Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 75

سورة الأنعام

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾

And thus did We show Abraham the realm of the heavens and the earth that he would be among the certain [in faith]

اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم ( علیہ السلام ) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... Thus did We show Ibrahim the kingdom of the heavens and the earth..., means, when he contemplated about the creation of the heaven and earth, We showed Ibrahim the proofs of Allah's Oneness over His dominion and His creation, which indicate that there is no god or Lord except Allah. Allah said in other Ayat; قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ Say: "Behold all that is in the heavens and the earth." (10:101) and, أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَأءِ وَالاٌّرْضِ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الاٌّرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفاً مِّنَ السَّمَأءِ إِنَّ فِى ذَلِكَ لاّيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ See they not what is before them and what is behind them, of the heaven and the earth If We will, We sink the earth with them, or cause a piece of the sky to fall upon them. Verily, in this is a sign for every servant who turns to Allah. (34:9) ... وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ...that he be one of those who have faith with certainty. Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 ملکوت مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبۃ سے رغبوت اور رھبہ سے رھبوت اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١۔ ١] ابراہیم کا کائناتی مطالعہ :۔ نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم کی بعثت سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بےزار رہتی تھی۔ اور ہر وقت گہری سوچ میں پڑے رہتے تھے ایک دن انہوں نے رات کو ایک چمکدار ستارہ دیکھا جو کچھ عرصہ بعد مغرب میں جا کر غروب ہوگیا انہیں یکدم خیال آیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ پھر چاند کو دیکھا تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ پھر سورج پر غور کیا تو اس کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ جو ایک مقررہ رفتار سے چلتے ہوئے مشرق سے طلوع ہوتے اور مغرب میں غروب ہوجاتے تھے۔ انہوں نے سوچا جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بےبس ہیں وہ خدا کیسے ہوسکتی ہیں خدا تو وہ ہوسکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نے ایک طویل مدت ان حالات پر غور کیا بالآخر اللہ نے خود آپ کی رہنمائی کی اور آپ کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا اور وحی کے ذریعہ اس کائنات کے اسرار آپ پر منکشف کردیئے۔ اس وقت آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو ان تفکرات سے نجات دلائی جس میں آپ مدتوں سے سوچ بچار کر رہے تھے اور ان گمراہیوں سے نکال لیا جن میں آپ کی پوری کی پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ کو جب یہ یقین حاصل ہوگیا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح احوال کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔ باپ نے ڈانٹ پلا کر خاموش کردیا تو آپ نے اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو یہی ہدایت کی باتیں سمجھانا شروع کردیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَلَكُوْتَ : ” مُلْکٌ“ کے آخر میں واؤ اور تاء کا اضافہ کر کے ” مَلَكُوْتَ “ فرمایا، مقصد حروف بڑھانے کا معنی میں زیادتی ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” عظیم سلطنت “ کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم نے پچھلی آیات میں شرک کی تردید کی ہے اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمان و زمین کی عظیم سلطنت کا مشاہدہ کروایا، جس کے کئی مقاصد کے ساتھ ایک یہ بھی تھا کہ انھیں توحید کا آنکھوں دیکھا یقین حاصل ہوجائے۔ ایسے ہی انھیں یہ مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

First, it was idol worship. He said that it was error, and straying. Then, in the next verses, he pointed out to stars as unworthy of wor¬ship. And a little earlier in verse 75, it is in the form of an introduction that Allah Ta` ala mentions a particular elegance and insight of Sayyid¬na Ibrahim (علیہ السلام) by saying: وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ that is, ` We made Ibrahim (علیہ السلام) see what We have created in the heavens and the earth in a way which would unravel the reality of all these created objects manifestly so that he may become firm in his belief.& What came to pass after that has taken the shape of a wondrous dialogue that appears in later verses (which shows a certain quality even in the translated form of the meanings of the totally untranslata¬ble beauty, diction and elan of the original) and it would be useful to dwell upon the manner in which it emerges stage by stage.

پہلے بت پرستی کا ضلالت و گمراہی ہونا ذکر فرمایا، اگلی آیات میں ستاروں کا قابل عبادت نہ ہونا بیان فرمایا، اور اس سے پہلے ایک آیت میں بطور تمہید کے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی ایک خاص شان اور علم و بصیرت میں اعلیٰ مقام کا ذکر اس طرح فرمایا : وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ ، یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کو اس طرح دکھلا دیا کہ ان کو سب چیزوں کی حقیقت واشگاف طور پر معلوم ہوجائے، اور ان کا یقین مکمل ہوجائے اسی کا نتیجہ تھا جو بعد کی آیات میں ایک عجیب طرح کے مناظرہ کی شکل میں اس طرح مذکور ہے :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ۝ ٧٥ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) یہاں ملکوت سے مراد یہ پورا نظام ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ یہ نظام گویا ایک Universal Government ہے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ کارندے اسے چلا رہے ہیں۔ اس نظام کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو کراتا ہے تاکہ ان کا یقین اس درجے کا ہوجائے جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیز کے بارے میں ہوتا ہے۔ (وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ) ۔ اس فقرے میں و کی وجہ سے ہم اس سے پہلے یہ فقرہ محذوف مانیں گے : تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرسکے وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ اور ہوجائے پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے۔ اب آگے جو تفصیل آرہی ہے یہ در حقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی قوم پر حجت پیش کرنے کا ایک انداز ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اپنے ذہنی ارتقاء کے کچھ مراحل ہیں ‘ کہ واقعتا انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ستارہ میرا خدا ہے۔ پھر جب وہ چھپ گیا تو انہوں نے سمجھا کہ نہیں نہیں یہ تو ڈوب گیا ہے ‘ یہ خدا نہیں ہوسکتا۔ پھر چاند کو دیکھ کر ایسا ہی سمجھا۔ پھر سورج کو دیکھا تو ایسا ہی خیال ان کے دل میں آیا۔ یہ بعض حضرات کی رائے ہے اور ان الفاظ سے ایسا کچھ متبادر بھی ہوتا ہے ‘ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح رائے یہی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے یہ تدریجی طریقہ اختیار کیا۔ آگے آیت ٨٣ کے ان الفاظ سے اس موقف کی تائید بھی ہوتی ہے : (وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰہَآ اِبْرٰہِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ ط) پھر یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو اللہ کے نبی تھے اور کوئی بھی نبی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کرتا۔ اس کی فطرت اور سرشت اتنی خالص ہوتی ہے کہ وہ کبھی شرک میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔ انبیاء کا مرتبہ تو بہت ہی بلند ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تو صدیقین کو یہ شان عطا کی ہے کہ وہ بھی شرک میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان (رض) جو صحابہ کرام (رض) میں سے صدیقین ہیں ‘ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی کبھی شرک نہیں کیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. The adversaries are told that they can observe God's signs in the phenomena of the universe, just as Abraham could. The difference is that they see nothing, as if they were blind, whereas Abraham saw with open eyes. The sun, moon and stars which rise and set before their eyes day after day and night after night witness them as misguided at their setting as at their rising. Yet the same signs were observed by the perceptive Abraham, and the physical phenomena helped him arrive at the Truth. 52. To obtain a full understanding of this section, as well as of those verses which mention the dispute between Abraham and his people, it is necessary to cast a glance at the religious and cultural condition of the latter. Thanks to recent archaeological discoveries, not only has the, city where Abraham is said to have been born been located, but a good deal of information is also available about the condition of the people of that area during the Abrahamic period. We reproduce below a summary of the conclusions which Sir Leonard Wooley arrived at as a result of the researches embodied in his work, Abraham (London, 1935). It is estimated that around 2100 B.C., which is now generally accepted by scholars as the time of the advent of Abraham, the population of the city of Ur was at least two hundred and fifty thousand, maybe even five hundred thousand. The city was a large industrial and commercial metropolis. Merchandise was brought to Ur from places as far away as Palmir and Nilgiri in one direction, and in the other it had developed trade relations with Anatolia. The state, of which this city was the capital, extended a little beyond the boundaries of modern Iraq in the north, and exceeded its present borders further to the west. The great majority of the population were traders and craftsmen. The inscriptions of that period, which have been discovered in the course of archaeological research, make it clear that those people had a purely materialistic outlook on life. Their greatest concern was to earn the maximum amount of wealth and enjoy the highest degree of comfort and luxury. Interest was rampant among them and their devotion to money-making seemed all-absorbing. They looked at one another with suspicion and often resorted to litigation. In their prayers to their gods, too, they generally asked for longer life, prosperity and greater commercial success, rather than for spiritual growth, God's pardon and reward in the Hereafter. The population comprised three classes of people: (1) amelu, the priests, the government and military officers; (2) mushkinu, the craftsmen and farmers; and (3) the slaves. The people of the first class mentioned, i.e. amelu, enjoyed special privileges. In both criminaI and civil matters, their rights were greater than those of the others, and their lives and property were deemed to be of higher value. It was in such a city and in such a society that Abraham first saw the light of day. Whatever information we possess with regard to him and his family through the Talmud shows that he belonged to the amelu class and that his father was the highest functionary of the state. See also Towards Understanding the Qur'an, vol. 1, (Surah 2, n.290). In the inscriptions of Ur there are references to about five thousand deities. Each city had its own deity. Each city had a chief deity which it considered its chief protector and, therefore, that deity was considered worthy of greater reverence than all the others. 'The chief deity of Ur was Nannar (the moon god), and it is for this reason that the city later became known as Kamarina. The other major city was Larsa, which replaced Ur as the capital of the kingdom. Its chief deity was Shamash (the sun god). Under these major deities there was a myriad of minor deities which had generally been chosen from among the heavenly bodies - stars and planets. People considered them responsible for granting their innumerable minor prayers. Idols had been carved in the image of these celestial and terrestrial gods and goddesses and were made objects of ritual worship. Qamar is the Arabic word for 'moon'- Ed. The idol of Nannar had been placed in a magnificent building on the top of the highest hill. Close to it was the temple of Nin-Gal, the wife of Nannar. The temple of Nannar resembled a royal palace. Every night a female worshipper went to its bedroom, adorned as a bride. A great number of women had been consecrated in the name of this deity and their position was virtually that of religious prostitutes. The woman who would sacrifice her virginity for the sake of her 'god' was held in great esteem. For a woman to give herself to some unrelated person 'for the sake of God' was considered a means to salvation. Needless to say, it was generally the priests who made most use of this institution. Nannar was not merely a deity, but the biggest landlord, the biggest trader, the biggest industrialist and the most powerful ruler. Many orchards, buildings and huge estates had been consecrated to his temple. In addition to this, cereals, milk, gold, cloth, etc., were brought as offerings to the temple by peasants, landlords and merchants, and there was a large staff in the temple to receive the offerings. Many a factory had been established on behalf of the temple. Large-scale trading was also carried out on its behalf. All these activities were conducted by the priests in the name of the deity. Moreover, the country's main court was also located in the temple. The priests functioned as judges and their judgements were equated with those of God. The authority of the royal family was derived from Nannar. The concept was that Nannar was the true sovereign and that the ruler of the country governed merely on his behalf. Because of this relationship, the king himself was raised to the rank of a deity and was worshipped. The founder of the dynasty which ruled over Ur at the time of Abraham was Ur-Nammu. In 2300 B.C. he had established an extensive kingdom, stretching from Susa in the east to Lebanon in the west. Hence the dynasty acquired the name 'Nammu', which became Nimrud in Arabic. After the emigration of Abraham, both the ruling dynasty and the nation of Ur were subjected to a succession of disasters. Firstly, the Elamites sacked Ur and captured Nimrud along with the idols of Nannar. Later on, an Elamite state was established in Larsa which governed Ur as well. Later still, Babylon prospered under a dynasty of Arabian origin and both Larsa and Ur came under its hegemony. These disasters shook the people of Ur's faith in Nannar, for he had failed to protect them. It is difficult to say much, with certainty, about the extent of the subsequent impact of the teachings of Abraham on these people. The laws which were codified by the Babylonian King Hammurabi in 1910 B.C. show the impress of the prophetic influence, whether direct or indirect. An inscription of this code was discovered in 1902 by a French archaeologist and its English translation by C. H. W. John was published in 1903 under the title The Oldest Code of Law. Many articles of this code, both fundamental principles and substantive laws, bear some resemblance to the Mosaic Law. If the conclusions of these archaeological researchers are correct, it becomes quite evident that polytheism did not consist merely of a set of religious beliefs and polytheistic rites, it rather provided the foundation on which the entire order of economic, cultural, political and social life rested. Likewise, the monotheistic mission which was undertaken by Abraham was not merely directed against the practice of idol-worship. It had far wider implications, so much so that it affected the position of the royal family both as rulers and deities. It also affected the social, economic and, political status and interests of the priestly class, and the aristocracy in general, and in fact the entire fabric of the social life of the kingdom. To accept the teaching of Abraham meant that the entire edifice of the existing society should be pulled down and raised anew on the basis of belief in the One God. Hence, as soon as Abraham launched his mission, ordinary people as well as the privileged classes, ordinary devotees as well as Nimrud. rose at once to oppose and suppress it.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :51 یعنی جس طرح تم لوگوں کے سامنے آثار کائنات نمایاں ہیں اور اللہ کی نشانیاں تمھیں دکھائی جا رہی ہیں ، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے سامنے بھی یہی آثار تھے اور یہی نشانیاں تھیں ۔ مگر تم لوگ انہیں دیکھنے پر بھی اندھوں کی طرح کچھ نہیں دیکھتے اور ابراہیم علیہ السلام نے انہیں آنکھیں کھول کر دیکھا ۔ یہی سورج اور چاند اور تارے جو تمہارے سامنے طلوع و غروب ہوتے ہیں اور روزانہ تم کو جیسا گمراہ طلوع ہوتے وقت پاتے ہیں ویسا ہی غروب ہوتے وقت چھوڑ جاتے ہیں ، انہی کو اس آنکھوں والے انسان نے بھی دیکھا تھا اور انہی نشانات سے وہ حقیقت تک پہنچ گیا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :52 اس مقام کو اور قرآن کے ان دوسرے مقامات کو جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی قوم کی نزاع کا ذکر آیا ہے ، اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے مذہبی و تمدنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہو گیا ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ، بلکہ دور ابراہیمی میں اس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی اس پر بھی بہت کچھ روشنی پڑی ہے ۔ سر لیونارڈو ولی ( Sir Leonard Woolley ) نے اپنی کتاب ( London, 1935”Abraham,“ ) میں اس تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں ۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُرکی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو ۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا ۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے ۔ جس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومت عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے ۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی ۔ اس عہد کی جو تحریرات آثار قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطہ نظر خالص مادہ پرستانہ تھا ۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصد حیات تھا ۔ سود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی ۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے ۔ ہر ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں ۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دعائیں زیادہ تر درازی عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں ۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی: ( ۱ ) عَمیلو - یہ اونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے ۔ ( ۲ ) مِشکینو - یہ تجار ، اہل صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے ۔ ( ۳ ) اَردو - یعنی غلام ۔ ان میں سے پہلے طبقہ ، یعنی عَمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے ۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دوسروں سے مختلف تھے ، اور ان کی جان و مال کی قیمت دوسروں سے بڑھ کر تھی ۔ یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھیں کھولیں ۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان کا باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا ۔ ( دیکھو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۲۹۰ ) ۔ اُرکے کتبات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں ۔ ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے ۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا جو ربُّ البلد ، مہادیو ، یا رئیس الآلہہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا احترام دوسرے معبودوں سے زیادہ ہوتا تھا ۔ اُرکا رب البلدات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے”نَنّار“ ( چاند دیوتا ) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام”قمرینہ“ بھی لکھا ہے ۔ دوسرا بڑا شہر لَرسہ تھا جو بعد میں اُرکے بجائے مرکز سلطنت ہوا ۔ اس کا رب البلد”شماش“ ( سورج دیوتا ) تھا ۔ ان بڑے خداؤں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے ۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتاؤں اور دیویوں کی شبیہیں بتوں کی شکل میں بنالی گئی تھیں اور تمام مراسم عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے ۔ ”ننار“ کا بت اُر میں سب سے اونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا ۔ اسی کے قریب”ننار“ کی بیوی”نن گل“ کا معبد تھا ۔ ننار کے معبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی ۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجا رن جاکر اس کی دلہن بنتی تھی ۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اور ان کی حیثیت دیوداسیوں ( Religious Prostitutes ) کی سی تھی ۔ وہ عورت بڑی معزز خیال کی جاتی تھی جو ”خدا “ کے نام پر اپنی بکارت قربان کر دے ۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ”راہ خدا“ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ نجات خیال کیا جاتا تھا ۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پوجاری حضرات ہی ہوتے تھے ۔ ننار محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ، سب سے بڑا تاجر ، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا ۔ بکثرت باغ ، مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقف تھیں ۔ اس جائداد کی آمدنی کے علاوہ وہ کسان ، زمیندار ، تجار سب ہر قسم کے غلے ، دودھ ، سونا ، کپڑا اور دوسری چیزیں لاکر مندر میں نذر بھی کرتے تھے جنہیں وصول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا ۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے ۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا ۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پوجاری ہی انجام دیتے تھے ۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی ۔ پوجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے”خدا“ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے ۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی ۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا ۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی ۔ ارکا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں حکمران تھا ، اس کے بانیٔ اول کا نام اُرنَمُوّ تھا جس نے ۲۳۰۰ برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی ۔ اس کے حدود مملکت مشرق میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لبنان تک پھیلے ہوئے تھے ۔ اسی سے اس خاندان کو ”نَمُوّ“ کا نام ملا جو عربی میں جا کر نمرود ہو گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی ۔ پہلے عیلامیوں نے اُرکو تباہ کیا اور نمرود کے ننار کے بت سمیت پکڑ لے گئے ۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی جس کے ماتحت ارکا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا ۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابل نے زور پکڑا اور لرسہ اور ارکا دونوں اس کے زیر حکم ہو گئے ۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ ارکا کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کر دیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کر سکا ۔ تعین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہاں تک قبول کیا ۔ لیکن سن ۱۹۱۰ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورائی ( بائیبل کے اَمُرافیل ) نے جو قوانین مرتب کیے تھے وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی تدوین میں مشکوٰۃِ نبوت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی ۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ سن ۱۹۰۲ بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثار قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ C.H.W. John نے سن ۱۹۰۳ بعد مسیح میں ( The Oldest Code of Law ) کے نام سے شائع کیا ۔ اس ضابطہ قوانین کے بہت سے اصول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ یہ اب تک کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بت پرستانہ عبادات کا مجموعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پوری معاشی ، تمدنی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا ۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے اس کا اثر صرف بتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ شاہی خاندان کی معبودیت اور حاکمیت ، پوجاریوں اور اونچے طبقوں کی معاشرتی ، معاشی اور سیاسی حیثیت ، اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی ۔ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اوپر تک ساری سوسائیٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے ازسر نو توحید الٰہ کی بنیاد پر تعمیر کیا جائے ۔ اسی لیے ابراہیم علیہ السلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص ، پوجاری اور نمرود سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(74 ۔ 79) ۔ مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قصہ ذکر فرما کر ان لوگوں کو یوں قائل کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) توبت پرستی سے جس قدر بیزار تھے اس کا حال ان لوگوں کو اس قصہ سے معلوم ہوگا پھر یہ لوگ بت پرستی میں گرفتار رہ کر اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کیونکر بتلاسکتے ہیں۔ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے چمکدار تارے مشتری یا زہرہ کو اور پھر چاند سورج کو دیکھ کر ھذا ربی جو کہا یہ قول انکا اس بچے پنے کے زمانہ کا ہے جس وقت تک ان کو توحید اور احکام شرع معلوم نہ تھے یا بڑی عمر میں اپنے باپ اور قوم کے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے انہوں نے یہ بات کی تھی۔ جو مفسر اس قول کو ابراہیم (علیہ السلام) کے بچہ اپنے کے زمانہ کا قول قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس وقت کا جو قصہ ہے اسکا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش کے سال اس وقت کے نجومیوں نے نمرودبن کنعان ملک عراق کے باردشاہ سے یہ کہا تھا کہ اس سال ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے سبب سے سلطنت نمرودی کو بڑا صدمہ پہنچے گا۔ یہ خبر سن کر اگرچہ نمرود نے اس سال جو لڑکے پیدا ہوئے ان کے قتل کا بڑا انتظام کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے انتظام کے آگے نہ انتظام نمرودی چل سکتا ہے نہ انتظام فرعونی آخر حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ہاں انتظام نمرودی کے خوف سے اتنا ہوا کہ حضرت ابراہیم ایک تہہ خانہ میں پیدا ہوئے اور چند سال کی عمر تک ان کو اسی تہہ خانہ میں رکھا گیا۔ اور جب حضرت ابراہیم کو اس تہہ خانہ سے باہر نکالا اور پہلے پہل انہوں نے تاروں اور چاند سورج کو دیکھا تو اسی وقت کی ان کی یہ باتیں ہیں جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن اکثر سلف کا قول یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عمر میں اپنے باپ اور تمام قوم کے الزام دینے کے لیے یہ باتیں منہ سے نکالی ہیں کیونکہ بچہ اپنے میں بھی سوا اللہ تعالیٰ کے ھذا اربی کا لفظ دوسرے کی شان میں نبی کی زبان سے ہرگز نہیں نکل سکتا کنعانی قوم ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کو پرستش کی غرض سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں زمین پر بھی بنا رکھی تھیں جن کی پوجا یہ لوگ کیا کرتے تھے اسی واسطے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے روبروبت پرستی اور ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کی پرستش کی غرض سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں زمین پر بھی بنا رکھی تھیں جن کی پوجا یہ لوگ کیا کرتے تھے اسی واسطے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے روبرو بت پرستی اور ستارہ پرستی دونوں باتوں کی مذمت بیان کی صحیح قول یہی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ہے اور تاریخ ان ہی آزر کا لقب ہے۔ ملکوت کے معنے ملک کے ہیں ملک کے آخر میں (ت) مبالغہ کے لیے بڑھائی گئی ہے ملکوت السموات سے مقصد سورج چاند اور تارے ہیں اور ملکوت الارض سے مقصد پہاڑ پیڑ اور دریا حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کو یہ سمجھ دی کہ وہ ان چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یقین میں ترقی حاصل کریں۔ حنیف کے معنے ایک طرف کو مائل ہونا حاصل مطلب یہ ہے کہ قوم کی ستارہ پرستی اور بت پرستی کے شریک کو چھوڑ کر میں تو توحید اور اللہ کی عبادت کی طرف مائل ہوا کیوں کہ جس نے آسمان زمین سب کچھ پیدا کیا تعظیم کے قابل وہی ہے اس کی تعظیم میں کسی کو شریک ٹھہرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی شفاعت کی بڑی حدیث کا ذکر ایک جگہ گذر چکا ہے جس میں یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی توحید ہوگی وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جاو ١ ؎ یگا۔ معتبر سند سے ابن ماجہ اور صحیح بان خزیمہ میں ابوہریرہ (رض) سے حدیث قدسی کی روایت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک کا کوئی نیک عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ٢ ؎ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید ذرہ برابر بھی قیامت کے دن فائدہ کی چیز ہے اور شریک ذرہ برابر بھی اس دن ضرر پہنچانے کی چیز ہے :۔ ١ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٧١ باب صفتہ القیامۃ والجنۃ والنائ۔ ٢ ؎ الترغیب والترہیب ج ١ ص ١٩ باب الریاء الخ ومشکوٰۃ باب الریاوالسمعۃ فصل اول

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:75) کذلک۔ اسی طرح۔ کما اریناہ فتح الشرک جس طرح ہم نے اس کو شرک کی قباحت (باپ کی اور اس کی قوم کی گمراہی) دکھائی تھی۔ اسی طرح ہم نے چشم بصیرت سے اس کو ملکوت السموت والارض کا مشاہرہ کرا دیا۔ نری۔ مضارع جمع متکلم۔ اری یری (باب افعال) اراء ۃ۔ ہم دکھاتے ہیں یہاں مضارع ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ملکوت۔ مصدر ۔ ملک سے مبالغہ کا صیغہ بذریعہ ایزادی وت اقتدار کامل ۔ غلبہ تامہ حکومت حقیقیہ۔ بقول راغب ۔ ملکوت۔ اللہ کی بادشاہت کے لئے مخصوص ہے۔ ولیکون۔ ای فعلنا ذلک لیکون (ہم نے ایسا اس لئے کیا) کہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ الموقنین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ معرفہ۔ مجرور ۔ الموقن۔ واحد۔ ایقان مصدر۔ عین الیقین کے مرتبہ پر فائز ہونے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اور اس سے دلائل دینتا کے مراتب کے طرف اشارہ ہے (رازی) کہ ہم نے ان کو نظام کائنات کا اسرا سمجھا دیئے جو معرفت توحید کی بہت بڑی دلیل ہے واضح رہے کہ یہ رویت بصری نہیں تھی بلکہ رویت بلحاظ بصیرۃ کے تھی جیسا کہ بعد کی تفصیل سے ثابت ہوتا ہے۔7 یعنی انہیں عین الیقین حاصل ہو اور پورے اطمینان قلب کے ساتھ اپنی قوم کو توحید دعوت سے سکیں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 75 تا 79 : نری (ہم دکھائیں گے) ملکوت ( نظام کائنات) الموقنین ( یقین کرنے والے) ‘ جن (چھا گیا) را ( اس نے دیکھا) ‘ کوکبا (ستارہ) ‘ وجھت ( میں نے چہرہ کرلیا۔ میں نے رخ کرلیا) ‘ فطر (اس نے بنایا۔ اس نے پیدا کیا) حنیفا (سب سے الگ۔ صرف اللہ کی عبادت کرنے والا) تشریح : آیت نمبر 75 تا 79 : ستارے ‘ چاند اور سورج۔ ان کے باری باری آنے اور غروب ہونے کا انداز کوئی انوکھا یا نیا نہیں ہے۔ ہر شخص ہر شب و روز دیکھا تا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ہزاروں بار دیکھا ہوگا۔ مگر ایک خاص وقت پر ہی یہ کھٹک کیوں ؟ اس کا ایک جواب تو شروع آیت ہی میں دیدیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھائے تاکہ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ دراضافہ ہوجائے۔ یہ تو فطرت کا روز مرہ کا معمول ہے لیکن ایک بار وہ عجائبات بن کر آئے یعنی انہوں نے دیکھنے والے کے دل میں ایک خاص کھٹک پیدا کی اور اسے غور فکر کی دعوت دی۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بات جو ہر روز لگاتار پیدا ہورہی ہے اچانک کسی موقع پر خاص کھٹک پیدا کردے۔ یہی کھٹک ہنری فورڈ کے دل میں پیٹرول اور پانی کو ملتے دیکھ ملتے دیکھ کر پیدا ہوئی۔ دوسرا اہم جواب یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ سب دیکھ رہے تھے اور علی الا علان بول رہے تھے۔ اپنے لئے نہیں بلکہ شرک والوں کو منطقی دلائل سے قائل کرنے کے لئے۔ ایک اور تکنیک جو ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حکم اور ڈانت کے لب و لہجہ میں نہیں کہا کہ تم لوگ شرک چھوڑو توحید میں آجائو۔ بلکہ عقل و تدبر کے ساتھ صرف اپنی مثال پیش کی کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس اللہ واحد کی طرف کرلیا ہے جو تمام مظاہر فطرت کا خالق اور مالک ہے جس کے حک پر ستارے چاند سورج نکلتے اور ڈوبتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَکَذَلِکَ نُرِیْ إِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِیْنَ (75) ” ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم اسی طرح زمین و آسمان کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لئے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے ۔ اس فطرت سلیمہ کے ساتھ ‘ اس کھلی بصیرت کے ساتھ اور طلب حق کی راہ میں اس خلوص کی وجہ سے اور اس اور صراحت کے ساتھ باطل کا انکار کی وجہ سے اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین و آسمان کی بادشاہت کے کچھ راز بتائے ‘ جن میں زمین اور آسمانوں میں مملکت الہیہ کے کچھ اصول تھے ۔ اس کائنات کے کچھ خفیہ راز جن پر یہ نظام استوار ہے ‘ پھر اللہ نے انہیں وہ دلائل و شواہد دیئے جو اس کائنات میں موجود تھے ۔ خود ان کی فطرت اور انکے دل کے اندر بھی ان ہی جیسے دلائل و شواہد موجود تھے جو راہ ہدایت دکھا رہے تھے تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باطل کے انکار کے مقام سے آگے بڑھ کر حصول حق اور معرفت حق کے درجے تک پہنچ جائیں اور انہیں پوری طرح یقین آجائے ۔ یہ ہے فطرت کا گہرا طریق کار۔ اس کے مطابق جو فراست دی جاتی ہے وہ کبھی بھی زنگ آلود نہیں ہو سکتی اور انسان کے اندر ایسی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے جو اپنی آنکھوں سے اس کائنات میں قدرت کے عجائبات کو دیکھتی ہے ۔ انسان کے اندر ایسا تدبر پیدا ہوتا ہے جو ان مشاہدات عجیبہ کا تتبع کرتا ہے اور آخر کار راز کائنات تک جا پہنچتا ہے ۔ جب اس کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس انسان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ یوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کائنات کی سیر شروع کی اور اس راہ سے انہیں اللہ کے فضل وصل نصیب ہوا ۔ پہلے تو وہ اپنی فطرت سلیمہ کے ذریعے حق تعالیٰ کو پکار رہے تھے لیکن اب تو آپ کی قوت مدرکہ اور آپ کے علم میں ذات باری موجود تھی ۔ پہلے تو حقیقت الوہیت کا شعور ان کے ضمیر اور ان کی فطرت سلیمہ میں تھا مگر اب یہ حقیقت ان کے فہم وادراک میں آچکی تھی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت صادقہ اور فطرت سلیمہ کا یہ سفر نہایت ہی دلچسپ ہے ۔ اس کا مطالعہ جاری رہنا چاہئے یہ عظیم سفر تھا اگرچہ چشم ظاہر بین کو یہ سفر ایک معمولی سفر نظر آتا ہے ۔ یہ سفر درحقیقت فطری ایمان سے آگے بڑھ کر ایمان مدرک اور ایمان مفہومہ کی طرف انتقال تھا ۔ ایمان مدرک اور ایمان مفہوم کے اوپر ہی شرعی فرائض اور واجبات کا دارومدار ہوتا ہے اور پھر انسان پر شریعت کا اتباع فرض ہوجاتا ہے ۔ یہ ایمان اور اتباع شریعت ‘ وہ مقام ہے جسے صرف لوگوں کے عقلی سفر پر ہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اللہ نے اس کے بیان اور تشریح کے لئے نبوت کو جاری کیا اور سلسلہ رسل کو جاری فرمایا تاکہ لوگ ایمان و شریعت کو صرف اپنی عقل ہی سے معلوم نہ کریں بلکہ رسول اس کی تبلیغ اور تبیین کریں۔ لوگوں پر عقلی ایمان کے بجائے شرعی ایمان اور شرعی دلائل حجت قرار پائیں ۔ آخرت میں بھی جزا وسزا کا مدار ان احکام شرعی پر ہوگا جو رسولوں کی زبانی نازل نہیں ہوئے اور یہ سلسلہ اس لئے جاری کیا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان صرف اپنی عقل سے ایمان و شریعت کی تفصیلات طے نہیں کرسکتا ۔ رہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے ۔ وہ ایک عام انسان نہ تھے ۔ وہ اللہ کے دوست تھے اور مسلمانوں کے ابو الاباء تھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81 اس میں کاف بیان کمال کے لیے ہے یعنی یوں زمین و آسمان کے عجائب ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھانا یہ ہمارا ہی کمال ہے اور نُرِیَ فعل مضارع ماضی کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ای عرفناہ و بصرناہ (روح) مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْض سے زمین و آسمان کے عجائبات اور قدرت خداوندی کی آیات مراد ہیں۔ وَلِیَکُوْنَ اس کا معطوف علیہ محذوف ہے ای لیستدل بہ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 اور ہم نے اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات و مملوکات اور بصیرت افروز حقائق دکھائے تاکہ اس کو معرفت کامل طور پر حاصل ہوجائے اور تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے یعنی معرفت الٰہی تو انہیں پہلے ہی سے حاصل تھی ان کی معرفت کو قوی تر کرنے اور ان کے ایقان کو کامل کرنے کے لئے ہم نے اپنی مخلوقات اور اپنی سلطنت کے عجائبات کی معرفت عطا کی تاکہ ان کو عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوجائے اور وہ راسخین فی الایقان میں شامل ہوجائیں۔