53. Here some light is thrown on the mental experience through which Abraham passed in the beginning and which led him to an understanding of the Truth before prophethood was bestowed on him. This experience shows how a right-thinking and sound-hearted man, who had opened his eyes in a purely polytheistic environment and had received no instruction in monotheism, was ultimately led to discover the Truth by careful observation of, and serious reflection on the phenomena of the universe. The account of the conditions prevailing among the people of Abraham shows that when he began to think seriously the scene was dominated by the worship of the heavenly bodies - the moon, the sun and the stars. It was natural, therefore, that when Abraham began his quest for the Truth, he should have been faced with the question: Is it possible that any of these - the sun, the moon and the stars - is God? He concentrated his reflection on this central question and by observing that all the gods of his nation were bound by a rigid law under which they moved about like slaves, he concluded that those so-called gods were not possessed of even a shadow of the power of the One True Lord, Who alone had created them all and had yoked them to serve His will.
The Qur'anic passage describing Abraham's reactions on observing first a star, then the moon, and finally the sun, has puzzled some readers because the words seem to suggest that Abraham had never before witnessed these common phenomena. This misconception has made the whole narration such a riddle for some scholars that they could only solve it by inventing the strange anecdote that Abraham was born and grew to maturity in a cave and was thus deprived of the opportunity to observe the heavenly bodies. What is said, however, is so plain that one need not fall back on any such incident in order to comprehend it. It is well known, for instance, that when Newton saw an apple fall from a tree in his orchard this incident instantly raised in his mind the question: Why do things always fall to the ground? As a result of his reflection on this question he arrived at his theory of gravity. On reading this incident one might wonder if Newton had never before seen anything fall to the ground! Obviously, he must have seen things fall. For what reason, then, should the failing of an apple cause in his mind a reaction quite different irom those caused by hundreds of earlier observations of similar things failing? The answer is that a reflecting mind does not react uniformly to similar observations. A man may observe something over and over again without this observation creating any stir in his mind, but then there comes a moment when suddenly the same observation agitates his mind and his mental faculty begins to work in a different direction. It may also happen that while a man's mind is wrestling with a problem, he encounters something which is otherwise quite ordinary but which suddenly seems to provide the key. Something to this effect happened with Abraham. Certainly, he was as familiar as anyone else with nightfall and the ensuing daybreak. The sun, the moon and the stars had all risen before his eyes in the past and had then disappeared from sight. But on one particular day his observation of a star was to stimulate his thinking in a certain direction and to lead him in the end to perceive the truth of God's Oneness. It is possible that Abraham's mind was already engrossed in reflecting on whether, and if so to what extent, the beliefs which served as the foundation of the entire life-system of his people embodied the Truth. when he spotted a star which provided him with the initial key to the solution of the problem. It is also possible that the observation of a particular star first set him thinking about the problem.
Another question that arises is whether Abraham's statements about the star, the moon and the sun show that he lapsed into polytheism temporarily. The answer must be that, while a seeker after the Truth may pause on the way to his goal, what really matters is his direction and the end-point of his journey rather than the intermediary stages. These stages are inevitable for every seeker of the Truth. A man stops at them to inquire and question rather than to pronounce his final judgement. During these stages of the quest a man may seem to express the opinion: 'That is so', but what he is really doing is asking himself the question: 'Is it really so?' When serious investigation leads to a negative answer, he proceeds further and continues the quest. Hence, it would be wrong to think of such a seeker having temporarily fallen victim to polytheism and unbelief whenever he paused at an intermediary stage for critical reflection.
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :53
”یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ابتدائی تفکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدماغ اور سلیم النظر انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امر حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اوپر قوم ابراہیم علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے ، رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبور کیا ہے ۔
اس قصہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر سورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا ، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر تو انہوں نے سن رشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا ۔ پھر یہ قصہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا ؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انہیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا ، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے ۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابل حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمولی قصہ تصنیف کریں ۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سن رشد کو پہنچنے تک وہ چاند ، تاروں اور سورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے ۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجہ ہوگیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانون جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہوگی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی خاص تاریخ کو سیب گرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روز مرہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور وفکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی ، مگر ایک وقت اسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں ۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن الجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روز مرہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا وہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں ۔ سورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے ۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحید الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے ۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظام زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے ، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آکر کشود کار کے لیے کلید بن گیا ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو ۔
اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیم ہی نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے ، اور جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے ، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلہ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے“ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”ایسا ہے“؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا ۔