Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 71

سورة الأنعام

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسۡتَہۡوَتۡہُ الشَّیٰطِیۡنُ فِی الۡاَرۡضِ حَیۡرَانَ ۪ لَہٗۤ اَصۡحٰبٌ یَّدۡعُوۡنَہٗۤ اِلَی الۡہُدَی ائۡتِنَا ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ اُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۷۱﴾

Say, "Shall we invoke instead of Allah that which neither benefits us nor harms us and be turned back on our heels after Allah has guided us? [We would then be] like one whom the devils enticed [to wander] upon the earth confused, [while] he has companions inviting him to guidance, [calling], 'Come to us.' " Say, "Indeed, the guidance of Allah is the [only] guidance; and we have been commanded to submit to the Lord of the worlds.

آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم اللہ تعالٰی کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے اور کیا ہم الٹے پھر جائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالٰی نے ہدایت کر دی ہے ، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں جنگل میں بے راہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے کچھ ساتھی بھی ہوں کہ وہ اس کو ہمارے پاس ٹھیک راستہ کی طرف بلارہے ہوں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of Those Who Revert to Disbelief After Faith and Good Deeds As-Suddi said, "Some idolators said to some Muslims, `Follow us and abandon the religion of Muhammad.' Allah sent down the revelation, قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا ... Say: "Shall we invoke others besides Allah, that can do us neither good nor harm, and shall we turn on our heels..." by reverting to disbelief, ... بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللّهُ ... "...after Allah has guided us." for if we do this, our example will be like he whom the devils have caused to wander in confusion throughout the land. Allah says here, your example, if you revert to disbelief after you believed, is that of a man who went with some people on a road, but he lost his way and the devils led him to wander in confusion over the land. Meanwhile, his companions on the road were calling him to come to them saying, `Come back to us, for we are on the path.' But, he refused to go back to them. This is the example of he who follows the devil after recognizing Muhammad, and Muhammad is the person who is calling the people to the path, and the path is Islam." Ibn Jarir recorded this statement. Allah's statement, ... كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الاَرْضِ حَيْرَانَ ... Like one whom the Shayatin (devils) have made to go astray confused (wandering) through the land, refers to ghouls, ... لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ايْتِنَا ... his companions calling him to guidance (saying): `Come to us."' (calling him) by his name, his father's and his grandfather's names. So he follows the devils' call thinking that it is a path of guidance, but by the morning he will find himself destroyed and perhaps they eat him. The Jinns will then let him wander in a wasteland where he will die of thirst. This is the example of those who follow the false gods that are being worshipped instead of Allah, Most Honored. Ibn Jarir also recorded this. Allah said, ... قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَىَ ... Say: "Verily, Allah's guidance is the only guidance," Allah said in other instances, وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ And whomsoever Allah guides, for him there will be none to misguide him. (39:37) and, إِن تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِى مَن يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّن نَّـصِرِينَ If you covet for their guidance, then verily Allah guides not those whom He makes to go astray. And they will have no helpers. (17:37) Allah's statement, ... وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ and we have been commanded to submit to the Lord of all that exists. means, we were commanded to worship Allah in sincerity to Him alone, without partners.

اسلام کے سوا سب راستوں کی منزل جہنم ہے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں آ جاؤ اور اسلام چھوڑ دو اس پر یہ آیت اتری کہ کیا ہم بھی تمہاری طرح بےجان و بےنفع و نقصان معبودوں کو پوجنے لگیں ؟ اور جس کفر سے ہٹ گئے ہیں کیا پھر لوٹ کر اسی پر آ جائیں؟ اور تم جیسے ہی ہو جائیں؟ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب تو ہماری آنکھیں کھل گئیں صحیح راہ مل گئی اب اسے کیسے چھوڑ دیں؟ اگر ہم ایسا کرلیں تو ہماری مثال اس شخص جیسی ہو گی جو لوگوں کے ساتھ سیدھے راستے پر جا رہا تھا مگر راستہ گم ہو گیا شیطان نے اسے پریسان کر دیا اور ادھر ادھر بھٹکانے لگا اس کے ساتھ جو راستے پر تھے وہ اسے پکارنے لگے کہ ہمارے ساتھ مل جا ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں یہی مثال اس شخص کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جان اور پہچان کے بعد مشرکوں کا ساتھ دے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پکارنے والے ہیں اور اسلام ہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں یہ مثال اللہ تعالیٰ نے معبودان باطل کی طرف بلانے والوں کی بیان فرمائی ہے اور ان کی بھی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، ایک شخص راستہ بھولتا ہے وہیں اس کے کان میں آواز آتی ہے کہ اے فلاں ادھر آ سیدھی راہ یہی ہے لیکن اس کے ساتھی جس غلط راستے پر لگ گئے ہیں وہ اسے تھپکتے ہیں اور کہتے ہیں یہی راستہ صحیح ہے اسی پر چلا چل ۔ اب اگر یہ سچے شخص کو مانے گا تو راہ راست لگ جائے گا ورنہ بھٹکتا پھرے گا ۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے اس امید میں ہوتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں لیکن مرنے کے بعد انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ تھے اس وقت بہت نادم ہوتے ہیں اور سوائے ہلاکت کے کوئی چیز انہیں دکھائی نہیں دیتی ، یعنی جس طرح کسی جنگ میں گم شدہ انسان کو جنات اس کا نام لے کر آوازیں دے کر اسے اور غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے اسی طرح جھوت معبودوں کا پجاری بھی برباد ہو جاتا ہے ، ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والے کی یہی مثال ہے جس راہ کی طرف شیطان اسے بلا رہے ہیں وہ تو تباہی اور بربادی کی راہ ہے اور جس راہ کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور اس کے نیک بندے جس راہ کو سجھا رہے ہیں وہ ہدایت ہے گو وہ اپنے ساتھیوں کے مجمع میں سے نہ نکلے اور انہیں ہی راہ راست پر سمجھتا رہے اور وہ ساتھی بھی اپنے تئیں ہدایت یافتہ کہتے رہیں ۔ لیکن یہ قول آیت کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ آیت میں موجد ہے کہ وہ اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ضلالت ہو ؟ حیران پر زبر حال ہونے کی وجہ سے ہے صحیح مطلب یہی ہے کہ اس کے ساتھی جو ہدایت پر ہیں اب اسے غلط راہ پر دیکھتے ہیں تو اس کی خیر خواہی کے لئے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جا سیدھا راستہ یہی ہے لیکن یہ بد نصیب ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ توجہ تک نہیں کرتا ، سچ تو یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے ، وہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ تو چاہے ان کی ہدایت پر حرص کرے لیکن جسے اللہ بھٹکا دے اسے وہی راہ پر لا سکتا ہے ایسوں کا کوئی مددگار نہیں ، ہم سب کو یہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم خلوص سے ساری عبادتیں محض اسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے کریں اور یہ بھی حکم ہے کہ نمازیں قائم رکھیں اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہیں قیامت کے دن اسی کے سامنے حشر کیا جائے گا سب وہیں جمع کئے جائیں گے ، اسی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہی مالک اور مدبر ہے قیامت کے دن فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ایک لمحہ بھی دیر نہ لگے گی یوم کا زبر یا تو وانقوہ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اس دن سے ڈرو جس دن اللہ فرمائے گا ہو اور ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوم کا زبر خلق السموات والارض پر عطف ہونے کی بنا پر ہو تو گویا ابتدا پیدائش کو بیان فرما کر پھر دوبارہ پیدائش کو بیان فرمایا یہی زیادہ مناسب ہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فعل مضمر ہو یعنی اذکر اور اس وجہ سے یوم پر زبر آیا ہو ، اس کے بعد کے دونوں جملے محلاً مجرور ہیں ، پس یہ دونوں جملے بھی محلاً مجرور ہیں ۔ ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ کا قول حق ہے رب کے فرمان سب کے سب سچ ہیں ، تمام ملک کا وہی اکیلا مالک ہے ، سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں یوم ینفخ میں یوم ممکن ہے کہ یوم یقول کا بدل ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ولہ الملک کا ظرف ہو جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40 ۔ غافر:16 ) آج کس کا ملک ہے؟ صرف اللہ اکیلے غالب کا اور جیسے اس آیت میں ارشاد ہوا ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:26 ) یعنی ملک آج صرف رحمان کا ہے اور آج کا دن کفار پر بہت سخت ہے اور بھی اس طرح کی اور اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں بعض کہتے ہیں صور جمع ہے صورۃ کی جیسے سورہ شہر پناہ کو کہتے ہیں اور وہ جمع ہے سورۃ کی لیکن صحیح یہ ہے کہ مراد صور سے قرن ہے جسے حضرت اسرافیل پھونکین گے ، امام بن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں حضور کا ارشاد ہے کہ حضرت اسرافیل صور کو اپنے منہ میں لئے ہوئے اپنی پیشانی جھکائے ہوئے حکم الٰہی کے منتظر ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صہابی کے سوال پر حضور نے فرمایا صور ایک نر سنگھے جیسا ہے جو پھونکا جائے گا ، طبرانی کی مطولات میں ہے حضور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے بعدصور کو پیدا کیا اور اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے لئے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ کب حکم ہو اور میں اسے پھونک دوں ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک نرسنگھا ہے میں نے کہا وہ کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا بہت ہی بڑا ہے والالہ اس کے دائرے کی چوڑائی آسمان وہ زمین کے برابر ہے اس میں سے تین نفحے پھونکے جائیں گے ، پہلا گھبراہٹ کا دوسرا بیہوشی کا تیسرا رب العلمیں کے سامنے کھڑے ہونے کا ۔ اول اول جناب باری حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہ پھونک دیں گے جس سے آسمان و زمین کی تمام مخلوق گھبرا اٹھے گی مگر جسے اللہ چاہے یہ صور بحکم رب دیر تک برابر پھونکا جائے گا اسی طرف اشارہ اس آیت میں ہے و ما ینظر ھو لاء الا صبیحتہ واہدۃ مالھا من فوق یعنی انہیں صرف بلند زور دار چیخ کا انتظار ہے پہاڑ اس صور سے مثل بادلوں کے چلنے پھرنے لگیں گے پھر ریت ریت ہو جائیں گے زمین میں بھونچال آ جائے گا اور وہ اس طرح تھر تھرانے لگے گی جیسے کوئی کشتی دریا کے بیچ زبردست طوفان میں موجوں سے ادھر ادھر ہو رہی ہو اور غوطے کھا رہی ہو ۔ مثل اس ہانڈی کے جو عرش میں لٹکی ہوئی ہے جسے ہوائیں ہلا جلا رہی ہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے یوم ترجف الراجفتہ الخ ، اس دن زمین جنبش میں آ جائے گی اور بہت ہی ہلنے لگے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ جائے گی دل دھرکنے لگیں گے اور کلیجے الٹنے لگیں گے لوگ ادھر ادھر گرنے لگیں گے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی ، حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے بجے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے بھاگتے بھاگتے زمین کے کناروں پر آ جائیں گے ، یہاں سے فرشتے انہیں مار مار کر ہٹائیں گے ، لوگ پریسان حال حواس باختہ ہوں گے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئے گی امر الٰہی سے بچاؤ نہ ہو سکے گا ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے لیکن سب اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ ناگہاں زمین پھتنی شروع ہو گی کہیں ادھر سے پھٹی کہیں ادھر سے پھتی اب تو ابتر حالت ہو جائے گی کلیجہ کپکپانے لگے گا دل الٹ جائے گا اور اتنا صدرمہ اور غم ہو گا جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ، جو آسمان کی طرف نظر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ گھل رہا ہے اور وہ بھی پھٹ رہا ہے ستارے جھڑ رہے ہیں سورج چاند بےنور ہو گیا ہے ، ہاں مردوں کو اس کا کچھ علم نہ ہو گا حضرت ابو ہریرہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا ، اسی کا بیان آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ) 4 ۔ النسآء:1 ) میں ہے یعنی اے لوگو اپنے رب سے ڈرویاد رکھو قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر ایک دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا تو دیکھا جائے گا کہ سب لوگ بیہوش ہوں گے حالانکہ وہ نشہ پئے ہوئے نہیں بلکہ اللہ کے سخت عذابوں نے انہیں بدحواس کر رکھا ہے یہی حالت رہے گی جب تک اللہ چاہے بہت دیر تک یہی گھبراہٹ کا عالم رہے گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت جبرائیل کو بیہوشی کے نفحے کا حکم دے گا اس نفحہ کے پھونکتے ہی زمین و آسمان کی تمام مخلوق بیہوش ہو جائیں گی مگر جسے اللہ چاہے اور اچانک سب کے سب مر جائیں گے ۔ حضرت ملک الموت اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ زمین آسمان کی تمام مخلوق مر گئی مگر جسے تو نے چاہا ، اللہ تعالیٰ باوجود علم کے سوال کرے گا کہ یہ بتاؤ اب باقی کون کون ہے؟ وہ جواب دین گے تو باقی ہے تو حی و قیوم ہے تجھ پر کبھی فنا نہیں اور عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور جبرائیل و میکائیل اس وقت عرش کو زبان ملے گی اور وہ کہے گا اے پروردگار کیا جبرئل وہ میکائل بھی مریں گے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنے عرش سے نیچے والوں پر سب پر موت لکھ دی ہے چنانچہ یہ دونوں بھی فوت ہو جائیں گے پھر ملک الموت رب جبار و قہار کے پاس آئیں گے اور خبر دیں گے کہ جبرائیل و میکائیل بھی انتقال کر گئے ۔ جناب اللہ علم کے باوجودہ پھر دریافت فرمائے گا کہ اب باقی کون ہے؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ باقی ایک تو تو ہے ایسی بقا ولا جس پر فنا ہے ہی نہیں اور تیرے عرش کے اٹھانے والے اللہ فرمائے گا عرش کے اٹھانے والے بھی مر جائیں گے اس وقت وہ بھی مر جائیں گے ، پھر اللہ کے حکم سے حضرت اسرافیل سے صور کو عرش لے لے گا ، ملک الموت حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ یا اللہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے بھی مر گئے اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اب باقی کون رہا ؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ ایک تو جس پر موت ہے ہی نہیں اور ایک تیرا غلام میں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تو بھی میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تجھے میں نے ایک کام کیلئے پیدا کیا تھا جسے تو کر چکا اب تو بھی مرجا چنانچہ وہ بھی مر جائیں گے ۔ اب اللہ تعالیٰ اکیلا باقی رہ جائے گا جو غلبہ والا یگانگت والا بےماں باپ اور بے اولاد کے ہے ۔ جس طرح مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے وہ یکتا اور اکیلا تھا ۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کو وہ اس طرح لپیٹ لے گا جیسے دفتری کاغذ کو لپیٹتا ہے پھر انہیں تین مرتبہ الٹ پلٹ کرے گا اور فرمائے گا میں جبار ہوں میں کبریائی والا وہں ۔ پھر تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کا مالک کون ہے؟ کوئی نہ ہو گا جو جواب دے تو خود ہی جواب دے گا اللہ واحد وقہار ۔ قران میں ہے اس دن آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھیلا دے گا اور کھینچ دے گا جس طرح چمڑا کھینچا جاتا ہے کہیں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے گی ، پھر ایک الٰہی آواز کے ساتھ ہی ساری مخلوق اس تبدیل شدہ زمین میں آ جائے گی اندر والے اندر اور اوپر ولے اوپر پھر اللہ تعالیٰ اپین عرش تلے سے اس پر بارش برسائے گا پھر آسمان کو حکم ہو گا اور وہ چالیس دن تک مینہ برسائے گا یہاں تک کہ پانی ان کے اوپر بارہ ہاتھ چڑھ جائے گا ، پھر جسموں کو حکم ہو گا کہ وہ اگیں اور وہ اس طرح اگنے لگیں گے جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور وہ پورے پورے کامل جسم جیسے تھے ویسے ہی ہو جائیں گے پھر حکم فرمائے گا کہ میرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جی اٹھیں چنانچہ وہ زندہ ہو جائیں گے پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ صور لے کر منہ سے لگالیں ۔ پھر فرمان ہو گا کہ جبرائیل و میکائیل زندہ ہو جائیں یہ دونوں بھی اٹھیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائے گا مومنوں کو نورانی ارواح اور کفار کی ظلماتی روحیں آئیں گی انہیں لے کر اللہ تعالیٰ صور میں ڈال دے گا ، پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ اب صور پھونک دو چنانچہ بعث کا صور پھونکا جائے گا جس سے ارواہ اس طرح نکلین گی جیسے شہید کی مکھیاں ۔ تمام خلا ان سے بھر جائے گا پھر رب عالم کا ارشاد ہو گا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اکی قسم ہے ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے ، چنانجہ سب روحیں اپنے اپنے جسموں میں نتھنوں کے راستے چلی جائیں گی اور جس طرح زہر رگ وپے میں اثر کر جاتا ہے روہ روئیں روئیں میں دوڑ جائے گی ، پھر زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے ، سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین شق ہو گی ، لوگ نکل کر دوڑ تے ہوئے اپنے رب کی طرف چل دیں گے ، اس وقت کافر کہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری ہے ، سب ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ ہوں گے ایک میدان میں بقدر ستر سال کے کھڑے گہیں گے ، نہ ان کی طرف نگاہ اٹھائی جائے گی نہ ان کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے ، لوگ بےطرح گریہ وزاری میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے اور خون آنکھوں سے نکلنے لگے گا ، پسینہ اس قدر آئے گا کہ منہ تک یا ٹھوریوں تک اس میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ، آپس میں کہیں گے آؤ کسی سے کہیں کہ وہ ہماری شفاعت کرے ، ہمارے پروردگار سے عرض کرے کہ وہ آئے اور ہمارے فیصلے کرے تو کہیں گے کہ اس کے لائق ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر کون ہو گا ؟ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے ان سے باتین کیں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پا سجأایں گے اور سفاش طلب کریں گے لیکن حضرت آدم علیہ السلام صاف انکار کر جائیں گے اور فرمائیں گے مجھ میں اتنی قابلیت نہیں پھر وہ اسی طرح ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے اور سب انکار کر دین گے ۔ حضور فرماتے ہیں پھر سب کے سب یرے پاس آئیں گے ، میں عرش کے آگے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا ، اللہ تعالیٰ میرے پاس فرشتہ بھیجے گا وہ میرا بازو تھام کر مجھے سجدے سے اٹھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جواب دوں گا کہ ہاں اے میرے رب ، اللہ عزوجل باو وجد عالم کل ہونے کے مجھے سے دریافت فرمائے گا کہ کیا بات ہے؟ میں کہوں گا یا اللہ توے مجھ سے شفاعت کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اپنی مخلوق کے بارے میں میری شفاعت کو قبول فرما اور ان کے فیصلوں کے لئے تشریف لے آ ۔ رب العالمیں فرمائے گا میں نے تیری سفارش قبول کی اور میں آ کر تم میں فیصلے کئے دیتا ہوں ۔ میں لوٹ کر لوگوں کے ساتھ ٹھہر جاؤں گا کہ ناگہاں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھماکہ سنائی دے گا جس سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے اتنے میں آسمان کے فرشتے اترنے شروع ہوں گے جن کی تعداد کل انسانوں اور سارے جنوں کے برابر ہو گی ۔ جب وہ زمین کے قریب پہنچیں گے تو ان کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی وہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے ہم سب ان سے دریافت کریں گے کہ کیا تم میں ہمارا رب آیا ہے ؟ وہ جواب دیں گے نہیں پھر اس تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اور فرشتے آئیں گے ۔ آخر ہمارا رب عزوجل ابر کے سائے میں نزول فرمائے گا اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اس کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس وقت عرش کے اٹھانے والے جار فرشتے ہیں ان کے قدم آخری نیچے والی زمین کی تہ میں ہیں زمین و آسمان ان کے نصف جسم کے مقابلے میں ہے ان کے کندھوں پر عرش الٰہی ہے ۔ ان کی زبانین ہر وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی کے بیان میں تر ہیں ۔ ان کی تسبیح یہ ہے سبحان ذی العرش والجبروت سبحان ذی الملک والملکوت سبحان الحی الذی لا یموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت سبوح قدوس قدوس قدوس سبہان ربنا الاعلی رب الملا ئکتہ والروہ سبحان ربنا الا علی الذی یمیت الخلائق ولا یموت پھر اللہ جس جگہ چاہے گا پانی کرسی زمین پر رکھے گا اور بلند آواز سے فرمائے گا اے جنو اور انسانو میں نے تمہیں جس دن سے پیدا کیا تھا اس دن سے آج تک میں خاموش رہا تمہاری باتیں سنتا رہا تمہارے اعمال دیکھتا رہا سنو تمہارے اعمال نامے میرے سامنے پڑھے جائیں گے جو اس میں بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس میں اور کچھ پائے وہ اپنی جان کو ملامت کرے ، پھر بحکم الہ جہنم میں سے ایک دیھکتی ہوئی گردن نکلے گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کی اوالد کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجانہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اور صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے ، شیطان نے تو بہت سی مخلوق کو گومراہ کر دیا ہے کیا تمہیں عقل نہیں؟ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے اور جسے تم جھٹلاتے رہے اے گنہگارو ! آج تم نیک بندوں سے الگ ہو جاؤ ، اس فرمان کے ساتھ ہی بد لوگ نیکوں سے الگ ہو جائیں گے تمام امتیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گی جیسے قران کریم میں ہے کہ تو ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھے گا ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں فیصلے کرے گا پہلے جانوروں میں فیصلے ہوں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا ، جب کسی کا کسی کے ذمہ کوئی دعوی باقی نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا تم سب مٹی ہو جاؤ ، اس فرمان کے ساتھ ہی تمام جانور مٹی بن جائیں گے ، اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے شروع کرے گا سب سے پہلے قتل و خون کا فیصلہ ہو گا ، اللہ تعالیٰ اپنی راہ کے شہیدوں کو بھی بلائے گا ان کے ہاتھوں سے قتل شدہ لوگ اپنا سر اٹھائے ہوئے حاضر ہوں گے رگوں سے خون بہ رہا ہو گا کہیں گے کہ باری تعالیٰ دریافت فرما کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ پس باوجود علم کے اللہ عزوجل مجاہدین سے پوچھے گا کہ تم نے انہیں کیوں قتل کیا ؟ وہ جواب دیں گے اس لئے کہ تیری بات بلند ہو اور تیری عزت ہو اللہ عالی فرمائے گا تم سجے ہو اسی وقت ان کا چہرہ نورانی ہو جائے گا سورج کی طرح چمکنے لگے گا اور فرشتے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے کر جنت کی طرف چلیں گے پھر باقی کے اور تمام قاتل و مقتول اسی طرح پیش ہوں گے اور جو نفس ظلم سے قتل کیا گیا ہے اس کا بدلہ ظالم قاتل سے دلوایا جائے گا اسی طرح ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا یہاں تک کہ جو شخص دودھ میں پانی ملا کر بیچتا تھا اسے فرمایا جائے گا کہ اپنے دودھ سے پانی جدا کر دے ، ان فیصلوں کے بع دایک منادی باآواز بلند ندا کرے گا جسے سب سنیں گے ، ہر عابد اپنے معبود کے پیچھے ہولے اور اللہ کے سوا جس نے کسی اور کی عبادت کی ہے وہ جہنم میں چل دے ، سنو اگر یہ سچے معبود ہوتے تو جہنم میں واردنہ ہوتے یہ سب تو جہنم میں ہی ہمیشہ رہیں گے اب صرف با ایمان لوگ باقی رہیں گے ان میں منافقین بھی شامل ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے پاس جس ہیئت میں چاہے تشریف لائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ سب اپنے معبودوں کے پیچھے چلے گئے تم بھی جس کی عباد کرتے تھے اس کے پاس چلے جاؤ ۔ یہ جواب دیں گے کہ واللہ ہمارا تو کوئی معبود نہیں بجزالہ العالمیں کے ۔ ہم نے کسی اور کی عبادت نہیں کی ۔ اب ان کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کی تجلیاں ان پر ڈالے گا جس سے یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے لیکن منافق سجدہ نہیں کر سکیں گے یہ اوندھے اور الٹے ہو جائیں گے اور اپنی کمر کے بل گر پڑیں گے ۔ ان کی پیٹھ سیدھی کر دی جائے گی مڑ نہیں سکیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو سجدے سے اٹھنے کا حکم دے گا اور جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہو گی اور جگہ جگہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے بڑی پھسلنی اور خطرانک ہو گی ایماندار تو اس پر سے اتنی سی دیر میں گذر جائیں گے جتنی دیر میں کوئی آنکھ بند کر کے کھول دے جس طرح بجلی گذرجاتی ہے اور جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے ۔ یا جیسے تیز روگھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں یا خوب بھاگنے والے آدمی ہوتے ہیں بعض صحیح سالم گذر جائیں گے بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے بعض کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے جتنی لوگ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے کون ہمارے رب سے ہماری سفارش کرے کہ ہم جنت میں چلے جائیں؟ دوسرے لوگ جواب دیں گے اس کے حقدار تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ اور کون ہوں گے؟ جنہیں رب ذوالکریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے باتیں کیں پس سب لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے سفارش کرانی جاہیں گے لیکن اپنا گناہ یاد کر کے جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، لوگ حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور یہی کہیں گے آپ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی جواب دیں گے اور حضرت موسیٰ کے پاس جانے کی ہدایت کریں گے کہ اللہ نے انہیں سرگوشیاں کرتے ہوئے نزدیک کیا تھا وہ کلیم اللہ ہیں ان پر توراۃ نازل فرمائی گئی تھی لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے طلب سفارش کریں گے آپ بھی اپنے گناہ کا ذکر کریں گے اور روح اللہ اور کلمتہ اللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے پاس بھیجیں گے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے میں اس قابل نہیں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ حضور فرماتے ہیں پس سب لوگ میرے پاس آئیں گے ، میں اللہ کے سامنے تین شفاعتیں کروں گا میں جاؤں گا جنت کے پاس پہنچ کر دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا مجھے مرحبا کہا جائے گا اور خوش آمدید کہا جائے گا میں جنت میں جا کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑوں گا اور وہ وہ حمد و ثنا جناب باری کی بیان کروں گا جو کسی نے نہ کی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو قبول کی جائے گی مانگو ملے گا میں سر اٹھاؤں گا اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تاہم وہ دریافت فرمائے گا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں کہوں گا اے اللہ تو نے میری شفاعت کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ میری شفاعت ان جنتیوں کے بارے میں قبول فرمائے گا اور انہیں جنت کے داخلے کی اجازت ہو جائے گی ۔ واللہ جیسے تم اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے آگاہ ہو اس سے بہت زیادہ یہ جنتی اپنی جگہ اور اپنی بیویوں سے واقف ہوں گے ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جائے گا ستر ستر حوریں اور دو دو عورتیں ملیں گی ، یہ دونوں عورتیں اپنی کی ہوئی نیکیوں کے سبب پر فضیلت چہروں کی مالک ہوں گی جتنی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا جو یاقوت کے بالا خانے میں سونے کے جڑاؤ تخت پر ستر ریشمی حلے پہنے ہوئے ہو گی اس کا جسم اس قدر نورانی ہو گا کہ ایک طرف اگر جنتی اپنا ہاتھ رکھے تو دوسری طرف سے نظر آئے گا اس کی صفائی کی وجہ سے اس کی پنڈلی کا گودا گوشت پوست میں نظر آ رہا ہو گا اس کا دل اس کا آئینہ ہو گا نہ یہ اس سے بس کرے نہ وہ اس سے اکتائے ، جب کبھی اس کے پاس جائے گا باکرہ پائے گا ، نہ یہ تھکے نہ اسے تکلیف ہو ، نہ کوئی مکرو چیز ہو ، یہ اپنی اسی مشغولی میں مزے میں اور لطف و راحت میں اللہ جانے کتنی مدت گزار دے گا جو ایک آواز آئے گی کہ مانا نہ تمہارا دل اس سے بھرتا ہے نہ ان کا دل تم سے بھرے گا ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے اور بیویاں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔ اب یہ اوروں کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا بےساختہ زبان سے یہی نکلے گا اللہ کی قسم کی سازی جنت میں تم سے بہتر کوئی چیز نہیں مجھے تو جنت کی تمام چیزوں سے زیادہ تم سے محبت ہے ، ہاں جنہیں ان کی بد عملیوں اور گناہوں نے تباہ کر رکھا ہے وہ جہنم میں جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے مطابق آگ میں جلیں گے ، بعض قدموں تک بعض آدھی پنڈلی تک بعض گھٹنے تک بعض آدھے بدن تک بعض گردن تک ، صرف چہرہ باقی رہ جائے گا کیونکہ صورت کا بگاڑنا اللہ نے آگ پر حرام کر دیا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گنہگار دوزخیوں کی شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جنہیں پہچانو انہیں نکال لاؤ ، پھر یہ لوگ جہنم سے آزاد ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا پھر تو شفاعت کی عام اجازت مل جائے گی کل انبیاء اور شہداء شفاعت کریں گے ، جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ جس کے دل میں ایک دینار برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لاؤ ، پس یہ لوگ بھی آزاد ہوں گے اور ان میں سے بھی کوئی باقی نہ رہے گا ، پھر فرمائے گا انہیں بھی نکال لاؤ جس کے دل میں دو ثلث دینار کے برابر ایمان ہو ، پھر فرمائے گا ایک ثلث والوں کو بھی ، پھر ارشاد ہو گا چوتھائی دینار کے برابر والوں کو بھی ، پھر فرمائے گا ایک قیراط کے برابر والوں کو بھی ، پھر ارشاد ہو گا انہیں بھی جہنم سے نکال لاؤ جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، پس یہ سب بھی نکل آئیں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچے گا ، بلکہ جہنم میں ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے گا جس نے خلوص کے ساتھ کوئی نیکی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے ماتحت کی ہو ، جتنے شفیع ہوں گے سب سفارش کرلیں گے یہاں تک کہ ابلیس کو بھی امید بندھ جائے گی اور وہ بھی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید کوئی میری بھی شفاعت کرے کیونکہ وہ اللہ کی رحمت کا جوش دیکھ رہا ہو گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین فرمائے گا کہ اب تو صرف میں ہی باقی رہ گیا اور میں تو سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہوں ، پس اپنا ہاتھ ڈال کر خود اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم میں سے لوگوں کو نکالے گا جن کی تعداد سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا وہ جلتے جھلستے ہوئے کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے ، انہیں نہر حیوان میں ڈالا جائے گا جہاں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح دانہ اگتا ہے جو کسی دریا کے کنارے بویا گیا ہو کہ اس کا دھوپ کا رخ تو سبز رہتا ہے اور سائے کا رخ زرد رہتا ہے ان کی گردنوں پر تحریر ہو گا کہ یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں ، اس تحریر سے انہیں دوسرے جنتی پہچان لیں گے ۔ ایک مدت تک تو یونہی رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ حروف بھی مٹ جائیں اللہ عزوجل یہ بھی مٹا دے گا یہ حدیث اور آگے بھی ہے اور بہت ہی غریب ہے اور اس کے بعض حصوں کے شواہد متفرق احادیث میں ملتے ہیں ، اس کے بعض الفاظ منکر ہیں ۔ اسماعیل بن رافع قاضی اہل مدینہ اس کی روایت کے ساتھ منفرد ہیں ان کو بعض محدثین نے تو ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہا ہے اور ان کی حدیث کی نسبت کئی ایک محدثین نے منکر ہونے کی صراحت کی ہے ، جیسے امام احمد امام ابو حاتم امام عمرو بن علی ، بعض نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ متروک ہیں ، امام ابن عدی فرماتے ہیں ان کی سب احادیث میں نظر ہے مگر ان کی حدیثیں ضعیف احادیث میں لکھنے کے قابل ہیں ، میں نے اس حدیث کی سندوں میں نے جو اختلاف کئی وجوہ سے ہے اسے علیحدہ ایک جزو میں بیان کر دیا ہے اس میں شک نہیں کہ اس کا بیان بہت ہی غریب ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سی احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنا لی ہے اسی وجہ سے اسے منکر کہا گیا ہے ، میں نے اپنے استاد حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا ہے کہ انہوں نے امام ولید بن مسلم کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں ان باتوں کے جو اس حدیث میں ہی ہیں شواہد بیان کئے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔ 71۔ 2 مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقینا اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا۔ (فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ) 16 ۔ النحل :37) جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] الٰہ محتاج نہیں ہوسکتا :۔ اس آیت میں ایک بڑی حقیقت بیان کی جا رہی ہے جو یہ ہے کہ حقیقی معبود وہ ہستی ہوسکتی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے اور ان کی مشکلات کو دور کرسکے۔ لیکن اپنی زندگی اور اس کی بقا کے لیے دوسروں کی محتاج نہ ہو۔ اس معیار پر اگر پرکھا جائے تو تمام معبودان باطل خواہ وہ زندہ شخصیتیں ہوں یا فوت شدہ ہوں، دیویاں ہوں یا دیوتا، پتھر ہوں یا شجر ہوں یا کوئی اور جاندار چیز ہو سب کی از خود نفی ہوجاتی ہے۔ جن، بتوں، پتھروں اور درختوں اور جانداروں کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ جن انبیاء یا بزرگوں کو یا اماموں کو یہ منصب عطا کیا جاتا ہے آپ دیکھئے کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکل وقت آیا تھا ؟ اور اگر آیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا تھا ؟ اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکے تو پھر دوسروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ جلب منفعت یا حاجت روائیوں کے لیے بھی یہی معیار اگر آپ مدنظر رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ معبود برحق صرف اللہ ہی کی ذات ہوسکتی ہے۔ [٧٩] مشرکوں کی اپنے ساتھیوں کو دعوت :۔ جس طرح ہدایت کا راستہ صرف ایک ہے اور گمراہی کی راہیں لاتعداد ہیں اسی طرح اللہ کے پرستاروں کا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہوتا ہے اور مشرکوں کے حاجت روا اور مشکل کشا لاتعداد ہوتے ہیں۔ عرب کے دور جاہلیت کو ہی لیجئے جہاں ہر قبیلے کا حاجت روا اور مشکل کشا الگ الگ تھا کسی کا ہبل تھا کسی کا لات کسی کا منات کسی کا عزیٰ اور کسی کے اساف اور نائلہ، پھر ہندوستان اور مصر کے دیوی دیوتاؤں پر نظر ڈالیے وہ بھی ان گنت نظر آئیں گے۔ عیسائیوں کے بھی تین خدا تو عقیدہ تثلیث کی رو سے ہوئے اور چوتھا انہوں نے سیدہ مریم کو بھی اسی مقام پر فائز کردیا۔ مسلمانوں میں ہر پیر فقیر اور بزرگ ان کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اگر کسی کی ایک قبر پر نذر و نیاز چڑھانے سے حاجت روائی نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے بڑے بزرگ کی قبر پر چلا جاتا ہے اور پھر کسی تیسرے کے پاس اور انہیں بھیجنے والے شیاطین ہی ہوتے ہیں۔ اب اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کیا کرے ہر الٰہ کے پرستار اسے اپنے الٰہ کی طرف دعوت دیتے اور کہتے ہیں کہ ادھر آؤ یہاں سے تمام مرادیں بر آئیں گی۔ مشرکوں کی یہ مثال دے کر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے زیادہ بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں۔ انہیں بس یہی کہہ دو کہ ہمیں تو اللہ کا یہی حکم ہے کہ ہم صرف اسی کے فرمانبردار بن کر رہیں۔ ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھیں۔ اسی سے ڈریں اور اسی کے حکم کے مطابق نماز قائم کریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : آپ ان سے کہہ دیں کہ کیا ہم توحید کی سیدھی سڑک چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں، اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوگی جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی صحرا سے گزر رہا ہو اور شیطانوں کے نرغے میں آجائے، جو اسے سیدھے راستے سے بھٹکا کر کسی اور طرف لے جائیں اور وہ حیران و پریشان نہ سمجھ سکے کہ کیا کرے اور اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ہماری طرف آجاؤ، سیدھی راہ ادھر ہے، لیکن وہ شیطانوں کے چکر میں ایسا پھنس گیا ہے کہ نہ وہ ساتھیوں کی پکار کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کی طرف جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا، کیونکہ سیدھے راستے پر چلانا اسی کا کام ہے، ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور نماز قائم کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں، اس یقین کے ساتھ کہ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓي اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىنَا اللہُ كَالَّذِي اسْتَہْوَتْہُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ۝ ٠۠ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ يَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَى الْہُدَى ائْتِنَا۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۝ ٠ۭ وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٧١ۙ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں عقب العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو حير يقال : حَارَ يَحَارُ حَيْرَة، فهو حَائِر وحَيْرَان، وتَحَيَّرَ واسْتَحَارَ : إذا تبلّد في الأمر وتردّد فيه، قال تعالی: كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ [ الأنعام/ 71] ، والحائر : الموضع الذي يتحيّر به الماء، قال الشاعر : واستحار شبابها وهو أن يمتلئ حتی يرى في ذاته حيرة، والحیرة : موضع، قيل سمّي بذلک لاجتماع ماء کان فيه . ( ح ی ر ) حارض کے معنی کسی کام سے بہکنے اور متردد ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کو جنات کے جنگل میں بھلا دیا ہو ( اور وہ ) حیران ہورہا ہو ۔ الحائر جانے گرواب شاعر نے کہا ہے اور اس کی جوانی بھر پور پوگئی ۔ اور استحار کے معنی پانی سے پیٹ کے اس قدر پر ہوجانے کے ہیں کہ اسے حیرت لاحق ہوجائے ۔ الحیرۃ ایک مقام کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ پانی کے جمع ہونے کی وجہ سے اس مقام کا نام حیرۃُ پڑگیا تھا ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے فرمادیں کہ وہ اپنے لڑکے عبدالرحمن سے کہیں کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت کی دعوت دیتے ہو جو ہمیں دنیاوی زندگی روزی ومعاش کے اندر کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہم ان کی عبادت کریں تو آخرت میں بھی یہ ہمیں کسی قسم کا نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہم ان کی عبادت نہ کریں تو ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ تو کیا پھر سابقہ دین کی طرف الٹے پھرجائیں، باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی طرف ہدایت کردی ہے تو ہماری مثال عبدالرحمن کے مقابلہ میں ایسی ہے، جیسا کہ شیطان نے کسی کو دین الہی سے بھٹکا دیا اور زمین میں حیران اور صحیح راستہ سے بھٹک کر گردش کھاتا پھر رہا ہے عبدالرحمن کو اس کے والدین یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کی ماں ہدایت یعنی دین اسلام اور کفر وشرک سے توبہ کی طرف بلاتے ہیں اور وہ اپنے والدین کو شرک کی دعوت دیتا ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ دین الہی وہ اسلام ہے اور ہمارا قبلہ کعبہ ہے اور ہم اس بات پر مامور ہیں کہ عبادت اور توحید میں پروردگار عالم کے پورے مطیع وفرمانبردار ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنَا) یہ بت کسی کو کچھ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ تو خود اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔ خود پر بیٹھی ہوئی مکھی تک نہیں اڑا سکتے۔ ان کو پکارنے کا کیا فائدہ ؟ ان کے سامنے سجدہ کرنے سے کیا حاصل ؟ بتوں کے بارے میں تو یہ بات خیربہت ہی واضح ہے ‘ لیکن ان کے علاوہ بھی پوری کائنات میں کوئی کسی کے لیے خیر کی کچھ قدرت رکھتا ہے نہ شر کی۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ کا مفہوم یہی ہے۔ یہ یقین جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں پوری طرح جاگزیں ہوجائے تب ہی توحید مکمل ہوتی ہے ‘ جس کے بعد انسان کسی کے آگے سر جھکا کر خواہ مخواہ اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرتا۔ اسی نکتے کی وضاحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کو مخاطب کر کے اس طرح فرمائی تھی : اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اگر دنیا کے تمام انسان مل کر چاہیں کہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا دیں تو اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے ‘ اور اگر تمام انسان مل کر چاہیں کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیں تو اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے (١) ۔ لہٰذا یک در گیر و محکم بگیر کے مصداق مدد کے لیے پکارو تو اسی ایک اللہ کو پکارو۔ کسی غیر اللہ کو پکارنے ‘ کسی دوسرے سے سوال کرنے ‘ کسی اور سے ڈرنے ‘ التجائیں کرنے ‘ استغاثہ کرنے کا کیا فائدہ ؟ (وَنُرَدُّ عَلٰٓی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰٹنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسْتَہْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَص) (لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْہُدَی اءْتِنَا ط) یہاں جماعتی زندگی کی برکت اور انفرادی زندگی کی قباحت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اگر آپ اکیلے ہوں ‘ کہیں بھٹک گئے ہوں ‘ تو آپ کے لیے دوبارہ سیدھے راستے پر آنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن جماعتی زندگی میں دوسرے ساتھیوں کے مشورے اور ان کی راہنمائی سے ہر فردکو اپنی سمت کے سیدھا رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جیسے کہ سورة التوبہ میں فرمایا گیا : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ) اے اہل ایمان ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ساتھ رہوصادقین (سچوں) کے۔ بعض اوقات انسان بڑی آزمائش میں پھنس جاتا ہے۔ وہ حرام کو حرام سمجھتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کو اختیار کرنا انتہائی تباہ کن ہے۔ دوسری طرف اس کی مجبوریاں ہیں ‘ بچوں کی محرومیاں ہیں ‘ اہل خانہ کا دباؤ ہے۔ ایسی حالت میں اس کے لیے درست فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت میں اس کے حرام میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایسے وقت میں اس کو نیک دوست احباب کی معیت حاصل ہو تو وہ نہ صرف اس کو صحیح مشورہ دیتے ہیں بلکہ اس کا ہاتھ تھام کر سہارا بھی دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(71 ۔ 74) ۔ اسماعیل سدی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ بعض مشرکین جدید مسلمانوں سے مکہ میں موقعہ پاکر فہمائش کے طور پر کہتے تھے کہ تم نے اپنا قدیمی دین کیوں چھوڑ دیا اب بھی اپنے قدیمی دین پر آجاؤ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ باوجود قرآن کی ہدایت کے مشرکوں کے بہکانے سے پچھلے پاؤں راہ اسلام سے ہٹنا ایسا ہے جس طرح کوئی راہ گیر باوجود اس کے ساتھیوں کے راستہ بتانے ٹیڑھے راستہ پر چلا جاوے اور منزل مقصود سے بہک جاوے اور بت پرستی اور دین اسلام دونوں کا خلاصہ بھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرما دیا کہ دین اسلام میں خالق اور بادشاہ حقیقی کی اطاعت ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ہے اور دنیا کی عارضی مالکوں کی ہلاکت کے بعد پھر اس کا ملک اسی کے حوالہ میں رہے گا اور بت پرستی وہ طریقہ ہے جس میں خدا کی ناخشنودی سے ضرر یقینی ہونا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی بہت سی قومیں اللہ تعالیٰ کی ناخوشنودی کے سبب سے طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئیں اور پتھروں سے نفع کی توقع کسی عقلمند کا کام نہیں ہے اس لیے یہ توقع خلاف عقل ہے علاوہ اس کے جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور سب ملک اسی کا ہے تو پھر ان مشرکوں نے بتوں کو کون سے استحقاق سے اپنا معبود قرار دیا ہے یہ ان سے پوچھا جاوے بعضے مفسروں نے کہا ہے کہ صور کے معنے یہاں ” صورت “ کے ہیں اور معنے آیت کے یوں بتلائے ہیں کہ جب صورتوں میں روح پھونکی جاوے گی مگر یہ معنے صحیح حدیثوں کے مخالف ہیں اصل معنے صور کے وہی نرسنگ کے ہیں ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ١٤٥:۔ جن کی صراحت صحیح احادیث میں آچکی ہے کہ حضرت اسرافیل اس کو منہ میں لیے کھڑے اور ہر وقت اس کے پھونکنے کے حکم کے منتظر ہیں چناچہ ابوداؤد ترمذی اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی صورت کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ١ ؎ ہے اور ابن حبان کی سند بھی صحیح ہے اس سے اوپر کی آیت وذرالذین اتخذزا دینھم لعباد ولھوا کو اگرچہ بعض علماء نے آیت جہاد سے منسوخ کہا ہے لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ اس طرح کی درگذر کی آیتوں کے لیے ایک مدت مقرر تھی جس مدت کا حکم اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا فاعفواوا صفحوا حتی یاتی اللہ یاموہ وہ امرالٰہی یعنی جہاد کا حکم جب آیا تو سب درگذر کی آیتوں کی مدت پوری ہوگئی غرض یہ سب آیتیں منقضی المدت ہیں منسوخ نہیں ہیں اور منسوخ آیت اور منقضی المدت آیت میں بڑا فرق ہے منسوخ پر عمل بالکل منع ہوجاتا ہے اور منقضی المدت آیت پر عمل اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ سبب نہ پایا جاوے جس سبب کی ضرورت سے وہ مدت قرار دی گئی تھی حاصل یہ ہے کہ جس زمانہ میں وہ سبب پایا جاوے گا پھر سبب کے زمانہ تک وذر کی آیتوں کے موافق عمل کرنا ضرور ہے مثلا اب کسی شہر یا ملک میں مسلمانوں کی حالت اسی طرح ضعیف ہوجاوے جس طرح ہجرت سے پہلے اس وقت کے مسلمانوں کی حالت مکہ میں تھی تو زمانہ ضعف تک وہی درگذر کا عمل حال کے مسلمانوں کے لیے واجب اور ضروری ہے رمضان کے روزے حج ‘ زکوٰۃ یہ سب چیزیں ہجرت کے بعد مدینہ میں فرض ہوئی ہیں اس لیے ان مکی آیتوں میں فقط نماز کا ذکر فرمایا کیونکہ نماز مکہ میں معراج کی رات فرض ہوئی ہے۔ اب آگے فرمایا کہ اس صاحب قدرت کے فقط ایک کن کے کلمہ کے فرمانے سے جس طرح یہ سب کچھ پیدا ہوگیا جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح وقت مقررہ پر اس کے حکم سے فورا قیامت قائم ہوجاوے گی اور نیک وہ بدسب اس کے روبرو حاضر ہوجاویں گے۔ وہ اللہ صاحب تدبیر اور خبردار ہے کہ اس کا کوئی کام بےفائدہ کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے اس لیے اس نے نیک وبد کے نتیجہ کے لئے دنیا کو پیدا کیا ہے اور اس نتیجہ کے دن کا نام قیامت ہے اور قیامت کے آنے کی خبر جو قرآن میں دی گئی ہے وہ ایسی برحق ہے کہ دنیا کے انتظام پر غور کرنے کے بعد کوئی عقلمند اس کا انکار نہیں کرسکتا کس لیے کہ جس کی عقل ٹھکانے ہے نہ وہ خود کو بےٹھکانے کام کرتا ہے نہ وہ ‘ اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسا کلمہ منہ سے نکال سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بغیر کسی نتیجہ کے کھل تماشے کے طور پر پیدا کیا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابن عمر (رض) کی حدیث ہے ١ ؎ جامع ترمذی ج ٢ ص ٦٥ باب ماجاء فی الصور یہ تمام بحث دیکھئے تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ١٤٥۔ ١٤٧ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج وہ لوگ کہا گئے جن کو دنیا میں اپنی اپنی حکومت اور بادشاہت کا دعویٰ تھا پھر فرماویگا اصل بادشاہت اللہ کی ذات کے لیے ہی زیبا ١ ؎ ہے ولہ الملک یوم ینفخ فی الصور کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو عارضی طور پر لوگ اپنی بادشاہت اور حکومت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں مگر اس دن سوا اللہ کی ذات کے اور کوئی نہ ہوگا عالم الغیب والشہادۃ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ سز اوجزا کے وقت کوئی ظاہری یا باطنی عمل اس سے چھپانہ رہے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:71) نرد۔ مضارع مجہول جمع متکلم ۔ رد ہرد (باب نصر) سے ہم پھیر دئیے جائیں۔ ہم لوٹائے جائیں۔ ہمیں لوٹا دیا جائے۔ اعقابنا۔ عقب کی جمع مضاف مضاف الیہ ، ہماری ایڑیاں الرد علی الاعقاب بمعنی الرجوع الی الشرک والضلال کالذی استھوتہ الشیاطین۔ لغت مصدر محذوف۔ ای انردردا مثل ردالذی استھوتہ الشیاطین۔ اوندعوا دعاء مثل دعاء الذی استھوتہ الشیطین۔ کیا ہم پھرجائیں مثل پھر نے اس شخص کے جسے شیاطین نے بھٹکا دیا ہو۔ یا پکاریں مثل پکارنے اس شخص کے ۔۔ الخ۔ استھوتہ۔ اس نے اس کو راستہ بھلا دیا۔ استھواء (استفعال) راستہ بھلا دینا۔ فریفتہ کرنا۔ بلندی سے پستی کی طرف لانا۔ حیران۔ حیران ۔ سرا سیمہ۔ بہکا ہوا۔ متردد۔ حیرۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ۔ لہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب الذی کی طرف راجع ہے۔ ائتنا۔ ہمارے پاس آ۔ ائتنا۔ اس کے ساتھی ہوں جو اسے بلا رہے ہوں ہدایت کی طرف۔ اور پکار رہے ہوں کہ ہماری طرف آجا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی توحید کی سیدھی راہ چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال ایسی ہوگی آیت سے مقصود بت پرستوں کی تردید ہے اور آیت قل انی نھیت ان اعبد الذین الخ کی تاکید ہے (رازی)7 مگر وہ ان کی کوئی بات نہ سنے اور ان بھتنوں کی بات پر چلتا رہے جس کے نتیجہ میں آخر کار تباہ و برباد ہو (وحیدی) یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی دعوت دی بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الر حمن بن ابی بکر الصدیق کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت بلاتے اور حضرت صدیق ان کو ایمان کی دعوت دیتے، بآ لا خر عبد الر حمن مسلمان ہوگئے مگر علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے ایک مرتبہ مروان نے اسی آیت کو عبدالر حمن کے بارے میں میں بطور طعن پڑھا تو حضرت عائشہ (رض) نے اس کی پر زور تردید کی اور فرمایا کہ آل ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس سے ذم کا پہلو نکلتاہو۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ تردید اصح اسناد اواولیٰ بالقبول ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری تفسیر سورت احقاف )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 9 ۔ آیات 71 تا 83: اسرار و معارف : جن مسلط ہونا : امور دنیا میں ایک درمیانی راہ بھی ہوتی ہے جسے عرفا کچھ دو اور کچھ لو کہا جاتا ہے یعنی دونوں فریق اپنی باپ میں تھوڑی تھوڑی لچک پیدا کرلیتے ہیں اور یوں ایک درمیانی راستہ وجود میں آتا ہے جس پر سمجھوتہ ہوجاتا ہے مگر دین میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ امور دنیا میں اگر دو فریق ہیں تو دونوں انسان ہیں دونوں کی رائے میں غلطی کا امکان بھی ہے اور دونوں کی رائے حرف آخر تو نہیں ہوسکتی مگر دین تو ارشادات باری کا نام ہے جو واحد ہے لا شریک ہے جس کا علم بھی بیمثال ہے اور اس کی ذاتی صفت ہے مخلوق کے نفع اور نقصان سے واقف بھی ہے اور خود ہی نفع و نقصان کا خالق بھی ہے لہذا اس بات میں کمی کی جائے اور کسی بھی دوسرے کی بات اس کے مقابلے میں قبول کی جائے تو یہ صریح گمراہی ہوگی جس کی امید ہی اے کفار تمہیں ہم سے یعنی مسلمانوں سے نہ رکھنی چاہئے یہاں تو ایک ہی بات ہے کہ اللہ بات بلا حیل و حجت قبول کرلی جائے کیونکہ کسی بھی دوسرے کی بات اللہ کے مقابلے میں ماننے کا کچھ حاصل نہیں کہ اللہ کے بغیر نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ کسی طرح کا نقصان کرسکتا ہے اگر ایسا کیا جائے تو اسلام کو پانے کے ک بعد پھر اوندھے منہ گمراہی میں گرنے کے مترادف ہے اور آدمی کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کسی پر شیطان یا جن مسلط ہو کر اسے پاگل بنا دے اور وہ دیوانہ وار بھاگتا پھر رہا ہو پھر اسے کچھ لوگ راستے کی طرف بلاتے بھی رہیں تو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آپ انہیں بتلا دیجئے کہ ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بات کے بارے میں رائے قائم کرے یہ نیکی ہے یا بھلائی ہے بلکہ اس کا معیار صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جس بات کو اللہ کریم نیکی فرماتے ہیں وہی نیکی ہے اور جسے وہ درست قرار دیں وہی درست ہے لہذا ہمارے لیے تو بڑا سادہ سا حکم ہے کہ اللہ کی بات جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے سب کی ضرورتوں سے نہ صرف واقف ہے سب کی ضرورتیں پوری فرما رہا ہے صدق دل سے قبول کرلیں۔ اور اپنی پوری قوت اس کی اطاعت پہ صرف کردیں۔ نیز اس کی عبادت کرتے رہیں کہ توفیق اطاعت بھی نصیب ہو اور تقوی اختیار کریں یعنی اس کے ساتھ قریبی تعلق استوار کریں کہ اس کی نافرمانی پہ حیا دامن گیر ہوجائے اس لیے کہ وہی عظیم ذات ہے جس کے روبرو سب کو پیش ہونا ہے وہ ایسا قادر ہے جس نے آسمان بنائے زمین کو پیدا فرمایا اور ان کی تخلیق میں کوئی کمی رہنے نہیں دی جب کچھ بھی نہ تھا اتنی بڑی کارگہ حیات تعمیر فرما دی وہ جب چاہے گا تو محض حکم دے گا سب کچھ پھر سے پیدا ہوجائے گا کہ اس کی بات ہی سچ ہے اور اس نے اس سب کی خبر دی ہے بلکہ جب صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہوگی تو کوئی حکومت کا دعوی کرنے والا بھی نہ رہے گا سب تسلیم کرلیں گے کہ حکومت اسی کو سزاوار ہے وہ جملہ حالات سے باخبر ہے پوشیدہ ہوں یا ظاہر اور وہ دانا تر ہے اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ مہلت پاتے ہیں ورنہ کسی بات سے بیخبر نہیں۔ واذقال ابراہیم لابیہ۔۔۔ 74 تا 82: پہلاتاج پہننے ولا اشخص : اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بطور مثال ارشاد ہوا کہ جب وہ مبعوث ہوئے تھے لوگوں کا یہی حال تھا اللہ کو فراموش کرچکے تھے اور حکومت وقت یا بادشاہ کو ہی اپنا رب تسلیم کرلیا تھا جس کا نام مفسرین نے نمرود بن کنعان نقل فرمایا ہے تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پہلا شخص تھا جس نے تاج پہنا اور اپنی خدائی کا دعوی کیا یہ لوگ بہت سے بتوں کے ساتھ ستاروں کی پرستش بھی کرتے تھے کہ بادشاہ نے دعوی خدائی کے ساتھ اسی طرح کی رسومات جاری کر رکھی تھیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے گھر سے کام شروع کیا اور آذر سے جو ان کے والد اور نمرود کے وزیر تھے ، ارشاد فرمایا کہ آپ نے بتوں کی عبادت کو شعار بنا رکھا ہے اور ساری قوم اس میں مبتلا ہے حالانکہ اس پر کوئی بھی دلیل نہیں آپ خود پتھر وغیرہ کو تراش کر بت بناتے ہیں اور پھر اس کی عبادت شروع کردیتے ہیں جو اپنے وجود کے بننے میں آپ کا محتاج ہے بھلا وہ آپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور آپ کا معبود کیسے بن گیا بلکہ میں تو صاف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی ساری قوم ہی غلط راستہ اختیار کرچکی ہے۔ کشف : ابراہیم (علیہ السلام) کو تہم نے ارض و سما کے عجائبات کا مشاہدہ کرادیا مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک چٹان پر کھڑے تھے جب زمینوں اور آسمانوں کی سب کائنات اللہ کریم نے ان کے سامنے کھول دی کہ ایک ایک چیز ایک ایک ذرہ ایک ایک پتہ کس طرح سے قدرت باری کے تحت اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق عمل کر رہا ہے اشیاء میں اثر اور اعمال کے نتائج کیسے مرتب ہوتے ہیں فرشتے کیا کردار ادا کرتے ہیں سورج چاند ستارے اور ہوائیں کیا کر رہی ہیں اعمال کیسے لکھے جا رہے ہیں لوگ ان کے نتیجے میں کہاں کہاں اور کن کن ٹھکانوں پہ پہنچیں گے حتی کہ جنت میں اپنی منزل بھی انہوں نے ملاحظہ فرمائی اور اسی سارے مشاہدے اور علم کو اصطلاحاً کشف کہا جاتا ہے کشف والہام یا القاء و وجدان یہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم ھاصل کرنے کے ذرائع ہیں انبیاء علیہم الصلوہ والسلام کو ہمیشہ اسی ذریعہ سے تعلیم فرمایا جاتا ہے لہذا یہ حصول علم کے تمام دوسرے ذرائع سے اعلی و افضل ذریعہ ہے اور یہی نعمت ولی اللہ کو نبی کے اتباع کے طفیل نصیب ہوتی ہے مگر دو واضح اور بہت بڑے فرق ہیں اول نبی براہ راست اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے جب کہ ولی بھی اللہ ہی کی اطاعت کرتا ہے مگر نبی کے واسطے سے کرتا ہے دوسرے نبی کا کشف الہام القا وجدان حتی کہ خواب بھی وحی کہلاتا ہے یعنی یعنی ایسا قطعی اور یقینی جس پر عمل کرنا نبی اور اس کی امت کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے ولی کا کشف وحی الہی کا درجہ ہرگز نہیں رکھتا بلکہ ولی اللہ کو غلطی لگنے کا امکان ہوتا ہے لہذا وہ نبی کی خبر سے متصادم ہو تو باطل ٹھہرے گا اور دوسرے یہ کہ ولی کا کشف اس کی اپنی ذات کے لیے دلیل ہے دوسرے لوگ اس کے ماننے کے مکلف نہیں ہوتے فرمایا یہ نعمت ہم نے اس لیے دی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو عین الیقین یعنی یقین کا وہ درجہ بھی حاصل ہوجائے جو آنکھوں دیکھ لینے سے ہوتا ہے یقین تو انہیں پہلے بھی تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جان کر قطعی یقین تھا مگر اسی پر ایک قسم اور بڑھا دی گئی یہی حال ولی اللہ کے مشاہدات اور کشف کا ہے کہ انہیں یقین کامل میں مزید ترقی نصیب ہوتی ہے اور احکام الہی اور ارشادات نبوی کی مزید وضاحت حاصل ہوجاتی ہے۔ طریق تبلیغ : پھر انہوں نے ستارہ پرستی کو ایسے عام فہم دلائل سے رد فرمایا اور اس کا باطل ہونا ثابت فرمادیا جو عام عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے انبیاء (علیہ السلام) کا کمال یہی ہوتا ہے گہرے منطقی دلائل میں الجھنا پسند نہیں فرماتے بلکہ عام فہم اور دو ہی طرح کے دلائل پسند فرماتے ہیں اول نقلی جو پہلی کتب میں نقل ہوئے ہوں یا موجودہ کتاب میں نازل ہوئے ہوں دوم عقلی ایسے جنہیں ایک عام آدمی کی عقل بھی قبول کرسکے۔ بتوں کا باطل ہونا تو بڑی سادہ اور سیدھی بات تھی مگر ستارہ پرستی کے لیے آپ نے طریق کار تھوڑا سا تبدیل فرما لیا کہ جب رات ہوئی تو ایک روشن ستارہ ابھرا یوں تو آسمان ستاروں سے بھر جاتا ہے مگر بعض خاص ستارے بہت روشن ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بقول تمہارے یہ میرا رب ہے۔ یعنی اگر ستارہ پرستی حق ہے تو پھر اس کی پجا کی جائے جو سب پر چھا رہا ہے مگر کچھ دیر بعد وہ تو غروب ہوگیا تو فرمایا یہ تو خود فانی ہے اپنی ذات کو ایک حال پہ قائم رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا میں اسے اپنی ضرورتیں پوری کرنے والا کیسے مان لوں میں کسی ایسی ہستی سے محبت نہیں کرسکتا پھر چان دطلوع ہوا تو فرمایا ستاروں کی نسبت تو یہ زیادہ مناسب ہے اسے رب تسلیم کرنا چاہئے مگر وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور فرمایا کہ یہ سب چلنے والے کام کرنے والے اور خدمت پر مامور نظر آتے ہیں یقیناً کوئی ہستی انہیں چلانے والی بھی ہوگی چونکہ یہ نظام ایسا مربوط ہے اور اس باقاعدگی سے چل رہا ہے کہ صاف اعلان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ رب یعنی چلانے والا ، بنانے اور قائم رکھنے والا سب کا ایک ہی ہے یقیناً انسان کا آپ کا اور میر ا رب بھی وہی ہے اور اس وسیع کائنات میں درست راہ عمل کا بتانا بھی اسی کو سزاوار ہے اگر وہ ہدایت کا سامان نہ کرے یا انسان اس کی ہدایت کو قبول نہ کرے تو یقینا ایسے لوگوں میں شامل ہوجائے گا جو بھٹک چکے ہیں جو راستہ کھو چکے ہیں۔ پھر سورج کے طلوع کا منظر دیکھا فرمایا یہ بہت بڑا ہے اس کے سامنے سب ستارے ماند پڑگئے شاید یہ رب ہے مگر وہ بھی نہ رہا اور پھر سے تاریکی چھانے لگی تو فرمایا کہ لوگو تم اس عظیم ذات کے ساتھ ستاروں کو شریک گردانتے ہو جو ان سب کا خالق مالک اور قائم رکھنے والا ہے مگر میں ایسا ہرگز نہ کروں گا میں تمہارے اس عقیدے سے یکسر بیزاری و علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں اور پورے خلوص اور پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جو زمین اور آسمانوں کا بنانے والا ہے اور کبھی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو اس کی ذات یا اس کی صفات میں کسی بھی دوسرے کو شریک مانتے ہوں یہ سب کچھ آپ نے بہت پیارے اور عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا جس میں تین باتیں بطور خاص سمجھنے کی ہیں کہ اول تو خلوص اور یقین کامل ضروری ہے ان دونوں چیزوں کا حصول انبیا کو براہ راست اللہ سے نصیب ہوتا ہے اور دوسرے لوگ ان کی مجلس و صحبت سے حاصل کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس طرح علوم نبوت نسلاً بعد نسلً منتقل ہوتے ہیں ایسے ہی برکات صحبت بھی اور یہی عظیم نعمت ہے جو اہل اللہ کی مجالس میں نصیب ہوتی ہے۔ دوسرے تبلیغ کے لیے اپنوں سے ابتدا کرے اور عوام تک پہنچے اسی محبت اور درد کے ساتھ اپنوں کو دعوت دی جاتی ہے نیز نہ ماننے والوں پہ یہ حقیقت بھی واضح کردے کہ مومن و کافر دو الگ طبقے انسانیت کے دو فریق اور دو قومیں ہیں جن کی دوستی و رشتہ داری آپس ہی میں ممکن ہے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں یعنی مومن کی مومنوں سے اور کافر کی کافروں سے تیسرے بات بہت آسان اور عام فہم انداز میں کی جائے اور خواہ مخواہ کا فلسفہ درمیان میں لا کر اسے مشکل نہ بنایا جائے ورنہ وہ بات اپنا اثر کھو دے گی۔ اہل اللہ کا کمال : قوم نے مخالفت کی راہ اپنائی نہ صرف انکار کیا بلکہ جھگڑا کرنے لگے اور اپنے مفروضہ خداؤں کے غضب کا حوالہ دینے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی وحی مجھ پہ نازل ہوتی ہے اس کی طرف سے ہدایت مجھے نصیب ہے تم چاہتے تو مجھ سے یہ دولت حاصل کرتے مگر تم بالکل غلط اور الٹ رویے کا اظہار کر رہے ہو کہ اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق مجھے سمجھانا چاہتے ہو بجائے سیکھنے کے مجھے کچھ سکھانا چاہتے ہو آپ کا یہ ارشاد بھی بہت بڑی تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا کے عظیم ترین دانشور ادیب سائنسدان اور فلاسفر جس موضوع پر چاہیں بات کریں مگر ذات وصفات باری ، آخرت ، روح ، فرشتہ اور عذاب وثواب یا اخروی زندگی کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اس موضوع پر ہر زمانے میں صرف ان ہستیوں نے بات کی ہے جو وحی الہی سے سرفراز ہوئے یعنی انبیا علیہم الصلوہ والسلام لہذا آج تم اس قاعدے کے خلاف کیوں چلنا چاہتے ہو رہی بات ڈرنے کی تو جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہو وہ اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا پروردگار ہر حال میں اس سے باخبر بھی ہے اور نفع و نقصان کی قدرت بھی اسی کو ہے۔ فرمایا ذرا غور کرو کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے اور اس کی ذات وصفات میں دوسروں کو شریک مان رہے ہو جس پر کسی زمانے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکی تو بھلا میں بتوں سے ڈرنے لگوں حالانکہ ان کے باطل ہونے کی علمی اور عقلی ہر طرح کی دلیل موجود ہے اب خود ہی دیکھ لو کہ ان حالات میں ہم دونوں فریقوں میں سے کسے تسلی ہونی چاہئے۔ اس کے بعد ایک قانون ارشاد فرما دی ا کہ جن لوگوں کو دولت ایمان نصیبہوئی اور پھر کسی طرح اسے شرک جیسے ظلم سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ سکون ان ہی کا حصہ ہے ایسے ہی لوگ اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ عمل اور عقیدے میں باعتبار اثر کے جو بہت بڑا فرق ہے وہ نہایت حسین انداز میں ارشاد فرما دی ا کہ عقیدہ راتہ ہے اور عمل اسے طے کرنا اگر عمل میں کوتاہی ہوگی تو سفر کم طے ہوگا مگر راستہ تو گم نہ ہوگا اگرچہ یہ اچھی بات نہیں اس سے بچنے کی کی کوشش بہت ضروری ہے مگر عقیدے کی خرابی کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ راستہ بدل گیا اب مسلسل عمل بھی اسے منزل پہ نہیں پہنچا سکے گا لہذا یہاں حدیث مبارک کی تشریح کے مطابق ظلم سے مراد عقیدے میں شرک کی آمیزش ہے اور جو اس سے مھفوظ رہا وہ اس لحاظ سے ضرور امن میں ہے کہ راستہ گم نہیں ہوا اللہ کریم توفیق عمل بھی دیں اور ایمان کامل بھی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 71 تا 73 : ندعوا ( ہم پکارتے ہیں) ‘ اعقاب (عقب) ایڑیاں) استھوت ( بہکا دیا) ‘ حرکان ( حیران و پریشان) ‘ ید عون ( وہ پکارتے ہیں) ‘ لنسلم ( تاکہ ہم مان لیں) ‘ ینفخ (وہ پھونکتا ہے) ‘ الصور (نرسنگا (قیامت میں نرسنگے کی آواز) ۔ تشریح : آیت نمبر 71 تا 73 : غیر اللہ وہ ہے جو کوئی نفع اور کوئی نقصان نہ پہنچاسکے۔ اتنی بات تو سب ہی جانتے ہیں۔ پھر غیر اللہ کی پوجا کیوں ہوتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ غیر اللہ کی بندگی صرف ظاہری اور رسمی ہوتی ہے کوئی ان کی قلبی عبادت نہیں کرتا۔ یہ ظاہری پر ستش بھی ایک ہی غرض سے ہے۔ ایک سیاسی سماج قائم کرنا اور قائم رکھنا۔ اگر بت کی پوجا نہ ہو تو ہندو دھرم بکھر جائیگا۔ اگر آگ کی پوجانہ ہو تو پارسی مذہب ختم ہوجائیگا۔ اگر صلیب کی پوجانہ ہو تو عیسائی مذہب۔ اگر نسل پرستی نہ ہو تو یہودی۔ اگر جھوٹے نبی کو نہ مانا جائے تو قادیانی ‘ اگر چاند اور سورج کی پوجانہ ہو تو چینی مذاہب ‘ اگر درختوں ‘ سانپوں ‘ جانوروں اور دریا و سمندر کی پوجا ہو تو بہت سے چھوٹے بڑے مذاہب ہوا میں اڑجائیں گے۔ مشرکین مکہ بھی سیاسی اور سماجی مقاصد ہی کے لئے بتوں کی رسمی پوجا کرتے تھے۔ اگر بتوں کا کاروبار نہ ہوتا تو مشرکین ایک جماعت نہ بنتے ‘ ان کی تجارت نہ ہوتی ‘ ان کی سرداری نہ رہتی ‘ ان کے تقدس کا ڈھونگ ختم ہوجاتا۔ سیاسی اور سماجی مقاصد کے علاوہ ‘ غیر اللہ کی پرستش درحقیقت نفس کی پرستش ہے۔ غیر اللہ کے پاس نہ نفع ہے نہ نقصان ‘ نہ کتاب ‘ نہ قانون ‘ نہ پیغمبر نہ حکم نہ منع۔ ہندو مت ‘ وغیرہ میں عام اجازت ہے کہ ہر ہندو جو چاہے کرے جو چاہے نہ کرے جو چاہے عقیدہ رکھے یا نہ رکھے صرف اپنے آپ کو ہندو مانے اور بس۔ اگر یہ عقیدے اور عمل کی آزادی کی کشش نہ ہوتی تو آج دنیا میں کوئی کافر نہ ہوتا اسلام میں عقیدے اور عمل کی آزادی کی سرحدیں متعین ہیں۔ غیر اسلام میں لامحدود ہیں۔ اسلام میں آخرت دنیا پر ‘ روح مادہ پر اور عقیدہ عمل پر حاوی ہے لن کی دوسرے مذہبوں میں اس کے برعکس ہے۔ کفر صاف صاف اللہ کو نہیں مانتا لیکن مشرک چالاک ہے۔ وہ اللہ کو صرف زبانی مانتا ہے عملی طور پر وہ ان معبودوں کے احکامات مانتا ہے جنہیں اس نے خود تصنیف کیا ہے ان کا معبود بندے کی تخلیق ہے۔ ان کے معبود کی کتاب بھی بندے کی تصنیف ہے ۔ اب کفرہو یا شرک ‘ اللہ سے بغاوت کی یہ دو شکلیں ہیں۔ رہے منافقین۔ تو ان کا الگ کوئی وجود نہیں ہے ۔ وہ صرف جی حضوری میں ‘ خواہ کفر کے کیمپ میں ‘ خواہ شرک کے کیمپ میں ‘ منافقین کا الگ کوئی مذہب نہیں ہے ‘ کوئی پارٹی نہیں ہے ‘ کوئی قیادت نہیں ہے۔ اب کافر ہو ‘ مشر ک ہو ‘ منافق ہو ‘ سب مفاد پرست ‘ مال پرست اور اقتدار پرست ہیں ‘ بالفاظ دیگر وہ دنیا پر ست ہیں۔ ان کے پاس چونکہ کوئی اللہ نہیں ‘ کوئی محفوظ دین نہیں ‘ کوئی اصول و عقیدہ نہیں ‘ اس لئے وہ خیالات کے جنگل میں بھٹک رہے ہیں۔ اس آیت میں مشرک کی طرف خاص اشارہ ہے۔ ذرا پوچھئے کہ ہم ان غیر اللہ سیامیدیں باندھیں جو ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اور ان غیر اللہ سے ڈریں جو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس آیت میں مرتد کی طرف بھی خاص اشارہ ہے۔ کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں جب کہ اللہ ہمیں راہ ہدایت پر ڈال چکا اور اس حیران و سرگرداں گم گشتہ کی طرح بن جائیں جسے شیطان نے خبطی اور بائو لا بنادیا ہو۔ ان آیات نے پھر زور دیا ہے کہ ہدایت اور رہنمائی تو صرف اللہ کی ہے۔ مومن وہ ہے جو اس کی رہنمائی پر چلے۔ نماز قائم کرے اور اللہ سے زیادہ سے زیادہ محبت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ان آیات نے پھر قیامت پر زور دیا ہے۔ قیامت کا آنا اللہ کی عین حکمت اور دانائی ہے۔ جو کہا ہے ” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے “ تو اس کے تین مطالب ہیں۔ (1) یہ کائنات محض شوق اور تماشے کے لئے نہیں بنائی گئی ہے کہ جب تک جی چاہا رکھا پھر جب جی چاہا توڑ کر پھینک دیا۔ اس کے بنانے اور چلانے میں بھی وہی مصلحت اور حکمت ہے جو قیامت لانے میں ہے۔ (2) یہ کائنات حق اور راستی کے ٹھوس اصولوں پر بنائی گئی ہے اور چلائی جارہی ہے یہاں باطل پنپ نہیں سکتا۔ فوری فائدہ فانی فائدہ ہے۔ (3) اللہ نے یہ کائنات بنائی ہے۔ اس لئے اسے ہی حق ہے کہ اپنا دین چلائے۔ اطاعت و بغاوت کے لئے جزا و سزا مقرر کرے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ تمثیل میں جو شیطانوں کا راہ بھلادینا مذکور ہے اس سے معلوم ہوا کہ شیاطین اور خبیث جن سے بعض اوقات اس قسم کے تصرفات و افعال سرزد ہوسکتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح معبودان باطل آخرت میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے اسی طرح یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر دنیا میں بھی یہ کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرک کی عادات میں ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے معبودوں کے ساتھ محبت کرتا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے بجائے اپنے باطل معبودوں کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے۔ حالانکہ معبودان باطل نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان۔ اسی بنا پر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ مشرکوں کو سمجھائیں کہ کیا ہم ان کی طرف دعوت دیں اور ان کی عبادت کریں جو کسی کو ذرّہ برابر نفع اور رتی برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرکوں سے یہ بھی کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو شرک کی دعوت دیں۔ توحید کا عقیدہ اپنانے کے بعد شرک کی دعوت دینا الٹے پاؤں چلنے کے مترادف ہے۔ ظاہر بات ہے الٹے پاؤں چلنا عقل و فکر کے خلاف اور حقیقت سے منہ موڑنا ہے یہ تو اس شخص کا وطیرہ ہے جس کو شیطان نے کسی صحرا اور بیابان میں بہکا دیا ہو۔ وہ حیرانی اور پریشانی کے سوا کوئی راستہ نہیں پاتا۔ اور ادھر ادھر بہکا پھر رہا ہے۔ یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ و عمل کی دنیا میں صحیح فکر اختیار کرنے کے بجائے فکری اور عملی آوارگی کا شکار رہتا ہے۔ اسے توحید کی دعوت سمجھ نہیں آتی اور اس کی حالت صحرا میں بہکے ہوئے مسافر کی ہے۔ جسے صحیح راستے کی طرف بلایا جائے تو وہ اس قدر حواس باختہ ہوچکا ہوتا ہے اسے کوئی بات سنائی اور سمجھائی نہیں دیتی۔ ایسے شخص سے بحث مباحثہ کرنے کے بجائے اسے کہنا چاہیے کہ ہدایت تو اللہ کی طرف سے نصیب ہوا کرتی ہے اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم غیر اللہ کی پیروی کرنے کی بجائے صرف اور صرف رب العالمین کی غلامی اور اس کے حکم کی پیروی کریں۔ اس کا حکم اور اس کی اتباع یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا جائے کیونکہ اسی کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ جس دن وہ ” کُنْ “ فرمائے گا تو سب کچھ اس کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ اس کا حکم صادر ہونے اور ہر چیز کا اس کے حضور اکٹھا ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی کی زمین و آسمان پر بادشاہی ہے اسی کے حکم سے پہلا اور دوسرا صور پھونکا جائے گا وہ ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا الصُّورُ قَالَ قَرْنٌ یُنْفَخُ فیہِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصفۃ القیامہ، باب ماجاء فی شان الصور ] ” حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص (رض) بیان کرتے ہیں ایک دیہاتی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہو کر پوچھا کہ صور کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتٰی یُؤْمَرُ بالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ فَکَأَنَّ ذَلِکَ ثَقُلَ عَلٰی أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُمْ قُولُوا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤں ؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی نفع و نقصان نہیں دے سکتا۔ ٢۔ گمراہی پر اصرار کرنا شیطان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ٣۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی سب کو اکٹھا کیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان حق اور سچ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بہت حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے : ١۔ خاص مجھ ہی سے ڈر۔ (البقرۃ : ٤١) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ : ١٠٠) ٤۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ ( الاحزاب : ٧٠) ٥۔ اے لوگو ! اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ ( النساء : ١) ٦۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ( الحجرات : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧١۔ اس سورة میں بار بار مضراب قل سے ضربات لگائی جارہی ہیں ۔ یہ نہایت ہی پرتاثیر طرز خطا ہے جس سے یہ تاثر دیا جانا مطلوب ہے کہ حلال و حرام کے حدود وقیود کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو محض مبلغ اور انجام بد سے ڈرانے والے ہیں ۔ اس انداز کلام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ نہایت ہی اہم ‘ بڑا اور خوفناک ہے ۔ یہ تصورات جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں یہ ان کی ڈیوٹی ہے اور انہیں خدا کی جانب سے امر ہے کہ وہ ایسا کریں ۔ (آیت) ” قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَنفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنا “۔ (٦ : ٧١) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان ؟ ۔ “ لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے تھے اور ان سے امداد طلب کرتے تھے ۔ انکی اس حرکت کو برا سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے صاف صاف کہہ دو کہ تم نے جو ان لوگوں کی اطاعت اختیار کر رکھی ہے وہ تمہارے نفع ونقصان کے مالک ہی نہیں ۔ تم ان لوگوں کو کیوں پکارتے ہو ؟ غیر اللہ سے مراد یہاں ‘ بت ‘ آستانے بھی ہیں ‘ درخت وپتھر بھی ہیں ‘ روحانی مخلوق اور فرشتے بھی ہیں اور انسان و شیاطین بھی ہیں ۔ یہ سب کے سب اس لحاظ سے برابر ہیں کہ ان کے قبضے میں کسی کا نفع ونقصان نہیں ہے ۔ وہ اس پوزیشن سے بہت دور ہیں کہ کسی کو نفع ونقصان پہنچا سکیں ۔ اس دنیا میں تمام حرکات و سکنات اور سب کا نفع ونقصان اللہ کی تقدیر کے مطابق ظاہر ہوتا ہے ۔ اللہ کا اذن نہ ہو تو کوئی واقعہ نہیں ہو سکتا اور جو کچھ واقعہ ہوجاتا ہے وہ اللہ کی تقدیر اور راضا کے مطابق ہوتا ہے ‘ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے ۔ غیر اللہ کو پکارنا ‘ غیر اللہ کی بندگی کرنا اور غیر اللہ سے استعانت طلب کرنا قابل نفرت کام ہے ۔ غیر اللہ کے سامنے عاجزی کرنا اور اللہ کے سوا دوسروں کے لئے تمام ایسے نظریات اور اعمال کھوٹے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تردید ونکیر ان باتوں کو دیکھ کر ہو جس پر مشرکین عمل پیرا تھے یا یہ تردید ان کی اس تجویز کی تردید کرتے ہوئے آئی ہو جس میں وہ لوگ تجویز کرتے تھے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خدا کی عبادت شروع کردیں گے بشرطیکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے الہوں کی عبادت میں شریک ہوں ۔ بہرحال یہ ازخود تردید ہو یا ان کی کسی تجویز کا رد ہو دونوں صورتوں میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ مکمل نظریاتی قطع تعلق کرلیں ۔ مشرکین کے نظریات اور عمل دونوں عقل انسانی کی رو سے نہایت کمزور اور بودے ہیں بشرطیکہ روشن فکری کے ماحول میں عقل کو دعوت فکر دی جائے اور رسم و رواج اور موروثی روایات کی تہوں کے نیچے عقل دبی ہوئی نہ ہو جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں لوگوں کا شعور ماحول میں دبا ہو اتھا ۔ ان مشرکانہ معتقدات اور اعمال کو یہاں ان ہدایات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیں تاکہ اسلامی ہدایات کے بالمقابل ان کا کھوٹ اور ان کا قابل نفرت ہونا اچھی طرح واضح ہوجائے ‘ کیونکہ اللہ نے یہ ہدایت دی ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی عبادت کی جائے صرف اسے ہی الہ اور حاکم تسلیم کیا جائے اور بلا شرکت غیرے اس کے تجویز کردہ نظام زندگی کو قبول کیا جائے ۔ ذرا انداز کلام ملاحظہ ہو ۔ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ “ اگر ہم ایسا کریں تو یہ صحیح معنوں میں ارتداد ہوگا ‘ الٹے پاؤں پھرنا ہوگا ‘ رجعت پسندی ہوگی ۔ ترقی پسندی اور آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لوٹنا ہوگا ‘ کیونکہ اسلام نام ہی ترقی پسندی کا ہے ۔ (آیت) ” وَنُرَدُّ عَلَی أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا اللّہُ “ (٦ : ٧١) ” اور جب اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ؟ ۔ اس کے بعد ایک اور متحرک اور مشخص منظر اسکرین پر آتا ہے ۔ (آیت) ” کَالَّذِیْ اسْتَہْوَتْہُ الشَّیَاطِیْنُ فِیْ الأَرْضِ حَیْْرَانَ لَہُ أَصْحَابٌ یَدْعُونَہُ إِلَی الْہُدَی ائْتِنَا “۔ (٦ : ٧١) ” کیا ہم اپنا حال اس شخص کا سا کرلیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو ‘ درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آؤ ‘ سیدھی راہ موجود ہے ؟۔ “ ضلالت وگمراہی اور حیرانی و پریشانی کا یہ ایک متحرک اور جیتا جاگتا منظر ہے جو شخص عقیدہ توحید کے بعد شرک اختیار کرتا ہے ۔ جس کا ضمیر رب واحد اور ارباب متفرقہ کے درمیان گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے ‘ وہ عموما ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے اور فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کون سی راہ اختیار کرے ۔ غرض یہ ایک ایسی بدبخت مخلوق خدا کا منظر ہے ” جسے شیطان نے صحرا میں بھٹکا کدیا ہو ۔ لفظ استہوتہ اپنے مفہوم کی تصویر کشی خود ہی کردیتا ہے ۔ اگر وہ ایک راہ لیتا تو کوئی بات نہ تھی ۔ کسی ایک راہ پر پڑجاتا چاہے وہ گمراہی کی راہ ہوتی ‘ لیکن یہاں وہ جس صورت حال سے دوچار ہے وہ یہ ہے کہ دوسری جانب سے اس کے کچھ ساتھی ہدایت یافت ہیں اور وہ اسے راہ راست کی طرف بلاتے ہیں اور بار بار پکارتے ہیں کہ آؤ بھائی ادھر آؤ ۔ وہ اس شیطانی بےراہ روی اور دوستوں کی پکار کے درمیان حیران وپریشان کھڑا ہے ۔ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کدھر جائے اور دونوں پکارنے والوں میں سے کس کی راہ کا انتخاب کرے ۔ وہ اس نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہے اور قرآن کے الفاظ کے درمیان سے اس شخص کی ذہنی اذیت واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ میں جب بھی اس آیت کی تلاوت کرتا تو سوچتا رہتا کہ اس ذہنی کھینچا تانی ‘ کشمکش اور تذبذب کی وجہ سے انسان کس عذاب میں مبتلا ہوتا ہوگا ۔ ایسے افراد کا ایک ذہنی نقشہ سامنے آجاتا ہے لیکن یہ صرف ذہنی تصور ہی ہوتا ہے جبکہ عملی زندگی میں ‘ ہمارے سامنے بعض لوگوں کے حقیقی حالات بھی آئے ہیں جن پر یہ منظر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے اور وہ لوگ اس عذاب میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی نظریہ حیات کو تو پالیا تھا اور اس میں اپنی ذہنی وعملی بساط کے مطابق معرفت بھی حاصل کی مگر اس کے بعد وہ الٹے پاؤں پھرے اور کھوٹے اور جھوٹے الہوں کی پرستش اور اطاعت کرنے لگے ۔ یہ اطاعت انہوں نے خوف اور لالچ کی وجہ سے کی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایسی ہی کربناک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ ایسے لوگوں کے عملی حالات کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس آیت کا حقیقی مفہوم کیا ہے اور قرآن کریم کا یہ اندازبیاں کس قدر جامع اور موثر ہے ۔ ابھی یہ خوفناک منظر آنکھوں کے سامنے تھا اور اس برے انجام کو دیکھ کر دل مومن کانپ ہی رہا تھا کہ صراط مستقیم دکھا دیا جاتا ہے اور فیصلہ کن حکم دیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَیَ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (71) وَأَنْ أَقِیْمُواْ الصَّلاۃَ وَاتَّقُوہُ (٦ : ٧٢۔ ٧١) ” کہو ” حقیقت میں صحیح راہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سراطاعت خم کر دو “ ۔ نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ “ نہایت ہی مناسب نفسیاتی حالات میں یہ فیصلہ کن بات ہے ۔ اس لئے کہ جب انسان یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کے سامنے حیرانی اور کشمکش کی ایک تصویر چل رہی ہے ‘ اسے کوئی سکون وقرار حاصل نہیں ہے اور وہ سخت ترین اذیت کا شکار ہے تو ایسے حالات کو دیکھ کر کوئی بھی قاری اس بات کے لئے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ کن اور مطمئن کردینے والی بات کو قبول کرے اور راحت و سکون کی تلاش کرے ۔ یہ فیصلہ کن بات کیا ہے ؟ یہ ہے سچائی ۔ ” راہنمائی تو صرف اللہ کی راہنمائی ہے ۔ “ ھدی اللہ ھو الھدی “ کی ترکیب سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کجہ یہ بات فیصلہ کن ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کی راہنمائی ہی حقیقی راہنمائی ہے ۔ انسان نے جب بھی اللہ کی ہدایت سے منہ موڑا وہ آوارہ صحرا ہوا ۔ نیز اگر انسان اللہ کی راہنمائی کا کچھ حصہ تبدیل کرکے اس کی جگہ اپنے تصورات نافذ کرے ‘ اپنے فارمولے آزمائے ‘ اپنی جانب سے قوانین وضع کرے ‘ اپنے طور طریقے اپنائے ‘ خود ساختہ پیمانے رائج کرے اور یہ سب کام علم الہی ‘ ہدایت الہی اور اللہ کی روشن کتاب کی راہنمائی کے دائرے سے باہر نکل کر کرے تو وہ کبھی بھی راہ راست نہ پائے گا اور بےکنار صحرا ہی میں پھرتا رہے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی قوتیں عطا کی ہیں جن کے ذریعے وہ اس کائنات کے بعض نوامیس فطرت تک رسائی حاصل کرچکا ہے ‘ کائنات کی بعض قوتوں کو اس نے مسخر کرلیا ہے ‘ اس کرہ ارض کا نظام چلانے کے لئے وہ ان قوتوں سے استفادہ کر رہا ہے اور اس دنیا کی زندگی کو ترقی دے رہا ہے لیکن اس کو اللہ نے اس قدر وسیع علم اور قوت نہیں دی ہے کہ وہ اس کائنات کی تمام قوتوں اور تمام حقیقتوں کی تہہ تک پہنچ سکے ‘ نہ یہ حضرت انسان اس عالم غیب کی وسعتوں کے اندر داخل ہو سکتا ہے جو اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ خود انسان کی عقل ، انسان کی سوچ ‘ اس کے جسم کے مختلف اعضاء کا کام کرنا اور اس کے اسباب اور ان اعضاء کا اس طرح مربوط طریقے پر کام کرنا ‘ یہ سب امور ایسے ہیں جو انسان کے لئے ابھی تک عالم غیب کے حصے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خود اپنی ذات کے بارے میں بھی انسان خدائی ہدایت اور راہنمائی کا محتاج ہے ۔ انسان کی زندگی ‘ اس کے نظریات ‘ اس کی تخلیق ونشوونما ‘ زندگی کی اقدار اور پیمانے ‘ زندگی کا نظام اور طور طریقے ‘ زندگی کے ضوابط اور قوانین ایسے امور ہیں جن میں انسان کو اللہ کی راہنمائی درکار ہے تاکہ ان چیزوں کو اس کی زندگی میں نافذ کیا جاسکے اور اس کی عملی زندگی پر ان خدائی ہدایات کا نفاذ ہو ۔ یہ انسان جب اللہ کی ہدایت کی طرف لوٹ آتا ہے اور ہدایت کو قبول کرلیتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ انسان قرار پاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ کی ہدایت ہی صحیح ہدایت ہے جب بھی وہ اللہ کی ہدایت سے دور ہوتا ہے یا اللہ کی راہنمائی میں سے بعض اجزاء سے انحراف کرتا ہے یا اس میں سے بعض اجزاء کو تبدیل کرکے اس کے اندر خود ساختہ اجزاء پیوست کردیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے اس لئے کہ جو بات اللہ کی راہنمائی پر مبنی نہ ہو تو وہ ضلالت ہے کیونکہ کوئی تیسرا اور درمیانی راستہ موجود نہیں ہے ۔ (فماذا بعد الحق الا الضلال) ” سچائی کے بعد گمراہی کے سوا اور ہے کیا ؟ “ انسان نے اپنی طویل تاریخ میں اس گمراہی کا مزہ خوب چکھا ہے اس کی وجہ سے اس نے بےحد مصائب جھیلے ہیں اور آج تک انسانیت ان مصائب میں مبتلا ہے ۔ انسانی تاریخ نے اپنا یہ حتمی فیصلہ دے دیا ہے کہ اس کا یہی انجام ہوگا ‘ جب بھی وہ اللہ کی راہنمائی سے انحراف کرے گی ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہیں اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ نیز اللہ کا حکم بھی یہی ہے اور اللہ کی جانب سے اطلاع بھی یہی ہے ۔ اس حقیقت کی سوا اور کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اگرچہ دعوی بہت سے حقائق کا کیا جاتا ہے لیکن تاریخ نے کسی کو تصدیق نہیں کی ۔ جو لوگ خدائی راہنمائی سے انحراف کی وجہ سے انسانی مصائب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے معاشروں کا مطالعہ کریں ۔ ایک عقلمند سب کچھ چشم بینا سے دیکھ سکتا ہے ۔ وہ ان مصائب کو ہاتھ سے چھو سکتا ہے ۔ یہ محسوس ہیں اور اس پوری دنیا کے عقلمند لوگ ان کی بابت چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ چناچہ سیاق کلام میں مکرر حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کر دو صرف اللہ کے سامنے ۔ اسی سے ڈرو اور اسی کی بندگی اور عبادت کرو ۔ وامرنا۔۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف سے ہمیں حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو اور نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ “ یعنی اے محمد اعلان کر دو کہ راہنمائی اور ہدایت تو صرف اللہ کی راہنمائی اور ہدایت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ رب العالمین ہی کے آگے سرتسلیم خم کر دو ‘ اس لئے کہ عالمین اسی کے آگے جھکتے ہیں ۔ یہ پوری کائنات اس کے آگے پابند حکم ہے ‘ پس کوئی جواز نہیں ہے کہ اس پوری کائنات کے اندر انسان جیسی عقلمند مخلوق اللہ رب العالمین کے آگے نہ جھکے اور اللہ کی ملکیت اور ربوبیت کا انکار کردے اور آسمان و زمین اور پوری کائنات سے مختلف روش اختیار کرے ۔ یہاں پورے جہان اور اس کی ربوبیت کا ذکر بےمحل نہیں ہے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر بات بنتی ہی نہیں ۔ اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا یہ کہ پوری دنیا میں مشہود اور غائب دونوں شامل ہیں اور وہ قوانین قدرت جن کے مطابق یہ رواں دواں ہے ان سے یہ کائنات شمہ بھر انحراف بھی نہیں کرسکتی ۔ اس لئے کہ اللہ رب العالمین ہے ۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے اپنی طبیعی زندگی کے اندر وہ بھی ان نوامیس فطرت کا پابند ہے ۔ انسان کی جسمانی زندگی ان ضوابط کے اندر جکڑی ہوئی ہے اور وہ ان ضوابط کا مطیع ہے ۔ ان کے دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا ۔ لہذا انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس محدود اختیاری زندگی کے اندر بھی اللہ کے ضوابط کی پابندی کرے اور یہ اس کے لئے سخت آزمائش ہے ۔ اس آزمائش میں دیکھا جائے گا کہ وہ راہ ہدایت پالیتا ہے یا صحرائے ضلالت کی طرف جانکلتا ہے ۔ اگر وہ خدائی ضوابط کی اس طرح پابندی کرے جس طرح وہ اپنی طبیعی زندگی کے اندر مطیع نوامیس الہی ہے تو اس کی زندگی خوش اسلوبی سے گزرے گی اور اس کا طرز عمل اور اس کی طبیعی زندگی باہم متناسق ہوں گے ۔ اس کا جسم اس کی روح کا ساتھی ہوگا اور اس کی دنیا آخرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہوگی ۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے (امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب رسالہ دینیات) یہ کہنا کہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مالک حقیقی کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ‘ اس لئے انہوں نے سرتسلیم خم کردینے کی روش اختیار کی ہے ، ایک نہایت ہی موثر ار مفرح انداز گفتگو ہے اور تا قیامت جو لوگ بھی راہ تسلیم ورضا کو اختیار کریں گے وہ اپنے آپ کو براہ راست امر الہی کا تعمیل کنندہ سمجھیں گے ۔ اب وہ مامورات آتے ہیں جو اعلان تسلیم ورضا کے بعد کا لائحہ عمل ہیں۔ (آیت) ” وَأَنْ أَقِیْمُواْ الصَّلاۃَ وَاتَّقُوہُ (٦ : ٧٢) ” نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو “۔ اصل فریضہ یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کیا جائے ۔ اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کی رضا کے مطابق اپنے آپ کو درست کیا جائے ۔ اس کے بعد پھر عبادات کا درجہ آتا ہے اور نفسیاتی اصلاح کا کام شروع ہوتا ہے تاکہ تسلیم ورضا کی اساس پر عملی زندگی کا نقشہ فائع ہو سکے اور عملی زندگی اور تفصیلی نظام زندگی اس وقت تک استحکام حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کی تعمیر مستحکم بنیادوں پر نہ ہو ۔ اس لہر کی آخری ضرب اسلامی نظریہ حیات کے اساسی حقائق کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ یہ حقائق اسلامی نظریہ حیات کے اصلی اور بنیادی عوامل ہیں ۔ مثلا حشر ونشر ‘ تخلیق کائنات ‘ حاکمیت الہیہ ‘ علم غیب اور علم شہادت اور یہ کہ اللہ حکیم وخبیر ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صرف اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے تفسیر درمنثور ج ٢ میں نقل کیا ہے کہ مشرکین نے اہل ایمان سے کہا کہ تم ہمارے راستہ کا اتباع کرلو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ چھوڑ دو ۔ اس پر آیت کریمہ (قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا) نازل ہوئی۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بطور مثال ایک شخص کی حالت بیان فرمائی ہے جو کہ راستہ سے بھٹک گیا اور جو لوگ اس کے ساتھ تھے اسے صحیح راستہ کی طرف بلا رہے ہیں اور جنگل میں جہاں وہ راہ گم کرچکا تھا وہاں شیاطین بھی موجود ہیں انہوں نے اسے پریشان کر رکھا ہے وہ اسے اپنی خواہشوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ اس حالت میں وہ حیران کھڑا ہے۔ اگر وہ شیاطین کی طرف جاتا ہے تو وہ ہلاکت میں پڑتا ہے۔ اور اگر اپنے ساتھیوں کی آواز پر جاتا ہے تو ہدایت پا جاتا ہے اور شیاطین سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اہل ایمان کو کافروں نے واپس گمراہی کی طرف لوٹ جانے کی دعوت دی اور بت پرستی کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ تم ان کو جواب دیدو کیا اللہ کو چھوڑ کر جو پوری طرح نفع و ضرر کا مالک ہے ہم ان کو پکاریں جو کچھ بھی نفع و ضرر نہیں دے سکتے اور کیا اللہ کی طرف سے ہدایت مل جانے کے بعد الٹے پاؤں واپس ہوجائیں ؟ ایسا نہیں ہوگا۔ خدا نخواستہ العیاذ باللہ ! اگر ہم ایسا کرلیں تو ہماری وہی مثال ہو جائیگی جیسے کوئی شخص جنگل میں راہ بھٹکا ہوا کھڑا ہو اسے شیاطین نے حیران و ہلکان کر رکھا ہو وہ اسے اپنی گمراہی میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھی اسے ہدایت کی طرف بلا رہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ہم کافروں کی بات مان لیں تو ہماری وہی حالت ہوجائے گی جو اس حیران پریشان شخص کی حالت ہوتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ (قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی) (آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے) جب ہمیں اللہ نے ہدایت کی نعمت سے نواز دیا تو اب کفر و شرک کی طرف کیوں جائیں ؟ (وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (اور ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ رب العالمین ہی کے فرماں بردار رہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76 یہ گذشتہ پانچ عقلی دلیلوں کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ یعنی یہ ثابت ہوگیا کہ (1) ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے۔ (تمام مصائب و مشکلات وہی آسان کرتا ہے۔ (3) انسانی حواس اور طاقتیں اسی کے قبضے میں ہیں (4) زمین و آسمان اور بحر وبر کا کلی اور تفصیلی غیب بھی صرف وہی جانتا ہے اور (5) بحر وبر کے شدائد اور ہر کرب وضرر سے وہی نجات دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ مالک و مختار متصرف و کارساز اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے دوسرا کوئی نہیں تو کیا اس کے باوجود ہم اللہ کے سوا ایسوں کو پکاریں جنہیں ہمارے نفع و نقصان کا ذرہ برابر اختیار نہیں جو نہ متصرف و مختار ہیں نہ غیب دان اگر ہم ایسا کریں تو ہم ہدایت کے بعد الٹے پھر گمراہ ہوجائیں گے کیونکہ شرک سب سے بڑی گمراہی کَالَّذِیْ اسْتَھْوتہ الخ یعنی اس صورت میں ہماری حالت اس شخص کی مانند ہوگی جسے شیاطین نے صراط مستقیم سے بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگردان پھر رہا ہو اور اس کے دوسرے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہوں لیکن بدقسمتی سے وہ سننے والوں کی آواز تو سن سکتا ہے مگر سیدھی راہ نہیں دیکھ سکتا۔ 77 ان مذکورہ دلائل کے ہوتے ہوئے ہم غیر خدا کو تو پکارنے سے رہے یہ تو سراسر گمراہی ہے اور ہدایت کا راستہ وہی ہے جو اللہ نے ہمیں بتایا ہے یعنی توحید کا راستہ اور ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس اللہ کے سامنے ہی جھکیں جو تمام دنیا جہان والوں کا پروردگار اور مربی ہے وان اقیموا اس سے پہلے قیل لنا مقدر ہے بقرینہ ماقبل۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

71 اے پیغمبر آپ ان مشرکین سے فرمائیے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم سب مسلمان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کے سوا اور ایسے معبودوں کی عبادت کرنے لگیں جو نہ ہم کو نفع پہنچانے کی کچھ قدرت رکھتے ہیں اور نہ کچھ ہمارا بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہم کو نقصان پہونچانے کی قدرت رکھتے ہیں اور کیا تمہاری خواہش یہ ہے کہ باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت سے نوازا ہے اور وہ ہم کو صحیح راہ دکھا چکا ہے اور ہم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے ہی پائوں پھرجائیں اور ہماری مثال اس شخص کی طرح ہ جائے جیسے کسی کو جنات اور غول بیابانی نے جنگل میں راہ سے بےراہ کردیا ہو اور اس کی یہ حالت ہوجائے کہ وہ حیران و سرگرداں ہو کر رہ جائے حالانکہ کچھ اس کے ساتھی بھی ہوں جو اس کو پکار پکار کر صحیح راستہ کی جانب بلا رہے ہوں کہ آ ہمارے پاس آ جا یعنی خدا کے سوا ان معبودان باطلہ کی عبادت کریں جو عبادت پر نہ کچھ نفع پہنچا سکیں اور نہ ان کی عبادت چھوڑ دینے پر وہ اپنے منکروں کو کوئی نقصان پہنچا سکیں اور کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم پھر مرتد ہو ائیں اور ہماری حالت اس گم کردہ راہ کی سو ہوجائے جو کہیں جنگل میں ہو اور اس کو صحرائی شیاطین اور غول بیانی صحیح راہ سے بےراہ کردیں اور وہ حیرانی و سرگردانی کی حالت میں مارا مارا پھرے اور اس کے ساتھی اس کو پکاریں بھی کہ آ جا ہمارے پاس آ جا بھگٹکتا نہ پھر مگر وہ اور حیرانی و تحیر کی حالت میں کچھ نہ سمجھے اور جانوروں کی طرح صرف آواز سنے اور سن کر سمجھ نہ سکے۔ اے پیغمبر ! آپ فرما دیجیے یقین جانو کہ ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت ہو اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ہی صحیح رہنمائی ہے اور ہم کو تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس پروردگار کے تابع فرمان رہیں جو تمام عالموں کا رب ہے۔