پانی پینے کو ہوگا اور ان لوگں کو اس کفر کے بدلے جس کے وہ مرتکب ہوا کرتے تھے درد ناک عذاب ہوگا یعنی ایسے لوگوں کے لئی اس کفر و انکار کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور انواع و اقسام کا درد ناک عذاب ہوگا۔