Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 78

سورة الأنعام

فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿۷۸﴾

And when he saw the sun rising, he said, "This is my lord; this is greater." But when it set, he said, "O my people, indeed I am free from what you associate with Allah .

پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي ... When he saw the sun rising up, he said: "This is my lord." this radiating, rising star is my lord, ... هَـذَا أَكْبَرُ ... This is greater, bigger than the star and the moon, and more radiant. ... فَلَمَّا أَفَلَتْ ... But when it Afalat, (set), ... قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 شمس سورج عربی میں مونث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بےحیثیتی کو واضح فرمایا۔ 78۔ 2 یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں ؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ ہٰذَآ اَكْبَرُ۝ ٠ۚ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝ ٧٨ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) جب سورج کی روشنی نے آب وتاب دکھائی تو بولے یہ تو پہلے دونوں سے بڑا ہے تمہارے خیال میں کیا یہ اللہ بن سکتا ہے جب اس میں بھی تبدیلی شروع ہوئی اور وہ بھی غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں ایسے غروب ہونے والوں سے محبت نہیں رکھتا اور جس کو خود ہی ایک حالت پر بقاء نہ اللہ کیسے ہوسکتی ہے اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح بےراہ ہوجاتا۔ (یہ اپنی بت پرست ومظاہر پرست قوم کو سمجھانے کا ایک تمثیلی انداز تھا کہ کس طرح آپ بتدریج ایک چھوٹے مظہر سے بڑے مظہر (سورج) تک ایک استفہامی طرح سے آئے اور بالآخر توحید حقیقی کا سبق دیا، کہ اصل حقیقت یہ ہے اور اے میری قوم، تم کن گمراہیوں میں گرفتار ہو، توحید کا یہ اصلی سبق دینا ہی آپ کا مقصود تھا اور یہ اس کو سمجھانے کا خاص انداز تھا وگرنہ پیغمبر شروع ہی سے حق اور توحید کا مل کا مومن اور داعی ہوتا ہے، اس کی توحید ہر ہر پہلو سے مکمل ہوتی ہے، اسے توحید میں کسی ” تدریجی ارتقا “ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (مترجم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا یہ میرا رب ہے بطور مذاق فرمایا کیوں کہ ان کی قوم چاند، سورج اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی تو اپنی قوم کی تردید کی اور بطور مذاق کے ان سے پوچھا کہ کیا یہ چیزیں تمہارے رب ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. Here some light is thrown on the mental experience through which Abraham passed in the beginning and which led him to an understanding of the Truth before prophethood was bestowed on him. This experience shows how a right-thinking and sound-hearted man, who had opened his eyes in a purely polytheistic environment and had received no instruction in monotheism, was ultimately led to discover the Truth by careful observation of, and serious reflection on the phenomena of the universe. The account of the conditions prevailing among the people of Abraham shows that when he began to think seriously the scene was dominated by the worship of the heavenly bodies - the moon, the sun and the stars. It was natural, therefore, that when Abraham began his quest for the Truth, he should have been faced with the question: Is it possible that any of these - the sun, the moon and the stars - is God? He concentrated his reflection on this central question and by observing that all the gods of his nation were bound by a rigid law under which they moved about like slaves, he concluded that those so-called gods were not possessed of even a shadow of the power of the One True Lord, Who alone had created them all and had yoked them to serve His will. The Qur'anic passage describing Abraham's reactions on observing first a star, then the moon, and finally the sun, has puzzled some readers because the words seem to suggest that Abraham had never before witnessed these common phenomena. This misconception has made the whole narration such a riddle for some scholars that they could only solve it by inventing the strange anecdote that Abraham was born and grew to maturity in a cave and was thus deprived of the opportunity to observe the heavenly bodies. What is said, however, is so plain that one need not fall back on any such incident in order to comprehend it. It is well known, for instance, that when Newton saw an apple fall from a tree in his orchard this incident instantly raised in his mind the question: Why do things always fall to the ground? As a result of his reflection on this question he arrived at his theory of gravity. On reading this incident one might wonder if Newton had never before seen anything fall to the ground! Obviously, he must have seen things fall. For what reason, then, should the failing of an apple cause in his mind a reaction quite different irom those caused by hundreds of earlier observations of similar things failing? The answer is that a reflecting mind does not react uniformly to similar observations. A man may observe something over and over again without this observation creating any stir in his mind, but then there comes a moment when suddenly the same observation agitates his mind and his mental faculty begins to work in a different direction. It may also happen that while a man's mind is wrestling with a problem, he encounters something which is otherwise quite ordinary but which suddenly seems to provide the key. Something to this effect happened with Abraham. Certainly, he was as familiar as anyone else with nightfall and the ensuing daybreak. The sun, the moon and the stars had all risen before his eyes in the past and had then disappeared from sight. But on one particular day his observation of a star was to stimulate his thinking in a certain direction and to lead him in the end to perceive the truth of God's Oneness. It is possible that Abraham's mind was already engrossed in reflecting on whether, and if so to what extent, the beliefs which served as the foundation of the entire life-system of his people embodied the Truth. when he spotted a star which provided him with the initial key to the solution of the problem. It is also possible that the observation of a particular star first set him thinking about the problem. Another question that arises is whether Abraham's statements about the star, the moon and the sun show that he lapsed into polytheism temporarily. The answer must be that, while a seeker after the Truth may pause on the way to his goal, what really matters is his direction and the end-point of his journey rather than the intermediary stages. These stages are inevitable for every seeker of the Truth. A man stops at them to inquire and question rather than to pronounce his final judgement. During these stages of the quest a man may seem to express the opinion: 'That is so', but what he is really doing is asking himself the question: 'Is it really so?' When serious investigation leads to a negative answer, he proceeds further and continues the quest. Hence, it would be wrong to think of such a seeker having temporarily fallen victim to polytheism and unbelief whenever he paused at an intermediary stage for critical reflection.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :53 ”یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ابتدائی تفکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدماغ اور سلیم النظر انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امر حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اوپر قوم ابراہیم علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے ، رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبور کیا ہے ۔ اس قصہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر سورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا ، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر تو انہوں نے سن رشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا ۔ پھر یہ قصہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا ؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انہیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا ، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے ۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابل حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمولی قصہ تصنیف کریں ۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سن رشد کو پہنچنے تک وہ چاند ، تاروں اور سورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے ۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجہ ہوگیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانون جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہوگی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی خاص تاریخ کو سیب گرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روز مرہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور وفکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی ، مگر ایک وقت اسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں ۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن الجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روز مرہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا وہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں ۔ سورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے ۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحید الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے ۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظام زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے ، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آکر کشود کار کے لیے کلید بن گیا ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو ۔ اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیم ہی نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے ، اور جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے ، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلہ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے“ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”ایسا ہے“؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:78) ھذا ربی۔ اھزا ربی۔ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ان استفہامیہ محذوف ہے اور استفہام انکاری کے طور پر آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے میری قوم کیا یہ میرا رب ہے ؟ ہرگز نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اب اصل بات کھولی اور اپنا عقیدہ واضح کیا پہلی تمام باتیں صرف اس لیے تھیں کہ یہ جاہل لوگ اصل حقیقت کے قاتل ہوں اور اپنے عقیدہ کی غلطی پر غور کریں۔ (وحیدی) اکثر علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کے بعد ان کو ایک غار (سرب) میں ڈال گیا تھا تاکہ بادشاہ قتل نہ کردے اور یہ کوکب قمر اور شمس کا ْقصہ وہیں پیش آیا اور حضرت ابراہیم نے تدریجا اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور توحید کی معرفت حاصل کی مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ ساری گفتگو قوم کے ساتھ مناظرہ کے دوران میں ہے جیسا کہ آخر میں یاقوانی بری مما نشر کون اس پر فددلالت کرتا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ چونکہ اس معمورہ میں جس میں بابل وحلب بھی داخل ہے جو کہ بقول مورخین موقع تھا اس گفتگو کا ایک شب میں بروئے رفتار معتاد کواکب کے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ماہتاب کا طلوع اپنے افق سے سیارہ کے غروب کے بعد ہو اور پھر طلوع شمس سے پہلے غروب ہوجائے۔ اس لیے یہ تینوں واقعے ایک شب کے نہیں ہوسکتے یا تو دو شب کے ہیں یا تین شب کے پس دونوں جگہ فلما رای میں جو فاء ہے وہ تعقیب واقتران عرفی کے لیے نہ کہ حقیقی کے لیے۔ 5۔ یعنی برات ظاہر کرتا ہوں یوں اعتقاد تو ہمیشہ سے بیزاری تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ ہَـذَا أَکْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (78) إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (79) ” پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے ۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیم پکار اٹھا ” اے برادران قوم ! میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ میں یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ “ یہ تیسرا تجربہ ہے اور یہ تجربہ اس کائنات کے سب سے بڑے کرے کے ساتھ ہوا جسے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جس کی ضو پاشیاں عیاں ہیں اور جس کی گرمی محسوس ہوتی ہے ۔ یہ سورج تو روز طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے لیکن وہ آج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نظروں میں بالکل ایک نئی چیز ہے ۔ (وہ نئے زاوئیے سے اسے دیکھ رہے ہیں) آج تو ابراہیم ان تمام چیزوں کو اس زاوئیے سے جانچ رہے ہیں کہ آیا ان میں سے کوئی چیز اس قابل ہے کہ اسے الہ تسلیم کیا جائے اس پر دل مطمئن بھی ہوجائے اور اس پریشانی اور حیرت انگیرمسئلے کے حل کی طویل جدوجہد میں یہ امر فیصلہ کن ہو۔ (آیت) ” قال ھذا ربی ھذا اکبر “۔ (٦ : ٧٨) ” کہا یہ میرا رب ہے ! یہ سب سے بڑا ہے ۔ “ لیکن تعجب ہے کہ یہ بھی غائب ہو رہا ہے ۔ اس مقام پر دونوں حقائق آپس میں جرٹے ہیں۔ اس اتصال والتباس سے ایک چنگاری نکلتی ہے ۔ یہاں فطرت صادقہ اور ذات کبریا کے درمیان اتصال ہوجاتا ہے ۔ قلب سلیم روشنی سے معمور ہوجاتا ہے اور پھر یہ روشنی پوری کائنات کو منور کردیتی ہے ۔ اس کے ذریعے انسان کی عقل وفکر بھی روشن ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مطلوب الہی مل جاتا ہے ۔ جس طرح ان کی فطرت اور ان کے شعور میں وہ موجود تھا ۔ اس کا تصور ان کے فہم وادراک میں بھی آجاتا ہے اور فطرت کے شعور احساس اور عقلی ادراک کے درمیان اتحاد وتوافق ہوجاتا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا رب والہ مل جاتا ہے ۔ لیکن یہ الہ کسی چمکدار ستارے کی شکل میں بھی نہیں ۔ کسی طلوع ہونے والے چاند کی شکل میں نہیں ‘ بلند ہونے والے سورج کی شکل میں نہیں ‘ کسی ایسی شکل میں نہیں جسے آنکھ دیکھ سکے ‘ کسی ایسی صورت میں بھی نہیں جسے انسان چھو سکے ‘ بلکہ یہ الہ ان کے شعور اور فطرت میں ہے ‘ ان کی عقل اور فہم میں ہے ‘ اس پوری کائنات میں ہر جگہ موجود ہے ۔ وہ ان تمام مخلوقات کا خالق ہے جسے آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے محسوس کیا جاسکتا ہے یا جس کا انسانی عقل ادراک کرسکتی ہے ۔ اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی اور ان کی قوم کے درمیان اب مکمل جدائی کا وقت آگیا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ آپ ان تمام معبودات باطلہ سے اپنی اعلانیہ برات کا اظہار کردیں اور دو ٹوک انداز میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ان کے نقطہ نظر اور ان کے منہاج حیات اور مشرکانہ عقائد وخیالات کو یکسر رد کردیں ۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ لوگ ذات کبریائی کے بالکل منکر نہ تھے لیکن صورت حال ایسی تھی کہ وہ لوگ حقیقی الہ کے ساتھ ان جھوٹے خداؤں کو شریک کرتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) الہ العالمین کی طرف اس طرح متوجہ ہوئے تھے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے تھے ۔ ” تو ابراہیم پکار اٹھا ” اے برادران قوم ! میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ میں یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ “ اب گویا ان کا رخ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے کی طرف مڑ گیا اور اس قدر یکسوئی کے ساتھ مڑا کہ اس میں شرک کاشائبہ تک نہ رہا ۔ انہوں نے فیصلہ کن بات کردیں یقین محکم کا اظہار کردیا اور آخری طور پر اپنا رخ متعین کرلیا ۔ اب نہ تو کوئی تردو ہے ‘ نہ الجھن ۔ عقل وادراک اس طرح روشن ہوگئے جس طرح اس کا شعور اور ضمیر روشن تھے ۔ ایک بار پھر ہم آنکھوں کو خیرہ کردینے والا خوش کن منظر دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک نظریہ حیات کا منظر ہے جو نفس انسانی کے اندر نمودار ہوگیا ہو ‘ جو کسی دل پر غالب اور حاوی ہوگیا ہو ‘ جو پوری طرح واضح اور نمایاں ہوگیا ہو اور اس سے ہر قسم کا غبار چھٹ گیا ہو۔ یہ منظر ہمارے سامنے آتا ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت پر وہ چھایا ہوا ہے اور اس نے اس شخصیت کے ہر پہلو کو ڈھانپ لیا ہے ۔ اس شخصیت کا کاسہ دل کو شراب اطمینان سے بھر دیا ہے اب اسے اپنے اس رب پر پورا اعتماد ہے جسے اس نے طور پر پالیا ہے اور وہ اس کے اردگرد کے وجود پر چھایا ہوا ہے ۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو سیاق کلام کے آنے والے جملوں کے اندر اچھی طرح نمایاں ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اب اپنے ضمیر ‘ اپنی عقل اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے وجود کے اندر اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں ۔ انکی مشکل حل ہوگئی ہے اور ان کا دل مطمئن ہے ۔ اب وہ محسوس کر رہے ہیں کہ دست قدرت اس راہ میں ان راہنمائی کر رہا ہے اب تو ان کی قوم سامنے آتی ہے اور یہ قوم ان نتائج کو چیلنج کر رہی ہے جن تک وہ جاپہنچے ہیں اور انہیں ان کا یقین حاصل ہوگیا ہے ۔ ان کے دل میں عقیدہ توحید بیٹھ گیا ہے ۔ یہ قوم اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے خداؤں سے ڈراتی ہے کہ یہ الہ انہیں نقصان پہنچائیں گے اور آپ ان کو نہایت ہی اعتماد ایک راسخ العقیدہ مسلم کی طرح جواب دیتے ہیں اور یہ جواب وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح اپنے رب پر اپنے عقیدے کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84 جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ سورج نکل آیا ہے تو فرمایا یہ ان سب سے بڑا ہے کیا میرا رب ہے ؟ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا اب میری حجت تم پر قائم ہوچکی اور تم نے دیکھ لیا کہ تمہارے معبود کس قدر ناپائیدار ہیں اسلیے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں ان تمام معبودان باطلہ سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ الخ میں تو اس سے پہلے باطل معبودوں سے منہ موڑ کر اپنا چہرہ اس منزہ صفات کی طرف پھیر چکا تھا جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں نے کبھی مشرکین کا عقیدہ قبول نہیں کیا۔ فائدہ : مرزا غلام احمد قادیانی کذاب نے ابتداء میں اپنی بعض کتابوں میں لکھا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہیں جو شخص وفات مسیح کا قائل ہو وہ مشرک ہے لیکن بعد میں جب اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا تو وہ خود وفات مسیح کا قائل ہوگیا تو اس پر اعتراض کیا گیا کہ پہلے تو مشرکانہ عقیدے پر تھا اور نبی نبوت سے پہلے بھی شرک سے پاک ہوتے ہیں تو اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذکورہ واقعہ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ نبیوں سے قبل نبوت شرک جیسا گناہ بھی سرزد ہوسکتا ہے (العیاذ باللہ) حالانکہ یہ صریح کفر ہے۔ قادیانی نے ان آیتوں میں دیدہ دانستہ تحریف کی ہے اور دعوی کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس واقعہ کے بعد اللہ کی توحید کا علم ہوا جو سراسر غلط ہے۔ وہ اس واقعہ سے قبل بھی موحد ہی تھے۔ شرک تو اکبر الکبائر ہے اور اللہ کے نبی قبل نبوت صغیرہ گناہوں سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ ۔ صیغہ ماضی منفی اور اسی طرح اِنِّیْ وَجَّھْتُ ماضی کا صیغہ ہے اور پھر آگے چل کر فرمایا وَحَاجَّہٗ قَوْمُہٗ قَالَ اَتُحَاجُّوْنِّیْ فِیْ اللہِ ۔ یہاں بھی وَ قَدْھَدَان ماضی کا صیغہ ہے پھر اس کے بعد ارشاد فرمایا وَتِلْکَ حُجَّتُنَا اٰتَیْنَا ھَا اِبْرَاھِیمَ عَلیٰ قَوْمِہٖ یہ تمام قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس واقعہ سے قبل بھی توحید پر ہی تھے اور یہ طرز استدلال نہیں اللہ کی طرف سے ان کی قوم پر بطور حجت عطا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بارہ سال تک غار میں رہے اس کے بعد انہیں غار سے نکالا گیا یہ بےبنیاد ہے

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کو چمکتا ہوا دیکھ کر فرمایا گیا یہ تمہارے زعم باطل میں میرا رب ہے یہ تمام اجرام فلکی اور اجرام علوی میں سب سے بڑا بھی ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم بلاشبہ میں ان تمام چیزوں سے بیزار اور بری الذمہ ہوں جن کو تم خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہو۔