Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 79

سورة الأنعام

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

Indeed, I have turned my face toward He who created the heavens and the earth, inclining toward truth, and I am not of those who associate others with Allah ."

میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ ... he said: "O my people! I am indeed free from all that you join as partners in worship with Allah. Verily, I have turned my face...," meaning, I have purified my religion and made my worship sincere, ... لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ ... "towards Him Who has created the heavens and the earth," Who originated them and shaped them without precedence, ... حَنِيفًا ... Hanifan, avoiding Shirk and embracing Tawhid. This is why he said next, ... وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ "and I am not of the idolators." Prophet Ibrahim Debates with his People We should note here that, in these Ayat, Ibrahim, peace be upon him, was debating with his people, explaining to them the error of their way in worshipping idols and images. In the first case with his father, Ibrahim explained to his people their error in worshipping the idols of earth, which they made in the shape of heavenly angels, so that they intercede on their behalf with the Glorious Creator. His people thought that they are too insignificant to worship Allah directly, and this is why they turned to the worship of angels as intercessors with Allah for their provisions, gaining victory and attaining their various needs. He then explained to them the error and deviation of worshipping the seven planets, which they said were the Moon, Mercury, Venus, the Sun, Mars, Jupiter and Saturn. The brightest of these objects and the most honored to them was the Sun, the Moon then Venus. Ibrahim, may Allah's peace and blessings be on him, first proved that Venus is not worthy of being worshipped, for it is subservient to a term and course appointed that it does not defy, nor swerving right or left. Venus does not have any say in its affairs, for it is only a heavenly object that Allah created and made bright out of His wisdom. Venus rises from the east and sets in the west where it disappears from sight. This rotation is repeated the next night, and so forth. Such an object is not worthy of being a god. Ibrahim then went on to mention the Moon in the same manner in which he mentioned Venus, and then the Sun. When he proved that these three objects were not gods, although they are the brightest objects the eyes can see, قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (he said: "O my people! I am indeed free from all that you join as partners in worship with Allah."), meaning, I am free from worshipping these objects and from taking them as protectors. Therefore, if they are indeed gods as you claim, then all of you bring your plot against me and do not give me respite. إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Verily, I have turned my face towards Him Who has created the heavens and the earth, Hanifan, and I am not one of the idolators. meaning, I worship the Creator of these things, Who originated and decreed them, and Who governs their affairs and made them subservient. It is He in Whose Hand is the dominion of all things, and He is the Creator, Lord, King and God of all things in existence. In another Ayah, Allah said; إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ Indeed your Lord is Allah, Who created the heavens and the earth in six Days, and then He Istawa (rose over) the Throne. He brings the night as a cover over the day, seeking it rapidly, and (He created) the sun, the moon, the stars, subjecting them to His command. Surely, His is the creation and commandment. Blessed be Allah, the Lord of all that exists! (7:54) Allah described Prophet Ibrahim, وَلَقَدْ ءَاتَيْنَأ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَـلِمِينَ إِذْ قَالَ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـذِهِ التَّمَـثِيلُ الَّتِى أَنتُمْ لَهَا عَـكِفُونَ And indeed We bestowed aforetime on Ibrahim his (portion of) guidance, and We were well-acquainted with him. When he said to his father and his people: "What are these images, to which you are devoted!" (21:51-52) These Ayat indicate that Ibrahim was debating with his people about the Shirk they practiced.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود اللہ عزوجل ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٧٩ۚ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، يقال : فَطَرَ فلان کذا فَطْراً ، وأَفْطَرَ هو فُطُوراً ، وانْفَطَرَ انْفِطَاراً. قال تعالی: هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ، أي : اختلال ووهي فيه، وذلک قد يكون علی سبیل الفساد، وقد يكون علی سبیل الصّلاح قال : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18] . وفَطَرْتُ الشاة : حلبتها بإصبعین، وفَطَرْتُ العجین : إذا عجنته فخبزته من وقته، ومنه : الفِطْرَةُ. وفَطَرَ اللہ الخلق، وهو إيجاده الشیء وإبداعه علی هيئة مترشّحة لفعل من الأفعال، فقوله : فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] ، فإشارة منه تعالیٰ إلى ما فَطَرَ. أي : أبدع ورکز في النّاس من معرفته تعالی، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ، وقال : الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] ، وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] ، أي : أبدعنا وأوجدنا . يصحّ أن يكون الِانْفِطَارُ في قوله : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] ، إشارة إلى قبول ما أبدعها وأفاضه علینا منه . والفِطْرُ : ترک الصّوم . يقال : فَطَرْتُهُ ، وأَفْطَرْتُهُ ، وأَفْطَرَ هو وقیل للکمأة : فُطُرٌ ، من حيث إنّها تَفْطِرُ الأرض فتخرج منها . ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فطر فلانا کذا فطرا کسی چیز کو پھاڑ ڈالنا ۔ افطر ھو فطورا روزہ افطار کرنا انفطر انفطار پھٹ جانا اور آیت کریمہ : ۔ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں فطور کے معنی خلل اور شگاف کے ہیں اور یہ پھاڑ نا کبھی کیس چیز کو بگاڑنے اور کبھی مبنی بر مصلحت ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18]( اور ) جس سے آسمان پھٹ جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) غار سے آپ سترہ سال کی عمر میں آئے تھے، آپ نے آسمان و زمین کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ میرا پروردگار تو وہی ہے کہ جس نے ان کو پیدا کیا، پھر اپنی قوم کے پاس گزر ہوا تو وہ بتوں کی پوجا میں مصروف تھے تو ان سے فرمایا کہ علی الاعلان میں تمہارے شرک سے علیحدگی ظاہر کرتا ہوں، قوم نے کہا تو پھر ابراہیم تم کس کی عبادت کرتے ہو، فرمایا میں اپنے اعتقاد اور عمل کو خالص اسی ذات کے لیے کرتا ہوں جو کہ آسمان و زمین کا خالق ہے اور تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:79) وجھت۔ ماضی معروف واحد متکلم ۔ توجیہ مصدر (باب تفعیل) میں نے اپنا رخ پھیرلیا۔ فطر۔ فطر مصدر۔ وہ عدم سے وجود میں لایا۔ اس نے پیدا کیا۔ فطر کے اصل معنی پھاڑ دینے کے ہیں یعنی عدم کے پردہ کو پھاڑ کر وجود میں لایا۔ حنیفا۔ الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ الحنیف بروزن (فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر حق و استقامت کی طرف آجائے۔ اس کی جمع حنفاء ہے۔ حنیف حنف سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 س سے منہ موڑ کر کسی اور کے در پر بیٹھ رہنے میں جہالت گمراہی اور دنیا و آخرت کی تباہی کو سوا کچھ نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 اچھی طرح جان لو کہ میں تمام ادیان باطلہ اور معبود ان فاسدہ سے یک سو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرچکا ہوں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ہے یعنی سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہوچکا ہوں جس نے آسمان و زمین کو بنایا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں یعنی اجرا م علوی ہوں یا سفلی ہوں یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اس کے حکم کے تابع ہیں اور میں اپنا رخ اس کی جانب متوجہ کرچکا ہوں جو ان سب کا خلاق اور مالک سے تو ایسی حالت میں میرے لئے شرک کی گنجائش کہاں ہے۔