Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 77

سورة الأنعام

فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷۷﴾

And when he saw the moon rising, he said, "This is my lord." But when it set, he said, "Unless my Lord guides me, I will surely be among the people gone astray."

پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When he saw the moon rising up, he said: "This is my lord." But when it set, he said: "Unless my Lord guides me, I shall surely be among the misguided people."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] انبیاء کے والدین کو شرک سے بری ثابت کرنے کا نظریہ :۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم کے باپ کا اصلی نام تارح تھا اور آزر ان کا لقب تھا۔ پھر وہ لقب سے زیادہ مشہور ہوگئے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کا اصل نام آزر تھا اور تارح لقب تھا۔ یہ باتیں تو ایسی ہیں جن میں کسی کے اختلاف کرنے کی ضرورت نہیں مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم کے باپ کا نام تارح تھا اور آزر آپ کے چچا کا نام تھا اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ پیغمبر کا باپ مشرک نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ایک تو قرآن کے ظاہر الفاظ کے خلاف ہے دوسرے اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بناء فاسد علی الفاسد پر مبنی ہے کیونکہ پیغمبروں کے مبعوث ہونے کا وقت ہی وہ ہوتا ہے جب دنیا میں کفر و شرک اور فتنہ و فساد عام پھیل جاتا ہے اور اس کلیہ سے مستثنیٰ صرف وہ انبیاء ہیں جن کی قرآن یا حدیث میں صراحت آگئی ہے۔ مثلاً سیدنا ابراہیم کے بیٹے اسماعیل اور اسحاق اور ان کے بیٹے اور پوتے یعنی یعقوب اور یوسف (علیہ السلام) سب نبی تھے یا سلیمان (علیہ السلام) کے باپ داؤد نبی تھے۔ ان انبیاء کے علاوہ دوسرے نبیوں کے باپ یا ماں باپ دونوں کو غیر مشرک ثابت کرنا ایسا تکلف ہے جسے تکلف کرنے کے باوجود بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۝ ٠ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ يَہْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ٧٧ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ بزغ قال تعالی: فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بازِغَةً [ الأنعام/ 78] ، فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بازِغاً [ الأنعام/ 77] أي : طالعا منتشر الضوء، وبَزَغَ النَّابُ ، تشبيها به، وأصله من : بَزَغَ البیطارُ الدَّابَّةَ : أسال دمها فبزغ هو، أي : سال . ( ب ز غ ) بزغ الشمس کے معنی ہیں سورج کا طلوع ہونا ۔ جب کہ اس کی روشنی پھیل رہی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بازِغَةً [ الأنعام/ 78] پھر جب سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا ۔ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بازِغاً [ الأنعام/ 77] پھر جب چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا ۔ تغبیہ کے طور پر بزغ الناب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی اونٹ کی نیش نکل آنا کے ہیں ۔ اصل میں یہ بزغ البیطار الدابۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جانور کے نشتر لگا کر خون بہانا کے ہیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) جب چاند پر نظر پڑی تو بولے کیا یہ اللہ ہوسکتا ہے یہ تو پہلے سے بڑا ہے، جب وہ غائب ہوگیا تو فرمایا کہ اگر مجھے میرا رب حقیقی ہدایت نہ کرتا جیسا کہ اب تک ہدایت کرتا رہتا ہے تو میں بھی تم لوگوں کی طرح بھٹک جاتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (فَلَمَّا رَاَالْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیْج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَءِنْ لَّمْ یَہْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ۔ ) ۔ گویا یہ وہ الفاظ ہیں جن سے متبادر ہوتا ہے کہ شاید ابھی آپ ( علیہ السلام) کا اپنا ذہنی اور فکری ارتقاء ہو رہا ہے۔ لیکن ان دونوں پہلوؤں پر غور و فکر کے بعد جو رائے بنتی ہے وہ یہی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے یہ تدریجی انداز اختیار کیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:77) بازغا۔ درخشاں۔ روشن۔ بزوغ سے بمعنی طلوع ہونا۔ چمکنا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بات یا تو تو استفہام انکاری کے لہجہ میں فرمائی یعنی کیا یہ میرا رب ہے یا بطور ایسے مفروضہ کے جو صحیح نہیں ہوسکتا تھا کہ آگے چل دلنشیں طریقہ سے ان کے عقیدہ کی غلطی واضح کی جاسکے کیونکہ وہ لوگ کو اکب (ستاروں) کی پرستش کرتے تھے اور انہیں کو اپنے رب سمجھتے تھے۔ (رازی)9 یعنی سیدھی اور سچی راہ پر قائم رکھے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فَلَمَّا رَأَی الْقَمَرَ بَازِغاً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ یَہْدِنِیْ رَبِّیْ لأکُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّیْنَ (77) ” پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ میرا رب ہے ‘ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری راہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ہوتا ۔ “ سابقہ تجربہ بھی سامنے آتا ہے ۔ نظر یوں آتا ہے کہ گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے قبل چاند کو دیکھا تک نہ تھا ۔ گویا آپ کو پتہ تک نہ تھا کہ آپ کا خاندان اور آپ کی قوم چاند کی پرستش کرتی ہے ۔ اور یہ کہ آج کی رات بالکل ایک نئی رات تھی (غور وفکر کی رات) (آیت) ” قال ھذا ربی “۔ (٦ : ٧٧) انہوں نے کہا یہ میرا رب ہے ۔ “ یہ پوری کائنات پر اپنا نور نچھاور کر رہا ہے ‘ آسمانوں میں اکیلا نظر آتا ہے اور اس کی روشنی بھی پسندیدہ ہے لیکن دیکھو یہ بھی غائب ہو رہا ہے لیکن رب کائنات جس سے فطرت ابراہیمی خوب واقف تھی ‘ وہ تو غائب نہیں ہوتا ‘ وہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں جاگزیں تھا ۔ اس مقام پر آکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس حل طلب مسئلے کو وہ ذاتی غوروفکر ہی سے حل نہیں کرسکتے اور انہیں اس رب ذوالجلال کی جانب سے معاونت کی ضرورت ہے جسے ان کی فطرت پار ہی ہے اور جو ان کے ضمیر میں بیٹھا ہے ۔ ہو رب جسے وہ محبوب رکھتے ہیں لیکن وہ آپ کے ادراک اور آپ کی فہم میں نہیں اتر رہا ۔ آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس مقام پر اگر ان کا رب انہیں ہدایت نہ کرے گا تو وہ صحیح راہ نہ پا سکیں گے ۔ اب اس رب کی جانب سے دست گیری کی ضرورت ہے ۔ اس کی جانب سے براہ راست راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ (آیت) ” قال لئن لم یھدنی ربی لاکون من القوم الضالین “۔ (٦ : ٧٧) ” کہا اگر میرے رب نے میری راہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاتا ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو مختلف عنوانات سے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اس کے ذیل میں ستارہ پرستوں سے بھی خطاب فرمایا۔ علامہ ابن کثیر دمشقی البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٠١ میں لکھتے ہیں کہ دمشق اور اس کے آس پاس کے لوگ کو اکب سبعہ (سات ستاروں) کی عبادت کیا کرتے تھے۔ دمشق کے سات دروازے تھے اور وہاں میلے لگاتے تھے۔ اور بھینٹ اور نذرانے چڑھاتے تھے۔ (کو اکب سبعہ سے شمس۔ قمر۔ زحل۔ عطارد۔ مریخ۔ مشتری۔ اور زہرہ مراد ہیں) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو یہاں قرآن مجید میں مذکور ہے۔ اپنے علاقے سے ہجرت کرنے کے بعد دمشق کے آس پاس کہیں پیش آیا واقعہ یہ ہے کہ ان کو ایک چمکدار ستارہ نظر آیا صاحب روح المعانی ج ٧ ص ١٩٨ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ ستارہ مشتری تھا اور حضرت قتادہ (رض) کی طرف یوں منسوب کیا ہے کہ یہ ستارہ زہرہ تھا۔ بہر حال جو بھی ستارہ ہو خوب چمکدار اور روشن تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے دیکھ لیا تو اس وقت جو ستارہ پرست موجود تھے ان سے بطور فرض بحیثیت ایک الزام دینے والے مناظر کے یوں فرما دیا کہ یہ میرا رب ہے خود تو موحد تھے غیر اللہ کو رب نہیں مانتے تھے لیکن ان کو آخر میں قائل کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا، وہ ستارہ کچھ دیر کے بعد چھپ گیا تو آپ نے فرمایا کہ چھپ جانے والوں اور غروب ہونے والوں سے میں محبت نہیں کرسکتا، جو چھپ گیا وہ کہاں اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ابھی صاف بات نہ کہی حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا۔ اس کے بعد چاند نظر آیا جو بہ نسبت ستاروں کے بڑا تھا اور خوب زیادہ روشنی والا تھا۔ اس کو دیکھ کر اسی پہلے انداز کے مطابق فرما دیا کہ یہ میرا رب ہے پھر وہ بھی غروب ہوگیا تو اس مرتبہ فرمایا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں گمراہوں میں سے ہوجاتا۔ جب ستارہ غروب ہوا تھا تو فرمایا تھا کہ میں چھپ جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ یعنی جو غائب ہوجائے اور ذاتی طور پر ایک حال پر باقی نہ رہ سکے میں اسے معبود نہیں مان سکتا، بات کو اپنے اوپر رکھ کر کہا جو گمراہوں کو دعوت دینے کا تبلیغی طریقہ ہے اس میں ان لوگوں پر تعریض تھی کہ تم لوگ عجیب ہو۔ جسے اپنے اوپر اختیار نہیں اس کو معبود بنائے ہوئے ہو، چونکہ پہلی مرتبہ ستارہ کے غروب ہونے پر وہ لوگ کسی درجہ میں قائل ہوچکے تھے اس لیے چاند کے غروب ہوجانے پر بات کا رخ بدل دیا۔ اس مرتبہ (لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ) نہیں فرمایا بلکہ یوں فرمایا (لَءِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبّیِْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ) اس میں بھی بات کو اپنے اوپر رکھا اور فرمایا میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں گمراہوں میں سے ہوتا۔ اس میں اشارۃً یہ بیان فرما دیا کہ تم لوگ ستارہ پرستی کی وجہ سے گمراہ ہو پھر جب سورج نکلا وہ اپنی چمک اور روشنی میں ستاروں سے اور چاند سے بڑھ کر تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ میرا رب ہے یہ پہلے دونوں چمک دار ستاروں سے بڑا ہے۔ چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی دنیا میں رہتے تھے۔ اور روزانہ آفتاب کو بھی دیکھتے تھے۔ اور انہیں معلوم تھا کہ آفتاب سے بڑا دوسرا کوئی ستارہ اپنے وجود مادی اور چمک دمک کے اعتبار سے نہیں ہے، اور اس کے بعد کوئی بڑا ستارہ طلوع ہونے والا نہیں لہٰذا ان کے پاس تیسری مرتبہ ستارہ پرستوں کو قائل کرنے کا موقع تھا اس لیے سورج کے غروب ہونے کا انتظار فرمایا، جب سورج بھی غروب ہوگیا تو بہت زور دار طریقہ پر فرما دیا۔ (یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓ ءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) (کہ اے میری قوم ! جن چیزوں کو تم شریک بناتے ہو میں ان چیزوں سے بری ہوں بیزار ہوں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حاضرین کو بتایا کہ جن چیزوں کو تم معبود بناتے ہو کہ تم نے معبود حقیقی کی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ تمہارا یہ طریقہ غلط ہے جن چیزوں کو تم پوچتے ہو یہ تو اسی خدا وحدہ لا شریک کی مخلوق ہیں جس کی مشیت اور ارادہ سے ان کا وجود ہے۔ اور جس کی مشیت و ارادہ سے یہ آتے جاتے ہیں نکلتے ہیں اور چھپتے ہیں۔ نیز یہ بھی بتادیا کہ میں شرک سے بری ہوں جس میں تم لگے ہوئے ہو تمہیں بھی شرک سے بیزار ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ خالق جل مجدہ کے علاوہ کسی کو پوجنا راہ ہدایت کے خلاف ہے۔ اس بات کی طرف (لَءِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبّیِْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ) فرما کر اشارہ کرچکے تھے۔ کنایہ اور اشارہ کے بعد تصریح کا راستہ اختیار فرمایا اور واضح طور پر فرما دیا کہ (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) میں نے اپنا رخ پھیر دیا اس ذات پاک کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ میں باطل معبودوں کی طرف متوجہ نہیں ہوں میں ان سے منہ موڑے ہوئے ہوں اور شرک کرنے والا نہیں ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

83 پھر جب چمکتا ہوا چاند دیکھا تو کہا کیا یہ میرا رب ہے، کیا میں بھی اس کو اپنا رب اور کارساز بنا لوں ؟ فَلَمَّا اَفَلَ الخ لیکن جب چاند بھی غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اگر اللہ نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی اور مجھے سیدھی راہ نہ دکھائی ہوتی تو آج میں بھی ان ستارہ پرست مشرکین کی طرح گمراہ ہوتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھاتو فرمایا کیا تمہارے زعم باطل اور عقیدہ فاسدہ میں یہ میرا رب ہے ؟ …… پھر جب وہ چاند بھی غروب ہوگیا تو ابراہیم نے کہا اگر میرا پروردگار میری صحیح رہنمائی نہ فرمائے تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں سے ہو جائوں اور تمہاری طرح میں بھی گمراہوں میں شامل ہو جائوں یعنی اگر تمہاری طرح میں چاند کو متصرف فی الاحوال مان لوں جیسا کہ تم مانتے ہو تو میں بھی تمہاری طرح گمراہ ہو جائوں۔